• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محدث فورم کی ملی بھگت ؟

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
شمولیت
جون 20، 2014
پیغامات
676
ری ایکشن اسکور
55
پوائنٹ
93
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!


نرمی اور برادشت کی خوبی میں نے یہ دیکھی ہے کہ مخالفین اور دشمن بھی جلد یا بدیر دوست بن جاتے ہیں۔ میں بھی کسی وقت آپ کا مخالف تھا آپ کی پالیسی اور نرمی کو زیادہ پسند نہیں کرتا تھا لیکن اب مجھے آپ سے بہت محبت ہے۔
محبت فاتح عالم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
اور یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جن معاملات میں اختلافات ہمارے اسلاف سے حل نہ ہو سکے وہ ہم سے بھی حل نہ ہو سکے گے
اور اس کا مطل ہے کہ اس میں اگر آپ عالم دین ہیں تو توسع کو مدنظر رکھتے ہوئے کوئی بھی موقف اختیار کیجیے یہ آپ کا حق ہے لیکن پھر اپنے موقف کی تشہیر اور اس پر صحت کا اصرار اور مخالفانہ رائے کے غلط ہونے پر فتوی
اسی مقام سے بگاڑ اور فساد پیدا ہوتا ہے
یہ بات مدنظر رہے کہ فقہی معاملات میں صحیح احادیث ہونے کے باوجود آج تک ان اختلافات کو ختم نہیں کیا جا سکا مثال کے طور پر رویت ھلال کا مسئلہ ہے یا صوم یوم عرفۃ کا مسئلہ ہے صحیحین کی احادیث ہیں اس کے باوجود اختلاف ختم نہیں ہو رہا اب اگر کوئی شخص اختلاف المطالع کو سامنے رکھتے ہوئے مقامی چاند کو معتبر سمجھتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے اور اس کی حسن نیت کا اجر اس کو مل کر رہے گا اور اگر کوئی مقامی چاند کو قابل اعتبار نہیں سمجھتا اور سعودی عرب کے چاند کو معتبر جانتا ہے تو یہ اس کا اختیار ہے اسے بھی حسن نیت کی بنیاد پر اجر ملے گا
تو عرض ہے تاریخی واقعات کی بنیاد صحیحین نہیں بلکہ سرے سے تحقیق تو ہے ہی نہیں تو پھر ان معاملات میں اختلافات اختیار کرنا اور شدت پسندی یہ تو عقلا بھی زیب نہیں دیتی
تاریخ کی کتب پر پہلی مرتبہ تحقیقی نظر کچھ عرصہ پہلے سعودی عالم دین نے تاریخ طبری کی تحقیق کر کے آغاز کیا 8 جلدوں پر تحقیق جس میں 5 ضعیف تاریخ طبری اور 3 صحیح تاریخ طبری (کما اخبرت انا)
للہ ۔۔۔۔ للہ ۔۔۔۔۔ للہ
خاموشی اختیار کر لیجیے کوئی جواب نہ دیجیے اور اس موضوع کو مقفل کر دیں
جب فورم بمقابلہ فورم جواب نہیں آئے گا تو اردو مجلس والے بھی خاموش ہو ہی جائیں گے ذاتی حیثیت سے سب آزاد ہیں جو چاہیں کرتے رہیں
اور میرا خیال ہے طاہر اسلام بھائی خاموشی اختیار کر کے اس کی ابتدا کر چکے ہیں جزاہ اللہ خیرا
میں اردو مجلس کا ممبر نہیں ہوں لیکن اگر میری ان تک رسائی ہوئی تو وہاں بھی یہی التماس کے ساتھ حاضری دوں گا
خاموشی کے بعد ایک دوسرے سے معذرت
اللہ ہمار ی ایمانی محبتوں کو قائم رکھے اور شیطان کو درمیان میں نہ آنے دے آمین
جزاک الله -

