• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَيْضًا
495- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹایا، لوگ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے صفیں بنا کر کھڑے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اب نبوت کے مبشرات میں سے صرف سچے خواب رہ گئے ہیں، جنہیں کوئی مسلمان دیکھتا ہے ( راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جو اسے دکھائے جاتے ہیں۔ خبردار! مجھے اس بات سے منع کردیا گیا ہے کہ میں رکوع یا سجدے کے دوران قرأت کروں۔ جہاں تک رکوع کا تعلق ہے، تو اس میں تم اپنے پروردگار کی عظمت کرو اور جہاں تک سجدے کا تعلق ہے، تو تم اس میں اہتمام کے ساتھ دعا مانگو وہ اس لائق ہوگی کہ اسے قبول کرلیا جائے۔“
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 479 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 548، 599، 602، 680، 674، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1896، 1900، 6045، 6046، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1044، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 637، 711، 7576، وأبو داود فى «سننه» برقم: 876، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1364، 1365، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3899 وأبو يعلى في « مسنده» برقم: 417 ، 2387)

496- سفیان کہتے ہیں: یہ روایت زیاد بن سعد نے بھی مجھے سنائی تھی، یہ اس سے پہلے کی بات ہے کہ جب میں نے یہ روایت سلیمان سے سنی۔ میں نے ان سے دریافت کیا: میں سلیمان بن صحیم کو آپ کی طرف سے سلام کہہ دوں ، وہ بولے : جی ہاں۔ جب میں مدینہ منورہ آیا، تو میں نے سلیمان کو زیاد کی طرف سے سلام پیش کیا اور ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا۔ (تو انہوں نے مجھے یہ حدیث سنائی) ۔
(وهذا إسناد موصول بالإسناد السابق وهو من المزيد فى متصل الأسانيد، وانظر التعليق السابق)

497- عطاء بن ابی رباح سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب کوئی شخص کچھ کھائے تو اپنا ہاتھ (کپڑے یا کسی اور چیز کے ساتھ) اس وقت تک نہ پونچھے جب تک وہ اسے چاٹ نہ لے یا کسی دوسرے سے چٹوا نہ لے۔“
سفیان کہتے ہیں : عمرو نے ان سے کہا: اے ابومحمد! یہ روایت عطاء نے سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیان کی ہے، تو عمرو بولے: اللہ کی قسم ! میں نے تو یہ روایت عطاء کی زبانی سنی ہے، جسے انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے نقل کیا تھا، اور یہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ہمارے ہاں مکہ آنے سے پہلے کی بات ہے۔ سفیان کہتے ہیں: عمرو بن قیس اور عطاء کی ملاقات سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے اس سال ہوئی تھی ، جس سال سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے مکہ میں رہائش اختیار کی تھی (یا وہاں اعتکاف کیا تھا) ۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5456، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2031، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6744، 6745، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3847، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2069، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14730، 14731، وأحمد فى «مسنده» (2 / 487) برقم: 1949، (2 / 648) برقم: 2716، (2 / 767) برقم: 3296، (2 / 815) برقم: 3568، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2503)

498- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی کنیز کی مردہ بکری کے پاس سے ہوا جو اس کنیز کو صدقے کے طور پر دی گئی تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اس کے مالک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر وہ اس کی کھال حاصل کرکے اس کی دباغت کرکے اس سے نفع حاصل کریں۔“
لوگوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! یہ مردار ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھانے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔
سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے اور بعض اوقات ان کا تذکرہ نہیں کیا، تو ہم اس طرح اور اس طرح (دونوں طرح) سے ذکر کررہے ہیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1492 2221 5531 5532 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 363 365 ومالك فى «الموطأ» برقم: 1829 / 483 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1280 1282 1284 والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4246 4247 2449 4250 4272 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 4547 4548 4550 4551 4573 وأبو داود فى «سننه» برقم: 4120 والترمذي فى «جامعه» برقم: 1727 والحميدي فى «مسنده» برقم: 317، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2419)

499- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا کرنے میں تاخیر کردی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! نماز (کا وقت گزر رہا ہے) ۔ خواتین اور بچے سوچکے ہیں: یہاں عمرو نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا: ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اہل ایمان کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں اس نماز کو اسی وقت میں ادا کرتا۔“
ابن جریج نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت عشاء کی نماز مؤخر کردی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے ایک پہلو کی طرف سے پانی پونچھ رہے تھے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے، ”یہی تو وقت ہے! اگر مجھے اپنی امت کے مشقت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا۔“
سفیان نامی راوی نے بعض اوقات اس حدیث کو نقل کرتے ہوئے اس میں یہ ادراج کیا ہے کہ یہ روایت سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے منقول ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 571، 7239، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 642، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 342، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1098، 1532، 1533، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 530، 531، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1525، وأحمد فى «مسنده» (2 / 487) برقم: 1951، ( 2 / 808) برقم: 3535، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2398)

500- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) اپنے بالوں، یا کپڑوں کو سمیٹیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1094 ، 1095، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
501- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات اعضاء پر سجدہ کریں، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے، انگلیوں کے کنارے اور پیشانی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات سے منع کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔
سفیان کہتے ہیں: طاؤس کے صاحبزادے نے ہمیں یہ کرکے دکھایا، انہوں نے اپنا ہاتھ پیشانی پر رکھا پھر اسے ناک کے کنارے تک لائے اور بولے: میرے والد اسے ایک عضو شمار کرتے تھے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 809، 810، 812، 815، 816، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 490، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1923، 1924، 1925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1092 ، 1095، وأبو داود فى «سننه» برقم: 889، 890، والترمذي فى «جامعه» برقم: 273، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1357، 1358، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 883، 884، 1040)

502- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سات ہڈیوں پر سجدہ کریں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (نماز کے دوران) بال یا کپڑے سمیٹیں۔
(أبو امية عبد الكريم ضعيف، لكنه متابع عليه، والحديث صحيح، وانظر الحديث السابق)

503- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز تہجد ادا کرنے کے لئے اٹھتے تھے ، تو یہ دعا مانگا کرتے تھے:
”اے اللہ! حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں اور زمین میں موجود سب چیزوں کو روشن کرنے والا ہے ، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں ، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کو قائم رکھنے ولا ہے ، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو آسمانوں ، زمین اور ان میں موجود سب چیزوں کا بادشاہ ہے، حمد تیرے لئے مخصوص ہے، تو حق ہے ، تیرا وعدہ حق ہے، تیری بارگاہ میں حاضری حق ہے، جہنم حق ہے، قیامت حق ہے، (سیدنا) محمد ( ﷺ) حق ہیں، تمام انبیاء حق ہیں۔ اے اللہ ! میں نے تیرے لئے اسلام قبول کیا ، تجھ پر ایمان لایا ، میں نے تجھ پر توکل کیا، تیری طرف رجوع کیا، میری تیری مدد سے مقابلہ کرتا ہوں، میں تجھے ہی ثالث تسلیم کرتا ہوں، تو میرے گزشتہ اور آئندہ ضفیہ اور اعلانیہ (ذنب) کی مغفرت کردے ، تو آگے کرنے ولا ہے، تو پیچھے کرنے والا ہے، تیرے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے (یہاں کچھ الفاظ میں راوی کو شک ہے) ۔“
سفیان کہتے ہیں: عبدالکریم نامی راوی نے اس میں یہ الفاظ مزید نقل کیے ہیں: ”تیری مدد کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا۔“ یہ الفاظ سلیمان نامی راوی نے نقل نہیں کیے ہیں۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1120، 6317، 7385، 7442، 7499، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 769، ومالك فى «الموطأ» برقم: 728 / 241، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1151، 1152، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2597، 2598، 2599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1618 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1321، 7656، 7657، 7658، 10638، 11300، وأبو داود فى «سننه» برقم: 771، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3418، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1527، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1355، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2404، وأحمد فى «مسنده» (2 / 658) برقم: 2754)

504- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرنے کے بعد سیدہ جویریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں سے بار تشریف لائے۔ ان کا نام ”برہ“ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام جویریہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ کہا جائے کہ آپ برہ (بھلائی یا نیکی) کے پاس سے تشریف لے گئے ہیں۔
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز ادا کرلینے کے بعد اس خاتون کے ہاں سے نکلے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس واپس تشریف لائے، تو دن اچھی طرح چڑھ چکا تھا۔ وہ خاتون اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت کیا: ”کیا تم اس وقت سے یہیں بیٹھی ہوئی ہو؟“ انہوں نے عرض کی: جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے تمہارے پاس سے جانے کے بعد چار کلمات تین مرتبہ پڑھے، تم نے جو کچھ پڑھا ہے اگر ان کلمات کو ان کے وزن میں رکھا جائے ، تو یہ کلمات وزنی ہوں گے (وہ کلمات یہ ہیں) ”اللہ تعالیٰ کی ذات پاک ہے ، اس کے لئے حمد مخصوص ہے، جو اس مخلوق کی تعداد کے برابر ہو۔ اس کی ذات کی رضامندی کے برابر ہو ، اس کے عرش کے وزن کے برابر ہو اور اس کے کلمات کی سیاہی کے برابر ہو۔“
(إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2140، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 832، 5829، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9916، 9917، 9918، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1503، وأحمد فى «مسنده» (2 / 573) برقم: 2370)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حج کے بارے میں روایات

505- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ اور صفا اور مروہ کی سعی کی تھی تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے سامنے اپنی قوت کا مظاہر کرسکیں۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1602، 1649، 4256، 4257، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1264، 1266، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2707، 2719، 2720، 2777، 2779، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3811، 3812، 3814، 3841، 3845، 6531، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2945، 2979، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3927، 3928، 3959، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1885، 1886، 1889، والترمذي فى «جامعه» برقم: 863، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2953، وأحمد فى «مسنده» (2 / 487) برقم: 1946، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2339، 2574)

506- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: محصب میں پڑاؤ کرنا کوئی چیز نہیں ہے، وہ صرف ایک پڑاؤ کی جگہ ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تھا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1766، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1312، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2989، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4194، 4195، والترمذي فى «جامعه» برقم: 922، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1912، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9842، وأحمد فى «مسنده» 2 / 487، برقم: 1950، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2397)

507- امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: سفیان نے جب یہ روایت بیان کی، تو انہوں نے محصب کے بارے میں ہشام بن عروہ کے حوالے سے منقول روایت بھی بیان کی اور صالح بن کیسان کے حوالے سے منقول روایت بھی بیان کی، تو یہ تمام روایات انہوں نے بیان کی ہیں تاہم ان میں اس کی مانند چیز نہیں ملتی۔
(وانظر الحديث السابق)

508- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب پچھنے لگوائے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام کی حالت میں تھے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1835، 1938، 1939، 5694، 5695، 5700، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1202، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2651، 2655، 2657، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3531، 3950، 3951، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2845، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3184، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1835، 1836، 2372، 2373، والترمذي فى «جامعه» برقم: 775، 776، 777، 839، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1860، 1862، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1682، 3081، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2360، 2390، 2449، 2471، 2726)

509- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پچھنے لگوائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت احرام کی حالت میں تھے۔
راوی کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ عمرو نے ان دونوں صاحبان سے یہ روایت سنی ہے یا دونوں میں کسی ایک جگہ پہ انہیں وہم لاحق ہوا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1835، 1938، 1939، 5694، 5695، 5700، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1202، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2651، 2655، 2657، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3531، 3950، 3951، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2845، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3184، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1835، 1836، 2372، 2373، والترمذي فى «جامعه» برقم: 775، 776، 777، 839، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1860، 1862، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1682، 3081، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2360، 2390، 2449، 2471، 2726)

510- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی حالت میں پچھنے لگوائے تھے۔
(إسناده ضعيف يزيد بن أبى زياد ضعيف وباقي رجاله ثقات وأخرجه ابن ماجه فى المناسك 3081، باب: الحجامة للمحرم والدار قطني فى الحج 239/1 والبيهقي فى الصيام 263/4 باب: الصائم يحتجم لا يبطل صومه من طريق سفيان بهذا الإسناد ولتمام تخريجه انظر «مسند الموصلي» 2360، نقول : الحديث صحيح وقد تقدم فانظر الحديثين السابقين ۔ «مسند الموصلي» 2360 2371، وصحيح ابن حبان أيضا برقم 3950 3951)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
511- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: پہلے لوگ کسی بھی جگہ سے واپس چلے جایا کرتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی بھی شخص اس وقت تک ہرگز واپس نہ جائے جب تک وہ سب سے آخر میں بیت اللہ کا طواف نہیں کرتا۔“
سفیان کہتے ہیں: اس بارے میں اس روایت سے زیادہ اچھی حدیث میں نے نہیں سنی جو سلیمان نے ہمیں سنائی ہے۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1755، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1327، 1328، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2999، 3000، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3897، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1757، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4170، 4185، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2002، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3070، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2403)

512- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) لوگوں کو یہ حکم دیا تھا کہ وہ سے سے آخر میں بیت اللہ کا طواف کریں ، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیض والی خواتین کو اس میں تخفیف دی تھی۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1755، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1327، 1328، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2999، 3000، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3897، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1757، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4170، 4185، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2002، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3070، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2403، وأحمد فى «مسنده» (2 / 489) برقم: 1961)

