• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسئلہ - پیشاب سے سورہ فاتحہ لکھنا

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
@خضر حیات بھائی
بندہ نے عرض کیا تھا کہ اگر جوش و جذبات سے بحث کرنی ہے تو بندہ معذور ہے۔ آپ اوپر خود ملاحظہ فرمالیں۔ کاش کہ یہ حضرات میری بات کا رد فرما دیتے۔

@راجا فتاوی عالمگیری کا اسکین دیجیے اور معتبر حنفی علماء سے یہ ثابت کیجیے کہ یہ مفتی بہ قول ہے۔
اور ذرا یہ عبارت پوری دیکھیے:۔

واختلف في الاسترقاء بالقرآن نحو أن يقرأ على المريض والملدوغ أو يكتب في ورق ويعلق أو يكتب في طست فيغسل ويسقى المريض فأباحه عطاء ومجاهد وأبو قلابة وكرهه النخعي والبصري كذا في خزانة الفتاوى.
فقد ثبت ذلك في المشاهير من غير إنكار والذي رعف فلا يرقأ دمه فأراد أن يكتب بدمه على جبهته شيئا من القرآن قال أبو بكر الإسكاف يجوز. وكذا لو كتب على جلد ميتة إذا كان فيه شفاء كذا في خزانة المفتين.


یہ بیچ میں اتنا بڑا "و" آپ کو نظر آ رہا ہے؟ فقد ثبت ذالک پچھلی عبارت کے بارے میں کہا ہے اور "و" استینافیہ یا عاطفہ ہے۔ دونوں صورتوں میں پچھلی عبارت سے یہ الگ ہو جاتا ہے اور ترجمہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
راجا ذرا اس کا ترجمہ کرنا۔
مجھے کہا تھا کہ آپ اپنے علماء کی روش پر چل نکلے ہیں۔ اور خود یہ کس خائن کی روش اختیار کر رہے ہیں؟؟؟
فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت کے ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو بندہ دست بستہ معذرت طلب کر لے گا آپ سے۔
@خضر حیات بھائی توثیق فرما دیں فقط۔
میرے پاس اس کا اسکین موجود نہیں ہے۔ کہیں اور سے نقل کر کے لکھا تھا۔ @lovelyalltime متوجہ ہوں۔

اگر ترجمہ غلط ہوا تب بھی یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر الاسکاف نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ہمارا مدعا اس سے بھی ثابت ہے۔
گویا جو احناف علماء ایسے غلیظ و کریہہ عقیدے کے حامل ہیں کہ خون یا پیشاب سے قرآن لکھنے کو جائز و درست قرار دیتے ہیں، اگرچہ ان کے قول پر فتویٰ نہ بھی ہو، خود ان پر فتویٰ کیا لگے گا یہ آپ ارشاد فرما دیں۔
اگر آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ایک ثواب کے حقدار ہیں تو ہم آپ سے دلیل کے طالب ہیں۔ اگر آپ فرمائیں کہ یہ لوگ سخت گناہ گار ہیں اور عنداللہ سخت مجرم ہیں، تو ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔
آپ باقی پوسٹ کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے۔ کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے جو قرآن کی توہین کر رکھی ہے ، وہ بھی ایک ثواب کے حق دار ہیں؟
تو غلام احمد پرویز بے چارے کا کیا قصور تھا کہ اسے مجرم بنا کر کافر قرار دے دیا ، یہی نا کہ اس نے دین کے مبادیات میں اختلاف کیا تھا۔
کیا توہین قرآن پر مسلمانوں کی کوئی دو رائے ہیں؟ بلکہ سرعام توہین کرنے والے کے کفر پر تو علمائے دیوبند بھی متفق ہیں، چاہے نہایت غصے کی حالت میں ہو۔ مثلا یہ فتویٰ ملاحظہ کریں:

May 09,2010​
Answer: 21584​
فتوی(ل): 803=550-5/1431

قرآن کریم کے نسخوں کو فرش پر پھینکنا اور قرآن کریم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہنا نہایت سخت گناہ اور قرآن کی بے حرمتی وتوہین ہے اور قرآن کی توہین کرنے سے ایمان سلامت نہیں رہتا، آدمی کافر ہوجاتا ہے لہٰذا اس عورت کو توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرانا بھی ضروری ہے: وفي تتمة الفتاوی: من استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم الشرع کفر (شرح فقہ اکبر، فصل في القراء ة والصلاة ص:۲۰۵، اشرفی بکڈپو)

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


اب یہ فرمائیے کہ سخت غصے میں قرآن کریم کو فرش پر پھینک دینے سے تو انسان کافر ہو جائے اور حقیقی کافر ہو جائے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری قرار پائے۔
اور اسی قرآن کو پیشاب سے ، خون سے لکھنے کا فتویٰ دینے والے کے بارے میں "ثواب کی بشارت" ہو۔ یہ کیسی منصفی ہے؟

آپ اپنے اکابرین کے دفاع میں کتنا آگے نکل جاتے ہیں، آپ کو قرآن کی حرمت کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ اکابرین کی حرمت اس پر متقدم ہو جاتی ہے۔ یہ کیسا ایمان ہے؟
مان لیا کہ تداوی بالمحرم جائز ہے، لیکن پیشاب سے فاتحہ لکھنے سے کون سی بیماری دور ہو سکتی ہے؟ کوئی انتہائی رذیل و کمینہ خصلت شخص جس میں ایمان کی رتی برابر رمق بھی موجود ہے تو وہ ایسا خیال آنے پر بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ مجھے بار بار یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی شدید تکلیف ہو رہی ہے، نہ جانے آپ ایسے فقہاء کا دفاع کر کے کیسے رات کو چین کی نیند سوتے ہوں گے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت کے ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو بندہ دست بستہ معذرت طلب کر لے گا آپ سے۔
@خضر حیات بھائی توثیق فرما دیں فقط۔
میرے پاس اس کا اسکین موجود نہیں ہے۔ کہیں اور سے نقل کر کے لکھا تھا۔ @lovelyalltime متوجہ ہوں۔

