- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
پانچویں دلیل:
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)
اعتراض:
رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ (۶۰)
جواب:
وعدہ بلا توقف و بجلد رفع کا تھا(۶۱)۔ اگر آپ کے معنی صحیح ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ مسیح اسی وقت عزت کے ساتھ مر گیا تھا اور کون نہیں جانتا کہ یہ یہود کی تائید ہے۔ چونکہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام اس زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کو بھی اقرار ہے(۶۲)۔ لہٰذا اس وقت جو رفع ہوا وہ یقینا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔
اس کے علاوہ رفع کے معنی عزت کی موت لینے نہ صرف بوجہ تمام کتب لغت کے خلاف ہونے کے مردود ہیں۔ بلکہ اس میں یہ نقص ہے کہ کلام ربانی درجہ فصاحت سے گر جاتا ہے کیونکہ رَفَعَہُ اللّٰہُ کے پہلے مُتَوَفِّیْکَ کا وعدہ موجود ہے اور توفی کے معنی جیسا کہ ہم کتب عربیہ اور تحریرات مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کسی چیز کو پورا لینے کے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ زندہ اٹھا لیا۔ پھر ساتھ ہی یہ کہنا کہ عزت کی موت دے کر اٹھا لیا۔ یہ متضاد کلام خدا کی شان سے بعید ہے۔ اگر کہا جائے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی بھی موت ہیں تو بھی خلافِ فصاحت ہے کیونکہ جو بات ایک لفظ سے ادا ہوسکتی تھی اس کو دو فقرں میں بیان کرنا بھی شانِ بلاغت پر دھبہ ہے۔ حاصل یہ کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو مار دیا۔ ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں مار تو دیا تھا۔ مگر یہ عزت کی موت ہے۔ یہود کی تردید نہیں بلکہ تصدیق ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اس عقیدہ کو لعنتی قرار دیتا ہے۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں '' ہ''کی ضمیر مسیح مع الجسم کی طرف نہیں۔ مراد یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی روح کو اٹھا لیا۔ (۶۳)
الجواب:
اس میں بھی وہی نقص ہے جو اوپر مذکور ہوچکا یعنی ایسا کہنا یہود پلید کی موافقت ہے۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو مسجدوں کے درمیان دعا مانگتے تھے کہ خدایا میرا رفع کر، اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ متواضع بندے کا رفع ہو جاتا ہے۔ (۶۴)
الجواب:
چونکہ رفع کے پہلے تو فی کا ذکر ہے اور توفی کے معنی حسب زبان عرب و اقرار مرزا ''پورا لینے'' کے ہیں۔ اس لیے اگر رفع کے معنی بفرض محال بلندی درجات بھی لیے جائیں تو ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مسیح بمعہ جسم آسمان پر اٹھایا گیا جیسا کہ مُتَوَفِّیْکَ کا منشا ہے جس سے اس کا مرتبہ بھی بلند ہوگیا۔
اگر توفی کے معنی موت لے کر فع درجات مراد لیا جائے۔ تو یہ یہود کی مطابقت ہے کیونکہ وعدہ بلا ''توقف و بجلد'' توفی اور رفع کا تھا۔ جو یقینا اسی وقت پورا ہوگیا۔ پس رفع کے معنی موت نہیں بلکہ زندہ اٹھانا ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں خدا کی طرف اٹھانا مرقوم ہے۔ آسمان کا کہاں ذکر ہے؟(۶۵)
الجواب:
خدا کے لیے فوق وعلو ہے۔ انہی معنوں سے قرآن میں کہا گیا ہے { ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ ... اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا۔ الاٰیۃ}(۶۶) کیا تم خدا سے نڈر ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے کیا تم اس ذات سے خوف نہیں کرتے جو آسمان پر ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر ہواؤں سے پتھراؤ کردے۔
ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے { قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ}(۶۷) البتہ ہم دیکھتے ہیں تیرا آسمانوں کی طرف منہ کرنا۔ سو ہم تجھے اسی قبلے کی طرف پھیریں گے۔ جدھر تیری خواہش ہے۔ (بقرہ ، پ۲، ع۱)
اسی طرح خود مرزا صاحب نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں:
'' قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔'' (۶۸)
اس تحریر میں بعبارۃ النص رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان پر اٹھایا جانا موجود ہے باقی رہا یہ امر کہ مرزا صاحب نے روح کا اٹھایا جانا لکھا ہے۔ سو اس کا ردہم سابقاً کر آئے ہیں کہ یہ معنی یہود کی سرشت سے نکلے ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں مسیح کا زندہ خدا کی طرف اٹھایا جانا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لفظ '' الیٰ'' غایت انتہا کے لیے آتا ہے۔ کیا حضرت مسیح علیہ السلام بلا فاصلہ خدا کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں؟ (۶۹)
جواب:
رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہیں۔ جیسا کہ خود مرزا صاحب نے بھی آسمان کی تصریح کی ہے۔ اگر اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔ یعنی پاک روحیں خدا کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح ان کا رفع کرتا ہے۔'' (۷۰)
کیوں جناب! یہ روحیں جو خدا کی طرف صعود کرتی ہیں۔ کیا خدا کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں یا درمیان میں کچھ فاصلہ ہوتا ہے۔ فَمَا جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔
------------------------------------------------------------------
(۵۴) پ۶ النساء : ۱۵۷،۱۵۸
(۵۵) پ ۳ اٰل عمران : ۵۵
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ص۴۶ ، ج۵
(۵۷) براھین احمدیہ ص۴۲، ج۵ و روحانی ص۵۳، ج۲۱ و تفسیر مرزا ص۳۰۸، ج۳
(۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۳
(۵۹) ازالہ اوہام ص۵۹۹ و روحانی ص۳۲۳، ج۳ وتفسیر مرزا ص۳۲۷،ج۳
(۶۰) ایضاً
(۶۱) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ۴۶ ، ج۵
(۶۲) اعجاز احمدی ص۱۳ و کتاب البریہ ص۲ وراز حقیقت ص۱۲ وایام الصلح ص۱۱۱ و مسیح ہندوستان میں ص۱۷،۴۹ و حقیقت الوحی ص۳۶ و تحفہ گولڑویہ ص۱۴۱ وبراھین احمدیہ ص۴۱،ج۵ و حمامۃ البشریٰ ص۵۶ و تفسیر مرزا ص۳۱۶،ج۳ تلک عشرۃ کاملۃ۔ ابو صہیب
(۶۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۴
(۶۴) ایضاً ص۳۷۷
(۶۵) ایضاً ص۳۷۷
(۶۶) پ۲۹ ملک : ۱۶
(۶۷) پ۲ البقرہ : ۱۴۴
(۶۸) ازالہ اوہام ص۲۶۴ و روحانی ص۳۳۳، ج۳
(۶۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۵
قَوْلِھِمُ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ وَمَا قَتَلُوْہُ وَمَا صَلَبُوْہُ وَلٰکِنْ شُبِّہَ لَھُمْ وان الذین اختلفوا فیہ لفی شک منہ مالھم بہ من علم الا اتباع الظن وَمَا قَتْلُوْہُ یَقِیْنًا۔ بَلْ رَفَعَ اللّٰہُ اِلَیْہِ وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا۔(۵۴)
یہود پر لعنت پڑنے کا ایک سبب ان کا یہ قول ہے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام ابن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا۔ حالانکہ نہیں قتل کیا اس کو اور نہ صلیب پر چڑھایا اس کو۔ لیکن انہوں نے قتل کیا اور صلیب دیا اس شخص کو جو ان کے لیے مسیح کی شکل بنایا گیا۔ یقینا انہوں نے مسیح کو قتل نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی طرف اٹھا لیا اور اللہ تعالیٰ غالب حکمت والا ہے۔
