• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ساتویں دلیل مرزائیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا: فیکم النبوۃ والمملکۃ الخلافۃ فیکم والنبوۃ (حجج الکرامۃ) ص۱۹۷ وکنزالعمال جلد۶،۱۷۹۔(۳۳۰)
الجواب:
اس روایت کے بعد ساتھ ہی حجج الکرامہ میں لکھا ہے و اخرجہ البزٰ ر ودر سندش محمد عامری ضعیف است(۳۳۱) ۔ الغرض یہ روایت از روئے سند صحیح نہیں پھر ورایۃً بھی اس کا کذب عیاں ہے، کیونکہ آج تک بنو عباس میں کوئی نبی نہیں ہوا، باقی رہے مرزا صاحب تو آپ مغل ہیں۔ (۳۳۲)
----------------------------------------------------------
(۳۳۰) مقام خاتم النبیین ص۱۸۶ مؤلفہ قاضی محمد نزیر فاضل لائلپوری طبعہ ربوہ ص۱۹۷۰ء
(۳۳۱) حجج الکرامۃ ص۱۹۷، نوٹ: کنز العمال ص۷۰۶،ج۱۱ رقم ۳۳۴۳۴ و ص۴۵۶،۱۳ رقم ۳۷۱۸۴ وغیرہ میں مذکورہ روایت ابن عساکر وغیرہ سے مروی ہے۔ سو یہ روایت تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸ (مخطوطہ) میں منقول ہے اور اسی کی سند میں یہی محمد بن عبدالرحمن العامری ہیں امام ابن عساکر نے اس کی ایک دوسری سند بھی بیان کی ہے۔ اخبرنا ابوعبداللہ الخلال انا ابو طاہر احمد بن محمود انا ابوبکر بن المقدی انا ابوعدوبۃ الحرانی نا عبداللّٰہ بن شبیب حدثنی ابن ابی اولیس حدثنی ابن ابی فدیک عن ابن ابی ذیب عن سھیل بن ابی صالح اراہ عن ابیہ عن ابی ھریرۃ الخ، تاریخ دمشق ص۹۴۲،ج۸۔اس میں سہیل بن ابی صالح راوی ہے جو کو صدوق ہے (یعنی جان بوجھ کر غلطی نہیں کرتا) مگر مختلط ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر نے صراحت کی ہے کہ تغیر حفظ باخرہٖ، تقریب ص۱۰۵ یعنی آخری عمر میں حافظ خراب ہوگیا تھا، لہٰذا فریق ثانی پر لازم ہے کہ وہ اس کی بحوالہ صراحت دکھائے کہ سہیل سے ابن ابی ذیب (محمد بن عبدالرحمن بن ابی زیب) نے اختلاط سے قبل سنا ہے۔ جبکہ خود سہیل کو شک ہے میں نے یہ روایت باب ابو صالح (ذکوان السمان) سے سنی بھی ہے کہ نہیں تب ہی تو انہوں نے اراہ عن ابیہ، کہہ کر روایت کی ہے، یہ اس بات کا قرینہ ہے کہ سہیل نے جب یہ روایت بیان کی تھی حافظہ خراب ہوگیا تھا۔ اس سند کی مزید بھی رعلتیں بیان کی جا سکتیں ہیں لیکن متنبی قادیان کی الد الخصام پارٹی پر اتمام حجت کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔ ابو صہیب
(۳۳۲) تذکرۃ الشھادتین ص۳۳ وروحانی ص۳۵،۲۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آٹھویں دلیل مرزائیہ:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: قولوا خاتم النبیین ولا تقولوا لا نبی بعدہ یعنی خاتم النبیین کہو مگر لا نبی بعدہ نہ کہو (در مثنور)۔ (۳۳۳)
الجواب:
اس کا جواب گزر چکا ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ یہ بے سند قول ہے، اور حضرت عائشہ پر بہتان ہے، نیز مرزا صاحب بھی اس کی تائید فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ:
۱۔ '' حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا۔'' (۳۳۴)
۲۔ ولکن رسول اللّٰہ وخاتم النبیین وفسرہ نبینا ﷺ فی قولہ لا نبی بعدی۔(۳۳۵)
مندرجہ بالا حوالہ جات سے ثابت ہوا لا نبی بعدی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر ہے، لہٰذا کسی کے واسطے جائز نہیں کہ فرمان رسول کے آگے چون و چرا کرے، اور ایسا قول پیش کرے جس کی سند کا حال بھی معلوم نہیں، مگر مرزائی دنیا کے اصول نرالے ہیں کہ مجہول الاسناد قول صحابی کی بناء پر صحیحین کی قوی الاسناد مرفوع حدیث کو بھی رد کیا جاتا ہے۔
اعتراض:
تعلیقات بخاری بغیر سند منقول ہیں ان کی سند بتاؤ۔
الجواب:
حافظ ابن حجر مصنف فتح الباری نے اس بارہ میں ایک الگ کتاب تصنیف کی جس کا نام تغلیق التعلیق ہے اس میں تعلیقات صحیح بخاری کو موصول کیا ہے۔
