- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,585
- ری ایکشن اسکور
- 6,764
- پوائنٹ
- 1,207
مرزائی عذر:
کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نشان طلب کیا تھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کو اس پر ٹھہرایا کہ آپ آسمان پر جائیں۔ وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں۔ اللہ نے جواب دیا کہ کہو میرا رب پاک ہے میں بندہ رسول ہوں۔ لیکن رسول کو آسمان پر لے جانے کی سنت الٰہی نہیں۔(۲۷۶)
(جواب۱) موسیٰ علیہ السلام کیسے آسمان پر چڑھ گئے؟ ماجوابکم فہو جوابنا۔
(جواب۲) اس استدلال میں جس قدر یہودیانہ تحریف اور دجالانہ غلط بیانی اور عیارانہ مغالطہ بازی کی گئی ہے وہ ایک مذہبی قوم سے ممکن و محال ہے الا اس صورت میں کہ قائل کو بظاہر مومن بباطن دہریہ سمجھا جائے۔
ناظرین کرام! وہ کفار جن کا قرآن میں اس جگہ مذکور ہے ہمارے مخاطب مرزائی کی طرح دہریہ طبع نہ تھے کہ انسان کا آسمان پر چڑھنا محال و ناممکن یا خلاف سنت الٰہیہ سمجھتے ہوں بلکہ انہیں بظاہر اس کا اقرار تھا اور ان کا قول اس پر گواہ ہے کہ انسان آسمان پر لے جایا جاسکتا ہے اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ یا تو چڑھ آسمان پر مگر سن رکھ کہ وَلَنْ نُوْمِنَ لِرُقَیِّکَ ہم تیرے فقط آسمان پر چڑھ جانے پر ایمان کا مدار نہیں رکھتے حتیٰ تنزل علینا کتاب نقرأہ یہاں تک تو وہاں جا کر ہم پر کتاب نازل نہ کرے۔
برادران! یہ ہے وہ اصل مطالبہ کفار کا جو سراسر جہالت و نادانی پر مبنی ہے کیونکہ یہ کبھی درست نہیں ہوسکتا کہ خدا، پلید طبع انسانوں کو صاحبِ کتاب رسول بنا دے۔ اسی کے جواب میں کہا گیا ہے قُل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا۔ (۲۷۷)کہہ دے خدا کی عادلانہ و حکیمانہ شان اس سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ تمہارے جیسے ناپاک طبع انسانوں پر اپنی اعلیٰ کتاب نازل کرکے تمہیں مقتدائے انام بنا دے۔ کیونکہ:
اِذَا کَانَ الْغُرَابُ دِلَیْلَ قَوْمٍ سَیَھْدِیْھِمْ طَرِیْقَ الْھَالِکِیْنَ۔
جب کوّا کسی قوم کا راہنما ہوگا تو یقینا سوائے ہلاکت کے کسی نیک راستہ پر نہ چلا سکے گا۔ باقی رہی میری شخصیت سو میں تو خود اس کا ایک بھیجا ہوا بندہ ہوں۔ میری کیا طاقت و مجال کہ اس کی مرضی کے خلاف از خود اپنی طاقت سے تمہارے مطالبات کو پورا کردوں ایسے لغو و لچر و بے ہودہ مطالبات کے پورا ہونے کی استدعا بھی کروں۔
بھائیو! یہ ہے اصل مطالبہ کفار کا جس پر وہ ایمان کا مدار ٹھہراتے تھے جو سراسر بے وقوفی کا مرقع ہے۔ حاصل یہ کہ کفار آسمان پر چڑھ جانے کو مدار فیصلہ نہیں ٹھہراتے تھے۔ بلکہ اس کے ساتھ بیہودہ شرائط لگاتے تھے:
۱۔ ’’ کفار کہتے تھے کہ ہم تب ایمان لائیں جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک ایک نردبان (سیڑھی) رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نردبان کے ذریعے سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب (ہم کو) نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں۔‘‘ (۲۷۸)
(حاشیہ رسالہ تصدیق النبی ص۱۱مضمون مرزا صاحب ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب)