آیت { اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ}(۵۵) میں جس بات کا بلا توقف وعدہ تھا اس کا ایفا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔(۵۶) چونکہ بظاہر یہ کام بڑا خارق عادت معلوم ہوتا ہے اس لیے ساتھ فرما دیا کہ تعجب نہ کرو یہ زبردست حکمت والے خدا کا فعل ہے جس کے نزدیک کوئی بات مشکل نہیں۔
نوٹ: اس آیت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے جو زندہ رسول تھا۔ خدا نے اسی کا رفع فرمایا ہے۔ پس یہ کہنا کہ رفع سے مراد روحانی رفع ہے(۵۷)۔ نظم قرآن کے صریح خلاف ہے۔
اعتراض:
آیت { بَلْ رَّفَعَہُ اللّٰہُ} میں لفظ '' بل'' ابطالیہ نہیں۔ نحویوں نے لکھا ہے کہ لفظ ''بل'' قرآن میں نہیں آسکتا۔ (۵۸)
الجواب:
پھر تو یہ مطلب ہوا کہ کافر یہود سچے ہیں جو کہتے تھے ہم نے مسیح کو قتل وغیرہ کردیا۔ اے جناب! تم نے خود بحوالہ کتب نحو لکھا ہے کہ '' جب خدا کفار کا قول نقل کرے تو بغرض تردید، اس میں ''بل'' آسکتا ہے۔''(ص۳۷۳) یہی معاملہ اس جگہ ہے۔
خود مرزا صاحب مانتے ہیں کہ اس جگہ لفظ بَلْ تردید قول کفار کے لیے ہے۔
'' مسیح مصلوب، مقتول ہو کر نہیں مرا بلکہ خدا تعالیٰ نے عزت کے ساتھ اس کو اپنی طرف اٹھا لیا۔'' (۵۹)
اعتراض:
رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔ (۶۰)
جواب:
وعدہ بلا توقف و بجلد رفع کا تھا(۶۱)۔ اگر آپ کے معنی صحیح ہوں تو مطلب یہ ہوا کہ مسیح اسی وقت عزت کے ساتھ مر گیا تھا اور کون نہیں جانتا کہ یہ یہود کی تائید ہے۔ چونکہ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام اس زمانے میں فوت نہیں ہوئے۔ جیسا کہ مرزا صاحب کو بھی اقرار ہے(۶۲)۔ لہٰذا اس وقت جو رفع ہوا وہ یقینا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا تھا۔
اس کے علاوہ رفع کے معنی عزت کی موت لینے نہ صرف بوجہ تمام کتب لغت کے خلاف ہونے کے مردود ہیں۔ بلکہ اس میں یہ نقص ہے کہ کلام ربانی درجہ فصاحت سے گر جاتا ہے کیونکہ رَفَعَہُ اللّٰہُ کے پہلے مُتَوَفِّیْکَ کا وعدہ موجود ہے اور توفی کے معنی جیسا کہ ہم کتب عربیہ اور تحریرات مرزا سے ثابت کر آئے ہیں کسی چیز کو پورا لینے کے ہیں۔ پس یہ کہنا کہ زندہ اٹھا لیا۔ پھر ساتھ ہی یہ کہنا کہ عزت کی موت دے کر اٹھا لیا۔ یہ متضاد کلام خدا کی شان سے بعید ہے۔ اگر کہا جائے کہ مُتَوَفِّیْکَ کے معنی بھی موت ہیں تو بھی خلافِ فصاحت ہے کیونکہ جو بات ایک لفظ سے ادا ہوسکتی تھی اس کو دو فقرں میں بیان کرنا بھی شانِ بلاغت پر دھبہ ہے۔ حاصل یہ کہ یہود کہتے تھے کہ ہم نے مسیح علیہ السلام کو مار دیا۔ ان کے جواب میں یہ کہنا کہ ہاں مار تو دیا تھا۔ مگر یہ عزت کی موت ہے۔ یہود کی تردید نہیں بلکہ تصدیق ہے حالانکہ خدا تعالیٰ اس عقیدہ کو لعنتی قرار دیتا ہے۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں '' ہ''کی ضمیر مسیح مع الجسم کی طرف نہیں۔ مراد یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام کی روح کو اٹھا لیا۔ (۶۳)
الجواب:
اس میں بھی وہی نقص ہے جو اوپر مذکور ہوچکا یعنی ایسا کہنا یہود پلید کی موافقت ہے۔
اعتراض:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دو مسجدوں کے درمیان دعا مانگتے تھے کہ خدایا میرا رفع کر، اسی طرح ایک حدیث میں آیا ہے کہ متواضع بندے کا رفع ہو جاتا ہے۔ (۶۴)
الجواب:
چونکہ رفع کے پہلے تو فی کا ذکر ہے اور توفی کے معنی حسب زبان عرب و اقرار مرزا ''پورا لینے'' کے ہیں۔ اس لیے اگر رفع کے معنی بفرض محال بلندی درجات بھی لیے جائیں تو ہمارے مدعا کے خلاف نہیں۔ کیونکہ اس صورت میں مطلب یہ ہوگا کہ مسیح بمعہ جسم آسمان پر اٹھایا گیا جیسا کہ مُتَوَفِّیْکَ کا منشا ہے جس سے اس کا مرتبہ بھی بلند ہوگیا۔