یہاں اتنا کہنا چاہوں گا کہ: جہاں تک ہماری اسلامی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ بات مسلمہ ہے کہ دور قدیم یا دور جدید کے محققین کے بیان کردہ آراء کے ١٠٠ فیصد درست ہونے کا دعوی کرنا بھی بہرحال بے انصافی ہے-کیوں کہ اہم واقعات سے متعلق تاریخی معلومات کی ترتیب و تدوین کی صورت میں عینی شہادت ، آثار و شواہد اور گواہیوں کو یکجا کرنے کا مرحلہ کوئی آسان کام نہیں- لیکن ایک مسلمان ہونے کے ناتے ہمیں یہ بات بھی ملحوظ خاطر رکھنی ضروری ہے کہ ہماری قرانی تعلیمات ہمیں دوسرے مسلمان سے حسن زن رکھنے کا حکم دیتی ہیں- اور ہمیں یا ہمارے علماء وقت کو یہ بات ذہن نشین کرنا ضروری ہے کہ اسلامی تاریخ کے حوالے سے سب سے زیادہ حسن زن کے مستحق ہستیاں تمام صحابہ کرام و صحابیات کرام رضوان الله اجمعین اور ان کی آل اولاد ہی ہیں (اہل بیت کی تخصیص کے بغیر) - یہی وہ پاک ہستیاں ہیں جن کی وساطت سے دین اسلام ہم تک پہنچا -ہمیں سوچنا چاہیے کہ اگر بالفرض انہی پاک ہستیوں کی اجتہادی غلطیوں کا پرچار ہمارا مقصد ہے تو اس کے ذریے ہم دین کی کون سی خدمت سر انجام دے رہے ہیں ؟؟ کیا یہ سب کچھ کرکے اس طرح ہم اپنی اسلامی تاریخ و تشخص کا چہرہ مسخ نہیں کررہے ہیں؟؟-
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
دین کہاں سے لینا ہے اسے مصدر تلقی کہتے ہیں۔ دین کے مصدر صرف اورصرف کتاب و سنت ہیں،اس کے علاوہ کوئی چیز دین کا مصدر نہیں ہے۔

آپﷺنے فرمایا:


’’میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے چلا جا رہا ہوں جب تک تم انہیں مضبوطی سے پکڑے رکھو گے ہر گز گمراہ نہ ہوگےایک اللہ کی کتاب اوردوسری اسکے رسول کی سنت‘‘

(المستدرک علی الصحیحین کتاب العلم۱/۹۳)

کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺہی وہ ذریعہ ہےجس سے ہمارے ایمان اور عمل کی اصلاح ہوتی ہے۔کتاب و سنت وہ ذخیرہ ہے جس کی تازگی کا کوئی بدل نہیں،کوئی چیز ان کا متبادل نہیں۔ہر دور میں ایمان کی پیاس صرف اورصرف کتاب و سنت سے ہی بجھ سکتی ہے کیونکہ یہ ایک مومن کا اصل نصاب ہے۔ایک طالب علم قرآن و سنت سے فائدہ اٹھانے کے لیےمنطق اور فلسفہ کا محتاج نہیں۔

اس لیے ہر وہ شخص اور گروہ جو دین لینے کے لیےکتاب و سنت کے علاوہ کسی اور چیز کو مصدر تسلیم کرتا ہےگمراہ اور بدعتی ہے،جیسے رافضہ اپنے ائمہ کے اقوال کو،معتزلہ’عقل‘کو،صوفیہ کشف و الہام کوسیکولر’خواہش نفس‘کودین کے مصدر کی حیثیت دیتے ہیں،یہ تمام گروہ ہلاکت کی طرف بلانے والے ہیں،عقیدہ کی اصطلاح میں انہیں اہل بدعت کہا جاتا ہے۔

اہل سنت کے ہاں دین کے مصادر کے حوالے سے اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ کتاب و سنت کے علاوہ اور کوئی نہیں۔جس طرح کتاب اللہ قرآن مجید اللہ کی وحی ہے اسی طرح حدیثﷺبھی اللہ کی وحی ہے۔ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی کفر ہے۔


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
رسول اللہﷺکی نافرمانی کے ساتھ مومنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی جہنم میں جانے کا سبب بتایا۔

