• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
گیارہویں حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آنحضرت سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مجھے اس ذات واحد کی قسم ہے جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے۔ تحقیق اتریں گے تم میں ابن مریم حاکم و عادل ہو کر پس صلیب کو توڑیں گے اور خنزیر کو قتل کرائیں گے اور جزیہ اٹھا دیں گے ان کے زمانہ میں مال اس قدر ہوگا کہ کوئی قبول نہ کرے گا۔ یہاں تک کہ ایک سجدہ عبادت الٰہی دنیا و مافیہا سے بہتر ہوگا۔ (یہ حدیث بیان کرکے حضرت ابوہریرہ کہتے ہیں) اگر تم چاہتے ہو کہ (اس حدیث کی تائید قرآن سے ہو) تو پڑھو آیت وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُوْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ الایہ۔ یعنی خدا فرماتا ہے آخری زمانہ میں کوئی اہل کتاب میں سے ایسا نہ ہوگا جو مسیح پر (جسے وہ بزعم خود مصلوب سمجھتے ہیں) اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے۔ (۲۰۸)
یہ حدیث بھی حیات مسیح و نزول من السماء پر قطعی دلیل ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قسم کھا کر مسیح ابن مریم کا نزول بیان فرماتے ہیں۔ صحابہ کرام مسیح ابن مریم سے کوئی اور شخص مراد نہیں سمجھتے بلکہ وہی عیسیٰ ابن مریم صاحب انجیل رسولاً بنی اسرائیل سمجھتے ہیں جس کا ذکر اِنْ مِنْ اَہل الکتاب والی آیت میں ہے۔ حضرت ابوہریرہ جماعت صحابہ کو مخاطب کرکے علی الاعلان کہتے ہیں فَاْقَرأُوْا اِنْ شِئْتُمْ وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ۔ اگر تم چاہتے ہو تو پڑھو آیت جس میں مسیح علیہ السلام کا ذکر ہے۔ کوئی صحابی اس سے انکار نہیں کرتا۔ اس حدیث میں کسی قسم کی تاویل کرنا مرزا صاحب کے رد سے قطعاً ناجائز ہے۔
آنحضرت قسم کھا کر بیان کرتے ہیں اور مرزا صاحب راقم ہیں کہ:
'' نبی کا کسی بات کو قسم کھا کر بیان کرنا اس بات پر گواہ ہے کہ اس میں کوئی تاویل نہ کی جاوے نہ استثنا، بلکہ اس کو ظاہر پر محمول کیا جاوے، ورنہ قسم سے فائدہ ہی کیا۔'' (۲۰۹)
اعتراض:
ان ینزل فیکم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو مخاطب کیا ہے کہ ابن مریم تم میں نازل ہوگا۔
الجواب:
خطاب صحابہ کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ عامہ امت محمدیہ تاقیامت مخاطب ہے۔ ابن خزیمہ و حاکم نے روایت نقل کی ہے عن انس قال النبی ﷺ سیدرک رجال من امتی ابن مریم(۲۱۰)۔ یعنی میری امت کے لوگ عیسیٰ کا زمانہ پائیں گے نہ صحابہ لوگ۔ اور دیگر احادیث صحیحہ کثیرہ میں حضرت عیسیٰ کا قرب قیامت تشریف لانا مصرح ہے۔ ملاحظہ ہوں:
قال لا تقوم الساعۃ حتی ینزل عیسی ابن مریم(۲۱۱) لن تقوم الساعۃ حتی ترون قبلھا عشر اٰیات ونزول عیسی ابن مریم(۲۱۲) ظاھرین الٰی یوم القیامۃ فینزل عیسی ابن مریم(۲۱۳) کیف تھلک امۃ انا اولھا والمھدی وسطھا والمسیح اخرھا۔(۲۱۴)
ان تمام حدیثوں میں حضرت عیسیٰ کا نزول قرب قیامت مذکور ہے۔ اور پچھلی روایت میں امتِ محمدیہ کے آخر زمانہ میں حضرت عیسیٰ کا ہونا مصرح ہے نہ عہد صحابہ میں نہ چودہ سو سال کے بعد۔
-----------------------------------
(۲۰۸) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰ ، ج۱ کتاب الانبیاء باب نزول عیٰسی بن مریم و مسلم فی الصحیح ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم و مشکوٰۃ ص۴۷۹ باب نزول عیٰسی مریم وعسل مصفّٰی ص۲۰۲، ج۱
(۲۰۹) حمامۃ البشرٰی ص۱۴ و روحانی ص۱۹۲ج ۷
(۲۱۰) اخرجہ الطبرانی فی الاوسط کما ذکرہ الھیثمی فی مجمع الزوائد ص۳۵۲ ج۷ کتاب الفتن باب ماجاء فی الرجال، والدیلمی فی کتاب فردوس الاخبار ص۴۵۷، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۴۴ ج۴ ابو یعلی ص۱۹۸، ج۳ رقم الحدیث ۲۸۱۲ واوردہ السیوطی فی الدر المنثور ص۲۴۵، ج۲
(۲۱۱) اخرجہ ابن ماجۃ فی السنن ص۳۰۸ کتاب الفتن باب نزول عیٰسی بن مریم واحمد فی سندہٖ ص۴۹۴، ج۲
(۲۱۲) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۹۳، ج۲ کتاب الفتن باب ظھور عشر اٰیات
(۲۱۳) ایضاً ص۸۷، ج۱ کتاب الایمان باب نزول عیٰسی بن مریم
(۲۱۴) اخرجہ رزین اوردہ الخطیب فی المشکوٰۃ ص۵۸۳ باب ثواب ھذاہ الامۃ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
بارہویں حدیث:
بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِنَا اَوْلَی النَّاسِ بِعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ الْاَنْبِیَائَ اِخوَۃٌ مِّنْ عَلاَّتٍ وَاُمَّھٰتُھُمْ شَتّٰی وَدِیْنھم وَاحِدٌ وَلَیْسَ بَیْنَنَا نَبِیٌّ(۲۱۵)میں بہ نسبت لوگوں کے مسیح سے بہت نزدیک ہوں دنیا و آخرت میں۔ انبیاء سب سوتیلے بھائی ہیں۔ اور مائیں ان کی مختلف اور دین سب کا ایک ے میرے اور مسیح کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا۔
مرزا صاحب بھی مقر ہیں کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں:
۱۔ حضرت مسیح کے زمانہ کو چھ سو برس گزر گئے تھے اور اس عرصہ میں کوئی الہام یافتہ پیدا نہیں ہوا تھا۔ (۲۱۶)
۲۔ کچھ شک نہیں کہ محدث نبی کا چھوٹا بھائی ہوتا ہے اور تمام انبیاء علاقی بھائی کہلاتے ہیں۔(۲۱۷)