۲۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدا کا پیغمبر بن جائے اور ہر ایک پر وحی نازل ہو جایا کرے۔ اس کی طرف قرآن شریف نے آپ ہی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَاِذَا جَائَ تُھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّوْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رَسُلُ اللّٰہِ۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْث یَجْعَلُ رَسَالَتَہ(۲۷۹)ٗ (پ۸) یعنی جس وقت کوئی نشانی کفار کو دکھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب نازل نہ ہو تب تک ایمان نہ لائیں گے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیے۔ (۲۸۰)
الغرض مرزائی مصنف کی پیش کردہ آیت سے بشر رسول کا آسمان پر جانا ناممکن الحال ثابت نہیں ہوتا۔
(جواب ۳) بفرضِ محال مان لیا جائے کہ کفار نے مدارِ فیصلہ آسمان پر چڑھنے کو ٹھہرایا تھا تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے کہ میں بشر رسول ہوں۔ یہ کہاں ثابت ہوا کہ بشر رسول آسمان پر نہیں جاسکتا۔ یا انسان کا آسمان پر جانا خلاف سنتِ الٰہی ہے۔ لاریب کسی انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ از خود آسمان پر جب چاہے چلا جائے۔ یا جب چاہے کوئی معجزہ دکھائے۔ ہاں جب خدا چاہے تو لے جاسکتا ہے چنانچہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آسمانوں کی سیر کرائی۔ (۲۸۱)
اعتراض:
قرآن میں ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِ نْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَالِدُوْنَ(انبیاء ع۳)کہ کسی بشر کے لیے ’’ ہمیشہ کی زندگی ‘‘ نہیں۔ مسیح کو زندہ اور آنحضرت کو فوت شدہ ماننا قابل شرم و ہتک نبوی ہے۔ (۲۸۲)
جواب(۱):موسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا کیوں ہتک نہیں؟
جواب(۲):مسیح کے لیے بھی ہمیشہ کی زندگی نہیں۔ قرآن صاف شاہد ہے وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ(۲۸۳) اسی طرح حدث میں ہے مسیح نازل ہوگا ثم یموت فیدفن معی فی قبری(۲۸۴) غرض مسیح علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ باقی رہا اعتراض دوم۔ سو جب کہ تم خود موسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ مانتے ہو۔ فرشتوں کو زندہ مانتے ہو۔ تو پھر تمہیں خود ایسی ویسی لغو باتوں سے شرم چاہیے۔ سنو! لمبی زندگی باعث فضیلت نہیں:
’’ عیسائیوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی زندگی ثابت کریں اور صرف اس لمبی عمر پر خوش نہ ہوں جس میں اینٹ اور پتھر بھی شریک ہیں۔‘‘ (۲۸۵)
اعتراض:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ احمد رسول میرے بعد آئے گا۔ بعد سے مراد وفات ہے۔
الجواب:
ہر جگہ بعد سے مراد وفات نہیں ہوتی۔ دیکھئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت لینے گئے تو ان کی قوم نے غیر حاضری میں بچھڑا پوجنا شروع کردیا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ثم اتخذتُمُ العجل من بعدہٖ وانتم ظالمون(۲۸۷)جو معنی اس جگہ بعد کے ہیں وہی کلام مسیح علیہ السلام میں ہیں۔
------------
(۲۷۸)
(۲۷۹) پ۸الانعام نمبر ۱۲۲ ؍ ۲۸۰براھین احمدیہ ص۱۶۹، ج۳و روحانی ص۱۸۱، ج۱و تفسیر مرزا ص ۱۲۷، ج۴
(۲۸۱) مرزا جی نے، نصرۃ الحق ص۳۴، ۳۵ (روحانی ص۴۵، ج۲۱) میں اس پر نہایت عمدہ بحث کی ہے جو کہ قابل دید ہے (ابو صہیب)
(۲۸۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸؍۲۸۳پ۶النساء ۱۵۹
(۲۸۴) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۱۵۷ ؍ ۲۸۵تریاق القلوب ص۶و روحانی ص۱۳۹، ج۱۵