وَ مَنْ يُّشَاقِقِ الرَّسُوْلَ مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدٰى وَ يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيْلِ الْمُؤْمِنِيْنَ نُوَلِّهٖ مَا تَوَلّٰى وَ نُصْلِهٖ جَهَنَّمَ وَ سَآءَتْ مَصِيْرًاؒ

’’مگر جو شخص رسول ﷺ کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہلِ ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے ، درآں حالیکہ اس پر راہِ راست واضح ہو چکی ہو ، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اُسے جہنم میں جھونکیں گے جو بدترین جائے قرار ہے‘‘

(سورۃ النساء:۱۱۵)
اس آیت میں رسول اللہﷺکی نافرمانی کے ساتھ مومنوں کی راہ پر نہ چلنا بھی جہنم میں جانے کا سبب بتایا۔

محدث البویطی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں:

’’میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوا سنا کہ اصحاب الحدیث کا دامن مت چھوڑو اس لیے کہ وہ سب سے زیادہ درست بات کہنے والے ہیں‘‘

(تاریخ حدیث و محدثین،ص۴۰۱)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’سنت کے احوال ہمارے ہاں یہ ہیں کہ ہر وہ امر جس پر اصحاب رسولﷺتھے،اس سے چمٹ کر رہا جائے۔ان کی اقتداء کی جائے اور نئی ایجادات کو ترک کیا جائے،کیونکہ ہر نئی ایجاد بدعت و ضلالت ہے‘‘

(شرح اصول السنۃ والجماعۃ للالکائی،۱/۱۵۶)

امام اوزاعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’سنت کی راہ پر جمے رہو۔ان پہلوں کے قدم یہاں رک گئے ہوں وہاں تم بھی ضرور رک جاؤ۔جس بات کے وہ قائل ہوئے ہیں تم بھی اسی بات کے قائل رہو۔جس بات سے وہ خاموش رہے ہوں تم بھی اس سے خاموش رہو۔چلو تو اپنے ان سلف صالحین کی راہ پر چلو‘‘

(شرح اصول السنۃ و الجماعۃ للالکائی،۱/۱۵۴)

قوام السنہ،امام اسماعیل بن محمد الاصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’علم کثرت روایت کا نام نہیں،بلکہ علم تو اقتداء اوراتباع کا نام ہے۔صحابہ کرام اور تابعین عظام کی پیروی کرو،اگرچہ علم تھوڑا ہی ہو اور جو شخص صحابہ اور تابعین کی مخالفت کرےوہ گمراہ ہےاگرچہ زیادہ علم والا ہی ہو‘‘

(الحجہ فی بیان المحجہ لا ابی القاسم الاصبہانی،۲/۴۶۹)

ابو محمد عبداللہ بن زید قیروانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’سنتوں کو تسلیم کرنا عقل و قیاس کے خلاف نہیں۔سنن کی جو تفسیر سلف صالحین نے کی ہےہم وہی کریں گے اور جس پر انہوں نے عمل کیا،اسی پر عمل کریں گے اور جس کو انہوں نے چھوڑاہم بھی چھوڑ دیں گے۔ہمیں یہی کافی ہےکہ وہ جس چیز سے رک گئےاس سے ہم رک جائیں اور جس چیز کو انہوں نے بیان کیا،اس میں ہم ان کی پیروی کریں اور جو انہوں نے استنباط اور اجتہاد کیا اس میں ان کی اقتداء کریں،جس چیز میں ان کا اختلاف ہےاس میں ان کی جماعت سے نہ نکلیں(کوئی نیا مذہب نہ نکالیں،بلکہ اختلافی صورت میں ان میں سے ہی کسی ایک کا مذہب قبول کریں)تمام وہ چیزیں جو ہم نے ذکر کی ہیں وہ اہل سنت اورفقہ و حدیث کے ائمہ کا قول ہے‘‘

(الجامع:۱۱۷)

حافظ ابو عبداللہ محمدبن عبداللہ(ابن ابی زمنین)رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جان لیں کہ سنت قرآن کریم کی دلیل ہے۔سنت کو قیاس اور عقل کے ذریعے سے حاصل نہیں کیا جا سکتا،بلکہ وہ تو ائمہ کرام اور جمہور امت کے طریقے کی اتباع کانام ہے‘‘