اگر ترجمہ غلط ہوا تب بھی یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ ابوبکر الاسکاف نے اسے جائز قرار دیا ہے۔ہمارا مدعا اس سے بھی ثابت ہے۔
گویا جو احناف علماء ایسے غلیظ و کریہہ عقیدے کے حامل ہیں کہ خون یا پیشاب سے قرآن لکھنے کو جائز و درست قرار دیتے ہیں، اگرچہ ان کے قول پر فتویٰ نہ بھی ہو، خود ان پر فتویٰ کیا لگے گا یہ آپ ارشاد فرما دیں۔
اگر آپ فرماتے ہیں کہ یہ لوگ ایک ثواب کے حقدار ہیں تو ہم آپ سے دلیل کے طالب ہیں۔ اگر آپ فرمائیں کہ یہ لوگ سخت گناہ گار ہیں اور عنداللہ سخت مجرم ہیں، تو ہمارے بیچ کوئی اختلاف نہیں۔
آپ باقی پوسٹ کے بارے میں بھی کچھ ارشاد فرمائیے۔ کہ اشرف علی تھانوی صاحب نے جو قرآن کی توہین کر رکھی ہے ، وہ بھی ایک ثواب کے حق دار ہیں؟
تو غلام احمد پرویز بے چارے کا کیا قصور تھا کہ اسے مجرم بنا کر کافر قرار دے دیا ، یہی نا کہ اس نے دین کے مبادیات میں اختلاف کیا تھا۔
کیا توہین قرآن پر مسلمانوں کی کوئی دو رائے ہیں؟ بلکہ سرعام توہین کرنے والے کے کفر پر تو علمائے دیوبند بھی متفق ہیں، چاہے نہایت غصے کی حالت میں ہو۔ مثلا یہ فتویٰ ملاحظہ کریں:

May 09,2010

Answer: 21584​
فتوی(ل): 803=550-5/1431

قرآن کریم کے نسخوں کو فرش پر پھینکنا اور قرآن کریم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہنا نہایت سخت گناہ اور قرآن کی بے حرمتی وتوہین ہے اور قرآن کی توہین کرنے سے ایمان سلامت نہیں رہتا، آدمی کافر ہوجاتا ہے لہٰذا اس عورت کو توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرانا بھی ضروری ہے: وفي تتمة الفتاوی: من استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم الشرع کفر (شرح فقہ اکبر، فصل في القراء ة والصلاة ص:۲۰۵، اشرفی بکڈپو)

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اب یہ فرمائیے کہ سخت غصے میں قرآن کریم کو فرش پر پھینک دینے سے تو انسان کافر ہو جائے اور حقیقی کافر ہو جائے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری قرار پائے۔
اور اسی قرآن کو پیشاب سے ، خون سے لکھنے کا فتویٰ دینے والے کے بارے میں "ثواب کی بشارت" ہو۔ یہ کیسی منصفی ہے؟

آپ اپنے اکابرین کے دفاع میں کتنا آگے نکل جاتے ہیں، آپ کو قرآن کی حرمت کا کوئی خیال نہیں رہتا۔ اکابرین کی حرمت اس پر متقدم ہو جاتی ہے۔ یہ کیسا ایمان ہے؟
مان لیا کہ تداوی بالمحرم جائز ہے، لیکن پیشاب سے فاتحہ لکھنے سے کون سی بیماری دور ہو سکتی ہے؟ کوئی انتہائی رذیل و کمینہ خصلت شخص جس میں ایمان کی رتی برابر رمق بھی موجود ہے تو وہ ایسا خیال آنے پر بھی اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ مجھے بار بار یہ الفاظ لکھتے ہوئے بھی شدید تکلیف ہو رہی ہے، نہ جانے آپ ایسے فقہاء کا دفاع کر کے کیسے رات کو چین کی نیند سوتے ہوں گے۔
حالت اضطرار کا حکم الگ ہوتا ہے۔
اسی لیے عرض کیا ہے کہ میری پوسٹ دوبارہ پڑھیں اور اس کا رد کرنا ہو تو کیجیے۔

باقی ابو بکر اسکاف کا قول ہونے سے یہ مفتی بہ قول نہیں ہوتا۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
فتاویٰ عالمگیری کی اس عبارت کے ترجمہ میں اگر کوئی غلطی ہوئی ہے تو بندہ دست بستہ معذرت طلب کر لے گا آپ سے۔
@خضر حیات بھائی توثیق فرما دیں فقط۔
جی راجا بھائی میں نے فتاوی ہندیہ (عالمگیری) کی مراجعت کی ہے تو معلوام ہوا ہے کہ ’’ فقد ثبت ذلک فی المشاہیر من غیر إنکار‘‘ والی عبارت کا تعلق ما قبل سے ہے نہ کہ ما بعد سے ۔ واللہ اعلم۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
جی راجا بھائی میں نے فتاوی ہندیہ (عالمگیری) کی مراجعت کی ہے تو معلوام ہوا ہے کہ ’’ فقد ثبت ذلک فی المشاہیر من غیر إنکار‘‘ والی عبارت کا تعلق ما قبل سے ہے نہ کہ ما بعد سے ۔ واللہ اعلم۔
جزاکم اللہ خیرا خضر حیات بھائی
اور اشماریہ بھائی سے معذرت کہ کم علمی کی وجہ سے یہ سنگین غلطی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ معاف فرمائیں۔
 