۳۔ (میرا) نبوت کا دعویٰ نہیں بلکہ محدثیت کا دعویٰ ہے جو خدا کے حکم سے کیا گیا ہے۔ (۲۱۸)
حدیث بالا میں حضرت مسیح ابن مریم رسولاً الیٰ بنی اسرائیل کا ذکر ہے کسی آئندہ پیدا ہونے والے مسیح نبی کا ذکر نہیں۔ مرزا صاحب اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ ناظرین اسے ملحوظ رکھیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ حسب مناسبت باب جیسا کہ ان کی عادت شریفہ ہے۔ تھوڑا حصہ اس حدیث کا لائے ہیں۔ حدیث طویل ہے تفصیل ملاحظہ ہو میاں محمود احمد خلیفہ قادیان نقل کرتے ہیں:
عن ابی ھریرۃ عن النبی ﷺ قال الانبیاء اخوۃ لعلات امھاتھم شتی ودینھم واحد لَاِنِّیْ اولی الناس بعیسی ابن مریم لانہ لم یکن بینی وبینہ یعنی عیسٰی علیہ السلام نبی وانہ نازل فاذا رأیتموہ واعرفوہ رجل مربوع الی الحمر والبیاض علیہ ثوبان ممصرات راسہ یقطر وان لم یصبہ بلل فیدک الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعو الناس الی الاسلام فتھلک فی زمانھا الملل کلھا الا الاسلام الی الحدیث۔
انبیاء علاقی بھائیوں کی طرح ہوتے ہیں ان کی مائیں تو مختلف ہوتی ہیں اور دین ایک ہوتا ہے اور میں عیسیٰ ابن مریم سے سب سے زیادہ تعلق رکھنے والا ہوں کیونکہ اس کے اور میرے درمیان کوئی نبی نہیں اور وہ نازل ہونے والا ہے پس جب اسے دیکھو تو اسے پہچان لو کہ وہ درمیانہ قامت سرخی سفید ملا ہوا رنگ زرد رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے اس کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا۔ گو سر پر پانی نہ ہی ڈالا ہو۔ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کو قتل کرے گا اور جزیہ ترک کرے گا اور لوگوں کو اسلام کی طرف دعوت دے گا یقاتل الناس الی الاسلام کے لفظ کیوں چھوڑ دئیے؟ شاید اس لیے کہ ان الفاظ میں مسیح کی شان سیاست کا ذکر ہے اور مرزا صاحب خود یاجوج ماجوج کی رعایا اور فرمانبردار تھے۔ ناقل) اس کے زمانہ میں سب مذاہب ہلاک ہوجائیں گے اور صرف اسلام باقی رہ جائے گا اور شیر اونٹوں کے ساتھ اور چیتے گائے بیلوں کے ساتھ اور بھیڑئیے بکریوں کے ساتھ چرتے پھریں گے اور بچے سانپوں سے کھیلیں گے اور وہ ان کو نقصان نہ دیں گے۔ عیسیٰ بن مریم چالیس سال (زمین پر) رہیں گے پھر فوت ہونگے اور مسلمان اُن کے جنازہ کی نماز پڑھائیں گے۔(۲۱۹)
یہ حدیث ابوداؤد جلد ۲ ص۲۳۸ پر موجود ہے۔ اس کے سب راوی ثقہ اور مقبول ہیں۔ نیز یہ حدیث مسند احمد میں بھی موجود ہے۔ ایسا ہی ابن جریر، ابی ابی شیبہ، ابن حبان میں ہے۔(۲۲۰) اعجاز المسیح ص۳۸ مصنفہ مرزا صاحب و ازالہ اوہام ص۵۹۴،۲۴۵ط وغیرہ بھی اس حدیث کے بعض حصے نقل کرکے ان کی تصحیح و تصدیق بلکہ ان سے تمسک کیا ہے۔ (۲۲۱)
اس حدیث سے صاف عیاں ہے کہ آنے والا مسیح موعود حضرت عیسیٰ ہی ہے جس کے اور آنحضرت کے درمیان کوئی نبی نہیں ہوا تھا۔ جو آنحضرت کا علاقی بھائی اور بموجب حدیث معراج قاتل دجال ہے۔ فلہ الحمد
-----------------------------------------
(۲۱۵) اخرجہ البخاری فی الصحیح ص۴۹۰، ج۱ کتاب الانبیاء باب واذکر فی الکتاب مریم و مسلم فی الصحیح ص۲۶۵، ج۲ کتاب الفضائل باب فضائل عیٰسی بن مریم و مشکوٰۃ ص۵۰۹ باب یدالخق وعسل مصفّٰی ص۱۵۹، ج۲
(۲۱۶) اسلامی اصول کی فلاسفی ص۱۱۵ وروحانی ص۴۲۹ ج ۱۰ و تفسیر مرزا ص۳۴۴ ج۸
(۲۱۷) ازالہ اوہام ص۲۵۲ و روحانی ص ۳۴۱، ج۳ ؍ ۲۱۸ ایضاً ص۴۲۲ و روحانی ص۳۲۰ ج ۳
(۲۱۹) حقیقت النبوۃ ص۱۹۲ و عسل مصفّٰی ص۵۹، ج۲ واللفظ لہ
(۲۲۰) اخرجہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہٖ ص۱۵۹، ج۱۵ کتاب الفتن واحمد فی مسندہٖ ص۴۳۷، ج۲ وابوداؤد فی السنن ص۲۳۸، ج۲ کتاب الملاحم باب خروج الدجال وابن حبان فی صحیحہٖ ص۲۸۷،ج۹ رقم الحدیث نمبر ۶۷۷۵۔
(۲۲۱) اعجاز المسیح ''لم اجدہ'' ازالہ اوہام ص۵۹۴ و روحانی ص۴۲۰، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تیرہویں حدیث:
عَنِ الْحَسَنِ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِلْیَھُوْدِ اِنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتُ وَاِنَّہٗ رَاجِعٌ اِلَیْکُمْ قَبْلَ یَوْمِ الْقِیَامَۃِ۔(۲۲۲)
''حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آنحضرت نے یہود کو مخاطب کرکے فرمایا: تحقیق عیسیٰ فوت نہیں ہوا۔ لاریب وہ تمہاری طرف اترے گا قیامت سے قبل۔''
اعتراض:
یہ حدیث مرسل ہے اس لیے قابل قبول نہیں۔ (۲۲۳)
جواب:
حضرت حسن بصری کی مرسل حدیث میں تو وہی شخص کلام کرے گا جس کو ان کے اقوال کا پورا علم نہیں وہ خود فرماتے ہیں کل شی سمعنی اقول فیہ قال رسول اللّٰہ ﷺ فھو عن علی ابن ابی طالب غیر انی فی زمان لا استطیع ان اذکر علیا۔(۲۲۴) آہ (تہذیب الکمال للمزی) میں جتنی احادیث میں قال رسول اللہ کہوں اور صحابی کا نام نہ لوں سمجھ لو کہ وہ حضرت علی بن ابی طالب کی روایت ہے۔ میں ایسے (سفاک دشمن آل رسول حجاج کے) زمانہ میں ہوں کہ حضرت علی کا نام نہیں لے سکتا۔ احمدیو! حدیث پر اعتراض کرنے سے پیشتر علم حدیث کسی اُستاد سے پڑھو۔
ایک شبہ اور اُس کا ازالہ:
مرزائی بعض وقت کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ حدیث بلا سند ہے۔
