• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

محمدیہ پاکٹ بک

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کا چھٹا معیار:
توبہ اور رجوع سے معین عذاب بھی ٹل جاتا ہے۔ (۲۵۹)
الجواب:
اگر معین عذاب کی پیشگوئی میں توبہ کی شرط ہے تو بلا شبہ توبہ سے اس کا ٹل جانا ضروری ہے۔ لیکن اگر کوئی اور شرط ہے تو محض توبہ سے نہیں ٹل سکتا۔
پہلی مثال: اس بارے میں احمدی مولوی صاحب نے مجمل الفاظ میں جناب یونس علیہ السلام والی پیشگوئی کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کا جواب ہم پہلے دے آئے ہیں کہ بفرض محال یونس علیہ السلام نے کوئی پیش گوئی کی بھی ہے تو اس میں ایمان کی شرط موجود تھی پڑھو آیت ''لَمَّا اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْھُمُ الْعَذَابَ الْخِزْیِ'' (۲۶۰) جب وہ ایمان لے آئے ہم نے عذاب اٹھا دیا۔
دوسری مثال: مرزائی مولوی صاحب نے تفسیر روح البیان سے نقل کی ہے یعنی جبرائیل نے مسیح کو ایک دھوبی کی موت کی خبر دی۔ مگر وہ نہ مرا جس پر یہ عذر کیا گیا کہ اس نے تین روٹیاں صدقہ کردی تھیں اس لیے موت ٹل گئی۔ (۲۶۱)
الجواب:
(۱) اول تو ہم روح البیان کے مصنف کو نبی یا رسول نہیں مانتے کہ مجرد اس کے لکھنے سے ہزارہا سال پہلے کا واقعہ تسلیم کیا جائے تاوقتیکہ مرزائی یہ نہ دکھائیں کہ اس نے یہ روایت کہاں سے لی ہے۔ قرآں سے یا حدیث سے۔ پس پہلا جواب یہی ہے کہ ہم اس پر اعتبار نہیں کرتے۔ سند پیش کرو۔
(۲) بفرض محال صحیح تسلیم کیا جائے تو '' حضرت جبرئیل کا یہ فرمانا کہ موت صدقہ سے ٹل گئی ہے'' دلیل ہے اس بات کی کہ پیشگوئی مشروط تھی خیرات وغیرہ سے۔ چونکہ تم لوگ اس روایت کو مانتے ہو اس لیے یہ تم پر حجت ہے مگر یاد رکھو۔ جو پیشگوئی کوئی خدا کا نبی اپنی صداقت پر پیش کرتا ہے اس میں اگر شرط مذکور نہ ہو اور وہ بظاہر الفاظ پوری نہ نکلے تو دلیل تو کجا الٹا اس کے غیر صادق ہونے پر دلیل ہوسکتی ہے۔
------------------------
(۲۵۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۲
(۲۶۰) پ۱۱ یونس آیت ۹۹
(۲۶۱) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزائیوں کا ساتواں معیار:
بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس شخص کے حق میں پیشگوئی ہوتی ہے اس کے حق میں پوری نہیں ہوتی ہے بلکہ اس کے بیٹے یا خلیفہ کے ہاتھوں پوری ہوتی ہے۔ (۲۶۲)
جواب:
جو پیشگوئی جس کے حق میں ہے اس کی ذات پر پوری ہونی چاہیے نہیں تو ہر ایک فریبی، کیّاد پیشگوئیاں کرتا پھرے اور بصورت کاذب نکلنے کے یہی ڈھکوسلہ پیش کرے کہ کیا ہوا میرے ہاتھوں پوری نہیں ہوئی۔ میری اولاد پر پوری ہو جائے گی۔ ایسی صورت میں دجال و کذاب اور صادق و راست گو میں فرق اٹھ جاتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ پیش گوئی کرنے والا قبل از وقت خود ہی تشریح کردے کہ یہ پیشگوئی میری ذات سے مخصوص نہیں ہے بلکہ میرے جانشنیوں کے ہاتھوں پوری نہ ہو۔ دونوں صورتوں میں وہ کاذب تصور ہوگا۔ ضرور ہے کہ اس کے کہے موجب اس کے جانشینوں کے ہاتھوں پوری ہو۔ اسے ذہن نشین کرکے اپنی پیش کردہ امثلہ کا جواب سنو!
مثال اول: رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں سو رہا تھا کہ مجھے زمین کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔ ابوہریرہ (صحابی رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو تشریف لے گئے اب تم اے صحابہ ان خزانوں کو جمع کرتے ہو۔
الجواب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خواب اے صحابہ کی جماعت تم پر پورا ہو رہا ہے صاف دلیل ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا یہی مطلب بیان فرمایا تھا اس کی مزید تفصیل یہ ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے ارشاد فرمایا ہوا ہے کہ اے صحابہ ''یفتح اللہ ارض فارس وارض الروم وارض حمیر قلت یا رسول اللہ ومن یستطیع الشام مع الروم ذوات القرون فَقَالَ وَاللّٰہ لیفتحھا اللّٰہُ لَکُمْ وَیَسْتَخْلِفُکُمْ'' (۲۶۳) فارس اور روم و حمیر کے ملکوں پر اللہ تمہیں قابض کرے گا۔ صحابہy نے ازراہِ تعجب عرض کی کون طاقت رکھتا ہے کہ روم جیسے ذی شان و سطوت بادشاہ سے مقابلہ کرے۔ فرمایا اللہ کی قسم تم ضرور اس پر مسلط ہوگے اور اس کے تخت پر اپنا خلیفہ بٹھاؤ گے۔ (رواہ احمد و طبرانی وغیرہما)
اسی طرح کنزالعمال جلد ۶ میں ہے کہ حضور نے اپنا ایک کشف بیان کیا کہ میں نے روم و کسریٰ کے ملکوں کو دیکھا اور جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ان پر قابض و متصرف ہوگی۔ (۲۶۴)
بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے ''والذی نفسی بیدہ لتنفقن کنوز ھما فی سبیل اللّٰہ'' (۲۶۵) اللہ کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے تم کسریٰ و قیصر کے خزانوں کو اپنے ہاتھوں اللہ کی راہ میں صرف کرو گے۔ ان تمام حدیثوں کی تائید ''مسلم'' کی مندرجہ ذیل حدیث کرتی ہے ''لتفتحن عصابۃ من المسلمین'' (۲۶۶) یعنی ''ایک گروہ اہل اسلام کا ان ممالک کو فتح کرے گا'' ان احادیث صحیحہ سے صاف عیاں ہے کہ یہ پیشگوئی صحابہ کی ذات کے لیے تھی۔ مرزائیو! اگر تم میں ہمت ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیشگوئی کو غلط کر دکھاؤ۔
