• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ أُمِّ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْأَحْوَصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
361- سلیمان بن عمروہ اپنی والدہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بطن وادی سے جمرہ کو کنکریاں مارے ہوئے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خچر پر سوار تھے اور فرما رہے تھے: ”اے لوگو! تم اطمنان رکھو تم ایک دوسرے کو تنگ نہ کرو اور تم پر لازم ہے کہ اتنی (چٹکی میں آجانے والی) کنکریاں استعمال کرو۔“
( إسناده ضعيف : وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 1966، 1967، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3028،3031، 3532، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9635، وأحمد في «مسنده» 6 / 3488، برقم: 16335، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 8 / 197، برقم: 13578)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ أُمِّ حُصَيْنٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
362- سیدہ ام حصین رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چادر اوڑھی ہوئی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پٹھے حرکت کر رہے تھے (یعنی جوش کا اظہار ہورہا تھا) ۔
( إسناده صحيح : وأخرجه مسلم فى «الحج» برقم: 1298،1838، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2688، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 3949، 4564، والحاكم فى «مستدركه» 4 / 186، برقم: 7474، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 603، برقم: 3060 / 1، والنسائي في «الكبرى» 4 / 180، برقم: 4052، وأبو داود في «سننه» برقم: 1834، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1706، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2861، والبيهقي فى «سننه الكبير» 5 / 69، برقم: 9282، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3659، برقم: 16914، والطيالسي في «مسنده» 3 / 228، برقم: 1759، وابن أبى شيبة في «مصنفه» 17 / 368، برقم: 33204، والطبراني فى «الكبير» 25 / 156، برقم: 377، والطبراني فى «الأوسط» 2 / 38، برقم: 1165)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ الْأَنْصَارِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
363- سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی کو غسل دینے لگی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے تین یا پانچ یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس زیادہ پانی اور بیری کے پتوں کے ذریعے غسل دینا اور آخر میں کافور بھی مل دینا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تھوڑا سا کافور ملا دینا۔ جب تم فارغ ہوجاؤ تو مجھے بتانا۔“
وہ خاتون بیان کرتی ہیں: جب ہم لوگ فارغ ہوئے اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ہمیں دی اور ارشاد فرمایا: ”اسے اس کے جسم پر لپیٹ دو۔“
( إسناده صحيح :و أخرجه البخاري فى «الوضوء و فى الجنائز» 167، 1253، 1254،1255، 1256، 1257، 1258،1259،1260، 1261،1262، 1263، ومسلم فى «الجنائز» 3 / 47، برقم: 939، ومالك فى «الموطأ» 1 / 311، برقم: 752 / 252، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3032، 3033)

364- سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ”ہم نے ان صاحبزادی کی تین چوٹیاں بنا دی تھیں۔“
( إسناده صحيح :و أخرجه البخاري فى «الوضوء و فى الجنائز» 167، 1253، 1254،1255، 1256، 1257، 1258،1259،1260، 1261،1262، 1263، ومسلم فى «الجنائز» 3 / 47، برقم: 939، ومالك فى «الموطأ» 1 / 311، برقم: 752 / 252، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3032، 3033)

365- حفصہ بنت سرین ایک خاتون کے حوالے سے ان کی بہن کا یہ بیان نقل کرتی ہیں: ان کے شوہر نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دس غزوات میں شرکت کی تھی اور وہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ غزوات میں شریک ہوئی تھیں۔ وہ خاتون بیان کرتی ہیں: ہم خواتین زخمیوں کو دوائی دیا کرتی تھیں اور بیماروں کا خیال رکھا کرتی تھیں۔
وہ خاتون بیان کرتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا: کیا ہم میں سے کسی ایک (عورت کو) کوئی گناہ ہوگا کہ اگر اس کے پاس چادر نہ ہو، تو وہ عید کی نماز میں شریک نہ ہو؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کی بہن اپنی چادر میں سے کچھ اسے بھی پہنا دے لیکن وہ عورت عید اور مسلمانوں کی دعا میں شریک ہو۔“
( هذا الإسناد بصورة ضعيف ، فيه جهالة - انفرد به المصنف من هذا الطريق وانظر إسناد التالي والحديث متفق عليه فقد أخرجه البخاري فى «الحيض» 324، و أخرجه مسلم فى «صلاة العيدين» 890، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2816، 2817، وابن خزيمة فى صحيحه: برقم: 1467 )

366- حفصہ بنت سیرین بیان کرتی ہیں: ہم نے سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے، انہوں نے جواب دیا: جی ہاں۔ میرے والد کی قسم ۔ راوی خاتون کہتی ہیں: سیدہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا یہ معمول تھا کہ جب بھی وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی بات بیان کرتی تھیں، تو ساتھ یہ کہتی تھیں، میرے والد کی قسم۔ انہوں نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”عید کے دن جوان پردہ دار خواتین کو بھی (گھروں سے) لے آؤ وہ عید اور مسلمانوں کی دعا میں شامل ہوں البتہ حیض والی خواتین مسلمانوں کی نماز کی جگہ سے الگ رہیں گی۔“
(إسناده صحيح : وانظر التعليق السابق)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ الْفِهْرِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
367- امام شعبی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کوفہ تشریف لائیں وہ اپنے بھی ضحاک بن قیس کے ہاں ائی تھیں جو وہاں کے گورنر تھے، ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے ، ہم نے اس خاتون سے سوال کیا، تو انہوں نے بتایا: میں عمرو بن حفص کی بیوی تھی ، اس نے مجھے طلاق دی تو طلاق بتہ دے دی اور خود یمن چلے گئے ، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے اس بات کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا اور خرچ کا مطالبہ کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آستین کو اس طرح کرتے ہوئے فرمایا (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون سے پردہ کیا تھا) امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی آستین اپنے سر پر بلند کرکے (یہ کرکے دکھایا) : ”اے قیس کی اولاد! کی صاحبزادی۔ رہائش اور خرج کا حق اس عورت کو ملتا ہے، جب اس کے شوہر کو اس سے رجوع کرنے کا حق ہو، لیکن جب شوہر کے لئے اس سے رجوع کرنے کا حق نہ ہو، تو عورت کو رہائش اور خرچ کا حق نہیں ملے گا۔“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ فرمایا: ”تم ام شریک بنت ابوالعکر رضی اللہ عنہا کے ہاں عدت بسر کرو۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: وہ ایک ایسی عورت ہے، جس کے ہاں لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، تو ابن ام مکتوم کے ہاں عدت بسر کرو، کیونکہ وہ ایک نابینا شخص ہے، اگر تم اپنی چادر اتارو گی ، تو بھی وہ تمہیں نہیں دیکھ سکے گا۔“
(إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، غير أن الحديث صحيح، فقد أخرجه مسلم فى الطلاق 1480، من طريق زهير بن حرب، حدثنا هشيم: أخبرنا سيار، و حصين ، ومغيرة، وأشعث، ومجالد، وإسماعيل بن أبى خالد، كلهم عن الشعبي، بهذا الإسناد وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 4049، وانظر الحديث التالي)

