• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھی دلیل:
اور جب کہ وہ مکالمہ و مخاطبہ اپنی کیفیت اور کمیت کی رو سے کمال درجہ تک پہنچ جائے اور اس میں کوئی کثافت اور کمی باقی نہ ہو اور کھلے کھلے طور پر امور غیبیہ پر مشتمل ہو تو وہی دوسرے لفظوں میں نبوت کے نام سے موسوم ہوتا۔ جس پر تمام نبیوں کا اتفاق ہے۔ پس اسی طرح بعض افراد نے باوجود امتی ہونے کے نبی کا خطاب پایا۔ (۳۷۶)
اس جگہ بعض افراد نے لکھا ہے مگر بخلاف اس کے حقیقۃ الوحی ص۳۹۱ پر بجز اپنے اور کسی کو اس لقب نبی کا حق دار نہیں لکھا۔(۳۷۷) پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دیگر انبیاء کی طرح مدعی نبوت تھے۔
----------------------------------
(۳۷۶) ملخصًا الوصیت ص۱۱،۱۲ و روحانی ص۳۱۱، ۳۱۲، ج۲۰ و تفسیر مرزا ص۶۸، ج۷
(۳۷۷) و روحانی ص۴۰۶،۲۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پانچویں دلیل:
ہمارا دعویٰ ہے کہ ہم رسول اور نبی ہیں۔ اصل یہ نزاع لفظی ہے خدا تعالیٰ جس کے ساتھ ایسا مکالمہ اور مخاطبہ کرے جو بلحاظ کمیت اور کیفیت دوسروں سے بہت بڑھ کر ہو اور اس میں پیش گوئیاں کثرت سے ہوں اسے نبی کہتے ہیں اور یہ تعریف ہم پر صادق آتی ہے پس ہم نبی ہیں۔ ہاں یہ نبوت تشریعی نہیں جو کتاب اللہ کو منسوخ کرے اور نئی کتاب لائے ایسے دعویٰ کو ہم کفر سمجھتے ہیں۔ بنی اسرائیل میں کئی ایسے نبی ہوئے جن پر کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تھی۔ صرف خدا کی طرف سے پیش گوئیاں کرتے تھے وہ نبی کہلائے یہی حال اس سلسلہ میں ہے۔ بھلا ہم نبی نہ کہلائیں تو اس کے لیے کونسا امتیازی لفظ ہے۔ جو دوسرے ملہموں سے ممتاز کرے۔ (۳۷۸)
اس تحریر میں کھلے طور پر نبوت کا دعویٰ انبیاء سابقہ کی طرح کیا ہے۔ لہٰذا لاہوری مرزائیوں کا مسلمانوں کا دھوکا دینا قابلِ افسوس ہے۔
کہا جاتا ہے کہ یہ تحریر مرزا صاحب کی ایک ڈائری ہے جسے ایک صحابی مرزا نے آپ سے سن کر قلمبند کیا ہے۔ پس یہ قابل حجت نہیں جواب یہ ہے کہ پھر کیا وجہ ہے کہ مرزا نے اپنی زندگی میں اس سے انکار نہ کیا اور نہ ان کے '' چار لاکھ مرید'' ہی اس سے انکاری ہوئے۔ حتیٰ کہ خلیفہ نورالدین صاحب کا زمانہ بھی گزر گیا۔ ایسا ہی جب لاہوری مرزائیوں کو قادیان سے بوجہ خلافت نہ ملنے کے نامرادی کی حالت میں ڈیرا اٹھانا پڑا اور اپنی روزی کمانے کو نیا ڈھونگ رچانا پڑا تو اس وقت بھی نبوت مرزا پر ایمان رہا، جیسا کہ ۱۹۱۴ء تک کے اعلان پیغام صلح کے گواہ ہیں(۳۷۹) ۔ مگر اب جب کہ تم دین مرزا سے قطعاً مرتد ہوگئے تو اس تحریر سے انکار کی سوجھی۔
ہاں صاحب! اگر مرزا صاحب کے صحابہ جو بقول شما محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں داخل ہیں۔(۳۸۰) ان کی روایت معتبر نہیں۔ تو احادیث نبویہ بھی تو صحابہ کی روایت ہی سے ہم تک پہنچی ہیں۔ جن میں اور بھی کئی ایک راوی ہیں۔ پس یہ تو باصول شما کسی شمار و قطار میں بھی نہ ہونی چاہئیں۔ حالانکہ دن رات تمہاری تحریرات میں احادیث لکھی جاتی ہیں۔ حتیٰ کہ اثبات حجت حدیث پر تم نے رسائل بھی لکھے ہیں یہ کیوں؟ (۳۸۱)
جب ڈائری قابل اعتبار ہی نہیں تو مولوی محمد علی صاحب ''النبوۃ فی الاسلام'' میں خود کئی ایک مقامات پر ڈائری مرزا سے استدلال کیوں کرتے ہیں حتیٰ کہ مطالبہ کرتے ہیں کہ مرزا صاحب کے تبدیلی دعویٰ پر کوئی ڈائری ہی پیش کردو۔ (۳۸۲)
الغرض یہ عذر ایک نہایت ہی لغو اور باطل ہے۔
---------------------------------
(۳۷۸) بدر جلد ۷ نمبر۹ مورخہ ۵؍ مارچ ۱۹۰۸ء ص۲ والحکم جلد ۱۲ نمبر ۱۷ مورخہ ۶ مارچ ۱۹۰۸ء ص۵ و ملفوظات مرزا ص۴۴۷، ج۵ و حقیقت النبوۃ ص۲۷۲
(۳۷۹) مثلاً دیکھئے اخبار پیغام صلح، جلد اول نمبر ۳۰ مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۱۳ء و جلد اول نمبر ۴۳ مورخہ ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۱۳ء۔ ابو صہیب
(۳۸۰) خطبہ الھامیہ ص۱۷۱ و روحانی ص۲۵۸، ج۱۶ و تفسیر مرزا ص۱۳۸، ج۸
(۳۸۱) محمد علی مرزائی کی تالیف، مقام حدیث کی طرف اشارہ ہے۔ ابو صہیب
ّ(۳۸۲) النبوۃ فی الاسلام ص۲۶۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ضمیمہ علمیہ برختم نبوت

ذیل کے نکات ذہن میں رکھئے:
۱۔ بحث طلب مطلقاً نبوت نہیں۔ بلکہ نبوت بعد از حضور ہے لہٰذا اجرائے نبوت کے مدعی کو اس قسم کی آیت و نصوص و کھانا چاہیے۔ جس میں نصًا یا کنایۃً اس بات کا ذکر ہو کہ آپ کے بعد بھی نبوت جاری ہے۔ مطلقاً نبوت کے متعلق آیات پیش کرنا خلط مبحث ہے۔
۲۔ سارے قرآن میں ایک بھی آیت نہیں جس میں حضور کے بعد اجرائے نبوت کا ذکر ہو۔
۳۔ ایک بھی حدیث ایسی نہیں جس میں حضور کے بعد نبوت جاریہ کا ذکر ہو۔
۴۔ ایک بھی صحابی ایسا نہیں جو حضور کے بعد اجرائے نبوت کا قائل ہو۔
۵۔ ایک بھی تابعی ایسا نہیں جو حضور کے بعد نبوت کے جریان کا قائل ہو۔
۶۔ ایک بھی امام ایسا نہیں جو حضور علیہ السلام کے بعد کسی نبوت جاریہ کا معتقد ہو۔
سوال:... جریان نبوت بعد از حضور مسئلہ اجتہادی و فروعی ہے یا اصولی۔
جواب:... اجتہادی و فروعی نہیں کیونکہ یہ خلاف مفروض ہے۔
اگر اصولی ہے تو اس کا ثبوت اولہ شرعیہ سے ہونا چاہیے۔ یعنی حدیث و قرآن سے نیز اس کا قرون اولیٰ میں مشہور ہونا ضروری ہے۔ ورنہ اصولی نہ رہے گا۔ یعنی توحید، نبوت کی طرح اس کو بھی مشہور ہونا چاہیے اور ایسا نہیں، لہٰذا غلط ہے۔
سوال:... جریان نبوت سے کیا مراد ہے؟ ہر آن انشاء نبوت یا تحقق نبوت۔
جواب:... ہر آن انشاء نبوت عقلاً باطل ہے۔ ورنہ ہر ایک لمحہ میں ایک نبی جدید کا ہونا ضروری ہوگا۔ لہٰذا دوسری صورت ہی درست ہے۔ یعنی ہر وقت نبوت کا تحقق ضروری۔ یہ ہمارے منافی نہیں ہم مانتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت ہمیشہ ہمیشہ متحقق و جاری ہے۔
سوال:... نفس نبوت عام ہے اس سے کہ تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ موہبت ہے یا اکتساب۔
جواب:... اگر اکتساب ہے تو ہر شخص میں ہوسکتا ہے۔ اگر موہبت ہے تو اس میں غیر تشریعی کی تخصیص کیوں ہے؟