دوسری مثال: مرزائی یہ دیتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں میں سونے کے کنگن (خواب میں) دیکھے ان کو آپ نے پھونک مار کر اڑا دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دو کذاب مدعیان نبوت مراد لیے ان میں سے ایک مسیلمہ کذاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ''لَئِنْ اَدْبَرت لیحقرنک اللّٰہُ'' اگر تو نے دین حق سے انحراف کیا اللہ تعالیٰ تجھ کو تباہ کردے گا اور میرا خیال ہے کہ تو وہی ہے جس کے متعلق میں نے رویا دیکھی ہے پھر سونے کے کنگنوں کی رؤیا روایت میں درج ہے گویا مسیلمہ کی ہلاکت اس رؤیا کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں ہونی چاہیے تھی لیکن وہ خلافت صدیقیہ میں ہلاک ہوا۔ (۲۶۷)
الجواب:
اس روایت میں ایک لفظ ہی ایسا ہے جو اس اعتراض کی بیخ و بن اکھیڑ کر رکھ دیتا ہے۔ اسی لیے مرزائی خائن نے اس کا ترجمہ غلط کرکے مرزائیوں کی آنکھ میں دھول ڈالی ہے حضور علیہ السلام نے تو صاف فرمایا تھا کہ ''لئِنْ اَدْبَرَتَ لَیَحقرَنَّکَ اللّٰہُ '' (۲۶۸) ۔ اگر تو میرے بعد زندہ رہا (اور ضرور زندہ رہے گا) تو اللہ تعالیٰ تجھے تباہ و ہلاک کردے گا۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق وہ کم بخت تباہ و برباد کیا گیا۔
مرزائی معترض نے لفظ لئِنْ اَدْبَرْتَ کا ترجمہ '' بے ایمانی'' سے یہ کیا ہے کہ اگر تو نے دین حق سے انحراف کیا۔ اف رے تیرا ظلم۔
ہمارا ترجمہ تو شاید مرزائی بوجہ متعصب و مقلد مرزا ہونے کے نہ مانیں۔ ہم خود مرزا کے قلم سے اس کی تصدیق و تصحیح کرا دیتے ہیں بغور ملاحظہ فرماویں:
'' مسیلمہ کذاب نے مباہلہ کیا ہی نہ تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف اتنا فرمایا تھا کہ اگر تو میرے بعد زندہ رہا تو ہلاک کیا جائے گا۔'' (۲۶۹)
تیسری مثال: ''تاریخ خمیس'' سے پیش کی گئی کہ حضرت نے اسید کو بحالت اسلام مکہ پر والی دیکھا مگر وہ کفر کی حالت میں مر گیا۔
الجواب:
تاریخ خمیس کی ہر بات مستند نہیں۔ یہ روایت قطعاً صحیح نہیں ہے ثبوت بذمہ مدعی۔
---------------------------------------------
(۲۶۲) ایضاً ص ۵۷۳
(۲۶۳) الحدیث ، دلائل النبوۃ ص۳۲۷،ج۶ و کنز العمال ص۳۷۲، ج۱۱ رقم الحدیث ۸۶،۳۱۷ و مختصر مجمع الزوائد ص۲۱۵، ج۲ وابن عساکر ص۲۹،ج۱ و مسند احمد ص۳۳، ج۵ وابوداؤد ص۳۳۶،ج۱ کتاب الجہاد باب فی سکن الشام والفظ لہ
(۲۶۴) کنز العمال ص۲۷۳،ج۱۱ رقم ۳۱۷۸۹ و فی اطراف ص۳۹۵،ج۵ سعد ۴۔۱:۶۰۔ بغوی ۵: ۲۳۵۔ طبری ۲۱، ۸۶
(۲۶۵) بخاری ص۹۸۱ فی الایمان والنذور باب قول النبی و مسلم ص۳۹۶، ج۲ فی الفتن باب ہلاک کسرٰی و قیصر
(۲۶۶) مسلم ص۳۹۶،ج۲ المصدر السابق
(۲۶۷) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۳ تا ۵۷۴
(۲۶۸) مسلم ص۲۴۴، ج۲ فی الرویا باب رؤیا النبی ﷺ
(۲۶۹) الحکم جلد ۱۱ نمبر۳۶ مورخہ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۰۷ء ص۹ و ملفوظات مرزا ص۳۲۷، ج۵
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
آٹھواں معیار:
نبی کی ساری پیشگوئیوں کا اس کی زندگی میں پورا ہونا ضروری نہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نبی ہوسکتا ہے کہ ہم ان وعدوں کو جو کفار سے کئے جاتے ہیں تیری زندگی میں پورے کردیں یا پھر تجھے وفات دے دیں اور بعد ازاں پورا کریں۔ (۲۷۰)
الجواب:
اس آیت کا ترجمہ ہی تمہارے غلط معیار کو رد کر رہا ہے، ہاں صاحب ایسا ہوسکتا ہے، اس سے بھی بڑھ کر سنو! یہ بھی ہوسکتا ہے کہ باوجود مرزا صاحب کے ''صادق'' ہونے کے بھی خدا تعالیٰ انہیں جہنم میں دھکیل دے کیا نہیں ''ہوسکتا''؟ ضرور ''ہوسکتا'' ہے خدا کو سب قسم کی طاقت ہے مگر سوال ہوسکنے یا نہ ہوسکنے کا نہیں سوال یہ ہے کہ خدا جو اپنے رسولوں سے وعدے کرتا ہے ان کا پورا کرنا اس کی شان کے لائق ہے یا نہ پورا کرنا۔ سنو! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ''فلا تَحْسَبَنَ اللّٰہ مُخْلِفَ وَعْدِہٖ رُسُلَہٗ'' الآیۃ ہرگز ہرگز گمان نہ کرو اللہ اپنے رسولوں سے وعدہ کرکے اسے پورا نہ کرے۔ (۲۷۱)
مختصر یہ کہ آیت کا مطلب یہ ہے ہم اس بات پر قادر ہیں کہ جو کچھ مخالفوں کی نسبت ہمارے وعدے جو ایک طرح سے گویا پیشگوئیاں ہیں ان میں سے کچھ تجھے دکھا دیں اور اس بات پر بھی قادر ہیں کہ تجھے وفات دے دیں۔ (۲۷۲)
پس یہاں قدرت کا سوال ہے اور لاریب خدا ہر چیز پر قادر ہے مگر خدا غلط گو نہیں ہے۔ ''تعالیٰ اللہ عن ذلک''
دوسری مثال: یہ پیش کی جاتی ہے:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے (مومن آل فرعون نے کہا) ''اِنْ یَّکُ کَاذِبًا فَعَلَیْہِ کَذِبُہٗ وان یک صادقا یصبکم بعض الذی بعدکم۔'' یعنی اگر یہ نبی (موسیٰ علیہ السلام ) جھوٹا ہے تو جھوٹ بولنے کا عذاب اس پر نازل ہوگا اگر سچا ہے تو بعض عذاب جن کا وہ وعدہ دیتا ہے تم پر وارد ہو جائیں گے اب دیکھو خدا نے بعض کا لفظ استعمال کیا نہ کل کا جس کے یہ معنی ہیں کہ جس قدر عذاب کی پیشگوئیاں ہیں ان میں سے بعض تو ضرور پوری ہوں گی گو بعض التوا میں رہ جائیں گی۔ (۲۷۳)
الجواب:
انبیاء کرام بشیر و نذیر ہوتے ہیں ان کے وعدے دو اقسام پر مشتمل ہوتے ہیں دنیاوی عذاب و ثواب اور اخروی گرفت و نجات ظاہر ہے کہ دنیاوی عذاب یا آخرت کا عذاب دنیا کا ثواب و آخرت کی نجات کا مجموعہ مواعید کا بعض حصہ ہے۔ مومن آل فرعون بھی یہی کہتا ہے کہ اگر یہ موسیٰ علیہ السلام کاذب ہے تو وبال اس کی گردن پر لیکن اگر صادق ہے تو یقینا جو وعدے وہ دیتا ہے ان میں سے بعض جو اس دنیا و آخرت کے عذاب و ثواب پر مبنی ہیں ضرور تمہیں پہنچیں گے۔ ایمان لاؤ گے تو دین و دنیا کی راحت و آسائش انکار کرو گے تو دنیا میں مصائب آخرت میں دوزخ کی رہائش نصیب ہوگی۔
