• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
میں آسان لفظوں میں یہی سوال کر لیتا ہوں کہ:
کیا کسی حدیث کی سند اور متن میں صحت کے اعتبار سے تعارض ہو سکتا ہے اگر ہو تو اسے کس طرح دور کیا جا سکتا ہے؟
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
براہ کرم
جس درایت کا بتکرار ذکر ہو رہا ہے ،اس کا آسان تعارف تو کروائیں !
یعنی ۔درایت کیا ہے ؟
اس کا واضع کون ہے ؟
درایت کا اصول یہ ہے کہ بتقاضاے عقل و محل وقوع کے اعتبار سے روایت ثابت اور صحیح ہے یا پھر مردود و مشکوک اورغیر صحیح ہے۔ باوجود اس کے کہ روایت کی سند میں کوئی خرابی نہ پائی گئی ہو-

محدث عمر بن بدر الموصلی لکھتے ہیں :

لم یقف العلماء عند نقد الحدیث من حیث سندہ بل تعدوا الی النظر فی متنہ فقضوا علی کثیر من لاحادیث بالوضع وان کان سندا سالما اذا وجدوا فی متونھا عللا تقضی بعدم قبولھا ۔ (تقی امینی، حدیث کا درایتی معیار ۱۷۹)

علما نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے جن کی سندیں اگرچہ درست ہیں، لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی ہیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع ہیں۔‘‘

محدث خطیب بغدادی اپنی کتاب’’ الفقیہ والمتفقہ‘‘ میں لکھتے ہیں:

واذا روی الثقۃ المامون خبرا متصل الاسناد رد بامور: احدھا ان یخالف موجبات العقول فیعلم بطلانہ لان الشرع انما یرد بمجوزات العقول واما بخلاف العقول فلا۔ والثانی ان یخالف نص الکتاب او السنۃ المتواترۃ فیعلم انہ لا اصل لہ اومنسوخ۔ والثالث ان یخالف الاجماع فیستدل علی انہ منسوخ اولا اصل لہ لانہ لا یجوز ان یکون صحیحا غیر منسوخ وتجمع الامۃ علی خلافہ۔ ...... والرابع ان ینفرد الواحد بروایۃ ما یجب علی کافۃ الخلق علمہ فیدل ذلک علی انہ لا اصل لہ لانہ لا یجوز ان یکون لہ اصل وینفرد ہو بعلمہ من بین الخلق العظیم۔ والخامس ان ینفرد بروایۃ ما جرت العادۃ بان ینقلہ اھل التواتر فلا یقبل لانہ لا یجوز ان ینفرد فی مثل ھذا بالروایۃ۔ (۱/ ۱۳۲)


’’جب کوئی ثقہ اور مامون راوی ایسی روایت بیان کرے جس کی سند متصل بھی ہو تو اس کو ان امور کے پیش نظر رد کر دیا جائے گا : ایک یہ کہ وہ تقاضاے عقل کے خلاف ہو ۔ اس سے اس کا باطل ہونا معلوم ہوگا، کیونکہ شریعت عقل کے تقاضوں کے مطابق وارد ہوتی ہے نہ کہ عقل کے خلاف۔ دوسرے یہ کہ وہ کتاب اللہ کی نص یا سنت متواترہ کے خلاف ہو۔ اس سے معلوم ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں یا وہ منسوخ ہے۔ تیسرے یہ کہ وہ اجماع کے خلاف ہو۔ یہ اس بات کی دلیل ہوگی کہ وہ منسوخ ہے یا اس کی کوئی اصل نہیں ، کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ صحیح اور غیر منسوخ ہو اور امت کا اس کے خلاف اجماع ہو جائے۔ چوتھے یہ کہ ایسے واقعہ کو صرف ایک راوی بیان کرے جس کا جاننا تمام لوگوں پر واجب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اس کی کوئی اصل نہیں ، کیونکہ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اس بات کی کوئی اصل ہو اور تمام لوگوں میں سے صرف ایک راوی اس کو نقل کرے۔ پانچویں یہ کہ ایسی بات کو صرف ایک آدمی نقل کرے جس کو عادتاً لوگ تواتر کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ یہ بھی قبول نہیں ہوگی ، کیونکہ جائز نہیں کہ ایسے واقعہ کو نقل کرنے والا صرف ایک آدمی ہو۔‘‘
 
شمولیت
دسمبر 10، 2013
پیغامات
386
ری ایکشن اسکور
136
پوائنٹ
91
متفق -

مولانہ ارشاد الحق اثری نے کاندھلوی صاحب کی تحقیق کا محاسبہ کرنے کی کوشش تو کی ہے لیکن کئی مقامات پر وہ مولانا کاندھلوی کی باتوں کا تسلی بخش رد نہیں کرسکے - مولانا کاندھلوی کی روایت "الحسن و الحسین سید الشباب اھل الجنه" پر تنقید کا جواب لکھتے ہوے کہتے ہیں کہ: "درحقیقت حضرت حضرت حسن و حسین رضی الله عنہ جنّت کے ان لوگوں کے سردار ہیں جو نوجوانی میں فوت ہوے اور پھر داخل جنّت ہوے"-

بلکہ ایک صحیح حدیث سے یہ بات واضح ہے کہ اس کے برعکس جنّت میں جانے والے تمام لوگوں کو الله جوانی عطا کرے گا- چاہے وہ کسی بھی عمرمیں فوت ہوے ہوں -
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
محمد علی جواد بھائی شاید اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب حسنین کریمین زندہ تھے تو وہ اپنے وقت کے جنتی جوانوں یعنی نیک و پرہیزگاروں کے سردار تھے ۔واللہ اعلم
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
السلام علیکم و رحمۃ اللہ
محمد علی جواد بھائی شاید اس کا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب حسنین کریمین زندہ تھے تو وہ اپنے وقت کے جنتی جوانوں یعنی نیک و پرہیزگاروں کے سردار تھے ۔واللہ اعلم
وعلیکم سلام و رحمت الله -

