• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
ان دونوں حدیثوں کے متن کو دیکھنے ہی سے اِن کی حقیقت کھل جاتی ہے۔ ہر حدیث جو صحیح سند سے مروی ہوضروری نہیں ہے کہ اس کا متن بھی جوں کا توں قبول کر لیا جائے۔ اگر آپ بھی شیعہ نوازی میں حصہ ڈالنا چاہتے ہیں تو شوق سے ڈالیں۔
متفق
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
میرے محترم ! یہ بہت اچھی بات ہے کہ آپ نے پہلے کتاب کا مطالعہ کرنے کا ارادہ کیا ہے۔کوئی بھی محقق کسی روایت کو دلائل ہی کی بناء ہی جعلی قرار دیتا ہے ۔
جہاں تک بات ہے صحابہ ؓ اورنبیﷺکے خاندان کی تو الحمد للہ ہم ان میں سے کسی سے بھی بغض نہیں رکھتے۔
آپ تو صرف اہلِ بیت کے متعلق فضائل کا انکار دیکھ کر خفا ہو رہے ہیں جب آپ اس کی پہلی جلد پڑھیں گے تو نبیﷺکے متعلق بہت سی مسلمہ باتوں کا بھی انکار دیکھیں گے۔ تو کیا اس کو (نعوذ باللہ) بغضِ نبیﷺکہا جائے گا۔
ہم یہ بات پہلے بھی عرض کر چکے ہیں کہ کسی روایت کی محض سند کا صحیح ہونا اس کے متن کے صحیح ہونے کی کوئی قطعاً دلیل نہیں ہوتی ۔
جزاک الله -

زبردست - صحیح فرمایا آپ نے- ہمارے اکثر اہل حدیث و سلفی صرف سند کو ہی اصل اہمیت دیتے ہیں - اور متن کو نظر اندازکر جاتے ہیں- اور یہی چیز روایت پرستی کو جنم دیتی ہے - دوسری طرف منکرین حدیث صرف متن کو ہی حق سمجھتے ہیں اور سند کی اہمیت سے صرف نظر کرتے ہیں - اور نتیجہ انکار حدیث کی صورت میں نکلتا ہے- درست طریقہ یہی ہے کہ دونوں کے بین بین رہا جائے -
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
محترم! مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت 4 جلدوں پر مشتمل ہے ۔ علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلویؒ نے حضرات علیؓ، فاطمہؓ ،حسنینؓ کے علاوہ حضرات ابو بکرصدیقؓ، عمر فاروقؓ اور عائشہ صدیقہؓ کے بارے میں بھی غلط روایات کی نشاندہی کی ہے۔ انہوں نے کہیں بھی ان حضرات کو طعن و تشنیع کا نشانہ نہیں بنایا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو روایت پرست ہیں ان کو علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلویؒ کابخاری و مسلم کے معصوم رایوں پر جرح کرناذرا نہیں بھایااور جو ولایت پرست ہیں ان کو ان کے روایتی اہلِ بیت کے تصورکے جمود کا ٹوٹنا برداشت نہیں ہو سکاا س لیے ان کا تو واقعی خون کھولنا بنتا ہے۔
جوروایتی جمود صدیوں سے ہمارے ہاں چلا آ رہا ہے اس ضمن میں آپکو گھبرانے کی مطلق ضرورت نہیں یہ(اکثر اہلِ سُنت اور اکثراہلِ حدیث) بھی آپ ہی کے ہم نوا ہیں گو وہ اقرار باللسان نہ کریں۔ وہ اپنےبخاری و مسلم کے روایوں کو معصوم ثابت کر کے ان کو بچا لیں گے اور جہاں بات روایتی اہل ِبیت کی آ جائے گی تو ان کا دفاع کرنا بھلا آپ سے بہتر اور کون جانتا ہے۔
لہذا علامہ حبیب الرحمٰن کاندھلویؒ کو ناصبی یا منکرِ حدیث کا طعنہ دینا اندھے مقلدوں کا ہی کام ہے ۔
حقیقی اہلِ بیت کے لیے آپ قرآن سے رجوع کیوں نہیں کرتے، کیا سورۃ الاحزاب کی آیات 34تا28 آپ کو قرآن میں نظر نہیں آئیں ؟
بلکل متفق
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
باقی علامہ ناصر البانی رح سے متعلق میری بات کا حوالہ یہاں موجود ہے -
http://www.javedahmadghamidi.com/ishraq/view/chehray-ka-parda-aur-hikmat-e-quran
گزارش ہے کہ ناصر البانی رح کا "عورت کے چہرے کے پردے اور جاوید غامدی صاحب کا اس موقف پر ان کو ڈھال بنانا" پر ایک ایک الگ تھریڈ قائم کرلیا جائے - اور اس پر بحث و مباحثہ کیا جائے تو بہتر ہو گا -
صدیوں پر محیط محدثین کی علمی و منہجی کوششوں او رکاوشوں کو آپ ’’ روایت پرستی ‘‘ کہہ کر رد کردیتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف آپ کی تحقیق کا یہ عالم ہے کہ کسی معاصر مصنف کی بات اس کی کتاب سے نقل کرنے کی بجائے گمراہ لوگوں پر اعتماد کرلیتے ہیں ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی پردے کے منکر نہیں تھے جیساکہ آپ باور کروا رہے ہیں ، وہ پردے کو مستحب اور سنت سمجھتے تھے ، اس کے واجب اور ضروری ہونے کے قائل نہیں تھے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے گھر کی خواتین پردہ کیا کرتی تھیں ۔
اشراقیوں نے جس کتاب کی مجمل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور آپ نے اس پر اندھا دھند اعتماد کرلیا ہے اسی کتاب کے مقدمہ کو پڑھنے کی زحمت کریں تو صراحتا شیخ البانی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کا موقف مل جائے گا کہ وہ پردے کے ’’ مستحب یا سنت ‘‘ ہونے کے منکر نہیں تھے ۔
اشراق کی عبارت یہ ہے :
’’کانٹ چھانٹ کے بعد نیا ایڈیشن جس میں بہت سی ابحاث اور نادر فوائد ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ عورت کا چہرہ قابل پوشیدگی نہیں اور یہی جمہور صحابہ، ائمہ اور بڑے بڑے حنبلی فقہا کا مسلک ہے اور ان لوگوں کا منہ توڑ جواب جو اس بارے میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔اسی کتاب میں انھوں نے اپنی مستقل تصنیف ’الرد المفحم علی من خالف العلماء وتشدد وتعصبت‘ (ان علما کا منہ توڑ جواب جنھوں نے (چہرے کو کھلا رکھنے کی) مخالفت کی اور تشدد اور تعصب سے کام لیا)۔‘‘
اب شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا جونام رکھا ہے اس کا اسکین ملاحظہ فرمائیں :
الرد المفحم.jpg