(۲۸۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸، نوٹ، خود مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے صفحہ ۵۲۴میں تسلیم کیا ہے کہ بعد سے مراد غیر حاضری ہے نا کہ وفات، ابو صہیب
(۲۸۷) پ۱البقرہ ۵۱؍ ۲۸۸احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۲
کفار نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نشان طلب کیا تھا اور اپنے ایمانی فیصلہ کو اس پر ٹھہرایا کہ آپ آسمان پر جائیں۔ وہاں سے کتاب لائیں جس کو ہم پڑھ کر آپ پر ایمان لائیں۔ اللہ نے جواب دیا کہ کہو میرا رب پاک ہے میں بندہ رسول ہوں۔ لیکن رسول کو آسمان پر لے جانے کی سنت الٰہی نہیں۔(۲۷۶)
(جواب۱) موسیٰ علیہ السلام کیسے آسمان پر چڑھ گئے؟ ماجوابکم فہو جوابنا۔
(جواب۲) اس استدلال میں جس قدر یہودیانہ تحریف اور دجالانہ غلط بیانی اور عیارانہ مغالطہ بازی کی گئی ہے وہ ایک مذہبی قوم سے ممکن و محال ہے الا اس صورت میں کہ قائل کو بظاہر مومن بباطن دہریہ سمجھا جائے۔
ناظرین کرام! وہ کفار جن کا قرآن میں اس جگہ مذکور ہے ہمارے مخاطب مرزائی کی طرح دہریہ طبع نہ تھے کہ انسان کا آسمان پر چڑھنا محال و ناممکن یا خلاف سنت الٰہیہ سمجھتے ہوں بلکہ انہیں بظاہر اس کا اقرار تھا اور ان کا قول اس پر گواہ ہے کہ انسان آسمان پر لے جایا جاسکتا ہے اَوْتَرْقٰی فِی السَّمَآئِ یا تو چڑھ آسمان پر مگر سن رکھ کہ وَلَنْ نُوْمِنَ لِرُقَیِّکَ ہم تیرے فقط آسمان پر چڑھ جانے پر ایمان کا مدار نہیں رکھتے حتیٰ تنزل علینا کتاب نقرأہ یہاں تک تو وہاں جا کر ہم پر کتاب نازل نہ کرے۔
برادران! یہ ہے وہ اصل مطالبہ کفار کا جو سراسر جہالت و نادانی پر مبنی ہے کیونکہ یہ کبھی درست نہیں ہوسکتا کہ خدا، پلید طبع انسانوں کو صاحبِ کتاب رسول بنا دے۔ اسی کے جواب میں کہا گیا ہے قُل سبحان ربی ھل کنت الا بشرا رسولا۔ (۲۷۷)کہہ دے خدا کی عادلانہ و حکیمانہ شان اس سے اعلیٰ و ارفع ہے کہ وہ تمہارے جیسے ناپاک طبع انسانوں پر اپنی اعلیٰ کتاب نازل کرکے تمہیں مقتدائے انام بنا دے۔ کیونکہ:
اِذَا کَانَ الْغُرَابُ دِلَیْلَ قَوْمٍ سَیَھْدِیْھِمْ طَرِیْقَ الْھَالِکِیْنَ۔
جب کوّا کسی قوم کا راہنما ہوگا تو یقینا سوائے ہلاکت کے کسی نیک راستہ پر نہ چلا سکے گا۔ باقی رہی میری شخصیت سو میں تو خود اس کا ایک بھیجا ہوا بندہ ہوں۔ میری کیا طاقت و مجال کہ اس کی مرضی کے خلاف از خود اپنی طاقت سے تمہارے مطالبات کو پورا کردوں ایسے لغو و لچر و بے ہودہ مطالبات کے پورا ہونے کی استدعا بھی کروں۔
بھائیو! یہ ہے اصل مطالبہ کفار کا جس پر وہ ایمان کا مدار ٹھہراتے تھے جو سراسر بے وقوفی کا مرقع ہے۔ حاصل یہ کہ کفار آسمان پر چڑھ جانے کو مدار فیصلہ نہیں ٹھہراتے تھے۔ بلکہ اس کے ساتھ بیہودہ شرائط لگاتے تھے:
۱۔ ’’ کفار کہتے تھے کہ ہم تب ایمان لائیں جب ہم ایسا نشان دیکھیں کہ زمین سے آسمان تک ایک نردبان (سیڑھی) رکھی جائے اور تو ہمارے دیکھتے دیکھتے اس نردبان کے ذریعے سے زمین سے آسمان پر چڑھ جائے اور فقط تیرا آسمان پر چڑھنا ہم ہرگز قبول نہیں کریں گے جب تک آسمان سے ایک ایسی کتاب (ہم کو) نہ لادے جس کو ہم پڑھ لیں۔‘‘ (۲۷۸)
(حاشیہ رسالہ تصدیق النبی ص۱۱مضمون مرزا صاحب ایک عیسائی کے تین سوالوں کے جواب)