متلاشی

رکن
شمولیت
جون 22، 2012
پیغامات
336
ری ایکشن اسکور
412
پوائنٹ
92
May 09,2010

Answer: 21584​
فتوی(ل): 803=550-5/1431

قرآن کریم کے نسخوں کو فرش پر پھینکنا اور قرآن کریم کے بارے میں توہین آمیز باتیں کہنا نہایت سخت گناہ اور قرآن کی بے حرمتی وتوہین ہے اور قرآن کی توہین کرنے سے ایمان سلامت نہیں رہتا، آدمی کافر ہوجاتا ہے لہٰذا اس عورت کو توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے اور تجدیدِ ایمان اور تجدیدِ نکاح کرانا بھی ضروری ہے: وفي تتمة الفتاوی: من استخف بالقرآن أو بالمسجد أو بنحوہ مما یعظم الشرع کفر (شرح فقہ اکبر، فصل في القراء ة والصلاة ص:۲۰۵، اشرفی بکڈپو)

واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

اب یہ فرمائیے کہ سخت غصے میں قرآن کریم کو فرش پر پھینک دینے سے تو انسان کافر ہو جائے اور حقیقی کافر ہو جائے کہ تجدید ایمان و تجدید نکاح ضروری قرار پائے۔
اور اسی قرآن کو پیشاب سے ، خون سے لکھنے کا فتویٰ دینے والے کے بارے میں "ثواب کی بشارت" ہو۔ یہ کیسی منصفی ہے؟
راجا بھائی آپ کی گرفت بہت اچھی ہے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ قرآن کی کچھ آیات اگر کسی صفحہ پر لکھی ہوں تو کیا اُس صفحہ کو قرآن کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ سوال میں تو قرآن کا ذکر ہے جبکہ جس مسلہ میں بحث ہو رہی ہے اُس میں قرآن لکھنے کا ذکر نہیں ہے۔
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
راجا بھائی آپ کی گرفت بہت اچھی ہے لیکن یہ بات مجھے سمجھ نہیں آئی کہ قرآن کی کچھ آیات اگر کسی صفحہ پر لکھی ہوں تو کیا اُس صفحہ کو قرآن کہہ سکتے ہیں؟ کیونکہ سوال میں تو قرآن کا ذکر ہے جبکہ جس مسلہ میں بحث ہو رہی ہے اُس میں قرآن لکھنے کا ذکر نہیں ہے۔
بھائی آپ کی بات درست ہے۔ زیر بحث مسئلہ میں مکمل قرآن لکھنے کی نہیں، بلکہ فقط فاتحۃ الکتاب لکھنے کی بات کی گئی ہے۔
لیکن اصل پوائنٹ یہ تھا کہ اگر قرآن کو فرش پر پھینک دینا توہین ہے اور انسان کو حقیقی کافر بنا دیتا ہے۔
تو پیشاب سے قرآن کا بعض حصہ لکھنا ، کیا مکمل قرآن کو فرش پر پھینک دینے سے بڑھ کر توہین نہیں ؟ کیا ایسا انسان جو اس توہین آمیز کام کے جواز کا فتویٰ دے، اس کو مجتہد قرار دے کر اسے ایک حصہ ثواب کی بشارت کی نوید سنانی چاہئے یا اس سے توبہ کروانی چاہئے؟

اشماریہ صاحب بار بار فرماتے ہیں کہ یہ ان کے مذہب کا مفتی بہ مسئلہ نہیں۔
لیکن ہم ان کی غیرت کو آواز دیتے ہیں کہ آپ کے جن فقہاء نے یہ غیر مفتی بہ مسئلہ پیش فرمایا ہے، ان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ بلکہ انہیں ثواب کا حقدار کس دلیل کی بنا پر ٹھہرا رہے ہیں؟
کیا قرآن کی توہین ان کے نزدیک ایسی ہی معمولی بات ہے اور اکابرین کا دفاع ایسی ہی اونچی چیز ہے؟؟؟!!

یہ ہے اصل نکتہ اختلاف۔ جس کا جواب اشماریہ صاحب دیتے نہیں اور ادھر ادھر کی فضول بھرتی میں الجھائے رکھتے ہیں!
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی آپ کی بات درست ہے۔ زیر بحث مسئلہ میں مکمل قرآن لکھنے کی نہیں، بلکہ فقط فاتحۃ الکتاب لکھنے کی بات کی گئی ہے۔
لیکن اصل پوائنٹ یہ تھا کہ اگر قرآن کو فرش پر پھینک دینا توہین ہے اور انسان کو حقیقی کافر بنا دیتا ہے۔
تو پیشاب سے قرآن کا بعض حصہ لکھنا ، کیا مکمل قرآن کو فرش پر پھینک دینے سے بڑھ کر توہین نہیں ؟ کیا ایسا انسان جو اس توہین آمیز کام کے جواز کا فتویٰ دے، اس کو مجتہد قرار دے کر اسے ایک حصہ ثواب کی بشارت کی نوید سنانی چاہئے یا اس سے توبہ کروانی چاہئے؟

اشماریہ صاحب بار بار فرماتے ہیں کہ یہ ان کے مذہب کا مفتی بہ مسئلہ نہیں۔
لیکن ہم ان کی غیرت کو آواز دیتے ہیں کہ آپ کے جن فقہاء نے یہ غیر مفتی بہ مسئلہ پیش فرمایا ہے، ان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ بلکہ انہیں ثواب کا حقدار کس دلیل کی بنا پر ٹھہرا رہے ہیں؟
کیا قرآن کی توہین ان کے نزدیک ایسی ہی معمولی بات ہے اور اکابرین کا دفاع ایسی ہی اونچی چیز ہے؟؟؟!!

