محمد طارق عبداللہ
سینئر رکن
- شمولیت
- ستمبر 21، 2015
- پیغامات
- 2,697
- ری ایکشن اسکور
- 762
- پوائنٹ
- 290
دونوں اشعار غیر معیاری ہیں اور سطحی زبان اساتذہ شعراء کی نہیں ہونا چاہئیے ۔ واللہ اعلم
ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی نے کہا تو یقیناً اپنے بارے میں تھا، لیکن یہ بات مجھ پر بھی سو فیصد صادق آتی ہے کہ:محترم جناب @یوسف ثانی صاحب!
آپ کے تعاون کی ضرورت ہے
تو میری مدد کون کر سکے گا؟؟؟ممتاز ادیب رشید احمد صدیقی نے کہا تو یقیناً اپنے بارے میں تھا، لیکن یہ بات مجھ پر بھی سو فیصد صادق آتی ہے کہ:
”اول تو مجھے کوئی شعر یاد نہیں رہتا، اور اگر کوئی یاد رہ جاتا ہے، تو پھر وہ شعر نہیں رہتا“ ۔ (ابتسامہ)
جزاک اللہ خیرااس کا چہرہ سیاہ کر دو..........**
حکم ہوا اس کا چہرہ سیاہ کردو....اس کو اونٹ پر بٹھاؤ .... شہر بھر میں پھراو.....
مقصد ؟..... تذلیل اور جی بھر کے تذلیل....من شانت نہ ہوا تھا کہ کتنے ہی روز سے اسے قید میں رکھ تو لیا تھا...صبح شام توھین ..اور تشدد.... دن بھر میں ستر سے زائد کوڑے...اس کی پشت خون سے بھر رہی تھی..لیکن وہ بھی بلا کا ضدی تھا...مان کے ہی نہیں دے رہا تھا...... ستم یہ کہ ہر کوڑے پر پکارتا کہ "جا تجھے معاف کیا".... ستم ظریفی کی حد تھی....
.غصے سے حاکم کا برا حال تھا..."یہ دو ٹکے کا مولوی ، اس کو کاہے کا غرور..." جعفر کا بستر رات بھر انگارے اگلتا رہا... اس کے نسب کا غرور اور مدینہ کا حاکم ہونا اور بے بسی کاعالم...بس صبح اسی عالم میں گھر سے نکلا کہ رات بھر کی بے خوابی آنکھوں سے نظر آ رہی تھی.....
...."بلاؤ اس کو..."... بلایا گیا...."اس کا چہرہ سیاہ کر دو"...."اونٹ پر بٹھاؤ اور شہر بھر میں گھماؤ"....
اونٹ گلیوں گلیوں چل رہا تھا...لوگ لپک رہے تھے...کوئی اس کے پاؤں کو آنکھوں سے لگاتا ...کوئی مسافر کی سواری کی اڑتی خاک کو آنکھوں کا سرمہ بنارہا تھا. ...وہ جو ان کے دیار کی آبرو تھا، ان کے شہر کا جھومر تھا ، دلہا تھا اس کی تذلیل پر ان کے دل کٹ رہے تھے..اور مسافر ان سب سے بے نیاز کہہ رہا تھا..
"جوشخص مجھے جانتا ہے جانتا ہے اور جو نہیں جانتا ہے وہ جان لے کہ میں مالک بن انس اصبحی ہوں ، اور میرامسلک یہ ہے کہ طلاق مکرہ واقع نہیں ہوتی....."
۔جعفر بن سلیمان تک جب یہ خبر پہونچی تواس نے حکم دیا کہ اونٹ سے اتار لیا جائے....عزت بھلا بندوں کے ہاتھ میں ہوتی ہے....امام کی کتاب نے آج بھی ان کو زندہ رکھا ہوا ہے.....
....مدت گزری....بغداد کا حاکم منصور مدینہ آیا...اس کو دکھ تھا کہ گورنر نے امام کے ساتھ ظلم کیا....
خلیفہ منصور نے جعفر سے امام مالک کا قصاص لینا چاہا تھا مگر آپ نے روک دیا اور فرمایا :
"واللہ ! جب مجھ پر کوڑا پڑتا تھا میں ا س کو اسی وقت معاف کر دیتا تھا کہ ا سکو حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرابت ہے ۔"
...........بھلا ظرف سب کا ایک سا ہوتا ہے..........
.........ابوبکرقدوسی
** آج کچھ یوں ہوا کہ بے تحاشا امام کی یاد آئ.....اور یہ سطور لکھی گئیں
بارہا پڑھا قصہ ہے لیکن آج پہلی سطر پڑھتے ہوئے خیال گزرا کہ سائل کہہ دے گا کہ اتنے وسیلوں سے مانگ کر لینے سے بہتر اس ایک اکیلے سے مانگ لینا ہے جس کے در سے مانگنے کے لیے کسی وسیلے کی ضرورت نہ وقت کی پابندی۔۔بس اپنا آپ جھکانا ہے!!جاءالفقيرعلى باب الغني وطلب منہ خبزا وفلوسا!
قال الغني.يا خالد!قل لعامر،ليقل لبشير،ليقل لنذير ان يعطي خبزا للفقير....
فاجاب الفقير.يااللہ!قل لجبرئيل،ليقل لميكائيل،ليقل لاسرافيل،ليقل لعزرائيل ان يقبض روح ھذا البخيل...