بتلائیے اس میں کہاں ہے کہ نبیوں کی جو پیشگوئیاں دنیا کے عذاب پر بطور تحدی پیش کی جاتی ہیں ان میں سے بعض پوری ہوں گی اور بعض نہ ہونگی ''مَعَاذَ اللّٰہِ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ''۔ اگر یہ ہو جائے کہ رسولوں کی پیشگوئیاں جو بقول مرزا '' از روئے قرآن و توریت نبوت کا سب سے بڑا اور واحد ثبوت ہیں۔'' (۲۷۴) ٹل جائیں تو دنیا میں اندھیر مچ جائے اور صادق رسولوں اور کاذب دجالوں میں مابہ الامتیاز نہ رہنے کے علاوہ خدا کے کاذب الاقوال ہونے پر زندہ ثبوت ہو جائے۔
------------------------------------------------------
(۲۸۰) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۱) پ۱۳ ابراھیم آیت نمبر ۴۸
(۲۷۲) الوصیت ص۲،۳ و روحانی ص۳۰۲، ج۲۰ و تذکرہ ص۵۸۴، نوٹ: مذکورہ ترجمہ و تفہیم مرزا نے قرانی آیت، فاما نرینک بعض الذی نعرھم او نتعرفینک (پ۲۴ المومن آیت:۷۸) کی نہیں کی بلکہ انہیں الفاظ میں مرزا جی کا ایک الھام (الوصیت) میں ہے۔ اس کی ہی مرزا نے یہ تشریح کی ہے اور مولانا معمار مرحوم نے الزامی طور پر دکھایا ہے کہ اگر مرزا کے الھام کا یہ مفہوم ہے تو قرانی الفاظ کی بھی یہی مراد ہے کیونکہ دونوں کے الفاظ ایک ہی ہیں۔ ابو صہیب
(۲۷۳) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۳۱ و روحانی ص۵۶۷ ج ۲۲ و تفسیر مرزا ص۱۹۶،ج۷
(۲۷۴) استفتاء ص۳ و روحانی ص۱۱۱، ج۱۲
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
نواں معیار:
بعض دفعہ ایسا ہو جاتا ہے کہ پیشگوئی کے وقت ظہور یا مصداق اشخاص سمجھنے کے متعلق غلطی ہو جاتی ہے یا خدا کا وعدہ کسی شرط کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری قوم کے حق میں پورا ہوتا ہے؟ (۲۷۵)
الجواب:
خدا کا نبی اپنی ذات میں عالم الغیب نہیں ہوتا مگر جو بات وحی میں موجود ہوتی ہے اس کے سمجھنے میں ہرگز غلطی نہیں کرتا۔ اگر بتقاضائے بشریت غلطی کر جائے تو ''خدا تعالیٰ غلطی پر قائم نہیں رکھتا'' (۲۷۶) ہاں ، ''ہاں نبی غلطی پر قائم نہیں رکھا جاسکتا'' (۲۷۷) خاص کر پیشگوئی والی وحی کے سمجھنے میں جو ''نبی کی صداقت کا معیار ہوتی ہے'' نبی قطعاً غلطی نہیں کرتا۔ کیونکہ اس کی غلطی نبی کی صداقت پر اثر انداز ہوتی ہے اب سنیے اپنی پیش کردہ امثلہ کا جواب:
مثال اول: رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے لَتَدْخُلُن الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ والی رؤیا کو حدیبیہ والے سال کے لیے اندازہ فرمایا اور قریباً ڈیڑھ ہزار صحابہ کو لے کر چل کھڑے ہوئے لیکن علم الٰہی میں اس کے پورا ہونے کا وقت آئندہ سال تھا۔ (۲۷۸ )
جواب:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو خواب آیا تھا اس میں کوئی ایک لفظ ایسا موجود نہیں کہ حج اسی سال ہوگا۔ '' کوئی میعاد اور وقت بتایا نہیں گیا تھا'' (۲۷۹) '' جاہل جلد باز یہ نہیں سوچتا کہ اس پیشگوئی میں کیا سال کی شرط تھی کہ اسی سال حج ہوگا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہ فرمایا تھا کہ اسی سال تم زیارت کعبہ کرو گے چنانچہ اگلے سال کعبہ کی زیارت ہوگئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا کو اللہ تعالیٰ نے سچ کر دکھلایا اور یہ پہلی دفعہ کا عازم مکہ ہونا ایک بڑی بھاری فتح کی بنیاد ہوا۔ (۲۸۰)
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم نے یہ نہیں کہا تھا کہ اسی سال حج ہوگا۔ (۲۸۱) پس یہ قطعاً جھوٹ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیشگوئی کا وقت مقرر کرنے میں غلطی کھائی ہرگز ہرگز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وقت مقرر نہیں کیا۔
اب رہا یہ امر کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خواب کے دیکھنے کے بعد حج کو تشریف کیوں لے گئے؟ جواباً عرض ہے کہ یہ بھی غلط ہے خواب اس سفر کا باعث نہیں ہوا کیونکہ خواب تو آیا ہی راستہ میں تھا چنانچہ حضرت مجاہد رضی اللہ عنہ (جو حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے شاگرد ہیں اور نہایت ثقہ راوی ہیں) کی صحیح روایت جسے تفسیر در منثور میں پانچ جلیل القدر محدثین سے نقل کیا ہے یہ ہے ''أری رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺ وَھُوَ بِالْحُدِیبیۃ اِنہٗ یَدْخُلُ مکۃ ھُوَ وَاَصَحَابُہ آمّین'' (۲۸۲) ارشاد الساری فتح الباری عمدۃ القاری۔ تفسیر جامع البیان وغیرہ میں بھی ایسا ہی مرقوم و مسطور ہے کہ خواب حدیبیہ میں آیا تھا۔ (۲۸۳)
بفرضِ محال یہی صحیح ہو کہ سفر کرنے سے پہلے خواب دیکھا گیا تھا۔ تو بھی اس کا کیا ثبوت ہے کہ سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اس سفر میں بہت سے دیگر مصالح و فوائد اور خدا کی حکمتیں تھیں یہی سفر فتح مکہ کی بنیاد، مسلمانوں کی ترقی کا باعث اور صحابہ کرامy کے راسخ الایمان ہونے کا سرٹیفکیٹ دلانے کا موجب ہوا ''لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ'' یہ واقعہ صلح، حدیبیہ کا ہے۔ (۲۸۴)
الغرض یہ بات بے ثبوت ہے کہ حضور علیہ السلام کا سفر اس خواب کی بنا پر تھا۔ مرزا صاحب فرماتے ہیں:
'' جب تک خدا تعالیٰ خاص طور پر تمام مراتب کسی پیشگوئی کے آپ پر نہ کھولے تب تک آپ نے اس کی کسی خاص شق کا کبھی دعویٰ نہیں کیا۔'' (۲۸۵)
اگر امر واقعہ ایسا ہی ہو جیسا کہ مرزائی کہتے ہیں تو بھی انہیں مفید نہیں، کیونکہ مرزا صاحب کا دعویٰ تھا:
'' میں غلطی پر قائم نہیں رکھا جاتا خدا کی رحمت مجھے جلد تر حقیقی انکشاف کی راہ دکھا دیتی ہے میری روح فرشتوں کی گود میں پرورش پاتی ہے۔'' (۲۸۶)
پس مرزا صاحب کا اپنی پیشگوئی میں اس وقت تک غلطی میں مبتلا رہنا کہ اس کا وقت اندازہ کردہ گزر جائے بقول ان کے ناجائز ہے۔