اس کے بعد مرزائی بعض صوفیاء کے اقوال پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر تشریعی نبوت جاری ہے، یہ اصولاً غلط ہے، قرآن و حدیث کی صریح نص کے بعد ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں رہتی۔ چنانچہ مرزا صاحب اپنی کتاب مواہب الرحمن ص۷۹ پر فرماتے ہیں۔
'' ہم کسی بصری یا مصری پر ایمان نہیں لائے، ہم تو قرآن شریف اور نبی معصوم کی حدیث صحیح مرفوع متصل پر ایمان لائے ہیں، پس ان دونوں کے بعد لائق نہیں کہ ھل من مزید کہا جائے۔''(۳۳۶) (ملخصاً و مترجماً)
پس جب قرآن مجید و احادیث صحیحہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ثابت ہوچکا ہے تو بموجب قول مرزا صاحب کسی کو حق نہیں کہ کسی امتی کی بات پر کان دھرے ۔
وَاٰخِرُ دَعْوٰینَا اَنِ الْحمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰالِمیْنَ۔
------------------------------------------
(۳۳۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۲، نوٹ : اس روایت کی سند پر تفصیل کے لیے باب ہذا کا حاشیہ نمبر ۹۶ دیکھئے، ابو صہیب
(۳۳۴) کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۷، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۱۵۸، ج۷
(۳۳۵) حمامۃ البشرٰی ص۲۰ و روحانی ص۲۰۰، ج۷ و تفسیر مرزا ص۵۶، ج۷
(۳۳۶) مواہب الرحمان ص۷۹ و روحانی ص۲۹۸، ج۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اقوال، مرزا متعلقہ ختم نبوت

۱۔ مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّیْنَ۔ '' یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد کا باپ نہیں، مگر وہ رسول اللہ ہے اور ختم کرنے والا نبیوں کا۔''(۳۳۷)
۲۔ یہی آیت لکھ کر مرزا صاحب فرماتے ہیں: اَلَا تَعْلَمْ اَنَّ الرَّبَّ الرَّحِیْمَ الْمُتَفَضِّلَ سَمّٰی نَبِیَّنَا ﷺ خَاتَمَ الْاَنْبِیَائِ بِغَیْرِ اسْتِثْنَائٍ وَفَسَّرَہٗ نَبِیُّنَا ﷺ فِیْ قَوْلِہٖ لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ(۳۳۸) ۔ کیا نہیں جانتے کہ خدا کریم و رحیم نے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر کسی استثنا کے خاتم الانبیاء قرار دیا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور تفسیر آیت مذکور فرمایا ہے کہ ''لَا نَبِیَّ بَعْدِیْ '' یعنی میرے بعد کوئی نبی نہیں۔ (حمامۃ البشریٰ)
۳۔ جاننا چاہیے کہ خدائے تعالیٰ نے تمام نبوتوں اور رسالتوں کو قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم کردیا ہے۔ (۳۳۹)
۴۔ محی الدین ابن عربی نے لکھا ہے کہ نبوت تشریعی جائز نہیں دوسری جائز ہے مگر میرا اپنا یہ مذہب ہے کہ ہر قسم کی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ (۳۴۰)
۵۔ حدیث لا نبی بعدی بھی (لا) نفی عام پس یہ کس قدر دلیری اور گستاخی ہے کہ خیالات رکیکہ کی پیروی کرکے نصوص صریحہ قرآن کو عمداً چھوڑ دیا جاوے اور خاتم الانبیاء کے بعد ایک نبی کا آنا مان لیا جاوے۔ (۳۴۱)
۶۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار فرما دیا تھا کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، اور حدیث لا نبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کلام نہ تھا، اور قرآن شریف جس کا لفظ لفظ قطعی ہے اپنی آیت ولکن رسول اللہ وخاتم النبیین سے بھی اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فی الحقیقت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوچکی ہے۔(۳۴۲)
۷۔ ہر ایک دانا سمجھ سکتا ہے کہ اگر خدا تعالیٰ صادق الوعد ہے اور جو آیت خاتم النبیین میں وعدہ دیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے اور جو حدیثوں میں بتصریح بیان کیا گیا ہے کہ اب جبرائیل بعد وفات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ کے لیے وحی نبوت لانے سے منع کیا گیا ہے یہ تمام باتیں سچ اور صحیح ہیں، تو پھر کوئی شخص بحیثیت رسالت ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہرگز نہیں آسکتا۔ (۳۴۴)
