مفتی مبشر احمد ربانی کے اشکالات اور ان کے ازالہ جات
اشکال:
جسے کافر کہا جائے وہ نہ ہو تو کہنے والا کافرہے
مفتی صاحب حدیث بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:«مَنْ کَفَّرَ أَخَاہُ فَقَدْ بَاءَ بِھَا أَحَدُھُمَا………»’’جس نے اپنے بھائی کو کافر قرار دیا تو اس کفر کے فتوے کے ساتھ دونوں میں سے ایک شخص پرضرور پلٹے گا۔‘‘ یا وہ شخص جس کو کافر قرار دیا گیا، وہ ہو گا ۔ اگر وہ کافر نہیں ہے تو یہ فتویٰ اُس کفر کا فتویٰ لگانے والے شخص کو لوٹ آئے گا۔
ازالہ:
کیا دلیل کے ساتھ کافر کہنے والے کا بھی یہی معاملہ ہے؟
مفتی صاحب سے سوال ہے کہ کیا یہ حدیث مطلق طور پر اور ہر حالت میں کلمہ گو کو کافر کہنے سے منع کرتی ہے یا صرف بغیر دلیل کے تکفیر سے روکتی ہے؟!نیز کیامتعدد نواقضِ اسلام کے مرتکب اور اپنے شرکیہ ا ور کفریہ اقوال و افعال کا کھلم کھلا اظہار کرنے والے لوگ بھی
«أَخَاہُ» میں داخل ہیں؟!
اگر آپ کہیں کہ دلیل کے ساتھ ہم کسی کو کافر توکہہ دیں مگر ہماری دلیل صحیح نہ ہو اور وہ مخاطب کافر نہ ہو تو پھرکیا اس حدیث کے مطابق متکلم خود کافرنہیں ہوجائے گا؟ تو عرض ہے کہ ایساہرگز نہیں ہے کیونکہ اگر ایک عالم کے اصول وقواعد اہل سنت والے ہیں ،وہ جب دلیل کے ساتھ کسی کو کافر کہتا ہے تو غلطی ہوجانے کی صورت میں وہ کافر تو درکنار، گناہ گار بھی نہیں ہوتا۔ مثلاً سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جب حاطب رضی اللہ عنہ کو کفر کامرتکب اور گردن زدنی کے قابل قرار دیا تو آپ ﷺنے یہ نہیں کہا کہ ’’جو کسی بھائی کو کافر کہتا ہے تو ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر ہو جاتا ہے۔‘‘
ائمہ اورشارحینِ حدیث نے یہ بات صراحت سے لکھی ہے کہ مسلمان کی تکفیر کے بارے میں متأول کا حکم دوسرے سے قطعی مختلف ہوتا ہے۔ امام بخارینے صحیح بخاری میں ان الفاظ میں باب قائم کیا ہے:
بَابُ مَنْ أَکْفَرَ أَخَاہُ بِغَیْرِ تَأْوِیلٍ فَھُوَ کَمَا قَالَ
’’جس نے بغیر تاویل کے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو وہ خود ویسا ہی ہے جیسا کہ اس نے کہا۔‘‘ (صحیح البخاري،قبل الحدیث:6103.)
حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں:
’’امام بخاری نے اس مطلق خبر کو اس بات کے ساتھ مقید کیا ہے کہ جب یہ کہنے والے سے بغیر تاویل کے صادر ہو (جب تاویل کے ساتھ کسی کو کافر کہے گا تو کافر نہیں ہوگا)۔‘‘ (فتح الباري : 632/10، طبع دارالسلام.)