تشریح متعلق بہ لفظ ختم
مفردات راغب صفحہ ۱۴۲:
وَخَاتِمُ النَّبِیِّیْنَ لِاَ نَّہٗ خَاتَمَ النَّبُوَّۃِ اَیْ تَممھا بمجیئہ۔(۳۸۳)
یعنی حضور کو خاتم النبیین اس لیے کہا جاتا ہے کہ آپ نے نبوت کو کمال و اتمام تک پہنچا دیا۔ اس صورت میں کہ آپ نے نبوت کو ختم کردیا۔
اَلْمُحْکَم لِابْنِ سِیدَہ (بحوالہ لسان العرب) وَخَاتِمُ کُلِّ شَیْئٍ وَخَاتِمَۃٌ عَاقِبَتُہٗ وَاٰخِرُہٗ۔(۳۸۴) اور خاتم ، خاتمہ ہر شے کے انجام و آخر کو کہ اجاتا ہے۔
تہذیب لِلْاَزْہَرِی (بحوالہ البیان) :
وَالْخَاتِمُ وَالخَاتَمُ مِن اَسْمائِ النَّبِی ﷺ وَفِی التَّنْزِیْلِ الْعَزِیْزِ مَاکَانَ مُحَمَّدٌا اَبَآ اََحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْل اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ اَیْ اٰخِرُھُمْ۔(۳۸۵)
'' اور خاتم و خاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام ہیں اور قرآن میں ہے کہ محمد تم میں سے کسی کا باپ نہیں۔ البتہ وہ اللہ کا رسول ہے اور خاتم النبیین یعنی آخری رسول۔
لسان العرب: خَاتِمُھُمْ وَخَاتُمُھُمْ اٰخِرُھُمْ(۳۸۶)۔ خاتم و خاتم کے معنی ہیں آخر۔
تاج العروس: وَمِنْ اَسْمَائِہٖ عَلَیْہِ السَّلَامُ الْخَاتِمُ وَالْخَاتَمُ وَھُوَ الَّذِیْ خَتَمَ النَّبُوَّۃ بِمَجِیئہٖ(۳۸۷)۔ اور آپ کے ناموں میں سے ہے خاتم و خاتم، اور وہ وہ ہے جس نے آکر نبوت ختم کردی۔
مجمع البحارج؟ (ص۳۲۹): خَاتِمُ النَّبُوَّۃِ بِکَسْرِ التَّائِ اَیْ فَاعِلُ ... وَھُوَ الْاِتْمَامُ وَبِفَتْحِھَا بِمَعْنِی التَّابِعِ اَیْ شَیء یَدُل علی انہ لا نبی بعدہ(۳۸۸)۔خاتم النبوۃ بکسر تاء یعنی نبوت کو تمام کرنے والا۔ اور بفتح تاء بمعنی مہر یعنی ایسی چیز جو اس بات پر دلالت کرے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
قاموس: وَالخَاتِمُ اٰخِرُ الْقَوْمِ کَالْخَاتَمِ وَمِنْہُ قَوْلُہٗ تَعَالٰی وَخَاتَم النَّبِیِّیْنَ اَیْ اٰخِرُھُمْ(۳۸۹)۔ اور خاتم و خاتم، قوم کے سب سے آخر کو کہا جاتا ہے۔ اور انہیں معنوں میں ارشاد خداوندی ہے وخاتم النبیین یعنی آخر النبیین۔
کلیات ابی البقا: وَتَسْمِیَۃُ نَبِیِّنَا خَاتَمُ الْاَنْبِیَائِ لِاَنَّ الْخَاتَمَ اٰخِرُ الْقَوْمِ قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتِمَ النَّبِیِّیْنَ (۳۹۰)۔اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم الانبیاء اس لیے کہا گیا ہے کہ خاتم کے معنی ہوتے ہیں قوم میں سب سے آخری اور انہی معنوں میں ارشاد الٰہی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں۔ البتہ وہ رسول ہیں اور خاتم النبیین یعنی آخر نبیوں کے۔
صحاح للجوہری: خَاتِمُۃُ الشَّیْء اٰخِرُہٗ وَمُحَمَّدٌ ﷺ خَاتِمُ الْاَنْبِیَائِ(۳۹۱)۔کسی چیز کے خاتمہ کے معنی ہوتے ہیں آخر کے اور محمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔
متنبی کہتا ہے:
اَرُوْحُ وَقَدْ خَتَمْتَ عَلٰی فَؤَادِیْ بِحُبِّکَ اَنْ یَّحُلَّ بِہٖ سِوَاکَا۔(۳۹۴)
'' میں تیرے ہاں سے اس طرح جا رہا ہوں کہ تو نے میرے دل پر اپنی محبت سے مہر کردی تاکہ تیرے سوا اس میں کوئی داخل نہ ہو سکے۔''
عجاج کہتا ہے:
مُبَارِکٌ لِلْاَنْبِیَائِ خَاتِمُ۔ (۳۹۳)
'' وہ مبارک ہے انبیاء کو ختم کرنے والا ہے۔''
----------------------------------------------
(۳۸۳) مفردات القران ص۱۴۲
(۳۸۴) لسان العرب ص۱۶۴، ج۱۲
(۳۸۵) ایضاً ص۱۶۴، ج۱۲
(۳۸۶) ایضاً
(۳۸۷) تاج العروس شرح قاموس ص۲۶۷، ج۸
(۳۸۸) مجمع البحار ص۳۲۹، ج۱
(۳۸۹) قاموس ص۱۰۲، ج۳ طبعہ
(۳۹۰) کلیات ابی البقا
(۳۹۱) الصحاح ص۱۹۰۸، ج۵ طبعہ دارالعلم ۱۹۹۰ء مؤلفہ اسماعیل بن حماد الجوھری
(۳۹۲) دونوں ناقص ۳۹۷،۳۹۹، ۴۰۰، ۴۰۲
(۳۹۳) لسان العرب ص۱۶۴، ج۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کی تشریح:
۱۔ اسی طرح پر میری پیدائش یعنی جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں۔ میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام جنت تھا۔ اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے نکلی تھی۔ اور بعد اس کے میں نکلا تھا، اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں ہوا۔ اور میں ان کے لیے خاتم الاولاد تھا۔ (۳۹۴)
۲۔ بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام جو عیسیٰ علیہ السلام ہے۔ (۳۹۵)
سوال:... کیا خاتم الشعراء و خاتم الاسخیاء وغیرہ کے معنی افضل و اعلیٰ کے ہیں پھر خاتم الانبیاء کے یہ معنی کیوں نہیں ہوسکتے؟
جواب:... یہ استعمال مجازی ہے۔ حقیقی معنی پہلے ہوتے ہیں۔ اگر وہ نہ ہو سکیں تو پھر مجازی۔ چونکہ یہاں حقیقت متعذر نہیں اس لیے وہی مراد ہوگی۔ مجاز کے لیے قرائن کی ضرورت ہے اور وہ یہاں نہیں ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ وہ بے نظیر شاعر ہے، وہ بے نظیر ادیب ہے یا لا نظیر لہ فی الاخلاق کہ اخلاق میں اس کا کوئی نظیر نہیں تو اس کے معنی عام طور پر یہی ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے اچھا ہے اور اگر کوئی مخالف عیسائی کہے کہ پھر جب بے نظیر کے معنیٰ اعلیٰ اور اچھے کے ہیں تو جب خدا کو تم بے نظیر کہتے ہو اس کے یہ معنی کیوں نہیں ہوسکتے کہ وہ سب سے اعلیٰ ہے نہ یہ کہ وہ واحد محض ہے تو ہم کہیں گے یہ استعمال مجازی اور اللہ کے متعلق حقیقی۔ اس لیے کہ اس کا واقعی کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح خاتم الشعراء وغیرہ میں استعمال مجازی ہے اور خاتم النبیین میں حقیقی یعنی آپ آخری نبی ہیں۔
اعتراض:
لغت کی کتابیں لکھنے والے آخر انسان ہوتے ہیں۔ اور ان کی کتابوں میں ان کے اپنے عقائد کا دخل ہو جانا یقینی ہوتا ہے مثلاً '' المنجد'' اور '' الفرائد الدریہ'' دونوں عربی کی لغات ہیں۔ جن کے مؤلف عیسائی ہیں اور انہوں نے ثالوث کا ترجمہ تثلیث مقدس کیا ہے اب مقدس کسی لفظ کا ترجمہ نہیں بلکہ مؤلف کا اپنا اعتقاد ہے۔ بعینہٖ اسی طرح ایک لغت لکھنے والا اگر اس عقیدہ کا حامی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت بند ہے۔ تو وہ طبعاً خاتم النبیین کا ترجمہ نبیوں کا ختم کرنے والا ہی کرے گا۔ (۳۹۶)