جی اپ کی بات میں وزن ہے - لیکن حدیث کی الفاظ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جنّت میں جانے کے بعد ان (حسن و حسین رضی الله عنہ) کو نوجوانوں کی سرداری ملے گی- مزید یہ کہ اس حدیث کی سند میں بھی اضطراب ہے (واللہ اعلم)-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
محترم -
پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ مجھے یا یہاں پر کچھ دوسرے ممبران کو محدثین کرام سے کوئی بغض و عناد ہے جس کی بنا پر ہم ان کے احادیث مبارکہ سے متعلق وضع کردہ اصول و ضوابط کو نہیں مانتے - تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے - محدثین کرام نے جتنی دیانت داری اور محنت سے احادیث نبوی کو پرکھنے کے اصول و ضوابط وضع کیے وہ اپنی مثال آپ ہیں -
آپ کے بارے میں میں اپنی سوچ کو درست کر لیتا ہوں ۔ اب آپ بھی ہمارے بارے میں اپنی رائے میں ذرا ترمیم فرمالیں کہ ہمارے نزدیک محدثین نے صرف ’’ اسانید ‘‘ پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ ’’ متون ‘‘ کا بھی پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ (جیساکہ میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں )
گویا یہ بات ہمارے ما بین متفق ہے :
’’ محدثین نے احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے اسانید و متون دونوں پر توجہ کی ہے ، ان کے بیان کردہ اصول بالکل درست ہیں ۔ ‘‘
لہذا :
’’ اگر ہمیں احادیث کے اسانید و متون کی تحقیق کرنی ہے تو محدثین کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا ‘‘
آپ کو اس بات سے اگر کوئی اختلاف ہے تو بیان کردیں ۔
لیکن یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ان اصول حدیث کو روا رکھنے کے باوجود ان محدثین نے یہ کبھی دعوی نہیں کیا کہ ان کی بیان کردہ روایات جو سند کے اعتبار سے چاہے کتنی ہی قوی ہوں سو فیصد درست ہیں - محدثین کا یہ اصول اپنی جگہ مسلم ہے کہ ’ عادل ‘‘ راوی کی روایت قابل قبول ہے اور ’’ غیر عادل ‘‘ کی روایت مردود ہے- لیکن یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ راوی چاہے کتنا ہی عادل ہو، نسیان اور بھول چوک سے مبرا نہیں -
بجا فرمایا۔ لیکن کیا احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے ۔؟
محدثین نے صرف ’’ عدالت ‘‘ کی شرط ہی نہیں لگائی بلکہ ، حفظ و ضبط ، تنبہ و بیداری اور دیگر تمام شرائط کا احاطہ کیا ہے جو ’’ فن علم الاخبار ‘‘ کے متقضیات میں سے ہوسکتی تھیں ۔
اور اسی بات کو سامنے رکھ کر قرون اولیٰ کے مجتہدین و آئمہ نے محدثین کی بیان کردہ روایات پر جرح بھی کی - اور یہ بات خود محدثین کے بیان کردہ اصولوں میں موجود تھی کہ روایت کا متن بھی سند کے ساتھ اپنی جگہ خاص اہمیت کا حامل ہے - ورنہ فقہ کے آئمہ و مجتہدین میں روایات کو پرکھنے کے معاملے میں اختلاف کیوں ہوتا - آئمہ نے نقد حدیث کے معاملے میں صرف سند پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اس دائرے میں متن کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ انھوں نے بہت سی ایسی حدیثوں کو موضوع قرار دیا ہے جن کی سندیں اگرچہ درست تھیں ، لیکن ان کے متن میں ایسی خرابیاں پائی جاتی تھیں جو ان کو قبول کرنے سے مانع تھیں-
کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو ۔

امام ابن الجوزی فرماتے ہیں :
ما احسن قول القائل: اذا رایت الحدیث یباین المعقول او یخالف المنقول او یناقض الاصول فاعلم انہ موضوع۔ (تدریب الراوی، السیوطی ۱/ ۲۷۷ )

’’کسی کہنے والے نے کتنی اچھی بات کہی ہے کہ جب تم دیکھو کہ ایک حدیث عقل کے خلاف ہے یا ثابت شدہ نص کے مناقض ہے یا کسی اصول سے ٹکراتی ہے تو جان لو کہ وہ موضوع ہے۔‘‘
ابن الجوزی نے جو بیان کیا ہے وہ موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ ہے ۔ احادیث پر حکم لگانے کا قاعدہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس طرح کے اقوال کو ’’ علامات الوضع ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے نہ کہ ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی شروط میں ۔
ابن الجوزی نے موضوع احادیث پر تفصیلی کام کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے محدثین کے ہاں رائج قواعد کو ہی استعمال کیا ہے ، لیکن موضوع احادیث کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر عامۃ الناس کے لیے جو قواعد و ضوابط کی باریکیوں اور راویوں کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے ، ان کے لیے کچھ علامات بیان کردی ہیں جو عام طور پر موضوع احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔
آپ نے تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ذرا اس کو کھول کر دیکھیں کہ یہ قول کہاں بیان کیا گیا ہے ۔
’’ آخری بات بھی آپ کو سمجھانے کا آسان قرینہ ہے اس کو کوئی اصول نہ سمجھا جائے ۔‘‘
آخری بات :
حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے ۔
اور یہ کوئی عالمانہ موقف نہیں ہے کہ ایک ہی روایت کے اندر جو بات آپ کی سوچ کے مطابق ہے ، قابل قبول ہے ، اور جو جذبات کے خلاف نظر آرہی ہے وہ مردود ہے ۔ ( مثلا یہاں ایک صاحب ہیں جو دیگر صحابہ کے بارے میں ایسی باتیں لے کر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، لیکن عباس و علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس روایت پر بالکل خاموش رہیں گے ۔ اور یہ اچھی بات ہے ، کاش یہ اصول دیگر اصحاب رسول کے بارے میں بھی ذہن میں رہے ۔ )
ہاں اگر راویوں سے روایت کرتے وقت کچھ الفاظ نقل کرنے میں ’’ وہم ‘‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ثابت ہو جائے تو پھر ان الفاظ کو ضعیف یا مردود ہی کہا جائے اور یہی محدثین کا اصول ہے ، لہذا اصول حدیث کے اندر ’’ حدیث معل ‘‘ میں یہ سب باتیں امثلہ کے ساتھ موجود ہیں ۔
البتہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں اور نہ ہی محدثین کا اصول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آپ کے بارے میں میں اپنی سوچ کو درست کر لیتا ہوں ۔ اب آپ بھی ہمارے بارے میں اپنی رائے میں ذرا ترمیم فرمالیں کہ ہمارے نزدیک محدثین نے صرف ’’ اسانید ‘‘ پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ ’’ متون ‘‘ کا بھی پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ (جیساکہ میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں )
گویا یہ بات ہمارے ما بین متفق ہے :
’’ محدثین نے احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے اسانید و متون دونوں پر توجہ کی ہے ، ان کے بیان کردہ اصول بالکل درست ہیں ۔ ‘‘
لہذا :
’’ اگر ہمیں احادیث کے اسانید و متون کی تحقیق کرنی ہے تو محدثین کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا ‘‘
آپ کو اس بات سے اگر کوئی اختلاف ہے تو بیان کردیں ۔

