• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مذہبی داستانیں اور ان کی حقیقت

محمد علی جواد

سینئر رکن
شمولیت
جولائی 18، 2012
پیغامات
1,986
ری ایکشن اسکور
1,551
پوائنٹ
304
اس کا اگر آپ کو کوئی جواب نہ دے سکے تو آسان سا حل ہے کہ ’’ عبد اللہ بن سبا کوئی حقیقی کردار نہیں بلکہ یہ اہل روایت کی قصے کہانیاں ہیں ‘‘ کیونکہ اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی یقینا اس کے انجام بھی علم ہونا ضروری ہے ۔
سبحان اللہ ، یہ ہیں اصول درایت ۔
محترم -

مجھے عبد الله بن سبا کے وجود کا انکار نہیں جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں - میں اہل سنّت کے اس اصول کی بات کررہا ہوں جس کو سامنے رکھ کر وہ عبدالله بن سبا کے وجود کا اثبات کرتے ہیں - اہل سنّت کا اصول کہتا ہے کہ کذاب راوی کی روایت قابل قبول نہیں تو پھر عبد الله بن سبا کی حقیقت سے متعلق "سیف بن عمر تمیمی کذاب راوی" کی بیان کردہ روایات پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے ؟؟؟
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
محترم -
یہ بات آپ بھی جانتے ہیں کہ اگر محدثین کی نزدیک ایک روایت کی سند مضبوط ہے لیکن متن اس بات کی غمازی کر رہا ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله آجمعین ایک دوسرے پر براہ راست تبرّا کرتے تھے - تو قرآن کے حکم کے مطابق ان صحابہ کرام سے حسن زن رکھنا ہر مسلمان پر واجب ہے- اور محدثین اس سے یہی نتیجہ نکالتے رہے کہ اس کا مطلب ہے کہ روایوں کو روایت بیان کرنے میں وہم ہوا تھا- اب اس بنیاد پر یا تو پوری روایت رد کی جائے گی یا روایت کے متن کو دیکھ کر وہ حصّہ رد کردیا جائے گا جس میں صحابہ کا ایک دوسرے پر تبرا ثابت ہوتا ہو- بات صرف اتنی ہے کہ متن کے ساتھ سند کو بھی پرکھا جاتا ہے اور اگر سند ضعیف ہے تو متن پر زیادہ توجہ کی ضرورت نہیں رہتی - اگر سند مضبوط ہو تو متن کی تاویل کی جاتی ہے یا اس کو رد کیا جاتا ہے- اب بتائیں کہ سند کس طرح سے متن سے کم حثیت کی ہوئی ؟؟؟ صحابہ کرام سے رضوان الله اجمعین سے بڑھ کرعادل اور سقہ کون ہوگا؟؟ لیکن اگر ان کی بھی بیان کردہ حدیث، قران کی صریح نص سے ٹکراتی تھی تو اماں عائشہ رضی الله عنہ ایک فقیہہ کی حثیت سے اس کی یا تو تاویل کرتیں یا قول صحابی کو رد کردیتی تھیں- اس ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی متن و سند یکساں اہمیت کے حامل تھے -
بالکل غلط بات ہے ، محدثین کا یہ منہج بالکل نہیں ہے ۔ اگر محدثین کا یہ منہج ہوتا تو آپ کو ایسی روایات صحاح کے ضمن میں نظر نہ آتیں ۔