(کتاب اصول السنۃ لابی ابن زمنین:1)

امام آجری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جن لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہے۔ان کی علامت اللہ عزوجل کی کتاب،رسول اللہﷺکی سنتوں اورآپ کے صحابہ اور ان کے پیروکاروں کے آثار کی اتباع کرنا ہے،نیز وہ اس راستے پر چلتے ہیں جس پر ہر علاقے کے ائمہ مسلمین اور اب تک کے علمائے کرام مثلاً امام اوزاعی،امام سفیان ثوری،امام مالک بن انس،امام شافعی،امام احمد بن حنبل،امام قاسم بن سلام رحمہم اللہ اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے اہل علم چلے اوروہ ہر اس طریقے سے بچتے ہیں جسے ان علماءکرام نے اختیار نہیں کیا‘‘

(الشریعۃ للآجری:۱۴)

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ہر وہ قول جس میں بعد والا متقدمین سے منفرد ہو،اس سے پہلے وہ قول کسی نے نہ کہا ہو وہ یقیناً غلط ہو گا‘‘

(مجموع الفتاوی لابن تیمیہ،۲۱/۲۹۱)

حافظ عبد اللہ محدث رو پڑی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’خلاصہ یہ ہے کہ ہم تو ایک ہی بات جانتے ہیں وہ یہ کہ سلف کا خلاف جائز نہیں‘‘

(فتاوی اہل حدیث،ج۱ص۱۱۱)

 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
منہج سلف اسلامی اجتماعیت کی بقا کا ضامن

اللہ تعالیٰ کا نازل کردہ یہ دین صرف افراد اور جماعتوں کو چلانے کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ یہ ایک امت بنانے اور ایک امت چلانے کے لیے اترا ہے۔ اس کا یہی قد کاٹھ ذہنوں میں رہنا ضروری ہےاور اس کا یہی مرتبہ دلوں میں جانشین کروانا چاہیے۔

ضروری ہے کہ دین فہم کے بارے میں ایسے مستند مراجع اختیار کیے جائیں جو نہ صرف صحیح ہوں بلکہ وہ امت کی سطح کے ہوں۔ایک فرد یا جماعت اپنی بات چھوڑ کران پر آنے کی پابند ہو۔ان کو اپنا کر ایک جماعت امت کی سطح پر آئےنہ کہ امت کو جماعت کی سطح پر لانے کی کوشش کرے۔ایک بڑی چیز اپنےسے چھوٹی چیز میں فٹ نہیں ہو سکتی۔اس عمل کے جہاں اور بہت سے تقاضے ہیں وہاں فہم دین کے لیے کچھ ایسے مراجع کا اختیار کیا جانا از حد ضروری ہےجو بیک وقت مستند بھی ہوں اور مشترک بھی۔

وہ اصول وضوابط جو اہل سنت کے مختلف گروہوں مثلاً مذاہب اربعہ،اہل حدیث اور اہل ظاہر کو اپنا تنوع برقرار رکھتے ہوئے ایک ساتھ چلنے میں مدد دے سکیں۔ان کے لیے اجتماع کی ایک معقول بنیاد فراہم کر سکیں اور ان کے اختلاف واتفاق کی حدود وآداب متعین کرکےانہیں ایک مضبوط امت بنا سکیں اصول اہل سنت کہلاتے ہیں،جنہیں سلف صالحین نے امت کے لیے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے۔

فہم سلف سے ہی ہم یہ سیکھتے ہیں کہ دین کے کچھ امور ایسے ہیں جن میں اختلاف کیا ہی نہیں جا سکتا ہے، انہیں ’’اساسیات دین ‘‘یا ’’مسلمات‘‘ کہتے ہیں اور کچھ امور ایسے ہیں جن میں اختلاف برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہےانہیں فروع دین کہتے ہیں،


