آپ کے بارے میں میں اپنی سوچ کو درست کر لیتا ہوں ۔ اب آپ بھی ہمارے بارے میں اپنی رائے میں ذرا ترمیم فرمالیں کہ ہمارے نزدیک محدثین نے صرف ’’ اسانید ‘‘ پر ہی توجہ نہیں دی بلکہ ’’ متون ‘‘ کا بھی پورا پورا خیال رکھا ہے ۔ (جیساکہ میں کئی دفعہ یہ کہہ چکا ہوں )
گویا یہ بات ہمارے ما بین متفق ہے :
’’ محدثین نے احادیث کی جانچ پرکھ کے لیے اسانید و متون دونوں پر توجہ کی ہے ، ان کے بیان کردہ اصول بالکل درست ہیں ۔ ‘‘
لہذا :
’’ اگر ہمیں احادیث کے اسانید و متون کی تحقیق کرنی ہے تو محدثین کے طریقہ کار پر چلنا ہوگا ‘‘
آپ کو اس بات سے اگر کوئی اختلاف ہے تو بیان کردیں ۔
بجا فرمایا۔ لیکن کیا احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے ۔؟
محدثین نے صرف ’’ عدالت ‘‘ کی شرط ہی نہیں لگائی بلکہ ، حفظ و ضبط ، تنبہ و بیداری اور دیگر تمام شرائط کا احاطہ کیا ہے جو ’’ فن علم الاخبار ‘‘ کے متقضیات میں سے ہوسکتی تھیں ۔
کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔
اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو ۔
ابن الجوزی نے جو بیان کیا ہے وہ موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ ہے ۔ احادیث پر حکم لگانے کا قاعدہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ علماء نے اس طرح کے اقوال کو ’’ علامات الوضع ‘‘ کے تحت ذکر کیا ہے نہ کہ ’’ حدیث مقبول ‘‘ کی شروط میں ۔
ابن الجوزی نے موضوع احادیث پر تفصیلی کام کیا ہے ، اور اس میں انہوں نے محدثین کے ہاں رائج قواعد کو ہی استعمال کیا ہے ، لیکن موضوع احادیث کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر عامۃ الناس کے لیے جو قواعد و ضوابط کی باریکیوں اور راویوں کی چھان پھٹک نہیں کرسکتے ، ان کے لیے کچھ علامات بیان کردی ہیں جو عام طور پر موضوع احادیث میں پائی جاتی ہیں ۔
آپ نے تدریب الراوی کا حوالہ دیا ہے ذرا اس کو کھول کر دیکھیں کہ یہ قول کہاں بیان کیا گیا ہے ۔
’’ آخری بات بھی آپ کو سمجھانے کا آسان قرینہ ہے اس کو کوئی اصول نہ سمجھا جائے ۔‘‘
آخری بات :
حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ، تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے ۔
اور یہ کوئی عالمانہ موقف نہیں ہے کہ ایک ہی روایت کے اندر جو بات آپ کی سوچ کے مطابق ہے ، قابل قبول ہے ، اور جو جذبات کے خلاف نظر آرہی ہے وہ مردود ہے ۔ ( مثلا یہاں ایک صاحب ہیں جو دیگر صحابہ کے بارے میں ایسی باتیں لے کر بات کا بتنگڑ بناتے ہیں ، لیکن عباس و علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں اس روایت پر بالکل خاموش رہیں گے ۔ اور یہ اچھی بات ہے ، کاش یہ اصول دیگر اصحاب رسول کے بارے میں بھی ذہن میں رہے ۔ )
ہاں اگر راویوں سے روایت کرتے وقت کچھ الفاظ نقل کرنے میں ’’ وہم ‘‘ یا ’’ غلطی ‘‘ ثابت ہو جائے تو پھر ان الفاظ کو ضعیف یا مردود ہی کہا جائے اور یہی محدثین کا اصول ہے ، لہذا اصول حدیث کے اندر ’’ حدیث معل ‘‘ میں یہ سب باتیں امثلہ کے ساتھ موجود ہیں ۔
البتہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں اور نہ ہی محدثین کا اصول ہے ۔ واللہ اعلم ۔
متفق -
لیکن محترم -
ہمارے نزدیک محدثین کے اصول و ضوابط کو اسناید و متن کے لحظ سے بیان کرنے میں تو کوئی اختلاف نہیں جیسا کہ آپ بھی مان رہے ہیں- اور اس میں بھی کوئی اختلاف نہیں کہ احادیث کی ’’ قبولیت ‘‘ کے لیے ان کی ’’ صد فیصدی صحت ‘‘ کا یقین ہونا ضروری ہے- لیکن ہمارا اصل مدعا یہ ہے کہ یہ اختلاف اس وقت شروع ہوتا ہے کہ جب عمل کی باری آتی ہے - یعنی اس بات کو ماننے کے باوجود کہ محدثین اسانید و متن کو یکساں اہمیت دیتے تھے