۸۔ قرآن کریم بعد '' خاتم النبیین'' کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا، خواہ نیا ہو یا پرانا کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے۔ اور باب نزول جبرائیل پہ پیرا یہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود متمنع ہے کہ رسول تو آوے مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔ (۳۴۵)
۹۔ میں ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں اور جیسا کہ سنت جماعت کا عقیدہ ہے، ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن و حدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا و مولانا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت حضرت آدم صفی اللہ سے شروع ہوئی، اور جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی۔ (۳۴۶)
۱۰۔ اور خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ میں مسلمان ہوں اور ان سب عقائد پر ایمان رکھتا ہوں۔ جو اہل سنت والجماعت مانتے ہیں اور کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا قائل ہوں اور قبلہ کی طرف نماز پڑھتا ہوں اور نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں۔ (۳۴۷)
----------------------------------------------------------------
(۳۳۷) ازالہ اوہام ص۶۱۴ و روحانی ص۴۳۱، ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲، ج۷
(۳۳۸) حمامۃ البشرٰی ص۲۰ و روحانی ص۲۰۰، ج۷ و تفسیر مرزا ص۵۶، ج۷
(۳۳۹) مکتوب مرزا مورخہ ۷؍اگست ۱۸۹۹ء بنام نواب محمد علی خاں، مندرجہ الحکم جلد ۳ نمبر ۲۹ مورخہ ۱۷؍ اگست ۱۸۹۹ء ص۶ و مکتوبات احمدیہ ص۱۰۳، ج۵ نمبر ۴ و مجدد اعظم ص۸۰۲، ج۲ والنبوۃ فی الاسلام ص۳۴۳ و قمر الھدٰی ص۳۳
(۳۴۰) البدر جلد ۲ نمبر ۱۳ مورخہ ۱۰؍ اپریل ۱۹۰۳ء ص۱۰۲ و حاشیہ ملفوظات مرزا ص۲۵۴، ج۳ و قمر الھدٰی ص۲۴۲
(۳۴۱) ایام الصلح ص۱۴۶ و روحانی ص۳۹۳، ج۱۴
(۳۴۲) حاشیہ کتاب البریہ ص۱۸۴ و روحانی ص۲۱۷، ج۱۳ و تفسیر مرزا ص۵۸، ج۷
(۳۴۴) ازالہ اوہام ص۵۷۷ و روحانی ص۴۱۲، ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۱، ج۷
(۳۴۵) ایضاً ص۷۶۱ و روحانی ص۵۱۱، ج۳ و تفسیر مرزا ص۵۲، ج۷
(۳۴۶) اشتہار مرزا مورخہ ۲؍ اکتوبر ۱۹۹۱ء مندرجہ مجموعہ اشتھارات ص۲۳۱، ج۱
(۳۴۷) آسمانی فیصلہ ص۲ و روحانی ص۳۱۳، ج۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
۱۱۔ نہ مجھے دعویٰ و خروج از امت اور نہ میں منکر معجزات و ملائک اور نہ لیلۃ القدر سے انکاری ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبیین ہونے کا قائل اور یقین کامل سے جانتا ہوں اور اس بات پر محکم ایمان رکھتا ہوںکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ اور آنجناب کے بعد اس امت کے لیے کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (۳۴۸)
۱۲۔ اور اسلامی اعتقاد ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ (۳۴۹)
۱۳۔ نبوت کا دعوی نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا کے حکم سے کیا گیا ہے۔ (۳۵۰)
۱۴۔ اور اس جگہ میری نسبت کلام الٰہی میں رسول اور نبی کا لفظ اختیار کیا گیا ہے کہ یہ رسول اور نبی اللہ ہے یہ اطلاق مجاز اور استعارہ کے طور پر ہے۔ (۳۵۱)
۱۵۔ اپنے مسلمان بھائیوں کی دلجوئی کے لیے اس لفظ کو دوسرے پیرا یہ میں بیان کرنے میں کیا عذر ہوسکتا ہے سو دوسرا پیرایہ یہ ہے کہ بجائے لفظ نبی کے محدث کا ہر ایک جگہ سمجھ لیں۔ اور اس کو (یعنی لفظ نبی کو) کاٹا ہوا خیال فرمالیں۔ (۳۵۲)
۱۶۔ اللہ تعالیٰ وہ ذات ہے جو رب العالمین اور رحمن اور رحیم ہے جس نے زمین اور آسمان کو چھ دن میں بنایا۔ اور آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور رسول بھیجے اور کتابیں بھیجیں اور سب سے آخر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا جو خاتم الانبیاء اور خیر الرسل تھے۔ (۳۵۳)