الجواب:
ثالوث کا ترجمہ تثلیث، صحیح اور درست ہے۔ حقیقت کی تین قسمیں ہیں۔ حقیقت وصفی، حقیقت عرفی اور حقیقت شرعی یہاں ثالوث کا لفظ باعتبار وضع کے مستعمل نہیں بلکہ عرف ، یا شرع عیسوی کے ہے۔ رہا '' مقدس'' کا اضافہ سو یہ ترجمہ نہیں بلکہ اظہار عقیدت ہے جیسے ہم کہہ دیں اللہ تعالیٰ قرآن مجید وغیرہ۔
سوال یہ ہے کہ اگر ختم نبوت کے معنی اصالتہً بند کرنے اور روکنے کے نہیں تو پھر یہ عقیدہ کیونکر اور کب پیدا ہوا۔ خود اہل لغت نے یہ عقیدہ کہاں سے اخذ کیا۔
---------------------------------
(۳۹۴) تریاق القلوب ص۱۵۷ و روحانی ص۴۷۹، ج۱۵
(۳۹۵) خاتمہ براہین احمدیہ ص ب ، ج۵ و روحانی ص۴۱۲، ج۲۱
(۳۹۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۹۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
کیا عیسائی بطور معارضہ کے کہہ سکتے ہیں کہ ''احد'' اور '' لا شریک لہ'' اور '' لَیْسَ کَمِثْلِہٖ شَیْئٌ''کے معنی خالص توحید کے نہیں بلکہ ایسی توحید کے ہیں جو کثرت کو متضمن ہو۔ اور خالص توحید کے معنی مسلمان لغت والوں نے اپنے عقیدے کے موافق گھڑ لیے ہیں۔
جو تمہارا جواب وہ ہمارا جواب۔
سوال:... خاتم کے معنیٰ زینت کے بھی ہوسکتے ہیں۔ خاتم النبیین کے معنی زینت النبیین کیوں نہیں ہوسکتے؟
جواب:... خاتم انگوٹھی کے معنوں میں ضرور استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین ہو جاتی ہے۔ کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء تو بمنزلہ جسم عروس کے ہیں اور حضور کی حیثیت محض انگوٹھی کی ہے اور ظاہر ہے کہ انگوٹھی پہننے والے سے انگوٹھی کی قیمت کم ہوتی ہے۔ لہٰذا یہ معنی متروک ہیں۔
سوال:... خاتم کے معنی مہر کے کیوں نہیں؟ یعنی وہ جس پر مہر کردیں نبی ہو جائے۔
جواب:... خاتم، مہر کو بھی اس لیے کہتے ہیں کہ وہ صحیفہ کو کامل کرنے کے لیے آخر میں لگائی جاتی ہے۔ اس لیے اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ صحیفہ نبوت کے آخری کلمات آپ ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ جس پر مہر لگادیں وہ نبی ہو جائے۔ یہ معنی غیر عربی اور غیر صحیح ہیں۔ جیسا کہ حوالہ جات میں گزر چکا ہے۔
سوال:... النبیین سے مراد تشریعی نبی ہیں۔ غیر تشریعی نہیں۔
جواب:... تشریعی اور غیر تشریعی کی تقسیم ایجاد بندہ ہے۔ قرآن کے نزدیک ہر نبی صاحب کتاب و شریعت ہوتا ہے۔
اور الف لام اصل میں استغراق کے لیے ہوتا ہے۔ اگر کوئی قرینہ مانع ہو تو پھر عہد کے لیے دیکھو کتب لغت ونحو۔ علامہ ابو البقا کلیات میں فرماتے ہیںـ:
وَقَالَ عَامَّۃُ اَھْلِ الْاُصُوْلِ وَالْعَرَبِیَّۃِ لَامُ التَّعریْفِ سَوَائٌ دَخَلَتْ عَلَی الْفَرْدِ اَوْ عَلَی الْجَمْعِ تُفِیْدُ الْاِسْتِغْرَاقَ اِلاَّ اِذَا کَانَ مَعْھُودًا۔(۳۹۷)
لہٰذا یہاں تمام افراد نبوت مراد ہوں گے۔ نہ بعض۔
لفظ ''آخر ''کی تشریح
''خاتم'' کے معنی متفقہ طور پر اہل لغت نے آخر کے کئے تو مرزائی پاکٹ بک کے مصنف نے رنگ بدلا اور آخر کے معنی ''بے مثیل ہے ... کرنے کے لیے ایک شعر پیش کیا جو ابو تمام کے حماسہ اور دیوان حاتم طائی مطبوعہ جرمن میں موجود ہے:
شریٰ وُدِّیْ وَشُکْرِیْ مِنْ بَعِیْدٍ
لِاٰخِرِ غَالِبٍ اَبَدًا رَبِیْع
اور نہایت چالاکی سے عمداً مولوی ذوالفقار علی صاحب دیوبندی کا ترجمہ لکھ دیا۔ ''ربیع بن زیاد نے میری دوستی اور شکر دور بیٹھے ایسے شخص کے لیے جو بنی غالب میں آخری یعنی ہمیشہ کے لیے عدیم النظیر ہے خرید لیا ہے۔'' (۳۹۸)
اول تو مولوی ذوالفقار علی صاحب کی شرح اور ترجمہ ہی محل نظر ہے۔ کیونکہ ہزارہا ادیب اور لغوی کئی ایک اشعار کی شرح میں مولوی صاحب سے شدید اختلاف رکھتے ہیں۔ دوم ''آخر'' کے معنی ''بے نظیر'' اور ''بے مثیل'' کے غلط ہیں۔ علامہ تبریزی جن کے نام سے بچہ بچہ واقف ہے جو بہت سی کتب اور دیوانوں کے شارح ہیں یوں لکھتے ہیں:
اِشْتَرٰی رَبِیْعٌ عَلٰی بُعْدِہٖ مِنِّیْ مَوَدَّتِیْ لَہٗ وَثَنَائِیْ عَلَیْہِ وَعَلَی اٰخِرِ رَجُلٍ یَبْقٰی مِنْ بَنِیْ غَالِبٍ اَبَدًا۔(۳۹۹)
علامہ موصوف نے ''آخر'' کا ترجمہ اور شرح یہ کی ہے کہ بنی غالب کے آخری آدمی تک، یعنی جب تک بنی غالب کا ایک فرد بھی باقی ہے یہ مودت اور شکررہے گا۔
اسی طرح علامہ خالد جو الفاظ کی شرح اور حل میں عربی زبان میں بہت بلند پایہ آدمی ہیں ''لِاٰخِرِ غَالِبٍ'' کے متعلق کہتے ہیں یَبْقٰی مِنْ عَقَبِھم(۴۰۰)۔
عربی شارحین کی عبارتوں سے واضح ہوگیا کہ ''آخر'' کے معنی کم از کم اس شعر میں بے مثیل اور عدیم النظیر کے غلط ہیں اور خلاف لغت عرب۔
اعتراض:
علامہ سیوطی نے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو ''آخر المجتہدین'' کہا ہے؟ (۴۰۱)
الجواب:
بے شک علامہ سیوطی امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو آخر المجتہدین سمجھتے تھے ان کے نزدیک یہ حقیقت تھی ان کو امام موصوف کے اجتہاد اور علم پر پورا وثوق اور یقین تھا۔ مگر یہاں آخر کے معنی مجازی اور غیر حقیقی بھی لیں تو بھی ہمیں مضر نہیں۔ کیونکہ یہ ایسے انسان کا قول ہے جس کو کامل علم عطا نہیں ہوا جو مستقبل کی باتوں کو نہیں جانتا، اور اپنے ذاتی علم اور حسن ظن کی بنا پر ایک ذاتی رائے قائم کرتا ہے جو دین اور شریعت نہیں اس کا یقین اور ایمان وہی ہے جو اس کے الفاظ ہیں۔ مگر اس کے بعد بھی اگر زمانہ اس کی ذاتی رائے کو غیر صحیح ثابت کردے تو عین ممکن ہے۔ پھر اس سے کہاں لازم آتا ہے کہ خدا جو عالم الغیب ہے۔ اور جس کے سامنے ماضی و مستقبل کا سوال ہی اٹھ جاتا ہے وہ بھی محض حسن ظن کی بنا پر کچھ فرما دے؟ اور زمانہ اس کے قول و فرمان کو (معاذ اللہ) غلط ثابت کر دے۔ خدا نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین کہا اور حضور نے جو اس کی تشریح کی ہے کہ میں آخری نبی ہوں، میرے بعد نبوت اور رسالت ختم اور منقطع ہوچکی ہے تو حسن ظن یا علم ناقص نہ تھا بلکہ کامل علم اور شریعت کے طور پر فرمایا تھا۔ پس خدا کے کلام اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریح کو ناقص اور نامکمل علم رکھنے والے انسانوں سے تشبیہ دینا محض جہالت ہے، خدا نے رسول کو خاتم النبیین یہ جانتے ہوئے کہا کہ آپ کے بعد ہر قسم کی نبوت منقطع ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تشریح فرمائی تو یہ ایمان (جو مبنی بروحی خدا تھا) رکھتے ہوئے فرمائی کہ آپ کے بعد قطعی طور پر کوئی نبی یا رسول شرعی یا غیر شرعی بالکل خدا کی طرف سے نہ آئے گا۔ بلکہ ساتھ ہی نبوت کے مدعیان باطل اور دجالوں کذابوں کی اطلاع دی تاکہ امت باخبر رہے۔
