• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محرمات : حرام امور جن سے بچنا ضروری ہے

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٤) بے غیرت ہونا
اللہ کے رسولۖ نے اپنے گھر کی خواتین کے حوالے سے بے غیرتی کو سخت ناپسند فرمایا ہے۔ یعنی کوئی شخص اپنی بیوی' بیٹی یا بہن کو دیکھتا ہے کہ وہ کسی اجنبی مرد کے ساتھ بیٹھ کر گپ شپ لگاتی ہے' یا اپنے کسی دوست کے ساتھ سیر پر جانے میں عار محسوس نہیں کرتی' یا بغیر شرعی حجاب کے گھر سے باہر نکلتی ہے اور مردوں سے دوستیاں لگاتی ہے' یا شادی بیاہ کی مخلوط محفلوں میں شرکت کرتی ہے' اور یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ مرد اپنی بیوی' بیٹی یا بہن کو ان معاملات سے نہیں روکتا تو یہ شخص دیّوث ہے جس کے بارے میں اللہ کے رسولۖ کا ارشاد ہے:
((ثَلَاثَة لاَ یَنْظُرُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ اِلَیْھِمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ: الْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّیُّوْثُ ' وَثَلَاثَة لَا یَدْخُلُوْنَ الْجَنَّةَ : الْعَاقُّ لِوَالِدَیْہِ وَالْمُدْمِنُ عَلَی الْخَمْرِ وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطٰی )) (١١)
''تین افراد ایسے ہیں کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اُن کی طرف نظر کرم نہ فرمائے گا: ایک والدین کی نافرمانی کرنے والا' دوسری وہ عورت جو کہ مردوں سے مشابہت اختیار کرتی ہے اور تیسرا ایسا مرد جو کہ بے غیرت ہے۔ اور تین افراد ایسے ہیں جو کہ جنت میں داخل نہ ہوں گے: ایک اپنے والدین کی نافرمانی کرنے والا' دوسرا عادی شرابی اور تیسرا کوئی چیز دے کر احسان جتلانے والا''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٥) اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا
اجنبی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنا زنا کے محرکات اور اسباب میں سے ایک بڑا سبب ہے۔ اللہ کے رسولۖ نے اس کو حرام قرار دیا ہے۔ آپۖ کا ارشاد ہے:
((لَا یَخْلُوَنَّ رَجُل بِامْرَأَةٍ اِلاَّ کَانَ ثَالِثَھُمَا الشَّیْطَانُ)) (١٢)
''جب بھی کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرتا ہے تو ان کے ساتھ تیسرا شیطان ہوتا ہے''۔
اسی طرح آپۖ' کی ایک اور حدیث بھی ہے:
((لَا یَدْخُلَنَّ رَجُل بَعْدَ یَوْمِیْ ھٰذَا عَلٰی مُغِیْبَةٍ اِلاَّ وَمَعَہ رَجُل اَوِ اثْنَانِ)) (١٣)
''آج کے بعد کوئی آدمی کسی ایسی عورت کے پاس داخل نہ ہو جس کا شوہر موجود نہ ہو سوائے اس کے کہ اس کے ساتھ ایک یا دو مرد ہوں''۔
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
ان ظاھر ھذا الحدیث جواز خلوة الرجلین او الثلاثة بالاجنبیة' والمشھور عند اصحابنا تحریمہ فیتأول الحدیث علی الجماعة یبعد وقوع المواطأة منھم علی الفاحشة لصلاحھم أَو مروء تھم
''ظاہر حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دو یا تین آدمیوں کا کسی اجنبی عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا جائز ہے 'لیکن ہمارے علماء اس کی حرمت کا فتویٰ دیتے ہیں۔ حدیث سے مراد ایسے لوگوں کی جماعت ہے کہ جن کی نیکی' بزرگی اور تقویٰ کی وجہ سے ان سے کسی قسم کی بے حیائی کا صدور ناممکن ہو۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٦) اجنبی عورت سے مصافحہ کرنا
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ہاتھ کے زنا میں شامل ہے۔ رسول اللہۖکا ارشادہے:
((وَالْیَدَانِ تَزْنِیَانِ فَزِنَاھُمَا الْبَطْشُ وَالرِّجْلَانِ تَزْنِیَانِ فَزِنَاھُمَا الْمَشْیُ وَالْفَمُ یَزْنِیْ فَزِنَاہُ الْقُبَلُ)) (١٤)
''دونوں ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں ' پس ان کا زنا (اجنبی عورت کے کسی عضو کو) پکڑنا ہے اور دونوں پاؤں بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا (اس مقصد کے لیے) چلنا ہے اور منہ بھی زنا کرتا ہے اور اس کا زنابوسہ لینا ہے''۔
اللہ کے رسولۖ کے پاس عورتیں بیعت کرنے کے لیے آتی تھیں تو آپۖ ان سے بیعت کرتے وقت مصافحہ نہیں کرتے تھے۔ آپۖ کا ارشاد ہے :
((اِنِّیْ لَا اُصَافِحُ النِّسَاء)) (١٥)
''بے شک میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔''
اسی طرح حضرت عائشہ آپۖ کے بارے میں فرماتی ہیں:
وَاللّٰہِ مَا مَسَّتْ یَدُ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ یَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ غَیْرَ اَنَّہ بَایَعَھُنَّ بِالْکَلَامِ(١٦)
''اللہ کی قسم! رسول اللہۖ کا ہاتھ کسی عورت کے ہاتھ سے کبھی بھی مس نہیں ہوا' بلکہ آپۖ ان عورتوں سے زبانی بیعت لیتے تھے''۔
رسول اللہۖ سے زیادہ متقی اور پرہیزگار کون ہو سکتا ہے؟ جب آپۖ ایک دینی معاملے (بیعت) میں اس درجے احتیاط کرتے تھے کہ کسی عورت کے ساتھ آپۖ کا ہاتھ نہ ٹکرائے تو ہمارے لیے کس طرح سے یہ رخصت نکل سکتی ہے! وہ خواتین جو کہ بازاروں میں جا کر شاپنگ کرتی ہیں' دکانداروں سے لین دین کرتے وقت انہیں اس معاملے میں سخت احتیاط کرنی چاہیے کہ ان کے ہاتھ وغیرہ اجنبی افراد کے ہاتھوں سے نہ ٹکرائیں۔ اسی طرح خالہ زاد' پھوپھی زاد اور چچا زاد کا آپس میں ہاتھ ملانا شرعاً حرام ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٧) عورت کا خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنا
یہ برائی ہمارے معاشرے میں بہت زیادہ پھیل چکی ہے۔ عورتیں جب گھروں سے نکلتی ہیں تو خوب تیار ہو کر اور خوشبو لگا کر نکلتی ہیں' ان کا یہ فعل مردوں کے ان کی طرف متوجہ ہونے اور فتنے پھیلنے کا باعث بنتا ہے ۔ گھر میں رہتے ہوئے خاوند کے لیے زینت اختیار کرنا اور خوشبو لگانا تو سمجھ میں آتا ہے' لیکن گھر سے باہر میک اپ کر کے اور خوشبو لگا کر نکلنے کا ایک عورت کے نزدیک سوائے اس کے اور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ مرد اس کی طرف متوجہ ہوں اور اس کی اہمیت بڑھے۔ رسول اللہۖ نے عورت کے خوشبو لگا کر گھر سے باہر نکلنے کو زنا سے تشبیہ دی ہے۔ رسول اللہۖکا فرمان ہے:
((اَیُّمَا امْرَأَةٍ اسْتَعْطَرَتْ فَمَرَّتْ عَلَی قَوْمٍ لِیَجِدُوْا مِنْ رِیْحِھَا فَھِیَ زَانِیَة))(١٧)
''جو بھی عورت خوشبو لگا کر کچھ مَردوں کے پاس سے اس لیے گزرے کہ وہ اس کی خوشبو کی طرف متوجہ ہوں تو یہ عورت زانیہ ہے''۔
عورت کا خوشبو لگا کر مسجد میں آنا بھی ممنوع ہے۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے:
((اَیُّمَا امْرَأَةٍ تَطَیَّبَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ اِلَی الْمَسْجِدِ لَمْ تُقْبَلْ لَھَا صَلَاة حَتّٰی تَغْتَسِلَ)) (١٨)
''جو بھی عورت خوشبو لگا کر مسجد کے لیے نکلے تو اس کی نماز اُس وقت تک قبول نہیں ہو گی جب تک کہ وہ غسل نہ کرے''۔