جو لوگ سلف کے منہج سے ناواقف ہیں وہ یا تو دین کے بنیادی امور تک میں اختلاف کی گنجائش دیتے ہوئے دین کی بنیادیں ڈھاتے ہوئے نظر آتے ہیں یا پھر اس قدر شدت اختیار کرتے ہیں کہ دین کے ہر مسئلے کو کفر واسلام کو مسئلہ بنا کر فقہی بنیادوں میں اختلاف تک پر کفر کے فتوے لگا دیتے ہیں۔یہ طرز عمل اسلام کی اجتماعیت کو توڑنے والااور تفرقہ کو ہوا دینے کا سبب ہےبلکہ یہی تفرقہ ہےاس لیے اسلامی اجتماعیت کے لیے منہج سلف کا اپنانا بے حد ضروری ہے۔ذیل میں ائمہ کے اقوال اسلام کی اسی سچی تعبیر کو بیان کرتے ہیں۔

امام حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ کی مشہور تصنیف’’جامع العلم و فضلہ‘‘سے چند اقتباس ملاحظہ فرمائیں:

سلف نے اس بات سے ممانعت فرمائی ہےکہ اللہ تعالیٰ یا اس کے اسماء وصفات کے بارے میں بحث اور اختلاف ہو۔البتہ یہاں تک فقہی مسائل کی بات ہے توسلف کا اتفاق ہے کہ ان امور میں بحث و اخذ ورد ہو سکتا ہےکیونکہ یہ (فقہ) ایسا علم ہےجس میں قیاس کرنے کی حاجت ہوتی ہےجبکہ اعتقادات کا معاملہ ایسا نہیں ہےکیونکہ اہلسنت والجماعت کے نزدیک اللہ عزوجل کی بابت کوئی بات کی ہی نہیں جاسکتی سوائے اس بات کے جو وہ خود ہی اپنی ذات کے بارے میں بیان کر دے یا رسول اللہﷺاس کی بابت بیان کر دےیا جس پر امت نے اجماع کر لیا ہو۔اللہ کی مثل کوئی چیز ہے ہی نہیں جس کا قیاس یا گہرے غوروخوض کے نتیجے میں،ادراک ہونا ممکن ہو۔۔۔۔۔

’’دین اس معنی میں کہ وہ اللہ،اس کے فرشتوں،اس کی کتابوں ،اس کے رسولوں اور بعث بعد الموت اور یوم آخرت پر ایمان ہے تواس تک رسائی اللہ کے فضل سے اس کنواری دوشیزہ کو بھی حاصل ہےجس کو کبھی باہر کی ہوا تک نہ لگی ہو(دین کے اسی پہلو یعنی’’اصول دین ‘‘کے بارے میں)،عمر بن عبدالعزیز کا قول ہے:


’’جو شخص اپنے دین کو بحثوں کا موضوع بناتا ہے پھر وہ اکثر نقل مکانی کرتا ہے‘‘

(صحیح جامع بیان العلم و فضلہ:۳۸۳)

دین کے’’اصول و مسلمات‘‘دین کا وہ حصہ ہیں جس پر سمجھنا سمجھانے کے لیے گفتگو تو ہوسکتی ہےمگر کسی کی ہارجیت سے بدلے نہیں جایا کرتے۔

امام مالک رحمہ اللہ کے پاس ایک شخص آیا اور دین کے کچھ بنیادی امور میں آپ کو بحث و گفتگو کی دعوت دی،اس نے امام مالک کو کہا:

’’آؤ بات کر کے دیکھتے ہیں،اس شرط پر کہ میں جیتوں تو تم میرے ہم خیال ہو جاؤ گے اور تم جیتو تو میں تمہارا ہم خیال ہو جاؤں‘‘امام مالک رحمہ اللہ نے اس تجویز پرناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے سوال کیا:’’اوراگر کوئی تیسرا شخص ہم دونوں کو خاموش کرا دے؟‘‘تو اس شخص نے جواب دیا:’’تو ہم اس کی بات تسلیم کر لیں گے‘‘