الجواب:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد اَنَّ عِیْسٰی لَمْ یَمُتْ الخ کو باب مدینۃ العلم مولیٰ علی مرتضیٰ نے سنا۔ ان سے حسن بصری (سید التابعین وشیخ الصوفیہ) نے اخذ کیا، ان سے ربیع نے ان سے ابو جعفر نے ان سے اُن کے بیٹے عبداللہ نے ان سے اسحق نے اُن سے مثنیٰ نے ان سے ابن جریر طبری نے(۲۲۵) تفسیر ابن جریر کتب متداولہ میں سے ہے اور اس میں حدیث کی سند بھی موجود ہے۔
محمد بن جریر بڑے پایہ کا محدث ہے کہ ابن خلکان وغیرہ نے ان کو ائمہ مجتہدین میں سے لکھا ہے۔ خود آپ کے مرزا صاحب نے چشمہ معرفت میں لکھا ہے کہ '' جریر نہایت معتبر اور ائمہ میں سے ہے۔'' (۲۲۶)
اعتراض :
اگر یہ معتبر حدیث ہے تو اس کو صحاح ستہ میں ہونا چاہیے تھا۔
الجواب:
(۱) مرزا صاحب نے ضمیمہ انجام آتھم میں جو حدیث یتزوج ویولدلہ لکھی ہے وہ صحاح ستہ میں کہاں ہے؟ (۲۲۷)
(۲) حقیقۃ الوحی اور حاشیہ چشمہ معرفت میں جو روایت کسوف وخسوف و رمضان تحریر کی ہے وہ صحاح ستہ میں کس جگہ ہے؟ (۲۲۸)
(۳) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۱، حاشیہ کتاب البریہ ص۲۲۶ میں جو اثر خروج مہدی از کدعہ درج کیا ہے وہ صحاح ستہ کی کس کتاب میں ہے؟ (۲۲۹)
(۴) کتاب مسیح ہندوستان میں ص۵۳، ص۵۴ میں جو تین حدیثیں حضرت عیسیٰ کی سیاحت سے متعلق تحریر ہیں ان کا پتہ صحاح ستہ سے بتاؤ۔ (۲۳۰)
-------------------------------------------------------
(۲۲۲) اخرجہ ابن جریر فی تفسیرہٖ ص۲۰۲، ج۳ وابن ابی حاتم کما ذکرہ السیوطی فی الدر المنثور ص۳۶، ج۲ وابن کثیر فی تفسیرہٖ ص۳۶۶، ج۱
(۲۲۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۱۲؍ ۲۲۴ حاشیہ خلاصہ تذھیب ص۲۱۱، ج۱
(۲۲۵) تفسیر ابن جریر ص۱۸۳، ج۲ ؍ ۲۲۶ حاشیہ چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳
(۲۲۷) ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص۳۳۷، ج۱۱
(۲۲۸) حقیقت الوحی ص۱۹۴ و روحانی ص۲۰۲ ج۲۲ و چشمہ معرفت ص۳۱۴ و روحانی ص۳۲۹، ج۲۳
(۲۲۹) ضمیمہ انجام آتھم ص۴۱ و روحانی ص۳۲۵، ج۱۱ و کتاب البریہ ص۲۳۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۱۳
(۲۳۰) و روحانی ص۵۶، ج۱۵ ؍ ۲۳۱ آئینہ کمالات اسلام ص۱۶۸ و روحانی ص۱۶۸ ج۵ و چشمہ معرفت ص۲۵۰ و روحانی ص۲۶۱، ج۲۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
حدیث نمبر ۱۴:
تفسیر ابن جریر جو '' رئیس المفسرین و معتبر آئمہ حدیث میں سے ہے۔''(۲۳۱) تفسیر در منثور جلد ۲ ص۳ پر ہے کہ جب نجران کے عیسائی آنحضرت کے پاس آئے اور ان سے توحید و تثلیث پر گفتگو ہوئی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اَلَسْتُمْ تَعْلَمُوْنَ اَنَّ رَبَّنَا حَیٌّ لاَّ یَمُوْتُ وَاَنَّ عِیْسٰی یَاتِیْ عَلَیْہِ الْفَنَا۔(۲۳۲)
'' او انسان کے پرستارو! کیا تم جانتے نہیں کہ خدا حی لا یموت ہے مگر عیسیٰ علیہ السلام پر تو موت آئے گی۔''
برادران غور فرمائیے! اگر حضرت مسیح علیہ السلام وفات پاچکے ہوتے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صاف فرماتے ہیں کہ اِنَّ عِیْسٰی قَدْ مَاتَ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یَاْتِیْ صیغہ مضارع زمانہ آئندہ کا استعمال فرمایا کہ اس کو موت آئے گی۔ پس ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ والْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذَالِکَ۔
پندرہویں حدیث:
یُحَدِّثُ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ عَنِ النَّبِیِّ ﷺ قَالَ وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ لَیُھِلَّنَّ ابْنُ مَرْیَمَ بِفَجِّ الرَّوْحَائِ حَاجًّا اَوْ مُعْتَمِرًا اَوْ لَیُثنینھما۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، یقینا احرام باندھیں گے ابنِ مریم فج الروحاء سے ، حج کا یا عمرہ کا ، یا قران کریں گے (یعنی عمرہ ادا کرکے اسی احرام سے حج کریں گے)۔(۲۳۳)
اس حدیث سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔
۱۔ مسیح موعود دنیا میں آکر اپنے متعلق ایسی فضا قائم کریں گے کہ تمام دنیا میں ان کے لیے امن ہوگا۔ اور کوئی چیز ان کے حج میں مانع نہیں ہوگی (یعنی وہ بلا خوف حج کرے گا)۔
۲۔ وہ کسی بیماری میں مبتلا نہیں ہوگا جو حج بیت اللہ سے مانع ہو۔
۳۔ کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے حج نہیں کرے گا بلکہ وہ بنفس نفیس خود حج کرے گا۔
نتیجہ:
جو شخص مندرجہ بالا اوصاف سے متصف نہیں ہے وہ یقینا مسیح موعود نہیں۔ مرزائی امت تاویلوں کی بہت عادی ہے۔ جہاں کوئی جواب نہ بنے وہاں تاویلوں کا سہارا ڈھونڈتی ہے کہ اس کے ظاہری معنی مراد نہیں بلکہ اس میں ایک استعارہ ہے۔ مگر مرزا صاحب نے ایک قاعدہ کلیہ بنا دیا ہے جس کے آگے ان کی کوئی پیش نہیں جاتی۔ یہ حدیث قسم سے شروع ہوتی ہے اور قسم والی حدیث کے متعلق مرزا صاحب فرماتے ہیں '' اور قسم صاف بتاتی ہے کہ یہ خبر ظاہری معنوں پر محمول ہے نہ اس میں کوئی تاویل ہے اور نہ استثنا ہے ورنہ قسم میں کونسا فائدہ ہے۔''
اس حدیث نبوی میں الفاظ والذی نفسی بیدہ آئے ہیں لہٰذا اس میں نہ کوئی تاویل ہے اور نہ استثنا ہے۔
