صدیوں پر محیط محدثین کی علمی و منہجی کوششوں او رکاوشوں کو آپ ’’ روایت پرستی ‘‘ کہہ کر رد کردیتے ہیں ، جبکہ دوسری طرف آپ کی تحقیق کا یہ عالم ہے کہ کسی معاصر مصنف کی بات اس کی کتاب سے نقل کرنے کی بجائے گمراہ لوگوں پر اعتماد کرلیتے ہیں ۔
شیخ البانی رحمہ اللہ تعالی پردے کے منکر نہیں تھے جیساکہ آپ باور کروا رہے ہیں ، وہ پردے کو مستحب اور سنت سمجھتے تھے ، اس کے واجب اور ضروری ہونے کے قائل نہیں تھے ۔ اور یہی وجہ ہے کہ شیخ البانی رحمہ اللہ کے گھر کی خواتین پردہ کیا کرتی تھیں ۔
اشراقیوں نے جس کتاب کی مجمل عبارت کا حوالہ دیا ہے اور آپ نے اس پر اندھا دھند اعتماد کرلیا ہے اسی کتاب کے مقدمہ کو پڑھنے کی زحمت کریں تو صراحتا شیخ البانی رحمہ اللہ رحمہ اللہ کا موقف مل جائے گا کہ وہ پردے کے ’’ مستحب یا سنت ‘‘ ہونے کے منکر نہیں تھے ۔
اشراق کی عبارت یہ ہے :
اب شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کتاب کا جونام رکھا ہے اس کا اسکین ملاحظہ فرمائیں :
11008 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
( جلباب المرأۃ المسلمۃ ص 5 ط دار السلام للنشر و التوزیع )
گویا اشراق والوں نے مطلب کی عبارت کا استعمال کیا ہے اور شیخ کی مکمل عبارت کو نقل ہی نہیں کیا ۔ آپ بھی محدثین کی تحقیقات پر نظرثانی میں مصروف ہوئے کہ اشراق والوں سے دھوکا کھاکر اصل کتاب کی طرف دیکھنے کی زحمت ہی نہیں کی اور شیخ البانی رحمہ اللہ کو ’’ منکرین پردہ ‘‘ میں شمار کرکے محدثین کے خلاف مہم بازی میں ایک پوائنٹ کا اضافہ فرمالیا ۔
اس نکتہ کو اٹھا کر ان حضرات کے تحقیقی معیار کو اراکین کے سامنے لانا تھا جو ’’ محدثین ‘‘ کے منہج کو ’’ روایت پرستی ‘‘ ، ’’ تقلید ‘‘ وغیرہ قرار دیتے ہیں ۔
باقی اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا موقف پردے کے بارے میں جمہور علماء سے ہٹ کر ہے ، اور ان کی اس غلطی کو ان کی زندگی میں ہی کئی ایک علماء نے واضح کردیا تھا ، اور اہل حدیث میں سے شاید کوئی بھی شیخ البانی رحمہ اللہ کے اس موقف پر عمل پیرا نہیں ہے ، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اہل حدیث کسی کی اندھا دھند تقلید نہیں کرتے ۔