• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
395- عطاء بن یسار مصر سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب کیا بیان نقل کرتے ہیں۔ میں نے سیدنا ابودردأ رضی اللہ عنہ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں دریافت کیا۔ «لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا» ”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے پرہیزگاری اختیار کی ان کے کے لئے دنیاوی زندگی اور آخرت میں خوشخبری ہے۔“ (10-یونس:64)
تو سیدنا ابودردأ بولے: جب سے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا ہے، اس وقت سے لے کر اب تک کسی نے تمہارے علاوہ مجھ سے اس بارے میں دریافت نہیں کیا۔ صرف ایک اور شخص نے یہ سوال کیا تھا۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں یہ دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے اس سقت سے لے کر اب تک تمہارے علاوہ اور کسی نے بھی اس کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کیا۔ صرف ایک شخص نے کیا ہے (اس سے مراد) وہ سچے خواب ہیں ، جنہیں کوئی مسلمان دیکھتا ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو کسی مسلمان کو دکھائے جاتے ہیں۔“
أخرجه الحاكم في «مستدركه» (4 / 391) برقم: (8272) والترمذي في «جامعه» (4 / 119) برقم: (2273) ، (5 / 184) برقم: (3106) ( إسناده ضعيف وأحمد فى مسنده 12 / 6707، برقم: 28158، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 16 / 26، برقم: 31092)

396- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابودرداء کے حوالے سے منقول ہے۔
( إسناده ضعيف وأحمد فى مسنده 12 / 6707، برقم: 28158، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 16 / 26، برقم: 31092)

397- سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا ، سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جسے نرمی میں حصہ عطا کیا گیا، اسے بھلائی میں سے حصہ عطا کیا گیا اور جو شخص نرمی میں سے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں حصے سے محروم رہا۔“
( إسناده جيد: وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 481،5693،5695، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4799، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2002،2003،2013، والبيهقي في «سننه الكبير» برقم: 20855، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6702، برقم: 28142)

398- سیدہ ام درداء رضی اللہ عنہا ، سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتی ہیں: ”میزان میں سب سے وزنی چیز اچھے اخلاق ہیں ، اور اللہ تعالیٰ برے اخلاق کے مالک بدزبان شخص کو ناپسند کرتا ہے۔“
(إسناده جيد: وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» 2 / 230، برقم: 481، ، 12 / 506، برقم: 5693، ، 12 / 507، برقم: 5695، وأبو داود فى «سننه» 4 / 400، برقم: 4799، والترمذي فى «جامعه» 3 / 535، برقم: 2002)

399- سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے: ایک شخص ان کے پاس آیا اور ان سے کہا: میرے والد مجھے یہ حکم دے رہے ہیں کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں، تو سیدنا ابورداء رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”والد جنت کا درمیانی دروازہ ہے۔ (یہ تمہاری مرضی ہے) کہ تم اسے ضائع کرتے ہو یا س کی حفاظت کرتے ہو“
سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں: میری والدہ نے مجھے یہ حکم دیا ہے، اور بعض اوقات انہیں نے یہ الفاظ نقل کئے ہیں: میری والدہ نے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) میرے والد نے مجھے یہ حکم دیا ہے۔
(إسناده صحيح : أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 425، والحاكم فى «مستدركه» 2 / 197، برقم: 2815،7344،7345، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1900، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2089، برقم: 3663، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5083، برقم: 22131)

400- علقمہ بیان کرتے ہیں: میں نے شام میں یہ آیت تلاوت کی: «وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى» ، تو سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: کیا تم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ آیت اسی طرح تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! تو وہ بولے: اور انہوں نے گواہی دے کر یہ بات بیان کی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ آیت اس طرح پڑھتے ہوئے سنا ہے: «وَالذَّكَرِ وَالْأُنْثَى »
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «تفسير سورة الليل» برقم: 3287،3742،3743،3761،4943،4944،6278، ومسلم فى «صلاة المسافرين» برقم: 824،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6330،6331،7127، والحاكم في «مستدركه» برقم: 5424، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 8241، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2939، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6713، برقم: 28182)