بجا فرمایا۔ لیکن کیا احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے ۔؟
محدثین نے صرف ’’ عدالت ‘‘ کی شرط ہی نہیں لگائی بلکہ ، حفظ و ضبط ، تنبہ و بیداری اور دیگر تمام شرائط کا احاطہ کیا ہے جو ’’ فن علم الاخبار ‘‘ کے متقضیات میں سے ہوسکتی تھیں ۔

کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو ۔


ابن الجوزی نے جو بیان کیا ہے وہ موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ ہے ۔ احادیث پر حکم لگانے کا قاعدہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس طرح کے اقوال کو ’’ علامات الوضع ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے نہ کہ ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی شروط میں ۔
ابن الجوزی نے موضوع احادیث پر تفصیلی کام کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے محدثین کے ہاں رائج قواعد کو ہی استعمال کیا ہے ، لیکن موضوع احادیث کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر عامۃ الناس کے لیے جو قواعد و ضوابط کی باریکیوں اور راویوں کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے ، ان کے لیے کچھ علامات بیان کردی ہیں جو عام طور پر موضوع احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔
آپ نے تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ذرا اس کو کھول کر دیکھیں کہ یہ قول کہاں بیان کیا گیا ہے ۔
’’ آخری بات بھی آپ کو سمجھانے کا آسان قرینہ ہے اس کو کوئی اصول نہ سمجھا جائے ۔‘‘
آخری بات :
حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے ۔
اور یہ کوئی عالمانہ موقف نہیں ہے کہ ایک ہی روایت کے اندر جو بات آپ کی سوچ کے مطابق ہے ، قابل قبول ہے ، اور جو جذبات کے خلاف نظر آرہی ہے وہ مردود ہے ۔ ( مثلا یہاں ایک صاحب ہیں جو دیگر صحابہ کے بارے میں ایسی باتیں لے کر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، لیکن عباس و علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس روایت پر بالکل خاموش رہیں گے ۔ اور یہ اچھی بات ہے ، کاش یہ اصول دیگر اصحاب رسول کے بارے میں بھی ذہن میں رہے ۔ )
ہاں اگر راویوں سے روایت کرتے وقت کچھ الفاظ نقل کرنے میں ’’ وہم ‘‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ثابت ہو جائے تو پھر ان الفاظ کو ضعیف یا مردود ہی کہا جائے اور یہی محدثین کا اصول ہے ، لہذا اصول حدیث کے اندر ’’ حدیث معل ‘‘ میں یہ سب باتیں امثلہ کے ساتھ موجود ہیں ۔
البتہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں اور نہ ہی محدثین کا اصول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
بالکل جیسا کہ بحیرا راہب کا قصہ ہے جس میں سید نا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سید نا بلال رضی اللہ عنہ کا ذکر موجود ہونے کی بنیاد پر حافظ ذہبی نے امام ترمذی کی اس روایت کو منکر گردانا ہے جبکہ البانی رحمہ اللہ نے روایت کے اتنے حصے کو مدرج مانتے ہوئے باقی حدیث کو صحیح کہا ہے
 

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,553
پوائنٹ
304
آپ کے بارے میں میں اپنی سوچ کو درست کر لیتا ہوں ۔ اب آپ بھی ہمارے بارے میں اپنی رائے میں ذرا ترمیم فرمالیں کہ ہمارے نزدیک محدثین نے صرف ’’ اسانید ‘‘ پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ ’’ متون ‘‘ کا بھی پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ (جیساکہ میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں )
گویا یہ بات ہمارے ما بین متفق ہے :
’’ محدثین نے احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے اسانید و متون دونوں پر توجہ کی ہے ، ان کے بیان کردہ اصول بالکل درست ہیں ۔ ‘‘
لہذا :
’’ اگر ہمیں احادیث کے اسانید و متون کی تحقیق کرنی ہے تو محدثین کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا ‘‘
آپ کو اس بات سے اگر کوئی اختلاف ہے تو بیان کردیں ۔

بجا فرمایا۔ لیکن کیا احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے ۔؟
محدثین نے صرف ’’ عدالت ‘‘ کی شرط ہی نہیں لگائی بلکہ ، حفظ و ضبط ، تنبہ و بیداری اور دیگر تمام شرائط کا احاطہ کیا ہے جو ’’ فن علم الاخبار ‘‘ کے متقضیات میں سے ہوسکتی تھیں ۔

کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو ۔


ابن الجوزی نے جو بیان کیا ہے وہ موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ ہے ۔ احادیث پر حکم لگانے کا قاعدہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس طرح کے اقوال کو ’’ علامات الوضع ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے نہ کہ ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی شروط میں ۔
ابن الجوزی نے موضوع احادیث پر تفصیلی کام کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے محدثین کے ہاں رائج قواعد کو ہی استعمال کیا ہے ، لیکن موضوع احادیث کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر عامۃ الناس کے لیے جو قواعد و ضوابط کی باریکیوں اور راویوں کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے ، ان کے لیے کچھ علامات بیان کردی ہیں جو عام طور پر موضوع احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔
آپ نے تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ذرا اس کو کھول کر دیکھیں کہ یہ قول کہاں بیان کیا گیا ہے ۔
’’ آخری بات بھی آپ کو سمجھانے کا آسان قرینہ ہے اس کو کوئی اصول نہ سمجھا جائے ۔‘‘
آخری بات :
حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے ۔
اور یہ کوئی عالمانہ موقف نہیں ہے کہ ایک ہی روایت کے اندر جو بات آپ کی سوچ کے مطابق ہے ، قابل قبول ہے ، اور جو جذبات کے خلاف نظر آرہی ہے وہ مردود ہے ۔ ( مثلا یہاں ایک صاحب ہیں جو دیگر صحابہ کے بارے میں ایسی باتیں لے کر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، لیکن عباس و علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس روایت پر بالکل خاموش رہیں گے ۔ اور یہ اچھی بات ہے ، کاش یہ اصول دیگر اصحاب رسول کے بارے میں بھی ذہن میں رہے ۔ )
ہاں اگر راویوں سے روایت کرتے وقت کچھ الفاظ نقل کرنے میں ’’ وہم ‘‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ثابت ہو جائے تو پھر ان الفاظ کو ضعیف یا مردود ہی کہا جائے اور یہی محدثین کا اصول ہے ، لہذا اصول حدیث کے اندر ’’ حدیث معل ‘‘ میں یہ سب باتیں امثلہ کے ساتھ موجود ہیں ۔
البتہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں اور نہ ہی محدثین کا اصول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
متفق -

لیکن محترم -

ہمارے نزدیک محدثین کے اصول و ضوابط کو اسناید و متن کے لحظ سے بیان کرنے میں تو کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ آپ بھی مان رہے ہیں- اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے- لیکن ہمارا اصل مدعا یہ ہے کہ یہ اختلاف اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب عمل کی باری آتی ہے - یعنی اس بات کو ماننے کے باوجود کہ محدثین اسانید و متن کو یکساں اہمیت دیتے تھے جب دور حاضر میں اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اکثر روایات کی چھان بین کی جاتی ہے تو ان کا نزدیک اصل اہمیت و فوقیت کی حامل صرف "اسانید" قرار پاتی ہیں اور "متن" کے بارے میں ان کے نزدیک اس کی حثیت ثانوی ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ جب گمراہ فرقوں کی طرف سے ان روایات پر جرح و تنقید کی جاتی ہے تو اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اس کی کوئی خاطر خواہ تاویل پیش نہیں کی جاتی- بلکہ اکثر تاویلیں محل وقوع سے اس قدر ہٹی ہوئی ہوتی ہیں کہ وہ ایک عام فہم انسان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں- چہ جائیکہ کہ اہل علم کو قبول ہوں- کیوں کہ بہر حال روایت کا متن بذات خود عقل و فہم محل وقوع کا متمنی ہوتا- اور یہ اہل حدیث بھائی روایت پرستی میں اس کے متن پر غور و فکر کرنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے- مثال کے طور پر جیسے یہ روایات کہ: قبرمبارک نبی صل الله علیہ و آ له وسلم سے اذان کی آواز آنا- نبی کریم پرامّت محمدیہ کا درود کا پیش ہونا اور خود نبی کریم کا دور یا قریب سے درود کا سننا- یا حضرت اماں عائشہ رضی الله عنہ کا حضرت عمر رضی الله عنہ کے مدفن ہونے پر اپنے حجرے میں پردہ کرکے جانا -

اور آپ کی یہ بات کہ :حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے" - اس پر متفق ہونے کی گنجائش نہیں کہ کیوں کہ فرمان باری تعلی کے مقابلے میں ہمیں اصولوں کی پاسداری منظور نہیں:.

وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣

اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین)- تو کہتے ہیں (منافق) کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-

صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا ایک دوسرے پر تعن و تشنیع کرنا اور ان میں وہ وصف تلاش کرنا جو ان کے ایمان لانے کے بعد ان میں پایا جائے ممکن نہیں - ان سے بعید نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ان القابات سے پکاریں (لہذا اس روایت پر پر خاموشی نہیں روایت کا رد کرنا واجب ہے)- کیوں کہ قرآن خود ان پاک ہستیوں کی پیروی کا حکم دیتا ہے- یہ کیسے ممکن ہے کہ جن کی پیروی کا حکم الله تبارک و تعلی خود قرآن میں دے رہا ہو وہ اپنی ذات میں خائن اور بد تہذیب ہوں (نعوزباللہ)؟؟

اسطرح بہت سے ایسے اسلامی تاریخی واقعیات کتب حدیث میں پاے جاتے ہیں جن میں نبی کریم کا کوئی قول و فعل نہ پایا گیا- لیکن ان واقعیات کی چھان بین میں بھی سندی اہمیت زیادہ اجاگر نظرآئی اور متون کو یکسر نظر انداز کیا گیا- اب یہی دیکھیں کہ اگر روایات کی اسنادی اہمیت ہر جگہ ہی فوقیت کی حامل ہے تو "سبایت" جس کا بنیادی کردار "عبدللہ بن سبا یمنی" ہے- گمراہ فرقہ اہل تشییع کی نظر میں اس کا وجود اس دنیا میں ہونا ہی مشکوک ہے - ان کے نزدیک عبدللہ بن سبا کا کردار تخلیق کرنے والا ایک کذاب راوی "سیف بن عمرتمیمیے - جو صرف اہل تشیع ہی نہیں اہل سنّت کے نزدیک بھی "کذاب" ہے- بقول اہل تشیع - اہل سنت نے رجال کی کتابوں سے ”سیف بن عمر“ پر طعن و تشنیع کو نقل کیا ہے اور سب روایتیں اس شخص کے فاسق و فاجر اور جھوٹے ہونے پر دلالت کرتی ہیں و ھو:کذّاب متروک الحدیث اٴُتّھم بالزندقة - اور جھوٹے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے - اب بتائیں کہ اہل سنّت اس بارے میں کیا جواب دینگے ؟؟؟ کہ ان کے نزدیک تو اسانید ہی روایات کو پرکھنے میں اول درجے کی حثیت رکھتی ہیں؟؟