بظاہر دیکھیے تو اس شخص کی بات سے بڑی ہی انصاف پسندی اورحق پر ستی جھلکتی ہے،بظاہر بہت اصولی پیش کش ہےمگر امام مالک رحمہ اللہ اس کا جو جواب دیتے ہیں حقیقت یہ ہےکہ وہ آپ جیسے آئمہ سلف کی ہی شان ہے،فرمایا:

’’تو کیا جب کوئی نیا شخص میدان میں آئے اور پہلے والے سے بڑھ کر دلیل دے لینے کی مہارت دکھائےتو ہم اپنا دین اور راستہ تبدیل کر لیا کر یں؟سنو،میں اپنا دین یقینی طور پر معلوم کر چکا ہوں کہ وہ کیا ہے۔تمہیں اپنا دین تا حال معلوم نہیں تو جہاں چاہو تلاش کرتے پھرو‘‘

یہ ہیں ہمارے ائمہ جو ایسا راستہ بتلا گئے کہ جس پر چلنے والا ایک روشن اورمضبوط راہ پر ہے،وہ اس راہ کا ہر پہلو امت کے سامنے رکھ گئے۔اللہ ان پر رحمت فرمائے


رہے’’دین کے فروع‘‘ تو اس میں یہ شدت اور سختی نہیں ہےمگر وہاں بھی ہر ایرےغیرے جو اجتہاد کرنے اور فتوی دینے کی اجازت نہیں ہے۔اس میں بھی استدلال اورمسائل اخذ کرنے کے باقاعدہ اصول اور قواعد ہیں۔دین کے اس حصے میں بات کرنے اور رائے دینے کے لیے بھی ضروری ہےکہ آدمی نہ صرف استدلال کے ان فقہی اصولوں سے واقف ہو بلکہ نصوص شریعت کا علم بھی رکھتا ہو۔

امام محمد بن حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’جو شخص کتاب و سنت کا علم رکھتا ہے،اصحاب رسول ﷺ کے اقوال سے واقف ہو اور فقہائے مسلمین کے اقوال سے آگاہ ہووہی اس بات کا مجاز ہےکہ کوئی مسئلہ اس کے سامنے پیش آئے تو وہ اجتہاد کرکے کوئی رائےاختیار کرے اور اپنی اس رائے کو نمازیا اپنے روزے یااپنے حج یا شرعی اومر ونہی کے کسی معاملے میں قابل عمل جانے‘‘(جامع بیان العلم و فضلہ)رہا عام آدمی تو اوہ اہم علم سے کسی مسئلہ کو سن کر یا ان کے فتاوی کر آگے بیان کر سکتا ہےاس سے بڑھ کر اسے کسی اور چیز کا حق نہیں ہے۔

سلف کے ان اصول و ضوابط سے یہ بات بخوبی جانی جا سکتی ہےکہ وہ کس طرح اسلام کی حفاظت کرتے رہےاور یہ کہ مسلم معاشرے کی علمی پاسداری کا حق صرف انہی کو ہے۔منہج سلف سے جس گروہ نے بھی انحراف کیا اس نے مسلم اجتماعیت کو پارہ پارہ کیا اور اسلام کے صاف ستھرے عقیدے کو خراب کیا۔


امام مالک رحمہ اللہ کے کیا خوب فرمایا ہے:

لن یصلح آخر ھذہ الامۃ الا بما صلح بہ اولھا

(الشفا للقاضی عیاض:ج:۲،ص:۸۸)

’’اس امت کے آخری دور کی اصلاح بھی اسی طرح سے ممکن ہےجس طرح سے اس امت کے اوّل حصے(صحابہ) کی ہوئی تھی‘‘


لنک
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
منہج سلف کا انکار گمراہی کی بنیادی وجہ:

گمراہی کی ایک بنیادی وجہ فہم سلف کو اختیار نہ کرنا اور قرآن وسنت کی من مانی تفسیر کرنا ہے۔ فہم سلف کے انکار ہی سے مسلمانوں میں گمراہی کی ابتداء ہوئی اور پہلا بدعتی فرقہ جسے خوارج کہا جاتا ہے وجود میں آیا۔

