ہمارے ہاں خواتین دین کے شوق میں آتی ہیں اور ان کا پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ آپ کا تعلق کس مسلک سے ہے ۔۔۔؟؟؟ہمیں اپنے اہلحدیث ہونے پر فخر ہے لیکن مصلحتا ہمارا جواب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کوئی مسلک نہیں ہم صرف قرآن و حدیث کی بالادستی پر یقین رکھتے ہیں۔۔۔وہ خواتین ہمارے پاس آنا شروع ہو جاتی ہیں اور یقین کیجیے ان کے غلط عقائد کب بدل جاتے ہیں انھیں خود بھی پتہ نہیں چلتا ۔۔۔بلکہ کہنا چاہیے کہ کب وہ اہلحدیث بن جاتی ہیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی ۔۔۔مسئلہ یہ ہے کہ آج کا پڑھا لکھا طبقہ مسلکی اختلافات سے بیزار ہے ۔۔اگر خوش قسمتی سے وہ ہمارے پاس آ جاتے ہیں تو انھیں اپنا مسلک بتا کر متنفر کرنے کی بجائے اپنا منہج بتا کر مقصد حاصل کرنا کہیں بہتر ہے ۔۔۔اس حکمت عملی سے میری والدہ کے پاس آنے والی شیعہ فیملی تائب ہو کر اہلحدیث بن گئی تھی ۔۔۔الحمد للہ
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بہن آپ کیا سمجھتیں ہیں کہ آپکے پاس آنے والی خواتین کیا صرف اس جدید مصلحت کی بنا پر اہل حدیث مسلک قبول کرلیتیں ہیں یا اس کا سبب یہ ہوتا ہے کہ اللہ نے پہلے ہی ان کی قسمت میں ہدایت لکھ دی ہوتی ہے؟ یقیناً آپ دوسری بات سے ہی اتفاق کرینگی تو پھر اس مصلحت کا کیا فائدہ؟ اگر اللہ نے کسی کے نصیب میں ہدایت لکھ دی ہے تو چاہے آپ اسے اہل حدیث کے نام سے دعوت دیں یا اہل حدیث کا نام چھپا کر دعوت دیں ہر دو صورتوں میں وہ ہدایت کو قبول کرے گا۔ تو پھر اہل حدیث کے نام سے دعوت دینا کیوں بہتر نہیں؟ اور اگر معاملہ اسکے برعکس ہے یعنی ایک شخص کی تقدیر میں اللہ نے ہدایت ہی نہیں لکھی تو آپکی اہل حدیث نام چھپانے کی حکمت بھی کسی کام نہیں آئے گی۔ پس معلوم ہوا کہ اصل چیز کسی شخص کے بارے میں اللہ کی ہدایت کا فیصلہ ہے ناکہ لوگوں کی اہل حدیث نام چھپانے کی حکمت۔
میں نے اپنے مضمون کے آغاز میں لکھا ہے:
جب ہدایت اللہ رب العالمین کے اختیار میں ہے تویہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنا مسلک چھپا کر کسی کوقرآن وحدیث کی دعوت پیش کرے اور و ہ شخص اس حکمت کی وجہ سے حق کو قبول کرلے جبکہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں ہدایت سے محرومی کا فیصلہ فرما لیا ہو۔اور یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنی مسلکی پہچان ظاہر کرکے کسی کو دین کی دعوت دے اور وہ اس کا انکار کردے جبکہ اللہ نے اس کی ہدایت کا فیصلہ فرمالیا ہو۔
پس ثابت ہوا کہ یہ نئی حکمت عملی کچھ غیر صحت مند دماغوں کی اختراع ہے ورنہ در حقیقت مسلکی پہچان دعوت میں روکاوٹ کا باعث ہر گز نہیں بنتی۔اگرکوئی چیز روکاوٹ بنتی ہے تو وہ اللہ کا کسی شخص کے بارے میں ہدایت سے محرومی کا فیصلہ ہے۔لہذا کسی شخص کا دعوتی میدان میں حکمت عملی کا بہانہ بنا کر اپنی جماعتی پہچا ن کو چھپا لینا ایک عبث اور لایعنی فعل قرار پاتا ہے۔ (دعوتی میدان میں۔۔۔)