ان احادیث میں ان عورتوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے جو کہ میک اپ کر کے اور خوشبو لگا کر مخلوط محفلوں میں شرکت کر کے مردوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٨) عورت کا بغیر محرم کے سفر کرنا
عام حالات میں عورت کے لیے بغیر محرم کے سفر کرنا جائز نہیں ہے' چاہے یہ سفر حج ہی کیوں نہ ہو۔ رسول اللہۖ کا ارشاد ہے :
((لَا تُسَافِرِ الْمَرْأَةُ اِلاَّ مَعَ ذِیْ مَحْرَمٍ وَلَا یَدْخُلُ عَلَیْھَا رَجُل اِلاَّ وَمَعَھَا مَحْرَم)) فَقَالَ رَجُل : یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اُرِیْدُ اَنْ اَخْرُجَ فِیْ جَیْشِ کَذَا وَکَذَا وَامْرَأَتِیْ تُرِیْدُ الْحَجَّ فَقَالَ: ((اُخْرُجْ مَعَھَا)) (١٩)
''کوئی عورت کسی محرم کے بغیر سفر نہ کرے اور کوئی بھی مرد کسی عورت پر داخل نہ ہو مگر اس حال میں کہ اس (عورت) کے ساتھ کوئی محرم بھی ہو''۔ اس پر ایک آدمی نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولۖ! میں فلاں فلاں لشکر کے ساتھ جانا چاہتا ہوں جبکہ میری بیوی حج کرنا چاہتی ہے ۔تو آپۖ نے فرمایا :'' اپنی بیوی کے ساتھ حج کے لیے جائو''۔
بعض احادیث میں اگرچہ ایک دن' یا دو دن یا تین دن کے سفر کا بھی ذکر ہے' لیکن حقیقت یہ ہے کہ سفر کو مقید کرنا صحیح نہیں ہے' بلکہ اللہ کے رسولۖ نے مختلف مواقع پر مختلف حالات کے تناظر میں ایک' دو یا تین دن کا تذکرہ بھی ساتھ فرما دیا' ورنہ سفر سے مراد مطلقاً سفر ہے۔ جس کو عرف اور رواج میں سفر سمجھا جاتا ہو حدیث میں وہی سفر مراد ہے۔ ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:
وقد عمل اکثر العلماء فی ھذا الباب بالمطلق لاختلاف التقییدات وقال النووی لیس المراد من التحدید ظاھرہ بل کل ما یسمی سفر فالمرأة منھیة منہ الا بالمحرم
''اکثرعلماء نے اس مسئلے میں مطلق حدیث کے مطابق فتویٰ دیا ہے' کیونکہ تقییدات میں اختلاف ہے ۔ امام نووی نے کہا ہے کہ بعض احادیث میں جو تحدید آئی ہے ا س سے مراد اس کا ظاہر نہیں ہے' بلکہ ہر وہ سفر جس کو سفر کہا جاتا ہے اس سے عور ت کو منع کیا گیا الاّ یہ کہ وہ کسی محرم کے ساتھ ہو''۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٢٩) جان بوجھ کر اجنبی عورت کی طرف دیکھنا
جان بوجھ کر کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھنا 'چاہے یہ شہوت کے ساتھ ہو یا بغیر شہوت کے 'حرام ہے۔ ہاں ایسی بوڑھی عورتیں جو کہ نکاح سے مایوس ہو چکی ہوں' اس سے مستثنیٰ ہیں۔ اسی طرح اگر کسی نوجوان عورت کی طرف کسی شرعی حاجت کے تحت دیکھا جائے تو یہ بھی جائز ہے۔ جیسا کہ طبیب کا کسی مریضہ کو دیکھنا یا نکاح کا پیغام بھیجنے والے کا اپنی منگیتر کو دیکھنا وغیرہ۔ حضرت جریر بن عبداللہ فرماتے ہیں:
سَاَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ عَنْ نَظْرَةِ الْفَجْأَةِ فَقَالَ: ((اِصْرِفْ بَصَرَکَ)) (٢٠)
''میں نے اللہ کے رسولۖ سے اچانک نظر پڑ جانے کے بارے میں پوچھا تو آپۖ نے فرمایا :'' اپنی نظر پھیر لو''۔
اسی طرح حضرت علی سے ایک اور روایت منقول ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
((یَا عَلِیُّ لَا تُتْبِعِ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ فَاِنَّ لَکَ الْاُوْلٰی وَلَیْسَتْ لَکَ الْآخِرَةُ))(٢١)
''اے علی! پہلی نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالو' بے شک پہلی نظر تو تیرے لیے (معاف) ہے لیکن دوسری تیرے لیے (معاف) نہیں ہے''۔
