- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
ساتویں دلیل مرزائیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: فیکم النبوۃ والمملکۃ الخلافۃ فیکم والنبوۃ (حجج الکرامۃ) ص۱۹۷ وکنزالعمال جلد۶،۱۷۹۔(۳۳۰)
الجواب:
اس روایت کے بعد ساتھ ہی حجج الکرامہ میں لکھا ہے و اخرجہ البزٰ ر ودر سندش محمد عامری ضعیف است(۳۳۱) ۔ الغرض یہ روایت از روئے سند صحیح نہیں پھر ورایۃً بھی اس کا کذب عیاں ہے، کیونکہ آج تک بنو عباس میں کوئی نبی نہیں ہوا، باقی رہے مرزا صاحب تو آپ مغل ہیں۔ (۳۳۲)
----------------------------------------------------------
(۳۳۰) مقام خاتم النبیین ص۱۸۶ مؤلفہ قاضی محمد نزیر فاضل لائلپوری طبعہ ربوہ ص۱۹۷۰ء
(۳۳۱) حجج الکرامۃ ص۱۹۷، نوٹ: کنز العمال ص۷۰۶،ج۱۱ رقم ۳۳۴۳۴ و ص۴۵۶،۱۳ رقم ۳۷۱۸۴ وغیرہ میں مذکورہ روایت ابن عساکر وغیرہ سے مروی ہے۔ سو یہ روایت تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸ (مخطوطہ) میں منقول ہے اور اسی کی سند میں یہی محمد بن عبدالرحمن العامری ہیں امام ابن عساکر نے اس کی ایک دوسری سند بھی بیان کی ہے۔ اخبرنا ابوعبداللہ الخلال انا ابو طاہر احمد بن محمود انا ابوبکر بن المقدی انا ابوعدوبۃ الحرانی نا عبداللّٰہ بن شبیب حدثنی ابن ابی اولیس حدثنی ابن ابی فدیک عن ابن ابی ذیب عن سھیل بن ابی صالح اراہ عن ابیہ عن ابی ھریرۃ الخ، تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸۔اس میں سہیل بن ابی صالح راوی ہے جو کو صدوق ہے (یعنی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا) مگر مختلط ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے کہ تغیر حفظ باخرہٖ، تقریب ص۱۰۵ یعنی آخری عمر میں حافظ خراب ہوگیا تھا، لہٰذا فریق ثانی پر لازم ہے کہ وہ اس کی بحوالہ صراحت دکھائے کہ سہیل سے ابن ابی ذیب (محمد بن عبدالرحمن بن ابی زیب) نے اختلاط سے قبل سنا ہے۔ جبکہ خود سہیل کو شک ہے میں نے یہ روایت باب ابو صالح (ذکوان السمان) سے سنی بھی ہے کہ نہیں تب ہی تو انہوں نے اراہ عن ابیہ، کہہ کر روایت کی ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سہیل نے جب یہ روایت بیان کی تھی حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ اس سند کی مزید بھی رعلتیں بیان کی جا سکتیں ہیں لیکن متنبی قادیان کی الد الخصام پارٹی پر اتمام حجت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ابو صہیب
(۳۳۲) تذکرۃ الشھادتین ص۳۳ وروحانی ص۳۵،۲۰
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: فیکم النبوۃ والمملکۃ الخلافۃ فیکم والنبوۃ (حجج الکرامۃ) ص۱۹۷ وکنزالعمال جلد۶،۱۷۹۔(۳۳۰)
الجواب:
اس روایت کے بعد ساتھ ہی حجج الکرامہ میں لکھا ہے و اخرجہ البزٰ ر ودر سندش محمد عامری ضعیف است(۳۳۱) ۔ الغرض یہ روایت از روئے سند صحیح نہیں پھر ورایۃً بھی اس کا کذب عیاں ہے، کیونکہ آج تک بنو عباس میں کوئی نبی نہیں ہوا، باقی رہے مرزا صاحب تو آپ مغل ہیں۔ (۳۳۲)
----------------------------------------------------------
(۳۳۰) مقام خاتم النبیین ص۱۸۶ مؤلفہ قاضی محمد نزیر فاضل لائلپوری طبعہ ربوہ ص۱۹۷۰ء
(۳۳۱) حجج الکرامۃ ص۱۹۷، نوٹ: کنز العمال ص۷۰۶،ج۱۱ رقم ۳۳۴۳۴ و ص۴۵۶،۱۳ رقم ۳۷۱۸۴ وغیرہ میں مذکورہ روایت ابن عساکر وغیرہ سے مروی ہے۔ سو یہ روایت تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸ (مخطوطہ) میں منقول ہے اور اسی کی سند میں یہی محمد بن عبدالرحمن العامری ہیں امام ابن عساکر نے اس کی ایک دوسری سند بھی بیان کی ہے۔ اخبرنا ابوعبداللہ الخلال انا ابو طاہر احمد بن محمود انا ابوبکر بن المقدی انا ابوعدوبۃ الحرانی نا عبداللّٰہ بن شبیب حدثنی ابن ابی اولیس حدثنی ابن ابی فدیک عن ابن ابی ذیب عن سھیل بن ابی صالح اراہ عن ابیہ عن ابی ھریرۃ الخ، تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸۔اس میں سہیل بن ابی صالح راوی ہے جو کو صدوق ہے (یعنی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا) مگر مختلط ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے کہ تغیر حفظ باخرہٖ، تقریب ص۱۰۵ یعنی آخری عمر میں حافظ خراب ہوگیا تھا، لہٰذا فریق ثانی پر لازم ہے کہ وہ اس کی بحوالہ صراحت دکھائے کہ سہیل سے ابن ابی ذیب (محمد بن عبدالرحمن بن ابی زیب) نے اختلاط سے قبل سنا ہے۔ جبکہ خود سہیل کو شک ہے میں نے یہ روایت باب ابو صالح (ذکوان السمان) سے سنی بھی ہے کہ نہیں تب ہی تو انہوں نے اراہ عن ابیہ، کہہ کر روایت کی ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سہیل نے جب یہ روایت بیان کی تھی حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ اس سند کی مزید بھی رعلتیں بیان کی جا سکتیں ہیں لیکن متنبی قادیان کی الد الخصام پارٹی پر اتمام حجت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ابو صہیب
(۳۳۲) تذکرۃ الشھادتین ص۳۳ وروحانی ص۳۵،۲۰