اس گمراہی کا کچھ لوگوں نے مقابلہ کیا مگر انہوں نے بھی فہم سلف کو اختیار نہ کیا جس کے نتیجے میں وہ بھی گمراہ ہوئے انہیں مرجئہ کہا گیا ہے،البتہ وہ لوگ جو سلف کے طریق پر گامزن رہے اور انہی کے فہم سے چمٹے رہے،وہ ہدایت و رشد کے وارث بنے جنہیں اہل سنت والجماعت کہا جاتا ہے۔
 

Ukashah

رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
53
ری ایکشن اسکور
214
پوائنٹ
65
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرےـ
اسحاق سلفی بھائی اور فیض بھائی کاشکریہ ـ کہ انہوں نے اصل الزامات اور وجہ تنازع یعنی " ناصبیت " پر توجہ دلائی کہ اس پر گفتگو کی جائے ـجبکہ باقی شرکاء بشمول ا نتطامیہ محدث کا رویہ حسب توقع تھا ـ
اصل الزامات " ناصبیت " اور پابندی "تھے جو کہ اردو مجلس فورم،وہاں کی انتظامیہ ،اوراہل علم پر لگے تھے ـ پابندی اور ناصبیت کی وضاحت کردی گئی تھی ـ جو کہ یہاں موجود ہے ـ
ناصبیت کا جو الزام لگا یا گیا اس کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا ـ جس تھریڈ کا لنک دیا گیا تھا ـ اہل علم میں سے کسی نے اس پر رد نہیں کیا اس لئے کسی کے ناصبی ہونے کے لئے وہ ثبوت کافی نہیں ـ
ناصبی ثابت کرنے کی بجائے ایک اور الزام لگایا کہ انتظامی رکن محمود عباسی کو کہنے پر سیخ پا ہے ـ یہ تو رجما بالغیب ہے ـکیسے معلوم ہوا کوئی دلیل نہیں اور نا ہی کسی نے طلب کی کہ مذکورہ منتظم نے کہاں اور کس جگہ پر محمود عباسی کو ناصبی کہنے پر اعتراض کیا ہے ـ کسی شخص ، کمیونٹی ، فورم کوبدنام کرنے کے لئے اور شیعت وموددیت کی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے اتنا کافی ہے کہ جہاں " مولانا مودودی " لکھا ہووہاں ناصبیت کا فتوی جوڑ دوـ یہ فیس بکی اسلوب ہے ـ اہل علم کا طریقہ نہیں ـ
.محمود احمد عباسی کو ناصبی کہنے پر سیخ پا ہونے کی کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی.
خضر بھائی نے جس طرح مجلس پر گفتگو کی،حقیقت واضح ہونے پر وہاں سے چلے گئے اور پھر یہاں تھریڈ شروع کرکے عوام الناس کو کھلی چھوٹ دی کہ وہ کسی "منتظم" پرجو چاہیں الفاظ استعمال کریں ـ متکبر ،مجہول وٖغیرہ ـ بلکہ وہ خود بھی دبے الفاظ میں تعریف کرتے رہے ـ ان کا سب کا مشکورہوں ـ اللہ انہیں جزادے ـ ان کے پاس کوئی معقو ل وجہ ہوگی ـ ہمیں تو ان کا اخلاق یہی سمجھ آیا ہے کہ اگر تم نے کیا ہے تو ہم بھی کریں گے ـاس سے زیادہ صبر وتحمل کی اور کیا مثال ہوگی ـ باقی یہ تھریڈ موجود ہے ـ غیر جانبدار لوگ یہاں بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں : )
رہی بات کہ اخلاق کیـ اخلاق بہت اچھی چیز ہے، لیکن اگر آپ کسی کے ایمان اور کردار کو موضوع بنادیں ـ تو پھر ردعمل میں اخلاق کی توقع درست معلوم نہیں ہوتی ـاس کی توقع نا رکھی جائےاگر کوئی جائز کہتا ہے تو کیا وہ اپنی ذات اور اپنے اہل بیت کے لئے بھی جائز سمجھتا ہے ؟ظاہر ہے نہیں ـ ـ دلیل یہ تھریڈ ہے جو کہ انتظامیہ کے فرد کی طرف سے شروع کیا گیا ہے ـ تاکہ محدث فورم اورجن پر الزام ہے ،اس حوالے سے اراکین کو مطمئن کیاجائے ـیہاں بداخلاقی بھی جائز ٹھہری اور کوئی دوسرا کرے توگناہ ہوا ـ یہاں عسکری کے اخلاق کے اعلی نمونے موجود ہیں ـ ساتھ میں اراکین کے شکریہ بھی ہیں ـ
بہرحا ل انتظامیہ مجلس کاموقف واضح ہے ـ "اردو مجلس فورم" ، " مجلس رکن علماء ""منتظم "پر ناصبیت اور جہالت کا ثبوت فراہم کریں ـ اگرنا ملے تو معذرت کریں ـ اس کے علاوہ کوئی دوسری بات نہیں ـ باقی ہرقسم کی گفتگو اور بحث خارج موضوع ہے ــ والسلام
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بہرحا ل انتظامیہ مجلس کاموقف واضح ہے ـ "اردو مجلس فورم" ، "منتظم "پر ناصبیت اور جہالت و " مجلس رکن علماء " کا ثبوت فراہم کریں ـ اگرنا ملے تو معذرت کریں ـ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