نیز مرزا صاحب اپنی کتاب '' ایام الصلح اردو'' کے ص۱۶۹ پر لکھتے ہیں:
'' ہمارا حج تو اس وقت ہوگا جب دجال بھی کفر اور دجل سے باز آکر طواف بیت اللہ کرے گا کیونکہ بموجب حدیث صحیح کے وہی وقت مسیح موعود کے حج کا ہوگا۔'' (۲۳۴)
اس عبارت سے کم از کم اتنا ثابت ہوگیا کہ مرزا صاحب نے تاویلوں کا سہارا ڈھونڈتے ڈھونڈتے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ مسیح موعود حج ضرور کرے گا۔
مرزائی اعتراض نمبر ۱:
آپ کو فارغ البالی اور مرفہ الحالی حاصل نہ تھی۔ (۲۳۵)
الجواب:
اور مالی فتوحات اب تک دو لاکھ روپیہ سے بھی زیادہ ہے۔ (۲۳۶)
'' مجھے اپنی حالت پر خیال کرکے اس قدر بھی امید نہ تھی کہ دس روپیہ بھی ماہوار آئیں گے مگر خدا تعالیٰ جو غریبوں کو خاک میں سے اٹھاتا اور متکبروں کو خاک میں ملاتا ہے، اس نے میری دستگیری کی کہ میں یقینا کہہ سکتا ہوں کہ اب تک تین لاکھ کے قریب روپیہ آچکا ہے۔'' (۲۳۷)
مرزائی اعتراض نمبر ۲:
مرزا صاحب کے لیے مکہ میں امن نہ تھا۔ (۲۳۸)
الجواب:
حدیث سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسیح موعود دنیا میں آکر اپنے متعلق ایسی فضا قائم کریں گے کہ حجاز اور تمام دنیا میں ان کے لیے امن ہوگا اور وہ بلا خوف و خطر حج کریں گے۔ اگر مرزا صاحب کے لیے امن نہ تھا تو اس سے ثابت ہوتا ہے وہ مسیح موعود نہ تھے۔ نیز مرزا صاحب کو الہام ہوا تھا:
واللّٰہُ یعصمک عن الناس۔(۲۳۹)
حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب محافظ اٹھا دئیے۔ اور کہہ دیا کہ اب اللہ نے میری حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے۔
نوٹ: یہ آیت مدنی ہے اور آخری زمانہ میں نازل ہوئی ہے۔ اسی طرح جب مرزا صاحب کی حفاظت کا اللہ تعالیٰ نے ذمہ اٹھایا تو مرزا صاحب نے حج کیوں نہ کیا؟
مرزائی اعتراض نمبر ۳:
مرزا صاحب بیمار رہتے تھے لہٰذا آپ پر حج فرض نہ تھا۔(۲۴۰)
الجواب:
یہی دلیل مرزا کے کاذب مسیح ہونے کا ثبوت ہے۔ حدیث مذکورہ سے عیاں ہے کہ مسیح موعود کو کوئی ایسی جسمانی بیماری نہ ہوگی جو حج بیت اللہ سے مانع ہو۔ ثابت ہوا کہ آپ مسیح موعود نہیں۔ ورنہ آپ ایسی امراض میں مبتلا نہ ہوتے (دردِ سر، دورانِ سر، ذیابیطس وغیرہ)
اعتراض:
الفاظ حاجا او معتمرا لیثنینھما۔ میں '' یا۔ یا'' کے تکرار سے اس کی محفوظیت ظاہر ہے۔(۲۴۱)
الجواب:
ذرا اپنے گھر کی بھی خبر لیجئے۔ کتاب ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ۹۷ میں ہے:
'' اور تیس برس کی مدت گزر گئی کہ خدا نے مجھے صریح لفظوں میں اطلاع دی تھی کہ تیری عمر اسی سال ہوگی اور یا یہ کہ پانچ سال زیادہ یا پانچ چھ سال کم۔'' (۲۴۲)
اعتراض:
یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کشف ہے جس طرح آپ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت یونس علیہ السلام کو لبیک کہتے ہوئے دیکھا ہے۔ ویسے ہی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی آپ نے احرام باندھے ہوئے دیکھا۔ (۲۴۳)
الجواب:
صحیح مسلم میں ایک روایت آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی ازرق میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور وادی ہر شے میں حضرت یونس علیہ السلام کو لبیک کہتے ہوئے دیکھا ہے مگر یہ آپ نے کشفی حالت میں دیکھا جیسا کہ الفاظ قَالَ کانی اَنْظُرُ اِلٰی مُوْسٰی (گویا میں دیکھتا ہوں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف) الفاظ قَالَ کَانِیْ اَنْظُرُ اِلٰی یُونس(فرمایا گویا میں دیکھتا ہوں حضرت یونس علیہ السلام کی طرف)(۲۴۴) اس پردال ہیں۔ مگر یہاں کسی جگہ یہ الفاظ نہیں ہیں قَالَ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلٰی عِیْسٰی پس حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت یونس علیہ السلام نبی اللہ کا واقعہ پیش کرنا صحیح جواب نہیں بلکہ یہاں تو لیھلن مضارع مؤکد بہ نون ثقیلہ ہے جو مضارع میں تاکید مع خصوصیت زمانہ مستقبل کرتا ہے۔(۲۴۵) اس واسطے اس کو ماضی کا واقع بیان کرنا حماقت ہے۔ نیز مرزا صاحب کا کلیہ قاعدہ جو حدیث قسم سے شروع ہو۔ اس کی خبر ظاہری معنوں پر محمول ہوتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی تاویل یا استثنا نہیں ہوا کرتا۔(۲۴۶) اس کی تصدیق نہیں کرتا۔
اعتراض:
ایک حدیث میں دجال کا بھی بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے دیکھا جانا مذکور ہے۔ کیا وہ حاجی ہوگا؟ (۲۴۷)
الجواب:
یہ خواب کا واقعہ ہے تو اس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے حج کا قیاس کرنا جب کہ ان کے لیے زمانہ آئندہ کی خبر صراحت سے دی گئی ہے قیاس مع الفارق ہے۔
اعتراض:
فج الروحاء میقات نہیں۔ مسیح اس جگہ سے احرام کس طرح باندھے گا۔ اس لیے یہ ایک کشف ہے۔ (۲۴۸)
الجواب:
میقات جتنے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے ہیں جو ان سے باہر کے لوگ ہیں اور جو اندر ہوں وہ جہاں ہوں وہیں سے احرام باندھ لیں مثلاً اہل مدینہ کے لیے ذوالحلیفہ میقات ہے تو کیا جو ذوالحلیفہ سے اندر مکہ کی جانب رہتے ہیں وہ بھی ذوالحلیفہ جا کر احرام باندھ کر آئیں؟ نہیں بلکہ وہ جہاں ہوں وہیں احرام باندھ لیں۔ حدیث شریف کے الفاظ کا مقتضایہ ہے کہ ایام حج میں حضرت مسیح موعود دورہ کرتے ہوئے فج الروحاء کے قریب ہوں گے۔ اس لیے وہیں سے احرام باندھ لیں گے۔ یہی شرعی حکم ہے۔ (۲۴۹)
حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ لِاَھْلِ الْمَدِیْنَۃِ ذَا الْحِلَیْفَۃِ وَلَاھْلِ الشَّامَ الُحجفۃ وَلِاَھْلِ نَجْدِ قَرْنَ الْمَنَازِلَ وَلِاَھْلِ الْیَمَنِ یَلَمْلَمَ فَھُنَّ لَھُنَّ وَلِمَنْ اَتٰی عَلَیْھِنَّ مِنْ غَیْرِ اَھْلِھِنْ لِمَنْ کَانَ یُرِیْد الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ فَمَنْ کَانَ دُوْنَھُنَّ فَمُھِّلَہٗ مِنْ اَھْلِہٖ وَکَذَاکَ وَکَذَاکَ حَتّٰی اَھْلُ مَکَّۃَ یُھِلُّوْنَ مِنْھَا۔(۲۵۰)
'' ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے معین کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جگہ احرام کی مدینہ والوں کے لیے ذوالحلیفہ اور شام والوں کے لیے حجفہ اور نجد والوں کے لیے قرن منازل یمن والوں کے لیے یلملم۔ پس یہ میقات ان شہروں کے ہیں جو مذکور ہوئے۔ اور وہ گزریں ان جگہوں سے اور جو شخص کہ ارادہ کرے حج اور عمرے کا، رہنے والا اندران مواضع کے وہ اپنے گھر سے احرام باندھے۔ یہاں تک کہ اہل مکہ، مکہ ہی سے احرام باندھیں۔ انتہیٰ ''
افسوس مرزا صاحب اس دنیا سے کوچ کر گئے اور فریضہ حج ادا نہ کیا۔ جو بوجہ دعویٰ مسیحیت ہونا ضروری تھا۔ اور اسلام کے ایک ادنیٰ خادم اور عالم رحمانی قاضی محمد سلیمان صاحب مرحوم نے پیشگوئی کی تھی:
'' میں نہایت جزم کے ساتھ بآواز بلند کہتا ہوں کہ حج بیت اللہ مرزا صاحب کے نصیب میں نہیں۔ میری اس پیشگوئی کو سب یاد رکھیں۔'' (۲۵۱)
آہ! آج ہم قاضی صاحب مرحوم کی پیشگوئی کو حرف بحرف درست پاتے ہیں۔ حالانکہ مرزا صاحب بعد پیشگوئی کے بہت عرصہ تک زندہ رہے اور حج نصیب نہ ہوا۔
-----------------------------------------------------
(۲۳۲) اخرجہ ابن جریر نی تفسیرہٖ ص۱۰۸، ج۳ وابن ابی حاتم کذافی الدر المنثور ص۳، ج۲
(۲۳۳) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۴۰۸، ج۱ کتاب الحج باب جواز التمتع فی الحج واحمد فی مسندہ ص۳۹۰، ج۲ والحاکم فی المستدرک ص۵۹۵،ج۲ والدر المنثور ص۲۴۵، ج۲ وعسل مصفی ص۱۵۲ ج۲
(۲۳۴) ایام الصلح ص۱۶۹ و روحانی ص۴۱۶، ج۱۴
(۲۳۵) احمدیہ پاکٹبک ص۱۰۵۱ طبعہ ۱۹۴۵؍ ۲۳۶ نزول المسیح ص۳۲ و روحانی ص۴۱۰ ج۱۸
(۲۳۷) حقیقت الوحی ص۲۱۱ و روحانی ص۲۲۱، ج۲۲؍ ۲۳۸ احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۱
(۲۳۹) تذکرۃ الشھادتین ص۴ و براھین احمدیہ ص۵۱۰، ج۴ وآئینہ کمالات اسلام ص۵۵۱ و تحفہ بغداد ص۲۴ و انجام آتھم ص۵۶ و اربعین ص۲۳نمبر۳ و مواھب الرحمن ص۱۷ و الوصیت ص۱۶ و حقیقت الوحی ص۹۰ و تذکرہ ص۳۷۰ و مجموعہ اشتہارات ص۲۷۶، ج۲
(۲۴۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۱؍۲۴۱ ایضاً ص۱۰۵۳ طبعہ ۱۹۴۵
(۲۴۲) ۲۴۲ ضمیمہ براھین احمدیہ ص۹۷، ج۵ و روحانی ص۲۵۸، ج۲۱
(۲۴۳) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۵
(۲۴۴) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۹۴، ج۱ کتاب ان یمان باب الاسراء ومشکوٰۃ ص۵۰۸ باب بدا الخلق وذکر الانبیاء
(۲۴۵) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۶۲ زیر عنوان امکان نبوت پر تیسری دلیل
(۲۴۶) حمامۃ البشرٰی ص۱۴ و روحانی ص۱۹۲ج۷ ؍
(۲۴۷) احمدیہ پاکٹ بک ص۱۰۵۲
(۲۴۸) ایضاً ص۱۰۵۴؍ ۲۴۹ تعلیمات مرزا ص۵۶
(۲۴۹) اخرجہ مسلم فی الصحیح ص۳۷۴، ج۱ کتاب الحج باب مواقیت الحج و البخاری فی الصحیح ص۲۰۶، ج۱ کتاب المناسک باب مھل اہل مکۃ للحج ومشکوٰۃ ص۲۲۰ کتاب المناسک واللفظ لہ
(۲۵۱) تائید اسلام ص۱۲۴ طبعہ ۱۳۱۱ھ و ص۱۱۶ طبعہ ۱۳۴۲ھ
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
تردید دلائل وفات مسیح علیہ السلام

مرزائی عذر:
مصنف مرزائی پاکٹ بک نے دزدیکہ بکف چرا داشتہ کی مثال پوری کرتے ہوئے (۱)آیت فَلَمَّا توفیتنی (۲) آیت مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ الی سے وفات کا ثبوت دینا چاہا ہے۔ حالانکہ یہ دونوں حیات مسیح پر دلیل ہیں کَمَا بَیَّنْتُہٗ مَرَارًا۔ ناظرین کرام! ثبوت حیاتِ مسیح کے باب میں دلیل نمبر۱ و نمبر۸ میں ان آیات کی صحیح تفسیر و تشریح ملاحظہ ہو۔
پھر آیت وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ الآیہ سے تمسک کیا ہے کہ پہلے سب نبی فوت ہوگئے۔ (۲۵۲)
الجواب:
ناظرین غور فرمائیں کہ کہاں بیسیوں آیات و احادیث نبویہ جن میں بالتصریح عیسیٰ علیہ السلام کا نام لے کر ان کا رفع سماوی و حیات و نزول من السماء مذکور و مرقوم و موجود ہے۔ اور کہاں یہ آیت جس میں نہ مسیح کا ذکر نہ مقصودِ خدا کا تمام انبیاء کی وفات ظاہر کرنا۔