یہ ہے اصل نکتہ اختلاف۔ جس کا جواب اشماریہ صاحب دیتے نہیں اور ادھر ادھر کی فضول بھرتی میں الجھائے رکھتے ہیں!
راجا بھائی۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے اپنی غلطی مان لی۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
آپ نے جہالت کا لفظ استعمال کیا۔ اگر اس سے آپ کی مراد ان علوم سے جہالت ہے تو پھر تو آپ کو اس قسم کی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔
بہرحال

آپ بار بار یہ بات فرما رہے ہیں:۔
لیکن ہم ان کی غیرت کو آواز دیتے ہیں کہ آپ کے جن فقہاء نے یہ غیر مفتی بہ مسئلہ پیش فرمایا ہے، ان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ بلکہ انہیں ثواب کا حقدار کس دلیل کی بنا پر ٹھہرا رہے ہیں؟
میں اس کا جواب دوبارہ دوں، اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ ماقبل میں پوسٹ غور سے دوبارہ پڑھ لیں۔ ان کا دفاع میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میں آپ حضرات کی طرح اپنے علاوہ سب کو جاہل، کافر وغیرہ نہیں سمجھتا۔ (آپ کے طرز سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔)
ایک عالم نے اگر کوئی بات کی ہے تو کچھ سوچ کر کی ہوگی نہ کہ ایسے ہی۔ کیا یہ اتنی ہی معمولی بات ہے کہ اس نے کر دی؟؟ تو میں نے ان کی دلیل اور ان کا طرز استدلال و استنباط واضح کیا ہے۔
باقی یہ ہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اسے اجتہادی خطا کہا جاتا ہے اور اس غلطی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس شخص پر یا اس کے موقف پر "طعن" بھی نہیں کیا جاتا۔ کرنا ہو تو رد کر لیا جاتا ہے۔
حافظ محمد بن طاہر المقدسی پر الزام ہے امرد کی جانب دیکھنے کی اباحت کا۔ اور ان کا دفاع علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں کیا ہے۔ اسے کبھی پڑھ کر دیکھیے۔ اس کا انداز بالکل یہی ہے۔ صرف ان کی سوچ کا دفاع یہ کہہ کر یہ قول ظاہریہ کا ہے اور مرجوح ہے۔
ان کی ذات کو متہم نہیں کیا نہ ان پر طعن کیا اس وجہ سے۔ حالاں کہ اباحت سماع اور اباحت نظر الی المرد علامہ ذہبی اور اکثر کے مسلک کے خلاف ہے۔
یہ طرز ہوتا ہے علماء معتدلین کا۔

میں نے یہاں ان کے قول کو غیر مفتی بہ یعنی مرجوح کہا ہے۔ اور ساتھ میں ان کے اس قول کی وجہ بتائی ہے۔ دین میں یہ باتیں دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہیں نہ کہ جذبات کی۔ دلیل کے لحاظ سے ان کی بات قوی معلوم نہ ہوئی تو قول مرجوح ہو گیا۔ لیکن ان کے نزدیک تو قوی تھی تو ان پر طعن کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ سوچ کر چھوڑ دیتے کہ جذبات کے مطابق نہیں ہے؟؟
اب اس کے بعد ٹھنڈے دماغ سے دوبارہ پوری پوسٹ پڑھیے۔ میں کچھ مقامات ہائیلائٹ بھی کر رہا ہوں۔ اضافہ جات بھی پڑھ لیجیے گا:۔

میں نے ذرا سی سرچ کی تو اس مسئلہ پر مفتی صاحب کی تحریر کے بارے میں جناب شاہد نذیر کی پوسٹس اور ان کے جوابات واضح ہو گئے۔
جو کچھ انہوں نے یہاں پیسٹ کیا ہے وہ دیگر مقامات پر بھی بعینہ کر چکے ہیں لیکن ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس کے لیے یہ تھریڈ ملاحظہ فرما سکتے ہیں:۔
http://pak.net/عمومی-بحث-26-41350/
اس بحث پر عام عوام نے جو تاثرات دیے ہماری آپس کی "جنگ" کے وہ قابل دید ہیں۔ بجائے ہدایت کے ضلال کا سبب ہے۔