368- امام شعبی بیان کرتے ہیں : سیده فاطمہ بنت قیسں رضی اللہ عنہا کوفہ میں اپنے بھائی حضرت ضحاک بن قیس رضی اللہ عنہا کے ہاں تشریف لائیں جنہیں وہاں کا گورنر بنایا گیا تھا۔ . تو ہم اس خاتون کی خدمت میں ان سے دریافت کرنے کے لیے حاضر ہوئے اس خاتون نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عین دوپہر کے وقت میں خطبہ دیا۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ”میں نے تمہیں کسی چیز کی رغبت دلانے کے لیے یا کسی چیز سے ڈرانے کے لیے خطہ نہیں دیا بلکہ ایک واقعے کی وجہ سے میں تمہیں خطبہ دے رہا ہوں جوتمیم داری نے مجھے بتایا ہے۔ اور اس خوشی کی وجہ سے میں نے دوپہر کو آرام نہیں کیا۔“
”تمیم داری نے اپنے چچازاد کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ وہ لوگ سمندر میں سفر کرتے ہوئے شام کی طرف جارہے تھے۔ اسی دوران تیز ہوا چلنے لگی تو ان لوگوں نے سمندر میں جناز ے میں پناہی تو وہاں ایک جانور تھا جس کی بھنویں لمبی تھیں ہم نے کہا: اے جانور اتم کیا چیز ہو؟ اس نے جواب دیا : ”میں جثاثہ ہوں“ ۔ ہم نے کہا تم ہم کو کچھ بتاؤ۔ اس نے کہا: نہ تو میں تمہیں کچھ بتاؤں گی اور نہ ہی میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتی ہوں۔ تا ہم اس عبادت گاہ میں ایک شخص ہے جو اس بات کا مشتاق ہے کہ وہ تمہیں کچھ بتائے اور تم اسے کچھ بتاؤ۔ وہ صاحب کہتے ہیں ہم اس عبادت گاہ میں داخل ہوئے تو وہاں ایک کانا شخص موجود تھا جو بیڑیوں میں جکڑا ہوا تھا اورغم کا اظہار کر رہا تھا وہ شکایت بکثرت کر رہا تھا جب اس نے ہمیں دیکھا تو بولا: کیا تم لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کر لی ہے؟ ہم نے اسے اس بارے میں بتایا۔ اس نے دریافت کیا: بحر طبریہ کا کیا حال ہے؟ ہم نے کہا: وہ اپنی اصل حالت میں ہے اس کے آس پاس کے لوگ اس کے پانی سے سیراب ہوتے ہیں اور اپنے کھیتوں کوبھی سیراب کرتے ہیں۔ اس نے دریافت کیا: عمان اور بیسان کے درمیان موجود کھجوروں کے باغ کا کیا حال ہے؟ تو ان لوگوں نے بتایا: وہ ہر سال اپنا پھل دیتے ہیں، اس نے دریافت کیا: ”زرع“ کے چشمے کا کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا: وہاں کے لوگ اس کا پانی پیتے ہیں اور اس کے ذریعے اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں۔ تو وہ بولا: اگر یہ خشک ہوجائے تو میں اپنی ان زنجیروں سے آزاد ہو جاؤں گا اور پھر میں پوری روئے زمین کو اپنے قدموں تلے روند دوں گا صرف مدینہ میں نہیں جاسکوں گا۔“
. (راوی کہتے ہیں) : پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرمایا: ”اس بات پر میں بہت خوش ہوا ہوں“ ۔ پھر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی تم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے یہاں (یعنی مدینہ منورہ) کے ہر ایک راستے پر ایک فرشتہ تلوار سونت کر کھڑا ہوا ہے جو اس (دجال) کو اس میں داخل ہونے سے روک دے گا۔“
امام شعبی یہ کہتے ہیں: بعد میں میری ملاقات حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے محرر سے ہوئی تو انہوں نے اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہی حدیث مجھے سنائی تاہم انہوں نے اس میں یہ الفاظ زائد نقل کیے ( کہ وہ مکہ میں بھی داخل نہیں ہو سکے گا) انہوں نے یہ بات بھی بیان کی یہ مشرق کی سمت سے ہوگا اور وہ کیا ہے جومشرق کی سمت سے ہوگا وہ کیا ہے؟
امام شعبی بیان کرتے ہیں میری ملاقات قاسم بن محمد سے ہوئی تو انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ماند روایت نقل کی۔
(إسناده ضعيف لضعف مجالد، غير أن الحديث صحيح، أخرجه أحمد 373/6-374، 412، 418 ومسلم فى الفتن 2942، باب: قصة الجساسة، وابن أبى شيبة 154/15، 156 برقم 19366،، وأبو داود فى الملاحم 4327، وابن ماجه فى الفتن 4327، والطبراني فى « الكبير» برقم 922، 956، 923، 957، 958 ، 959، 960، 961، 962 - 978، من طرق وبروايات، وقد خر جناه فى صحيح ابن حبان برقم 6787،6788،6789)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَسْمَاءَ بِنْتِ يَزِيدَ بْنِ سَكَنٍ الْأَشْهَلِيَّةِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
369- سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دجال کے بارے میں بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس معاملے کو قریب کرکے ظاہر کیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اپنے گھر والوں کے لئے آٹا گوندھ آئی ہوں اور مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے ہی دجال نکل آئے گا۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ اس وقت ظاہر ہوا جب میں تمہارے درمیان موجود ہوا تو میں تمہاری طرف سے اس سے مقابلہ کروں گا اور اگر وہ میرے بعد نکلا تو میری جگہ اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کا نگہبان ہوگا۔“
(إسناده حسن : وأخرجه أحمد فى «مسنده» 12 / 6723، برقم: 28216، ، 12 / 6725، برقم: 28219، ، 12 / 6729، برقم: 28227، ، 12 / 6730، برقم: 28228، ، 12 / 6736، برقم: 28248، والطيالسي فى » مسنده» 3 / 202، برقم: 1738، وعبد بن حميد فى «المنتخب من مسنده» 1 / 457، برقم: 1582، وعبد الرزاق فى «مصنفه» 11 / 391، برقم: 20821، ، 11 / 392، برقم: 20822، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 21 / 195، برقم: 38622، والطبراني فى « الكبير» 24 / 158، برقم: 404، 405، 406،407،408، 412،430، 438، 439،446)

370- سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں کچھ خواتین کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سلام کیا ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم لوگ انعام دینے والوں کی ناشکری سے بچو۔“ میں نے دریافت کیا: انعام دینے والوں کی ناشکری سے کیا مراد ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی عورت بیوہ یا مطلقہ ہوجانے کے بعد، یا شادی سے پہلے ، ایک طویل عرصے تک اپنے ماں باپ کے ہاں رہتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ اسے شوہر عطا کردیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس شوہر کی طرف سے اسے مال اور اولاد عطا کرتا ہے، لیکن (کسی موقع پر) اس کو غصہ آجاتا ہے اور وہ اس کی ناشکری کرتی ہے اور یہ کہتی ہے: میں نے تمہاری طرف سے ایک بھی دن بھلائی کا کبھی نہیں دیکھا۔“
(إسناده حسن : وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 5204، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2697، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2679، وابن ماجه في «سننه» برقم: 3701، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6721، برقم: 28209، ، 12 / 6733، برقم: 28237، ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 13 / 206، برقم: 26295، والطبراني فى «الكبير» برقم: 418، 436،445، 464)

371- شهر بن حوشب بیان کرتے ہیں: میں سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ایک تھال میری طرف بڑھایا جس میں خشک اور تازہ کھجوریں تھیں انہوں نے فرمایا تم کھاؤ ! میں نے گزارش کی مجھے اس کی خواہش نہیں ہے تو انہوں نے بلند آواز میں مجھ سے فرمایا: تم کھاؤ! میں وہ عورت ہوں جس نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو شادی کے موقع پر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے لیے تیار کیا تھا۔
میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف بٹھا دیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن لایا گیا جس میں دودھ موجود تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف بڑھایا تو انہوں نے اپنا سر جھکا لیا اور وہ شرما گئیں۔
میں نے کہا: آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ سے اسے حاصل کرلیں انہوں نے اسے لیا اور پی لیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”تم اسے اپنی ہم عمر لڑکیوں کی طرف بڑھادو۔“ میں نے عرض کی : یارسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) ! آپ اسے نوش فرمالیں پھر مجھے عطا کر دیجئے گا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا کیا تو میں نے برتن کو گھمایا تا کہ اپنا منہ اسی جگہ پرکھوں جہاں نبی اکرم نے رکھا تھا۔
پھر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم اپنی سہیلیوں کو بھی دو ۔“ ان خواتین نے عرض کی: ہمیں اس کی خواہش نہیں ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم غلط بیانی اور بھوک کو جمع نہ کرو۔“
وہ خاتون بیان کرتی ہیں: نبی اکرم ا نے ان لڑکیوں میں سے ایک خاتون کے ہاتھ میں سونے کے کنگن دیکھے تو ارشاد فرمایا: ”کیاتم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ الله تعالی اس کی جگہ آگ سے بنے ہوئے کنگن تمہیں پہنائے؟“ وہ خاتون بیان کرتی ہیں تو ہم نے اسے اتار دیا اور ایک طرف رکھ دیا ۔ ہمیں نہیں معلوم کہ اب وہ کہاں ہوگا؟
پھر نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کیا کسی عورت کے لیے یہ کافی نہیں کہ وہ چاندی کا بنا ہوا دانہ حاصل کرے پھر تھوڑا سا زعفران لے اور وہ دانہ اس میں ملادے اور اسے اس میں لت پت کر دے تو وہ سونے کی مانند ہو جائے گا۔“
( إسناده حسن : وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 3298، وأحمد فى مسنده 12 / 6720، برقم: 28208، والحميدي فى «مسنده» برقم: 371، 372، وأورده ابن حجر في «المطالب العالية» برقم: 1586 / 1، ، 8 / 158، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» 23 / 26، برقم: 63، 459)

372- شہر بن حوشب بیان کرتے ہیں: میں نے سیدہ اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: میں نے چند خواتین کے ہمراہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں تمہارے ساتھ مصافحہ نہیں کرونگا۔ میں نے تم سے وہ عہد لیا ہے ، جو اللہ تعالیٰ نے لینا تھا“ (یا جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا تھا)
(إسناده حسن : وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 3298، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6720، برقم: 28208، والحميدي في «مسنده» برقم: 371،372، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 1586 / 1، ، 8 / 158،وأخرجه الطبراني في «الكبير» برقم: 63،410، 459)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ رِجَالِ الْأَنْصَارِ
حَدِيثُ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ

373- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: مجھے ان صاحب نے یہ بات بتائی ہے، جو سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ان کے پاس موجود تھے۔ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم لوگ خیمے کا پردہ ایک طرف کرو تاکہ میں تمہیں ایک حدیث سناؤں جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی۔ یہ حدیث میں نے تمہیں پہلے اس لئے نہیں بیان کی تھی کہ کہیں تم عمل کے حوالے سے لاپرواہ نہ ہوجاؤ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص دل کے اخلاص کے ساتھ ( راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) دل کے یقین کے ساتھ «لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ » پڑھے وہ جنت میں داخل ہوگا۔ اسے آگ نہیں چھوئے گی۔“
( إسناده صحيح، جهالة من أخبر جابرة ليست بضارة لأنه رواه عن صحابي، وقد رواه جابر بدون واسطة كما أخرجه ابن حبان، وانظر الحديث العالي. وأخرجه الطبراني 41/20 برقم 13، وابن مندة فى الإيمان، برقم 111، من طريق الحميدي هذه. وقد استوفينا تخريجه فى موارد الظمآن برقم 4، وفي صحيح ابن حبان برقم 200،. وانظر «كنز العمال» برقم 190، 191، و مجمع الزوائد برقم 9، بتحقيقنا، وشعب الإيمان، برقم 126 ،127، 128)

374- سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے: ”جو شخص ایسی حالت میں فوت ہو کہ وہ اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کا رسول ہوں اور وہ یقین رکھنے والے دل کے ساتھ (دنیا سے) واپس جائے، تو اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت کردے گا۔“
(إسناده صحيح : وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 203، والحاكم فى «مستدركه» 1 / 8، برقم: 16، والنسائي فى "الكبرى" 9 / 416، برقم: 10909، ، وابن ماجه فى «سننه» 4 / 710، برقم: 3796، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5158، برقم: 22420، والبزار فى «مسنده» 7 / 72، برقم: 2621، والطبراني فى «الكبير» 20 / 45، برقم: 71)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
375- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں : میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: نوف بکالی یہ کہتا ہے کہ جن سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی سیدنا خضر علیہ السلام کے ساتھ ملاقات ہوئی تھی ۔ وہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ یہ کوئی دوسرے سیدنا موسیٰ علیہ السلام ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : الله کے دشمن نے جھوٹ کہا ہے ۔ سیدنا ابی بن کعب ﷜ نے مجھے یہ حدیث سنائی ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ایک مرتبہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل میں کھڑے خطبہ دے رہے تھے ان سے سوال کیا گیا لوگوں میں سے سب سے زیادہ علم کس کے پاس ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : میں سب سے زیادہ علم رکھتا ہوں تو اس بات پر اللہ تعالی نے ان پر ناراضگی کا اظہار کیا کہ انہوں نے اس علم کی نسبت للہ تعالی کی طرف کیوں نہیں کی (یعنی اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون زیادہ علم رکھتا ہے )
اللہ تعالی نے فرمایا : ”دو سمندروں کی جگہ پر میرا ایک بندہ ہے جوتم سے زیادہ علم رکھتا ہے ۔“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! میں اس تک کیسے پہنچ سکتا ہوں؟
الله تعالی نے فرمایا : ”تم ایک مچھلی لواسے ایک برتن میں رکھو اور پھر چل پڑو جہاں تم پچھلی کو کھو دو گے وہی جگہ ہوگی ۔“
تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے مچھلی لی اسے ایک برتن میں رکھا اور روانہ ہو گئے ۔ ان کے ساتھ ان کے نوجوان ساتھی سیدنا یوشع بن نون علیہ السلام بھی تھے ۔ یہاں تک کہ جب وہ چٹان کے پاس پہنچے تو ان دونوں حضرات نے اپنا سر رکھا اور سو گئے وہ مچھلی بھی اس برتن میں مضطرب ہوئی اور اس سے نکلی اور سمندر میں گرگئی ۔
جس کا تذکرہ قرآن نے ان الفاظ میں کیا ہے : ”تو اس نے سمندر میں اپنا راستہ بنالیا ۔“ اللہ تعالی نے اس مچھلی کے لیے پانی کے بہاؤ کو روک دیا اور وہ سمندر اس کے لیے طاق کی ماند ہوگیا ۔ جب سیدنا موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو ان کے ساتھی انہیں مچھلی کے بارے میں بتانا بھول گئے کہ دونوں حضرات اس دن کا بقیہ حصہ اور آگے آنے والی رات بھر تک چلتے رہے ۔ یہاں تک کہ جب اگلا دن آیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے ساتھی سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”تم ہمارا کھانا لے کر آؤ ہمیں اپنے اس سفرسے بڑی مشقت کا سامنا کرنا پڑا ہے (یا تھکا وٹ لاحق ہوگئی ہے ) “
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : حالانکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے تھکاوٹ اس وقت تک محسوس نہیں کی جب تک وہ اس مقام سے آگے نہیں گزر گئے جس کے بارے میں الله تعالی نے انہیں حکم دیا تھا ۔ توان کے ساتھی نے ان سے گزارش کی (جس کا ذکر قرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”آپ نے ملاحظ فرمایا جب ہم چٹان کے پاس آئے تھے تو وہاں میں مچھلی بھول گیا تھا اور یہ بات شیطان نے مجھے بھلائی تھی کہ میں اس کا تذکرہ کرتا ۔ اس نے حیران کن طریقے سے سمندر میں راستہ بنالیا تھا ۔“
نبی اکرم ا فر ماتے ہیں ”مچھلی کیلئے یہ راستہ تھا اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے اور ان کے ساتھی کیلئے یہ حیران کن بات تھی ۔“
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”ہم وہی تو چاہتے تھے، تو یہ دونوں الٹے قدموں وہاں سے واپس آئے ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”یہ دونوں حضرات اپنے قدموں کے نشانات دیکھتے ہوئے واپس لوٹے اور اس چٹان تک آگئے تو وہاں ایک شخص موجودتھا جس نے اپنے اوپر چادر تانی ہوئی تھی ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اسے سلام کیا تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : تمہاری اس جگہ یہ سلام کہاں سے آگیا؟“ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : ”میں موسیٰ ( علیہ السلام) ہوں“ ۔ انہوں نے دریافت کیا بنی اسرائیل سے تعلق رکھنے والے سیدنا موسیٰ علیہ السلام؟ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا : ”ہاں ۔ میں آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں تا کہ آپ مجھے اس چیزکی تعلیم دیں جس بھلائی کی آپ کوتعلیم دی گئی ہے“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے ۔“
اے موسیٰ (علیہ السلام ) ! مجھے اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے مجھے عطا کیا ہے ۔ آپ اس سے واقف نہیں ہیں اور آپ کو اللہ تعالی کی طرف سے ایک ایساعلم عطا کیا گیا ہے جو اللہ تعالی نے آپ کو عطا کیا ہے میں اس سے واقف نہیں ہوں ، تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر اللہ نے چاہاتو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ کی نافرمانی نہیں کروں گا ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر آپ نے میرے ساتھ رہنا ہے تو پھر آپ نے کسی چیز کے بارے میں مجھ سے سوال نہیں کرتا جب تک میں خود اس کے بارے میں آپ کو بیان نہیں کر دیتا ۔“
دونوں حضرات سمندر کے کنارے چلے ہوئے روانہ ہوئے ۔ ان کے پاس سے ایک کشتی گزری ان حضرات نے کشتی والوں سے بات چیت کی کہ وہ انہیں بھی سوار کرلیں تو وہ سیدنا خضر علیہ السلام کو پہچان گئے اور کسی معاوضے کے بغیر انہوں نے ان حضرات کو سوار کر لیا ۔ جب یہ دونوں حضرات سوار ہوئے تو اس کے تھوڑی دیر بعد سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک کلہاڑی کے ذریے کشتی کی ایک تختی کو توڑ دیا تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : ان لوگوں نے کسی معاوضے کےبغیر ہمیں سوار کیا ہے اور آپ نے ان کی کشتی کو توڑ دیا ہے ؟ (آگے کے الفاظ قرآن کے ہیں) ۔ ”تاکہ آپ ان کشتی والوں کوڈبودیں ۔ آپ نے ایک غلط حرکت کی ہے ۔“
سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”کیا میں نے نہیں کہا: تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کر صبر سے کام نہیں لے سکیں گے ؟“ تو سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے کہا: (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”میں جو بات بھول گیا تھا آپ اس پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معا ملے کو تنگی کا شکار نہ کریں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: یہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی طرف سے پہلی بھول تھی ۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا : اسی دوران ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر آ کر بیٹھ گئی اس نے سمندر میں سے ایک چونچ میں پانی لیاتو سیدنا خضر علیہ السلام نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے کہا: میرا علم اور آپ کا علم اللہ تعالی کے علم میں وہ کمی بھی نہیں کرتا جو اس چڑیا نے اس سمندر میں کی ہے ۔
یہ دونوں حضرات کشتی سے نکلے اور یہ دونوں حضرات ساحل پر چلتے ہوئے جارہے تھے تو اس دوران سیدنا خضر علیہ السلام نے ایک لڑکے کو دیکھا جو دوسرے لڑکوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔ سیدنا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑا اور اپنے ہاتھوں کے ذریعے اس کا سرمروڑ کے اسے قتل کردیا ۔
سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا: (جس کا ذکرقرآن میں ان الفاظ میں ہے ) ”کیا آپ نے ایک بے گناه وجودکو کسی جان کے بدلے کے بغیر قتل کر دیا ہے آپ نے ایک قابل انکار حرکت کی ہے ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : کیا میں نے آپ سے نہیں کہا تھا کہ آپ میرے ساتھ رہ کرصبر نہیں کر سکیں گے ؟
نبی اکرم صلى الله عليه وسلم فرماتے ہیں ”یہ تنبیہ پہلی کے مقابلے میں زیادہ شدید تھی“ ، تو سیدناسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”اگر میں نے اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کیا تو آپ میرے ساتھ نہ رہئے گا ۔ میری طرف سے آپ کو عذر پہنچ گیا ہے۔“
ارشاد باری تعالی ہے: ”تو یہ دونوں چلتے ہوئے ایک بستی تک آئے اور انہوں نے ان سے کھانے کے لیے کچھ مانگا تو انہوں نے انہیں مہمان بنانے سے انکار کردیا ان دونوں نے اس میں ایک دیوار پائی جو گرنے کے قریب تھی“
راوی کہتے ہیں : اس سے مراد یہ ہے کہ ( وہ گرنے والی تھی) تو خضر علیہ السلام نے اپنے ہاتھ کے ساتھ اس طرح کیا اور اسے کھڑا کردیا توسیدنا موسیٰ علیہ السلام بولے: یہ ایسے لوگ ہیں کہ ہم ان کے پاس آئے لیکن انہوں نے ہمیں کھانا نہیں کھلایا اور ہمیں مہمان نہیں بنایا ۔ (اگلے الفاظ قرآن کے ہیں) ”اگر آپ چاہیں تو اس پران سے معاوضہ وصول کر سکتے ہیں ۔“
تو سیدنا خضر علیہ السلام بولے : (جس کا ذکر قرآن میں ہے ) ”میرے اور آپ کے درمیان فرق ہے جن کاموں پر آپ صبر نہیں کر سکے میں ان کی حقیقت آپ کو بتاتا ہوں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے ارشادفرمایا : ”ہماری خواہش یہ تھی کہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صبر سے کام لیتے تاکہ ان دونوں واقعات کی مزید تفصیلات سامنے آجاتیں۔“
سعید بن جبیر کہتے ہیں سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما یہ تلاوت کیا کرتے تھے ۔ ”اس سے پرے ایک بادشاہ تھا جوٹھیک کشتی کوغصب کر لیا کرتا تھا ۔“ انہوں نے یہ بھی پڑھا ۔ ”جہاں تک لڑکے کا معاملہ ہے وہ کافر تھا اور اس کے ماں باپ مومن تھے ۔“
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه :أخرجه البخاري فى «العلم» برقم: 74، 78،122، 2267،2728،3278، 3400، 3401، 4725،4726، 4727، 6672،7478، ومسلم فى «فضائل الخضر عليه السلام» برقم: 2380، 2661، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 102، 988،6220، 6221، والحاكم في «مستدركه» 2 / 369، برقم: 3414، والنسائي فى «الكبرى» 5 / 360، برقم: 5813، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3984، 4705،4706، 4707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3149، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4903، برقم: 21497، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» 9 / 4905، برقم: 21502)

376- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے بارے میں بیان کرتے ہیں: ﴿وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا﴾ (18-الكهف:82) ”ان دونوں کا باپ نیک آدمی تھا۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سیدنا خضر علیہ السلام نے ان بچوں کے باپ کی نیکی کی وجہ سے ان دونوں کی حفاظت کی تھی۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ ذکر نہیں کیا، وہ دونوں بچے نیک ہیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه الضياء المقدسي في «الأحاديث المختارة» 10 / 231، برقم: 243، والحاكم في «مستدركه» 2 / 369، برقم: 3415، والنسائي فى «الكبرى» 10 / 401، برقم: 11838)

377- محمد بن منکدر بیان کرتے ہیں: اللہ تعالیٰ کسی نیک آدمی کی وجہ سے اس کی اولاد، اور اس کی اولاد کی اولاد ، اسکے گھر کو، اس کے آس پاس کے گھروں کو محفوظ رکھتا ہے۔ اور وہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے حفاظت میں ہوتے ہیں۔
سفیان کہتے ہیں: میرے استاد نے میرے سامنے یہ الفاظ زائد نقل کئے ہیں: ”اور وہ پردے میں ہوتے ہیں۔“
(إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «الكبرى» برقم: 11866، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 13 / 377، برقم: 3199، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 19 / 424، برقم: 36564)

378- زربن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے معؤذتین کے بارے میں دریافت کیا: میں نے کہا: اے ابالمنذر! آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سورتوں کو قرآن سے نکال دیا ہے تو سیدنا بی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مجھے یہ کہا گیا ہے، تم پڑھو تو میں نے پڑھ لیا۔“ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم ویسا ہی کہیں گے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 4976،4977، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 797،4429، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 11653، والبيهقي فى «سننه الكبير» 2 / 393، برقم: 4114، وأحمد في «مسنده» 9 / 4930، برقم: 21571، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» 9 / 4931، برقم: 21579، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 437، برقم: 543، وعبد الرزاق في «مصنفه» برقم: 6040، وابن أبى شيبة فى مصنفه15 / 534، برقم: 30828، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 1 / 111، برقم: 118، والطبراني في «الأوسط» 2 / 27، برقم: 1121)

379- زربن بن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے کہا آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں: جو شخص سال بھر نوافل ادا کرتا رہے، وہی شب قدر کو پاسکتا ہے، تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابو عبدالرحمٰن پر رحم کرے ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ (کسی ایک متعین رات) پر بھروسہ کرکے نہ بیٹھ جائیں، ورنہ وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، اور یہ ستائسویں رات ہے، پھر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کسی استثناء کے بغیر قسم اٹھا کر یہ بات بیان کی کہ یہ ستائسویں رات ہوتی ہے۔
ہم نے ان سے گزارش کی: ابے ابوالمنذر! آپ کو اس بات کا کیسے پتہ چلا، تو انہوں نے فرمایا: اس نشانی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) علامت کی وجہ سے جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ ”اس رات کو صبح جب سورج نکلتا ہے ، تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔“
(إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى « الترغيب فِي قيام رمضان وهو التراويح » برقم: 762، وابن الجارود في «المنتقى» 1 / 159، برقم: 446، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3689، 3690، 3691، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 303، برقم: 5357، والنسائي في «الكبرى» برقم: 3392، وأبو داود برقم: 1378، والترمذي فى «جامعه» برقم: 793،3351، والبيهقي في «سننه الكبير» 4 / 312، برقم: 8643، 8644، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4931، برقم: 21581)

380- سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میرا ایک چچا زاد تھا جس کا گھر بہت دور تھا ، میں نے اس سے کہا: اگر تم مسجد کے قریب کوئی گھر لے لو یا کوئی گدھا لے لو ، تو یہ مناسب ہوگا۔ تو وہ بولا: مجھے یہ بات پسند نہیں کہ میرا گھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھروں کے درمیان ہو۔ سیدنا ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جب سے اس نے اسلام قبول کیا تھا اس کی زبانی میں نے ایسی کوئی بات نہیں سنی تھی جو مجھے اس سے زیادہ بری لگی ہو۔ اور اب وہ پیدل چل کر آنے کا ذکر کررہا تھا۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ”مسجد کی طرف چل کر آتے ہوئے وہ جتنے قدم اٹھائے گا اس کے ہر ایک قدم کے عوض میں اسے ایک درجہ ملے گا۔“
(إسناده صحيح و أخرجه مسلم 663، أخرجه أحمد في «مسنده» 9 / 4937، برقم: 21603، 21604 وابن حبان فى ” صحيحه“ : 2040، 2041 )
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
381- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کسی بھی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلقی اختیار کرے یوں کہ جب وہ دونوں ملیں، تو یہ ادھر منہ کرلے اور وہ ادھر منہ کرلے ان دونوں میں بہتر وہ ہوگا، جو سلام میں پہل کرے۔“
سفیان کہتے ہیں : زہری پہلے یہ روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول روایت کے طور پر سناتے تھے، لیکن پھر انہوں نے اسے عطاء بن یزید کے حوالے سے سنانا شروع کردیا۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه : أخرجه البخاري في «الاستئذان» برقم: 6077، 6237، ومسلم فى «البر والصلة» برقم: 2560، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1332، برقم: 3365 / 691، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5669، 5670، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4911، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1932، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20084، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5598، برقم: 24011، وعبد الرزاق في «مصنفه» 11 / 168، برقم: 20223، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 13 / 56، برقم: 25877، والطبراني فى الكبير 4 / 144، برقم: 3949)

382- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”پاخانہ یا پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف رخ یا پیٹھ نہ کرو، بلکہ (مدینہ منورہ کے حساب سے) مشرق یا مغرب کی جانب رخ کرو۔“
سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ شام آئے، تو وہاں ہم نے ایسے بیت الخلاء دیکھے ، جو قبلہ کی سمت میں بنائے گئے تھے، تو ہم ذرا ٹیڑھے ہوکر بیٹھا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیا کرتے تھے۔
سفیان سے کہا گیا ، نافع بن عمر نامی راوی اس کی سند بیان نہیں کرتے ہیں، تو سفیان نے کہا: مجھے تو یہ روایت یاد ہے اور میں اس کی سند وہی بیان کرتا ہوں جو میں نے تمہارے سامنے بیان کی ہے۔ پھر انہوں نے یہ بات بتائی کہ مکہ کے رہنے والے جو راوی ہیں انہوں نے ایک تحریر حاصل کی تھی۔ جو حمید نامی راوی شام سے لے کر آئے گھے۔ اور یہ روایات انہوں نے زہری کے حوالے سے نوٹ کی تھی ، تو وہ تحریر ابن جرجہ تک پہنچی تو اہل مکہ نے اس تحریر کی وجہ سے ابن شہاب سے اعراض کرنا شروع کردیا، تاہم ہم نے تو ابن شہاب کی زبانی یہ بات سنی ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الوضوء» برقم: 144،394، ومسلم في «الطهارة» برقم: 264، ومالك فى «الموطأ» 1 / 270، برقم: 658 / 206، وابن خزيمة في «صحيحه» 1 / 176، برقم: 57، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1416، 1417 وأحمد فى «مسنده» 10 / 5594، برقم: 23997، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 2 / 155، برقم: 1611، 1612)

383- ابراہیم بن عبداللہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ ”عرج“ کے مقام پر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ کے درمیان اس بات پر بحث ہوگئی کہ احرام والا شخص اپنا سر دھو سکتا ہے؟ ان حضرات نے مجھے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیج دیا، میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے انہیں کنوئیں کے کنارے پڑے ہوئے لکڑی کے ٹکڑوں کے درمیان غسل کرتے ہوئے دیکھا۔ جب انہوں نے مجھے آتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے سینے تک اپنے کپڑے اکھٹے کر لئے۔ جب میں ان کے پاس پہنچا تو میں نے گزارش کی: آپ کے بھتیجے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، تاکہ میں آپ سے دریافت کروں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو احرام کے دوران اپنا سر دھوتے ہوئے آپ نے کیسے دیکھا ہے؟ تو انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے سر پر رکھے، اسے آگے سے پیچھے کی طرف لے گئے پھر پیچھے سے آگے کی طرف لے آئے اور کہا: اس طرح اور اس طرح۔ میں ان دونوں صاحبان کی پاس واپس آیا اور ان دونوں حضرات کو اس بارے میں بتایا تو سیدنا مسور بن محزمہ رضی اللہ عنہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: میں آپ کے ساتھ بحث نہیں کروں گا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الصيد» برقم: 1840، ومسلم فى «الحج» برقم: 1205، ومالك فى «الموطأ» 1 / 465، برقم: 1154 / 337، وابن خزيمة فى «صحيحه» 4 / 319، برقم: 2650، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3948، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5998، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 2664 / 1، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 3631، وأبو داود في «سننه» برقم: 1840، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2934، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5598، برقم: 24012، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 8 / 69، برقم: 13002، والطبراني فى «الكبير» 4 / 150، برقم: 3976)

384- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جو شخص رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے 6 روزے رکھے تو گویا اس نے ہمیشہ نفلی روزے رکھے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ : میں نے سفیان سے کہا: یا شاید سفیان سے یہ کہا گیا: دیگر لوگ تو اسے ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل کرتے ہیں، تو وہ بولے : تم اس حوالے سے خاموش رہو، میں یہ بات جانتا ہوں۔
( إسناده حسن : وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» 10 / 5599، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 6 / 119، برقم: 2337)

385- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص رمضان کے روزے رکھے ۔ اس کے بعد شوال کے چھ (6) روزے رکھ لے، تو گویا اس نے ہمیشہ نفلی روزے رکھے۔“
(إسناده صحيح : وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» 10 / 5599، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 6 / 119، برقم: 233)

386- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہے۔
(وأخرجه مسلم «في الصيام» برقم: 1164، وابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 2114، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3634، وأحمد في «مسنده» 10 / 5599، برقم: 24016، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 759، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 6 / 119، برقم: 233)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
387- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے مزدلفہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں مغرب اور عشاء کی نمازیں ایک ساتھ ادا کی تھیں۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه : وأخرجه البخاري فى «الحج» برقم: 1674، 4414، ومسلم فى «الحج» برقم: 1287، ومالك فى «الموطأ» 1 / 589، برقم: 1501 / 409، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3858، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 141، برقم: 604 / 1، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 1589، 4009،4010، وابن ماجه في «سننه» برقم: 3020، والبيهقي في «سننه الكبير» برقم: 1920، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5601، برقم: 24032، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 8 / 358، برقم: 14239)