دوسری مثال: مرزائی صاحبان یہ پیش کرتے ہیں کہ '' حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کو فرمایا ''یا قوم ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقدسَۃَ الَّتِی کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوا عَلٰٓی اَدْبَارِکُم فتنقلبوا خَاسِرِیْنَ'' اے قوم ارض مقدس میں داخل ہو اور پیچھے مت لوٹو کہیں خسارہ پانے والے نہ ہو جاؤ خدا یہ زمین تمہارے لیے لکھ چکا ہے۔
اس آیت میں معین و مخصوص اشخاص کو ''کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ'' کی خبر دی۔ گئی وہ بنی اسرائیل بلکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس زمین میں داخل نہ ہوسکے عالم تقدیر کا (یہ) امر موعود کے لیے ظاہر نہیں ہوا۔ (۲۸۷)
نوٹ: اسی کے قریب قریب مرزا صاحب نے بھی اعتراض کیا ہے۔ (۲۸۸)
الجواب:
مرزائیوں نے اس مثال میں بہت جھوٹ بولے ہیں (۱) یہ کہ یہ وعدہ الٰہی ان معین و مخصوص اشخاص سے خاص تھا جو اس زمین میں داخل نہ ہوسکے (۲) یہ کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی اس وعدہ کے ذاتی طور پر مخاطب تھا۔ (۳) یہ کہ یہ وعدہ پورا نہ ہوا۔ حالانکہ امر واقع یہ ہے کہ یہ وعدہ جیسا کہ یا قوم کے لفظ سے ظاہر ہے عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا وہ بھی شرط صلاحیت سے مشروط خود مرزائی مولوی مانتا ہے۔ '' خدا تعالیٰ کا وعدہ کسی کی وجہ سے ایک قوم کی بجائے دوسری کے حق میں پورا ہوتا ہے'' (جیسا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا واقعہ ہے) (۲۸۹)۔ اس مرزائی اقرار کو بھی چھوڑو خود قرآن پاک گواہ ہے کہ ان کو کہا گیا تھا۔ ''وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْن'' (۲۹۰) اگر پیچھے پھرو گے گھاٹا پاؤ گے چونکہ ابتدا اس قوم نے سرکشی کی کہ ''اِنَّ فِیْھَا قَوْمًا جَبَّارِیْنَ وَاِنَّا لَنْ تَدْخُلَھَا حَتّٰی یَخْرُجوْا مِنْھا'' (۲۹۱) ہم تو ہرگز اس سرزمین میں داخل نہ ہوں گے۔ وہاں ایک جنگجو قوم رہتی ہے حتیٰ کہ وہ وہاں سے نکل جائیں۔
اس ظاہری انکار کے ساتھ گستاخی بھی کی کہ ''فَاذْھَبْ اَنْتَ وَرَبُّکَ فَقَاتِلَا اِنَّا ھٰھُنَا قَاعِدُوْنَ'' (۲۹۲) ہم یہیں بیٹھیں ہیں جا تو اور تیرا خدا لڑو۔
ان کی اس انتہائی شقاوت و بدبختی پر خدا کا غضب وارد ہوا کہ پہلے تو یہ وعدہ عام تھا بنی اسرائیل کے ہر طبقہ سے بشرط صلاحیت اب مقید کردیا گیا کہ ''قَالَ فَاِنَّھَا مُحَرَّمَۃٌ عَلَیْھِمْ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً یَّتِیْھُوْنَ فِی الْاَرْضِ فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوَمِ الْفَاسِقِیْنَ'' (۲۹۳) بیشک یہ زمین چالیس سال کے لیے ان پر قطعاً حرام کی گئی۔ اب یہ در بدر ٹھوکریں کھاتے پھریں گے۔ پس تو اس فاسق قوم پر تاسف نہ کر۔
چالیس سال کے بعد یہ وعدہ الٰہی حرف بہ حرف پورا ہوا چنانچہ مرزا صاحب راقم ہیں:
'' پھر خدا تعالیٰ نے ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد یشوع بن نون کو برگزیدہ کیا اور وہ اس زمین میں داخل ہوا۔'' (۲۹۴)
خلاصہ یہ کہ وعدہ خاص اشخاص یا معین افراد کی ذات تک محدود نہ تھا عام قوم بنی اسرائیل کے لیے تھا جو حرف بحرف پورا ہوا۔
مرزا صاحب کی تحریر سے اس کی مثال:
میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو لوگ مخالفانہ جوش سے بھرے ہوئے آج تمہیں نظر آتے ہیں تھوڑے ہی زمانہ کے بعد تم ان کو نہ دیکھو گے۔ (۲۹۵)
اگرچہ یہ خبر محض قیاس پر مبنی ہے کیونکہ آخر ایک نہ ایک دن مرزا صاحب کے مخالف جو موجود تھے مرنے والے تھے لہٰذا یہ پیشگوئی نہیں محض قیاس سے مگر ہم اس وقت اس بحث کو چھوڑتے ہیں۔ ہمارا مدعا اس سے یہ ہے کہ اس جگہ مرزا صاحب نے جن اپنے مریدوں کو مخاطب کرکے یہ الفاظ کہے تھے مثلاً مولوی نور دین عبدالکریم، محمد احسن وغیرہ ہزارہا اشخاص اور خود بدولت مرزا صاحب کے ان کے رو برو یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ یقینا نہیں! مرزا صاحب کے اس زمانہ کے مخالف آج بھی اللہ کے فضل و کرم سے ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور مرزا صاحب معہ اپنے اخص حواریوں کے خدا جانے ہسپتال روحانی کے کس درجہ میں پڑے ہوں گے۔
احمدی صاحبان اس کا جواب یہی دیں گے کہ یہ پیشگوئی گو اس وقت کے مریدوں کو مخاطب کرکے کی گئی تھی، مگر مراد اس سے عام احمدی قوم ہے جن کے ہوتے ہوئے یہ پوری ہوگی یہی ہمارا جواب ہے کہ گو مخاطب اس پیشگوئی کے وہ اشخاص تھے جو اس وقت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سامنے تھے مگر مراد اس سے عام قوم بنی اسرائیل تھی۔
پس جو پیشگوئی جن اشخاص کے متعلق ہوتی ہے وہ انہی کی ذات پر پوری ہوتی ہے نہ کہ کسی دوسری قوم پر ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ کسی شرط ظاہری کے سبب اس قوم کے بعض افراد خارج کیے جائیں۔ اپنی شرارت کے سبب نعماء الٰہی سے محروم رکھے جائیں وہ بھی اس صورت میں کہ پیشگوئی مشروط ہو صلاحیت سے۔
------------------------------------------------------------------
(۲۷۵) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۶) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۲۸، طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۷۷) ضمیمہ براھین احمدیہ ص۸۹،ج۵ و روحانی ص۲۵۰، ج۲۱
(۲۷۸) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴
(۲۷۹) فتاوٰی احمدی ص۵۳، ج۱ طبعہ ۱۹۴۳
(۲۸۰) مرزائی نور الدین جانشین اول مرزا قادیانی کا فتوٰی ، مندرجہ بدر جلد ۲ نمبر ۲ مورخہ ۱۲؍جنوری ۱۹۰۶ء ، ص۵
(۲۸۱) صحیح بخاری ص۳۸۰، ج۱ فی الشروط باب الشروط فی الجھاد
(۲۸۲) الدر المنثور ص۸۰،ج۷ و دلائل النبوۃ ص۱۶۴،ج۴
(۲۸۳) لم اجدہ