513- عمرو نامی راوی کہتے ہیں : شیخ ابوشعثاء نے ہمیں یہ بات بتائی کہ انہوں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حالت احرام میں نکاح کیا تھا۔ پھر ابوشعثاء نے دریافت کیا: اے عمرو! تمہارے خیال میں وہ کون سی زوجہ محترمہ تھیں؟ میں نے جواب دیا: لوگ یہ کہتے ہیں : وہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا تھیں۔ تو ابوشعثاء بولے: مجھے تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ بات بتائی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح یا تھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت حالت احرام میں تھے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1837، 4258، 5114، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1410، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4129، 4131، 4133، والحاكم فى «مستدركه» 6882، 6884، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2837، 2838، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3186، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1844، والترمذي فى «جامعه» برقم: 842، 843، 844، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1863، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1964، وأحمد فى «مسنده» 2 / 487، برقم: 1944، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2393، 2481، 2726)

514- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لارہے تھے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم روحاء کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کچھ سواروں سے ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں سلام کیا انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کو جواب دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”تم کون لوگ ہو؟“ ۔ انہوں نے بتایا: ہم مسلمان ہیں، انہوں نے دریافت کیا : آپ کون ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اللہ کا رسول ہوں“ ، تو ایک عورت تیزی سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اس نے اپنے بچے کو اپے ہودج میں سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بلند کیا اور عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! کا اس کا حج ہوگا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں اور تمہیں بھی اجر ملے گا۔“
سفیان کہتے ہیں: ابن منکدر نامی راوی نے یہ روایت پہلے ہمیں مرسل حدیث کے طور پر سنائی تھی، تو مجھے یہ بات بتائی گئی کہ انہوں نے یہ روایت ابراہیم سے سنی ہے تو میں ابراہیم کے پاس آیا ، میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے مجھے یہ بات سنائی۔ انہوں نے بتایا: میں نے یہ روایت ابن منکدر کو سنائی تھی، تو انہوں نے اپنے تمام گھر والوں سمیت حج کیا تھا۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1336، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1596 / 426، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3049، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 144، 3797، 3798، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2644 ، 2645، 2646، 2647، 2648، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3611، 3612، 3613، 3614، 3615، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1736، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9805، 9806، 9807، 9808، 9809،9810، 9811، 9812، وأحمد فى «مسنده» 2 / 483، برقم: 1923، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2400)

515- محمد بن سوقہ بیان کرتے ہیں: ابن منکدر سے کہا گیا: اگر آپ کے ذمے قرض ہو، تو کیا آپ حج کرلیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: حج زیادہ بہتر طور پر قرض ادا کروادے گا۔
( إسناده صحيح إلى ابن منكدر وهو موقوف عليه وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 8 / 796، برقم: 16114، 16115)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
516- منکدر بن محمد اپنے والد کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں: ان سے سے دریافت کیا گیا: کیا آپ بچوں کو حج کروائیں گے؟ انہوں نے جواب دیا: جی ہاں! میں انہیں اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کروں گا۔
( أخرجه وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» (6 / 294) برقم: 1143)

517- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: خثعم قبیلے سے تعلق رکھنے والی ایک عورت نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قربانی کے دن صبح سوال کیا اس وقت سیدنا فضل رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھے ہوئے تھے ، اس خاتون نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر جو حج فرض قرار دیا ہے، وہ میرے والد پر بھی لازم ہوگیا ہے، لیکن وہ عمر رسیدہ شخص ہیں، وہ سواری پر جم کر نہیں بیٹھ سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ کیا میں ان کی طرف سے حج کرلوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : ”جی ہاں۔“
سفیان کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے یہ روایت پہلے زہری کے حوالے سے سلیمان بن یسار کے حوالے سے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے ہمیں سنائی تھی اور انہوں نے اس میں یہ الفاظ زائڈ نقل کئے تھے۔ میں نے عرض کی : یا رسول اللہ (ﷺ) ! کیا اس چیز کا انہیں فائدہ ہوگا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں! جس طرح اگر کسی شخص کے ذمہ قرض ہو اور وہ اسے ادا کردے۔“
جب زہری ہمارے پاس آئے ، تو میں نے ان الفاظ کو مقفود پایا، انہوں نے یہ الفاظ بیان نہیں کیے۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1513، 1852، 1853، 1855، 4399، 6228، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1334، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1317، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 3031، 3032، 3033، 3035، 3036، 3042، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3989، 3990، 3992، 3993، 3994، 3995، 3996، 3997، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2633، 2634، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3600، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1809، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1875، 1876، 1877، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2904، 2907، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2351، 2384)

518- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جہاں تک اس چیز کا تعلق ہے، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے، وہ ایسا اناج ہے، جسے پورا (ناپنے) سے پہلے فروخت کردیا جائے۔
یہاں سفیان نامی راوی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کئے ہیں: ”یہاں تک کہ اسے ناپ لیا جائے۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اپنی رائے یہ بیان کی ہے: ”میں یہ سمجھتا ہوں، ہر چیز کا حکم اس کی مانند ہے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2132، 2135، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1525، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4980، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4611، 4612، 4613، 4614، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6145، 6146، 6147، 6148، 6149، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3496، 3497، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1291، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2227، وأحمد فى «مسنده» 2 / 474، برقم: 1872)

519- عمرو نامی راوی کہتے ہیں: میں نے طاؤس سے کہا: اے ابوعبدالرحمٰن! اگر آپ (زمین کو) ٹھیکے پر دینا ترک کردیں (تو یہ مناسب ہوگا) ، کیونکہ لوگوں نے یہ بات بیان کی ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تو طاؤس بولے: اے عمرو! جو صاحب ان سب لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں، طاؤس کی مراد سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما تھے، انہوں نے مجھے یہ بات بتائی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع نہیں کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا: ”کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو اپنی زمین (بلا معاوضہ) دیدے، یہ اس کے لئے اس سے زیادہ بہتر ہے کہ وہ اس سے اس کا متعین معاوضہ وصول کرے۔“
پھر طاؤس نے بتایا: جب سیدنا معاذ رضی اللہ عنہ یمن تشریف لائے تھے، تو انہوں نے وہاں کے لوگوں کو اس طرز عمل پر باقی رہنے دیا تھا۔
عمروہ کہتے ہیں: میں ان لوگوں کی مدد کرتا ہوں اور انہیں عطیہ دیتا ہوں، اگر انہیں فائدہ ہو، تو وہ مجھے بھی ملتا ہے اور انہیں بھی ملتا ہے ، اگر پیداوار میں کمی ہوجائے، تو اس کا نقصان بھی برداشت کرتا ہوں، اور وہ لوگ بھی کرتے ہیں۔ حقلہ کا رواج انصار میں تھا۔ تم اس بارے میں دریافت کرو۔ (راوی کہتے ہیں:) میں نے علی بن رفاعہ سے اس کے بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولے: یہ مخابرہ ہے۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2330، 2342، 2634، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1550، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5195، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3876، 3882، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4580، 4586، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3389، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1385، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2456، 2457، 2462، 2463، 2464، وأحمد فى «مسنده» (2 / 519) برقم: 2117 ، 2118، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14464)

520- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے، تو وہاں کے لوگ کھجوروں میں دو یا تین سال کے لئے بیع سلف کرلیتے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس بیع سلف کرنی ہو وہ کھجوروں کی متعین تعداد اور معتین وزن یا متعین ناپ میں متعین مدت تک کے لیے بیع سلف کرے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2239، 2240، 2241، 2253، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1604، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4925، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4630، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6166، 11712، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3463، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1311، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2625، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2280، وأحمد فى «مسنده» (2 / 477) برقم: 1893، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2407)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
521- ابوطفیل بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ کی قوم کے افراد یہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا رمل کیا تھا، اور صفا اور مروہ کا بھی رمل کیا تھا، یہ سنت ہے، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ان لوگوں نے کچھ بات ٹھیک کہی ہے اور کچھ غلط کہی ہے۔
فطر نامی راوی نے یہ الفاظ مزید نقل کئے ہیں کہ انہوں نے یہ بات سچ کہی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمل کیا تھا، انہوں نے یہ بات غلط کہی ہے ، یہ سنت نہیں ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1602، 1649، 4256، 4257، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1264، 1266، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2707، 2719، 2720، 2777، 2779، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3811، 3812، 3814، 3841، 3845، 6531، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2945، 2979، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3927، 3928، 3959، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1885، 1886، 1889، والترمذي فى «جامعه» برقم: 863، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2953، وأحمد فى «مسنده» 2 / 487، برقم: 1946، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2339، 2574)

522- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں عرفہ میں سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا، تو میں نے انہیں انار کھاتے ہوئے دیکھا، وہ بولے: آگے آؤ اور تم بھی کھاؤ! شاید تم نے روزہ رکھا ہوا ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا۔
(إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3605، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2827، والترمذي فى «جامعه» برقم: 750، وأحمد فى «مسنده» 2 / 477، برقم: 1895، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2744)

523- محمد بن حنین بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو سنا۔ وہ اس شخص پر حیرانگی کا اظہار کررہے تھے، جو رمضان کا مہینہ شروع کرنے سے ایک دن پہلے ہی روزہ رکھنا شروع کردیتا ہے۔ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جب تم اسے (پہلی کے چاند کو) دیکھ لو تو روزے رکھنا شروع کرو، اور جب تم اسے دیکھو تو روزے رکھنا ختم کردو، اور اگر تم پر بادل چھائے ہوئے ہوں ، تو تم تیس کی تعداد مکمل کرلو۔“
(الحديث صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1003 / 299، وابن الجارود فى المنتقى برقم: 412، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1912، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3590، 3594، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2123، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2327، والترمذي فى «جامعه» برقم: 688، وأحمد فى «مسنده» 2 / 488، برقم: 1956)

524- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے مہینے میں مدینہ منورہ سے روانہ ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھا ہوا تھا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کدید کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا۔
راوی بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری طرز عمل کو اختیار کیا جاتا تھا۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے نہیں معلوم کہ زہری نے یہ الفاظ عبید اللہ کے حوالے سے نقل کیے ہیں ، یا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل کئے ہیں۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1944، 1948، 2953، 4275، 4276، 4277، 4279، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1113، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1031 / 309، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2035، 2036، وابن حبان فى «صحيحه» 3555،3563، 3564، 3566، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2286، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2404، 3021، 3022، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1749، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1661، وأحمد فى «مسنده» (2 / 483) برقم: 1917، و أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2527)

525- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم لوگ اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو“ ؟ انہوں نے بتایا: یہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کے لشکریوں کو اس دن ڈبو دیا تھا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کے مقابلے میں ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2004، 3397، 3943، 4680، 4737، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1130، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2084، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3625، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2847، 2848، 2849، 11173، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2444، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1800، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1734، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2567، وأحمد فى «مسنده» (2 / 644) برقم: 2688، (2 / 687) برقم: 2876)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
525- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے ، تو یہودی عاشورہ کے دن روزہ رکھتے تھے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”تم لوگ اس دن کیوں روزہ رکھتے ہو“ ؟ انہوں نے بتایا: یہ وہ عظیم دن ہے، جس میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کو نجات عطا کی تھی اور فرعون کے لشکریوں کو اس دن ڈبو دیا تھا، سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے شکر کے طور پر اس دن روزہ رکھا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کے مقابلے میں ہم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب ہیں۔“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا۔¤
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 2004، 3397، 3943، 4680، 4737، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1130، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2084، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3625، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2847، 2848، 2849، 11173، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2444، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1800، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1734، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2567، وأحمد فى «مسنده» (2 / 644) برقم: 2688، (2 / 687) برقم: 2876]
526- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھ لے۔ اللہ تعالیٰ کے نام سے برکت حاصل کرتے ہوئے ، اے اللہ تو ہمیں شیطان سے دور رکھ اور جو رزق (یعنی اولاد) تو ہمیں عطا کرے گا، اسے بھی شیطان سے دور رکھ۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں): ” اگر ان کی تقدیر میں (اس صحبت کے نتیجے میں) اولاد ہوئی تو شیطان اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔ “ ¤
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 141، 3271، 3283، 5165، 6388، 7396، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1434، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 983، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8981، 8982، 10024، 10025، 10026، 10027، 10028، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2161، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1092، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2258، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1919]
527- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ثبیہ عورت اپنے ولی کے مقابلے میں اپنی ذات کی زیادہ حقدار ہے اور کنواری سے اس کی ذات کے بارے میں مرضی معلوم کی جائے گی، اس کی خاموشی اس کا اقرار ہوگی۔“¤
[إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1421، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1914 / 495، وابن الجارود فى "المنتقى" 1 / 263، برقم: 769، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4084، 4087، 4088، 4089، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3260، 3261، 3262، 3263، 3264، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5351، 5352، 5353، 5354، 5355، 5370، 5371، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2098، 2100، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1108، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2234، 2235، 2236، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1870]
528- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو لعان کرنے والوں کرنے والوں کے درمیان لعان کروایا، تو جب وہ شخص پانچویں مرتبہ جملہ کہنے لگا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ ہدایت کی کہ وہ اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دے۔ سفیان نامی راوی نے اس روایت میں بعض اوقات یہ الفاظ نقل کئے ہیں۔ ” بے شک یہ (پانچواں جملہ) واجب کردے گا (یعنی جھوٹا ہونے کی صورت میں عذاب کو لازم کردے گا۔ “ ¤
[إسناده صحيح ووالنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3472، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5636، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2255، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 15439] ¤
529- قاسم بن محمد بیان کرتے ہیں: سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے لعان کرنے والے میاں بیوی کا تذکرہ کیا، تو عبداللہ بن شداد نے ان سے کہا: کیا یہی وہ عورت تھیَ جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا: ”اگر میں نے کسی ثبوت کے بغیر کسی کو سنگسار کرنا ہوتا، تو اس عورت کو سنگسار کروا دیتا۔“ تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما پولے : نہیں ، ”وہ عورت تو اعلانیہ (گناہ کیا کرتی تھی)“ ۔¤
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5310، 5316، 6855، 6856، 7238، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1497، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3467 ، 3470 ، 3471 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5635، 7295، 7296، وابن ماجه فى «سننه» 3 / 593، برقم: 2560]
530- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”تمہارے کپڑوں میں سب سے بہتر سفید کپڑے ہیں۔ تمہارے زندہ لوگوں کو وہی پہننے چاہئیں اور اسی میں تم اپنے مردوں کو کفن دو، اور تمہارے سرموں میں سب سے بہتر اثمد ہے کیونکہ وہ بینائی کو تیز کرتا ہے اور بال اگاتا ہے۔“¤
[ إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5423، 6072، 6073، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5128، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9344، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3878، 4061، والترمذي فى «جامعه» برقم: 994، 1757، 1757 م، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1472، 3497، 3499، 3566]
531- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اگر لوگ وصیت کے بارے میں ایک چوتھائی حصے پر اکتفاء کریں، تو یہ میرے نزدیک زیادہ بسندیدہ ہوگا، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: ”ایک تہائی (کے بارے میں وصیت کرنے کی اجازت ہے) ویسے ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔“¤
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2743، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1629، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3636، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6428، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2711، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 12697، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2062، 2106، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 31559، والطبراني فى "الكبير" برقم: 10719]
532- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے نذر کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا: جو ان کی والدہ کے ذمہ لازم تھی، اور ان کی والدہ کا اس نذر کو پورا کرنے سے پہلے انتقال ہوگیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرمایا: ”تم ان کی طرف سے اسے ادا کردو۔“¤
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2761، 6698، 6959، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1638، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1710 / 463، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4393، 4394، 4395، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3661، 3662 ، 3664، 3665، 3826، 3827، 3828، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4740، 4741، 4742، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3307، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1546، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2132، والبيهقي فى«سننه الكبير»برقم: 8330، 12757، 20204، وأحمد فى «مسنده» 2 / 483، برقم: 1918، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2840، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2383، 2683، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12206، 12737، 12738]
533- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتےہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں ایک شخص کا انتقال ہوا ، اس نے ورثاء میں صرف ایک غلام چھوڑا جسے اس نے آزاد کیا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کی وراثت اس غلام کو دے دی۔ ¤
[ إسناده حسن وأخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة" برقم: 41، 42، 43، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8105، 8106، 8107، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6376، 6377، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2905، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2106، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2741، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 12522، 12523، 12524، وأحمد فى «مسنده (2 / 488) برقم: 1955، (2 / 790) برقم: 3434، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2399]
534- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی 9 ازواج تھیں، جن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم 8 ازواج کے لئے وقت تقسیم کیا کرتے تھے۔ ¤
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5067، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1465، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6888، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3196، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5285، 8875، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 6951، 13560، 14849، وأحمد فى «مسنده» 2 / 511، برقم: 2072، (2 / 772) برقم: 3321، 3323]
535- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا ہے، برتن میں پھونک ماری جائے یا اس میں سانس لی جائے۔¤
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5629، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5316، 5399، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1634، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4460، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4522، 6837، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3719، 3728، 3786، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1825، 1888، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2018، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3288، 3421، 3428، 3429، 3430، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 10440، وأحمد فى «مسنده» 2 / 485، برقم: 1932، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2402، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20216، وأحمد فى «مسنده» 2 / 485، برقم: 1932، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2402]
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
536- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جمعرات کا دن بھی کیا تھا؟ پھر وہ رونے لگے، یہاں تک کہ ان کے آنسو زمین پر گرنے لگے۔ ان سے کہا گیا: اے ابوعباس! جمعرات کے دن کیا ہوا تھا؟ تو انہوں نے بتایا: جمعرات کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تکلیف میں اضافہ ہوگیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے پاس کوئی چیز لے آؤ تاکہ میں تمہیں ایک تحریر لکھ دوں تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔“ ( سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ) تو حاضرین میں اس بارے میں اختلاف ہوگیا، حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں اس طرح کا اختلاف مناسب نہیں ہے۔ کسی صاحب نے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا معاملہ ہے؟ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غیر واضح ہے، تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو۔ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دوبارہ یہی سوال کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم مجھے ایسے ہی رہنے دو۔ میں جس حالت میں ہوں یہ اس سے زیادہ بہتر ہے ، جس کی طرف تم مجھے بلا رہے ہو۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو تین باتوں کی تلقین کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جزیرۂ عرب سے مشرکین کو نکال دو، اور وفود کی اسی طرح مہمان نوازی کرنا، جس طرح میں ان کی مہمان نوازی کیا کرتا تھا۔“ ¤ سفیان کہتے ہیں: سلیمان نامی راوی نے یہ بات بیان کی ہے، مجھے یہ نہیں معلوم کہ سعید نامی راوی نے تیسری بات ذکر کی تھی، اور میں اسے بھول گیا ہوں، یا انہوں نے تیسری بات ذکر ہی نہیں کی۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 114، 3053، 3168، 4431، 4432، 5669، 7366، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1637، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6597، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5821، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3029، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 18815، وأحمد فى «مسنده» 2 / 489، برقم: 1960، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2409]
537- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوا تھا تو آپ اس کو یاد رکھنے کے لئے اپنی زبان کو اس کے ساتھ حرکت دیا کرتے تھے اللہ تعالی نے یہ آیت نازل کی:
«لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ» [القيامة: 17] ”تم اس کے ساتھ اپنی زبان کو حرکت نہ دو ، تاکہ تم اسے جلدی حاصل کر لو اس کو جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہمارے ذمہ ہے۔“¤

[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 5، 4927، 4928، 4929، 5044، 7524، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 448، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 39، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 934، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1009، 7924، 11570، 11571، 11572، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3329، وأحمد فى «مسنده» (2 / 485) برقم: 1935،( 2 / 760) برقم: 3252]
538- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: (اس روایت میں راوی نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کا تذکرہ نہیں کیا ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب قرآن نازل ہوتا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے یاد رکھنے کے لیے جلدی جلدی پڑھتے تھے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «لا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ * إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ» [القيامة: 16] ”تم اس لئے اپنی زبان کو حرکت نہ دو کہ تم جلدی اسے یاد کرلو، بے شک اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہمارے ذمہ ہے۔“ ¤ سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۃ ختم ہونے کا علم نہیں ہوتا تھا ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت نازل ہوگئ «بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ »۔