۱۷۔ ختم المرسلین کے بعد کسی دوسرے مدعی نبوت کو کاذب اور کافر جانتا ہوں۔ (۳۵۴)
۱۸۔ ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ (۳۵۵)
۱۹۔ بیعت کرنے والے کے لیے ان عقائد کا ہونا ضروری ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول برحق اور قرآن شریف منجانب اللہ کتاب اور جامع الکتب ہے کوئی نئی شریعت اب نہیں آسکتی اور نہ کوئی نیا رسول آسکتا ہے مگر ولایت اور امامت اور خلافت کی ہمیشہ قیامت تک راہیں کھلی ہیں، اور جس قدر مہدی دنیا میں آئے یا آئیں گے۔ ان کا شمار خاص اللہ جل شانہ کو معلوم ہے وحی رسالت ختم ہوگئی مگر ولایت و امامت و خلافت کبھی ختم نہ ہوگی۔ (۳۵۶)
۲۰۔ وَیَقُوْلُوْنَ اِنَّ ھٰذَا الرَّجُلَ لَا یُؤْمِنُ بِالْمَلَائِکَۃِ وَلَا یَعْتَقِدَ بِاَنَّ مُحَمَّدًا ﷺ خَاتِمُ الْاَنْبِیَائِ وَمُنْتَھی الْمُرْسَلِیْنَ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ وَھُوَ خَاتَمُ النَّبِّیْنَ فَھٰذَا کُلَّھَا مُفْتَریَاتُ وَّتَحْرِیْفَاتٌ سُبْحَانَ رَبی مَا تُکَلِّمْتُ مِثْلَ ھٰذَا اِنَ ھُوَ اِلاَّ کَذِبٌ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ اَنھُمْ مِنَ الدَّجَّالِیْنَ۔(۳۵۷)
'' اور کہتے ہیں کہ یہ شخص ملائکہ کو نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء نہیں مانتا، حالانکہ ان کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور وہی خاتم الانبیاء ہیں، پس یہ سب مفتریات اور تحریفات ہیں۔ پاک ذات ہے میرا رب میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی اور یہ سراسر جھوٹ اور کذب ہے اور اللہ جانتا ہے کہ یہ لوگ (آنحضرت کے بعد کسی کو نبی ماننے والے) دجال ہیں۔''
۲۱۔ اے لوگو! اے مسلمانوں کی ذریت کہلانے وال! دشمن قرآن نہ بنو اور خاتم النبیین کے بعد وحی نبوت کا نیا سلسلہ جاری نہ کرو اور اس خدا سے شرم کرو جس کے سامنے حاضر کئے جاؤ گے۔ (۳۵۸)
-----------------------------------
(۳۴۸) نشان آسمانی ص۳۰ و روحانی ص۳۹۰ ، ج۴
(۳۴۹) کشف الغطاء ص۲۵ و روحانی ص۲۱۲، ج۱۴ و حاشیہ راز حقیقت ص۱۶ و روحانی ص۱۶۸، ج۱۴
(۳۵۰) ازالہ اوہام ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۰، ج۳
(۳۵۱) حاشیہ اربعین نمبر ۳، ص۲۵ و روحانی ص۴۱۳، ج۱۷
(۳۵۲) اشتہار مرزا مورخہ ۳؍ فروری ۱۸۹۲ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۳۱۴، ج۱ و تبلیغ رسالت ص۹۵، ج۲ و حیات احمد ص۲۱۷، ج۳ و حیات طیبہ ص۱۴۲ و مجدد اعظم ص۳۳۰، ج۱
(۳۵۳) حقیقت الوحی ص۱۴۱ و روحانی ص۱۴۵، ج۲۲ و تفسیر مرزا ص۱۵۴، ج۲
(۳۵۴) اشتہار مرزا مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۳۰، ج۲
(۳۵۵) اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍ شعبان ۱۳۱۴ھ مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۲۹۷، ج۲
(۳۵۶) مکتوب مرزا مندرجہ مکتوبات احمد بحوالہ و بدر جلد ۲ نمبر ۴۴ مورخہ ۱۴؍ جون ۱۹۰۶ء و قمر الھدٰی ص۱۷۱
(۳۵۷) حمامۃ البشرٰی ص۹ و روحانی ص۱۸۵، ج۷
(۳۵۸) آسمانی فیصلہ ص۲۵ و روحانی ص۳۳۵، ج۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے ان سب حوالہ جات سے یہ امور ثابت ہیں:
۱۔ نبوت و رسالت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوگئی۔
۲۔ آپ کے بعد کوئی شخص نبی اور رسول نہیں ہوسکتا۔
۳۔ ایسا مدعی نبوت کاذب۔ کافر نبی بے دین۔ دائرہ اسلام سے خارج ملعون خسر الدنیا والآخرہ۔ بدبخت۔ مفتری اور دجال ہے۔
یہ سب مرزا صاحب کے اقوال ہیں اور ہم بھی ان پر صاد کرتے ہیں۔
اعتراض:
اگر مرزا صاحب نے نبوت کا دعویٰ نہیں کیا تھا تو علماء نے ان پر کفر کا فتویٰ کیوں لگایا۔
الجواب:
علماء کے فتویٰ کا ذکر نہیں بلکہ مرزا صاحب کے اپنے فتویٰ کا ذکر ہے کہ اگر وہ ان تصریحات کے بعد نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں تو وہ بموجب اپنے فتویٰ کے کافر، لعنتی، خارج از اسلام، بے ایمان ہیں اور اگر آپ ان کو مدعی نبوت اور نبی جانتے ہیں تو آپ ان کو اسی فتویٰ کا مصداق گردانتے ہیں۔
اعتراض:
یہ اقوال وحی نبوت سے قبل کے ہیں۔
الجواب:
یہ بھی چند وجوہ سے درست نہیں۔ اول اس لیے کہ ان ایام میں بھی مرزا صاحب۔ صاحب الہامات تھے اور کہتے تھے کہ اس الہام میں میرا نام خدا نے رسول رکھا ہے(۳۵۹) ۔ اور اس کی نظیر انبیائے سابقین میں پائی نہیں جاتی کہ ایک شخص کو خدائے تعالیٰ بذریعہ الہام رسول کہے اور وہ سالہا سال تک ایسے قول و دعویٰ کو کفر و بے ایمانی مانتا رہے۔ اور پھر بھی خدا اس کو الہامات کے ذریعہ سے بار بار کہتا رہے کہ تو رسول ہے۔
دوم: اس لیے کہ آپ کا یہ عذر آپ کی ۲۳ سال سے زائدہ زندہ رہنے والی دلیل کے خلاف ہے کیونکہ اس میں آپ ان الہامات کے زمانے کو داخل رسالت کرتے ہیں۔ اور اس عذر میں اس زمانے کو نبوت سے خارج بتاتے ہیں۔
--------------------------------------
(۳۵۹) ایام الصلح ص۷۵ و روحانی ص۳۰۹، ج۱۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مجھے یونس بن متی پر فضیلت نہ دو اور یہ بھی فرمایا کہ میں اولاد آدم کا سردار ہوں اور پہلے آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے پھر جب حکم آگیا تو بیت اللہ کی طرف پڑھنے لگے۔
الجواب:
بیت المقدس کی منسوخی کا عذر بھی ناواقفی کی وجہ سے ہے۔ قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا عملیات میں سے ہے۔ جن کا نسخ جائز ہے لیکن رسالت عقائد و ایمانیات میں سے ہے۔ اور ایمان و عقائد کا نسخ جائز نہیں۔ حضرت یونس کی فضیلت والی حدیث بھی آپ نے یونہی پیش کردی یہ تو دیکھ لیا ہو تاکہ مرزا صاحب اس کے متعلق کیا فرما گئے ہیں کہ:
'' یا تو یہ حدیث ضعیف ہے یا کسر نفسی اور تواضع پر محمول ہے۔'' (۳۶۰)
پس بموجب قول مرزا صاحب یہ قول آپ کا باطل ٹھہرا۔
-----------------------------------
(۳۶۰) آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۳ و روحانی ص۱۶۳، ج۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مسئلہ ختم نبوت میں مرزا صاحب کی دو رنگی

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے منافقوں کی مذمت کی۔ وجہ یہ کہ وہ مسلمانوں سے ملتے تو کہتے ہم ایمان لائے وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیٰطِیْنِھمْ(۳۶۱) جب اپنے دوستوں کی طرف جاتے تو کہتے کہ ہم تو مسلمانوں سے ٹھٹھا کرتے ہیں بعض یوں ہی مسلمانوں کو بہکانے کے لیے مسلمان بنے رہتے اور وسوسے ڈالتے رہتے۔
بعینہٖ یہی مثال مرزا صاحب کی ہے جب انہیں معززین اسلام سے واسطہ پڑتا۔ یا عوام کی ہمدردی حاصل کرنا مطلوب ہوتی۔ تو کہتے کہ میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں اور جب اپنے حلقۂ ارادت میں ہوتے تو دماغ عرش اعلیٰ پر چڑھ جاتا۔ پھر تو وہ دعا دی کرتے کہ مسیلمہ کذاب کو بھی نہ سوجھتے ہوں گے۔ اس دو رنگی کی بنا پر مرزائیوں کی دو پارٹیاں ہو رہی ہیں لاہوری مرزائی تو ان تحریرات سے متمسک ہیں، جن میں ختم نبوت کا اقرار اور مدعی نبوت پر فتویٰ کفر ہے۔ اور قادیانی اس کے مخالف تحریرات سے۔
چونکہ یہ فعل دراصل قدرت باری کے ماتحت مرزا صاحب سے صادر ہوا ہے یعنی:
'' خدا کا یہ فعل بھی دنیا میں پایا جاتا ہے کہ وہ بعض اوقات بے حیا سخت دل مجرموں کو سزا ان کے ہاتھ سے دلواتا ہے سو وہ لوگ اپنی ذلت اور تباہی کے سامان اپنے ہاتھ سے جمع کر لیتے ہیں۔'' (۳۶۲)
لہٰذا ہمارے ناظرین آگاہ رہیں اور قادیانی مرزائیوں کی اس چال میں نہ آئیں جو وہ کہا کرتے ہیں:
'' کہ جب مرزا صاحب مدعی نبوت تھے تو پھر ختم نبوت پر ان کی تحریرات کیوں پیش کرتے ہو۔ یا جب وہ ختم نبوت کے قائل تھے تو پھر ان پر علماء نے فتویٰ کفر کیوں لگایا۔''