یہ بات زہن میں رہے کہ میں کوئی اہل تشیع کا ترجمان یا ہمنوا نہیں لیکن کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اہل سنّت علماء کی اکثریت اپنے جن اصولوں پر سختی سے کار بند ہیں اکثر وہی اصول ان کی جواب دہی اور روایات کو ثابت کرنے کے معاملے میں مشکل کا باعث بنتے ہیں- یعنی یہ کہ عبدللہ بن سبا یمنی کا وجود صرف اگر اسنادی طور پر تلاش کیا جائے تو خود اہل سنّت مشکل میں پڑ جاتے ہیں- پھر اکثر اہل سنّت اس کے بارے میں بھی ایسی بھونڈی مثالیں پیش کرتے ہیں جو انکے اپنے گلے پڑتی ہے- جیسے بعض اہل سنّت کے علماء غالباً سلیمان ندوی یا شبلی نعمانی نے ابن سبا کے انجام کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ (عبدللہ بن سبا) شام یا مصر میں جنگلی جانوروں کا نوالہ بن گیا -اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس راوی نے اس کو جنگلی جانوروں کا نوالہ بنتے دیکھا- جو یہ تاریخ کی کتب میں قلمبند ہو گیا ؟؟؟ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں جیسے عبید اللہ بن عمررضی الله عنہ کا عبدالرحمان بن ابی بکر کی باتوں میں آکر اپنے والد حضرت عمر رضی الله عنہ کے قاتلین ابو لولوء فیروز اور ہرمزان کو قتل کردینا- جب کہ صحابی رسول سے اس بات کی بعید نہیں کہ وہ بغیر تحقیق کے کسی کی باتوں میں آکر اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے باپ حضرت عمررضی الله عنہ کے قاتلین کو بدلے کے طور پرقتل کرسکتے ہیں وغیرہ- اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قرآن و حدیث کے احکامات سے نا بلد تھے- اورجذباتی تھے- قانون اپنے ہاتھ لینے کو جائز سمجھتے تھے وغیرہ؟؟؟-

روایت کو پرکھنے کے معاملے میں اکثر محدثین نے یہ اصول اگرچہ روا رکھا ہے کہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں- لیکن محدثین کے اس اصول پر بھی اسی وقت عمل ممکن ہے جب روایت کے متن پر تحقیق کی جائے - صرف اسناد کو دیکھ کر یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ آیا پوری روایت کو رد کیا جائے یا صرف کچھ قابل اعترا ض مواد کو رد کے جائے-

بظاھر تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ امام ابن الجوزی رح نے اپنی بات روایت میں متن کی اہمیت کی بنیاد پر کی ہے - اس کو موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ کے طور پر استمعال کرنا آپ ہی کا فہم ہو سکتا ہے -

باقی رہا آپ کا یہ مطالبہ کہ :"کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو" ۔

تو اس کا ایک لنک تو اسی فورم پر موجود ہے ابن کثیر رح منکرین حدیث- جس میں امام ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج کی مسند احمد والی حدیث پر نقد کی ہے -

http://rashid-exposes-fitnas.webnode.com/news/ibn-kathir-munkir-e-hadith-/

مزید مثالیں :

صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

خلق اللّٰہ التربۃ یوم السبت وخلق فیھا الجبال یوم الاحد وخلق الشجر یوم الاثنین وخلق المکروہ یوم الثلاثاء وخلق النور یوم الاربعاء وبث فیھا الدواب یوم الخمیس وخلق آدم علیہ السلام بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق۔ ( مسلم،رقم ۷۰۵۴)

’’اللہ نے ہفتے کے دن زمین کی سطح کو پیدا کیا، اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو ، پیر کے دن درختوں کو، منگل کے دن بری چیزوں کواور بدھ کے دن روشنی کو پیدا کیا۔ جمعرات کے دن اس میں چوپایوں کو پھیلا دیا اور سب مخلوقات کے آخر میں جمعے کے دن عصر کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔‘‘

امام ابن القیم کہتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید کے مطابق آسمان وزمین کی تخلیق چھ دن میں مکمل ہوئی جبکہ یہ روایت یہ بتاتی ہے کہ مدتِ تخلیق سات دن تھی۔ ۱۲ ؂ نیز قرآن مجید کی رو سے زمین اور اس کے خزانوں کی تخلیق چار دن میں اور آسمان کی تخلیق دو دن میں مکمل ہوئی، جبکہ مذکورہ روایت میں سات دن میں صرف زمین کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کا سرے سے ذکر ہی نہیں۔ اسی وجہ سے جلیل القدر محدثین نے اس روایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ مناوی لکھتے ہیں:

قال الزرکشی: اخرجہ مسلم وہو من غرائبہ وقد تکلم فیہ ابن المدینی والبخاری وغیرھما من الحفاظ وجعلوہ من کلام کعب الاحبار وان ابا ھریرۃ انما سمعہ منہ لکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعا ۔(فیض القدیر،مناوی ۳/ ۴۴۸)

’’زرکشی کہتے ہیں کہ یہ روایت امام مسلم کی نقل کردہ غریب روایات میں سے ہے۔ اس میں ابن المدینی، بخاری اور دیگر حفاظ حدیث نے کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل کعب احبار کا کلام ہے جو ان سے ابوہریرہ نے سنا ، لیکن کسی راوی کو اشتباہ ہوا اور اس نے اس کی نسبت رسول اللہ کی طرف کر دی۔ ‘‘

سنن نسائی میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :

ان الشمس والقمر لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاتہ ولکنہما آیتان من آیات اللّٰہ عزوجل ان اللّٰہ عزوجل اذا بدا لشئی من خلقہ خشع لہ۔( نسائی،رقم ۱۴۸۶)

’’سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ گرہن لگنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوقات میں سے کسی پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ خشوع وعجز کا اظہار کرتی ہے ۔‘‘