اس کے علاوہ جو شخص بھی کسی دوسرے کو خاتم الاولیاء یا خاتم الشعراء وغیرہ کہتا ہے تو وہ حسن ظن یا اپنے وثوق کی بناء پر کہتا ہے۔ اور فی الحقیقت وہ اس کو ویسا ہی سمجھتا ہے۔ مگر یہ امر یاد رہے کہ اس کے الفاظ وحی یا الہام نہیں اور نہ کہنے والا پیغمبر یا خدا ہے۔ بس یہی فرق ہے۔
آخر کے معنی '' الفرائد الدریۃ'' میں لکھے ہیں۔ (۴۰۲)
---------------------------------------------------
(۳۹۷) کلیات ابی البقا
(۳۹۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۴۲
(۳۹۹)
(۴۰۰)
(۴۰۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۵۴۳
(۴۰۲)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
باب سوم
حیات مسیح علیہ السلام

مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر بارہویں دلیل:
حیات مسیح علیہ السلام کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ عوام جہاں اپنی کم علمی اور کوتاہ نظری کے اس سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ حالانکہ ایک ایمان دار شخص کے لیے اس میں کوئی امر محال نظر نہیں آتا۔ جس ذات باری نے اپنی قدرت کاملہ سے تمام جہان کو عدم محض سے خلعت وجود بخشا اور گونا گوں مخلوق بلا اسباب ظاہری کے پیدا کردی، اس کے آگے یہ کون سی مشکل ہے کہ ایک انسان کو ہزار دو ہزار برس تک زندہ رکھے اور آسمان پر اٹھا لے۔ بڑی مشکل آج کل کے فلسفی طبع اصحاب کو اس کے ماننے میں یہ آرہی ہے کہ ایسا ہونا قانون قدرت کے خلاف ہے۔ سو مناسب ہے کہ ہم مسئلہ حیات مسیح کا قرآن پاک و احادیث سے ثبوت دینے سے پہلے قانون قدرت کی تھوڑی سی تشریح کریں۔
اس مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام میں اگرچہ ہمارے مخاطب بظاہر یہی کہتے ہیں کہ:
'' ہم وفات مسیح کے اس لیے قائل نہیں کہ گویا ہمارے نزدیک خدا کسی کو زندہ رکھنے پر قادر نہیں۔'' (۱)
مگر یہ سب ظاہری دھوکا اور فریب ہے حقیقت یہی ہے کہ یہ لوگ دراصل مومن باللہ نہیں ہیں۔ اور وقتاً فوقتاً عوام کو یہی کہہ کہ مغالطہ دیا کرتے ہیں کہ:
'' نیا اور پرانا فلسفہ بالاتفاق اس بات کو محال ثابت کرتا ہے کہ کوئی انسان اپنے اس خاکی جسم کے ساتھ کرۂ زمہریر تک پہنچ سکے، اگر فرض کے طور پر اب تک زندہ رہنا ان (حضرت مسیح علیہ السلام ) کا تسلیم کرلیں۔ تو کچھ شک نہیں کہ اتنی مدت گزرنے پر پھر فرتوت ہوگئے ہوں گے۔'' (۲)
لہٰذا انسب یہی ہے کہ ہم قانون قدرت کے اس فلسفیانہ ڈھکوسلے کو خود تحریرات مرزا سے بودا و کمزور ثابت کریں۔ ملاحظہ ہو مرزا صاحب راقم ہیں:
'' جاننا چاہیے کہ نیچر کے ماننے والے اس خیال پر زور دیتے ہیں کہ یہ بات بدیہی ہے کہ جہاں تک انسان اپنی عقلی قوتوں سے جان سکتا ہے وہ بجز قدرت اور قانون قدرت کے کچھ نہیں یعنی مصنوعات و موجودات موجودہ مشہودہ پر نظر کرنے سے چاروں طرف یہی نظر آتا ہے کہ قدرت نے جس طرح پر جس کا ہونا بنا دیا بغیر خطا کے اسی طرح ہوتا ہے اور اسی طرح پر ہوگا اور اصول بھی وہی سچے ہیں۔ جو اس کے مطابق ہیں میں کہتا ہوں کہ بلاشبہ یہ سچ ہے مگر کیا اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ قدرت الٰہی کے طریقے اسی حد تک ہیں جو ہمارے مشاہدہ میں آچکے اور جو امر ہماری سمجھ اور مشاہدہ سے باہر ہے وہ قانون قدرت سے باہر ہے؟
قوانین قدرتیہ غیر متناہی اور غیر محدود ہیں۔ ہمارا یہ اصول ہونا چاہیے کہ ہر ایک نئی بات جو ظہور میں آئے۔ پہلے ہی اپنی عقل سے بالاتر دیکھ کر اس کو رد نہ کریں بلکہ اس کے ثبوت یا عدم ثبوت کا حال جانچ لیں۔ اگر وہ ثابت ہو تو اپنے قانون قدرت کی فہرست میں اس کو بھی داخل کرلیں۔ اگر ثابت نہ ہو تو کہہ دیں ثابت نہیں۔ مگر اس بات کے کہنے کے ہم مجاز نہیں کہ وہ امر قانون قدرت کے باہر ہے۔ قانون قدرت سے باہر کسی چیز کو سمجھنے کے لیے ہمارے لیے ضرور ہے کہ ہم ایک دائرہ کی طرح خدا تعالیٰ کے تمام قوانین پر محیط ہوجائیں۔ اور بخوبی ہمارا فکر اس بات پر احاطہ تام کرلے کہ خدا تعالیٰ نے روز ازل سے آج تک کیا کیا قدرتیں ظاہر کیں اور آئندہ اپنے ابدی زمانہ میں کیا کیا ظاہر کرے گا۔ کیا وہ جدید قدرتوں کے ظاہر کرنے پر قادر ہوگا یا کولہو کے بیل کی طرح انہیں چند قدرتوں میں مقید اور محصور رہے گا اگر انہی میں مقید رہے گا۔ تو باوجود غیر محدود الوہیت اور قدرت کے یہ مقید اور محصور رہنا کس وجہ سے ہوگا۔ کیا وہ آ پ ہی عاجز آئے گا۔ یا کسی دوسرے قاہر نے اس پر جبر کیا ہوگا۔ بہرحال اگر ہم خدائے تعالیٰ کی قدرتوں کو غیر محدود مانتے ہیں تو یہ جنون اور دیوانگی ہے کہ اس کی قدرتوں پر احاطہ کرنے کی امید رکھیں۔ اس صورت میں یہ نقص پیش آتا ہے کہ ہمارا ناقص تجربہ خدائے ازلی و ابدی کی تمام قدرتوں کا حد بست کرنے والا ہوگا(۳)۔ اس کلمہ میں جس قدر کفر اور بے ادبی اور بے ایمانی بھری ہوئی ہے وہ ظاہر ہے ایک محدود زمانہ کے محدود تجارب کو پورا پورا قانون قدرت خیال کرلینا اور اس پر غیر متناہی سلسلہ قدرت کو ختم کردینا ان پست نظروں کا نتیجہ ہے۔ جنہوں نے خدائے ذوالجلال کو جیسا کہ چاہیے شناخت نہیں کیا(۴)۔ خدا تعالیٰ کی عجائب قدرتوں اور دقائق حکمتوں کی ابھی تک انسان نے بکلی حد بست نہیں کی اور آگے کو اس کی لیاقت و طاقت ایسی نظر آتی ہے(۵)۔ آج کل کے فلسفی الطبع لوگوں کو یہ بھاری غلطی ہے کہ وہ قانون قدرت کو ایسا سمجھ بیٹھے ہیں۔ جس کی من کل الوجوہ حد بست ہوچکی ہے۔ اگر یہی سچ ہوتا تو پھر کسی نئی بات کے ماننے کے لیے کوئی سبیل باقی نہ رہتا امور جدیدہ کا قوی ظہور اس قاعدہ کی تار پود کو ہمیشہ توڑتا رہا۔ جب کبھی کوئی جدید خاصہ متعلق علم طبعی یا ہیئت وغیرہ علوم کے متعلق ظہور پکڑتا رہا ہے تو ایک مرتبہ فلسفہ کے شیش محل پر ایک سخت بھونچال کا موجب ہوا ہے۔ جس سے متکبر فلسفیوں کا شوردشر کچھ عرصہ کے واسطے فرو ہوتا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کے خیالات ہمیشہ پلٹے کھاتے رہے ہیں۔ اور کبھی ایک نقشہ پر ہرگز قائم نہیں رہے۔ اب بھی بہت کچھ ان کی نظروں سے چھپا ہوا ہے۔ جس کی نسبت امید کی جاتی ہے کہ وہ آئندہ ٹھوکریں کھا کھا کر اور طرح طرح کی رسوائیاں اٹھا اٹھا کر کسی نہ کسی وقت قبول کریں گے(۶)۔ اب خلاصہ اس تمام مقدمہ کا یہ ہے کہ قانون قدرت کوئی ایسی شے نہیں کہ ایک حقیقت ثابت شدہ کے آگے ٹھہر سکے۔ قانون قدرت خدا کے ان افعال سے مراد ہے جو قدرتی طور پر ظہور میں آئے۔ آئندہ آئیں گے خدا تعالیٰ اپنی قدرتوں کے دکھانے سے تھک نہیں گیا اور نہ بے زور ہوگیا ہے یا کسی طرف کو کھسک گیا یا خارجی قاہر سے مجبور کیا گیا(۷)۔ اگرچہ انسان ایک نوع میں ہونے کی وجہ سے باہم مناسب الطبع واقع ہیں، مگر پھر بھی ان میں سے بعض کو نادر طور پر کبھی کسی زمانہ میں خاص طاقتیں۔ اعلیٰ قوتیں عطا ہوتی ہیں۔ مشاہدہ سے ثابت ہوا ہے کہ بعض نے اس کے زمانہ میں تین سو برس سے زیاد عمر پائی جو بطور خارق عادت ہے(۸)۔ کچھ تھوڑا عرصہ گزرا کہ مظفر گڑھ میں ایک بکرا پیدا ہوا جو بکریوں کی طرح دودھ دیتا تھا جب اس کا شہر میں چرچا پھیلا تو میکالف صاحب ڈپٹی کمشنر مظفر گڑھ کے رو برو دوہا گیا تو قریب ڈیڑھ سیر دودھ اس نے دیا۔ وہ بکرا عجائب خانہ لاہر میں بھیجا گیا تین معتبر اور ثقہ اور معزز آدمی نے میرے پاس بیان کیا کہ ہم نے بچشم خود چند مردوں کو عورتوں کی طرح دودھ دیتے دیکھا ہے۔ بلکہ ایک نے ان میں سے کہا کہ امیر علی نام ایک سید کا لڑکا ہمارے گاؤں میں اپنے باپ کے دودھ سے پرورش پایا تھا۔ کیونکہ اس کی ماں مر گئی۔ بعض نے یہ بھی دیکھا کہ چوہا خشک مٹی سے پیدا ہوا۔ جس کا آدھا دھڑ تو مٹی کا تھا اور آدھا چوہا بن گیا۔ فاضل قرشی نے لکھا ہے کہ ایک بیمار کا کان بہرا ہوگیا، کان کے نیچے ایک ناسور پیدا ہوگیا۔ آخر سوراخ ہوگئے۔ اس سوراخ کی راہ سے وہ برابر سن لیتا تھا۔ طبیبوں نے اڈی میں سوراخ ہو کر مدت تک پاخانہ آتے رہنا تحریر کیا ہے(۹)۔ معجزہ شق القمر پر اعتراض کا جواب یہ دیا کہ ''باقی رہا یہ سوال کہ شق قمر ماسٹر صاحب کے زعم میں خلاف عقل ہے یہ ماسٹر صاحب کا خیال سراسر قلت تدبر سے ناشی ہے۔ کیونکہ خدا تعالیٰ جو کام قدرت نمائی کے طور پر کرتا ہے وہ کام سراسر قدرت کاملہ کی ہی وجہ سے ہوتا ہے جس ذات قادر مطلق کو یہ قدرت حاصل ہے کہ چاند دو ٹکڑے کرسکے اس کو یہ بھی تو قدرت حاصل ہے کہ ایسے پُر حکمت طور سے یہ فعل ظہور میں لاوے کہ اس کے انتظام میں بھی کوئی خلل نہ ہواسی وجہ سے تو وہ سرب شکتی مان اور قادر مطلق کہلاتا ہے۔'' (۱۰)
بعینہٖ یہی جواب مسئلہ حیات مسیح علیہ السلام میں ہماری طرف سے ہے کہ اس مسئلہ میں بجائے فلسفیانہ موشگافیوں کے۔ یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا صعود الی السماء قرآن سے ثابت ہے یا نہ۔ اگر ثابت ہو جائے تو پھر جس قادر مطلق نے اسے آسمان پر اٹھایا ہے اور لوگوں کے لیے اسے ایک نشان قدرت ٹھہرایا ہے۔ اس کو یقینا یہ قدرت بھی حاصل ہے کہ اس کی آمد و رفت کے وقت ''کرۂ زمہریر'' و دیگر کرہ ہائے مہلک کے مضر اثرات کو معدوم کردے اور انسانی قویٰ پر جس قدر تاثرات آب و ہوا عارض ہوسکتے ہیں۔ ان سے محفوظ رکھے۔ ناقل
'' یہ بات ہم مکرر لکھنا چاہتے ہیں کہ قدرت اللہ پر اعتراض کرنا خود ایک وجہ سے انکار خدائے تعالیٰ ہے۔ کیونکہ اگر خدا کی قدرت مطلقہ کو نہ مانا جائے اس صورت میں تمام خدائی اس کی باطل ہو جاتی ہے۔ حق یہی ہے کہ پرمیشر کو سرب شکتی مان اور قادر مطلق تسلیم کیا جائے اور اپنے ناقص ذہن اور ناتمام تجربہ کو قدرت کے بے انتہا اسرار کا محک امتحان نہ بنایا جائے۔ ورنہ ہمہ دانی کے دعویٰ پر اس قدر اعتراض وارد ہوں گے کہ جن کا کوئی ٹھکانا نہیں۔ انسان کا قاعدہ ہے کہ جو بات اپنی عقل سے بلند تر دیکھتا ہے اس کو خلاف عقل سمجھ لیتا ہے۔ حالانکہ بلند تر از عقل ہونا شے دیگر ہے، اور خلاف عقل ہونا شے دیگر۔'' (۱۱)
'' خدا کی قدرتوں کے اسرار اس قدر ہیں کہ انسانی عقل ان کا احاطہ نہیں کرسکتی۔ جب سے خدا نے مجھے یہ علم دیا ہے کہ خدا کی قدرتیں عجیب در عجیب اور عمیق در عمیق اور وراء الوراء اور لایدرک ہیں۔ تب سے میں ان لوگوں کو جو فلسفی کہلاتے ہیں پکے کافر سمجھتا ہوں۔ اور چھپے ہوئے دہریہ خیال کرتا ہوں۔ الخ '' (۱۲)
اسی طرح براہین احمدیہ وغیرہ کتب میں اللہ تعالیٰ کی بے عدد بے انتہا قدرتوں کا اقرار ہے۔ اور انسانی تجربہ و مشاہدہ کے ناقص ناتمام۔ غیر مکمل ہونے پر دلائل کثیرہ دی گئیں ہیں۔ الغرض حیات مسیح علیہ السلام پر قانون قدرت کی آڑ میں اعتراض کرنا دراصل کفر باطنی اور رگ دہریت کا سبب و باعث ہے۔
---------------------------------------------------------------------------
(۱) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۷۳ طبعہ ۱۹۳۲
(۲) ازالہ اوہام ص۴۷،۵۰ و روحانی ص۱۲۶ تا ۱۲۷، ج۳
(۳) سرمہ چشم آریہ ص۱۴،۱۶ و روحانی ص۶۲،۶۴، ج۴
(۴) ایضاً ص۱۷ و روحانی ص۶۵،ج۲
(۵) ایضاً ص۱۹ و روحانی ص۶۷،ج۲
(۶) ایضاً ص۴۳ و روحانی ص۹۱، ج۲
(۷) ایضاً ص۴۵ و روحانی ص۹۳،ج۲
(۸) ایضاً ص۵۰ و روحانی ص۹۸، ج۲
(۹) ایضاً ص۵۱ و روحانی ص۹۹، ج۲
(۱۰) ایضاً ص۶۱ و روحانی ص۱۰۹، ج۲
(۱۱) ایضاً ص۶۳،۶۴ و روحانی ص۱۱۱ تا ۱۱۲، ج۲