۲۔ یہ بات نہیں ہے کہ ہر کس و ناکس خدا کا پیغمبر بن جائے اور ہر ایک پر وحی نازل ہو جایا کرے۔ اس کی طرف قرآن شریف نے آپ ہی فرمایا ہے اور وہ یہ ہے وَاِذَا جَائَ تُھُمْ اٰیَۃٌ قَالُوْا لَنْ نُّوْمِنَ حَتّٰی نُؤْتٰی مِثْلَ مَا اُوْتِیَ رَسُلُ اللّٰہِ۔ اَللّٰہُ اَعْلَمُ حَیْث یَجْعَلُ رَسَالَتَہ(۲۷۹)ٗ (پ۸) یعنی جس وقت کوئی نشانی کفار کو دکھائی جاتی ہے تو کہتے ہیں کہ جب تک خود ہم پر ہی کتاب نازل نہ ہو تب تک ایمان نہ لائیں گے۔ خدا خوب جانتا ہے کہ کس جگہ اور کس محل پر رسالت کو رکھنا چاہیے۔ (۲۸۰)
الغرض مرزائی مصنف کی پیش کردہ آیت سے بشر رسول کا آسمان پر جانا ناممکن الحال ثابت نہیں ہوتا۔
(جواب ۳) بفرضِ محال مان لیا جائے کہ کفار نے مدارِ فیصلہ آسمان پر چڑھنے کو ٹھہرایا تھا تو بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے کہ میں بشر رسول ہوں۔ یہ کہاں ثابت ہوا کہ بشر رسول آسمان پر نہیں جاسکتا۔ یا انسان کا آسمان پر جانا خلاف سنتِ الٰہی ہے۔ لاریب کسی انسان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ از خود آسمان پر جب چاہے چلا جائے۔ یا جب چاہے کوئی معجزہ دکھائے۔ ہاں جب خدا چاہے تو لے جاسکتا ہے چنانچہ اس نے حضرت مسیح علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی آسمانوں کی سیر کرائی۔ (۲۸۱)
اعتراض:
قرآن میں ہے وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِ نْ مِّتَّ فَھُمُ الْخَالِدُوْنَ(انبیاء ع۳)کہ کسی بشر کے لیے ’’ ہمیشہ کی زندگی ‘‘ نہیں۔ مسیح کو زندہ اور آنحضرت کو فوت شدہ ماننا قابل شرم و ہتک نبوی ہے۔ (۲۸۲)
جواب(۱):موسیٰ علیہ السلام کو زندہ ماننا کیوں ہتک نہیں؟
جواب(۲):مسیح کے لیے بھی ہمیشہ کی زندگی نہیں۔ قرآن صاف شاہد ہے وَاِنْ مِّنْ اَھْلِ الْکِتٰبِ اِلاَّ لَیُؤْمِنَنَّ بِہٖ قَبْلَ مَوْتِہٖ(۲۸۳) اسی طرح حدث میں ہے مسیح نازل ہوگا ثم یموت فیدفن معی فی قبری(۲۸۴) غرض مسیح علیہ السلام کو بھی موت آئے گی۔ باقی رہا اعتراض دوم۔ سو جب کہ تم خود موسیٰ علیہ السلام کو آسمانوں پر زندہ مانتے ہو۔ فرشتوں کو زندہ مانتے ہو۔ تو پھر تمہیں خود ایسی ویسی لغو باتوں سے شرم چاہیے۔ سنو! لمبی زندگی باعث فضیلت نہیں:
’’ عیسائیوں کو کبھی خیال نہیں آیا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روحانی زندگی ثابت کریں اور صرف اس لمبی عمر پر خوش نہ ہوں جس میں اینٹ اور پتھر بھی شریک ہیں۔‘‘ (۲۸۵)
اعتراض:
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کہا تھا کہ احمد رسول میرے بعد آئے گا۔ بعد سے مراد وفات ہے۔
الجواب:
ہر جگہ بعد سے مراد وفات نہیں ہوتی۔ دیکھئے جب حضرت موسیٰ علیہ السلام توریت لینے گئے تو ان کی قوم نے غیر حاضری میں بچھڑا پوجنا شروع کردیا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے ثم اتخذتُمُ العجل من بعدہٖ وانتم ظالمون(۲۸۷)جو معنی اس جگہ بعد کے ہیں وہی کلام مسیح علیہ السلام میں ہیں۔
------------
(۲۷۸)
(۲۷۹) پ۸الانعام نمبر ۱۲۲ ؍ ۲۸۰براھین احمدیہ ص۱۶۹، ج۳و روحانی ص۱۸۱، ج۱و تفسیر مرزا ص ۱۲۷، ج۴
(۲۸۱) مرزا جی نے، نصرۃ الحق ص۳۴، ۳۵ (روحانی ص۴۵، ج۲۱) میں اس پر نہایت عمدہ بحث کی ہے جو کہ قابل دید ہے (ابو صہیب)
(۲۸۲) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸؍۲۸۳پ۶النساء ۱۵۹
(۲۸۴) دیکھئے باب ھذا کا حاشیہ نمبر ۱۵۷ ؍ ۲۸۵تریاق القلوب ص۶و روحانی ص۱۳۹، ج۱۵
(۲۸۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۳۵۸، نوٹ، خود مؤلف مرزائی پاکٹ بک نے صفحہ ۵۲۴میں تسلیم کیا ہے کہ بعد سے مراد غیر حاضری ہے نا کہ وفات، ابو صہیب
(۲۸۷) پ۱البقرہ ۵۱؍ ۲۸۸احمدیہ پاکٹ بک ص۳۶۲