ابن حجر اس پر امام غزالی کا تبصرہ نقل کرتے ہیں کہ :
انہا لم تثبت فیجب تکذیب ناقلھا قال: ولو صحت لکان تاویلھا اھون من مکابرۃ امور قطعیۃ لا تصادم اصلا من اصول الشریعۃ۔ (فتح الباری ۲/ ۵۳۷)

’’یہ بات ثابت نہیں ، لہٰذا اس کے راوی کی تکذیب لازم ہے۔ اگر روایت صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل کرنا ان قطعی امور کے بے جا انکار سے بہتر ہے جو شریعت کی کسی اصل سے نہیں ٹکراتے۔‘‘

یہ چند ایک مثالیں اختصار کے طور پر پیش کی گئی ہیں جو درایت کے اصول ضوابط کے تحت ہیں جن میں قرون اولیٰ کے محدثین و مجتہدین نے روایت پرجرح کی ہے-

آخری بات یہی ہے کہ ایک انسان ہونے ناتے غلطی تو ہر ایک سے ممکن ہے چاہے میں ہو یا آپ - لیکن جس کسی کی طرف سے محدثین کی بیان کردہ روایت کو رد کیا جاتا ہے تو دلیل موجود ہوتی ہے- اس بنا پر کسی کو معین طور پر منکرین حدیث یا روایت پرست ہونے کا طعنہ دینا دینی مکتب فکر میں کوئی اچھی روش نہیں-