( جلباب المرأۃ المسلمۃ ص 5 ط دار السلام للنشر و التوزیع )
گویا اشراق والوں نے مطلب کی عبارت کا استعمال کیا ہے اور شیخ کی مکمل عبارت کو نقل ہی نہیں کیا ۔ آپ بھی محدثین کی تحقیقات پر نظرثانی میں مصروف ہوئے کہ اشراق والوں سے دھوکا کھاکر اصل کتاب کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور شیخ البانی رحمہ اللہ کو ’’ منکرین پردہ ‘‘ میں شمار کرکے محدثین کے خلاف مہم بازی میں ایک پوائنٹ کا اضافہ فرمالیا ۔
اس نکتہ کو اٹھا کر ان حضرات کے تحقیقی معیار کو اراکین کے سامنے لانا تھا جو ’’ محدثین ‘‘ کے منہج کو ’’ روایت پرستی ‘‘ ، ’’ تقلید ‘‘ وغیرہ قرار دیتے ہیں ۔
باقی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پردے کے بارے میں جمہور علماء سے ہٹ کر ہے ، اور ان کی اس غلطی کو ان کی زندگی میں ہی کئی ایک علماء نے واضح کردیا تھا ، اور اہل حدیث میں سے شاید کوئی بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف پر عمل پیرا نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل حدیث کسی کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے ۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
جزاک الله -
زبردست - صحیح فرمایا آپ نے- ہمارے اکثر اہل حدیث و سلفی صرف سند کو ہی اصل اہمیت دیتے ہیں - اور متن کو نظر اندازکر جاتے ہیں- اور یہی چیز روایت پرستی کو جنم دیتی ہے - دوسری طرف منکرین حدیث صرف متن کو ہی حق سمجھتے ہیں اور سند کی اہمیت سے صرف نظر کرتے ہیں - اور نتیجہ انکار حدیث کی صورت میں نکلتا ہے- درست طریقہ یہی ہے کہ دونوں کے بین بین رہا جائے -
اہل حدیث اور سلفی سند او رمتن دونوں کا خیال رکھتے ہیں ۔ صحیح حدیث کی شروط آپ کو آتی ہیں ؟
کیا وہ ساری سند سے متعلق ہیں ؟ متن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ؟
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
زرا اس کتاب کا کوئی آن لائن لنک تو فراہم فرمادیں
آن لائن لنک کو تو مجھے علم نہیں لیکن اس کے کچھ صفحات ایک ساتھی سکین کر کے میل کر رہے ہیں ان کے پاس وہ کتاب ہے میں نے ان اس کی فہرست ابواب اور کچھ موضوعات منگوائے ہے جب آ جائیں گے تو پھر بات کروں گا
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
صدیوں پر محیط محدثین کی علمی و منہجی کوششوں او رکاوشوں کو آپ ’’ روایت پرستی ‘‘ کہہ کر رد کردیتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف آپ کی تحقیق کا یہ عالم ہے کہ کسی معاصر مصنف کی بات اس کی کتاب سے نقل کرنے کی بجائے گمراہ لوگوں پر اعتماد کرلیتے ہیں ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی پردے کے منکر نہیں تھے جیساکہ آپ باور کروا رہے ہیں ، وہ پردے کو مستحب اور سنت سمجھتے تھے ، اس کے واجب اور ضروری ہونے کے قائل نہیں تھے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے گھر کی خواتین پردہ کیا کرتی تھیں ۔
اشراقیوں نے جس کتاب کی مجمل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور آپ نے اس پر اندھا دھند اعتماد کرلیا ہے اسی کتاب کے مقدمہ کو پڑھنے کی زحمت کریں تو صراحتا شیخ البانی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کا موقف مل جائے گا کہ وہ پردے کے ’’ مستحب یا سنت ‘‘ ہونے کے منکر نہیں تھے ۔
اشراق کی عبارت یہ ہے :