(۱۲) چشمہ معرفت ص۲۶۹ و روحانی ص۲۸۱، ج۲۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
ثبوت حیات مسیح علیہ السلام از قرآن مجید

حضرات !نزول قرآن کے وقت مسیح علیہ السلام کے متعلق دو قسم کے خیال تھے۔ چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' یہودیوں کا یہ خیال تھا کہ وہ قتل بھی کئے گئے اور صلیب بھی دئیے گئے۔ بعض کہتے ہیں کہ صلیب دے کر پھر ان کو قتل کیا گیا۔'' (۱۳)
عیسائیوں کا جو خیال تھا وہ بالفاظ مرزا صاحب یہ تھا کہ:
'' مسیح پھانسی کی موت مر گیا اور عیسائیوں کے گناہ کے لیے کفارہ ہوگیا۔'' (۱۴)
مرزا صاحب یہ بھی مانتے ہیں کہ اس خیال باطل پر تمام فرقے نصاریٰ کے متفق تھے کہ:
'' مسیح تین (۱) دن تک مرے رہے۔ پھر قبر میں سے آسمان کی طرف اٹھائے گئے۔''(۱۵)
۱۔ واضح رہے کہ مرزا صاحب تواتر قوی خواہ وہ کفار کا ہی ہو کو ماننا ضروری قرار دیتے ہیں۔ ازالہ اوہام ص۵۵۶ و روحانی ص۳۹۹، ج۳ منہ ۱۲
غرض دونوں قومیں بالاتفاق مسیح کی موت طبعی کی منکر و موت الصلیب کی قائل تھیں اور ہیں۔ قرآن پاک نے قتل مسیح علی الصلیب اور صلیب پر چڑھنے نیز قتل بالسیف وغیرہ کی بشد و مد تردید فرمائی ہے اور موت طبعی کے عدم وقوع کی تائید کی ہے۔ کماسیاقی بیانہ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مرزا لوگ خلاف قرآن موت طبعی پر اصرار، صلیب پر چڑھنے کا اقرار رفع الی السماء کا انکار کرتے ہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' رفع سے مراد وہ موت ہے جو عزت کے ساتھ ہو۔'' (۱۶)
اور صلیب پر چڑھنے کا واقعہ مرزا صاحب نے بایں الفاظ لکھا ہے:
'' پھر بعد اس کے مسیح ان (یہود) کے حوالہ کیا گیا۔ تازیانے لگائے گئے، گالیاں سننا، طمانچہ کھانا، ہنسی اور ٹھٹھے میں اڑائے جانا اس نے دیکھا، آخر صلیب پر چڑھا دیا۔'' (۱۷)
مگر قرآن مجید نے اس عقیدہ کو لعنتی قرار دے کر مسیح علیہ السلام کا زندہ آسمان پر اٹھایا جانا ظاہر کیا ہے۔
---------------------------------------------
(۱۳) ضمیمہ براھین احمدیہ ۱۷۶،ج۵ و روحانی ص۳۴۵، ج۲۱ و تفسیر مرزا ص۳۱۳، ج۳
(۱۴) ازالہ اوہام ص۳۷۳ و روحانی ص۲۹۲، ج۳ و تفسیر مرزا ص۲۸۱،ج۳
(۱۵) ایضاً ص۲۴۸ و روحانی ص۲۲۵، ج۳
(۱۶) ایضاً ص۵۹۹ و روحانی ص۴۲۳، ج۳ و تفسیر مرزا ص۳۲۷، ج۳
(۱۷) ایضاً ص۳۸۰ و روحانی ص۲۹۵، ج۳ و تفسیر مرزا ص۲۸۳، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
دلیل اوّل:
اِذْ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَمُطَھِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اَلاٰیَۃَ۔(۱۸)
''جب کہا اللہ تعالیٰ نے اے عیسیٰ میں تجھ کو پورا لینے والا ہوں اور اپنی طرف تجھے اٹھا لینے والا ہوں، اور ان یہود سے تجھے پاک کرنے والا ہوں۔''
اس آیت میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام مخاطب ہیں جو روح و جسم دونوں سے مرکب انسان تھے۔ یہ آیت وعدہ ہے مسیح علیہ السلام کو زندہ اٹھا لینے کا۔ یہ وعدہ اس وقت دیا گیا تھا جب یہود حضرت مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے اور صلیب پر چڑھانے کی تدبیر کرکے انہیں پکڑنے آئے۔ وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللّٰہ۔ وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔ الایۃ(۱۹)۔چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' یہودیوں نے حضرت مسیح (کے لیے قتل و) صلیب کا حیلہ سوچا تھا۔ خدا نے مسیح کو وعدہ دیا کہ میں تجھے بچاؤں گا اور تیرا اپنی طرف رفع کروں گا۔'' (۲۰)
آیت قرآن و حکایت مرزا قادیان سے عیاں ہے کہ قتل و صلیب دونوں سے بچانے کا وعدہ تھا۔ آیت مطھرک یعنی تجھے کفار سے پاک رکھوں گا اس کی مزید تائید کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ صحابی و عم زاد رسول صلی اللہ علیہ وسلم جن کے حق میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زیادتی علم قرآن کی دعا بھی فرمائی ہے(۲۱)۔ فرماتے ہیں:
فَاجْتَمَعَتِ الْیَھُوْدُ عَلٰی قَتْلِہٖ فَاخْبَرَہُ اللّٰہُ بِاَنَّہٗ یَرْفَعُہٗ اِلَی السَّمَائِ وَیُطَھِّرُہٗ مِنْ صُحْبَۃِ الْیَھُوْدِ (۲۲)۔ (نسائی وابن مردویہ ذکرہ فی السراج المنیر)
'' یعنی جب یہود مسیح علیہ السلام کو قتل کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے اس وقت اللہ تعالیٰ نے اسے خبر دی کہ میں تجھے آسمان پر اٹھاؤں گا اور کفار یہود کی صحبت سے پاک رکھوں گا۔''
اس جگہ اللہ تعالیٰ نے یہود کی تدبیر سوء کے مقابلہ پر اپنی تدبیر خیر کا ذکر کیا ہے۔ خدا کی یہ مقرر شدہ سنت ہے کہ وہ صاحبِ کتاب انبیاء کے معاملہ میں کفار کے مکر کو ضرور ہی کفار پر الٹ دیا کرتا ہے۔ اور جلد یا بدیر اسی معاملہ میں اپنے انبیاء کو ان پر غالب رکھتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: وَلَا یَحِیْقُ الْمَکْرُ السَّیِّیُٔ اِلاَّ بِاَھْلِہٖ(۲۳)۔یعنی بری تدبیر اس کے کرنے والے پر ہی الٹ پڑتی ہے۔ چنانچہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ:
'' خدا کا مکر اس حالت میں کہا جاتا ہے جب ایک شریر آدمی کے لیے اسی کے پوشیدہ منصوبوں کو اس کے سزا یاب ہونے کا سبب ٹھہراتا ہے۔ قرآن کی رو سے یہی خدا کا مکر ہے جو مکر کرنے والے کے پاداش میں ظہور میں آتا ہے۔ کافروں نے ایک بد مکر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمیشہ کے لیے مکہ سے خارج البلد کردینے کا۔ ناقل) کیا اور مکہ سے نکال دیا اور خدا نے نیک مکر کیا۔ وہ نکالنا اس رسول کی فتح کا موجب ٹھہرا دیا خدا کے اس قسم کے کام بھی پائے جاتے ہیں کہ جس گڑھے کو ایک بد ذات ایک شریف کے لیے کھودتا ہے خدا اسی کے ہاتھ سے اسی میں اس کو ڈال دیتا ہے الخ۔'' (۲۴)
اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق خدا نے یہود کے مکر کو انہی پر ڈال دینے کا اور مسیح علیہ السلام کو بچانے اور زندہ اٹھانے کا وعدہ دیا اس وقت بالفاظ مرزا صاحب:
'' یہودی اس فکر میں تھے کہ آنجناب کو بذریعہ صلیب قتل کردیں۔'' (۲۵)