[ إسناده صحيح وهو مرسل، وأخرجه الضياء المقدسي فى "الأحاديث المختارة" برقم: 336، 337، 338، 339، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 850، 851، 852، 4241، وأبو داود فى «سننه» برقم: 788، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 2415، 2416، وأبو داود فى «المراسيل» 1 / 90، برقم: 36]
539- سفیان کہتے ہیں: عطاء بن سائب ایک مرتبہ ہمارے ساتھ گفتگو کر رہے تھے ، میں نے انہیں ایک جنگ کا تذکرہ کرے ہوئے سنا، جس میں وہ شریک ہوئے تھے، پھر انہوں نے گہرا سانس لیا اور رونے لگے کہ اس میں فلاں صاحب بھی تھے، فلاں صاحب بھی تھے ، فلاں صاحب بھی تھے اور مقسم بھی تھے۔ تو سعید بن جبیر بولے: کی تم میں سے ہر ایک نے وہ بات سنی ہے جو کھانے کے بارے میں کہی گئی ہے، تو مقسم نے کہا: اے ابو عبداللہ ! حاضرین کو وہ بات بتا دیجئے، تو سعید بن جبیر بولے: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”بے شک برکت کھانے کے درمیان میں نازل ہوتی ہے ، تو تم اس کے اطراف میں سے کھایا کرو اور اس کے درمیان میں میں سے نہ کھاؤ۔“

[ إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5245، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7211، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6729، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3772، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1805، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2090، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3277، والبيهقي فى«سننه الكبير»برقم: 14728، وأحمد فى «مسنده» 2 / 600، برقم: 2478، 2774، 3251، 3275، 3506، والحميدي فى «مسنده» برقم: 539، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24947، 24948]
540- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”ہمارے لئے بری مثال مناسب نہیں ہے، اپنے ہبہ کو دوبارہ لینے والا اس کتے کی مانند ہے، جو اپنی قئے کو دوبارہ چاٹ لیتا ہے۔“

[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2589، 2621، 2622، 6975، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1622، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2474، 2475، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5121، 5122، 5123، 5126، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3692، 3693، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3538، 3539، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1298، 1299، 2132، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2377، 2385، 2391، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 12135، 12136، 12141، 12142، 12143، 12144، وأحمد فى «مسنده» 2 / 478، برقم: 1897،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2405، 2717] ¤
541- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: جو شخص تصویر بناتا ہے، اسے عذاب دیا جائے گا اور اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ اس میں روح پھونکے، حالانکہ وہ ایسا نہیں کرسکے گا، اور جو شخص جھوٹا خواب بیان کرے گا، اسے عذاب دیا جائے گا اور اس بات کا پابند کیا جائے گا کہ وہ جَو کے دو دانوں کے درمیان گرہ لگائے، اور وہ گرہ نہیں لگا سکے گا اور جو شخص چھپ کر کچھ لوگوں کی بات چیت سن لے جسے وہ لوگ پسند نہ کریں ، تو قیامت کے دن اس شخص کے کانوں میں سیسہ ڈالا جائے گا۔“
فیان کہتے ہیں: روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ «آنُكُ» سے مراد سیسہ ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2225، 5963، 7042، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2110، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5685، 5686، 5846، 5848، 6057، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5373، 5374، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9697، 9698، 9700، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5024، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1751، 2283، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2750، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3916، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 14684، 14687، 14694، وأحمد فى «مسنده» (2 / 476) برقم: 1891]
542- یزید بن ہرمز بیان کرتے ہیں ۔ نجدہ نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو خط لکھ کر ان سے ایک عورت اور غلام کا مسئلہ دریافت کیا ، جوفتح میں شریک ہوتے ہیں کیا ان دونوں کو حصہ ملے گا (اور جنگ کے دوران) بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں دریافت کیا : اور یتیم کے بارے میں دریافت کیا ۔ اس سے یتیم کا نام کب ختم ہو گا اور ذوی القربٰی کے بارے میں دریافت کیا : اس سے مراد کون لوگ ہیں تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا : اے یزید تم لکھو ۔ اگر مجھے یہ اندیشہ نہ ہوتا کہ وہ مزید حماقت کا شکار ہو جائے گا تو میں اسے خط لکھتا ۔ تم یہ لکھو :
تم نے مجھے خط لکھ کر مجھ سے یہ دریافت کیا ہے : زوالقربٰی سے مراد کون ہے ۔ ہم لوگ سمجھتے ہیں اس سے مراد ہم ہیں ۔ لیکن ہماری قوم ہماری اس بات کو تسلیم نہیں کرتی ۔ تم نے مجھ سے ایسی عورت اور غلام کے بارے میں دریافت کیا ہے ، جو فتح میں شریک ہوتے ہیں کیا انہیں کوئی چیز ملے گی تو ان دونوں کو کوئی حصہ نہیں ملے گا ۔ البتہ انہیں ویسے عطیے کے طور پرکوئی چیز دے دی جائے گی ۔ تم نے مجھ سے یتیم کے بارے میں دریافت کیا ہے ۔ اس پریتیم کا نام کب ختم ہوگا تو اس پر سے یتیم کا نام اس وقت تک ختم نہیں ہوگا ، جب تک وہ بالغ نہیں ہو جاتا اور اس سے سمجھداری کے آثار ظاہر نہیں ہوتے ۔ تم نے مجھ سے (جنگ کے دوران) بچوں کو قتل کرنے کے بارے میں دریافت کیا ہے : تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے ان بچوں کو قتل نہیں کیا اور تم بھی انہیں قتل نہیں کر سکتے ماسوائے اس صورت کے کہ تمہیں ان بچوں کے بارے میں ویسا ہی علم ہوجیسا علم سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے ساتھی سیدنا خضر علیہ السلام کو اس لڑکے کے بارے میں تھا ، جسے انہوں نے قتل کردیا تھا ۔
[ إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1812، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4824، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4144، 4145، والنسائي فى «الكبریٰ»برقم: 4419، 4420، 8563، 11513، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2727، 2728، 2982، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1556، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2514، وأحمد فى «مسنده» 2 / 494، برقم: 1992، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2550، 2630، 2631، 2739]
543- عکرمہ بیان کرتے ہیں: جب سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو اس بات کی اطلاع ملی کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے کچھ مرتد لوگوں یعنی کچھ زندیقوں کو جلا دیا ہے ، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بولے: اگر میں انہیں قتل کرتا ہوں ، تو اس کی بنیاد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہے: ”جو شخص اپنا دین تبدیل کرے ، تو تم اسے قتل کردو۔“ لیکن میں انہیں جلواتا نہیں کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”کسی شخص کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ ، وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب دینے کے طریقے کے مطابق عذاب دے۔“
سفیان کہتے ہیں: عمار دہنی اس وقت اس محفل میں یعنی عمرو بن دینار کی محفل میں موجود تھے اور ایوب یہ حدیث بیان کررہے تھے، تو عمار بولے : سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو جلوایا نہیں تھا، سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے لئے گڑھے کھدوائے تھے اور اس پر انہیں دھواں دلوایا تھا، یہاں تک کہ انہیں اس طرح قتل کروایا تھا، تو عمرو بن دینار بولے: کیا تم نے ان کے قاتل کی یہ شعر نہیں سنا:
”آرزوئیں مجھے جہاں چاہیں پھینک دیں، جب وہ مجھے ان دو گڑھوں یں نہیں پھینکیں گی ، جن کے قریب لکڑیاں اور آگ کو کردیا گیا تھا، وہاں موت نقد مل رہی تھی۔ کوئی ادھار نہیں تھا۔“
[أخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 3017، 6922، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4475، 4476، 5606، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6351، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4070 ، 4071، 4072، 4073، 4075، 4076، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3508، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4351، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1458، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2535، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 16921، 16959، 16960، 16961، 16978، 18137]
544- ابوجویریہ جرمی بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا وہ اس وقت خانۂ کعبہ کے ساتھ پشت لگا کر ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے ان سے باذق (شراب کی مخصوص قسم) کے بارے میں دریافت کیا: اللہ کی قسم میں وہ پہلا شخص تھا، جس نے ان سے یہ سوال کیا تھا، تو وہ بولے: سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! پہ باذق کے بارے میں فیصلہ دے چکے ہیں، جو چیز نشہ کرے وہ حرام ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5598، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5622 ، 5703 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5096، 5177، 6787، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 17472، 17473، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17014، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24236، 36936، والطبراني فى "الكبير" برقم: 12694] ¤
545- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا جبرئیل علیہ السلام سے دریافت کیا: ”سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے دو مدتوں میں سے کون سی مدت مکمل کی تھی؟“ تو جبرئیل علیہ السلام بولے: ”جو تمام اور مکمل تھی۔“
[إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2684، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3552، 3553، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 11751، 11752، 11753، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2408، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32508]
546- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوۂ احد سے واپس تشریف لارہے تھے ، تو ایک صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! میں نے ایک بادل دیکھا ہے، جس میں سے گھی اور شہد کی بارش ہورہی تھی ، میں نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ اسے ہتھیلیوں میں حاصل کررہے تھے۔ ان میں سے کچھ لوگ زیادہ حاصل کررہے تھے ، کوئی کم حاصل کر رہا تھا۔ پھر میں نے آسمان کی طرف جاتی ہوئی ایک رسی دیکھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکڑا اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اوپر لے گیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک صاحب نے اسے پکڑا تو وہ بھی اوپر چلے گئے ، پھر ان کے بعد ایک اور صاحب نے پکڑا تو وہ بھی اوپر چلے گئے۔ پھر اس کے بعد ایک اور صاحب نے پکڑا مگر وہ رسی ٹوٹ گئی پھر اسے ملا دیا گیا تو وہ بھی اوپر چلے گئے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: یا رسول اللہ (ﷺ)! مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی تعبیر بیان کروں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی تعبیر بیان کرو! انہوں نے عرض کیا: بادل سے مراد اسلام ہے، اور اس سے جو گھی اور شہد برس رہا ہے اور لگ اسے ہتھیلیوں میں حاصل کررہے ہیں ، اس سے مراد قرآن ، اس کی تلاوت اور اس کی نرمی ہے، تو کوئی اسے زیادہ حاصل کررہا ہے اور کوئی کم حاصل کررہا ہے۔ جہاں تک آسمان پر جانے والی رسی کا تعلق ہے، تو اس سے مراد وہ حق ہے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم گامزن ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار کیا، تو اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلندی عطا کی ، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑ لے گا، تو وہ اس کے ذریعے بلندی حاصل کرلے گا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا ، تو وہ بھی بلندی حاصل کرلے گا، پھر اس کے بعد ایک اور شخص اسے پکڑے گا ، تو یہ منقطع ہوجائے گی، لیکن پھر اس رسی کو اس کے لئے ملادیا جائے گا، تو وہ بھی بلندی اختیار کرے گا۔ یا رسول اللہ (ﷺ)! کیا میں نے ٹھیک تعبیر بیان کی ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم نے کچھ ٹھیک بیان کی ہے اور کچھ اس میں غلطی ہے۔“ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قسم دیتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! تم ”قسم نہ دو۔“
[إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2684، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3552، 3553، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 11751، 11752، 11753، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2408، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32508]
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
547- سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جب جعفر بن طالب رضی اللہ عنہ کے انتقال کی اطلاع آئی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ جعفر کے گھر والوں کے لئے کھانا تیار کرو، کیونکہ انہیں ایسی صورتحال کا سامانا کرنا پڑا ہے، جس نے انہیں مشغول کردیا ہے۔“
(إسناده جيد وأخرجه الضياء المقدسي فى الأحاديث المختارة برقم: 141، 142، 143، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1381، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3132، والترمذي فى «جامعه» برقم: 998، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1610، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7196، 7197، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1850، وأحمد فى «مسنده» 1 / 445، برقم: 1776، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6801)

548- سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس سے گزرے میں اور بنو عبدالمطلب سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا وہاں موجود تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر ہمیں سوار کرلیا تو ہم تین افراد ہوگئے۔
( إسناده جيد وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6791، والبزار فى «مسنده» برقم: 2246، والطبراني فى «الكبير» برقم: 14783، 14786، 14788)

549- معسر بن کدام بیان کرتے ہیں: فہم قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک آدمی نے یہ بات بیان کی ہے ، ہم لوگ مزدلفہ میں سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، انہوں نے ہمارے لئے ایک اونٹ ذبح کروایا، تو سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا جاتا تھا، اور یہ بات بھی بیان کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”گوشت میں سب سے زیادہ پاکیزہ گوشت پشت کا گوشت ہے۔“
( إسناده ضعيف فى جهالة و أخرجه والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7189 7190 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 6623 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3308 وأحمد فى «مسنده» 1 / 443، برقم: 1768 1 / 445، برقم: 1774 1 / 446، برقم: 1781 1 / 447، برقم: 1784)

550- سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ککڑی کے ساتھ کھجور کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5440، 5447، 5449، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2043، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3835، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1844، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2102، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3325، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14752، وأحمد فى «مسنده» 1 / 443، برقم: 1765، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 1025، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6798، والبزار فى «مسنده» برقم: 2240، 2247، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25043، والترمذي فى "الشمائل" برقم: 197)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
551- ”سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: مسلمان کسی کافر کا وارث نہیں بنے گا اور کافر ، مسلمان کا وارث نہیں بنے گا۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1588، 3058، 4282، 6764، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1351، 1614، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1891 / 492، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2985، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5149، 6033، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2962، 4200، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4241، 4242، 6337، 6338، 6339، 6340، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2010، 2909، 2910، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2107، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3041، 3043، 3044، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2729، 2730، 2942، وأحمد فى «مسنده» (9 / 5091) برقم: 22161)

552- سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ ایک گھر سے جھانک کر دیکھا اور ارشاد فرمایا: ”کیا تم لوگ وہ دیکھ رہے ہو جو میں دیکھ رہا ہوں۔ میں فتنوں کو دیکھ رہا ہوں، جو تمہارے گھروں میں یوں گر رہے ہیں، جس طرح بارش کے قطرے گرتے ہیں۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1878، 2467، 3597، 7060، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2885، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8644، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5091، برقم: 22162، 22225، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38282)

553- ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا میں اس وقت ان کے پہلو میں موجود تھا، وہ عرفہ سے مزدلفہ آنے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سوار پر بیٹھے رہے تھے۔ (سوال یہ تھا) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس رفتار سے چلے تھے؟ تو انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم درمیانی رفتار سے چلتے رہے تھے، جب کوئی بلندی آتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رفتار ذرا تیز کردیتے تھے۔
سفیان نے ہشام کا یہ قول نقل کیا ہے نص کا لفظ عنق کے مقابلے میں ذرا زیادہ تیز رفتار کے لئے استعمال ہوتا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 139، 181، 1666، 1667، 1669، 1672، 2999، 4413، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1280، 1286، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1465 / 399، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 64، 973، 2824، 2844، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1594، 3857، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1715، 6597، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 608، 3011، 3018، 3023، 3024، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1592، 3993، 4000، 4004، 4005، 4006، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1921، 1923،1924، 1925، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1922، 1923، 1924، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3017، 3019، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 390، 9580، 9581، 9582، 9583، 9584، 9595، 9596، 9628، وأحمد فى «مسنده» 1 / 467، برقم: 1854، 22156،22163، 22170، 22174، 22175، 22179، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 658، 663، 670، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 6722، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14232، 15893)

554- عامر بن سعد بیان کرتے ہیں، ایک شخص سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں طاعون کے بارے میں دریافت کرنے کے لئے حاضر ہوا تو اس وقت ان کے پاس سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ”: یہ عذاب ہے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) یہ سزا ہے ، جو تم سے پہلے کچھ لوگوں کی طرف بھیجی گئی تھی۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) بنی اسرائیل کے ایک گروہ پر بھیجی گئی تھی، تو کبھی یہ آجاتا ہے اور کبھی چلا جاتا ہے، تو جب یہ کسی ایسی زمین میں واقع ہو جہاں تم موجود ہو، تو تم اس جگہ سے فرار اختیار کرتے ہوئے وہاں سے باہر نہ نکلو، اور جب تم کسی جگہ کے بارے میں اس کے بارے میں سنو تو تم اس جگہ میں داخل نہ ہو۔“
عمرو نامی راوی کہتے ہیں: ہوسکتا ہے یہ کسی قوم کے لئے عذاب اور گناہ ہو اور کسی دوسری قوم کے لئے شہادت ہو۔ سفیان کہتے ہیں: مجھے عمرو کی یہ بات بہت اچھی لگی۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3473، 5728، 6974، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2218، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3330 / 674، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2952، 2954، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7481، 7482، 7483، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1065، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6653، 6654، وأحمد فى «مسنده» 1 / 382، برقم: 1555، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 728)

555- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھے یہ بات بتائی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”سودا ادھار میں ہوتا ہے۔“
ابوبکر حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں، سفیاں بعض اوقات اس حدیث کو ”مرفوع“ حدیث کے طور پر نقل نہیں کرتے۔ ان سے اس بارے میں بات کی گئی تو وہ بولے: بعض اوقات میں بیع صرف کو ناپسند کرنے کی وجہ سے اس روایت کو بیان کرنے سے بچتا ہوں، باقی جہاں تک ”مرفوع“ روایت کا تعلق ہے ، تو یہ ”مرفوع“ ہی ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2178، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1596، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4594، 4595، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6128، 6129، 6130، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2622، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2257، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10606، 10607، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5090، برقم: 22157)

556- سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”میں نے اپنی امت کے لئے ایسی کوئی آزمائش نہیں چھوڑی جو مردوں کے لئے خواتین سے بڑھ کر ہو۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5096، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2740، 2741، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5967، 5969، 5970، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9108، 9225، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2780، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3998، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13653، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5091، برقم: 22160، 9 / 5111، برقم: 22245، وأبو يعلى فى «مسنده» 2 / 260، برقم: 972)

557- بووائل بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے کہا گیا: آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ بات نہیں کریں گے ، تو وہ بولے تم یہ سمجھتے ہو کہ میں جب ان کے ساتھ بات کروں گا، تو تمہیں سنا کر کروں گا۔ حالانکہ میں ان کے ساتھ بات کروں گا، لیکن یوں کہ میں کسی دروازے کو کھولنے والا پہلا فرد نہیں ہوں گا۔
پھر سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بتایا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی ایک بات سنی ہے تو اس کے بعد میں کسی ایسے شخص کے بارے میں جو میرا امیر ہویہ نہیں کہوں گا کہ یہ سب سے بہتر ہے میں نے صلی اللہ علیہ وسلمتم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
” (قیامت کے دن) ایک شخص کو لایا جائے گا جو دنیا میں حکمران تھا تو اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو اس کی آنتیں اپنی جگہ سے نکل آئیں گی اور وہ جہنم میں یوں چکر کھائے گا۔ جس طرح گدھا چکی کے گرد چکر لگاتا ہے تو اہل جہنم اس کے پاس اکٹھے ہو کر کہیں گے تم تو نیکی کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔؟ اورتم ہمیں برائی سے روکتے نہیں تھے؟ تو وہ کہے گا۔ میں تم لوگوں کو نیکی کا حکم دیا تھا لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا۔ اور میں تمہیں برائی سے منع کرتا تھا۔ لیکن خود اس کا ارکتاب کیا کرتا تھا “
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3267، 7098، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2989، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7102، والبيهقي فى «سننه الكبير» 20266، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5101، برقم: 22198، 22208، 22214، 22234)

558- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کے بارے میں یہ بات نقل کرتے ہیں : نبی اکرم کے عرفہ سے مزدلفہ جانے تک سیدنا اسامہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ وہ بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرفہ سے روانہ ہوا ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھاٹی کے پاس تشریف لائے تو آپ سواری سے اترے ۔ وہاں آپ نے پیشاب کیا ۔ یہاں راوی نے پانی بہانے کا ذکر نہیں کیا ۔ پھر میں برتن لے کر آپ کے پاس آیا تو آپ نے مختصر وضو کیا ۔ میں نے عرض کیا یا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نماز ادا کریں گے ۔ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا : ”نماز آگے ہوگی ۔ “¤ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ تشریف لے آئے وہاں آپ نے مغرب کی نماز ادا کی پھر لوگوں نے اپنے پالان اتارے ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمنے عشاء کی نماز ادا کی ۔ ¤ سفیان کہتے ہیں ۔ ابراہیم بن عقبہ اور محمد نامی راوی نے اس روایت کی کسی بھی چیز میں اختلاف ہے ، ایک راوی کہتا ہے ، یہ کریب کے حوالے سے سیدنا اسامہرضی اللہ عنہ سے منقول ہے ، جبکہ دوسرا راوی یہ کہتا ہے ، کریب کے سیدنا عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔ ¤¤

[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 139 ، 181 ، 1666 ، 1667 ، 1669 ، 1672 ، 2999 ، 4413 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم : 1280 ، ومالك فى «الموطأ» برقم : 1465 / 399 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 64 ، 973 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 1594 برقم : 3857 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 608 ، 3011 ، 3018]
 
Last edited:
Top