میں یہاں اس خاص مسئلے پر بات کرتا ہوں۔ یہ مسئلہ احناف کا مفتی بہ نہیں ہے یعنی احناف کو خود یہ اجتہادی موقف تسلیم نہیں۔
سوال یہ ہے کہ بعض علماء نے یہ موقف کیوں اختیار کیا؟ (یاد رہے اس قسم کے مسائل میں موقف غلط بھی ہو تو ایک ثواب کی امید ہوتی ہے) مراد ظاہر ہے اجتہادی مسائل ہیں۔ اس میں درستگی پر دو اجر اور غلطی پر ایک اجر کی امید ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اضافہ
کفر کا سب سے صریح درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے الفاظ کفر کہہ دے۔ لیکن جب خوف ہلاکت ہو تو ان کا ادا کرنا جائز ہے۔
یہ خوف ہلاکت کسی کے اکراہ سے بھی ہو سکتا ہے اور مرض سے بھی۔ اگر آپ قرآن و حدیث پر ایک نظر ڈالیں تو خوف ہلاکت پر نہ صرف اجراء کلمہ کفر بلکہ بہت سے حرام کام جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جائز کیے گئے ہیں۔
اجراء کلمہ کفر کے بارے میں ارشاد ہے:۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(النحل، آیت 106)
"جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان لانے کے بعد سوائے اس کے جسے مجبور کردیا جائے حالاں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جس کا دل کفر پر کھلا ہو تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"


جصاصؒ فرماتے ہیں:۔
قال أبو بكر هذا أصل في جواز إظهار كلمة الكفر في حال الإكراه والإكراه المبيح لذلك هو أن يخاف على نفسه أو بعض أعضائه التلف إن لم يفعل ما أمره به فأبيح له في هذه الحال أن يظهر كلمة الكفر (احکام القرآن 5۔13 ط دار احیاء التراث العربی)
"یہ حالت اکراہ میں کلمہ کفر کے اظہار کے جواز میں اصل ہے۔ اور اس کو مباح کرنے والا اکراہ وہ ہے کہ اسے اپنی جان یا بعض اعضاء پر ضائع ہونے کا اندیشہ ہو اگر وہ کام نہ کرے جس اسے حکم کیا ہے (مکرِہ) نے۔ تو اس کے لیے اس حالت میں کلمہ کا اظہار کرنا مباح ہے۔"


شوکانیؒ فرماتے ہیں:۔
قال القرطبي: أجمع أهل العلم على أن من أكره على الكفر حتى خشي على نفسه القتل أنه لا إثم عليه إن كفر وقلبه مطمئن بالإيمان (فتح القدیر 3۔235 ط دار ابن کثیر)
"قرطبی کہتے ہیں: اہل علم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جسے کفر پر مجبور کیا جائے حتی کہ اسے اپنے نفس پر قتل کا ڈر ہو تو اگر وہ کفر کرے جب کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے"


اس آیت کی ان تفاسیر میں کسی شخص کے اکراہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں:۔
  1. اس آیت کا شان نزول ایک صحابی ہیں جن کے ساتھ اکراہ کا معاملہ ہوا تھا۔
  2. مرض سے ایسی حالت آنا جس کا علاج کفر میں ہو نادر الوجود ہے۔
لیکن آیت میں کلمہ "اکرہ" مجہول ذکر کیا گیا ہے جو جس طرح کسی انسان کے فعل سے مجبور ہوجانے پر دلالت کرتا ہے اسی طرح قدرت کے فعل سے مجبور ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے کیوں کہ بالاجماع اس کی علت خوف ہلاکت ہے۔
مذکورہ مسئلے میں تداوی بالمحرم کا ذکر ہے اور اس کے لیے اول شرط یہ ہے:۔
ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. (رد المحتار 1۔210 ط دار الفکر)
"نہایہ میں ذخیرہ سے روایت کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم) جائز ہے اگر معلوم ہو کہ اس میں شفا ہے اور کوئی اور دوا معلوم نہ ہو۔"
یہ دو شرطیں ہیں:۔

  1. شفا کا ہونا معلوم ہو۔
  2. دوسری کوئی دوا معلوم نہ ہو۔
چنانچہ ان مذکورہ فقہاء نے (جنہوں نے یہ استدلال کیا ہے) اس حالت میں جب تین شرائط موجود ہوں: نکسیر رک نہ رہی ہو، شفا کا ہونا معلوم ہو اور کوئی دوسری دوا معلوم نہ ہو (اقول: یا مہیا نہ ہو) اسے خوف ہلاکت سمجھ کر اسے جائز قرار دیا ہے۔
ان تین شرطوں میں سے پہلی عقلا معلوم ہو جاتی ہے کہ نکسیر رک جائے تو ضرورت ہی کیا ہے علاج کی اور نکسیر جاری رہے تو ہلاکت یقینی ہوتی ہے اگرچہ وقت میں فرق ہوتا ہے۔
باقی دو اصولی شرائط ذخیرہ کے حوالے سے ذکر کردی گئی ہیں۔

اس مسئلے پر عمل حقیقتا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ شفا کا معلوم ہونا یہ ناممکن ہے۔ یہ ہے وجہ اس کے مرجوح ہونے کی۔ وہ جیسے سمجھتے ہوں گے انہوں نے تو ویسے بیان کیا۔ ہمیں یہ درست نہیں معلوم ہوا۔۔۔۔ اضافہ
(علامہ شامی نے علم کی مراد غلبہ ظن کو قرار دیا ہے لیکن وہ تداوی بالمحرم کے عام مسئلے میں ہے اس جزئیے کے لیے نہیں۔ کیوں کہ یہ بحث کفر ہے اور اس کے لیے یقین شرط ہے ورنہ اظہار کفر کا فائدہ ہی نہیں۔ البتہ بسااوقات یقین کے خلاف بھی نتیجہ نکل آتا ہے جیسے کہ مکرِہ ادائے کفر کے باوجود قتل کردے۔)

یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس قسم کے اقوال کے ذکر سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتی کہ ان میں موجود مسئلے کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے مراد کسی خاص جزئی کی وضاحت و تائید کا حصول ہوتی ہے۔ اس جگہ پر تداوی بالمحرم کی بحث کے دوران "حرام چیز کے استعمال" کے جواز کے مسلک کو ظاہر و واضح کرنے کے لیے یہ قول تحریر کیا گیا ہے نہ اس عمل خاص کے کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لیے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ باوجود اس قول کے ذکر کے اس مسئلہ کو نہ تو اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی بطور مسئلہ کے ذکر کیا گیا ہے۔ گویا کہ یہ ان علماء کا فقط اجتہاد ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
752
پوائنٹ
290
بھائی آپ کی بات درست ہے۔ زیر بحث مسئلہ میں مکمل قرآن لکھنے کی نہیں، بلکہ فقط فاتحۃ الکتاب لکھنے کی بات کی گئی ہے۔
لیکن اصل پوائنٹ یہ تھا کہ اگر قرآن کو فرش پر پھینک دینا توہین ہے اور انسان کو حقیقی کافر بنا دیتا ہے۔
تو پیشاب سے قرآن کا بعض حصہ لکھنا ، کیا مکمل قرآن کو فرش پر پھینک دینے سے بڑھ کر توہین نہیں ؟ کیا ایسا انسان جو اس توہین آمیز کام کے جواز کا فتویٰ دے، اس کو مجتہد قرار دے کر اسے ایک حصہ ثواب کی بشارت کی نوید سنانی چاہئے یا اس سے توبہ کروانی چاہئے؟

اشماریہ صاحب بار بار فرماتے ہیں کہ یہ ان کے مذہب کا مفتی بہ مسئلہ نہیں۔
لیکن ہم ان کی غیرت کو آواز دیتے ہیں کہ آپ کے جن فقہاء نے یہ غیر مفتی بہ مسئلہ پیش فرمایا ہے، ان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ بلکہ انہیں ثواب کا حقدار کس دلیل کی بنا پر ٹھہرا رہے ہیں؟
کیا قرآن کی توہین ان کے نزدیک ایسی ہی معمولی بات ہے اور اکابرین کا دفاع ایسی ہی اونچی چیز ہے؟؟؟!!

یہ ہے اصل نکتہ اختلاف۔ جس کا جواب اشماریہ صاحب دیتے نہیں اور ادھر ادھر کی فضول بھرتی میں الجھائے رکھتے ہیں!
راجا بھائی۔ یہ اچھی بات ہے کہ آپ نے اپنی غلطی مان لی۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔
آپ نے جہالت کا لفظ استعمال کیا۔ اگر اس سے آپ کی مراد ان علوم سے جہالت ہے تو پھر تو آپ کو اس قسم کی بحثوں میں نہیں پڑنا چاہیے۔
بہرحال

آپ بار بار یہ بات فرما رہے ہیں:۔
لیکن ہم ان کی غیرت کو آواز دیتے ہیں کہ آپ کے جن فقہاء نے یہ غیر مفتی بہ مسئلہ پیش فرمایا ہے، ان کا دفاع کیوں کر رہے ہیں؟ بلکہ انہیں ثواب کا حقدار کس دلیل کی بنا پر ٹھہرا رہے ہیں؟
میں اس کا جواب دوبارہ دوں، اس سے بہتر یہ تھا کہ آپ ماقبل میں پوسٹ غور سے دوبارہ پڑھ لیں۔ ان کا دفاع میں اس لئے کر رہا ہوں کہ میں آپ حضرات کی طرح اپنے علاوہ سب کو جاہل، کافر وغیرہ نہیں سمجھتا۔ (آپ کے طرز سے ایسا معلوم ہوتا ہے۔)
ایک عالم نے اگر کوئی بات کی ہے تو کچھ سوچ کر کی ہوگی نہ کہ ایسے ہی۔ کیا یہ اتنی ہی معمولی بات ہے کہ اس نے کر دی؟؟ تو میں نے ان کی دلیل اور ان کا طرز استدلال و استنباط واضح کیا ہے۔
باقی یہ ہے کہ غلطی کسی سے بھی ہو سکتی ہے۔ ایسی صورت میں اسے اجتہادی خطا کہا جاتا ہے اور اس غلطی کو قبول نہیں کیا جاتا۔ لیکن اس شخص پر یا اس کے موقف پر "طعن" بھی نہیں کیا جاتا۔ کرنا ہو تو رد کر لیا جاتا ہے۔
حافظ محمد بن طاہر المقدسی پر الزام ہے امرد کی جانب دیکھنے کی اباحت کا۔ اور ان کا دفاع علامہ ذہبی نے سیر اعلام النبلاء میں کیا ہے۔ اسے کبھی پڑھ کر دیکھیے۔ اس کا انداز بالکل یہی ہے۔ صرف ان کی سوچ کا دفاع یہ کہہ کر یہ قول ظاہریہ کا ہے اور مرجوح ہے۔
ان کی ذات کو متہم نہیں کیا نہ ان پر طعن کیا اس وجہ سے۔ حالاں کہ اباحت سماع اور اباحت نظر الی المرد علامہ ذہبی اور اکثر کے مسلک کے خلاف ہے۔
یہ طرز ہوتا ہے علماء معتدلین کا۔