اسی طرح لاہوری مرزائی دھوکا دیا کرتے ہیں کہ:
'' جب مسلمان خود مرزا صاحب کی تحریرات متعلقہ ختم نبوت سے مستدل ہوتے ہیں تو پھر انہیں مدعی نبوت کیوں کہتے ہیں، مرزا صاحب کا دعویٰ ہرگز نبوت نہیں تھا یہ ان پر افترا ہے۔''
چونکہ ہماری گیارہویں دلیل کذب مرزا پر ختم نبوت کا مسئلہ قادیانیوں کے مقابلہ پر ہے اور لاہوری اس میں ہمارے ساتھ متفق ہیں اس لیے ہم اپنی گیارہویں دلیل کو مکمل کرنے کے لیے لاہوری مرزائیوں کے مقابلہ میں مرزا صاحب کا دعویٰ نبوت اور انکار ختم نبوت ثابت کرتے ہیں۔
-------------------------------------------
(۳۶۱) پ۱ البقرہ نمبر ۱۴
(۳۶۲) استفتاء ص۸ و روحانی ص۱۱۶، ج۱۲ حاشیہ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پہلی دلیل:
مرزا صاحب پر ایک سوال ہوا کہ جسے بمعہ جواب مرزا صاحب ہم درج ذیل کرتے ہیں۔ یہ تحریر مرزا صاحب کے دعویٰ نبوت پر قطعی فیصلہ کن دلیل ہے اس طرح کہ سائل کہتا ہے:
'' کہ آپ مرزا صاحب نے تریاق القلوب میں تو لکھا ہے کہ میں مسیح ابن مریم سے جزوی طور پر افضل ہوں اور جزوی فضیلت ایک غیر نبی کو (یعنی مجھ کو جو غیر نبی ہوں) ایک نبی (مسیح علیہ السلام ) پر ہوسکتی ہے بخلاف اس کے آپ نے ریویو جلد اول نمبر ۶ ص۲۵۷ میں لکھا ہے میں مسیح سے تمام شان میں بڑھ کر ہوں۔ حالانکہ خود تریاق القلوب کہ کی تحریر کی رو سے ایک غیر نبی کلی طور سے ایک نبی اللہ سے افضل نہیں ہوسکتا۔ ''
مرزا صاحب سائل کے جواب میں تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی میری ان ہر دو تحریرات میں اختلاف ہے (اس کا جواب یہ دیا ہے) ۔
'' کہ یہ اختلاف اس طرح کا ہے جس طرح میں نے براہین احمدیہ میں پہلے حیات مسیح کا عقیدہ لکھا تھا جو ایک رسمی عقیدہ تھا مگر بعد میں وحی الٰہی نے مجھے بتا دیا کہ مسیح فوت ہوچکا ہے لہٰذا میں نے پہلے عقیدہ کو چھوڑ دیا۔ ایسا ہی زیر بحث دو عبارتوں کا معاملہ ہے تریاق القلوب ۱۸۹۹ء تا ۱۹۰۲ء میرا عقیدہ تھا کہ میں غیر نبی ہوں مجھ کو مسیح سے کیا نسبت۔ اگر کچھ میری فضیلت کی وحی ہوتی تو میں اسے جزوی فضیلت قرار دیتا مگر بعد میں بارش کی طرح مجھ پر وحی نازل ہوئی اور صریح طور پر نبی علیہ السلام کا خطاب مجھے دیا گیا۔ لہٰذا اب میں مسیح سے تمام شان میں بڑھ گیا پس یہ اختلاف محض ظن اور یقین یا رسم اور وحی میں جو اختلاف ہوتا ہے اسی طرح کا ہے پہلے میں ظنی یا رسمی طور پر غیر نبی کہلاتا تھا بعد میں وحی یقینی نے مجھے نبی کا خطاب دے دیا لہٰذا میں نبی ہوگیا۔'' (۳۶۳)
لاہوری مرزائی کہا کرتے ہیں کہ مرزا صاحب نے حقیقۃ الوحی میں ''اوائل'' زمانہ کا حوالہ دیا ہے جو تریاق القلوب سے پہلے کا زمانہ ہے(۳۶۴) ۔ مطلب ان کا اس تحریف سے یہ ہے کہ مرزا صاحب کی ہر دو تحریرات میں اختلاف نہیں جو دعویٰ تریاق القلوب کے وقت تھا غیر نبی ہونے کا وہی حقیقۃ الوحی کے وقت انہوں نے کوئی جدید دعویٰ نہیں کیا۔
اس تحریف کا جواب خود حقیقۃ الوحی میں موجود ہے۔ مرزا صاحب تریاق القلوب کی عبارت اور ریویو کی عبارت میں تضاد تسلیم کرتے ہیں۔ اور اس کے جواب میں پہلی تحریر کو رسمی اور دوسری کو مبنی بروحی اللہ قرار دیتے ہیں۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ مرزا صاحب نے تریاق القلوب والے عقیدہ غیر نبی کے خلاف ریویو جلد اول میں کلی فضیلت جو دعویٰ نبوت کو لازم ہے کا اعادہ کیا ہے۔ اور یہی سائل کا سوال تھا۔
ناظرین کرام! اوپر کی تحریر سے صاف ثابت ہے کہ مرزا صاحب نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور پہلے عقیدہ کو رسمی قرار دیا۔ لہٰذا ہم پر واجب ہے کہ ہم مرزا صاحب کے اس دھوکا کو رد کردیں۔
سنئے! مرزا صاحب کا تریاق القلوب والا عقیدہ بھی خود ساختہ تھا اور حقیقت الوحی والا بھی من گھڑت۔ اصل بات وہی ہے کہ کبھی آپ مخالفین سے دب کر نبوت سے انکاری ہو جاتے تھے۔ اور کبھی مریدین کی جھوٹی خوشامدانہ باتوں کو سن کر بے تحاشا دوڑ اٹھتے اور نبوت و خدائی کے دوگونہ متضاد دعاوی کرتے۔ پھر بعد میں ان کی تاویلات کرتے رہتے۔