اسی طرح اگر کسی بے ریش نوجوان کی طرف شہوت کے ساتھ نظر ہو تو وہ بھی حرام ہے۔ مرد کا مرد کے ستر کی طرف دیکھنا اور عورت کا عورت کے ستر کو دیکھنا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ فلم میں عورت کی تصویر دیکھنے کے قائل ہیں اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ حقیقت نہیں ہے بلکہ ایک عکس ہے۔ ان کی یہ دلیل مقاصد شریعت کے خلاف ہے۔ مروّجہ فلمیں معاشرے میں سوائے جنس و ہوس پرستی میں اضافے کے کوئی اور کردار ادا نہیں کر رہیں۔ علاوہ ازیں فلموں اور ڈراموں میں صرف چہرہ ہی کھلا نہیں ہوتا بلکہ عورت کا آدھے سے زیادہ جسم ننگا ہوتا ہے۔ ایسی تصاویر نوجوان نسل میں فتنے کا باعث بنتی ہیں اور ان کے جذبات کو زنا کی طرف مائل کرتی ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
حواشی
١) سنن النسائی' کتاب الطلاق' باب طلاق السنة۔
٢) سنن النسائی' کتاب الطلاق' باب الثلاث المجموعة ومافیہ من التغلیظ۔
٣) صحیح بخاری' کتاب تفسیر القرآن' باب و قال مجاھد ان ارتبتم۔
٤) سننن ابن ماجہ' کتاب النکاح' باب المحلل و المحلل لہ
٥) صحیح البخاری' کتاب بدء الخلق' باب ذکر الملائکة۔
٦) سنن ابی داود' کتاب النکاح' باب فی القسم بین النساء۔
٧) سنن الترمذی' کتاب الطلاق واللعان عن رسول اللّٰہۖ' باب ما جاء فی المختلعات۔
٨) سنن الترمذی' کتاب الرضاع' باب ما جاء فی حق الزوج علی المرأة۔
٩) سنن الترمذی' کتاب المناقب عن رسول اللّٰہۖ' باب فضل ازواج النبیۖ۔
١٠) صحیح البخاری' کتاب الایمان' باب کفران العشیر وکفر دون کفر۔
١١) سنن النسائی' کتاب الزکاة' باب المنان بما اعطیٰ۔
١٢) سنن الترمذی' کتاب الرضاع' باب ما جاء فی کراھیة الدخول علی المغیبات۔
١٣) صحیح مسلم' کتاب السلام' باب تحریم الخلوة بالأجنبیة والدخول علیھا۔
١٤) سنن ابی داود' کتاب النکاح' باب ما یؤمر بہ من غض البصر۔
١٥) سنن النسائی' کتاب البیعة' باب بیعة النساء۔
١٦) صحیح البخاری' کتاب الطلاق' باب اذا اسلمت المشرکة او النصرانیة تحت الذمی…
١٧) سنن النسائی' کتاب الزینة' باب ما یکرہ للنساء من الطیب۔
١٨) سنن ابن ماجہ' کتاب الفتن' باب فتنة النساء۔
١٩) صحیح البخاری' کتاب الحج' باب حج النساء۔
٢٠) سنن ابی داود' کتاب النکاح' باب ما یؤمر بہ من غض البصر۔
٢١) سنن الترمذی' کتاب الأدب عن رسول اللّٰہۖ' باب ما جاء فی نظرة المفاجأة۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٠) اِختلاطِ مَرد و زَن
اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے شریعت ِ اسلامیہ میں مَرد اور عورت کا دائرہ کار علیحدہ علیحدہ مقرر کیا ہے۔ عورت کا اصل دائرہ کار اُس کا گھر ہے' اگرچہ ضرورت کے تحت اس کو گھر سے باہر نکلنے کی بھی اجازت ہے۔ جبکہ مرد کا دائرہ کار گھر سے باہر کے کام کاج ہیں۔ عورت کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ شوہر کے بچوں کی تربیت کرے' اس کے مال کی حفاظت کرے' اس کے گھر کے کام کاج کو سنبھالے' جبکہ مرد کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عورت کے نان و نفقہ کا بندوبست کرے۔ اسلام نے معاش کی ذِمہ داری مرد پر ڈالی ہے نہ کہ عورت پر' اس لیے مرد کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ اپنی بیوی کو ملازمت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔ اللہ کے رسولۖ کی بہت ساری احادیث ہمیں ایسی ملتی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ آپۖ نے مختلف مواقع پر کسی ضرورت کے تحت پیدا ہونے والے مَرد و زَن کے اختلاط میں کیسے کیسے رہنمائی فرمائی ہے۔