جب دور حاضر میں اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اکثر روایات کی چھان بین کی جاتی ہے تو ان کا نزدیک اصل اہمیت و فوقیت کی حامل صرف "اسانید" قرار پاتی ہیں اور "متن" کے بارے میں ان کے نزدیک اس کی حثیت ثانوی ہوتی ہے- یہی وجہ ہے کہ جب گمراہ فرقوں کی طرف سے ان روایات پر جرح و تنقید کی جاتی ہے تو اہل حدیث بھائیوں کی طرف سے اس کی کوئی خاطر خواہ تاویل پیش نہیں کی جاتی- بلکہ اکثر تاویلیں محل وقوع سے اس قدر ہٹی ہوئی ہوتی ہیں کہ وہ ایک عام فہم انسان کے لئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں- چہ جائیکہ کہ اہل علم کو قبول ہوں- کیوں کہ بہر حال روایت کا متن بذات خود عقل و فہم محل وقوع کا متمنی ہوتا- اور یہ اہل حدیث بھائی روایت پرستی میں اس کے متن پر غور و فکر کرنے کی تکلیف ہی نہیں کرتے- مثال کے طور پر جیسے یہ روایات کہ:
قبرمبارک نبی صل الله علیہ و آ له وسلم سے اذان کی آواز آنا- نبی کریم پرامّت محمدیہ کا درود کا پیش ہونا اور خود نبی کریم کا دور یا قریب سے درود کا سننا- یا حضرت اماں عائشہ رضی الله عنہ کا حضرت عمر رضی الله عنہ کے مدفن ہونے پر اپنے حجرے میں پردہ کرکے جانا -
اور آپ کی یہ بات کہ :حضرت علی اور عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں صحیح مسلم کے جو الفاظ آپ نے نقل کیے ہیں ، پھر علامہ مازری کا ان پر تبصرہ ،
تو یہ ایک عالم دین کی رائے ہے ، اس سے بہتر رائے یہ ہے کہ اصولوں کی پاسداری کرتے رہیں ۔ اور صحابہ کرام کے درمیان جو اس قبیل سے باتیں ہوئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیار کی جائے" - اس پر متفق ہونے کی گنجائش نہیں کہ کیوں کہ فرمان باری تعلی کے مقابلے میں ہمیں اصولوں کی پاسداری منظور نہیں:.
وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ آمِنُوا كَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ ۗ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ وَلَٰكِنْ لَا يَعْلَمُونَ سوره البقرہ ١٣
اور جب انہیں کہا جاتا ہے ایمان لاؤ جس طرح اور لوگ ایمان لائے ہیں (یعنی صحابہ کرام رضوان الله اجمعین)- تو کہتے ہیں (منافق) کیا ہم ایمان لائیں جس طرح بے وقوف ایمان لائے ہیں خبردار وہی بے وقوف ہیں لیکن نہیں جانتے-
صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کا ایک دوسرے پر تعن و تشنیع کرنا اور ان میں وہ وصف تلاش کرنا جو ان کے ایمان لانے کے بعد ان میں پایا جائے ممکن نہیں - ان سے بعید نہیں کہ وہ ایک دوسرے کو ان القابات سے پکاریں (
لہذا اس روایت پر پر خاموشی نہیں روایت کا رد کرنا واجب ہے)- کیوں کہ قرآن خود ان پاک ہستیوں کی پیروی کا حکم دیتا ہے- یہ کیسے ممکن ہے کہ جن کی پیروی کا حکم الله تبارک و تعلی خود قرآن میں دے رہا ہو وہ اپنی ذات میں خائن اور بد تہذیب ہوں (نعوزباللہ)؟؟
اسطرح بہت سے ایسے اسلامی تاریخی واقعیات کتب حدیث میں پاے جاتے ہیں جن میں نبی کریم کا کوئی قول و فعل نہ پایا گیا- لیکن ان واقعیات کی چھان بین میں بھی سندی اہمیت زیادہ اجاگر نظرآئی اور متون کو یکسر نظر انداز کیا گیا- اب یہی دیکھیں کہ اگر روایات کی اسنادی اہمیت ہر جگہ ہی فوقیت کی حامل ہے تو "سبایت" جس کا بنیادی کردار "عبدللہ بن سبا یمنی" ہے- گمراہ فرقہ اہل تشییع کی نظر میں اس کا وجود اس دنیا میں ہونا ہی مشکوک ہے - ان کے نزدیک عبدللہ بن سبا کا کردار تخلیق کرنے والا ایک