اور پھر یہ بھی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ محدثین جن روایات کا معنی و محمل صحیح معلوم نہ ہوسکے ان کو رد نہیں بلکہ ان پر توقف اختیار کرتے تھے ۔ گویا محدثین تحقیقی اعتبار سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد ، اپنے آپ کو ’’ کل خاں ‘‘ سمجھتے ہوئے نہ سمجھ آنی والی باتوں کو رد کرنے کی بجائے اپنے علم و فہم میں قصور کا اعتراف کیا کرتے تھے ۔ علوم حدیث میں موجود ’’ مختلف الحدیث ‘‘ وغیرہ بحث میں ایسی مثالیں موجود ہیں ۔
بلکہ خود نص نبوی سے یہ بات ثابت ہے ’’ رب حامل فقہ غیر فقیہ ‘‘ اور ’’ فرب مبلغ أوعی لہ من سامع ‘‘ ان الفاظ میں یہ معنی موجود ہے کہ بعض دفعہ روایت کرنے والا الفاظ کےمعنی و مفہوم سے کما حقہ واقف نہیں ہوتا ،لیکن بعد والے اس کو بہتر طور پر سمجھ جاتے ہیں ۔
کتنی ایسی روایات ہیں ، جن کا معنی کسی ایک عالم دین کو سمجھ نہیں آتا ، یا اس میں اسے کوئی خلاف شرع بات محسوس ہوتی ہے ، لیکن بعد والے اہل علم و فضل اس کا لائق معنی و مفہوم بیان کردیتے ہیں ۔
اماں عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں آپ جو کہہ رہے ہیں تو یہ بھی سمجھ کی غلطی ہے ، جس طرح محدثین راویوں پر اور روایات نقد کرتے ہیں ، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی روایات پر جرح کیا کرتی تھیں ، گویا ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات بیان کرنے میں صحابی کو غلطی لگ جاتی تھی ، جس کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی سنی ہوئی باتوں کی روشنی میں پرکھا کرتی تھیں۔ اور یہ اصول محدثین کے ہاں بھی موجود ہے کہ وہ راویوں کی روایات میں ’’ احفظ ، اوثق ، الزم ‘‘ کا خیال کرتے ہوئے ترجیح دیا کرتے تھے ۔ واللہ اعلم ۔
محترم -
مجھے عبد الله بن سبا کے وجود کا انکار نہیں جیسا کہ آپ سمجھ رہے ہیں - میں اہل سنّت کے اس اصول کی بات کررہا ہوں جس کو سامنے رکھ کر وہ عبدالله بن سبا کے وجود کا اثبات کرتے ہیں - اہل سنّت کا اصول کہتا ہے کہ کذاب راوی کی روایت قابل قبول نہیں تو پھر عبد الله بن سبا کی حقیقت سے متعلق "سیف بن عمر تمیمی کذاب راوی" کی بیان کردہ روایات پر کیوں اعتماد کیا جاتا ہے ؟؟؟
اوپر آپ نے اسحاق سلفی صاحب کی تحقیق کا شکریہ کس بنیاد بر ادا کیا ہے ۔؟
اس میں یہی لکھا ہوا ہے کہ کئی ابن سبا کے بارے میں کئی روایات ایسی ہیں جن میں سیف کا نام و نشان بھی نہیں ہے ۔
گویا ابن سبا کے وجود کے بارے میں سیف کی روایات پر ہی اعتماد نہیں ہے ۔
ویسے آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ آپ کو ابن سبا کے وجود سے انکار نہیں ، گویا آپ کے نزدیک ابن سبا کا وجود تھا ، آپ کی یہ رائے کس بنیاد پر ہے ۔؟
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ابن سبا،ایک ایسی حقیقت جس کا اعتراف خود شیعہ کو بھی تھا ،اور ہے ،
درج ذیل سطور میں اہل تشیع کے مستند حوالے اس کے ثبوت میں حاضر ہیں