ہوسکتا ہے کہ میرے اس استدلال کو آپ میری کم علمی سمجھ کر اسے کوئی اہمیت نہ دیں۔ تو آپ سے درخواست ہے کہ آپ اہل حدیثوں کے موجودہ بہت بڑے منہجی عالم شیخ عبداللہ ناصر رحمانی حفظہ اللہ کی اس تقریر کو سماعت فرمائیں جس کی بنیاد ہی یہ نکتہ ہے جو میں نے اوپر بیان کیا ہے۔ تقریر کا عنوان ہے ’’کیا لفظ اہل حدیث دعوت دین میں روکاوٹ ہے؟‘‘
اس حکمت عملی ایک اور قباحت پر نظر فرمائیں: جس شخص کو آپ کے ہاتھوں ہدایت کی دولت نصیب ہوگی پھر جب وہ شخص مسلک حق کی دعوت کو آگے بڑھائے گا تو سو فیصد وہ بھی آپ ہی کی حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے اہل حدیث کا نام لوگوں سے چھپائے گا پھر اس طرح لوگوں کی ایک گروپ بن جائے گا اور بن بھی چکا ہے جو دعوت دین میں اپنا لقب ’’اہل حدیث‘‘ لوگوں سے پوشیدہ رکھتے ہیں۔ جب یہ سلسلہ یونہی آگے بڑھتا رہے گا تو اس خاص فکر کے نئے آنے والے لوگ ’’اہل حدیث‘‘ کے نام سے نفرت کرنے لگیں گے اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ اس نام سے بھی منکر ہوجائیں اور اپنے منہج کا نام ’’بلاعنوان‘‘ رکھ لیں۔ کہ جب ان سے کوئی انکا مسلک پوچھے تو کہیں کہ ’’بلاعنوان مسلک‘‘ (ابتسامہ)
آپ تو یقیناً ایک حکمت عملی کے طور پر ہی اہل حدیث کا نام خفیہ رکھتی ہیں لیکن خود کو اہل حدیث مسلک کا ہی پیرکار قرار دیتی ہیں اور اس نام سے نہ نفرت کرتی ہیں اور نہ ہی اس نام کی بابت کسی احساس کمتری کا شکار ہیں۔ لیکن آنے والی نسلیں اگر آپ کے اس ظاہری طرز عمل سے یہ استدلال کریں کہ آپ اور آپ کی فکر کے حاملین اہل حدیث نام سے نفرت کرتے تھے اس لئے یہ نام نہیں لیتے تھے یا انکا ’’خود کو اہل حدیث کہنے والے گروہ‘‘ سے کوئی تعلق نہیں تھا تو آنے والی نسل اس استدلال پر یقیناً حق بجانب ہونگی۔ اور اسی بنیاد پر اگر وہ اہل حدیث نام سے ہی منکر ہوجائیں اور اس نام کی دشمن بن جائیں تو بعید نہیں۔ ہمیں سوچنا چاہیے کہ اس حکمت عملی کی شکل میں ہم آنے والی نسلوں کا کیا تحفہ دے رہے ہیں۔
اگر آپ ایک ایسی جگہ مقیم ہوں جہاں چاروں طرف کفار ہوں اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے نام سے سخت متنفر ہوں لیکن حق بات قبول کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن اس قبول حق میں روکاوٹ اسلام یا مسلمانوں کا نام ہی ہو تو کیا وہاں بھی آپ مصلحتاً خود کو مسلمان کہنے سے رک جائیں گی اور اگر کوئی آپ کا دین جاننا چاہے تو کیا آپ یہ کہیں گی کہ ہمارا کسی مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہم صرف اللہ کے دین کے پیروکار ہیں وغیرہ؟؟؟ یعنی حکمت کے نام پر اسلام اور مسلمان کا نام چھپا لیں گی؟