عصر حاضر کے بعض متجدّدین مَرد وزَن کے اختلاط کو جائز قرار دیتے ہیں اور اس کے لیے اُن کے پاس سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہۖ کے زمانے میں بھی نماز اور حج کے موقع پر مَرد اور عورتیں اکٹھے ہوتے تھے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مَرد و زَن کے اختلاط سے سوائے فتنے کے اور کچھ پیدا نہیں ہوتا' خصوصاً جبکہ عورتیں مکمل حجاب میں بھی نہ ہوں۔ آپۖ نے ایک مرتبہ عورتوں کو دیکھا کہ وہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد اپنے گھروں کو جاتے وقت راستے کے درمیان چل رہی تھیں جس کی وجہ سے مَردوں سے اُن کا اختلاط ہو رہا تھا تو آپۖ نے اُس موقع پر اُن کو ڈانٹتے ہوئے فرمایا:
((عَلَیْکُنَّ بِحَافَّاتِ الطَّرِیْقِ)) فَکَانَتِ الْمَرْاَةُ تَلْتَصِقُ بِالْجِدَارِ حَتّٰی اِنَّ ثَوْبَھَا لَیَتَعَلَّقُ بِالْجِدَارِ مِنْ لُصُوْقِھَا بِہ (١)
''راستے کے کنارے پر چلو''۔ ( راوی کہتے ہیں) اس کے بعد عورت دیوار کے ساتھ اس طرح لگ کر چلتی تھی کہ اُس کے کپڑے دیوار کے ساتھ چمٹ جاتے تھے۔''
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کے رسولۖ عورتوں کے مَردوں کے ساتھ اختلاط کے معاملے میں کس درجے احتیاط کرتے تھے کہ ان کو ایک ساتھ مل کر چلنے سے بھی منع فرماتے تھے۔ جہاں تک آپۖ کے زمانے میں نماز اور حج کے موقع پر مَرد و زَن کے اختلاط کا تعلق ہے تو وہ اختلاط ایسا نہیں تھا جیسا کہ آج کل شادی بیا ہ یا مختلف تقیبات کے موقع پر ہوتا ہے۔ آپۖ کے زمانے میں نماز و حج کا اختلاط ایک مذہبی نوعیت کا اختلاط تھا اور ضرورت کے تحت اس کوجائزقرار دیا گیا' لیکن اس میں بھی متعدد ایسی پابندیاں تھیں جن کی طرف عام لوگ توجہ نہیں کرتے۔

نماز کا اختلاط
١) رسول اللہۖ نے اپنے زمانے میں عورتوں کو مسجد میں آ کر نماز پڑھنے کی اجازت دی تھی' لیکن اس کو افضل قرارنہ دیا تھا۔ حضرت اُمّ حمید الساعدیہ عرض کرتی ہیں کہ میں آپۖ 'کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کی: اے اللہ کے رسولۖ! مجھے آپۖ کے ساتھ نماز پڑھنا بہت محبوب ہے 'تو آپۖ نے فرمایا:
((عَلِمْتُ اَنَّکِ تُحِبِّیْنَ الصَّلاَةَ مَعِیَ وَصَلَاتُکِ فِیْ بَیْتِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ حُجْرَتِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ حُجْرَتِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ دَارِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ دَارِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ وَصَلَاتُکِ فِیْ مَسْجِدِ قَوْمِکِ خَیْر لَّکِ مِنْ صَلَاتِکِ فِیْ مَسْجِدِیْ)) (٢)
''مجھے یہ معلوم ہے کہ تمہیں میرے ساتھ نماز پڑھنا بہت زیادہ محبوب ہے' لیکن تیری اپنے گھر کے کسی رہائشی کمرے کی نماز تیری اپنے گھر کے صحن کی نماز سے بہتر ہے' اور تیرا اپنے گھر کے صحن میں نمازپڑھنا اپنی حویلی میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے' اور تیرا اپنی حویلی میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور تیرا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں نماز پڑھنے سے بہترہے۔''
٢) اسی طرح رسول اللہۖ نے مسجد میں نماز پڑھنے والوں کی صفوں کے بارے میں فرمایا:
((خَیْرُ صُفُوْفِ الرِّجَالِ اَوَّلُھَا وَشَرُّھَا آخِرُھَا وَخَیْرُ صُفُوْفِ النِّسَاء آخِرُھَا وَشَرُّھَا اَوَّلُھَا)) (٣)