(۲۸۴) احمدیہ پاکٹ بک ص۲۶۵ طبعہ ۱۹۳۲ء
(۲۸۵) ازالہ اوہام ص۴۰۶ و روحانی ص۳۱۰، ج۳
(۲۸۶) اشتہار مرزا مورخہ ۴؍اکتوبر ۱۸۹۹ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات ص۱۵۵، ج۳
(۲۸۷) مضمون مرزائی اللہ دتا جالندھری ، مندرجہ الفضل ، مورخہ ۱۳؍ نومبر ۱۹۳۲ء
(۲۸۸) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۲ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء ص۲ و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۸۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۷۴، ج۵۷۵
(۲۹۰) پ۶ المائدہ آیت ۲۲
(۲۹۱) ایضاً آیت:۲۳
(۲۹۲) ایضاً ۲۵
(۲۹۳) ایضاً ۲۷
(۲۹۴) الحکم جلد ۹ نمبر ۴۳ مورخہ ۱۰؍ دسمبر ۱۹۰۵ء و ملفوظات مرزا ص۵۷۶، ج۴
(۲۹۵) ازالہ اوہام ص۳۲ و روحانی ص۱۱۹، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
دسواں معیار:
مرزائی اصحاب یہ بتاتے ہیں کہ بعض دفعہ پیشگوئی کو کلیۃً منسوخ بھی کردیا جاتا ہے جیسا کہ آیت ''مَا نَنْسَخُ مِنْ اٰیَۃٍ اَوْ نُنْسِھَا نَاتِ بِخَیْرٍ مِّنْھَا اَوْ مِثْلِھَا'' اور آیت ''اِذْا بَدَّلْنَآ اٰیَۃً مَکانَ آیۃٍ'' (سورۂ نحل) نیز ''وَاللّٰہُ غَالِبٌ عَلٰی اَمْرِہٖ'' (یوسف) ''یَمْحُو اللّٰہُ مَا یَشائُ ویثبتُ'' خدا ایک آیت کو منسوخ کرکے اس سے بہتر لے آتا ہے۔ (۲۹۶)
الجواب:
کوئی بھی (دانا ، عقل مند، ذی ہوش انسان) آج تک قصص اور مواعید میں نسخ کا قائل نہیں ہوا اگر وعدوں میں نسخ جائز ہے تو امان بالکل اٹھ گیا۔ کیونکہ ممکن نہیں کہ جناب علی رضی اللہ عنہ کی وصایت کا وعدہ (اور جنت و دوزخ، حشر نشر، جزا و سزا کا وعدہ۔ ناقل) بھی منسوخ نہ ہوگیا ہو (اخبار الحکم ۱۷؍ جون ۱۹۰۰ء مولوی عبدالکریم امام الصلوٰۃ مرزا کا مکتوب ایک شیعہ کے نام)
اوپر کے اصولی و الزامی جواب کے بعد ہم نمبروار پیش کردہ آیات کا مطلب بتاتے ہیں۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
ما نَنْسخ من ایۃٍ یعنی کوئی آیت ہم منسوخ یا منسی نہیں کرتے جس کے عوض دوسری آیت ویسی ہی یا اس سے بہتر نہیں لاتے پس اس آیت میں قرآن کریم نے صاف فرما دیا ہے کہ نسخ آیت کا آیت سے ہوتا ہے اس وجہ سے وعدہ دیا ہے کہ نسخ کے بعد ضرور آیت منسوخہ کی جگہ آیت نازل ہوتی ہے۔ ہاں علماء نے مسامحت کی راہ سے بعض احادیث کو بعض آیات کی ناسخ ٹھہرایا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس بات کے قائل میں کہ متواتر حدیث سے بھی قرآن کا نسخ جائز نہیں۔ الخ (۲۹۷)
مرزا صاحب کی یہ تقریر صاف مظہر ہے کہ آیت ما ننسخ میں قرآنی آیات کے نسخ کا ذکر ہے نہ کہ خدا کے وعدوں کا اور بات بھی حق ہے۔ کجا احکام کا مناسب وقت پر نسخ اور کجا خدا کی دی ہوئی خبر کا ٹل جاتا۔
کجا رام رام کجا ٹیں ٹیں
دوسری آیت بھی اسی مفہوم کی ہے چنانچہ ارشاد ہے '' اور جب ہم بدلتے ہیں ایک آیت کی جگہ دوسری اور اللہ خوب جانتا ہے جو اس نے اتارا ہے تو کافر (۲۹۸)کہتے ہیں ''اِنما انت مفتر'' تحقیق تو افترا کرتا ہے اللہ پر ''قُلْ نَزَّلَہٗ رُوْحُ الْقُدُسِ'' (۲۹۹)کہہ اس قرآن کو اتارا ہے پاک فرشتے نے۔ پھر کہتے ہیں اِنَّمَا یُعَلِّمُہٗ بَشَرٌ (۳۰۰) بیشک اس کو بشر (ایک رومی کا غلام جو حضرت کے پاس احوال انبیاء سننے کو آیا کرتا تھا) سکھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جواب دیتا ہے ''اَعْجَمِیٌ ھٰذَا لِسَانٌ عَرَبِیٌّ مُبِیْنٌ'' (۳۰۱) غور تو کرو وہ بے چارا عجمی، عربی سے نابلد اور یہ قرآن عربی مبین (سورہ نحل ع۱۴) پھر یہ کیسے ہوسکتا ہے؟
یہ آیات بھی اپنا مدعا ظاہر کرنے میں واضح ہیں کہ یہاں مواعید و اخبار کا نسخ نہیں بلکہ احکام میں مناسب تغیر و تبدل کا ذکر ہے۔ (۳۰۲)
مرزائیو! یہی تمہاری دیانت ہے کہ مرزا کی تائید کے لیے قرآن پاک میں یہودیوں کی طرح خیانت کرتے ہو۔ (اُفٍّ لکم)
تیسری مثال جو پیش کی گئی ہے وہ تو امثلہ بالا سے بھی مزیدار ہے کہاں خدا کے غلبہ و قدرت کا ذکر اور کہاں وعدوں کو ٹالنا۔ ہاں جناب! خدا اپنے امر پر غالب ہے جس طرح کا تصرف چاہے کرسکتا ہے اگر ایک '' یکے احمدی بہشتی مقبرہ میں مدفون قطعی جنتی'' کو نچلے اور بدترین طبقہ جہنم میں ڈال دے تو غالبٌ علی امرہٖ ہے۔ مگر یاد رکھو خدا صادق الوعد ہے۔ ''ان وعدہ کان مفعولا'' (۳۰۳) اور اس کا وعدہ ہو کر رہتا ہے ٹلا نہیں کرتا۔
چوتھی مثال
یَمْحواللّٰہُ ما یشائُ ویئبت (۳۰۴) میں بھی اظہار قدرت ہے نہ کہ پیشگوئیوں کے نسخ و محو کا ذکر۔ خدا کے وعدے میں تخلف نہیں ہوتا۔ (۳۰۵)
خدا کی یہ شان ہے کہ ''لَا یُخْلِفُ اللّٰہُ وَعْدَہٗ '' ( ۳۰۶) خدا تعالیٰ کے وعدوں میں تخلف نہیں۔ (۳۰۷) ''لن یخلف اللّٰہ وَعْدَہٗ'' (۳۰۸) '' وعدہ رب تو شدنی بود'' (۳۰۹) ''اِنَ اللّٰہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَادَ'' (۳۱۰) '' وخدا چناں نیست کہ خلاف وعدہ خود کند'' (۳۱۱)
----------------------------------------------------------------
(۲۹۶) مفہوم، تفہیمات ربانیہ ص۵۷۵
(۲۹۷) الحق مباحثہ لدھیانہ ص۹۰ تا ۹۱ و روحانی ص۹۲، ۹۳ ج۴ و تفسیر مرزا ص۱۸۶، ج۲
(۲۹۸) پ۱۴ النحل آیت ۱۰۲
(۲۹۹) ایضاً ۱۰۳
(۳۰۰) ایضاً ۱۰۴
(۳۰۱) ایضاً
(۳۰۲) مرزے محمود نے اپنی تفسیر کبیر ص۲۴۰، ج۴ میں مرزائی صلاح الدین نے اپنی تفسیر ص۱۳۱۷، ج۲ میں مرزائی محمد علی لاہوری نے بیان القران ص۱۰۹۷، ج۲ میں تسلیم کیا ہے کہ ان آیات میں بعض احکام شریعت کا نسخ مراد ہے۔ ابو صہیب
(۳۰۳) انجام آتھم ص۸۰
(۳۰۴) تتممہ حقیقت الوحی ص۱۳۳ و روحانی ص۵۷۰ ج۲۲
(۳۰۵) دیکھئے تفسیر مرزا ص۹۶،ج۵ زیر آیت نمبر ۴۰ از سورہ رعد
(۳۰۶) پ۲۱ سورہ الدوم آیت : ۷
