محمد علی جواد
سینئر رکن
- شمولیت
- جولائی 18، 2012
- پیغامات
- 1,986
- ری ایکشن اسکور
- 1,553
- پوائنٹ
- 304
محترم -مطلب یہ کہ آپ کو پہلے محدثین کے منہج یا کہہ لیں کہ ’’ اصول حدیث ‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں ؟
آپ کہاں کی بات کہاں جوڑ رہے ہیں ۔
محترم بھائی ’’ ہم محدثین کی تائید بھی کرتے ہیں اور دفاع بھی ‘‘ لیکن کیا ان کے موقف کو غلط سمجھتے ہوئے ؟ محدثین کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں تو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔
آپ ایک جملے میں محدثین کے موقف کو غلط کہہ کر گزرنے کی بجائے کوئی علمی کتاب ، تحریر ، مضمون لکھیں جس میں واضح کریں کہ محدثین کے منہج میں یہ یہ خامیاں تھیں ، جن کی اہل حدیث بے جا تائید میں لگے رہتے ہیں ۔
آپ جہاں بھی محدثین سے اختلاف کرتے ہیں اس میں ایک بات مشترک اور بنیادی ہوتی ہے کہ ’’ اس حدیث کا متن (آپ کی نظر میں) قابل اعتراض مواد پر مشتمل ہے ‘‘ لیکن پھر بھی اس کو صحیح کہا گیا ہے ۔
حدیث کی تصحیح و تضعیف کا یہ اصول 14 صدیوں سے کسی معتبر عالم نے لکھا ہے ؟
آپ کی معلومات ناقص ہوں گی ورنہ اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ در حقیقت یہی اہل حدیث کا منہج ہے ۔
میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جن محدثین کے "اصول حدیث" کو آپ بار باراپنے موقف کی تائید میں پیش کررہے ہیں - حقیقت یہ ہے کہ ان کے اصول حدیث، سند کے معاملے میں خود ایک دوسرے سے مختلف تھے - مثال کے طور پر حضرت امام ابنِ سیرین اور حضرت امام مالک اہلِ بدعت سے روایت لینے کے حق میں نہیں تھے وہ اس کی اجازت نہیں دیتے، امام ابو یوسف، حضرت سفیان ثوری اور امام شافعی اس کے جواز کے قائل تھے- یہ حضرات کہتے ہیں کہ سوائے روافض (اثناعشری شیعوں) کے دیگر اہلِ بدعت سے جیسے: معتزلہ، خوارج وغیرہ سے روایت لی جاسکتی ہے، امام احمد بن حنبل اس میں تفصیل کے قائل تھے ، جو اہلِ بدعت اپنی بدعات کوفروغ دینے والے ہوں ان کی روایت کسی صورت میں قبول نہ کی جائے گی اور غیرداعی اہل بدعت کی روایت دیگر شرائط پوری ہونے پر قبول کی جاسکتی ہے۔ امام بخاری نے روافض کی روایات احکامات میں لی ہیں لیکن دیگر معاملات میں وہ ان کی روایات کی اپنی کتاب میں لینا جائز نہیں سمجھتے تھے- ان کے ایک استاد کے پاس امام مہدی سے متعلق روایات موجود تھیں لیکن خود اپنی "صحیح" میں مہدی کی روایات کو لینے سے احتراض کیا - یعنی یہ نہیں کہ انہیں امام مہدی سے متعلق روایات ملی نہیں - وہ انہیں ملی ضرور لیکن اپنے اصولوں کی بنا پر انہوں نے ان کو اپنی "صحیح" میں جگہ نہیں دی- یہی حال تقریبآ امام مسلم کا تھا - محدثین کے ہاں روافض سے روایت نہ لینے کی وجہ یہ ہے کہ تقیہ ان کے مذہب کا جزو ہے وہ کسی مذہبی مصلحت سے خلاف واقعہ بات کہنا جائز سمجھتے ہیں؛ سونہیں کہا جاسکتا کہ وہ کہاں کہاں جھوٹ بول رہے-
اب ظاہر ہے کہ جب محدثین کے ہاں روایات کو قبول کرنے میں اتنے احتمالات ہوں تو یہ ایک فطری امر ہے کہ بیان کردہ روایات کے متن اپنی جگہ خود با خود اہمیت کے حامل بن جاتے ہیں- بلخوصوص وہ روایات کہ جن کے متن میں کوئی تاریخی واقعہ یا نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی آئندہ آنے والے واقعہ سے متعلق کوئی پیشنگوئی ہو-یا پھر کسی کی فضیلت یا بدعتی ہونے کا بیان ہو. اوراصول حدیث میں اسی کو درایت کا اصول کہا جاتا ہے-
اور میرا اور کچھ دوسرے ممبر جیسے T H K بھائی، لولی بھائی، حمیر بھائی، ابوحمزہ بھائی کا بھی یہی منشاء کہ راہ اعتدال یہی ہے کہ روایات کو پرکھنے کے اصولوں میں متن کو بھی اتنی اہمیت دی جانی چاہیے کہ جتنی اہمیت سند کو دی جاتی ہے -اس سے اگر ایک طرف روایت پرستی کا زور کم ہو گا تو دوسری طرف انکار حدیث کا فتنہ بھی اپنی موت آپ مرجائے گا- (واللہ اعلم)-