''مَردوں کی سب سے بہتر صف وہ ہے جو سب سے پہلی ہے اور سب سے بدتر صف وہ ہے جو کہ آخری ہے (کیونکہ یہ عورتوں کے نزدیک ہے)' اور عورتوں کی بہترین صف سب سے آخری صف ہے اور بدترین صف سب سے پہلی صف ہے (کیونکہ یہ مَردوں کے نزدیک ہے)۔''
٣) رسول اللہۖ کے زمانے میں عورتیں اُن نمازوں کے لیے مسجد میں آتی تھیں جو کہ اندھیرے میں ہوتی ہیں 'مثلاً فجر' مغرب اور عشاء۔ آپۖ کی حدیث ہے:
((اِئْذَنُوْا لِلنِّسَائِ بِاللَّیْلِ اِلَی الْمَسَاجِدِ)) (٤)
''(اپنی) عورتوں کو رات کے اوقات میں نماز کے لیے نکلنے کی اجاز ت دو۔''
٤)رسول اللہۖ کے زمانے میں عورتیں جب نماز کے لیے آتی تھیں تو مکمل حجاب کے ساتھ آتی تھیں۔ حضرت عائشہ سے مروی ایک روایت کے الفاظ ہیں:
کُنَّ نِسَاء الْمُؤْمِنَاتِ یَشْھَدْنَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ ۖ صَلَاةَ الْفَجْرِ مُتَلَفِّعَاتٍ بِمُرُوْطِھِنَّ ثُمَّ یَنْقَلِبْنَ اِلٰی بُیُوْتِھِنَّ حِیْنَ یَقْضِیْنَ الصَّلَاةَ لاَ یَعْرِفُھُنَّ اَحَد مِّنَ الْغَلَسِ (٥)
''عورتیں رسول اللہۖ کے ساتھ فجر کی نماز میں حاضر ہوتی تھیں اِس حال میں کہ انہوں نے اپنے سارے جسم کو اچھی طرح اپنی چادروں میں لپیٹا ہوتا تھا' پھر وہ نماز ادا کرنے کے بعد اپنے گھروں کو جاتیں' اور ان کو اندھیرے کی وجہ سے کوئی بھی پہچان نہ سکتا تھا۔''
یعنی اتنا اندھیرا ہوتا تھا کہ یہ بھی پتا نہیں چلتا تھا کہ عورت جا رہی ہے یا مرد۔
٥) اللہ کے رسولۖ نے اپنے زمانے میں مسجد میں عورتوں کے داخل ہونے کے لیے الگ دروازہ مقرر کر دیا تھا ۔حضرت عبداللہ بن عمر سے روایت ہے کہ رسول اللہۖ نے فرمایا:
(( لَوْ تَرَکْنَا ھٰذَا الْبَابَ لِلنِّسَاء)) قَالَ نَافِع تِلْمِیْذُ ابْنِ عُمَرَ فَلَمْ یَدْخُلْ مِنْہُ ابْنُ عُمَرَ حَتّٰی مَاتَ (٦)
''کاش کہ ہم مسجد کا یہ دروازہ عورتوں کے لیے مخصوص کر دیں!'' امام نافع جو کہ حضرت عبداللہ بن عمرکے شاگرد ہیں' فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر وفات تک اُس دروازے سے مسجد نبوی ۖ میں کبھی بھی داخل نہ ہوئے۔''
٦) بعض صحابہ کرام نے رسول اللہۖ کی وفات کے بعد عورتوں کے مسجد میں جا کر نماز پڑھنے کو ناپسند بھی کیا۔ حضرت عائشہ سے روایت ہے' وہ فرماتی ہیں:
لَوْ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ رَأَی مَا اَحْدَثَ النِّسَاء لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَاء بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ (٧)
''اگر اللہ کے رسول ۖ آج کل کی عورتوں کی حالت دیکھ لیتے تو لازماً ان کو مسجد میں جانے سے روک دیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا۔''
یہ نماز کا وہ اختلاط ہے کہ جس کو عصر حاضر کے نام نہاد سکالرز آج کل کے گناہ' عریانی' فحاشی' بدکاری' بے حیائی اور اللہ کی نافرمانی پر مشتمل مخلوط اجتماعات کے لیے بطورِ دلیل استعمال کرتے ہیں۔ کہاں اللہ کے رسولۖ کے دَورِ مبارک میں باپردہ خواتین کا رات کے اوقات میں مسجد نبوی ۖ میں جا کر مَردوں سے علیحدہ جگہ پر نماز پڑھنا اور کہاں آج کل کی رقص و سرود کی مخلوط محفلیں! کس کی عقل اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ آپۖ کے زمانے میں صحابیات کے پاکیزہ اور مذہبی اجتماعات پر آج کل کی کفر و شرک اور عریانی و فحاشی پر مبنی محافل کو قیاس کرے' سوائے اُس شخص کے کہ جس کی شیطان نے مت مار دی ہو؟

حج میں اختلاط
