(٣٠) اِختلاطِ مَرد و زَن
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شریعت ِ اسلامیہ میں مَرد اور عورت کا دائرہ کار علیحدہ علیحدہ مقرر کیا ہے۔
عورت کا اصل دائرہ کار اُس کا گھر ہے' اگرچہ ضرورت کے تحت اس کو گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت ہے۔ جبکہ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر کے کام کاج ہیں۔ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کے بچوں کی تربیت کرے' اس کے مال کی حفاظت کرے' اس کے گھر کے کام کاج کو سنبھالے' جبکہ مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عورت کے نان و نفقہ کا بندوبست کرے۔
اسلام نے معاش کی ذِمہ داری مرد پر ڈالی ہے نہ کہ عورت پر' اس لیے مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ اللہ کے رسولۖ کی بہت ساری احادیث ہمیں ایسی ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپۖ نے مختلف مواقع پر کسی ضرورت کے تحت پیدا ہونے والے مَرد و زَن کے اختلاط میں کیسے کیسے رہنمائی فرمائی ہے۔
عصر حاضر کے بعض متجدّدین مَرد وزَن کے اختلاط کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے اُن کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہۖ کے زمانے میں بھی نماز اور حج کے موقع پر مَرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے تھے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مَرد و زَن کے اختلاط سے سوائے فتنے کے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا' خصوصاً جبکہ عورتیں مکمل حجاب میں بھی نہ ہوں۔ آپۖ نے ایک مرتبہ عورتوں کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھروں کو جاتے وقت راستے کے درمیان چل رہی تھیں جس کی وجہ سے مَردوں سے اُن کا اختلاط ہو رہا تھا تو آپۖ نے اُس موقع پر اُن کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا:
((عَلَیْکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیْقِ)) فَکَانَتِ الْمَرْاَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتّٰی اِنَّ ثَوْبَھَا لَیَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوْقِھَا بِہ (١)
''راستے کے کنارے پر چلو''۔ ( راوی کہتے ہیں) اس کے بعد عورت دیوار کے ساتھ اس طرح لگ کر چلتی تھی کہ اُس کے کپڑے دیوار کے ساتھ چمٹ جاتے تھے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولۖ عورتوں کے مَردوں کے ساتھ اختلاط کے معاملے میں کس درجے احتیاط کرتے تھے کہ ان کو ایک ساتھ مل کر چلنے سے بھی منع فرماتے تھے۔ جہاں تک آپۖ کے زمانے میں نماز اور حج کے موقع پر مَرد و زَن کے اختلاط کا تعلق ہے تو وہ اختلاط ایسا نہیں تھا جیسا کہ آج کل شادی بیا ہ یا مختلف تقیبات کے موقع پر ہوتا ہے۔ آپۖ کے زمانے میں نماز و حج کا اختلاط ایک مذہبی نوعیت کا اختلاط تھا اور ضرورت کے تحت اس کوجائزقرار دیا گیا' لیکن اس میں بھی متعدد ایسی پابندیاں تھیں جن کی طرف عام لوگ توجہ نہیں کرتے۔
نماز کا اختلاط
١) رسول اللہۖ نے اپنے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں آ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی' لیکن اس کو افضل قرارنہ دیا تھا۔ حضرت اُمّ حمید الساعدیہ عرض کرتی ہیں کہ میں آپۖ 'کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ! مجھے آپۖ کے ساتھ نماز پڑھنا بہت محبوب ہے 'تو آپۖ نے فرمایا:
((عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلاَةَ مَعِیَ وَصَلَاتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ دَارِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ)) (٢)
''مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا بہت زیادہ محبوب ہے' لیکن تیری اپنے گھر کے کسی رہائشی کمرے کی نماز تیری اپنے گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے' اور تیرا اپنے گھر کے صحن میں نمازپڑھنا اپنی حویلی میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے' اور تیرا اپنی حویلی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تیرا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہترہے۔''
٢) اسی طرح رسول اللہۖ نے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی صفوں کے بارے میں فرمایا:
((خَیْرُ صُفُوْفِ الرِّجَالِ اَوَّلُھَا وَشَرُّھَا آخِرُھَا وَخَیْرُ صُفُوْفِ النِّسَاء آخِرُھَا وَشَرُّھَا اَوَّلُھَا)) (٣)
''مَردوں کی سب سے بہتر صف وہ ہے جو سب سے پہلی ہے اور سب سے بدتر صف وہ ہے جو کہ آخری ہے (کیونکہ یہ عورتوں کے نزدیک ہے)' اور عورتوں کی بہترین صف سب سے آخری صف ہے اور بدترین صف سب سے پہلی صف ہے (کیونکہ یہ مَردوں کے نزدیک ہے)۔''
٣) رسول اللہۖ کے زمانے میں عورتیں اُن نمازوں کے لیے مسجد میں آتی تھیں جو کہ اندھیرے میں ہوتی ہیں 'مثلاً فجر' مغرب اور عشاء۔ آپۖ کی حدیث ہے:
((اِئْذَنُوْا لِلنِّسَائِ بِاللَّیْلِ اِلَی الْمَسَاجِدِ)) (٤)
''(اپنی) عورتوں کو رات کے اوقات میں نماز کے لیے نکلنے کی اجاز ت دو۔''
٤)رسول اللہۖ کے زمانے میں عورتیں جب نماز کے لیے آتی تھیں تو مکمل حجاب کے ساتھ آتی تھیں۔ حضرت عائشہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
کُنَّ نِسَاء الْمُؤْمِنَاتِ یَشْھَدْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِھِنَّ ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ اِلٰی بُیُوْتِھِنَّ حِیْنَ یَقْضِیْنَ الصَّلَاةَ لاَ یَعْرِفُھُنَّ اَحَد مِّنَ الْغَلَسِ (٥)