مرزا صاحب کا قول موجود ہے کہ براہین احمدیہ کے وقت بھی میں عند اللہ رسول و نبی اللہ تھا (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ) اور ان کا یہ بھی مذہب ہے کہ انبیاء کے جملہ اقوال و افعال، اجتہادات و استنباطات، خیال و آراء سب کی سب خدا کی وحی اس کے تصرف کے تحت اسی کے حکم سے ہوتے ہیں۔ نبی نہیں بولتا جب تک خدا نہ بلائے اور کام نہیں کرتا جب تک خدا نہ کرائے نبی کٹ پتلی کی طرح خدا کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ بلکہ مردہ کی طرح وہ جس طرف چاہتا ہے اسے پھیرتا رہتا ہے۔ نبی کی اپنی ہستی پر موت آجاتی ہے اس سے وہ طاقت ہی سلب کی جاتی ہے۔ جس سے وہ خدا کی مرضی کے خلاف کام کرے۔ (۳۶۵)
پس مرزا صاحب کا یہ کہنا کہ پہلے تریاق القلوب کے وقت جزوی فضیلت یا غیر نبی ہونے کا اعتقاد میرا ذاتی تھا جو رسمی تھا، اسی طرح حیات مسیح کا عقیدہ رسمی تھا۔ قطعاً جھوٹ اور فریب اور دھوکہ ہے۔ یا یہ بات جھوٹ ہے کہ آپ اس وقت نبی تھے یا یہ جھوٹ ہے کہ پہلا عقیدہ رسمی تھا۔
پھر اس سے بھی بڑھ کر ملاحظہ ہو کہ بقول مرزا صاحب ۱۹۰۳ء کے زمانہ میں بوقت ریویو جلد دوم۔ ان پر بوحی الٰہی کھل چکا تھا کہ تم مسیح سے بکلی افضل ہو، اور نبی اللہ ہو۔ جیسا کہ حقیقت الوحی میں لکھا ہے مگر مرزا صاحب کا جھوٹ اس سے ظاہر ہے کہ اسی حقیقت الوحی میں لکھ دیا کہ:
سُمِّیْتُ نَبِیًّا مِّنَ اللّٰہِ عَلٰی طَرِیْقِ الْمَجَازِ لَا عَلٰی وَجْہِ الْحَقِیْقَۃِ۔(۳۶۶)
'' خدانے میرا نام جو نبی رکھا ہے یہ محض مجازی رنگ میں ہے، حقیقی نبوت نہیں۔''
اسی طرح ۲۵ مئی ۱۹۰۸ء کا واقعہ اخبار بدرسے سنو! لکھا ہے:
'' ایک شخص سرحدی آیا بہت شوخی سے کلام کرنے لگا اس پر (مرزا جی نے) فرمایا میں نے اپنی طرف سے کوئی اپنا کلمہ نہیں بنایا نہ نماز علیحدہ بنائی۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کو دین و ایمان سمجھتا ہوں یہ نبوت کا لفظ جو اختیار کیا گیا ہے۔ صرف خدا کی طرف سے ہے جس شخص پر پیشگوئی کے طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی بات کا اظہار بکثرت ہو اسے نبی کہا جاتا ہے۔ خدا کا وجود خدا کے نشانوں کے ساتھ پہچانا جاتا ہے اسی لیے اولیاء اللہ بھیجے جاتے ہیں۔ مثنوی میں لکھا ہے آن نبی وقت باشد اے مرید محی الدین ابن عربی نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ حضرت مجدد نے بھی یہی عقیدہ ظاہر کیا ہے پس کیا سب کو کافر کہو گے یاد رکھو یہ سلسلہ نبوت قیامت تک جاری ہے۔''(۳۶۷)
ناظرین کرام! یہ تحریرات صاف صاف مظہر ہیں کہ باوجود بارش کی طرح وحی ہونے اور صریح طور پر نبی کا خطاب ملنے اور مسیح پر کلی فضیلت کا دعویٰ کرنے کے بھی مرزا صاحب محض مجازی نبی تھے اور صرف اولیاء اللہ کی طرح تھے۔ محی الدین ابن عربی کی کتاب فتوحات مکیہ اور حضرت مجدد رحمہ اللہ صاحب کے مکتوبات نکال کر دیکھ لیں وہاں نبوت، ولایت اور محدثیت کا تذکرہ موجود ہے، مجدد صاحب کی تحریرات تو خود مرزا صاحب نے بھی نقل کی ہیں کہ جس پر بکثرت اظہار غیب ہو اسے محدث کہا جاتا ہے۔ (۳۶۸)
پس جبکہ تریاق القلوب بلکہ اس سے پہلے توضیح المرام وغیرہ کے وقت مرزا صاحب کا دعویٰ محدثیت کا اور مجازی نبوت کا تھا۔ اور یہی دعویٰ آخر زمانہ میں بھی بلا کمی و بیشی موجود ہے۔ تو پھر حقیقۃ الوحی میں سائل کو دھوکا دینا کہ تریاق القلوب کے وقت میرا اور عقیدہ تھا اب اور ہے کیا یہ کسی راست باز کا قول ہوسکتا ہے ۔ صَدَقَ اللّٰہُ رَسُوْلُ اللّٰہ ﷺ وَسَلَّمَ لَا تَقُوْمُ السَّاعَۃُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ کُلُّھُمْ یَزْعُمُ اَنَّہٗ رَسُوْلُ اللّٰہِ۔(۳۶۹)
--------------------------------------------------------