اگر توفی کے معنی موت لے کر فع درجات مراد لیا جائے۔ تو یہ یہود کی مطابقت ہے کیونکہ وعدہ بلا ''توقف و بجلد'' توفی اور رفع کا تھا۔ جو یقینا اسی وقت پورا ہوگیا۔ پس رفع کے معنی موت نہیں بلکہ زندہ اٹھانا ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں خدا کی طرف اٹھانا مرقوم ہے۔ آسمان کا کہاں ذکر ہے؟(۶۵)
الجواب:
خدا کے لیے فوق وعلو ہے۔ انہی معنوں سے قرآن میں کہا گیا ہے { ئَ اَمِنْتُمْ مَّنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یَّخْسِفَ بِکُمُ الْاَرْضَ ... اَمْ اَمِنْتُمْ مَنْ فِی السَّمَائِ اَنْ یُرْسِلَ عَلَیْکُمْ حَاصِبًا۔ الاٰیۃ}(۶۶) کیا تم خدا سے نڈر ہوگئے ہو جو آسمان پر ہے کیا تم اس ذات سے خوف نہیں کرتے جو آسمان پر ہے کہ تمہیں زمین میں دھنسا دے یا تم پر ہواؤں سے پتھراؤ کردے۔
ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انتظار وحی کے وقت آسمان کی طرف دیکھا کرتے تھے { قَدْ نَریٰ تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ}(۶۷) البتہ ہم دیکھتے ہیں تیرا آسمانوں کی طرف منہ کرنا۔ سو ہم تجھے اسی قبلے کی طرف پھیریں گے۔ جدھر تیری خواہش ہے۔ (بقرہ ، پ۲، ع۱)
اسی طرح خود مرزا صاحب نے رفعہ اللہ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا لکھے ہیں:
'' قرآن سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی روح آسمان کی طرف اٹھائی گئی۔'' (۶۸)
اس تحریر میں بعبارۃ النص رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان پر اٹھایا جانا موجود ہے باقی رہا یہ امر کہ مرزا صاحب نے روح کا اٹھایا جانا لکھا ہے۔ سو اس کا ردہم سابقاً کر آئے ہیں کہ یہ معنی یہود کی سرشت سے نکلے ہیں۔
اعتراض:
رَفَعَہُ اللّٰہُ میں مسیح کا زندہ خدا کی طرف اٹھایا جانا نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ لفظ '' الیٰ'' غایت انتہا کے لیے آتا ہے۔ کیا حضرت مسیح علیہ السلام بلا فاصلہ خدا کے پہلو بہ پہلو بیٹھے ہیں؟ (۶۹)
جواب:
رَفَعَہُ اللّٰہُ کے معنی آسمان کی طرف اٹھایا جانا ہیں۔ جیسا کہ خود مرزا صاحب نے بھی آسمان کی تصریح کی ہے۔ اگر اس پر بھی زنگ دل دور نہ ہو تو سنو! مرزا صاحب راقم ہیں:
'' اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ۔ یعنی پاک روحیں خدا کی طرف صعود کرتی ہیں اور عمل صالح ان کا رفع کرتا ہے۔'' (۷۰)
کیوں جناب! یہ روحیں جو خدا کی طرف صعود کرتی ہیں۔ کیا خدا کے ساتھ چمٹ جاتی ہیں یا درمیان میں کچھ فاصلہ ہوتا ہے۔ فَمَا جَوَابُکُمْ فَھُوَ جَوَابُنَا۔
------------------------------------------------------------------
(۵۴) پ۶ النساء : ۱۵۷،۱۵۸
(۵۵) پ ۳ اٰل عمران : ۵۵
(۵۶) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ص۴۶ ، ج۵
(۵۷) براھین احمدیہ ص۴۲، ج۵ و روحانی ص۵۳، ج۲۱ و تفسیر مرزا ص۳۰۸، ج۳
(۵۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۳
(۵۹) ازالہ اوہام ص۵۹۹ و روحانی ص۳۲۳، ج۳ وتفسیر مرزا ص۳۲۷،ج۳
(۶۰) ایضاً
(۶۱) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ۴۶ ، ج۵
(۶۲) اعجاز احمدی ص۱۳ و کتاب البریہ ص۲ وراز حقیقت ص۱۲ وایام الصلح ص۱۱۱ و مسیح ہندوستان میں ص۱۷،۴۹ و حقیقت الوحی ص۳۶ و تحفہ گولڑویہ ص۱۴۱ وبراھین احمدیہ ص۴۱،ج۵ و حمامۃ البشریٰ ص۵۶ و تفسیر مرزا ص۳۱۶،ج۳ تلک عشرۃ کاملۃ۔ ابو صہیب
(۶۳) مفہوم، احمدیہ پاکٹ بک ص۳۷۴
(۶۴) ایضاً ص۳۷۷
(۶۵) ایضاً ص۳۷۷
(۶۶) پ۲۹ ملک : ۱۶
(۶۷) پ۲ البقرہ : ۱۴۴
(۶۸) ازالہ اوہام ص۲۶۴ و روحانی ص۳۳۳، ج۳
(۶۹) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۸۵