388- عطاء بن ابی رباح بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ ، سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے۔ وہ اس وقت مصر میں تھے۔ انہوں نے ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کیا، جو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اور اب کوئی بھی ایسا شخص باقی نہیں رہا تھا جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو۔ صرف سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ اور سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ نے وہ حدیث سنی ہوئی تھی۔
جب سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ مصر آئے تو مسلمہ بن مخلد انصاری کے گھر ٹھہرے، جو مصر کا امیر تھا۔ اسے اس بارے میں بتایا گیا، تو وہ تیزی سے نکل کر ان کے پاس آیا۔ اس نے ان کے ساتھ معانقہ کیا، پھر بولا: اے ابوایوب انصاری (رضی اللہ عنہ) ! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک حدیث سنی تھی، اب میرے اور عقبہ بن عامر کے علاوہ ایسا کوئی شخص نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی وہ حدیث سنی ہو، تو تم کسی ایسے شخص کو میرے ساتھ بھیجو جو مجھے ان کے گھر تک پہنچا دے۔ راوی کہتے ہیں: تو امیر نے سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس شخص کو بھیجا جو انہیں سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کے گھر تک پہنچا دے۔ جب سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان کے بارے میں پتہ چلا تو وہ تیزی ے نکل کر بار آئے اور ان سے گلے ملے اور دریافت کیا: اے ابوایوب (رضی اللہ عنہ) ! آپ کیوں تشریف لائے ہیں؟ تو انہوں نے بتایا: میں نے ایک حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی تھی اب میرے اور آپ کے علاوہ ایسا کوئی شخص باقی نہیں رہا، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ حدیث سنی ہو اور وہ حدیث مؤمن کی پردہ داری کے بارے میں ہے، تو سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ بولے: جی ہاں! میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص دنیا میں کسی مؤمن کی خامی کی پردہ پوشی کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔“ ، تو سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: آپ نے سچ بیان کیا ہے، پھر سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ واپس اپنی سواری کی طرف آئے اس پر سوار ہوئے اور واپس مدینہ آگئے۔
مسلمہ بن مخلد کی مہمانی مصر کے شہر عریش میں ہی تھی کہ آپ ﷜ واپس بھی آگئے ۔ (یعنی وہ مہمانداری کرنے کا ارادہ کررہا تھا)
(أخرجه أحمد فى «مسنده» 7 / 3746، برقم: 17233، 17234 ، 7 / 3873، برقم: 17665، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 12 / 694، برقم: 3077، ، 12 / 697، برقم: 3078، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» 10 / 228، برقم: 18935 ، 10 / 228، برقم: 18936، وأخرجه الطبراني فى الكبير 17 / 349، برقم: 962 ، 19 / 439، برقم: 1067، وأخرجه الطبراني فى «الأوسط» 6 / 72، برقم: 5827)

389- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سورج ڈھل جانے کے بعد چار رکعات ادا کرتے تھے اور یہ ارشاد فرمایا کرتے تھے: ”سورج ڈھلنے کے وقت آسمان (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔“
(إسناده ضعيف : عبيدة هو ابن معتب الضبي ضعيف، وباقي رجالة ثقات، وقزعة هو ابن يحيي - وأخرجه ابن خزيمة في «صحيحه» برقم: 1214، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 461، برقم: 5994، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1270، وابن ماجه في «سننه» برقم: 1157، والبيهقي فى «سننه الكبير» 2 / 488، برقم: 4651، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5599، برقم: 24015، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 489، برقم: 598، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 4 / 273، برقم: 5992، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» 1 / 335، برقم: 1966)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
390- سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”اس شخص کی نماز (کامل) نہیں ہوتی جو اس میں سورۂ فاتحہ نہیں پڑھتا۔“
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري «في الآذان» برقم: 756، و أخرجه مسلم فی «الصلاة» برقم: 394، وابن حبان في « صحيحه» : 1782، 1785، 1786، 1792، 1793)
391- سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم ایک محفل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میری بیعت کرو کہ تم کسی کو اللہ کا شریک نہیں ٹھہراؤ گے، تم چوری نہیں کروگے ، تم زناء نہیں کروگے۔ تم میں سے جو شخص اسے پورا کرلے گا، تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوگا، اور جو شخص ان میں سے کسی ایک جرم کا مرتکب ہوجائے اور اسے سزا دی جائے ، تو یہ اس کے لئے کفارہ بن جائے گی، اور جو شخص ان میں سے کسی ایک جرم کا مرتکب ہو اور اللہ تعالٰ اس کی پردہ پوشی کرے ، تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہوگا۔ اگر وہ چاہے تو اس کی مغفرت کردے اور اگر چاہے تو اسے عذاب دے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الإيمان» برقم: 18،3892، 3893،3999، 4894،6784، 6801، 6873،7213، 7468، ومسلم فى «الحدود» برقم: 1709، و ابن حبان فى « صحيحه» : 4405)

392- مخدجی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: اے ابومحمد یہ کہتے ہیں: وتر واجب ہیں، تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے غلط کہا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں بندوں پر لازم قرار دیا ہے ، جو انہیں ادا کرے اور ان کے حق میں کسی چیز کی کوئی کمی نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے اور جو شخص انہیں ادا نہین کرتا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی عہد نہیں ہوگا۔ اگر وہ چاہے گا، تو اس کی مغفرت کردے گا، اگر چاہے گا تو، اسے عذاب دے گا۔“
( إسناده جيد: وأخرجه مالك فى «الموطأ» 1 / 169، برقم: 400 / 123، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1731،1732،2417، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 460 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 1 / 203، برقم: 318، وأبو داود في «سننه» برقم: 425،1420، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1401، وأحمد فى «مسنده » 10 / 5358، برقم: 23133،23144، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 4 / 499، برقم: 6923)

393- سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ”ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر تنگی اور آسانی ، خوشی اور ناخوشی (ہر حالت میں) اطاعت و فرمانبرداری کی بیعت کی، اور یہ کہ ہم حکمرانوں سے ان کی حکومت کے بارے میں جھگڑا نہیں کریں گے اور ہم جہاں کہیں بھی ہوں گے ، حق کے مطابق بات کہیں گے اور اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہیں ہوں گے۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الأحكام» برقم: 7055،7199، ومسلم فى «الإمارة» برقم: 1709، ومالك فى «الموطأ» 1 / 632، برقم: 1620 / 435، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 4547،4562،4566، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 356، برقم: 5572)

394- سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”سونے کے عوض سونے کا لین دین برابر، برابر ہوگا۔ چاندی کے عوض میں چاندی کا لین دین برابر ، برابر ہوگا۔ کھجور کے عوض کھجور کا لین دین برابر ، برابر ہوگا۔ گندم کے عوض گندم کا لین دین برابر ، برابر ہوگا۔ جو کے عوض میں جو کا لین دین برابر ، برابر ہوگا، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص نمک کے عوض نمک کے لین دین کا بھی ذکر کیا (اور یہ فرمایا) جو شخص زیادہ ادائیگی کرے یا زیادہ ادائیگی کا طلبگار ہو، تو یہ سود ہوگا۔“
( إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح: أخرجه مسلم فى «المصافاة» برقم: 1587، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5015،5018، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5356، برقم: 23123)
 
Top