ولہٰذا صاف عیاں ہے کہ وعدہ تطہیر وغیرہ بھی اسی وقت کے لیے تھا۔ چنانچہ مرزا صاحب فرماتے ہیں کہ وعدہ کے الفاظ صاف:
'' دلالت کرتے ہیں کہ وعدہ جلد پورا ہونے والا ہے اور اس میں کچھ توقف نہیں۔''(۲۶)
پس اگر اس جگہ توفی کے معنی موت اور رفع الی اللہ و بلندی درجات کئے جاویں تو معاذ اللہ یہود کا مکر کامیاب اور خدا کی تدبیر ناکام اور کفار سے سراسر تطہیر غلط و باطل اور وعدہ الٰہی کذب و دروغ ٹھہرتا ہے چونکہ ایسا نہیں لہٰذا ثابت ہوا کہ یہاں لفظ توفی کے معنی یہی ہوسکتے ہیں۔ اَلتَّوَفِّیْ اَخْذُ الشَّیْئِ وَافِیًا(۲۷) (تفسیر بیضاوی زیر آیت فلما توفیتنی) ۔یعنی توفی کے معنی ہیں کسی چیز کو پورا لینے کے ایسے ہی محاورہ عرب ہے توفیت منہ دراھمی میں نے اس سے اپنے درہم پورے لے لئے (۲۸)(تفسیر کبیر جلد ۲، ص۲۸۱) ۔ چنانچہ مرزا صاحب نے بھی الہام متوفیک کے اسی کے قریب قریب معنی کئے ہیں:
'' میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا۔''(۲۹)
الغرض خدا نے حسبِ وعدہ مسیح کو اپنی طرف اٹھا لیا اور کفار کے مکر کو انہی پر الٹ دیا۔ جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ جن کے متعلق مرزا صاحب کو بھی اقرار ہے کہ وہ بہ برکت دعائے نبوی صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سمجھنے میں اوّل نمبر پر تھے کی روایت سے تفسیر معالم میں مرقوم ہے:
فَبَعَثَ اللّٰہُ جِبْرَائِیْلَ فَاَدْخَلَہٗ فِیْ خَوْخَۃٍ فِیْ سَقْفِھَا رَوْزَنَۃٌ فَرَفَعَہٗ اِلَی السَّمَائِ مِنْ تِلْکَ الرَّوْزَنَۃِ فَاَلْقَی اللّٰہُ شِبْہَ عِیْسٰی عَلَیْہِ السَّلَام فَقَتَلُوْہُ وَصَلَبُوْہُ(۳۰)۔
''جب وہ شخص جو مسیح کو پکڑنے کے لیے گیا تھا مکان کے اندر پہنچا تو خدا نے جبرائیل علیہ السلام کو بھیج کر مسیح کو آسمان پر اٹھا لیا اور اسی بدبخت یہودی کو مسیح کی شکل پر بنا دیا پس یہود نے اسی کو قتل کیا اور صلیب پر چڑھایا۔'' (جلد ۲، ص۲۳۸)
اسی روایت کو درمنثور میں عبدابن حمید اور نسائی۔ وابن مردویہ سے نقل کیا ہے۔ حافظ ابن کثیر اور امام سیوطی نے بھی اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ پھر اسی کے قریب قریب امام ابن جریر نے جو عند المرزا '' نہایت معتبر ائمہ حدیث میں سے ہے۔'' (۳۱)
ابو مالک سے اور عبدابن حمید نے شہر بن حوشب سے زیر آیت: وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتَابِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ۔ نقل کیا ہے۔ (۳۲)
اس روایت کے متعلق بعض جہال کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ عقیدہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے عیسائیوں کی کتب سے لیا ہے۔ وہ جلد بازبد فہم انسان اتنا بھی نہیں جانتے کہ ہم یہ کہہ کر مرزا کے پاؤں میں کلہاڑی مار رہے ہیں کیونکہ مرزا صاحب خود اقراری ہیں کہ نصاریٰ کے تمام فرقے مسیح کے صلیب پر مرنے اور تین دن تک مرے رہنے کے قائل ہیں۔ جیسا کہ ہم یہ قولِ مرزا درج کر آئے ہیں۔ اندریں صورت نصاریٰ کا یہ عقیدہ ہی نہیں کہ مسیح قبل از صلیب آسمان پر اٹھایا گیا۔ تو یہ کیسے درست ہوسکتا ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی روایت ان کے خیال پر مبنی ہے:
'' حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بوجہ دعا نبوی قرآن کو سب سے اچھا سمجھتے تھے۔'' (۳۳)
اور مقدمہ تفسیر ابن کثیر میں ان کا بار بار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سنانا، اور مطالب و مضامین قرآن کا سمجھنا مذکور و موجود ہے اور یہ روایت قرآن کی کسی آیت یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث کے خلاف بھی نہیں ہے۔ لہٰذا یقینا یہ تعلیم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور فہم عطا ربی ہے، جو سراسر قرآنِ پاک کا موید اور خدا کی سنت وَلَا یَحیق المکر السَّیِّیئُ اِلاَّ بِاَھْلِہٖ کا مثبت ہے۔ پس اس سے منہ پھیرنا اللہ تعالیٰ کی سنت مندرجہ قرآن (مسلمہ مرزا قادیانی) کو ملیا میٹ کرنے کے برابر ہے۔ وَمَا یَقُوْلُ بِہٖ اَحَدٌ اِلاَّ مَنْ سَفِہَ نَفْسَہٗ۔
رفع کے معنی:
جب رَفَعَ یَرْفَعُ رَفْعًا فَھُوَ رَافِعٌ۔ میں سے کوئی بولا جائے جہاں اللہ تعالیٰ فاعل ہو، اور مفعول ''جوہر'' ہو (''عرض'' نہ ہو) اور صلہ الیٰ مذکور ہو۔ اور مجرور اس کا ضمیر ہو اسم ظاہر نہ ہو اور وہ ضمیر فاعل کی طرف راجع ہو۔ وہاں سوائے آسمان پر اٹھانے کے دوسرے معنے ہوتے ہی نہیں۔
---------------------------------------------------
(۱۸) ۱۸ پ۳ اٰل عمران: ۵۵
(۱۹) پ۳ اٰل عمران : ۵۴
(۲۰) اربعین نمبر ۳ ص۹ و روحانی ص۳۹۴، ج۱۷
(۲۱) مسند امام احمد ص۳۲۸، ج۱ و ازالہ اوہام ص۲۴۷ و روحانی ص۲۲۵، ج۳
(۲۲)
(۲۳) پ۲۲ فاطر : ۴۳
(۲۴) ملخصًا چشمہ معرفت ص۱۰۸ تا ۱۰۹ و روحانی ۱۱۶ تا ۱۱۷، ج۲۳ و تفسیر مرزا ص۵۸، ج۳
(۲۵) حاشیہ تریاق القلوب ص۱۴۷ و روحانی ۴۵۸، ج۱۵ و تفسیر مرزا ص۹۵،ج۳
(۲۶) آئینہ کمالات اسلام ص۴۶ و روحانی ص۴۶
(۲۷) تفسیر بیضاوی وعسل مصفی ص۲۰۶، ج۱
(۲۸) تفسیر کبیر ص۷۵، ج۸
(۲۹) براھین احمدیہ ص۵۹۱،ج۴ و روحانی ص۶۲۰ و تذکرہ ص۹۷
(۳۰) معالم وابن کثیر ص۵۷۵، ج۱ و در منثور ص۲۳۸، ج۲
(۳۱) چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳ حاشیہ
(۳۲) تفسیر ابن جریر
(۳۳) ازالہ اوہام ص۲۴۷ و روحانی ص۲۲۵، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
تیسری دلیل:
جو مدعا بالا کی مؤید ہے یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو بوقتِ محصوری آسمان پر لے جانے کو حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے جیسا کہ سابقاً بروایت ابن عباس رضی اللہ عنہ جن کو '' علم قرآن بہ دعا نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حاصل تھا'' مذکور ہوچکا ہے۔ اسی کی طرف قرآن مجید میں بار بار توجہ دلائی گئی ہے۔ تفصیل اس کی یوں ہے کہ اگرچہ تمام انبیاء کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آتے رہے۔ مگر اس طرح کا واقعہ کسی نبی کے ساتھ پیش نہیں آیا جیسا مسیح علیہ السلام کے ساتھ یعنی یہ کہ جبرائیل علیہ السلام انہیں دشمنوں کے نرغے سے نکال کر آسمان پر لے گئے ہوں یہی وجہ ہے کہ خاص مسیح علیہ السلام کے متعلق آیات میں بار بار آیا ہے {اَیَّدْنَاہُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ }(۴۶) '' ہم نے مسیح علیہ السلام کو جبرائیل علیہ السلام کے ساتھ تائید دی۔''