کذاب راوی "سیف بن عمرتمیمی"ہے - جو صرف اہل تشیع ہی نہیں اہل سنّت کے نزدیک بھی "کذاب" ہے- بقول اہل تشیع - اہل سنت نے رجال کی کتابوں سے ”سیف بن عمر“ پر طعن و تشنیع کو نقل کیا ہے اور سب روایتیں اس شخص کے فاسق و فاجر اور جھوٹے ہونے پر دلالت کرتی ہیں
و ھو:کذّاب متروک الحدیث اٴُتّھم بالزندقة - اور جھوٹے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے - اب بتائیں کہ اہل سنّت اس بارے میں کیا جواب دینگے ؟؟؟ کہ ان کے نزدیک تو اسانید ہی روایات کو پرکھنے میں اول درجے کی حثیت رکھتی ہیں؟؟
یہ بات زہن میں رہے کہ میں کوئی اہل تشیع کا ترجمان یا ہمنوا نہیں لیکن کہنے کا مطلب یہی ہے کہ اہل سنّت علماء کی اکثریت اپنے جن اصولوں پر سختی سے کار بند ہیں اکثر وہی اصول ان کی جواب دہی اور روایات کو ثابت کرنے کے معاملے میں مشکل کا باعث بنتے ہیں- یعنی یہ کہ عبدللہ بن سبا یمنی کا وجود صرف اگر اسنادی طور پر تلاش کیا جائے تو خود اہل سنّت مشکل میں پڑ جاتے ہیں- پھر اکثر اہل سنّت اس کے بارے میں بھی ایسی بھونڈی مثالیں پیش کرتے ہیں جو انکے اپنے گلے پڑتی ہے- جیسے بعض اہل سنّت کے علماء غالباً سلیمان ندوی یا شبلی نعمانی نے ابن سبا کے انجام کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ (عبدللہ بن سبا) شام یا مصر میں جنگلی جانوروں کا نوالہ بن گیا -اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کس راوی نے اس کو جنگلی جانوروں کا نوالہ بنتے دیکھا- جو یہ تاریخ کی کتب میں قلمبند ہو گیا ؟؟؟ اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں جیسے عبید اللہ بن عمررضی الله عنہ کا عبدالرحمان بن ابی بکر کی باتوں میں آکر اپنے والد حضرت عمر رضی الله عنہ کے قاتلین ابو لولوء فیروز اور ہرمزان کو قتل کردینا- جب کہ صحابی رسول سے اس بات کی بعید نہیں کہ وہ بغیر تحقیق کے کسی کی باتوں میں آکر اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے باپ حضرت عمررضی الله عنہ کے قاتلین کو بدلے کے طور پرقتل کرسکتے ہیں وغیرہ- اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ صحابہ کرام قرآن و حدیث کے احکامات سے نا بلد تھے- اورجذباتی تھے- قانون اپنے ہاتھ لینے کو جائز سمجھتے تھے وغیرہ؟؟؟-
روایت کو پرکھنے کے معاملے میں اکثر محدثین نے یہ اصول اگرچہ روا رکھا ہے کہ بعض روایات میں چند الفاظ کا سہارا لے کر پوری پوری احادیث پر چھری چلانا یہ عقلمندی نہیں- لیکن محدثین کے اس اصول پر بھی اسی وقت عمل ممکن ہے جب روایت کے متن پر تحقیق کی جائے - صرف اسناد کو دیکھ کر یہ حتمی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ آیا پوری روایت کو رد کیا جائے یا صرف کچھ قابل اعترا ض مواد کو رد کے جائے-
بظاھر تو ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ امام ابن الجوزی رح نے اپنی بات روایت میں متن کی اہمیت کی بنیاد پر کی ہے - اس کو موضوع احادیث کی پہچان کا مختصر ’’ قرینہ ‘‘ کے طور پر استمعال کرنا آپ ہی کا فہم ہو سکتا ہے -
باقی رہا آپ کا یہ مطالبہ کہ :"
کوئی حوالہ دیں جس میں قرون اولی کے کسی مجتہد یا امام نے کسی محدث کی بیان کردہ روایت پر جرح کی ہو ، ان اصولوں کی بنیاد پر جن کو آپ ’’ اصول درایت ‘‘ سمجھتے ہیں ۔ اسی طرح کوئی اور حوالہ دیں قرون اولی کے مجتہدین کا جس میں سند کو بالکل ٹھیک قرار دیا گیا ہو اور ساتھ حدیث پر ’’ موضوع ‘‘ کا حکم بھی لگایا گیا ہو" ۔
تو اس کا ایک لنک تو اسی فورم پر موجود ہے ابن کثیر رح منکرین حدیث- جس میں امام ابن کثیر رح نے یاجوج ماجوج کی مسند احمد والی حدیث پر نقد کی ہے -
http://rashid-exposes-fitnas.webnode.com/news/ibn-kathir-munkir-e-hadith-/