اب شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا جونام رکھا ہے اس کا اسکین ملاحظہ فرمائیں :
11008 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
( جلباب المرأۃ المسلمۃ ص 5 ط دار السلام للنشر و التوزیع )
گویا اشراق والوں نے مطلب کی عبارت کا استعمال کیا ہے اور شیخ کی مکمل عبارت کو نقل ہی نہیں کیا ۔ آپ بھی محدثین کی تحقیقات پر نظرثانی میں مصروف ہوئے کہ اشراق والوں سے دھوکا کھاکر اصل کتاب کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور شیخ البانی رحمہ اللہ کو ’’ منکرین پردہ ‘‘ میں شمار کرکے محدثین کے خلاف مہم بازی میں ایک پوائنٹ کا اضافہ فرمالیا ۔
اس نکتہ کو اٹھا کر ان حضرات کے تحقیقی معیار کو اراکین کے سامنے لانا تھا جو ’’ محدثین ‘‘ کے منہج کو ’’ روایت پرستی ‘‘ ، ’’ تقلید ‘‘ وغیرہ قرار دیتے ہیں ۔
باقی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پردے کے بارے میں جمہور علماء سے ہٹ کر ہے ، اور ان کی اس غلطی کو ان کی زندگی میں ہی کئی ایک علماء نے واضح کردیا تھا ، اور اہل حدیث میں سے شاید کوئی بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف پر عمل پیرا نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل حدیث کسی کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے ۔
محترم -

میں جب بھی روایت پرستی کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد دورحاضر کے اہل سلف ہیں- جو احادیث نبوی سے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے کی بنا پر ان کو من وعن قبول کرلیتے ہیں- اور جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا اس پر جھٹ سے منکرین حدیث ہونے کا الزام عائد ہو جاتا ہے- جب کہ احادیث نبوی پر جرح تو خود آئمہ و محدثین نے کی ہے- اور ان کا آپس میں مختلف روایات کو قبول کرنے میں اختلاف ہوا - لیکن کسی امام و محدث نے کسی دوسرے محدث و مجتہد پر منکرین حدیث کا الزام عائد نہیں کیا- بلکہ اس سے بڑھ کر صحابہ کے دور میں احادیث نبوی کو سمجھنے اور قبول کرنے کے معاملے میں اختلاف ہوا لیکن کسی کے لئے منکرین حدیث کی اصطلاح استمعال نہ ہوئی-

بہرحال یہ الگ بحث ہے-

آپ نے علامہ ناصر البانی کا موقف پیش کیا کہ وہ عورت کے پردے کو سنّت یا مستحب سمجھتے تھے - لیکن اس کا کلّی انکار نہیں کرتے تھے جیسا کہ ان کی کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے - تو آپ کی بات صحیح ہے- اشراقیوں نے بغیر تحقیق کے علامہ کے موقف کو ڈھال بنا کر پیش کردیا - لیکن بہرحال یہ تو آپ بھی قبول کر رہے ہیں کہ ان سے اجتہادی غلطی سر زرد ہوئی ہے- شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پردے کے بارے میں جمہور علماء سے ہٹ کر ہے (کہ پردہ واجب ہے) - اور یہ بھی بہرحال ایک غلط موقف ہے -کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انہی محدثین کی پیروی یا محبّت میں ہم ان کے غلط موقف کی بھی تائید کرتے رہیں گے تو باطل فرقوں "احناف" وغیرہ کو فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی احادیث سے دلیلیں دینے کا کیا فائدہ ہو گا - ان میں سے بھی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ نماز کے ایک مستحب افعال ہیں واجب یا فرض نہیں ہیں لہذا اہل حدیث خوامہ خاہ ہی ہم پر تنقید کرتے ہیں اور اس پر متشدد نظریات پیش کرتے رہتے ہیں-

