محترم داود بھائییہ ایک عجیب منطق ہے کہ وہ تو خیر القرون کا دور تھا، آج شر القرون کا ہے، لہذا جو خیر القرون کے لئے احکامات تھے، ان سے آج شر القرون بری ہو گئے ہیں!
میں اس لاجک سے بالکل اتفاق کرتا ہوں۔ زمانہ کے حالات بدلنے سے کبھی کبھی یہ منطق صحیح صادق آتی ہے۔آپ نے جو حدیث نقل کی تھی اس میں صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی کی خبر دی تھی ۔ ان کا یقین کامل تھا کہ یہ عورت جھوٹ بول رہی ہے ۔ اب تو شبہ کی صورت میں بھی انتہائی عامیانہ اور نازیبا سلوک کیا جاتا ہے۔
آپ ایسی کوئی مثال پیش کرسکتے ہیں جس میں صرف شبہ کی بنیاد پر اس طرح کا عمل کیا گیا ہو۔بعد میں وہ جرم ثابت نہ ہوا ہو۔ پھر بھی اس عمل کو جائز کہا گیا ہو۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غالباً حجتہ الوداع کے خطبے میں فرمایا تھا"مسلمان کی جان اور عزت اس کعبے سے زیادہ محترم ہے"۔
ہماری پولیس کا رویہ اور کردار کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کریں۔ جو رشوت کی عادی ہے اور رشوت لیکر کسی کی بھی عزت تار تار کرنے میں اس کو کوئی عار نہیں ہوتا۔