اسی طرح خدا تعالیٰ قیامت کے دن مسیح علیہ السلام کو یہ انعام یاد دلائے گا { اِذْا یَّدْتُکَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ}(۴۷) اے عیسیٰ علیہ السلام وہ وقت یاد کر جب میں نے تجھے روح القدس سے تائید بخشی یعنی آسمان پر زندہ اٹھا لیا(۴۸) ۔ تفسیر ہذا (تفسیر کبیر جلد ۱ ص ۲۲۶)
آیات بالا کی موجودگی میں یہ اعتقاد رکھنا کہ معاذ اللہ یہود نے حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب پر چڑھا دیا اور آپ کے ہاتھوں میں میخیں ٹھونکیں۔ ایک صریح گندہ اور کفریہ عقیدہ ہے۔ یقینا حضرت مسیح علیہ السلام باعانت جبرائیل علیہ السلام بحکم و بموجب وعدہ الٰہی جو جلد اور بلا توقف پورا ہونے والا تھا یہود کے ہاتھوں میں مبتلائے آلام ہونے سے پیشتر زندہ آسمان پر اٹھائے گئے۔
سوال:
جبکہ دیگر تمام انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے اسی دنیا میں رکھ کر شر اعدار سے محفوظ رکھا تو حضرت مسیح علیہ السلام کی کیا خصوصیت تھی کہ انہیں آسمان پر اٹھا لیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیوں نہ اٹھا لیا؟
الجواب:
چونکہ امرِ مقدر یونہی تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نہ صرف بلا باپ پیدا ہونے کے بلکہ ایک عرصہ دراز تک زندہ رہنے اور آسمان پر اٹھائے جانے کے نشانِ قدرت بنائے جائیں۔ اور آخری زمانہ میں ان کے ہاتھ سے خدمتِ اسلام لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دوبالا کیا جائے کہ آپ کا وہ مرتبہ ہے کہ مستقل اور صاحبِ شریعت و کتاب رسول بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی سعادت سمجھیں۔ حتیٰ کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہو کر امام الصلوٰۃ بھی بنیں اور گواہی دیں کہ تَکْرِمَۃَ اللّٰہِ ھٰذِہِ الْاُمَّۃِ(۴۹)۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو آسمان پر اٹھا لیا۔
مرزائیوں سے ایک سوال:
صاحبان! آپ مسیح کی ولادت بلا باپ کو مانتے ہیں جیسا کہ مرزا صاحب کی تصریحات موجود ہیں(۵۰)۔ پس بتلائیے کہ کیا وجہ ہے خدا نے دیگر انبیاء کو تو ماں باپ دونوں کے ذریعہ پیدا کیا مگر مسیح کو بلا باپ؟ جو جواب تم اس کا دو گے اسی کے اندر ہمارا جواب موجود ہے۔
--------------------------

(۴۶) پ۳ البقرہ : ۲۵۳
(۴۷) المائدہ : ۱۱۰
(۴۸) تفسیر کبیر زیر آیت المائدہ : ۱۱۰
(۴۹) احرجہ من حدیث جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ، مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیسٰی ابن مریم ومشکوٰۃ ص۴۸۰ باب نزول عیسٰی بن مریم
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
چوتھی دلیل:
آیات متذکرہ بالا سے بوضاحت ثابت ہوچکا ہے کہ خدا نے یہود کے مکرو فریب سے حضرت مسیح علیہ السلام کو بکلی محفوظ رکھا اور انہیں اپنی طرف اٹھا لیا۔ اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ اللہ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ارشاد فرمایا ہے { وَجِیْھًا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ}(۵۱) مسیح دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی صاحب وجاہت ہے۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہود نے آپ کو صلیب پر چڑھا دیا کیونکہ بائیبل میں مذکور ہے کہ جو دار پر کھینچا گیا وہ لعنتی ہے تو یہ سراسر دنیاوی وجاہت کے منافی و مغائر ہے پس حضرت وجیہ کے متعلق یہ اعتقاد رکھنا کہ وہ صلیب پر چڑھائے گئے، ایک لعنتی عقیدہ ہے۔ خود مرزا صاحب اس عقیدہ کو خلاف وجاہت سمجھتے ہیں۔ چنانچہ راقم ہیں:
{ وَجِیْھَا فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ} دنیا میں بھی مسیح کو اس کی زندگی میں وجاہت یعنی عزت، مرتبہ، عظمت، بزرگی ملے گی اور آخرت میں بھی اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ہیرو دیس کے علاقہ میں کوئی عزت نہیں پائی بلکہ غایت درجہ کی تحقیر کی گئی سچی بات یہ ہے کہ جب مسیح نے ملک پنجاب کو اپنی تشریف آوری سے شرف بخشا تو اس ملک میں خدا نے ان کو بہت عزت دی۔ حال ہی میں ایک سکہ ملا ہے اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نام درج ہے اس سے یقین ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے اس ملک میں آکر شاہانہ عزت پائی۔(۵۲)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ واقعہ صلیب والا قصہ وجاہت کے سراسر منافی ہے۔ باقی رہا ملک پنجاب میں مسیح کی آمد سو ایک بیہودہ قصہ اور بے ثبوت بات ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واقعہ صلیب سے قبل حضرت مسیح علیہ السلام کو ''بلا توقف و بجلد'' توفی و رفع کا وعدہ دیا تھا۔ پس کشمیر کا ڈھکوسلہ خلافِ قرآن ہے۔ حضرت مسیح علیہ السلام اسی وقت اٹھاے گئے تھے۔
ماسوا اس کے بفرضِ محال مان بھی لیا جائے تو بھی یہ وجاہت کلی نہیں کیونکہ بقول مرزا صاحب جب ایک دفعہ انتہائی رسوائی ہوچکی، پھر عزت ملی بھی تو کیا ملی۔ حالانکہ خدا نے بلا استثناء مسیح علیہ السلام کو وجیہ قرار دیا ہے۔ (۵۳)
---------------------------------------
(۵۰) دیکھئے خطبہ الھامیہ ص۴۷،۴۸ و مواہب الرحمن ص۷۷، ۷۸ و تحفہ گولڑویہ ص۲۳ و تفسیر مرزا ص۳۸، ج۳ وغیرہ ابو صہیب
(۵۱) پ۳ اٰل عمران : ۴۵
(۵۲) مسیح ہندوستان میں ص۵۱ و روحانی ص۵۳، ج۱۵ و تفسیر مرزا ص۳۴، ج۳
(۵۳) ازالہ اوہام ص۳۸۰ و روحانی ص۲۹۵، ج۳ و تفسیر مرزا ص۲۸۳، ج۳
 
Top