أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّتِي قَالَ فِيهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ |
وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔
468- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان لوگوں میں شامل تھا ، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور افراد کے ہمراہ مزدلفہ سے منیٰ جلدی روانہ کردیا تھا۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026] |
469- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026] |
470- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب سے تعلق رکھنے والے کم سن لڑکوں کو مزدلفہ سے منیٰ (لوگوں سے) پہلے روانہ کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے زانوں پر نرمی سے ہاتھ مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے میرے چھوٹے بچوں! تم لوگ جمرہ ، عقبیٰ کی رمی اس وقت تک نہ کرنا جب تک سورج نہ نکل آئے۔“
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026] |
471- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کررہے تھے، ایک شخص اپنے اونٹ سے گرا، اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹی اور وہ انتقال کرگیا۔ وہ احرام باندھے ہوئے تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ذریعے غسل دو اور اسے اس کے دو کپڑوں میں کفن دو ، تم اس کے سر کو نہ ڈھانپنا، کیونکہ قیامت کے دن اسے تلبیہ پڑھتے ہوئے زندہ کیا جائے گا۔“
(یہاں اک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے)
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1265، 1266، 1267، 1268، 1839، 1849، 1850، 1851، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1206، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3957، 3958، 3959، 3960، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1903، 2712، 2713 ، 2853، 2854 ، 2855، 2856، 2857، 2858 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2042، 3679، 3680، 3822، 3823، 3824، 3825، 3826، 3827، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3238، 3241، والترمذي فى «جامعه» برقم: 951، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1894، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3084] |
472- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : ”اسے خوشبو نہ لگانا۔“
[إسناده صحيح والحديث متفق عليه وانظر التعليق السابق] |
473- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مرد کسی عورت سے تنہا ہرگز نہ رہے، اور کسی بھی عورت کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ سفر پر جائے ماسوائے اس کے کہ اس اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہونا چاہئے۔“
ایک صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھڑے ہوئے ، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! میرا نام فلاں ، فلاں جنگ میں حصہ لینے کے لئے درج کرلیا گیا ہے، اور میری بیوی حج کرنے کے لئے جارہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: کوفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ (میرے استاد) عمر بن دینار مکی کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے، وہ حدیث کیسی ہے، جس میں یہ ہے کہ میرا نام فلاں فلاں جنگ میں حصہ لینے کے لئے لکھا گیا ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1862، 3006، 3061، 5233، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1341،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2529، 2530، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2731، 3756،3757، 5589، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9174، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2900، وأحمد فى «مسنده» (2 / 489) برقم: 1959، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2391، 2516] |
474- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ” (احرام والے) جس شخص کو جوتے نہیں ملتے وہ موزے پہن لے، جسے تہہ بند نہیں ملتا، ول شلوار پہن لے (راوی کہتے ہیں: یعنی احرام والا شخص) ۔“
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1740، 1841، 1843، 5804، 5853، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1178، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2681، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3781، 3782، 3785،3786، 3789، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2670 ، 2671 ،2678 ، 5340، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3637، 3638، 3645، 9596، 9597، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1829، والترمذي فى «جامعه» برقم: 834، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1840، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2931] |
475- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں مدینۂ منورہ میں آٹھ رکعات ایک ساتھ اور سات رکعات ایک ساتھ ادا کی ہیں۔
عمر و بن دینار مکی نامی راوی کہتے ہیں: میں نے (اپنے استاد) جابر بن زید سے دریافت کیا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کی ہوگی اور عصر کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی اور مغرب کی تاخیر سے ادا کی ہوگی، اور عشاء کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی، تو وہ بولے: میرا بھی یہی خیال ہے۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 543، 562، 1174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 705، ومالك فى «الموطأ» برقم: 480 / 151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 967، 971، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1596، 1597، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 375، 381، 382، 1578، 1586، 1587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1210، 1211، 1214، والترمذي فى «جامعه» برقم: 187، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1069، وأحمد فى «مسنده» 2 / 478، برقم: 1899، 2 / 487، برقم: 1943، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2394، 2401، 2531، 2678] |
476- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں کسی سفر کے علاوہ (یعنی حضر کی حالت میں) اور خوف کے بغیر آٹھ رکعات ایک ساتھ اور سات رکعات ایک ساتھ ادا کی ہیں۔
راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے استاد سے دریافت کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: میرا خیال ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حرج میں مبتلا نہ کریں۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 543، 562، 1174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 705، ومالك فى «الموطأ» برقم: 480 / 151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 967، 971، 972، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1596، 1597، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 588، 589، 600 ، 601 ، 602، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 375، 381، 382، 1578، 1586، 1587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1210، 1211، 1214، والترمذي فى «جامعه» برقم: 187، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1069] |
477- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا ، جو مختصر تھا۔ پھر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ تھوڑا سا تھا، تو میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی اسی طرح کیا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں طرف کھڑا کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لئے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 117، 138، 183، 697، 698، 699، 726، 728، 859، 992، 1198، 4569، 4570، 4571، 4572، 5919، 6215، 6316، 7452، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 256، 304، 763، ومالك فى «الموطأ» برقم: 396 / 120، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 127، 448، 449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1445، 2196، 2579، 2592، 2626، 2627، 2636،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2465، 2545، 2570] |
478- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے اسی کی مانند منقول ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کی طرف سے مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا اور نماز ادا کی۔“
جب عطاء بن ابی رباح نے یہ روایت بیان کی، تو وہاں عمرو بن دینار مکی بھی بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے ہا: اے شیخ ابو محمد! آپ مزید روایت بھی تو بیان کیجئے ، تو عطاء نے کہا اور کیا بیان کرنا ہے؟ میں نے تو یہ اسی طرح سنی ہے، تو عمرو نے بتایا: کریب نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے کہ انہوں نے یہ فرمایا تھا: پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لئے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔
[إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم . وأخرجه مسلم فى صلاة المسافرين 763، 192، باب: الدعاء فى صلاة الليل و قيامه من طريق محمد بن حاتم حدثنا محمد ابن بكر أخبرنا ابن جريج بهذا الإسناد ولتمام تخريجه النظر التعليق السابق] |
479- سفیان بن عنیہ کہتے ہیں: یہ حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوجایا کرتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک نہیں سوتا تھا۔
[جزء من حديث أخرجه البخاري فى الأذان 859، باب: وضوء الصبيان وانظر التعليق السابق . والتعليق اللاحق أيضاً] |
480- سفیان کہتے ہیں : عمرو بن دینار نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ انہوں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے انبیائے کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں، اور انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت تلاوت کی۔
«إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ» (الصافات: 102) ”میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔“
[انفرد به المصنف من هذا الطريق - جزء من حديث أخرجه البخاري فى الأذان 859، باب: وضوء الصبيان وانظر التعليق السابق . والتعليق اللاحق أيضاً] |
481- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عرفہ میں تھے، ہم ایک صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرے ، ہم اس سے اترے اور ہم نے اسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز میں شامل ہوگئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بھی نہیں کہا۔
[إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 76، 493، 861، 1857، 4412، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 504، ومالك فى «الموطأ» برقم: 531 / 163، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 833، 834، 835، 837، 838، 882، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2151، 2356، 2381، 2393، والنسائي فى «المجتبیٰ»برقم: 751 ، 753، والنسائي فى «الكبریٰ» 830، 832، 5833، وأبو داود فى «سننه» برقم: 715، 716، والترمذي فى «جامعه» برقم: 337، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1455، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 947، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2382، 2423] |
482- عطاء بن رباح بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دے کر یہ بات کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبےت سے پہلے نماز ادا کی تھی پھر خطبہ دیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز خواتین تک نہیں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے اپنے کپڑے کو اس طرح پھیلایا ہوا تھا۔
امام حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی انہوں نے اپنے کپڑے کو پھیلایا ہوا تھا، تو خواتین نے اپنی انگھوٹھیاں ، بالیاں اور دیگر چیزیں اس میں ڈالنا شروع کیں۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 98، 863، 960، 962، 964، 975، 977، 979،989، 1431، 1449، 4895، 5249، 5880، 5881، 5883، 7325، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 884، 886، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1436، 1437، 1458، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2818، 2823، 2824، 3322، 3325، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1100، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1568، 1585 ، 1586، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 497، 498، 1779، 1781، 1789، 1791، 1805، 5863، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1142، 1147، 1159، والترمذي فى «جامعه» برقم: 537، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1644، 1645، 1646، 1652، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1273، 1274، 1291] |
483- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ ص میں سجدۂ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے، تاہم یہ لازمی سجدہ نہیں ہے۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 1069، 3421، 3422، 4632، 4806، 4807، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 550، 551، 552،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2766، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 956 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1409، والترمذي فى «جامعه» برقم: 577] |
484- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کرکے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، تو عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو نہیں کریں گے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز تو نہیں پڑھنے لگا، جو وضو کروں۔“
[إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه»برقم: 374 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 35، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5208، والنسائي فى «المجتبیٰ»برقم: 132 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6703، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3760، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1847] |
485- ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں، سیدنا عمر قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے، جب وہ واپس تشریف لائے ، تو ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ ان سے کہا گیا: آپ وضو نہیں کریں گے، تو وہ بولے: میں نے اپنے بائیں ہاتھ کے ذریعے طہارت حاصل کی تھی اور دائیں ہاتھ کے ذریعے اسے کھانا ہے۔
[إسناده صحيح إلى عمر وهو موقوف عليه وأخرجه وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 2405، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 2 / 164، برقم: 1627، 12 / 391، برقم: 24950] |
486- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر کے ذریعے چلتا تھا۔
عمرو بن دینار نامی راوی یہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد ابومعمر کے سامنے یہ روایت ذکر کی، تو انہوں نے ا کا انکار کردیا اور بولے: میں نے تو یہ حدیث تمہیں نہیں سنائی ہے، میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ اس سے قبل یہ حدیث مجھے سنا چکے ہیں۔