(۳۰۷) لم اجدہ ، البتہ مفموماً یہ عبارت جنگ مقدس ۱۰۲ و روحانی ص۱۸۴،ج۶ میں موجود ہے۔ ابو صہیب
(۳۰۸) پ۱۷ سورہ الحج آیت : ۴۸
(۳۰۹) انجام آتھم ص۸۰
(۳۱۰) پ۳ اٰل عمران آیت : ۱۰ و پ۱۳ الرعد آیت: ۳۲
(۳۱۱) انجام آتھم ص۸۷
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر دوسری دلیل علاماتِ مسیح موعود

علامت نمبر ۱:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو مرزا صاحب ان الفاظ میں نقل کرتے ہیں:
''وَالَّذِیْ نَفْسِیْ بِیَدِہ لَیُوَْشِکَنَّ اَنْ یَّنْزِلَ فِیْکُمْ ابُنْ مَرْیَمَ حَکَمًا عَدْلاً الخ'' '' بخاری ۴۹۰ "
یعنی قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ تم میں ابن مریم نازل ہوگا اور تمہارے ہر ایک مختلف فیہ مسئلہ کا عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے گا۔'' (۳۱۲)
اس حدیث پاک میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا کی قسم کھا کر آنے والے مسیح موعود کا نام ابن مریم فرماتے ہیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فرمان کو بغیر کسی قویہ قرینہ کے مندرجہ احادیث و قرآن کے سوا تاویل وغیرہ میں کھینچنا الحاد و زندقہ ہے۔ خاص کر جو بات خدا کا نبی قسم کھا کر بیان فرما دے اس میں تو قطعاً تاویل و استثنا جائز نہیں۔ چنانچہ مرزا صاحب بھی اپنی کتاب حمامۃ البشریٰ صفحہ ۱۴ پر لکھتے ہیں:
''وَالْقَسَمُ یَدُلُّ عَلٰٓی اَنَّ الْخَبْر مَحْمُوْلٌ عَلٰی الظَّاھِرِلَا تَاوِیْلَ فِیْہِ وَلَا اِسْتثنائَ۔'' (۳۱۳)
پس مرزا صاحب کا نام چونکہ ''ابن مریم'' نہیں ہے بلکہ ان کی والدہ کا نام ''چراغ بی بی'' تھا(۳۱۴)۔ اس لیے وہ مسیح موعود نہیں ہوسکتے۔ شاید کوئی مرزائی کسی بے خبر بھائی کو دھوکا دے کہ مرزا صاحب کی تحریر نقل کرتے ہیں:
'' اس عاجز نے جو مثیل مسیح ہونے کا دعویٰ کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود خیال کر بیٹھے ہیں۔ میں نے ہرگز دعویٰ نہیں کیا کہ میں مسیح ابن مریم ہوں جو شخص یہ الزام مجھ پر لگاوے وہ مفتری اور کذاب ہے۔ میں مثیل مسیح ہوں۔'' (۳۱۵)
----------------------------
(۳۱۲) ازالہ اوہام ص۲۰۱ و روحانی ص۱۹۸، ج۳
(۳۱۳) حاشیہ روحانی خزائن ص۱۹۲، ج۷
(۳۱۴) تاریخ احمدیت ص۶۷،ج۱ و عام کتب سوانح مرزا قادیانی
(۳۱۵) ازالہ اوہام ص۱۹۰ و روحانی ص۱۹۲، ج۳
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علامت نمبر ۲:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
''یَنْزِلُ عِیْسٰی ابْنُ مَرْیَمَ اِلَی الْاَرْضِ فَیَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ وَیمْکُثُ فِی الْارَضِ خَمْسًا وَاَرْبَعَِیْنَ سَنَۃً ثُم یَمُوْتُ فَیُدْفَنُ مَعِیْ فِی قَبْرِیْ۔'' (۳۱۶)
یہ حدیث حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے بہ تخریج ابن الجوزی اور کتاب الوفا اور مشکوٰۃ کے باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ہیں مرقوم و مسطور ہے۔ ترجمہ اس کا یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نازل ہوں گے عیسیٰ ابن مریم طرف زمین کے۔ نکاح کریں گے اولاد ہوگی۔ زمین میں ۴۵ سال رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرہ میں دفن ہوں گے۔
حدیث مرقومہ بالا سے صاف واضح ہے کہ حضرت ابن مریم زمین پر اُتر کر نکاح کریں گے چونکہ مرزا صاحب دعویٰ مسیحیت سے پہلے نکاح کرچکے (۳۱۷) تھے اس سے اولاد بھی تھی اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث ہذا کا یہ مطلب ظاہر کیا کہ اس نکاح سے جو مسیح موعود کی علامت ہے محمدی بیگم کا میرے ساتھ نکاح ہونا ہے چنانچہ آپ کے الفاظ یہ ہیں:
'' اس (محمدی بیگم کے نکاح والی) پیشگوئی کی تصدیق کے لیے جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرما لی ہے کہ ''یَتَزَوَّجُ وَیُوْلَدُ لَہٗ '' یعنی وہ مسیح موعود بیوی کرے گا نیز صاحب اولاد ہوگا۔ اب ظاہر ہے کہ تزوج اور اولاد کا ذکر کرنا عام طور پر مقصود نہیں۔ عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اولاد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں بلکہ تزوج سے مراد وہ خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اولاد سے مراد وہ خاص اولاد ہے جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی ہے اس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سیاہ دل منکروں کو اس کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہونگی۔ (۳۱۸)
چونکہ یہ علامت جو مسیح موعود کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ''ضروری'' بتائی ہے مرزا صاحب میں پائی نہیں گئی اس لیے وہ مسیح موعود نہیں۔
اعتراض:
نکاح کی پیشگوئی شرطی تھی انہوں نے شرط کو پورا کردیا اس لیے نکاح نہ ہوا۔ (۳۱۹)
الجواب:
اس جگہ ہم پیشگوئی کی رو سے بحث نہیں کر رہے ہیں اس کی تفصیل اپنے مقام پر گذر چکی ہے بلکہ اس جگہ ہمارا اعتراض یہ ہے کہ خواہ کسی وجہ سے یہ نکاح نہ ہوا۔ یہ علامت ہے مسیح موعود کی، اگر مرزا صاحب مسیح موعود ہوتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی علامت ان میںضرور پائی جاتی خواہ دنیا ادھر کی اُدھر ہو جائے ممکن نہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی غلط نکلے جو مسیح موعود ہوگا ضرور اس میں یہ علامت ہوگی۔
------------------------------
(۳۱۶) مشکوٰۃ ص۴۸۰، ج۲
(۳۱۷) مرزا نے دو شادیاں کی تھیں پہلی شادی پندرہ سولہ سال کی عمر میں (غالباً ۱۸۵۵ء ، ۱۸۵۶ء) کی تھی '' حیات طیبہ ص۷۶ '' جبکہ دوسری شادی ۱۸۸۴ء میں (ایضاً ۷۶) لیکن دعویٰ مسیحیت کے بعد مرزا نے کوئی شادی نہیں کی تھی۔ ابو صہیب