''عورتیں رسول اللہۖ کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضر ہوتی تھیں اِس حال میں کہ انہوں نے اپنے سارے جسم کو اچھی طرح اپنی چادروں میں لپیٹا ہوتا تھا' پھر وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو جاتیں' اور ان کو اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی پہچان نہ سکتا تھا۔''
یعنی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ عورت جا رہی ہے یا مرد۔
٥) اللہ کے رسولۖ نے اپنے زمانے میں مسجد میں عورتوں کے داخل ہونے کے لیے الگ دروازہ مقرر کر دیا تھا ۔حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
(( لَوْ تَرَکْنَا ھٰذَا الْبَابَ لِلنِّسَاء)) قَالَ نَافِع تِلْمِیْذُ ابْنِ عُمَرَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ ابْنُ عُمَرَ حَتّٰی مَاتَ (٦)
''کاش کہ ہم مسجد کا یہ دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص کر دیں!'' امام نافع جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے شاگرد ہیں' فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر وفات تک اُس دروازے سے مسجد نبوی ۖ میں کبھی بھی داخل نہ ہوئے۔''
٦) بعض صحابہ کرام نے رسول اللہۖ کی وفات کے بعد عورتوں کے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کو ناپسند بھی کیا۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے' وہ فرماتی ہیں:
لَوْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ رَأَی مَا اَحْدَثَ النِّسَاء لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَاء بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ (٧)
''اگر اللہ کے رسول ۖ آج کل کی عورتوں کی حالت دیکھ لیتے تو لازماً ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا۔''
یہ نماز کا وہ اختلاط ہے کہ جس کو عصر حاضر کے نام نہاد سکالرز آج کل کے گناہ' عریانی' فحاشی' بدکاری' بے حیائی اور اللہ کی نافرمانی پر مشتمل مخلوط اجتماعات کے لیے بطورِ دلیل استعمال کرتے ہیں۔ کہاں اللہ کے رسولۖ کے دَورِ مبارک میں باپردہ خواتین کا رات کے اوقات میں مسجد نبوی ۖ میں جا کر مَردوں سے علیحدہ جگہ پر نماز پڑھنا اور کہاں آج کل کی رقص و سرود کی مخلوط محفلیں! کس کی عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ آپۖ کے زمانے میں صحابیات کے پاکیزہ اور مذہبی اجتماعات پر آج کل کی کفر و شرک اور عریانی و فحاشی پر مبنی محافل کو قیاس کرے' سوائے اُس شخص کے کہ جس کی شیطان نے مت مار دی ہو؟
حج میں اختلاط
حج میں جو اختلاط ہے یہ بھی ایک ضرورت کے تحت ہے۔ بہت سے آثارِ صحابہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات حج کے موقع پر' خصوصاً طواف میں بھی' اختلاط سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عطا نے خبر دی کہ جب ابنِ ہشام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے روکنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا:
کَیْفَ یَمْنَعُھُنَّ وَقَدْ طَافَ نِسَاء النَّبِیِّ ۖ مَعَ الرِّجَالِ؟ قُلْتُ اَ بَعْدَ الْحِجَابِ اَوْ قَبْلُ؟ قَالَ اِیْ لَعَمْرِیْ لَقَدْ اَدْرَکْتُہ بَعْدَ الْحِجَابِ' قُلْتُ کَیْفَ یُخَالِطْنَ الرِّجَالَ؟ قَالَ لَمْ یَکُنَّ یُخَالِطْنَ کَانَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا تَطُوْفُ حَجْرَةً مِّنَ الرِّجَالِ لَا تُخَالِطُھُمْ (٨)
''وہ عورتوں کو کیسے منع کرے گا جبکہ نبی اکرمۖ کی بیویاں مَردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں؟ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے کہا: کیا حجاب کی آیت کے نزول کے بعد بھی ایسا ہوا ہے یا یہ آیت ِحجاب کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے ؟تو عطا نے کہا : میری عمر کی قسم! یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول کے بعد کا ہے ۔تو میں نے سوال کیا کہ وہ مردوں کے ساتھ کیسے اختلاط کر لیتی تھیں؟ عطا نے جواب دیا کہ وہ مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتی تھیں' جیسا کہ حضرت عائشہ مَردوں سے الگ ہو کر طواف کیا کرتی تھیں۔''
ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امام فاکہی نے اپنی کتاب ''کتاب مکہ'' میں لکھا ہے کہ حضرت عمرنے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کیا تھا۔ امام فاکہی حضرت ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
نَھٰی عُمَرُ اَنْ یَّطُوْفَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاء' قَالَ : فَرَأَی رَجُلًا مَعَھُنَّ فَضَرَبَہ بِالدُّرَّةِ
''حضرت عمرنے مردوں کو عورتوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کر دیا تھا۔ حضرت عمرنے ایک آدمی کو عورتوں کے ساتھ طواف کرتے دیکھا تو اس کو کوڑے سے مارا۔''
اِس قسم کے بہت سے آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اختلاطِ مَرد و زَن کو پسند نہیں کرتا اور ممکن حد تک اس سے دُور رہنے کی تعلیم دیتا ہے' سوائے ان جگہوں کے جہاں پر اِس قسم کا اختلاط ضرورت یا اضطرار کے تحت جائز ہو' اور حج بھی اسی قسم کا ایک موقع ہے کہ جہاں ضرورت اور اضطرار کے تحت اختلاط کو جائز قرار دیا گیا ہے' کیونکہ قاعدہ ہے :
الضرورات تبیح المحظورات '' ضرورتیں حرام افعال کو مباح بنا دیتی ہیں۔''