عبد الله بن سبأ!! حقيقة أم خيال؟؟

ان الشائع عند الشيعة أن عبدالله بن سبأ شخصية وهمية لا حقيقة لها , اخترعها اهل السنة من أجل الطعن بالشيعة ومعتقداتهم فنسبوا اليه تأسيس التشيع ليصدوا الناس عنهم وعن مذهب اهل البيت.
وقد ورد في كتاب أصل الشيعة واصولها 40/41 للكاتب السيد محمد الحسين ال كاشف حيث قال:أما عبدالله بن سبأ الذي يلصقونه بالشيعة أو يلصقون الشيعة به , فهذه كتب الشيعة باجمعها تلعن بلعنه والبراءة منه.
ولا شك أن هذا تصريح بوجود هذه الشخصية .
وعبدالله بن سبأ هو احد الاسباب التي ينقم من أجلها اغلب الشيعة على أهل السنة. فهم يقولون انها شخصية ابتدعها اهل السنة لتشويه المذهب الشيعي.
عن أبي جعفر قال :ان عبد الله بن سبأ كان يدعي النبوة ويزعم أن امير المؤمنين هو الله ( تعالى الله عن ذلك) فبلغ ذلك أمير المؤمنين عليه السلام فدعاه وسأله فأقر بذلك وقال نعم أنت هو, وقد كان قد ألقى في روعي أنت الله وأني نبي , فقال أمير المؤمنين عليه السلام : ويلك قد سخر منك الشيطان, فارجع عنه وتب, فأبى , فحبسه واستتابه ثلاثة ايام , فلم يتب فحرقه بالنار وقال : ان الشيطان استهواه, فكان ياتيه ويلقي في روعه ذلك.
وعن ابي عبدالله أنه قال: لعن الله عبدالله بن سبأ , انه ادعى الربوبية في امير المؤمنين عليه السلام: وكان والله امير المؤمنين عليه السلام عبدا لله طائعا, الويل لمن كذب علينا, وان قوما يقولون فينا ما لا نقوله في أنفسنا نبرأ الى الله منهم, نبرأ الى الله منهم.
-معرفه اخبار الرجال للكشي ص 70-71
وقال الماقاني:عبدالله بن سبأ الذي رجع الى الكفر وأظهر الغلو وقال: غال ملعون, حرقه امير المؤمنين بالنار, وكان يزعم أن عليا اله, وأنه نبي.
-تنقيح ألمقال في علم الرجال 2/183 ,184
وقال النوبختي: السبئيه قالوا بامامه علي, وانها فرض من الله عز وجل, وهم أصحاب عبدالله بن سبأ , وكان ممن أظهر الطعن على ابي بكر وعمر وعثمان والصحابة, وتبرأ منهم, وقال: ان عليا عليه السلام أمره بذلك.فاخذه علي فساله عن قوله هذا, فأقر به, فأمر بقتله, فصاح الناس اليه: يا أمير المؤمنين أتقتل رجلا يدعوا الى حبكم أهل البيت, والى ولايتك والبراءة من أعدائك؟ فصيره الى المدائن.

وحكى جماعه من اهل العلم أن عبد الله بن سبأ كان يهوديا فأسلم, ووالى عليا, وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون بعد موسى عليه السلام بهذه المقالة, فقال في اسلامه في علي بن أبي طالب بمثل ذلك, وهو أول من شهر القول بفرض امامة علي وأظهر البراءه من اعدائه. فمن هنا قال من خالف الشيعة: ان اصل الرفض مأخوذ من اليهودية
-فرق الشيعة ص 32-44

وقال سعد بن عبد الله الأشعري القمي في معرض كلامه عن السبئية: السبئية أصحاب عبد الله بن سبأ, وهو عبدالله بن وهب الراسبي الهمداني, وساعده على ذلك عبدالله بن خرسي وابن اسود وهما من أجل الصحايه, وكان أول من أظهر الطعن على أبي بكر وعمر وعثمان والصحابة وتبرأ منهم.
-المقالات والفرق ص 20

وذكر ابن ابي حديد أن عبدالله بن سبأ قام الى علي وهو يخطب فقال له:أنت أنت, وجعل يكررها, فقال له علي : ويلك من أنا, فقال : أنت الله. فأمر بأخذه وأخذ قوم كانوا معه على رايه.
-شرح نهج البلاغة 5/5