(۳۶۳) حقیقت الوحی ص۱۴۸ تا ۱۵۰ و روحانی ص۱۵۲ تا ۱۵۴، ج۲۲ ملخصًا
(۳۶۴) النبوۃ فی الاسلام ص۲۶۲
(۳۶۵) مفہوم ریویو ص۷۱،۷۲، ج۲ ، ۱۹۰۳ء
(۳۶۶) ضمیمہ حقیقت الوحی ص۶۵ و روحانی ص۶۸۹، ج۲۲
(۳۶۷) بدر جلد ۷ نمبر ۲۳ مورخہ ۱۰؍ جون ۱۹۰۸ء ص۷ و ملفوظات مرزا ص۶۸۹، ج۵ و حقیقت النبوۃ ص۲۷۳ و مجدد اعظم ص۱۲۰۴، ج۲ اللفظ لہ
(۳۶۸) حاشیہ در حاشیہ براھین احمدیہ ص۵۴۶، ج۴ و روحانی ص۶۵۲،ج۱ وازالہ اوہام ص۹۱۵ و روحانی ص۶۰۰، ج۳ و تحفہ بغداد ص۲۱ و روحانی ص۲۸، ج۷
(۳۶۹) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۱۰۵۴ ج ۲ کتاب الفتن باب حدثنا مسدد و مسلم فی الصحیح ص۳۹۷، ج۲ کتاب الفتن باب قولہ صلی اللہ علیہ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریباً من ثلثین
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دوسری دلیل:
یہ ہے کہ مرزا صاحب نے اربعین نمبر ۴ میں لکھا ہے کہ آیت لَوْ تَقَوَّلَ عَلَیْنَا بَعْضَ الْاَتَاوِیْلِ انبیاء کے متعلق ہے یعنی جو شخص مدعی نبوت خدا پر جھوٹ باندھے وہ مارا جاتا ہے۔ مگر میں نہیں مارا گیا۔ لہٰذا میں صادق ہوں۔ (۳۷۰)
نتیجہ ظاہر ہے کہ مرزا صاحب مدعی نبوت تھے۔ اگر وہ مدعی نبوت نہ ہوتے تو اس آیت سے جو بقول ان کے صرف وحی نبوت کے بارے میں ہے کیوں استدلال کرتے ہیں۔
----------------------------
(۳۷۰) ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ ص۱۱ و روحانی ص۴۷۷، ج۱۷ و تفسیر مرزا ص۲۱۴، ج۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری دلیل:
مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' سو خدا کی یہ اصطلاح جو کثرت مکالمات ومخاطبات کا نام اس نے نبوت رکھا ہے۔''(۳۷۱)
معلوم ہوا کہ خدا کی اصطلاح میں نبی اس کو کہتے ہیں جس پر بکثرت غیب کا اظہار ہو۔ ایسا ہی بقول مرزا صاحب کے قرآن کی بھی یہی اصطلاح ہے (اشتہار ایک غلطی کا ازالہ) آئیے اب دیکھیں کہ کیا مرزا صاحب نے قرآن اور خدا کے فرمان سے اپنے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے؟ سو ملاحظہ ہو مرزا صاحب راقم ہیں:
وَمَا کُنَّا مُعَذِّبِیْنَ حَتّٰی نَبْعَثَ رَسُوْلاً۔
'' پھر جس حالت میں چھوٹے چھوٹے عذابوں کے وقت رسول آئے ہیں تو پھر کیونکر ممکن ہے کہ اس عظیم الشان عذاب کے وقت جو آخری زمانہ کا عذاب ہے خدا کی طرف سے رسول ظاہر نہ ہو۔ اس سے تو صریح تکذیب کلام اللہ کی لازم آتی ہے پس وہی رسول مسیح موعود (خود بدولت) ہے۔'' (۳۷۲)
ایسا ہی (ص۵۲، ۵۳،۶۵) تتمہ حقیقۃ الوحی (ص۱۶۱) حقیقۃ الوحی پر آیات قرآنیہ سے اپنی نبوت پر استدلال کیا ہے اسی طرح (ص۶۷) تتمہ حقیقۃ الوحی پر آیت وَاٰخَرِیْنَ مِنْھُمْ لَمَّا یَلْحَقُوْا بِھْمِ سے اپنے نبی ہونے پر تمسک کیا ہے ایسا ہی بہت سی آیات قرآنیہ سے مختلف کتب میں اپنی نبوت پر دلیل پکڑی ہے(۳۷۳) ۔ پس ثابت ہوا کہ آپ کا دعویٰ ان مقاموں میں اسی قسم کی نبوت کا تھا۔ جو خدا اور قرآن کے نزدیک تعریف نبوت ہے یعنی:
'' حسب تصریح قرآن رسول اسی کو کہتے ہیں جس نے احکام و عقائد دین جبرائیل کے ذریعہ سے حاصل کئے ہوں۔'' (۳۷۴)
لاہوری احمدی یاد رکھیں کہ مرزا صاحب نے آیات قرآن و اصطلاحات قرآن و خدا کے مطابق دعویٰ نبوت پیش کیا ہے۔ لہٰذا:
'' اصطلاحی امور میں لغت کی طرف رجوع کرنا حماقت ہے۔'' (۳۷۵)
-------------------------------------------
(۳۷۱) چشمہ معرفت ص۳۲۵ و روحانی ص۳۴۱، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۷۰، ج۷
(۳۷۲) تتممہ حقیقت الوحی ص۶۴ و روحانی ص۵۹۹، ج۲۲ و تفسیر مرزا ص۷۰،ج۵
(۳۷۳) مذکورہ حوالہ جات، حقیقت الوحی، ایڈیشن اول کے ہیں جو کہ درست ہیں ، مزید تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر مرزا ص۲۰۱، ج۵، ص۱۲۷ تا ۱۵۱، ج۸ ، ص۲۷۱ تا ۳۲۹، ج۶۔ ابو صہیب
(۳۷۴) ازالہ اوہام ص۵۳۴ و روحانی ص۳۸۷، ج۳
(۳۷۵) ایضًا ص۵۳۸ و روحانی ص۳۸۹، ج۳
 
Top