أَحَادِيثُ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ |
422- ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: میں ایسے خواب دیکھا کرتا تھا، جن سے میں ڈر جاتا تھا، البتہ میں ڈھانپ نہیں لیا جاتا تھا (یعنی اتنا زیادہ نہیں ڈرتا تھا کہ مجھے بخار ہوجائے) میں سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بات کی شکایت کی، تو انہوں نے مجھے یہ بات بتائی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور پریشان خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ، تو جب کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے، جو اسے پسند نہ آئے، تو وہ اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے، اور جو خواب اس نے دیھا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «بدء الخلق» برقم: 3292،5747،6984،6986،6995،7005،7044، ومسلم فى «الرؤيا» برقم: 2261، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1394، برقم: 3515 / 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6058،6059، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5021، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2277، وابن ماجه في « سننه» برقم: 3909، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22961، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 514، برقم: 634)
423- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”سچے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور پریشان خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، تو جب کوئی شخص کوئی ایسا پریشان خواب دیکھے جو اسے اچھا نہ لگے تو وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے اور جو خواب اس نے دیکھا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے، تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «بدء الخلق» برقم: 3292،5747،6984،6986،6995،7005،7044، ومسلم فى «الرؤيا» برقم: 2261، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1394، برقم: 3515 / 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6058،6059، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5021، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2277، وابن ماجه في « سننه» برقم: 3909، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22961، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 514، برقم: 634)
424- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(انظر الحديثين السابقين)
425- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو، تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (ٹحیۃ المسجد) ادا کرلے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الصلاة» برقم: 444،1163، ومسلم فى «صلاة المسافرين وقصرها» برقم: 714، ومالك فى «الموطأ» 1 / 225، برقم: 559 / 170، وابن خزيمة في « صحيحه» برقم: 1824،1825،1826،1827، 1829، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 2495،2497،2498،2499)
426- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا۔ سدیہ امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی ہیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا، جب صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھڑا کردیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ اٹھا لیا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 516،5996، ومسلم برقم: 543، ومالك فى «الموطأ» 1 / 237، برقم: 589 / 179، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 237، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 783،784،868، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1109،1110،2339، 2340، وأبو داود فى «سننه» برقم: 917،918،919،920)
427- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتول کا سامان مجھے عطیے کے طور پر دے دیا تھا، جسے غزوۂ حنین کے موقع پر قتل کیا تھا۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: یہ حدیث طویل ہے، لیکن مجھے صرف اس کا اتنا حصہ یاد ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2100،3142،4321،7170، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1751، ومالك فى «الموطأ» 1 / 645، برقم: 1654 / 441، وابن الجارود فى «المنتقى» 1 / 397، برقم: 1154، وابن حبان فى «صحيحه» 4805،4837، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2717، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1562، والدارمي فى «مسنده » 3 / 1614، برقم: 2528، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2837)
428- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب تک قاحہ (نامی جگہ) پر پہنچے ، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا، اور کچھ نے احرام نہیں باندھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی، تو وہ ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے غور سے جائزہ لیا تو وہاں ایک نیل گائے تھی، میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھی اس پر سوار ہوا۔ میں نے اپنا نیزہ پکڑا تو میری چھڑی گرگئی ، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم مجھے اسے پکڑاؤ، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم کسی بھی حوالے سے تمہاری مدد نہیں کریں گے تو میں نے اپنی چھڑی خود ہی پکڑلی پھر میں پیچھے کی طرف سے نیل گائے کے پاس آیا، وہ اس وقت ایک ٹیلے کے پیچھے تھی، میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے زخمی کردیا، میں اسے لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، تو ان میں سے بعض نے کہا : تم اسے کھالو، اور بعض نے کہا: تم لوگ اسے نہ کھاؤ۔ سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے جارہے تھے، میں نے اپنے گھوڑے کو حرکت دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حلال ہے تم لوگ اسے کھالو۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 1821، 1822، 1823، 1824، 2570، 2854، 2914، 4149، 5406، 5407، 5490، 5491 م، 5492، ومسلم برقم: 1196، ومالك فى "الموطأ" 1 / 508، برقم: 1278 / 368، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2635، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3966، 3974، 3975، 3977 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 3784، 3793، 3794، 3795، 4838، وأبو داود فى «سننه» ، برقم: 1852، والترمذي فى « جامعه» برقم: 847، 848، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1867، 1869، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3093، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22962)
429- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں کیا رائے ، اگر میں اللہ کی راہ میں اپنی یہ تلوار چلاتا ہوں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے (دشمن کا) سامنا کرتے ہوئے، پیٹھ نہ پھیرتے ہوئے قتل ہوجاتا ہوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو بخش دے گا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حکم نازل ہورہا ے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آگے آؤ! جبرائیل علیہ السلام کہہ رہے ہیں، اگر تم پر قرض ہوا تو وہ معاف نہیں ہوگا۔“
(إسناده حسن وأخرجه مسلم برقم: 1885، ومالك فى «الموطأ» 1 / 656، برقم: 1676 / 449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4654، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 4349، 4350، 4351، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1712، والدارمي فى «مسنده» 3 / 1563، برقم: 2456، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11074،17898، 18018 وأحمد فى «مسنده» 10 / 5316، برقم: 22978)
430- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(رجاله ثقات وانظر الحديث السابق)
431- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے، تو لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہو، جب تک مجھے دیکھ نہیں لیتے۔“
(إسناده صحيح و أخرجه البخاري برقم: 635،637،638،909 ومسلم برقم: 603، 604، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1526،1644، وابن حبان فى « صحيحه» برقم: 1755، 2147، 2222، 2223 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 867، 1663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 539، والترمذي فى «جامعه » برقم: 592، والدارمي فى « مسنده » 2 / 803، برقم: 1296، 1297)
432- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ آدمی اپنی شرمگاہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے۔
سفیان کہتے ہیں: اسے سے مراد یہ ہے کہ استنجاء کے دوران ایسا کرے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 153،154،5630، ومسلم برقم: 267 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 68، 78، 79، وابن حبان فى « صحيحه» برقم: 1434،5228،5328 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 28، 29، 41، 6856، وأبو داود فى «سننه» برقم: 31، والترمذي فى «جامعه» برقم: 15، 1889، والدارمي فى «مسنده» 1 / 533، برقم: 700، 2 / 1348، برقم: 2168، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 310)
433- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : عرفہ کے دن روزہ رکھنا اس سال کے اور اس کے بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنا ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
سفیان کہتے ہیں: داؤد نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے، عطاء یہ روزہ نہیں رکھا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب انہیں یہ حدیث پہنچی (تو اس کے بعد انہوں نے اس دن روزہ رکھنا شروع کیا)
(رجاله ثقات، غير أنه منقطع، أبو الخليل صالح بن أبى مريم لم يسمع أبا قتادة، وأبو قزعة هو سويد بن حجير. . .ولكن أخرجه أحمده 297/5، 308، 310 - 311، و مسلم فى الصيام 1162، وأبو داود فى الصوم 2426، والترمذي فى الصوم 752، وقد استوفيت تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 3631، 3632)
434- عبداللہ بن ابوقتادہ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں: سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ ان کے ہاں آئے ، انہوں نے ان کے ہاں وضو کرنا چاہا تو انہوں نے اپنا برتن بلی طرف انڈیل دیا، بلی نے اس میں سے پانی پیا۔ ہم نے ان سے بلی کے جوٹھے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ یہ نجس نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ تمہارے ہاں گھر میں آنے جانے والے جانورں میں سے ایک ہے۔“
(إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكن أخرجه مالك فى الطهارة 13، باب: الطهور للوضوء، من طريق إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة، عن حميدة بنت عبيد بن رفاعة، عن كبشة بنت كعب بن مالك وكالت تحت أبى قتادة - : أن أبا قتادة.... وهذا إسناد جيد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 1299، وفي موارد الظمآن برقم 121)