اور آپ کا یہ کہنا کہ "اہل حدیث میں سے شاید کوئی بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف پر عمل پیرا نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل حدیث کسی کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے" ۔ خوش آئندہ ہے-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم -
میں جب بھی روایت پرستی کی بات کرتا ہوں تو اس سے مراد دورحاضر کے اہل سلف ہیں- جو احادیث نبوی سے متعلق ایک خاص نقطۂ نظر رکھنے کی بنا پر ان کو من وعن قبول کرلیتے ہیں- اور جو اس نظریہ کو قبول نہیں کرتا اس پر جھٹ سے منکرین حدیث ہونے کا الزام عائد ہو جاتا ہے- جب کہ احادیث نبوی پر جرح تو خود آئمہ و محدثین نے کی ہے- اور ان کا آپس میں مختلف روایات کو قبول کرنے میں اختلاف ہوا - لیکن کسی امام و محدث نے کسی دوسرے محدث و مجتہد پر منکرین حدیث کا الزام عائد نہیں کیا- بلکہ اس سے بڑھ کر صحابہ کے دور میں احادیث نبوی کو سمجھنے اور قبول کرنے کے معاملے میں اختلاف ہوا لیکن کسی کے لئے منکرین حدیث کی اصطلاح استمعال نہ ہوئی-
بہرحال یہ الگ بحث ہے-
مطلب یہ کہ آپ کو پہلے محدثین کے منہج یا کہہ لیں کہ ’’ اصول حدیث ‘‘ پر کوئی اعتراض نہیں ؟
آپ نے علامہ ناصر البانی کا موقف پیش کیا کہ وہ عورت کے پردے کو سنّت یا مستحب سمجھتے تھے - لیکن اس کا کلّی انکار نہیں کرتے تھے جیسا کہ ان کی کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے - تو آپ کی بات صحیح ہے- اشراقیوں نے بغیر تحقیق کے علامہ کے موقف کو ڈھال بنا کر پیش کردیا - لیکن بہرحال یہ تو آپ بھی قبول کر رہے ہیں کہ ان سے اجتہادی غلطی سر زرد ہوئی ہے- شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پردے کے بارے میں جمہور علماء سے ہٹ کر ہے (کہ پردہ واجب ہے) - اور یہ بھی بہرحال ایک غلط موقف ہے -کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انہی محدثین کی پیروی یا محبّت میں ہم ان کے غلط موقف کی بھی تائید کرتے رہیں گے تو باطل فرقوں "احناف" وغیرہ کو فاتحہ خلف الامام اور رفع یدین کی احادیث سے دلیلیں دینے کا کیا فائدہ ہو گا - ان میں سے بھی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ یہ نماز کے ایک مستحب افعال ہیں واجب یا فرض نہیں ہیں لہذا اہل حدیث خوامہ خاہ ہی ہم پر تنقید کرتے ہیں اور اس پر متشدد نظریات پیش کرتے رہتے ہیں-
آپ کہاں کی بات کہاں جوڑ رہے ہیں ۔
محترم بھائی ’’ ہم محدثین کی تائید بھی کرتے ہیں اور دفاع بھی ‘‘ لیکن کیا ان کے موقف کو غلط سمجھتے ہوئے ؟ محدثین کے موقف کو صحیح سمجھتے ہیں تو یہ سب کچھ کر رہے ہیں ۔
آپ ایک جملے میں محدثین کے موقف کو غلط کہہ کر گزرنے کی بجائے کوئی علمی کتاب ، تحریر ، مضمون لکھیں جس میں واضح کریں کہ محدثین کے منہج میں یہ یہ خامیاں تھیں ، جن کی اہل حدیث بے جا تائید میں لگے رہتے ہیں ۔
آپ جہاں بھی محدثین سے اختلاف کرتے ہیں اس میں ایک بات مشترک اور بنیادی ہوتی ہے کہ ’’ اس حدیث کا متن (آپ کی نظر میں) قابل اعتراض مواد پر مشتمل ہے ‘‘ لیکن پھر بھی اس کو صحیح کہا گیا ہے ۔
حدیث کی تصحیح و تضعیف کا یہ اصول 14 صدیوں سے کسی معتبر عالم نے لکھا ہے ؟
اور آپ کا یہ کہنا کہ "اہل حدیث میں سے شاید کوئی بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف پر عمل پیرا نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل حدیث کسی کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے" ۔ خوش آئندہ ہے-
آپ کی معلومات ناقص ہوں گی ورنہ اس طرح کی مثالیں بہت زیادہ ہیں ۔ در حقیقت یہی اہل حدیث کا منہج ہے ۔
 
Top