جزاک الله ھوا خیر-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ہمارے نزدیک محدثین کے اصول و ضوابط کو اسناید و متن کے لحظ سے بیان کرنے میں تو کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ آپ بھی مان رہے ہیں- اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے- لیکن ہمارا اصل مدعا یہ ہے کہ یہ اختلاف اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب عمل کی باری آتی ہے - یعنی اس بات کو ماننے کے باوجود کہ محدثین اسانید و متن کو یکساں اہمیت دیتے تھے جب دور حاضر میں اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اکثر روایات کی چھان بین کی جاتی ہے تو ان کا نزدیک اصل اہمیت و فوقیت کی حامل صرف "اسانید" قرار پاتی ہیں اور "متن" کے بارے میں ان کے نزدیک اس کی حثیت ثانوی ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ جب گمراہ فرقوں کی طرف سے ان روایات پر جرح و تنقید کی جاتی ہے تو اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اس کی کوئی خاطر خواہ تاویل پیش نہیں کی جاتی- بلکہ اکثر تاویلیں محل وقوع سے اس قدر ہٹی ہوئی ہوتی ہیں کہ وہ ایک عام فہم انسان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں- چہ جائیکہ کہ اہل علم کو قبول ہوں- کیوں کہ بہر حال روایت کا متن بذات خود عقل و فہم محل وقوع کا متمنی ہوتا- اور یہ اہل حدیث بھائی روایت پرستی میں اس کے متن پر غور و فکر کرنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے- مثال کے طور پر جیسے یہ روایات کہ: قبرمبارک نبی صل الله علیہ و آ له وسلم سے اذان کی آواز آنا- نبی کریم پرامّت محمدیہ کا درود کا پیش ہونا اور خود نبی کریم کا دور یا قریب سے درود کا سننا- یا حضرت اماں عائشہ رضی الله عنہ کا حضرت عمر رضی الله عنہ کے مدفن ہونے پر اپنے حجرے میں پردہ کرکے جانا -
بھائی مصیبت یہ ہے کہ محدثین نے اسانید و متون میں تحقیق کے وقت اصل بنیاد ’’ سند ‘‘ کو بنایا ہے ، جبکہ آپ کے نزدیک اصل بنیاد ’’ متن ‘‘ ہے ۔ محدثین کے نزدیک سند کس لیے ہوتی ہے تاکہ متن کے غلط درست ہونے کا فیصلہ کیا جاسکے ، لیکن آپ کے نزدیک متن اس لیے ہوتا ہے تاکہ ’’ سند ‘‘ کے غلط درست ہونے کا فیصلہ کیا جاسکے ۔ اصولوں سے ہٹ کر ذرا سی عقل رکھنے والا آدمی بھی اس ’’ منطق ‘‘ کا قائل ہوسکتا ہے ۔؟
اگر ’’ متن ‘‘ کے محتوی و مضمون کی بنیاد پر اس کے غلط صحیح ہونے کا فیصلہ کرنا ہی اصل منہج ہے تو پھر ’’ اسانید ‘‘ کو ساتھ ٹانکنے کی کیا ضرورت تھی ۔؟
صاحب کوئی خدا لگتی کیجیے ، اگر ’’ فلسفہ علم الاخبار ‘‘ یہی ہے تو پھر اخبار کی نقل و حمل میں اس قدر مصائب اٹھانے کی کیا ضرورت تھی ، قرآن مجید سامنے کھول کر رکھ لیا جاتا ، جو اس کے مطابق لگتی اس پر ’’ صحت ‘‘ او رجو اس کے خلاف ہوتی اس پر ’’ ضعف ‘‘ کی مہر ثبت کردی جاتی ۔
اور پھر سند کے اعتبار سے تحقیق کرنے کا معنی تو یہ ہے کہ راوی کی ثقاہت و عدالت کو پر کھا جائے ، اتصال و انقطاع کی چھان بین کی جائے وغیرہ ، شذوذ و تفرد کی صورتیں میں پائی جانے والی علتوں کی تہہ تک پہنجا جائے ۔
لیکن ’’ متن میں غور و فکر ‘‘ جو آپ بار بار فرما رہے ہیں ، اس میں کیا کیا جاتا ہے ؟ صرف یہی دیکھا جاتا ہے نا کہ یہ میرے مفاہیم شریعت اور مبادی اسلام کے مطابق ہے یا نہیں ؟
لہذا ایک ہی راوی کی بیان کردہ دو باتوں میں سے آپ ایک کو رد کرلیتے ہیں اور دوسری کو اپنے اسلام کا حصہ بنا لیتے ہیں ؟ یہ اخبار کی تحقیق ہے یا خواہش پرستی ہے ۔؟
صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا ایک دوسرے پر تعن و تشنیع کرنا اور ان میں وہ وصف تلاش کرنا جو ان کے ایمان لانے کے بعد ان میں پایا جائے ممکن نہیں - ان سے بعید نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ان القابات سے پکاریں (لہذا اس روایت پر پر خاموشی نہیں روایت کا رد کرنا واجب ہے)- کیوں کہ قرآن خود ان پاک ہستیوں کی پیروی کا حکم دیتا ہے- یہ کیسے ممکن ہے کہ جن کی پیروی کا حکم الله تبارک و تعلی خود قرآن میں دے رہا ہو وہ اپنی ذات میں خائن اور بد تہذیب ہوں (نعوزباللہ)؟؟
اگر تحقیق کا یہی تقاضا ہے جو آپ فرما رہے ہیں تو پھر سلف صالحین کو یہ اصول بیان کرنے کی کیوں ضرورت پیش آئی کہ ’’ مشاجرات صحابہ میں خاموشی اختیار کی جائے ‘‘ ، کیونکہ سلف کے نزدیک صحابہ کے دوران مشاجرات موجود تھے ، اس لیے خاموشی کی تلقین ہوئی ، جبکہ آپ کے بیان کردہ عبقری اصول کی رو سے تو صحابہ کے آپس میں مشاجرات سرے سے کوئی حقیقی چیز ہے ہی نہیں ، یہ سب راویوں اور روایات کا گورکھ دھندہ ہے ۔ ویسے حضرت علی و عباس رضی اللہ عنہما والے واقعے میں ’’ الخائن ، الغادر ، الکاذب الآثم ‘‘ جیسے الفاظ نکال کر باقی قصے کو آپ صحیح مانتے ہیں ؟
اسطرح بہت سے ایسے اسلامی تاریخی واقعیات کتب حدیث میں پاے جاتے ہیں جن میں نبی کریم کا کوئی قول و فعل نہ پایا گیا- لیکن ان واقعیات کی چھان بین میں بھی سندی اہمیت زیادہ اجاگر نظرآئی اور متون کو یکسر نظر انداز کیا گیا- اب یہی دیکھیں کہ اگر روایات کی اسنادی اہمیت ہر جگہ ہی فوقیت کی حامل ہے تو "سبایت" جس کا بنیادی کردار "عبدللہ بن سبا یمنی" ہے- گمراہ فرقہ اہل تشییع کی نظر میں اس کا وجود اس دنیا میں ہونا ہی مشکوک ہے - ان کے نزدیک عبدللہ بن سبا کا کردار تخلیق کرنے والا ایک کذاب راوی "سیف بن عمرتمیمیے - جو صرف اہل تشیع ہی نہیں اہل سنّت کے نزدیک بھی "کذاب" ہے- بقول اہل تشیع - اہل سنت نے رجال کی کتابوں سے ”سیف بن عمر“ پر طعن و تشنیع کو نقل کیا ہے اور سب روایتیں اس شخص کے فاسق و فاجر اور جھوٹے ہونے پر دلالت کرتی ہیں و ھو:کذّاب متروک الحدیث اٴُتّھم بالزندقة - اور جھوٹے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے - اب بتائیں کہ اہل سنّت اس بارے میں کیا جواب دینگے ؟؟؟ کہ ان کے نزدیک تو اسانید ہی روایات کو پرکھنے میں اول درجے کی حثیت رکھتی ہیں؟؟
ٹھیک ہے ، روایت پرستی کی رو سے تو عبداللہ بن سبا کا وجود ہی مشکوک ہے ، آپ کے اصول درایت اس بارے میں کیا کہتے ہیں ۔؟
بظاھر تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ امام ابن الجوزی رح نے اپنی بات روایت میں متن کی اہمیت کی بنیاد پر کی ہے - اس کو موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ کے طور پر استمعال کرنا آپ ہی کا فہم ہو سکتا ہے -
جی اس کو روایت کی صحت و ضعف کے بنیادی اصولوں میں شمار کرنا آپ کا فہم ہے ، جبکہ اس کو بطور قرینہ لینا یہ آپ کے مخالف کا فہم ہے ، اب دیکھ لیں محدثین کس کی تائید کرتے ہیں ؟!
ابن الجوزی سے لے کر ابن الصلاح ، ابن حجر ، سخاوی ، سیوطی تک اگر کسی نے اس کو صحت و ضعف کے قواعد میں شمار کیا ہے تو میں آپ کی بات مان لیتا ہوں ورنہ آپ اس قول کو مکتبہ شاملہ میں تلاش کرکے دیکھیں کہ اصول حدیث کی کتابوں میں کس جگہ اور کس مبحث میں ، کس حیثیت اور سیاق و سباق میں اس قول کو بیان کیا جاتا ہے ۔
باقی رہا آپ کا یہ مطالبہ کہ :"کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو" ۔

تو اس کا ایک لنک تو اسی فورم پر موجود ہے ابن کثیر رح منکرین حدیث- جس میں امام ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج کی مسند احمد والی حدیث پر نقد کی ہے -

http://rashid-exposes-fitnas.webnode.com/news/ibn-kathir-munkir-e-hadith-/

مزید مثالیں :

صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:

خلق اللّٰہ التربۃ یوم السبت وخلق فیھا الجبال یوم الاحد وخلق الشجر یوم الاثنین وخلق المکروہ یوم الثلاثاء وخلق النور یوم الاربعاء وبث فیھا الدواب یوم الخمیس وخلق آدم علیہ السلام بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق۔ ( مسلم،رقم ۷۰۵۴)