علامہ عینی حنفی لکھتے ہیں:
’’امام بخاری نے اس کو تاویل کے ساتھ اس لیے مقیدکیا ہے کہ جب وہ تاویل کے ساتھ کسی مسلمان کی تکفیر کرے گا تو معذور ہوگا، گناہ گار نہیں ہوگا،اسی لیے جب عمر نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کی طرف نفاق کی نسبت کی تو نبیﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو تاویل ہی کی وجہ سے معذور سمجھا(آپﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو ایک بدری صحابی کو کافرکہنے کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا کیونکہ انہوں نے تاویل کے ساتھ ایسا کیا تھا)۔‘‘ (عمدةالقاري :715/22)
امام نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
’’اہل حق کا مذہب یہ ہے کہ مسلمان قتل اور زنا جیسے گناہوں کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، اسی طرح اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہنے کی وجہ سے بھی اس وقت تک کافر نہیں ہوتا جب تک وہ دین اسلام کے باطل اور جھوٹا ہونے کا عقیدہ نہ رکھتا ہو۔‘‘ (شرح مسلم للنووي : 65/2)
دیگر محقق علماء کا ایک اور موقف
اس کے علاوہ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلتے ہیں کہ دیگر بہت سارے علماء اور محققین نے مذکورہ بالا حدیث کو قرینہ صارفہ کی وجہ سے اس کے ظاہری معنی کی بجائے زجرو توبیخ اور تشدید و تغلیظ پر محمول کیا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائی کو دلیل اور تاویل کے بغیر بھی کافر کہہ دیتا ہے، تب بھی وہ نہ تو کفرِ اکبر کا مرتکب ہو گا اور نہ ملت ہی سے خارج ہوگا۔ اس موقف کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جس میں نبی کریمﷺ نے فرمایا:
«مَنْ رَّمٰی مُؤْمِنًا بِکُفْرٍ فَھُوَ کَقَتْلِہِ»
’’جس نے کسی مومن پر کفر کا الزام لگایا تو وہ اسے قتل کرنے کے برابر ہے۔‘‘ (المعجم الکبیر للطبراني:22 /177، حدیث:460، و صحیح الجامع الصغیر، حدیث:6269.)
اس حدیث میں وجہ دلالت یہ ہے کہ آپ نے مسلمان کو کافر کہنے کو اس کے قتل کے برابر قرار دیا ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ کسی مسلمان کو قتل کرنا اس پر کفر کا حکم لگانے سے زیادہ سخت ہے ، جبکہ قتل بالاتفاق کفر و شرک کی نسبت کم تر اور ہلکا گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
«وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ»
’’فتنہ (شرک)قتل سے زیادہ سخت(گناہ)ہے۔‘‘
«وَالْفِتْنَةُ أَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ»
’’فتنہ (شرک)قتل سے کہیں بڑا (گناہ )ہے۔‘‘
پس واضح ہوا کہ شرعی دلیل اور معتبر تاویل کے بغیر کسی مسلمان کو کافر کہنا صرف ناجائز ہی نہیں بلکہ بہت بڑا گناہ ہے۔اس سے توبہ اور استغفارکرنا لازم ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے آدمی کافر اور دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا۔
امام بخاری نے گزشتہ باب کے بعد بایں الفاظ باب قائم کیاہے:
بَابُ مَنْ لَّمْ یَرَ اِکْفَارَ مَنْ قَالَ ذٰلِکَ مُتَأَوِّلاً أَوْجَاھِلاً، وَقَالَ عُمَرُلِحَاطِبِ بْنِ أَبِي بَلْتَعَةَ:اِنَّہٗ نَافَقَ ،فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ:«وَمَا یُدْرِیکَ لَعَلَّ اللّٰہَ قَدِ اطَّلَعَ اِلٰی أَھْلِ بَدْرٍ فَقَالَ: قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ»
’’جو ایسے شخص کو کافر نہیں سمجھتا جس نے تاویل کرتے ہوئے یا جہالت کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر کہا ،اور عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا کہ وہ منافق ہوگئے ہیں تو نبیﷺنے عمر سے فرمایا:”تجھے کیا معلوم کہ اللہ تعالیٰ نے اہل بدر کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا ہے کہ میں نے تم کو معاف کر دیا ہے۔‘‘ (صحیح البخاري، قبل الحدیث:6106.)
درج بالاترجمۃ الباب سے واضح ہوتا ہے کہ امام بخاری سمجھتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ نے حاطب رضی اللہ عنہ کی تکفیر کی ہے اور انھیں ملت سے خارج کر دینے والے کفر کا مرتکب ٹھہرایا ہے لیکن اس کے باوجود نبیﷺنے عمر رضی اللہ عنہ کو مذکورہ حدیث کی بنا پر کافر قرار نہیں دیا کیونکہ انھوں نے تاویل اور دینی غیرت کی وجہ سے حاطب کو کافر قرار دیا تھا۔ ( صحیح البخاری بشرح الکرمانی :227/21)
صحیح بخاری کے شارح کرمانیلکھتے ہیں:
[MENTION](جاری ہے)[/MENTION]