( قال عبد الله بن سبا لعلي : أنت الاله حقا, فنفاه علي الى المدائن , وقيل انه كان يهوديا فأسلم, وكان في اليهودية يقول في يوشع بن نون وموسى مثل ماقال في علي.
-الأنوار النعمانية 2/234
نستفيد من النصوص السابقه الاتي:
1- اثبات شخصية عبدالله بن سبأ ووجود فرقة تناصره وتنادي بقوله وهذه الفرقه تعرف بالسبئية.
2- ان بن سبأ هذا مان يهوديا فأظهر الاسلام وهو وان اظهر الاسلام الا ان الحقيقة انه بقلى على يهوديتة واخذ يبث سمومه من خلال ذلك.
أنه هو الذي أظهر الطعن في ايو يكر وعمر وعثمان والصحاية وكان اول من قال بذلك وهو أول من قال بامامة علي بن ابي طالب وهو الذي قال بان علي وصي النبي وأنه نقل هذا القول عن اليهودية وانه ما قال هذا الا محبة للأهل البيت ودعوه لولايتهم والتبرؤ من أعدائهم وهم الصحابة ومن والاهم بزعمه.
اذن شخصية عبدالله بن سبا حقيقة لا يمكن تجاهلها او انكارها وورد الاثبات من كتبهم التي يرجعون اليها وكتبنا التي نرجع نحن اليها.
ومن هذه المصادر
الغارات للثقفي, رجال الطوسي, الرجال للحلي, قاموس الرجال للتسري, دائرة المعارف, الكنى والالقاب لعباس القمي, حل الاشكال لاحمد بن طاووس, الرجال لابن داود, جامع الرواه للمقدسي, مناقب ال ابي طالب لابن شهر أشوب, مراه الانوار لمحمد بن طاهر العاملي.

http://www.dd-sunnah.net/forum/showthread.php?t=940
 
Last edited:

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اس کا اگر آپ کو کوئی جواب نہ دے سکے تو آسان سا حل ہے کہ ’’ عبد اللہ بن سبا کوئی حقیقی کردار نہیں بلکہ یہ اہل روایت کی قصے کہانیاں ہیں ‘‘ کیونکہ اگر اس کی کوئی حقیقت ہوتی یقینا اس کے انجام بھی علم ہونا ضروری ہے ۔
سبحان اللہ ، یہ ہیں اصول درایت ۔

چودہ سو سال ہوئے سب ابن سبا کے وجود کو تسلیم کرتے رہے اب اس صدی میں کچھ سنی مصری محققین اور کچھ شیعہ محققین نے یہ حل ڈھونڈا کہ نہ ہو گا بانس نہ بجے گی بانسری لہذا شیعہ عقائد کو ابن سبا سے نسبت کی بجائے
اس کا سراسر انکار ہی کر دیا جائے

اس سلسلے میں ان کی دلیل ہے کہ ابن سبا کی روایت ایک راوی سیف بن عمر نقل کرتا ہے جو ضعیف ہے لیکن الذھبی کہتے ہیں

سيف إخباريا عارفا


سیف خبر والا جاننے والا ہے


ابن ھجر کہتے ہیں

ضعيف في الحديث عمدة في التاريخ


حدیث میں ضعیف ہے لیکن تاریخ میں عمدہ ہے


ہماری تحقیق کے مطابق ابن سبا کا تذکرہ صرف سیف بن عمر ہی نہیں کرتا اور بھی کرتے ہیں مثلا ابن ھجر نے اس کا ذکر ان اسناد سے بھی کیا ہے جن میں سیف نہیں ہے- خود کتب شیعہ جو رجال روایت پر ہیں ان میں اس کا ذکر ہے جیسے رجال کشی اس کے علاوہ اہل سنت کی جرح و تعدیل کی کتب میں بہت سے راوی خود کو سبائی کہتے ہیں لہذا فرضی کردار کیسے ہوا

بہت سے صحابہ کی وفات و انجام کا تذکرہ نہیں ملتا کیا اس بنیاد پر ان کی تمام احادیث اور تاریخی روایات رد کی جائیں گی؟ یہ تو سراسر حماقت ہو گی

اگر اپ عربی سے واقف ہیں تو اس کتاب کو دیکھ سکتے ہیں

ابن سباحقیقه لا خیال

[URL]http://islamhouse.com/ar/books/391775/[/URL]

ایک اور کتاب بھی ہے
عبد الله بن سبأ اليهودي اليماني بين الحقيقة والخيال
د. سامي عطا حسن
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
لیں میرے بھائیوں میں حبیب الرحمن کاندھلوی کی کتاب سے کچھ صفحات جو میرے ایک ساتھی نے مجھے سکین کر کے بھیجے ہیں وہ یہاں پوسٹ کر رہا ہوں اب باقی دور دور کی ساری باتیں ترک کر کے ان مشتملات پر بحث کریں تاکہ عنوان کا کچھ حق ادا ہو سکے
 

اٹیچمنٹس

Top