خلت یا خلا کے معنی ہیں جگہ خالی کرنا خواہ زندہ گزر کر یا موت سے وَاِذَا خَلَوْا اِلٰی شَیَاطِیْنِھِمْ الآیہ(۲۵۳) یعنی کافر جب مسلمانوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم ایمان لائے۔ جب اپنے شیطانوں کی طرف جاتے ہیں تو کہتے ہیں ہم مسلمانوں سے مخول کرتے ہیں اسی طرح سورۃ آل عمران میں فرمایا۔(۲۵۴) مرزا صاحب یہ معنی کرتے ہیں '' قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ(۲۵۵)اس سے پہلے بھی رسول ہی آتے رہے'' (۲۵۶)پھر الرسل کا ترجمہ سب رسول کرنا بھی اس جگہ مرادِ خداوندی کے خلاف ہے۔ آیت کریمہ وَلَقَدْ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتَابَ وَقَفَّیْنَا مِنْ بَعْدِہ بِالرُّسُلِ(۲۵۷)کا ترجمہ خود مرزا صاحب نے '' کئی رسول'' کیا ہے (۲۵۸)آیت قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُالآیۃ کا ترجمہ مولوی نور دین صاحب خلیفہ اوّل قادیان نے ''پہلے اس سے بہت رسول ہوچکے ہیں'' کیا ہے۔ (۲۵۹)ایسا ہی سورۂ حم سجدہ میں اِذْ جَاتھم الرُّسُل الآیۃ(۲۶۰) جب آئے ان کے پاس (جنس) رسولوں سے کئی ایک۔ احمدی دوستو! کیا سب رسول آگئے تھے؟ پھر تو مرزا بھی اسی وقت آیا ہوگا؟ اور سنو! فرشتے بھی تو رسول ہیں۔ کیا یہ بھی آنحضرت سے پہلے فوت ہوگئے تھے؟ پھر یہود کے متعلق آیا ہے یَقْتُلُوْنَ النبیین الآیۃ(۲۶۱) (آل عمران ع ۲) قتل کرتے ہیں خدا کے نبیوں کو۔ کیا سب نبیوں کو انہوں نے قتل کردیا تھا ایسا ہی کفار کہتے تھے ہم پر جلدی عذاب اتر آئے۔ فرمایا وَقَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھِم المثلٰت۔(۲۶۲) شک کیوں کرتے ہو اس سے پہلے عذاب کی بہت سی مثالیں گزر چکی ہیں۔ احمدی دوستو! کیا خلت کے معنی موت ہیں؟ اور سنو! اسی سورت میں ایک مقام پر ارشاد ہے کَذَالِکَ اَرْسَلْنٰکَ فِیْ اُمَّۃٍ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِھَا اُمَمٌ۔(۲۶۳) ''اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح بھیجا ہم نے تم کو ایک امت میں۔ ہوچکی ہیں اس سے پیشتر امتیں'' (الرعد ع۳) ۔ کیا اس جگہ خلت کے معنی یہ ہیں کہ پہلی امتیں سب کی سب صفحہ زمین سے مٹ چکی تھیں؟ ہرگز نہیں۔ یہود و نصاریٰ وغیرہ موجود تھے۔ خود قرآن میں یا اھل الکتاب اھل انجیل اھل تورایت کہہ کر ان کو یاد کیا گیا ہے۔ الغرض خَلَتْ کے معنے موت لے کر وفات مسیح کو ثابت کرنا مقصود خداوندی و منشا محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے ایسا ہی الرسول سے تمام رسول مراد لینا بھی تحکم ہے۔
ہاں! ہاں! اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے سب کے سب فوت ہوچکے تھے تو مرزا صاحب نے نور الحق حصہ اول ص۵۰ پر جناب موسیٰ علیہ السلام کا آسمانوں پر زندہ ہونا اور اس پر ایمان لانا ضروری و لازمی کیسے لکھا:
'' عیسیٰ صرف اور نبیوں کی طرح ایک نبی خدا کا ہے اور وہ اس نبی معصوم کی شریعت کا ایک خادم ہے جس پر تمام دودھ پلانے والی حرام کی گئی تھیں یہاں تک کہ اپنی ماں کی چھاتیوں تک پہنچایا گیا اور اس کا خدا کوہ سینا میں اس سے ہم کلام ہو اور اس کو پیارا بنایا۔ یہ وہی موسیٰ مرد خدا ہے جس کی نسبت قرآن میں اشارہ ہے کہ وہ زندہ ہے اور ہم پر فرض ہوگیا کہ ہم اس بات پر ایمان لاویں کہ وہ زندہ آسمان میں موجود ہے وَلَمْ یَمُتْ وَلَیْسَ مِنَ المیتینوہ مردوں میں سے نہیں۔ مگر یہ بات کہ حضرت عیسیٰ آسمان سے نازل ہونگے سو ہم نے اس خیال کا باطل ہونا ثابت کردیا ہم قرآن میں بغیر وفات عیسیٰ کے کچھ ذکر نہیں پاتے۔'' (۲۶۴)
احمدی دوستو! جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے انبیاء سے موسیٰ علیہ السلام کو علیحدہ کردیا گیا ہے وہاں مہربانی کرکے مسیح کی مسند بھی بچھی ہوئی سمجھ لیجئے۔
-----------------------------------------------------
(۲۵۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۴۴؍ ۲۵۳ پ۱ البقرہ نمبر ۱۴؍ ۲۵۴ پ۴ اٰل عمران نمبر ۱۱۹
(۲۵۵) پ ۶ المائدہ نمبر۷۵ ؍
(۲۵۶) جنگ مقدس ص۷ و روحانی ص۸۹ ج۶
(۲۵۷) پ۱ البقرہ نمبر۸۷ ؍۲۵۸ شھادۃ القران ص۴۴ و روحانی ص۳۴۰ ج۶
(۲۵۹) فصل الخطاب ص۲۸، ج۱؍ ۲۶۰ پ ۲۴ حٰمٓ السجدہ ۱۴ ؍ ۲۶۱ پ۳ اٰل عمران نمبر۲۱
(۲۶۲) پ ۱۳ الرعد نمبر۶ ؍ ۲۶۳ ایضاً نمبر ۳۰ ؍ ۱۲۶۴ نور الحق ص۵۰، ج۱ و روحانی ص۶۸ ج۸
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
اس جگہ موسیٰ علیہ السلام کی روحانی زندگی مراد ہے۔
الجواب:
یہ کہنا کہ یہ روحانی زندگی ہے بالکل غلط ہے اور مرزا صاحب کی تقریر کے بالکل خلاف ہے روحانی زندگی تو بعد وفات سب انبیاء کو حاصل ہے اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کیا خصوصیت حاصل ہے۔ نیز اس کے بعد مرزا صاحب نے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردہ کہا تو یہ تفریق بتلا رہی ہے کہ مرزا صاحب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جسمانی زندگی سے زندہ سمجھتے تھے۔
بالآخر یہ کہ اگر خَلَتْ کے معنے موت اور الرسل میں جملہ انبیاء کو شامل بھی سمجھا جائے تو بھی مسیح اس سے خارج و مستثنیٰ سمجھے جاویں گے۔ کیونکہ ان کی حیات نصوص قطعیہ سے ثابت ہے۔
مرزائیو! حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات جو قطعی طور پر قرآن سے ثابت ہے۔ عام آیات سے استدلال کرنا نیکوں کی سنت نہیں شیوہ کفار ہے۔ انہی حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ایک مثال پیش کرتا ہوں بغور سنو! جب قرآنِ مجید میں آیت نازل ہوئی جس کے الفاظ مرزا صاحب نے یہ لکھے ہیں:
'' اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ حصب جَھَنَم۔ یعنی تم اور تمہارے معبود باطل جو انسان ہو کر خدا کہلاتے رہے جہنم میں ڈالے جائیں گے۔'' (۲۶۵)
تو کفار نے بغلیں بجانا شروع کیں اور تمہاری طرح اس آیت سے عام استدلال کرتے ہوئے مسیح کو بھی بوجہ اس کے کہ وہ خدا بنایا گیا ہے جہنمی قرار دیا اس کے جواب میں آیت نازل ہوئی مَا ضَرَبُوْہُ لَکَ اِلاَّ جَدَلاً بَلْ ھُمْ قَوْمٌ خَصِمُوْنَ اِنْ ھُوَ اِلاَّ عَبْدٌ اَنْعَمْنَا عَلَیْہِ۔ (۲۶۶)
اے نبی یہ بدبخت جدا لی قوم بلکہ سخت جھگڑالو واقع ہوئے ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام تو خدا کے محبوب بندے ہیں جن پر اس نے انعامات کی بارش کر رکھی ہے۔ بعینہٖ یہی مثال مرزائیوں کی ہے کہ وہ بھی مثل کفار کے حضرت مسیح علیہ السلام کی حیات ثابت از قرآن کو عام استدلال سے توڑنا چاہتے ہیں۔
برادران! اس قسم کی عام آیات جس قدر بھی مرزائی پیش کرتے ہیں ان سب کا بالاختصار یہی ایک جواب کافی ہے جو اوپر مذکور ہوا۔ یعنی اگر آیات کے وہی معنے ہوں جو مرزائی کرتے ہیں تو بھی وہ آیات حیاتِ مسیح پر شائستہ اعتناء نہیں بلکہ ایسا استدلال کرنے والے بقولِ قرآن مجادلین و مخاصمین ہیں۔
ازاں جملہ ایسی مثالوں کے یہ ہیں (۱) جن انسانوں کو پوجا جاتا ہے وہ مردہ ہیں مسیح کو بھی پوجا گیا (۲) انسانوں کے لیے زمین ہی رہنے کو مقرر ہے (۳) ہر انسان بڑی عمر کا ہو کر ضعیف القویٰ ہو جاتا ہے۔ جسم میں تغیر و تبدل ہو جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
----------------------------------------

(۲۶۵) رپورٹ جلسہ اعظم مذاھب ص۱۳۷ و تفسیر مرزا ص۱۰۳، ج۱ و روحانی ص۶۸ ج۸
(۲۶۶) پ۲۵ الزخرف نمبر ۵۸ و ۵۹؍۲۶۷ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۴۴
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
قرآن میں ہے کہ مسیح اور اس کی والدہ کھانا کھایا کرتے تھے اس سے استدلال یہ ہے کہ مریم علیہ السلام بوجہ موت کھانے سے روکی گئی ہے۔ یہی حال مسیح کا بھی ہے۔ (۲۶۷)
الجواب:
حق تعالیٰ نے عیسائیوں پر جو مسیح کو اور اس کی والدہ کو خدا مانتے ہیں حجت قائم کی ہے کہ وہ دونوں تو لوازم بشری مثل طعام وغیرہ کے محتاج تھے۔ پھر وہ کیسے خدا ہوئے۔ اس آیت میں حضرت مسیح کی حیات و ممات کا کوئی ذکر نہیں۔
احمدی بھائیو! اگر میں کہوں کہ مرزا صاحب اور ان کی بیوی اکٹھے کھانا کھایا کرتے تھے یا یہ کہ وہ ایک ہی مکان میں رہا کرتے تھے کیا یہ کہنا غلط ہوگا؟ ہرگز نہیں۔ پھر مرزا صاحب تو مر گئے مگر ان کی بیوی زندہ ہے۔ کیا تم انہیں بھی مردہ جانتے ہو؟ کیا اب وہ کھانا نہیں کھاتیں؟ یا اسی مکان میں نہیں رہتیں؟ فتذکر!
اے جناب! اگر ہم کہیں کہ جس خدا نے مسیح کو آسمانوں پر اٹھا لیا ہے وہ انہیں کھانا بھی ضرور دیتا ہوگا تو تمہارے پلے کیا رہ جائے گا؟ آخر موسیٰ علیہ السلام بھی تو بقولِ شمار زندہ ہے پس جو اس کا حال ہے سو مسیح کا۔ طعام کا لفظ حدیث میں محض تسبیح و تقدیس الٰہی پر بھی بولا گیا ہے جیسا کہ جب ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ یا رسول اللہ جب طعام وغیرہ پر دجال کا غلبہ ہوگا۔ اس وقت ہم کھائیں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یُجْزِئِھُمْ مَا یُجْزِیُٔ اَھْلَ السَّمَآئِ من التَّسْبِیْحِ وَالتَّقْدِیْسِ۔(۲۶۸) کفایت کرے گی مومنوں کو اس وقت وہ چیز جو کفایت کرتی ہے اہل سماء کو یعنی حمد و ثنا الٰہی۔ تو فرمائیے آپ کس قدر رو سیاہ ہو کر رہ جائیں گے۔
--------------------------

(۲۶۸) اخرجہ معمر بن راشد فی الجامع المطبوع باخر المصنف لعبد الرزاق ص۳۹۱،ج۱۱ باب الدجال و ابوداؤد طیالسی فی مسندہٖ ص۲۲۷ واحمد فی مسندہ ص۴۵۳ و ص۴۵۴، ج۶ والطبرانی فی المعجم الکبیر ص۱۵۸، ج۲۴ و مشکوٰۃ باب العلامات بین یدی الساعۃ وزکر الرجال
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
اَلَمْ یَجْعَلِ الْاَرْضَ کِفَاتًا اَحْیَائً وَّامَوْاتًا۔ کیا نہیں بنایا ہم نے زمین کو اپنے ساتھ ملائے رکھنے والی زندوں اور مردوں کو وَلَکُمْ فِیْ الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّمَتَاعٌ اِلٰی حِیْنَ۔ اور تمہارے لیے زمین میں ٹھکانا ہے اور فائدہ اٹھانا ہے ایک مدت تک وَقَالَ فِیْھَا تَحْیَوْنَ وَفِیْھَا تَمُوْتُوْنَ وَمِنْھَا تَخْرِجُوْنَ (اعراف رکوع۲) ۔ تمہیں زمین میں زندگی بسر کرنا ہے اور پھر اسی میں مرو گے پھر اسی سے اٹھائے جاؤ گے۔
استدلال:
یہ ایک عام قانونِ الٰہی ہر فرد بشر پر حاوی ہے تو کیونکر ہوسکتا ہے کہ اس کے صریح خلاف حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر موجود ہوں۔ (۲۶۹)
الجواب:
خاص دلائل سے حضرت عیسیٰ کی حیات ثابت ہوچکی ہے اور علم اصول میں مقرر و مسلم ہے کہ خاص دلیل عام پر مقدم ہوتی ہے اور ان دونوں کے مقابلے میں دلیل خاص کا اعتبار کیا جاتا ہے۔ اس کے نظائر قرآن مجید میں بکثرت موجود ہیں مثلاً عام انسانوں کی پیدائش کی نسبت فرمایا: اِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۔ (۲۷۰)یعنی انسانوں کو ملے ہوئے نطفے سے پیدا کیا اور اس کے برخلاف حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت خاص دلائل سے معلوم ہے کہ ان کی پیدائش بایں طور نہیں ہوئی پس ان کے متعلق دلیل خاص کا اعتبار کیا گیا ہے اور دلیلِ عام کو ان کی نسبت چھوڑ دیا گیا ہے۔