میں نے یہاں ان کے قول کو غیر مفتی بہ یعنی مرجوح کہا ہے۔ اور ساتھ میں ان کے اس قول کی وجہ بتائی ہے۔ دین میں یہ باتیں دلیل کی بنیاد پر ہوتی ہیں نہ کہ جذبات کی۔ دلیل کے لحاظ سے ان کی بات قوی معلوم نہ ہوئی تو قول مرجوح ہو گیا۔ لیکن ان کے نزدیک تو قوی تھی تو ان پر طعن کیسے ہو سکتا ہے؟ کیا وہ یہ سوچ کر چھوڑ دیتے کہ جذبات کے مطابق نہیں ہے؟؟
اب اس کے بعد ٹھنڈے دماغ سے دوبارہ پوری پوسٹ پڑھیے۔ میں کچھ مقامات ہائیلائٹ بھی کر رہا ہوں۔ اضافہ جات بھی پڑھ لیجیے گا:۔

میں نے ذرا سی سرچ کی تو اس مسئلہ پر مفتی صاحب کی تحریر کے بارے میں جناب شاہد نذیر کی پوسٹس اور ان کے جوابات واضح ہو گئے۔
جو کچھ انہوں نے یہاں پیسٹ کیا ہے وہ دیگر مقامات پر بھی بعینہ کر چکے ہیں لیکن ان کا جواب بھی دیا گیا ہے۔ اس کے لیے یہ تھریڈ ملاحظہ فرما سکتے ہیں:۔
http://pak.net/عمومی-بحث-26-41350/
اس بحث پر عام عوام نے جو تاثرات دیے ہماری آپس کی "جنگ" کے وہ قابل دید ہیں۔ بجائے ہدایت کے ضلال کا سبب ہے۔


میں یہاں اس خاص مسئلے پر بات کرتا ہوں۔ یہ مسئلہ احناف کا مفتی بہ نہیں ہے یعنی احناف کو خود یہ اجتہادی موقف تسلیم نہیں۔
سوال یہ ہے کہ بعض علماء نے یہ موقف کیوں اختیار کیا؟ (یاد رہے اس قسم کے مسائل میں موقف غلط بھی ہو تو ایک ثواب کی امید ہوتی ہے) مراد ظاہر ہے اجتہادی مسائل ہیں۔ اس میں درستگی پر دو اجر اور غلطی پر ایک اجر کی امید ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ اضافہ
کفر کا سب سے صریح درجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زبان سے الفاظ کفر کہہ دے۔ لیکن جب خوف ہلاکت ہو تو ان کا ادا کرنا جائز ہے۔
یہ خوف ہلاکت کسی کے اکراہ سے بھی ہو سکتا ہے اور مرض سے بھی۔ اگر آپ قرآن و حدیث پر ایک نظر ڈالیں تو خوف ہلاکت پر نہ صرف اجراء کلمہ کفر بلکہ بہت سے حرام کام جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے جائز کیے گئے ہیں۔
اجراء کلمہ کفر کے بارے میں ارشاد ہے:۔
مَنْ كَفَرَ بِاللَّهِ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِهِ إِلَّا مَنْ أُكْرِهَ وَقَلْبُهُ مُطْمَئِنٌّ بِالْإِيمَانِ وَلَكِنْ مَنْ شَرَحَ بِالْكُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ مِنَ اللَّهِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ(النحل، آیت 106)
"جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان لانے کے بعد سوائے اس کے جسے مجبور کردیا جائے حالاں کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن وہ جس کا دل کفر پر کھلا ہو تو ان پر اللہ کی طرف سے غضب اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔"


جصاصؒ فرماتے ہیں:۔
قال أبو بكر هذا أصل في جواز إظهار كلمة الكفر في حال الإكراه والإكراه المبيح لذلك هو أن يخاف على نفسه أو بعض أعضائه التلف إن لم يفعل ما أمره به فأبيح له في هذه الحال أن يظهر كلمة الكفر (احکام القرآن 5۔13 ط دار احیاء التراث العربی)
"یہ حالت اکراہ میں کلمہ کفر کے اظہار کے جواز میں اصل ہے۔ اور اس کو مباح کرنے والا اکراہ وہ ہے کہ اسے اپنی جان یا بعض اعضاء پر ضائع ہونے کا اندیشہ ہو اگر وہ کام نہ کرے جس اسے حکم کیا ہے (مکرِہ) نے۔ تو اس کے لیے اس حالت میں کلمہ کا اظہار کرنا مباح ہے۔"


شوکانیؒ فرماتے ہیں:۔
قال القرطبي: أجمع أهل العلم على أن من أكره على الكفر حتى خشي على نفسه القتل أنه لا إثم عليه إن كفر وقلبه مطمئن بالإيمان (فتح القدیر 3۔235 ط دار ابن کثیر)
"قرطبی کہتے ہیں: اہل علم نے اس بات پر اجماع کیا ہے کہ جسے کفر پر مجبور کیا جائے حتی کہ اسے اپنے نفس پر قتل کا ڈر ہو تو اگر وہ کفر کرے جب کہ اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو تو اس پر گناہ نہیں ہے"


اس آیت کی ان تفاسیر میں کسی شخص کے اکراہ کا ذکر کیا گیا ہے اور اس کی دو وجہیں ہیں:۔
  1. اس آیت کا شان نزول ایک صحابی ہیں جن کے ساتھ اکراہ کا معاملہ ہوا تھا۔
  2. مرض سے ایسی حالت آنا جس کا علاج کفر میں ہو نادر الوجود ہے۔
لیکن آیت میں کلمہ "اکرہ" مجہول ذکر کیا گیا ہے جو جس طرح کسی انسان کے فعل سے مجبور ہوجانے پر دلالت کرتا ہے اسی طرح قدرت کے فعل سے مجبور ہونے پر بھی دلالت کرتا ہے کیوں کہ بالاجماع اس کی علت خوف ہلاکت ہے۔
مذکورہ مسئلے میں تداوی بالمحرم کا ذکر ہے اور اس کے لیے اول شرط یہ ہے:۔
ففي النهاية عن الذخيرة يجوز إن علم فيه شفاء ولم يعلم دواء آخر. (رد المحتار 1۔210 ط دار الفکر)
"نہایہ میں ذخیرہ سے روایت کیا گیا ہے کہ (تداوی بالمحرم) جائز ہے اگر معلوم ہو کہ اس میں شفا ہے اور کوئی اور دوا معلوم نہ ہو۔"
یہ دو شرطیں ہیں:۔