401- عبداللہ بن یزید سعدی بیان کرتے ہیں: میں نے سعید بن مسیب سے بجو کھانے کے بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولے : کیا کوئی شخص اسے کھا سکتا ہے؟ میں نے کہا: میری قوم سے تعلق رکھنے والے لوگ اس کا شکار کرکے اسے کھاتے ہیں ، تو سعید بولے : اسے کھانا درست نہیں ہے ، تو ان کے پاس موجود ایک عمر رسیدہ صاحب نے کہا: کیا میں آپ کو اس چیز کے بارے میں بتاؤں، جو میں نے سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ کی زبانی سنی ہے۔ میں نے سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ جانور سے کاٹے جانے والے عضو اور نشانہ بنا کر مارے جانے والے جانور، ہر نوکیلے دانتوں والے جانورکو کھانے سے منع کیا ہے۔“ تو سعید نے کہا: آپ نے سچ کہا ہے۔
( إسناده جيد: أخرجه الترمذي في «جامعه» برقم: 1473، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5080، برقم: 22120، ، 12 / 6707، برقم: 28160، والبزار فى «مسنده» 10 / 30، برقم: 4091، وعبد الرزاق فى «مصنفه» 4 / 514، برقم: 8687،8688)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ


402- سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عمریٰ“ کو وارث کو دینے کا فیصلہ دیا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «"صحيحه» " برقم: 5132،5133،5134، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3559، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2381، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5050، برقم: 21987)

403- سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عرایا“ کو فرخت کرنے کی اجازت دی ہے۔
(إسناده صحيح : وأخرجه البخاري برقم: 2173،2184،2188،2192، 2380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534،1539، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5001،5004،5005،5009، والحاكم في «مستدركه» 4 / 365، برقم: 8182)

404- شرجیل بن سعد بیان کرتے ہیں: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے ہم اس وقت اپنے باغ میں موجود تھے اور پرندوں کے شکار کے لئے تیاری کررہے تھے، تو انہوں نے ہمیں پرے دھکا دیا اور بولے: ”بے شک اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کے شکار سے منع کیا ہے۔“
(إسناده ضعيف لضعف شرجيل بن سعد و باقي رجاله ثقات و أخرجه مالك فى «الموطأ» 1 / 1310، برقم: 3316، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10083، 10084، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5047، برقم: 21977 ، 9 / 5067، برقم: 22066 ، 9 / 5070، برقم: 22073، وعبد الرزاق في «مصنفه» 9 / 261، برقم: 17148، وابن أبى شيبة في «مصنفه» 20 / 118، برقم: 37378، والطبراني فى «الكبير» برقم: 4910،4911،4912،4913)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ سَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ


405- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جب کوئی شخص سترہ کی جانب رخ کرکے نماز ادا کرلے ، تو وہ اس کے قریب رہے، تو شیطان اس کی نماز کو منقطع نہیں کرے گا۔“
(إسناده صحيح أخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 803، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2373، والحاكم في «مستدركه» برقم: 928، والنسائي في «المجتبى» برقم: 747 / 1، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 826، وأبو داود فى «سننه» برقم: 695، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3530،3531، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3492، برقم: 16338، والطيالسي في «مسنده» برقم: 1439، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 2 / 527، برقم: 2891)

406- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے عوض پھل کی فروخت کرنے سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عریہ“ کی رخصت دی ہے کہ اسے اندازے کے تحت فروخت کیا جاسکتا ہے، تاکہ اس کے مالک (یا گھر والے) تازہ کھجوریں کھا سکیں۔
( إسناده صحيح : وأخرجه البخاري في «البيوع» برقم: 2191،2383، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1540، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 5002،5198)

