أَحَادِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ |
375- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں : میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیدنا خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : الله کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے ان سے سوال کیا گیا لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو اس بات پر اللہ تعالی نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اس علم کی نسبت للہ تعالی کی طرف کیوں نہیں کی (یعنی اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے )
اللہ تعالی نے فرمایا : ”دو سمندروں کی جگہ پر میرا ایک بندہ ہے جوتم سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
الله تعالی نے فرمایا : ”تم ایک مچھلی لواسے ایک برتن میں رکھو اور پھر چل پڑو جہاں تم پچھلی کو کھو دو گے وہی جگہ ہوگی ۔“
تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لی اسے ایک برتن میں رکھا اور روانہ ہو گئے ۔ ان کے ساتھ ان کے نوجوان ساتھی سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام بھی تھے ۔ یہاں تک کہ جب وہ چٹان کے پاس پہنچے تو ان دونوں حضرات نے اپنا سر رکھا اور سو گئے وہ مچھلی بھی اس برتن میں مضطرب ہوئی اور اس سے نکلی اور سمندر میں گرگئی ۔
جس کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : ”تو اس نے سمندر میں اپنا راستہ بنالیا ۔“ اللہ تعالی نے اس مچھلی کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ سمندر اس کے لیے طاق کی ماند ہوگیا ۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو ان کے ساتھی انہیں مچھلی کے بارے میں بتانا بھول گئے کہ دونوں حضرات اس دن کا بقیہ حصہ اور آگے آنے والی رات بھر تک چلتے رہے ۔ یہاں تک کہ جب اگلا دن آیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”تم ہمارا کھانا لے کر آؤ ہمیں اپنے اس سفرسے بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے (یا تھکا وٹ لاحق ہوگئی ہے ) “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : حالانکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تھکاوٹ اس وقت تک محسوس نہیں کی جب تک وہ اس مقام سے آگے نہیں گزر گئے جس کے بارے میں الله تعالی نے انہیں حکم دیا تھا ۔ توان کے ساتھی نے ان سے گزارش کی (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”آپ نے ملاحظ فرمایا جب ہم چٹان کے پاس آئے تھے تو وہاں میں مچھلی بھول گیا تھا اور یہ بات شیطان نے مجھے بھلائی تھی کہ میں اس کا تذکرہ کرتا ۔ اس نے حیران کن طریقے سے سمندر میں راستہ بنالیا تھا ۔“
نبی اکرم ا فر ماتے ہیں ”مچھلی کیلئے یہ راستہ تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے اور ان کے ساتھی کیلئے یہ حیران کن بات تھی ۔“
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”ہم وہی تو چاہتے تھے، تو یہ دونوں الٹے قدموں وہاں سے واپس آئے ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”یہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس لوٹے اور اس چٹان تک آگئے تو وہاں ایک شخص موجودتھا جس نے اپنے اوپر چادر تانی ہوئی تھی ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کیا تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : تمہاری اس جگہ یہ سلام کہاں سے آگیا؟“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : ”میں موسیٰ ( علیہ السلام) ہوں“ ۔ انہوں نے دریافت کیا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا : ”ہاں ۔ میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں تا کہ آپ مجھے اس چیزکی تعلیم دیں جس بھلائی کی آپ کوتعلیم دی گئی ہے“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے ۔“
اے موسیٰ (علیہ السلام ) ! مجھے اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے مجھے عطا کیا ہے ۔ آپ اس سے واقف نہیں ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے میں اس سے واقف نہیں ہوں ، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر آپ نے میرے ساتھ رہنا ہے تو پھر آپ نے کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کرتا جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ کو بیان نہیں کر دیتا ۔“
دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ہوئے روانہ ہوئے ۔ ان کے پاس سے ایک کشتی گزری ان حضرات نے کشتی والوں سے بات چیت کی کہ وہ انہیں بھی سوار کرلیں تو وہ سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان گئے اور کسی معاوضے کے بغیر انہوں نے ان حضرات کو سوار کر لیا ۔ جب یہ دونوں حضرات سوار ہوئے تو اس کے تھوڑی دیر بعد سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک کلہاڑی کے ذریے کشتی کی ایک تختی کو توڑ دیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : ان لوگوں نے کسی معاوضے کےبغیر ہمیں سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے ؟ (آگے کے الفاظ قرآن کے ہیں) ۔ ”تاکہ آپ ان کشتی والوں کوڈبودیں ۔ آپ نے ایک غلط حرکت کی ہے ۔“
سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”کیا میں نے نہیں کہا: تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر سے کام نہیں لے سکیں گے ؟“ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”میں جو بات بھول گیا تھا آپ اس پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معا ملے کو تنگی کا شکار نہ کریں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: یہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے پہلی بھول تھی ۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا : اسی دوران ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اس نے سمندر میں سے ایک چونچ میں پانی لیاتو سیدنا خضر علیہ السلام نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میرا علم اور آپ کا علم اللہ تعالی کے علم میں وہ کمی بھی نہیں کرتا جو اس چڑیا نے اس سمندر میں کی ہے ۔
یہ دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور یہ دونوں حضرات ساحل پر چلتے ہوئے جارہے تھے تو اس دوران سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اس کا سرمروڑ کے اسے قتل کردیا ۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکرقرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”کیا آپ نے ایک بے گناه وجودکو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا ہے آپ نے ایک قابل انکار حرکت کی ہے ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کرصبر نہیں کر سکیں گے ؟
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں ”یہ تنبیہ پہلی کے مقابلے میں زیادہ شدید تھی“ ، تو سیدناسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو آپ میرے ساتھ نہ رہئے گا ۔ میری طرف سے آپ کو عذر پہنچ گیا ہے۔“
ارشاد باری تعالی ہے: ”تو یہ دونوں چلتے ہوئے ایک بستی تک آئے اور انہوں نے ان سے کھانے کے لیے کچھ مانگا تو انہوں نے انہیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ان دونوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو گرنے کے قریب تھی“
راوی کہتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ ( وہ گرنے والی تھی) تو خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح کیا اور اسے کھڑا کردیا توسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم ان کے پاس آئے لیکن انہوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا اور ہمیں مہمان نہیں بنایا ۔ (اگلے الفاظ قرآن کے ہیں) ”اگر آپ چاہیں تو اس پران سے معاوضہ وصول کر سکتے ہیں ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”میرے اور آپ کے درمیان فرق ہے جن کاموں پر آپ صبر نہیں کر سکے میں ان کی حقیقت آپ کو بتاتا ہوں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا : ”ہماری خواہش یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ان دونوں واقعات کی مزید تفصیلات سامنے آجاتیں۔“
سعید بن جبیر کہتے ہیں سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما یہ تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ”اس سے پرے ایک بادشاہ تھا جوٹھیک کشتی کوغصب کر لیا کرتا تھا ۔“ انہوں نے یہ بھی پڑھا ۔ ”جہاں تک لڑکے کا معاملہ ہے وہ کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے ۔“
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه :أخرجه البخاري فى «العلم» برقم: 74، 78،122، 2267،2728،3278، 3400، 3401، 4725،4726، 4727، 6672،7478، ومسلم فى «فضائل الخضر عليه السلام» برقم: 2380، 2661، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 102، 988،6220، 6221، والحاكم في «مستدركه» 2 / 369، برقم: 3414، والنسائي فى «الكبرى» 5 / 360، برقم: 5813، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3984، 4705،4706، 4707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3149، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4903، برقم: 21497، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» 9 / 4905، برقم: 21502)
376- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں بیان کرتے ہیں:
﴿وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا﴾ (18-الكهف:82) ”ان دونوں کا باپ نیک آدمی تھا۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سیدنا خضر علیہ السلام نے ان بچوں کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ان دونوں کی حفاظت کی تھی۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ ذکر نہیں کیا، وہ دونوں بچے نیک ہیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه الضياء المقدسي في «الأحاديث المختارة» 10 / 231، برقم: 243، والحاكم في «مستدركه» 2 / 369، برقم: 3415، والنسائي فى «الكبرى» 10 / 401، برقم: 11838)
377- محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ کسی نیک آدمی کی وجہ سے اس کی اولاد، اور اس کی اولاد کی اولاد ، اسکے گھر کو، اس کے آس پاس کے گھروں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت میں ہوتے ہیں۔
سفیان کہتے ہیں: میرے استاد نے میرے سامنے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں: ”اور وہ پردے میں ہوتے ہیں۔“
(إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «الكبرى» برقم: 11866، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 13 / 377، برقم: 3199، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 19 / 424، برقم: 36564)
378- زربن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معؤذتین کے بارے میں دریافت کیا: میں نے کہا: اے ابالمنذر! آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سورتوں کو قرآن سے نکال دیا ہے تو سیدنا بی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے یہ کہا گیا ہے، تم پڑھو تو میں نے پڑھ لیا۔“ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم ویسا ہی کہیں گے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 4976،4977، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 797،4429، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 11653، والبيهقي فى «سننه الكبير» 2 / 393، برقم: 4114، وأحمد في «مسنده» 9 / 4930، برقم: 21571، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» 9 / 4931، برقم: 21579، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 437، برقم: 543، وعبد الرزاق في «مصنفه» برقم: 6040، وابن أبى شيبة فى مصنفه15 / 534، برقم: 30828، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 1 / 111، برقم: 118، والطبراني في «الأوسط» 2 / 27، برقم: 1121)
379- زربن بن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں: جو شخص سال بھر نوافل ادا کرتا رہے، وہی شب قدر کو پاسکتا ہے، تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن پر رحم کرے ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ (کسی ایک متعین رات) پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں، ورنہ وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، اور یہ ستائسویں رات ہے، پھر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کسی استثناء کے بغیر قسم اٹھا کر یہ بات بیان کی کہ یہ ستائسویں رات ہوتی ہے۔
ہم نے ان سے گزارش کی: ابے ابوالمنذر! آپ کو اس بات کا کیسے پتہ چلا، تو انہوں نے فرمایا: اس نشانی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) علامت کی وجہ سے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ ”اس رات کو صبح جب سورج نکلتا ہے ، تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔“
(إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى « الترغيب فِي قيام رمضان وهو التراويح » برقم: 762، وابن الجارود في «المنتقى» 1 / 159، برقم: 446، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3689، 3690، 3691، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 303، برقم: 5357، والنسائي في «الكبرى» برقم: 3392، وأبو داود برقم: 1378، والترمذي فى «جامعه» برقم: 793،3351، والبيهقي في «سننه الكبير» 4 / 312، برقم: 8643، 8644، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4931، برقم: 21581)
380- سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرا ایک چچا زاد تھا جس کا گھر بہت دور تھا ، میں نے اس سے کہا: اگر تم مسجد کے قریب کوئی گھر لے لو یا کوئی گدھا لے لو ، تو یہ مناسب ہوگا۔ تو وہ بولا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرا گھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے درمیان ہو۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے اس نے اسلام قبول کیا تھا اس کی زبانی میں نے ایسی کوئی بات نہیں سنی تھی جو مجھے اس سے زیادہ بری لگی ہو۔ اور اب وہ پیدل چل کر آنے کا ذکر کررہا تھا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”مسجد کی طرف چل کر آتے ہوئے وہ جتنے قدم اٹھائے گا اس کے ہر ایک قدم کے عوض میں اسے ایک درجہ ملے گا۔“
(إسناده صحيح و أخرجه مسلم 663، أخرجه أحمد في «مسنده» 9 / 4937، برقم: 21603، 21604 وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2040، 2041 )