حج میں جو اختلاط ہے یہ بھی ایک ضرورت کے تحت ہے۔ بہت سے آثارِ صحابہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صحابیات حج کے موقع پر' خصوصاً طواف میں بھی' اختلاط سے ممکن حد تک بچنے کی کوشش کرتی تھیں۔ حضرت ابن جریج کہتے ہیں کہ مجھے حضرت عطا نے خبر دی کہ جب ابنِ ہشام نے عورتوں کو مردوں کے ساتھ طواف کرنے سے روکنے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا:
کَیْفَ یَمْنَعُھُنَّ وَقَدْ طَافَ نِسَاء النَّبِیِّ ۖ مَعَ الرِّجَالِ؟ قُلْتُ اَ بَعْدَ الْحِجَابِ اَوْ قَبْلُ؟ قَالَ اِیْ لَعَمْرِیْ لَقَدْ اَدْرَکْتُہ بَعْدَ الْحِجَابِ' قُلْتُ کَیْفَ یُخَالِطْنَ الرِّجَالَ؟ قَالَ لَمْ یَکُنَّ یُخَالِطْنَ کَانَتْ عَائِشَةُ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھَا تَطُوْفُ حَجْرَةً مِّنَ الرِّجَالِ لَا تُخَالِطُھُمْ (٨)
''وہ عورتوں کو کیسے منع کرے گا جبکہ نبی اکرمۖ کی بیویاں مَردوں کے ساتھ طواف کرتی تھیں؟ ابن جریج کہتے ہیں کہ میں نے عطا سے کہا: کیا حجاب کی آیت کے نزول کے بعد بھی ایسا ہوا ہے یا یہ آیت ِحجاب کے نزول سے پہلے کا واقعہ ہے ؟تو عطا نے کہا : میری عمر کی قسم! یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول کے بعد کا ہے ۔تو میں نے سوال کیا کہ وہ مردوں کے ساتھ کیسے اختلاط کر لیتی تھیں؟ عطا نے جواب دیا کہ وہ مردوں کے ساتھ اختلاط نہیں کرتی تھیں' جیسا کہ حضرت عائشہ مَردوں سے الگ ہو کر طواف کیا کرتی تھیں۔''
ابن حجر اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ امام فاکہی نے اپنی کتاب ''کتاب مکہ'' میں لکھا ہے کہ حضرت عمرنے عورتوں کو مَردوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کیا تھا۔ امام فاکہی حضرت ابراہیم نخعی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:
نَھٰی عُمَرُ اَنْ یَّطُوْفَ الرِّجَالُ مَعَ النِّسَاء' قَالَ : فَرَأَی رَجُلًا مَعَھُنَّ فَضَرَبَہ بِالدُّرَّةِ
''حضرت عمرنے مردوں کو عورتوں کے ساتھ طواف کرنے سے منع کر دیا تھا۔ حضرت عمرنے ایک آدمی کو عورتوں کے ساتھ طواف کرتے دیکھا تو اس کو کوڑے سے مارا۔''
اِس قسم کے بہت سے آثار سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اختلاطِ مَرد و زَن کو پسند نہیں کرتا اور ممکن حد تک اس سے دُور رہنے کی تعلیم دیتا ہے' سوائے ان جگہوں کے جہاں پر اِس قسم کا اختلاط ضرورت یا اضطرار کے تحت جائز ہو' اور حج بھی اسی قسم کا ایک موقع ہے کہ جہاں ضرورت اور اضطرار کے تحت اختلاط کو جائز قرار دیا گیا ہے' کیونکہ قاعدہ ہے : الضرورات تبیح المحظورات '' ضرورتیں حرام افعال کو مباح بنا دیتی ہیں۔''
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣١) حقیقی باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف بیٹا ہونے کی نسبت کرنا
کسی مسلمان کے لیے یہ بالکل بھی جائز نہیں ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کی طرف بیٹا یا بیٹی ہونے کی نسبت کرے جو کہ درحقیقت اس کا باپ نہیں ہے۔ ہمارے معاشروں میں لوگ عموماً یتیم خانوں سے بچے اٹھا لاتے ہیں اور ان کے باپ کے طور پر اپنا نام ان کے کاغذات میں لکھوا دیتے ہیں' حالانکہ وہ اُن کے حقیقی بچے نہیں ہوتے' بلکہ مُنہ بولے بچے ہوتے ہیں۔ ایساکرنا شرعاً حرام ہے۔ حضرت ابو بکرہ رسول اللہۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا:
((مَنِ ادَّعٰی اِلٰی غَیْرِ اَبِیْہِ وَھُوَ یَعْلَمُ فَالْجَنَّةُ عَلَیْہِ حَرَام)) (٩)