  1. شفا کا ہونا معلوم ہو۔
  2. دوسری کوئی دوا معلوم نہ ہو۔
چنانچہ ان مذکورہ فقہاء نے (جنہوں نے یہ استدلال کیا ہے) اس حالت میں جب تین شرائط موجود ہوں: نکسیر رک نہ رہی ہو، شفا کا ہونا معلوم ہو اور کوئی دوسری دوا معلوم نہ ہو (اقول: یا مہیا نہ ہو) اسے خوف ہلاکت سمجھ کر اسے جائز قرار دیا ہے۔
ان تین شرطوں میں سے پہلی عقلا معلوم ہو جاتی ہے کہ نکسیر رک جائے تو ضرورت ہی کیا ہے علاج کی اور نکسیر جاری رہے تو ہلاکت یقینی ہوتی ہے اگرچہ وقت میں فرق ہوتا ہے۔
باقی دو اصولی شرائط ذخیرہ کے حوالے سے ذکر کردی گئی ہیں۔

اس مسئلے پر عمل حقیقتا تقریبا ناممکن ہے کیوں کہ شفا کا معلوم ہونا یہ ناممکن ہے۔ یہ ہے وجہ اس کے مرجوح ہونے کی۔ وہ جیسے سمجھتے ہوں گے انہوں نے تو ویسے بیان کیا۔ ہمیں یہ درست نہیں معلوم ہوا۔۔۔۔ اضافہ
(علامہ شامی نے علم کی مراد غلبہ ظن کو قرار دیا ہے لیکن وہ تداوی بالمحرم کے عام مسئلے میں ہے اس جزئیے کے لیے نہیں۔ کیوں کہ یہ بحث کفر ہے اور اس کے لیے یقین شرط ہے ورنہ اظہار کفر کا فائدہ ہی نہیں۔ البتہ بسااوقات یقین کے خلاف بھی نتیجہ نکل آتا ہے جیسے کہ مکرِہ ادائے کفر کے باوجود قتل کردے۔)

یہاں ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس قسم کے اقوال کے ذکر سے ہمیشہ یہ مراد نہیں ہوتی کہ ان میں موجود مسئلے کو تسلیم کیا جارہا ہے بلکہ بعض اوقات اس سے مراد کسی خاص جزئی کی وضاحت و تائید کا حصول ہوتی ہے۔ اس جگہ پر تداوی بالمحرم کی بحث کے دوران "حرام چیز کے استعمال" کے جواز کے مسلک کو ظاہر و واضح کرنے کے لیے یہ قول تحریر کیا گیا ہے نہ اس عمل خاص کے کرنے کے جواز کو ظاہر کرنے کے لیے۔ اس پر قرینہ یہ ہے کہ باوجود اس قول کے ذکر کے اس مسئلہ کو نہ تو اہمیت دی گئی ہے اور نہ ہی بطور مسئلہ کے ذکر کیا گیا ہے۔ گویا کہ یہ ان علماء کا فقط اجتہاد ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
 

راجا

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 19، 2011
پیغامات
733
ری ایکشن اسکور
2,574
پوائنٹ
211
سوال وہیں ہے۔ توہین قرآن و توہین رسالت کا معاملہ کیا اجتہادی قرار دیا جا سکتا ہے؟؟ اس سوال کا جواب دینے سے آپ کیوں گھبرا رہے ہیں؟
نیز یہ بھی بتائیے کہ کیا بریلوی و اہل تشیع گمراہ فرقے ہیں یا اجتہاد میں غلطی کرنے کی وجہ سے ایک ثواب کے حق دار ہیں؟

بریلوی و اہل تشیع کی گمراہی اور سورہ فاتحہ کو پیشاب سے لکھنے کا فتویٰ دینے کے قائل علماء کی گمراہی میں وہ کیا جوہری فرق ہے کہ اول الذکر تو گمراہ قرار پائیں اور مؤخر الذکر ثواب کے حق دار رہیں!
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
سب سے پہلے اس بات کو ثابت کیا جائے کہ سورۃ الفاتحہ کو ” پیشاب “ سے لکھنے سے شفاء ملتی ہے۔ ” قرآن “ اس لیے نازل نہیں کیا گیا کہ اس کو ” ناپاک و نجس “ چیزوں سے لکھ کر شفاء طلب کی جائے۔ ایسا نظریہ رکھنا ” قرآن “ کے مقابلے میں بہت بڑی جسارت و جہالت ہے۔ اللہ تعالٰی کی شان بہت بلند ہے اس بات سے کہ وہ اس ” ذریعے “ سے شفاء دے۔ ایک حقیقی ” ایمان والے “ کے لیے کم از کم ایسا کرنا تو در کنار سوچنا بھی ” بارِ عظیم “ ہے۔ یہاں پر ” اکراہ “ والی آیات کو بیان کرنا تو اور بڑا ” استہزا “ ہے۔
 
Top