(۳۱۸) حاشیہ ضمیمہ انجام آتھم ص۵۳ و روحانی ص۳۳۷، ج۱۱
(۳۱۹) تفہیمات ربانیہ ص۵۹۰
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علامت نمبر ۳:
مذکورہ بالا حدیث شریف میں دوسری علامت مسیح موعود کی اس کے ہاں اولاد کا ہونا ہے اور مرزا صاحب اولاد سے مراد عام اولاد نہیں بلکہ وہ خاص اولاد بتاتے ہیں جس کی نسبت مرزا جی نے پیشگوئی کر رکھی تھی اور ہم اس پیشگوئی پر مفصل بحث کرکے اسے غلط ثابت کرچکے ہیں لہٰذا یہ علامت بھی مرزا صاحب میں نہیں پائی گئی۔ پس وہ مسیح موعود نہیں۔
اعتراض:
مرزا صاحب کی اولاد موجود ہے خاص کر وہ لڑکا جس کے بارے میں پیشگوئی اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں کی گئی تھی۔ محمود احمد ہے۔ (۳۲۰)
الجواب:
اگرچہ ہم پہلے محمود احمد کا مصلح موعود نہ ہونا ثابت کر آئے ہیں تاہم مرزائیوں کا منہ بند کرنے کو مزید ثبوت دیتے ہیں حدیث کی جو تشریح مرزا صاحب نے کی ہے وہ ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ ص۵۳ پر ہے۔ اسی ضمیمہ کے ۱۵ پر مرزا صاحب راقم ہیں:
'' پھر ایک اور الہام ہے جو فروری ۱۸۹۶ء میں شائع ہوا تھا اور وہ یہ ہے کہ ''خدا تین کو چار کرے گا'' اس وقت ان تین لڑکوں کا جواب موجود ہیں نام و نشان نہ تھا اور اس الہام کے معنی یہ تھے کہ تین لڑکے ہوں گے پھر ایک اور ہوگا جو تین کو چار کرے گا سو ایک بڑا حصہ اس کا پورا ہوگیا یعنی خدا نے تین لڑکے مجھ کو اس نکاح سے عطا کئے جو تینوں موجود ہیں صرف ایک کی انتظار ہے جو تین کو چار کرے گا۔'' (۳۲۱)
یہ تحریر مرزا صاحب جنوری ۹۶ء کی ہے۔ جس میں چوتھے لڑکے'' مصلح موعود'' کی انتظار لکھی ہے حالانکہ میاں محمود احمد اس وقت موجود تھا۔ محمود احمد کی پیدائش ۱۸۸۹ء میں ہوئی ہے (۳۲۲)۔ پس محمود وہ مصلح موعود نہیں۔
شاید مرزائی کہیں کہ گو مصلح موعود کی پیشگوئی پوری نہیں ہوئی تاہم دوسرے تین لڑکے تو حسب پیشگوئی موجود ہیں۔ جواب اس کا یہ ہے جن تین لڑکوں کو مرزا صاحب نے پیشگوئی ۲۰؍ فروری ۸۶ء کے ان الفاظ وہ تین کو چار کرے گا اس کے معنی یہ تھے کہ تین لڑکے ہونگے، پھر ایک اور ہوگا سو ایک بڑا حصہ اس کا پورا ہوگیا یعنی تین لڑکے خدا نے تجھ کو عطا کئے کا مصداق ٹھہرایا ہے یہ بھی ایک چالاکی ہے اشتہار ۲۰ ؍ فروری میں ہرگز صاف الفاظ میں تین لڑکوں کی پیشگوئی نہ تھی بلکہ اس وقت یہ ظاہر کیا تھا کہ:
'' وہ تین کو چار کرے گا اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے۔''
ناظرین کرام ورق الٹ کر اصل پیشگوئی اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء کو پھر ایک دفعہ پڑھ لیں اس میں یہ فقرات صاف موجود ہیں۔ پس اولاد ہونے کے بعد مرزا صاحب کا اسے پیش گوئی بنانا اور حسبِ ضرورت و حسبِ حال اس کی تشریح کرنا دلیل صداقت تو درکنار الٹا مرزا صاحب کو جھوٹے اٹکل باز راولوں کے زمرے میں شامل کر رہا ہے۔
---------------------------------------------------------------------------------
(۳۲۰) مفہوم ، سوانح فضل عمر ص۶۵، ج۱ مؤلفہ طاہر احمد
(۳۲۱) روحانی ص۲۶۹، ج۱۱
(۳۲۲) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ ۱۹
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علامت نمبر ۴:
ایک علامت حدیث مذکورہ میں مسیح موعود کی یہ ہے کہ وہ بعد نزول کے ۴۵ سال زمین پر رہیں گے۔ مرزا صاحب نزول سے مراد پیدائش بتاتے ہیں:
۱: میرا یہ دعویٰ تو نہیں کہ کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہوگا بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ کسی آئندہ زمانے میں خاص کرو مشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے۔ (۳۲۳)
۲: ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ شاید پیشگوئی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے کوئی اور مسیح موعود بھی آئندہ کسی وقت پیدا ہو۔'' (۳۲۴)
حدیث شریف میں آیا ہے کہ مسیح دمشق میں نازل ہوگا۔ مرزا صاحب اس کا مطلب پیدائش بتاتے ہیں۔ پس بموجب حدیث کے مرزا صاحب کی عمر ۴۵ سال ہونی چاہیے تھی اگر وہ مسیح موعود ہوتے۔ بخلاف اس کے مرزا صاحب بقول خود ۷۵ اور ۸۵ کے اندر عمر پا کر مرتے ہیں لہٰذا مسیح موعود نہیں۔ پھر اگر نزول سے مراد سن دعویٰ مسیحیت لیا جائے جیسا کہ ایک جگہ مرزا صاحب لکھتے ہیں:
'' صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح جب آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔ اس کی یہ معقول تعبیر ہوگی کہ حضرت مسیح علیہ السلام اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت کہ جب وہ مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کریں گے بیمار ہوں گے۔'' (۳۲۷)
اس عبارت میں نزول مسیح سے مراد سن دعویٰ لیا ہے اور مرزا صاحب نے دعویٰ مسیحیت ازالہ اوہام میں کیا ہے جو ۱۸۹۱ء مطابق ۱۳۰۸ھ میں تصنیف ہوا۔ (۳۲۶)
اس لحاظ سے بھی مرزا صاحب کو ۱۳۰۸ + ۴۵= ۱۳۵۳ھ تک دنیا میں رہنا چاہیے تھا حالانکہ آپ ۱۳۳۶ھ میں مر گئے (۳۲۷) پس وہ اپنے اقوال کی رو سے بھی کاذب مسیح ثابت ہوتے ہیں۔
-----------------------------------------------------------------------------------------------------
(۳۲۳) ملخصًا ، ازالہ اوہام ص۷۲،۷۳ و روحانی ۱۳۸، ج۳
(۳۲۴) ایضًا ص۲۶۱، و روحانی ص۲۳۱، ج۳
(۳۲۵) ایضًا ص۸۱ و روحانی ص۱۴۲، ج۳
(۳۲۶) مرزا نے دعوٰی مسیحیت 'فتح اسلام' میں سب سے اول کیا تھا جو مطبع ریاض ہذا پریس میں جمادی الاول
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,751
پوائنٹ
1,207
علامت نمبر ۵:
حدیث منقولہ بالا میں ایک علامت مسیح موعود کی یہ ہے کہ '' وہ میرے مقبرے میں دفن ہوگا'' مگر مرزا صاحب مقبرہ نبوی میں دفن ہونا تو کیا۔ زیارتِ مقبرہ سے بھی مشرف نہ ہوئے۔
اعتراض:
حدیث میں '' یُدْ فَنُ مَعِیَ فِیْ قَبِریْ'' لکھا ہے یعنی مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو پھاڑ کر مسیح علیہ السلام کو اس میں دفن کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اہانت ہے۔ پس اس سے مراد روحانی قبر ہے:
ایک جگہ مرزا صاحب اس حدیث کا مطلب یہ بتاتے ہیں :
'' آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبریں دفن ہوگا یعنی وہ میں ہی ہوں۔''(۳۲۸)
الجواب:
یہاں قبر معنے مقبرہ ہے۔ ایک حدیث بھی اس کی تائید کرتی ہے ملا علی قاری فرماتے ہیں: وقَدَ جَائَ ان عیسٰی بَعْدَ لبثہ فی الارض یحج ویعود فیموت بین مکۃ والمدینۃ فَیُحْمَلُ الی المدیۃ فید فن فی الحجرۃ الشریفۃ (۳۲۹)(مرقاۃ برحاشیہ مشکوٰۃ مجتبائی ص ۵۱۵ کتاب الفتن) عیسیٰ علیہ السلام زمین میں اپنی عمر کا زمانہ گزار کر حج کرنے جائیں گے اور پھر واپس آئیں گے اور مکہ اور مدینہ کے درمیان فوت ہوں گے اور پھر وہاں سے مدینہ کی طرف ان کو اٹھا کر لے جایا جائے گا اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ میں دفن کیا جائے گا۔ (۳۳۰)
مرزائیو! دیکھا خدا کی قدرت کہ کس طرح خود تمہارے ہاتھوں تمہیں ذلیل اور جھوٹا ثابت فرما رہا ہے اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ عَلٰی ذٰلِکَ۔
یہ تحریر صاف فیصلہ کر رہی ہے کہ ''قبر'' کے معنی حجرہ مزار نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
اعتراض:
ہم احمدیہ پاکٹ بک والے کی روایت کو نہیں مانتے۔
الجواب نمبر۱:
اہل عرب قبر بمعنی مقبرہ بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ چیز ان کے ہاں بول چال میں عام تھی:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ قَالَ اَدْفنونی فِیْ قَبْرِ عُثْمَان بْنِ مَظْعُوْنٍ۔ (۳۳۱)
دوسری روایت ہے:
حدثنا مُعَاوِیَۃُ بْنُ ھِشَامٍ عَنْ سُفْیَانَ عَنْ رَجُلٍ اَنَّ خیثمۃ اَوْصٰی اَنْ یُدْفَنَ فِیْ مَقْبَرَۃِ فَقَراء قومہٖ (۳۳۲)
ان دونوں روایتوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ ''قبر'' اور ''مقبرہ'' ایک مضمون میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔
الجواب نمبر ۲:
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کے معنی مقبرہ بتائے ہوئے ہیں۔ ملاحظہ ہو حدیث ذیل:
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ قُلْتُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَرٰی أَ نِّیْ اعیش بَعْدَکَ فَتَاذَنُ اَنْ اُدفَنَ اِلٰی جَنْبِکَ فَقَالَ وَانّٰی لِیْ بِذَالِکَ الْموضع مَا فِیْہِ اِلاَّ مَوْضَعُ قَبْرِیْ وَقَبْرُ اَبِیْ بَکْرٍ وَعُمَرَ وَعِیْسَی ابْنَ مَرْیَمَ۔ (۳۳۳)
جناب عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ میں ایسا معلوم کر رہی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد زندہ رہوں گی لہٰذا مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کی جاؤں۔ فرمایا میرا اس جگہ پر اختیار نہیں کیونکہ وہاں چار قبروں میری۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ ، عمر رضی اللہ عنہ ، عیسیٰ علیہ السلام کے سوا اور جگہ ہی نہیں۔
یہ حدیث فیصلہ فرما رہی ہے کہ جناب مسیح ابن مریم علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقبرہ میں دفن ہوں گے اور مرزا صاحب قادیان میں براج رہے ہیں پس وہ مسیح موعود نہیں ہوسکتے۔
الجواب نمبر ۳:
فِیْ قَبْرِیْ سے مراد میری قبر کے پاس ہیں فِیْ سے مراد کبھی قرب کے ہوتے ہیں جیسے فرمایا: بُورِکَ مَنْ فِی النَّارِ (۳۳۴) یعنے موسیٰ علیہ السلام پر برکت نازل کی گئی جو آگ کے قریب تھا۔ نہ کہ اندر چنانچہ علامہ رازی فرماتے ہیں: وَھٰذَا اَقْرَبُ لِاَنَّ الْقَرِیْبَ مِنَ الشَّیْئِ قَدْ یُقَالُ اِنَّہٗ فِیْہِ(۳۳۵)
مرزا صاحب بھی اس معنی کی تائید کرتے ہیں لکھتے ہیں:
'' ممکن ہے کہ کوئی مثیل مسیح ایسا بھی آجائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو۔'' (۳۳۶)
اس حوالہ سے قبر بمعنے روضہ (مقبرہ) بھی مانا گیا ہے اور پاس دفن ہونا بھی مانا گیا ہے۔
روضہ مطہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نقشہ حسب ذیل ہے:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ... حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ... موضع قبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام ... حضرت عمر رضی اللہ عنہ
--------------------------------------------------------------------
۱۳۰۸ھ میں شائع ہوئی تھی۔ چنانچہ مرزا نے لکھا کہ مسیح جو آنے والا تھا یہی ہے چاہو تو قبول کرو، فتح اسلام ص۱۵ و روحانی ص۱۰،ج۳ بعد ازا اس کی تفصیل اپنی تالیف، توضیح مرام میں بیان کی اور کتاب ازالہ اوہام (جو کہ ذی الحجہ ۱۳۰۸ھ کو شائع ہوئی) میں دلائل بیان کیے اور مخالفین کے اعتراضات کے جوابات لکھے ہیں۔ ابو صہیب
(۳۲۷) دیکھئے باب ہذا کا حاشیہ ۱۴۱
(۳۲۸) کشتی نوح ص۱۵ و روحانی ص۱۶، ج۱۹
(۳۲۹) مرقاۃ المعاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ص۶۸،ج۱۱
(۳۳۰) احمدیہ پاکٹ بک ص۴۸۲ طبعہ ۱۹۳۲ء و ص۱۰۷۹ طبعہ ۱۹۴۵ء
(۳۳۱) مصنف ابن ابی شیبہ ص۳۴۹، ج۳ فی الجنازۃ باب فی الرجل یوصی ان یدفن فی الموضع
(۳۳۲) ایضاً
(۳۳۳) کنز العمال برحاشیہ مسند امام احمد ص۵۷، ج۶
(۳۳۴) پ۱۹ النمل آیت ۱۰
(۳۳۵) تفسیر کبیر زیر آیت سورہ النمل آیت ۱۰
(۳۳۶) ازالہ اوہام ص۴۷۰ و روحانی ص۳۵۲، ج۳
 
Top