مزید مثالیں :
صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:
خلق اللّٰہ التربۃ یوم السبت وخلق فیھا الجبال یوم الاحد وخلق الشجر یوم الاثنین وخلق المکروہ یوم الثلاثاء وخلق النور یوم الاربعاء وبث فیھا الدواب یوم الخمیس وخلق آدم علیہ السلام بعد العصر من یوم الجمعۃ فی آخر الخلق۔ ( مسلم،رقم ۷۰۵۴)
’’اللہ نے ہفتے کے دن زمین کی سطح کو پیدا کیا، اتوار کے دن اس میں پہاڑوں کو ، پیر کے دن درختوں کو، منگل کے دن بری چیزوں کواور بدھ کے دن روشنی کو پیدا کیا۔ جمعرات کے دن اس میں چوپایوں کو پھیلا دیا اور سب مخلوقات کے آخر میں جمعے کے دن عصر کے بعد آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔‘‘
امام ابن القیم کہتے ہیں کہ یہ روایت قرآن مجید کے خلاف ہے، کیونکہ قرآن مجید کے مطابق آسمان وزمین کی تخلیق چھ دن میں مکمل ہوئی جبکہ یہ روایت یہ بتاتی ہے کہ مدتِ تخلیق سات دن تھی۔ ۱۲ نیز قرآن مجید کی رو سے زمین اور اس کے خزانوں کی تخلیق چار دن میں اور آسمان کی تخلیق دو دن میں مکمل ہوئی، جبکہ مذکورہ روایت میں سات دن میں صرف زمین کی تخلیق کا ذکر ہے اور آسمان کی تخلیق کا سرے سے ذکر ہی نہیں۔ اسی وجہ سے جلیل القدر محدثین نے اس روایت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ مناوی لکھتے ہیں:
قال الزرکشی: اخرجہ مسلم وہو من غرائبہ وقد تکلم فیہ ابن المدینی والبخاری وغیرھما من الحفاظ وجعلوہ من کلام کعب الاحبار وان ابا ھریرۃ انما سمعہ منہ لکن اشتبہ علی بعض الرواۃ فجعلہ مرفوعا ۔(فیض القدیر،مناوی ۳/ ۴۴۸)
’’زرکشی کہتے ہیں کہ یہ روایت امام مسلم کی نقل کردہ غریب روایات میں سے ہے۔ اس میں ابن المدینی، بخاری اور دیگر حفاظ حدیث نے کلام کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دراصل کعب احبار کا کلام ہے جو ان سے ابوہریرہ نے سنا ، لیکن کسی راوی کو اشتباہ ہوا اور اس نے اس کی نسبت رسول اللہ کی طرف کر دی۔ ‘‘
سنن نسائی میں حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا :
ان الشمس والقمر لا ینکسفان لموت احد ولا لحیاتہ ولکنہما آیتان من آیات اللّٰہ عزوجل ان اللّٰہ عزوجل اذا بدا لشئی من خلقہ خشع لہ۔( نسائی،رقم ۱۴۸۶)
’’سورج اور چاند کو کسی کی موت یا حیات کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا۔ یہ تو اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں۔ گرہن لگنے کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب اپنی مخلوقات میں سے کسی پر اپنی تجلی ڈالتے ہیں تو وہ خشوع وعجز کا اظہار کرتی ہے ۔‘‘
ابن حجر اس پر امام غزالی کا تبصرہ نقل کرتے ہیں کہ :
انہا لم تثبت فیجب تکذیب ناقلھا قال: ولو صحت لکان تاویلھا اھون من مکابرۃ امور قطعیۃ لا تصادم اصلا من اصول الشریعۃ۔ (فتح الباری ۲/ ۵۳۷)
’’یہ بات ثابت نہیں ، لہٰذا اس کے راوی کی تکذیب لازم ہے۔ اگر روایت صحیح بھی ہو تو اس کی تاویل کرنا ان قطعی امور کے بے جا انکار سے بہتر ہے جو شریعت کی کسی اصل سے نہیں ٹکراتے۔‘‘
یہ چند ایک مثالیں اختصار کے طور پر پیش کی گئی ہیں جو درایت کے اصول ضوابط کے تحت ہیں جن میں قرون اولیٰ کے محدثین و مجتہدین نے روایت پرجرح کی ہے-
آخری بات یہی ہے کہ ایک انسان ہونے ناتے غلطی تو ہر ایک سے ممکن ہے چاہے میں ہو یا آپ - لیکن جس کسی کی طرف سے محدثین کی بیان کردہ روایت کو رد کیا جاتا ہے تو دلیل موجود ہوتی ہے- اس بنا پر کسی کو معین طور پر منکرین حدیث یا روایت پرست ہونے کا طعنہ دینا دینی مکتب فکر میں کوئی اچھی روش نہیں-
جزاک الله ھوا خیر-