’یہ تھریڈ عارضی طور مقفل کیا جارہا ہے ۔ طاھر عسکری صاحب اور محدث فورم کی ملی بھگت سے مجلس فورم کے لئے جو پروپیگنڈہ کیا گیا اور الزامات لگائے گے ۔ ان کے جواب تیار ہونے پر یہاں منتقل کردیے جائیں گے ان شاء اللہ ۔ والسلام ۔ ‘


بھائی اس الزام کو بھی ثابت کرے یہ آپ نے لگایا ہے -


★ رسول اللهﷺ نے فرمایا --◄

بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹی ہوتی ہیں ، لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو ، آپس میں حسد نہ کرو ، کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، بلکہ سب اللہ کے بندے آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو ۔

صحیح البخاری (6064)
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
بہرحا ل انتظامیہ مجلس کاموقف واضح ہے ـ "اردو مجلس فورم" ، " مجلس رکن علماء ""منتظم "پر ناصبیت اور جہالت کا ثبوت فراہم کریں ـ اگرنا ملے تو معذرت کریں ـ
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

بھائی طاہر اسلام بھائی آپ ہی پہل کر لے اور میں سمجھتا ہو معافی مانگنے میں کوئی حرج نہیں اگر انسان سے خطا ہو جائے تو وہ فورا معافی مانگ لے - کیونکہ زندگی کا ایک پل کا بھی بھروسہ نہیں -

معافی میں پہل کرنے کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر غلطی آپ کی نہیں ہے اور آپ نے ہی معافی مانگ لی تو سامنے والے کے دل میں آپ کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اور وہ آپ سے سچی محبت کرنے لگ جاتا ہے۔

اللہ سبحان و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ھم سب کو آپس میں بھائی بھائی بنا دے - آمین
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ !

چلے اپنی ایک عادت کا میں ذکر کرتا ہو -

الحمدللہ : یہ اللہ ہی کی طرف سے ہیں کیونکہ میں کسی کو ناراض نہیں دیکھ سکتا -

ہاں ایک خصوصیت میرے اندر ہے کہ کوئی اگر ناراض ہو جائے جب تک اسے منا نہیں لیتا چین سے نہیں بیٹھتا - قصور کسی کا بھی ہو معافی مانگنے میں پہل کرتا ہو اس بات کا گواہی انیتظامیہ بھی دے سکتی ہے اور محمد ارسلان بھائی بھی

لہذا طاہر اسلام بھائی آپ معافی مانگ لے اور عکاشہ بھائی جو الزام آپ نے لگایا اگر اس میں انتیظامیہ ملوث نہیں تو بھائی آپ بھی معافی مانگ لے اس میں بھی کوئی حرج نہیں
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top