اسلام علیکم۔
میرے خیال سے متبادل استعمال ھو سکتا ھے۔
یاد رہے میں زبان کا ماہر نہیں ھوں۔
وعلیکم السلام: بھائی مجھے آپ سے زبان کی مہارت بھی نہیں چاہئے تھی بلکہ میں اپنا اصول ثابت کرانا چاہتا تھا کہ اگرچہ اللہ نے ہمارا نام تو مسلم رکھا ہے مگر ہم مسلم کی جگہ معاشرے میں متبادل سمجھا جانے والا کوئی اور لفظ بھی استعمال کر سکتے ہیں جیسے ہم صلاۃ کی جگہ نماز اور صوم کی جگہ روزہ استعمال کرتے ہیں پس میرا یہ اصول آپ نے تسلیم کر لیا جزاک اللہ
محترم بھائی ابھی میں ایک بات (اہلحدیث نام رکھا جا سکتا ہے کہ نہیں) پر بات کر رہا ہوں اب میں نیچے اب تک کی بحث پر کچھ تبصرہ لکھتا ہوں اور اسکے لئے ایک مثال استعمال کرتا ہوں آپ کو جہاں غلطی نظر آئے تو دلیل سے اصلاح کر دیں
مثال:
اخبار میں حکومت اشتہار دیتی ہے کہ کسی محکمہ میں ایک پوسٹ ہے جو صرف بلوچستان کے لوگوں کے لئے ہے باقی لوگ اسکے اہل نہیں لوگ انٹرویو کے لئے آ جائیں
اب ایک پنجابی بھی جان بوجھ کر انٹرویو دینے آجاتا ہے اس سے انٹرویو لینے والا پوچھتا ہے کہ آپ بلوچی ہیں یا پنجابی وہ کہتا ہے کہ جی بلوچی پنجابی تو تفرقہ کی باتیں ہیں میں تو صرف پاکستانی ہوں- انٹرویو والا کہتا ہے کہ بھئی میں تفرقہ پیدا کرنے کے لئے نہیں پوچھ رہا بلکہ میری ایک ضرورت ہے کہ کیا واقعی آپ اس پوسٹ کے اہل بھی ہیں یا نہیں پس مجھے آپ ایسے بتا دیں کہ پنجابی پاکستانی ہیں یا بلوچی پاکستانی ہیں- وہ پنجابی کہتا ہے کہ جی میں اس تفرقہ میں نہیں پڑتا آپ تو پاکستان کو توڑنے والی باتیں کر رہے ہیں (مثال ختم ہوئی)
اب مجھ جیسے ایک انسان کا عقیدہ ہے کہ اللہ نے فرمایا لئن اشرکت لیحبطن عملک کے تحت مشرک کے اعمال چونکہ ضائع ہو جاتے ہیں پس میں نے نماز کے لئے امام بنانا ہے یا بیٹی کا رشتہ دینا ہے اور قرآن کی آیت ولا تنکحوا المشرکین کا بھی خیال رکھنا ہے وغیرہ وغیرہ تو ایک مسلمان میرے پاس رشتے کے لئے آتا ہے تو میں پوچھتا ہوں کہ آپ کون ہیں وہ کہتا ہے کہ میں مسلمان ہوں میں کہتا ہوں کہ آپ بے شک مسلمان ہیں مگر بریلوی ہیں اہل حدیث ہیں یا شیعہ وغیرہ تو وہ کہا ہے کہ جی یہ تو تفرقہ بازی ہے
بھئی ذرا انصاف سے بتائیں اگر وہ صرف مسلمان جواب دے تو کیا آپ اپنی بیٹی کا رشتہ اس سے کر دیں گے
اگر آپ یہ کہیں کہ اسکو یہ کہنا چاہیے کہ میں مسلمان ہوں اور باقی اپنا منہج علیحدہ الفاظ میں بیان کر دے کہ میں شرک نہیں کرتا فلاں کام کرتا ہوں فلاں کام نہیں کرتا تو بھئی اوپر آپ نے میرا ایک اصول مانا ہے کہ جب اللہ نے ایک نام فکس رکھ بھی دیا تو متبادل الفاظ سے اگر اسکا استعمال ہوتا ہو تو آپ اللہ والے الفاظ استعمال نہ بھی کریں متبادل بھی استعمال کر لیں تو خیر ہے تو بھئی جب کوئی اہل حدیث آپ کی بیٹی کا یا میری بیٹی کا رشتہ لینے آئے گا تو وہ اگر یہ کہے کہ میں مسلمان ہوں اور آگے اہل حدیث کے منہج کو تفصیل سے بیان کرے وہ آسان ہے یا پھر اتنا ہی کہ دے کہ اہل حدیث ہوں کیوں کہ اہل حدیث میں مسلمان کا معنی بھی لازمی شامل ہے اور مزید منہج کا تعارف بھی ساتھ ہی شامل ہے پس پھر آپ کو کیا اعتراض ہے
نوٹ: ابھی میں نے دھاگہ کا موضوع دیکھتے ہوئے اہل حدیث نام رکھنے پر بات کی ہے بعد میں صرف قرآن کے قابل اتباع ہونے پر اور پھر صحابہ سے محبت وغیرہ پر بات کروں گا انشاءاللہ