''جس نے اپنی نسبت جانتے بوجھتے اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف کی تو اُس پر جنت حرام ہے۔''
اسی طرح احادیث میں اُس شخص کے بارے میں بھی سخت وعید آئی ہے جو اپنی اولاد کو اولاد ماننے سے انکار کر دیتا ہے' حالانکہ اس کے پاس اس کی کوئی دلیل بھی نہیں ہوتی۔ رسول اللہۖ کا فرمان ہے:
((اَیُّمَا رَجُلٍ جَحَدَ وَلَدَہ وَھُوَ یَنْظُرُ اِلَیْہِ احْتَجَبَ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ مِنْہُ وَفَضَحَہ عَلٰی رُو وْسِ الْاَوَّلِیْنَ وَالْآخِرِیْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (١٠)
''جس کسی نے بھی اپنی اولاد کا انکار کیا اس حال میں کہ وہ اس کی طرف دیکھ رہی ہو' تواللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے پردہ فرمائیں گے اور اسے پہلی اور پچھلی قوموں کے درمیان ذلیل و رسوا کریں گے۔''
'' وَھُوَ یَنْظُرُ اِلَیْہِ ''سے یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ ''وہ بچہ اس کی طرف دیکھ رہا ہو'' اور یہ بھی مراد ہو سکتا ہے کہ ''وہ آدمی اس بچے کی طرف دیکھ رہا ہو'' یعنی وہ جانتا ہو کہ وہ اُسی کی اولاد ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
(٣٢) سود کھانا
حرام امور میں سے کوئی حرام فعل ایسا نہیں ہے کہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے اعلانِ جنگ کیا ہو سوائے سود کے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(یٰاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ) (البقرة:٢٧٨'٢٧٩)
''اے اہل ایمان! اللہ سے ڈرو اور جو بھی سود سے باقی ہے اس کو چھوڑ دو اگر تم مؤمن ہو۔ اگر تم ایسا نہ کرو گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کے لیے تیارہوجاو۔''
اللہ کے رسولۖ نے سودی معاملات میں تعاون کرنے والوں پر بھی لعنت فرمائی ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
لَعَنَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ۖ آکِلَ الرِّبَا وَمُؤْکِلَہ وَکَاتِبَہ وَشَاھِدَیْہِ وَقَالَ: ((ھُمْ سَوَاء)) (١١)
''اللہ کے رسولۖ نے سود کھانے والے' کھلانے والے' لکھنے والے اور اس پر گواہ بننے والوں پر لعنت فرمائی ہے اور اُن کے بارے میں فرمایا کہ ''وہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں۔''
اسی حدیث کو سامنے رکھتے ہوئے علماء نے بینک کی ملازمت کو ناجائز قرار دیا ہے' کیونکہ سود کا لکھنا اور سودی معاملات پرگواہ بننا بھی اتنا ہی حرام ہے جتنا کہ سود کھانا اور کھلانا۔ فی زمانہ ملازمتوں کے حصول میں جن مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ ہمارے سامنے واضح ہیں۔ لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بینک ملازمین اللہ کے رسولۖ کی اس حدیث پر عمل کرنے کے لیے کسی دوسری ملازمت یا کاروبار کے لیے کوشاں ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور اُن کے لیے راستے کھولے گا۔ اگر وہ کسی دوسری ملازمت یا کاروبار کے لیے سوچتے بھی نہیں ہیں تو اللہ کی مدد کیسے آ جائے گی اور ان کو گھر بیٹھے کسی دوسری ملازمت کی آفر کیسے ہو جائے گی؟ تقویٰ اور احتیاط کا تقاضا تو یہ ہے کہ موجودہ زمانے میں بینک جس طرح سے سودی معاملات اور کاروبار میں جکڑے ہوئے ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کا بھی کوئی تعلق نہ رکھا جائے۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top