(نمبر۲) فرشتوں کی جائے قرار اصلی اور طبعی طور سے آسمان ہیں۔ مگر وہ عارضی طور پر کچھ مدت کے لیے زمین پر بھی رہتے ہیں۔
--------------------------------------------------------
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
اعتراض:
وَالَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَھُمْ یُخْلَقُوْنَ اَمْوَاتٌ غَیْرُ اَحْیَائٍ وَمَا یَشْعُرُوْنَ اَیَّانَ یُبْعَثُوْنَ۔ (سورہ نحل ع۲)
'' یہ مشرک جن لوگوں کو اللہ کے سوا پکارتے ہیں وہ ایسے ہیں کہ انہوں نے کچھ پیدا نہیں کیا بلکہ وہ پیدا کئے گئے ہیں ، مردہ ہیں زندہ نہیں اور نہیں جانتے کہ کب اٹھائے جاویں گے۔''
چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ان ہستیوں میں سے ہیں جن کو محبوب مانا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ بھی وفات یافتہ ہیں۔ (۲۷۱)
الجواب:
(۱) الَّذین کا ترجمہ '' جن لوگوں کو'' صحیح نہیں کیونکہ الذین سے مراد اصنام (بت) بھی ہیں لہٰذا صحیح ترجمہ یوں ہے '' اور جن کو پکارتے ہیں'' اور چونکہ کفار میں زیادہ تربت پرستی ہی پائی جاتی تھی (چنانچہ کعبہ کے ۳۶۰ بت جو فتح مکہ کے دن توڑے گئے اس پر شاہد ہیں) اس لیے۔
(۲) اموات کے بعد غیر احیاء کا ذکر کیا گیا تاکہ اصنام کی حقیقت اصلیہ ظاہر ہو جائے کہ وہ علی الاطلاق مردہ ہیں۔ ان کو حیات کی ہوا بھی نہیں لگی نہ پہلے کبھی نہ اب۔
(۳) وما یشعرون ایان یبعثون کا مطلب تو یہ ہے کہ ان معبودوں کو اس کا بھی شعور (علم) نہیں کہ ان کے پوجنے والے کب اٹھائے جائیں گے (جلالین و فتح البیان) بلکہ ان سے بہتر تو ان کے عابد ہیں کہ ان کو علم و شعور اور حیات تو حاصل ہے۔ (۲۷۲)
الجواب:
آیت کا یہ مطلب نہیں کہ معبودانِ مصنوعی مر چکے ہیں بلکہ یہ مطلب ہے کہ ان سب کو موت آنے والی ہے صرف لفظ اموات کو دیکھ کر یہ نتیجہ نکال لینا کہ وہ سب کے سب مرچکے ہیں غلط ہے انک میت وانھم میتون ۔(۲۷۳) اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تو بھی میت ہے اور وہ بھی مطلب یہ ہوا کہ بالآخر موت آنے والی ہے لہٰذا آیت کا صحیح ترجمہ یہ ہوا کہ تمام وہ لوگ جو اللہ کے سوا پوجے جاتے ہیں آخر کار مرنے والے ہیں گو ان میں کئی مرچکے ہوں اور ہم بھی مانتے ہیں کہ حضرت مسیح بعد نزول فوت ہو جائیں گے۔
نیز مشرکین جنوں اور فرشتوں کو بھی پوجتے تھے کیا وہ سب مرچکے ہیں؟ کیونکہ وہ بھی من دون اللہ میں شامل ہیں۔
-----------------------------------------------
(۲۶۸) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۳؍۲۷۰ پ۲۹ الدھرنمبر ۲؍۲۷۱ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۲
(۲۷۲) جلالین و فتح البیان
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,585
ری ایکشن اسکور
6,764
پوائنٹ
1,207
مرزائی عذر:
مسیح کو نماز و زکوٰۃ کا حکم زندگی بھر کے لیے دیا گیا تھا آسمان پر روپیہ اور مستحقین زکوٰۃ کہاں ہیں؟ اَوْ صَانِیْ بِا الصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ مَا دُمْتُ حَیًّا۔ (۲۷۴) (مریم ع۲)
الجواب:
کسی نے سچ کہا ہے کہ خوئے بدرا بہانہ ہائے بسیار۔ کسی بھوکے سے پوچھا گیا دو اور دو کتنے ہوتے ہیں۔ وہ جھٹ بولا چار روٹیاں۔ ٹھیک یہی مثال مرزائیوں کی ہے۔ کہاں صاف و صریح آیاتِ قرآنیہ جن میں بالفاظ اصرح حیات مسیح کا مذکور ہے اور کہاں مرزائیوں کی یہ یہودیانہ کھینچ تان۔
اے جناب! اگر یہ ضروری ہے کہ اس آیت کی رو سے مسیح تمام زندگی بھر زکوٰۃ وغیرہ دیتے رہیں اور ضرور ہی اس کام کے لیے ان کی جیب روپوں سے بھری رہے تو جب یہ الفاظ مسیح نے کہے تھے یعنی پیدائش کے پہلے (۲۷۵)دن اس وقت بھی تو وہ زندہ تھے۔ فرمائیے ان کی جیب میں کتنے سو پونڈ موجود ہے اور کون کون شخص زکوٰۃ ان سے وصول کیا کرتے تھے نیز یہ بھی فرمائیے کہ وہ ان دنوں کتنی نمازیں روزانہ ادا کیا کرتے تھے اور گواہ کون ہے فما جوابکم فہو جوابنا۔
ناظرین شروع میں کسی کام کا حکم ہونا یہ معنی نہیں رکھتا کہ ہر وقت دن رات سوتے جاگتے، اٹھتے بیٹھتے اس پر عمل کرتے رہیں۔ بلکہ ہر نکتہ مکانے وارد کے تحت ہر کام کا وقت اور اس کی حدود قائم ہیں۔ نماز بعد بلوغت فرض ہوتی ہے اور زکوٰۃ بعد مال۔ جب تک مسیح بچے تھے، نماز فرض نہ تھی، بالغ ہوئے حکم بجا لائے جب مال تھا زکوٰۃ دیتے تھے۔ اب آسمان پر مال دنیاوی ہے ہی نہیں۔ زکوٰۃ کیونکر دیں۔ پھر اور سنو! حدیث میں آیا ہے کہ نبیوں کا دین واحد ہے بدیں لحاظ موسیٰ علیہ السلام پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ بتلائیے آسمانوں پر جب وہ زندہ ہیں تو زکوٰۃ کسے دیتے ہیں اور روپیہ ان کے پاس کس قدر ہے۔
------------------------------------------
(۳۷۳) پ ۲۳ الزمر نمبر ۳۰؍۲۷۴ احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۴ طبعہ ۹۴۵ ؍۲۷۵ ایضاً ص۲۸ طبعہ ۱۹۳۲
(۲۷۶) ایضاً ص۲۲۵ ؍ ۲۷۷ پ۱۵ بنی اسرائیل رکوع نمبر ۱۰
 
Top