’’اللہ نے ہفتے کے دن زمین کی سطح کو پیدا کیا، اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو ، پیر کے دن درختوں کو، منگل کے دن بری چیزوں کواور بدھ کے دن روشنی کو پیدا کیا۔ جمعرات کے دن اس میں چوپایوں کو پھیلا دیا اور سب مخلوقات کے آخر میں جمعے کے دن عصر کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔‘‘
امام ابن القیم کہتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید کے مطابق آسمان وزمین کی تخلیق چھ دن میں مکمل ہوئی جبکہ یہ روایت یہ بتاتی ہے کہ مدتِ تخلیق سات دن تھی۔ ۱۲ ؂ نیز قرآن مجید کی رو سے زمین اور اس کے خزانوں کی تخلیق چار دن میں اور آسمان کی تخلیق دو دن میں مکمل ہوئی، جبکہ مذکورہ روایت میں سات دن میں صرف زمین کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کا سرے سے ذکر ہی نہیں۔ اسی وجہ سے جلیل القدر محدثین نے اس روایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ مناوی لکھتے ہیں:
قال الزرکشی: اخرجہ مسلم وہو من غرائبہ وقد تکلم فیہ ابن المدینی والبخاری وغیرھما من الحفاظ وجعلوہ من کلام کعب الاحبار وان ابا ھریرۃ انما سمعہ منہ لکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعا ۔(فیض القدیر،مناوی ۳/ ۴۴۸)
’’زرکشی کہتے ہیں کہ یہ روایت امام مسلم کی نقل کردہ غریب روایات میں سے ہے۔ اس میں ابن المدینی، بخاری اور دیگر حفاظ حدیث نے کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل کعب احبار کا کلام ہے جو ان سے ابوہریرہ نے سنا ، لیکن کسی راوی کو اشتباہ ہوا اور اس نے اس کی نسبت رسول اللہ کی طرف کر دی۔ ‘‘
سنن نسائی میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
ان الشمس والقمر لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاتہ ولکنہما آیتان من آیات اللّٰہ عزوجل ان اللّٰہ عزوجل اذا بدا لشئی من خلقہ خشع لہ۔( نسائی،رقم ۱۴۸۶)
’’سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ گرہن لگنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوقات میں سے کسی پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ خشوع وعجز کا اظہار کرتی ہے ۔‘‘
ابن حجر اس پر امام غزالی کا تبصرہ نقل کرتے ہیں کہ :
انہا لم تثبت فیجب تکذیب ناقلھا قال: ولو صحت لکان تاویلھا اھون من مکابرۃ امور قطعیۃ لا تصادم اصلا من اصول الشریعۃ۔ (فتح الباری ۲/ ۵۳۷)
’’یہ بات ثابت نہیں ، لہٰذا اس کے راوی کی تکذیب لازم ہے۔ اگر روایت صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل کرنا ان قطعی امور کے بے جا انکار سے بہتر ہے جو شریعت کی کسی اصل سے نہیں ٹکراتے۔‘‘
یہ چند ایک مثالیں اختصار کے طور پر پیش کی گئی ہیں جو درایت کے اصول ضوابط کے تحت ہیں جن میں قرون اولیٰ کے محدثین و مجتہدین نے روایت پرجرح کی ہے-
جتنی مثالیں آپ نے بیان کی ہیں ، ان میں سے کسی میں بھی ’’ قرون اولی ‘‘ کے کسی محدث کا ذکر نہیں ہے ۔(سوائے ابن المدینی و بخاری کے ، جبکہ ان کی نقد کی بنیاد بھی سند ہی ہے ۔) حالانکہ دعوی آپ کا یہ ہے کہ اصول درایت قرون اولی کے محدثین و مجتہدین سے ثابت ہیں ، اور پھر دوسری بات : ہمارا مطالبہ یہ ہے کہ سند بالکل صحیح ہو ، اور متن کی کسی نے تضعیف کی ہو ، اس بات کو بھی مد نظر رکھ کر مثال پیش کریں ۔
ان روایات پر مزید بات ان شاءاللہ تلاش و بسیار کے بعد کروں گا۔
 
Last edited:

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
ویسے میری ناقص رائے کے مطابق دونوں امور ہی اہم ہیں جیسا کہ سورۃ الحجرات کی معروف آیت ثابت کرتی ہے


لیکن ایک سوال میرے ذہن میں بھی ہے کہ اگر واقعی سند کی اتنی اہمیت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سند کی اہمیت ایک مسلمہ امر ہے اور اس کی مزید تائید امام طبری رحمہ اللہ کا اپنی تاریخ میں سند کا اہتمام کرنا سے بھی ہوتی ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ تاریخ طبری کی تالیف کے بعد کتنے مورخین نے ان کی کتاب سے روایات سند کی بنیاد پر لی اور صرف تاریخ طبری کے مصادر و ماخذ پر علمی حیثیت میں بات کر لی جائے تو ہماری تاریخ کے بے شمار مسائل غتر بود ہو جاتے ہیں بالخصوص جن کا تعلق مشاجرات صحابہ سے ہے دلیل کے طور پر ابو مخنف کی روایات کو ہی لے لیا جائے اور اس کی استنادی حیثیت کو دیکھ لیں اور پھر یہ دیکھیں کہ تاریخ طبری میں ابو مخنف کی کتنی روایات موجود ہیں اور ان میں سے بعض روایات تو پکار پکار کر کہہ رہی ہیں ہمارا متن بھی دیکھیں صرف ہماری سند پر بھروسہ نہ کریں ۔
https://archive.org/details/marwiyat_abi_mokhanaf
جیسا کہ اس کتاب میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے
البتہ مشاجرات صحابہ کے حوالے سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی کتاب العقیدہ الواسطیہ کا منھج بہت زیادہ خوبصورت ہے جیسا کہ خضرحیات بھائی نے نقل کیا

اور مزید یہ کہ کسی بھی ایک ہی امر پر انحصار کبھی بھی محدثین کا منھج نہیں رہا جس کی دلیل فتح الباری میں حافظ ابن الحجر کا ہر حدیث کے کلمات پر تفصیلی گفتگو کرنا البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ کچھ محدثین نے سند پر زیادہ گفتگو کی اور کچھ نے صرف متن پر حسب ضرورت اور حسب منھج جس کا یہ مطلب قطعی نہیں کہ کسی ایک امر کو ترک کر دیا گیا ہو
اور http://waqfeya.com/book.php?bid=3270
یہ کتاب اب مکمل طور پر تاریخ طبری کے حوالے سے ہے صحیح اور ضعیف تاریخ طبری
 
Top