407- سیدنا سہل بن ابوحثمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ خیبر کے ایک کنوئیں (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ایک گڑھے کے کنارے مقتول پائے گئے، تو ان کے بھائی سیدنا عبدالرحمٰن بن سہل رضی اللہ عنہ اور ان کے دو چچا سیدنا حویصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور سیدنا محیصہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، سیدنا عبدالرحمٰن بات شروع کرنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہلے بڑے کو بات کرنے دو، پہلے بڑے کو بات کرنے دو۔“
تو سیدنا محیصہ رضی اللہ عنہ نے بات شروع کی ، انہوں نے سیدنا عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کے قتل ہونے کا تذکرہ کیا ، انہوں نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم نے سیدنا عبداللہ بن سہل رضی اللہ عنہ کو مقتول پایا ہے اور یہودی کافر اور بدعہد لوگ ہیں ، انہی لوگوں نے انہیں قتل کیا ہوگا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تم پچاس آدمی قسم اٹھا کر اپنے ساتھی ( راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اپنے ساتھی کے خون کے مستحق بن جاؤ،“ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم ان لوگوں کے خلاف کیسے قسم اٹھا سکتے ہیں، جب ہم وہاں موجود ہی نہیں تھے، اور ہم نے اسے دیکھا ہی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر یہودیوں کے پچاس آدمی قسم اٹھا کر تم سے بری الذمہ ہوجائیں گے۔“ انہوں نے عرض کیا: ہم مشرک قوم کی قسموں کو کیسے قبول کرسکتے ہیں؟راوی بیان کرتے ہیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاس سے انہیں دیت عطا کی۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ان میں سے ایک جوان اونٹنی نے مجھے ٹانگ ماری تھی۔
(إسناده صحيح : وأخرجه البخاري «في الصلح» برقم: 2702،3173،6142،6898،7192، ومسلم فى «القسامة» برقم: 1669، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3275 / 655، 3276 / 656، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2384، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 6009، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3492، برقم: 16339، وابن ماجه في «سننه» برقم: 2677، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1638،4520)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
408- ابووائل شفیق بن سلمہ بیان کرتے ہیں، جنگ صفین کے موقع پر جب دونوں طرف سے ثالثوں نے فیصلہ دیا تو میں نے سیدنا سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: ”اے لوگو! تم اپنی رائے کو غلط قرار دو۔ مجھے یہ بات یاد ہے کہ ہم بھی اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ابوجندل ائے تھے۔ اگر ہم چاہتے تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات قبول نہ کرتے۔ اللہ کی قسم! جب سے ہم نے اسلام قبول کیا ہے، ہم نے اپنی تلواریں اپنے کاندھوں پر کسی ایسے معاملے کی وجہ سے نہیں رکھی ہیں، جو ہمیں خوفزدہ کرے، مگر یہ کہ ہمیں آسان کرکے دوسرے معاملے کی طرف کردیا، جس سے ہم واقف تھے۔ جہاں تک اس معاملے کا تعلق ہے، تو اللہ کی قسم! اگر اس کے ایک حصے کو بند کیا جائے گا، تو یہ دوسری طرف سے کھل جائے گا۔“
(إسناده صحيح : وأخرجه البخاري برقم: 3181،3182، 4189،4844،7308، ومسلم برقم: 1785،والنسائي فى «الكبرى» 10 / 262، برقم: 11440، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 473، وابن أبى شيبة فى «مصنفه » 20 / 406، برقم: 38002، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3446، برقم: 16221)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
409- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ زمین پر ٹھیکے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے تھے، یہاں تک کہہ سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے یہ بات بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس سے منع کیا ہے ، تو ہم نے ان کے بیان کی وجہ سے اس عمل کو ترک کردیا۔
( إسناده صحيح : وأخرجه البخاري فى «الحرث والمزارعة » برقم: 2286،2327،2332،2339،2343،2345، 2346،2722، 4012، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1547،1536، وابن حبان في « صحيحه» برقم: 5191،5193،5194،5196،5197)

410- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انصار میں ہمارے پاس سب سے زیادہ کھیت تھے ، ہم لوگ جسے ٹھیکے پر زمین دیتے تھے، اسے کہہ دیتے تھے کہ تمہیں یہ والا حصہ ملتا ہے اور حصے کی پیدوار ہماری ہوگی، تو بعض اوقات اس حصے میں پیداوار ہوجاتی تھی اور اس حصے میں نہیں ہوتی تھی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع کردیا۔ جہاں تک چاندی کے عوض میں (زمین کو ٹھیکے پر دینے کا تعلق ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ہمیں منع نہیں کیا۔
سفیان سے کہا گیا: امام مالک نے یہ روایت ربیعہ کے حوالے سے حنظلہ نامی راوی سے نقل کی ہے، تو وہ بولے: جب یہ یحییٰ کے پاس سے مل سکتی ہے ، تو پھر کسی اور کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیونکہ یحییٰ زیادہ احتیاط سے کام لیتے ہیں اور ہم نے یہ روایت یحییٰ سے سن کر ہی محفوظ کی ہے۔
(إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «الحرث والمزارعة » برقم: 2286،2327، 2332،2339،2343،2345،2346،2722،4012، ومسلم فى «البيوع» برقم: 1536،1547، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2624 / 585، وابن حبان فى «صحيحه » برقم: 5191،5193،5194،5196،5197)

411- واسح بن حبان بیان کرتے ہیں: ایک غلام نے ایک شخص کے باغ میں سے کھجور کا پودا چوری کیا اور اسے لاکر اپنے مالک کے باغ میں لگا دیا۔ اسے پکڑ کر مروان بن حکم کے پاس لایا گیا، مروان نے اس کا ہاتھ کٹوانے کا ارادہ کیا، تو سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے گواہی دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”پھل یا کثر چوری کرنے پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔“ تو مروان نے اس شخص کو چھوڑ دیا۔

(إسناده صحيح أخرجه مالك فى «الموطأ» 1 / 1228، برقم: 3104 / 638، وابن الجارود فى «المنتقى » 1 / 310، برقم: 892، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4466)

412- عبدالکریم کہتے ہیں: چوری کرنے والے شخص کا نام ”فیل“ تھا۔
(انفرد به المصنف من هذا الطريق)

413- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”فجر کی نماز روشن کرکے پڑھو، کیونکہ یہ زیادہ اجر کا باعث ہے۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تہارے لئے زیادہ اجر کا باعث ہے۔“

( إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1489، 1490،1491، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 132، برقم: 547 / 1، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 1542،1543، وأبو داود فى «سننه» برقم: 424، والترمذي فى «جامعه » برقم: 154، والدارمي فى «مسنده» 2 / 778، برقم: 1253، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 672، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2185، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3390، برقم: 16061، والطيالسي فى «مسنده» 2 / 264، برقم: 1001،1003)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
414- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کل ہمارا دشمن سے سامنا ہوگا، ہمارے پا چھریاں نہیں ہیں ، تو کیا ہم درخت کی چھال کے ذریعہ جانور ذبح کرلیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو چیز خون بہادے اور جس پر تم نے اللہ کا نام لیا ہو اسے تم کھالو، ماسوائے اس کے جسے سن (یعنی ہڈی) یا ظفر (حبشہ کی مخصوص چھری) کے ذریعے ذبح کیا گیا ہو۔“
سن انسان کی ہڈی کو کہتے ہیں، اور ظفر حبشیوں کی مخصوص چھری ہے (یہ الفاظ شاید راوی کے ہیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الشركة» برقم: 2488،2507،3075، 5498،5503،5506،5509،5543،5544، ومسلم فى «الْأضاحي» برقم: 1968،وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 963، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4821،5886)

415- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہمیں کچھ اونٹ اور بکریاں ملے، تو ہم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر قرار دیا، ان میں سے ایک اونٹ سرکش ہوکر بھاگا، تو ہم نے اسے تیر مار کر (روک لیا) پھر ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وحشی جانوروں کی طرح کچھ اونٹ بھی وحشی ہوجاتے ہیں جب ان میں سے کوئی وحشی ہوجائے ، تو تم اس کے ساتھ یہی سلوک کرو، اور اسے کھالو۔“
سفیان کہتے ہیں: اسماعیل بن مسلم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ”ہم نے اسے تیر مار کر زمین پر گرا دیا۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الشركة» برقم: 2488،2507،3075، 5498،5503،5506،5509،5543،5544، ومسلم فى «الْأضاحي» برقم: 1968،وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 963، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4821،5886)

416- سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوۂ حنین کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان بن حرب، صفوان بن امیہ، عینیہ بن حصن اور اقرع بن حابس کو ایک ، ایک سو اونٹ دیئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عباس بن مرداس کو اس سے کم دیئے۔ اس کے بعد سفیان نامی راوی یا شاید عمر بن سعید نامی راوی نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: اس موقع پر عباس بن مرداس نے یہ اشعار کہے:
”کیا آپ میرے اور (میرے گھوڑے) عبید کو عینیہ اور اقرع سے کم حصہ دے رہے ہیں ، حالانکہ جنگ کے دوران وہ دونوں کسی بھی حوالے سے مرداس پر فوقیت نہیں رکھتے ، میں ان دونوں سے کم حیثیت کا مالک نہیں ہوں، اور آج جس کی حیثیت کو گھٹا دیا گیا، تو پھر وہ بلند نہیں ہوگی۔“
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بھی پورے سو اونٹ عطا کئے۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «الزكاة» برقم: 1060، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4827، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13302، والطبراني فى «الكبير» 4 / 273، برقم: 4396)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّذِي أُرِيَ النِّدَاءَ
417- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک صاحب نے یہ شکایت کی کہ انہیں نماز کے دوران یہ خیال آیا ہے (کہ شاید ان کا وضو ٹوٹ گیا ہے) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایسا شخص اس وقت تک واپس نہ جائے جب تک وہ (ہوا خارچ ہونے کی) آواز نہ سن لے یا بو محسوس نہ کرے۔
یہاں پر سفیان نامی راوی نے ایک لفظ بعض اوقات مختلف نقل کیا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الوضوء» برقم: 137،177،2056، ومسلم فى «الحيض » برقم: 361، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 3، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 25،1018، والنسائي فى «المجتبى » 1 / 56، برقم: 160 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 1 / 133، برقم: 151، وأبو داود في «سننه» برقم: 176، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 513، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 561،765،3426،15235، وأحمد في « مسنده» 7 / 3586، برقم: 16705،16713، ، 10 / 5680، برقم: 24286)

418- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں چت لیٹے ہوئے دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر رکھا ہوا تھا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الاستئذان» برقم: 475،5969،6287، ومسلم فى «اللباس » برقم: 2100، ومالك فى «الموطأ» 1 / 241، برقم: 595 / 185، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5552، والنسائي في « المجتبى» 1 / 163، برقم: 720 / 1، والنسائي في «الكبرى» برقم: 802، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4866، والترمذي فى «جامعه» 4 / 474، برقم: 2765، والدارمي فى «مسنده» 3 / 1738، برقم: 2698، والبيهقي فى «سننه الكبير » 2 / 224، برقم: 3260، ، 2 / 225، برقم: 3261، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3584، برقم: 16693)

419- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء ادا کرنے کے لئے عیدگاہ تشریف لے گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر کو الٹا دیا ، قبلہ کی طرف رخ کی اور دو رکعات نماز ادا کی۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الاستسقاء» 2 / 26، برقم: 1005،1011،1012،1023،1024،1025،1026،1027،1028،6343، ومسلم فى «صلاة الاستسقاء » برقم: 894، ومالك في «الموطأ» 1 / 265، برقم: 646 / 202، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2864،2865،2866،2867)

420- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
مسعودی کہتے ہیں: میں نے ابوبکر بن محمد سے دریافت کیا: (چادر کو الٹاتے ہوئے) دائیں حصے کو بائیں پر رکھا جائے گا اور بائیں کو دائیں پر رکھا جائے گا یا اوپر نیچے کر دیا جائے گا؟ تو انہوں نے فرمایا: نہیں دائیں کو بائیں طرف کردیا جائے گا اور بائیں کو دائیں طرف کردیا جائے گا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الاستسقاء» برقم: 1005،1011،1012،1023،1024،1025،1026،1027،1028،6343، ومسلم فى «صلاة الاستسقاء » برقم: 894، ومالك فى «الموطأ» 1 / 265، برقم: 646 / 202، وابن الجارود فى «المنتقى» 1 / 104، برقم: 281،282، وابن خزيمة في « صحيحه» برقم: 1406،1407، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2864،2865،2866،2867)

421- سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے اپنے چہرے کو تین مرتبہ دھویا، دونوں بازو دو ، دومرتبہ دھوئے، اپنے سر کا مسح کیا اور دونوں پاؤں دھوئے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الوضوء» برقم: 185،186،191،192،197،199، ومسلم فى «الطهارة» برقم: 235، ومالك فى «الموطأ» 1 / 23، برقم: 45 / 16، وابن الجارود فى «المنتقى » برقم: 77،81، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 155،156،157،172،173، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1077، برقم: 1084،1093، والحاكم في « مستدركه» 1 / 182، برقم: 651)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
422- ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں: میں ایسے خواب دیکھا کرتا تھا، جن سے میں ڈر جاتا تھا، البتہ میں ڈھانپ نہیں لیا جاتا تھا (یعنی اتنا زیادہ نہیں ڈرتا تھا کہ مجھے بخار ہوجائے) میں سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے اس بات کی شکایت کی، تو انہوں نے مجھے یہ بات بتائی کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اور پریشان خواب شیطان کی طرف سے ہوتا ہے ، تو جب کوئی شخص کوئی ایسا خواب دیکھے، جو اسے پسند نہ آئے، تو وہ اپنے بائیں طرف تین مرتبہ تھوک دے، اور جو خواب اس نے دیھا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «بدء الخلق» برقم: 3292،5747،6984،6986،6995،7005،7044، ومسلم فى «الرؤيا» برقم: 2261، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1394، برقم: 3515 / 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6058،6059، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5021، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2277، وابن ماجه في « سننه» برقم: 3909، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22961، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 514، برقم: 634)

423- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”سچے خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں اور پریشان خواب شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں ، تو جب کوئی شخص کوئی ایسا پریشان خواب دیکھے جو اسے اچھا نہ لگے تو وہ اپنے بائیں جانب تین مرتبہ تھوک دے اور جو خواب اس نے دیکھا ہے اس کے شر سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگے، تو وہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔“
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «بدء الخلق» برقم: 3292،5747،6984،6986،6995،7005،7044، ومسلم فى «الرؤيا» برقم: 2261، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1394، برقم: 3515 / 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6058،6059، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5021، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2277، وابن ماجه في « سننه» برقم: 3909، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22961، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 514، برقم: 634)

424- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(انظر الحديثين السابقين)

425- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جب کوئی شخص مسجد میں داخل ہو، تو وہ بیٹھنے سے پہلے دو رکعت (ٹحیۃ المسجد) ادا کرلے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الصلاة» برقم: 444،1163، ومسلم فى «صلاة المسافرين وقصرها» برقم: 714، ومالك فى «الموطأ» 1 / 225، برقم: 559 / 170، وابن خزيمة في « صحيحه» برقم: 1824،1825،1826،1827، 1829، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 2495،2497،2498،2499)

426- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کی امامت کرتے ہوئے دیکھا۔ سدیہ امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہا جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کی صاحبزادی ہیں، انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی گردن پر اٹھایا ہوا تھا، جب صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں گئے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھڑا کردیا ، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دوبارہ اٹھا لیا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 516،5996، ومسلم برقم: 543، ومالك فى «الموطأ» 1 / 237، برقم: 589 / 179، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 237، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 783،784،868، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1109،1110،2339، 2340، وأبو داود فى «سننه» برقم: 917،918،919،920)

427- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مقتول کا سامان مجھے عطیے کے طور پر دے دیا تھا، جسے غزوۂ حنین کے موقع پر قتل کیا تھا۔
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: یہ حدیث طویل ہے، لیکن مجھے صرف اس کا اتنا حصہ یاد ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2100،3142،4321،7170، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1751، ومالك فى «الموطأ» 1 / 645، برقم: 1654 / 441، وابن الجارود فى «المنتقى» 1 / 397، برقم: 1154، وابن حبان فى «صحيحه» 4805،4837، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2717، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1562، والدارمي فى «مسنده » 3 / 1614، برقم: 2528، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2837)

428- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، یہاں تک کہ جب تک قاحہ (نامی جگہ) پر پہنچے ، تو ہم میں سے کچھ لوگوں نے احرام باندھا ہوا تھا، اور کچھ نے احرام نہیں باندھا ہوا تھا۔ اس دوران میں نظر اپنے ساتھیوں پر پڑی، تو وہ ایک دوسرے کو کوئی اشارہ کر رہے تھے۔ میں نے غور سے جائزہ لیا تو وہاں ایک نیل گائے تھی، میں نے اپنے گھوڑے پر زین رکھی اس پر سوار ہوا۔ میں نے اپنا نیزہ پکڑا تو میری چھڑی گرگئی ، تو میں نے اپنے ساتھیوں سے کہا: تم مجھے اسے پکڑاؤ، وہ لوگ احرام باندھے ہوئے تھے، انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! ہم کسی بھی حوالے سے تمہاری مدد نہیں کریں گے تو میں نے اپنی چھڑی خود ہی پکڑلی پھر میں پیچھے کی طرف سے نیل گائے کے پاس آیا، وہ اس وقت ایک ٹیلے کے پیچھے تھی، میں نے اپنا نیزہ مار کر اسے زخمی کردیا، میں اسے لے کر اپنے ساتھیوں کے پاس آیا، تو ان میں سے بعض نے کہا : تم اسے کھالو، اور بعض نے کہا: تم لوگ اسے نہ کھاؤ۔ سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے آگے جارہے تھے، میں نے اپنے گھوڑے کو حرکت دی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گیا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ حلال ہے تم لوگ اسے کھالو۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 1821، 1822، 1823، 1824، 2570، 2854، 2914، 4149، 5406، 5407، 5490، 5491 م، 5492، ومسلم برقم: 1196، ومالك فى "الموطأ" 1 / 508، برقم: 1278 / 368، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2635، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3966، 3974، 3975، 3977 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 3784، 3793، 3794، 3795، 4838، وأبو داود فى «سننه» ، برقم: 1852، والترمذي فى « جامعه» برقم: 847، 848، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1867، 1869، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3093، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5313، برقم: 22962)

429- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس بارے میں کیا رائے ، اگر میں اللہ کی راہ میں اپنی یہ تلوار چلاتا ہوں اور ثواب کی امید رکھتے ہوئے (دشمن کا) سامنا کرتے ہوئے، پیٹھ نہ پھیرتے ہوئے قتل ہوجاتا ہوں، تو کیا اللہ تعالیٰ میرے گناہوں کو بخش دے گا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں“ ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے، یہاں تک کہ میں نے گمان کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی حکم نازل ہورہا ے۔ جب وہ شخص چلا گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم آگے آؤ! جبرائیل علیہ السلام کہہ رہے ہیں، اگر تم پر قرض ہوا تو وہ معاف نہیں ہوگا۔“
(إسناده حسن وأخرجه مسلم برقم: 1885، ومالك فى «الموطأ» 1 / 656، برقم: 1676 / 449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4654، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 4349، 4350، 4351، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1712، والدارمي فى «مسنده» 3 / 1563، برقم: 2456، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11074،17898، 18018 وأحمد فى «مسنده» 10 / 5316، برقم: 22978)

430- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(رجاله ثقات وانظر الحديث السابق)

431- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب نماز کے لئے اقامت کہی جائے، تو لوگ اس وقت تک کھڑے نہ ہو، جب تک مجھے دیکھ نہیں لیتے۔“
(إسناده صحيح و أخرجه البخاري برقم: 635،637،638،909 ومسلم برقم: 603، 604، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1526،1644، وابن حبان فى « صحيحه» برقم: 1755، 2147، 2222، 2223 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 867، 1663، وأبو داود فى «سننه» برقم: 539، والترمذي فى «جامعه » برقم: 592، والدارمي فى « مسنده » 2 / 803، برقم: 1296، 1297)

432- عبداللہ بن ابوقتادہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے کہ آدمی اپنی شرمگاہ کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑے۔
سفیان کہتے ہیں: اسے سے مراد یہ ہے کہ استنجاء کے دوران ایسا کرے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 153،154،5630، ومسلم برقم: 267 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 68، 78، 79، وابن حبان فى « صحيحه» برقم: 1434،5228،5328 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 28، 29، 41، 6856، وأبو داود فى «سننه» برقم: 31، والترمذي فى «جامعه» برقم: 15، 1889، والدارمي فى «مسنده» 1 / 533، برقم: 700، 2 / 1348، برقم: 2168، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 310)

433- سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : عرفہ کے دن روزہ رکھنا اس سال کے اور اس کے بعد والے سال کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور عاشورہ کے دن روزہ رکھنا ایک سال کے گناہوں کا کفارہ بنتا ہے۔
سفیان کہتے ہیں: داؤد نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے، عطاء یہ روزہ نہیں رکھا کرتے تھے، یہاں تک کہ جب انہیں یہ حدیث پہنچی (تو اس کے بعد انہوں نے اس دن روزہ رکھنا شروع کیا)
(رجاله ثقات، غير أنه منقطع، أبو الخليل صالح بن أبى مريم لم يسمع أبا قتادة، وأبو قزعة هو سويد بن حجير. . .ولكن أخرجه أحمده 297/5، 308، 310 - 311، و مسلم فى الصيام 1162، وأبو داود فى الصوم 2426، والترمذي فى الصوم 752، وقد استوفيت تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 3631، 3632)

434- عبداللہ بن ابوقتادہ کی اہلیہ بیان کرتی ہیں: سیدنا ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ ان کے ہاں آئے ، انہوں نے ان کے ہاں وضو کرنا چاہا تو انہوں نے اپنا برتن بلی طرف انڈیل دیا، بلی نے اس میں سے پانی پیا۔ ہم نے ان سے بلی کے جوٹھے کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ یہ نجس نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”یہ تمہارے ہاں گھر میں آنے جانے والے جانورں میں سے ایک ہے۔“
(إسناده ضعيف فيه جهالة، ولكن أخرجه مالك فى الطهارة 13، باب: الطهور للوضوء، من طريق إسحاق بن عبد الله بن أبى طلحة، عن حميدة بنت عبيد بن رفاعة، عن كبشة بنت كعب بن مالك وكالت تحت أبى قتادة - : أن أبا قتادة.... وهذا إسناد جيد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 1299، وفي موارد الظمآن برقم 121)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ أَبِي طَلْحَةَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
435- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”فرشتہ ایسے گھر میں داخل نہیں ہوتا جس میں کتا یا تصویر موجود ہو۔“
(إسناده صحيح و أخرجه البخاري 3322، و أخرجه مسلم 2106، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 5468، ومسند الموصلي برقم: 1414، 1430، 1432)
 
Top