سفیان کہتے ہیں : گویا انہیں اپنی ذات کے حوالے سے اندیشہ تھا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 842، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 583، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1706، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2232، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1334، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1259، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1002، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 3062 ، 3063 وأحمد فى «مسنده» 2 / 489، برقم: 1958، وأبو يعلى فى «مسنده» (4 / 279) برقم: 2392] |
487- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت آب زم زم کا ڈول نکالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہوکر پیا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1637، 5617، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2027، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2945، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3838، 5319، 5320، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7303، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2964، 2965، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3942، 3943، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1882، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3422] |
488- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا، ہمارے ساتھ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی : یا رسول اللہ (ﷺ) ! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ چیز کھانے کے لئے پیش نہ کریں جو ام عفیق نے ہمیں تحفے کے طور پر دی ہے ، وہ کچھ بھونی ہوئی گوہ لے آئیں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملاحظہ کیا، تو تین مرتبہ تھوک پھینکا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھایا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی کہ ہم اسے کھا لیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا گیا، جس میں دودھ موجود تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف موجود تھا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”لڑکے پینے کا حق تو تمہارا بنتا ہے، اگر تم چاہو تو خالد کے لئے ایثار کردو۔“
میں نے عرض کی : میں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچائے ہوئے کے بارے میں کسی کے لئے ایثار نہیں کروں گا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی کو کھانے کے لئے کچھ عطا کرے ، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت دے اور ہمیں اس کے بدلے میں اس سے زیادہ بہتر عطا کر۔“ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ پینے کے لئے دودوھ عطا کرے ، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت عطا کر اور ہمیں یہ مزید عطا کر“ ۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) میرے علم کے مطابق اس (دودھ) کے علاوہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو کھانے اور پینے (یعنی بھوک اور پیاس) دونوں کے لئے کافی ہو۔“
[إسناده ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، 1947، 1948، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3550 / 781، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5221، 5223، 5263، 5267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4327، 4328، 4329، 4330، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4809، 4810، 4811، 4812، 6593، 6619، 6667، 10045، 10046، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426، وأحمد فى «مسنده» (2 / 484) برقم: 1929، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2335، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» (12 / 361) برقم: 24834] |
489- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیدل، برہنہ پاؤن، برہنہ جسم اور ختنے کے بغیر حاضر ہو گے۔“
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3349، 3447، 4625، 4626، 4740، 6524، 6525، 6526، ومسلم فى «صحيحه»برقم: 2860، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7318، 7321، 7322، 7347، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2423، 3167، 3332، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2844، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1938، 1975، 2055، 2127، 2317، 2318، 2364، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2760، وأبو يعلى فى «مسنده»برقم: 2396، 2578] |
490- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مخصوص دن کی فضیلت کو اہتمام سے حاصل کرنے کے لئے اس دن روزہ نہیں رکھا صرف یہ ایسا دن ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد عاشورہ کا دن تھا، یا یہ مہینہ ہے، سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد رمضان کا مہینہ تھا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2006، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1132، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2086، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2369 / 26، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2691، والبيهقي فى«سننه الكبير»برقم: 8487، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1963، 2901، 3544، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7837، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9470] |
491-داؤد بن علی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اگر میں زندہ رہ گیا، تو میں اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھنے کا حکم ضرور دوں گا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عاشورہ کا دن تھا۔
[إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2095، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 8494، 8495، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2188، والبزار فى «مسنده» برقم: 5238، والطحاوي فى "شرح معاني الآثار" برقم: 3303، 3304] |
492- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس چمڑے کی دباغت کرلی جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔“
[إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 366 ومالك فى «الموطأ» برقم: 1830 / 484، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1287، 1288، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7246، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4252 / 8، 4253 / 9، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4553، 4554، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1728، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2028، 2029، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3609، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1920، 2474، 2563، 2579، 3259، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2385، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 190، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25266] |
493- شیبانی بیان کرتے ہیں: میں شعمی کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوا تو وہ بولے: کیا تمہارے علم میں کوئی ایسا صاحب علم ہے، جس کے پاس جا کر ہم بیٹھیں۔ کا تم ابوحصین کے پاس جانا چاہو گے ، میں نے جواب دیا: جی نہیں۔ پھر انہوں نے جائزہ لیا تو ان کی نظر یزید بن اصم پر پڑی تو وہ بولے: کیا تم ان کے پاس جا کر بیٹھنا چاہو گے، کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ ہیں، تو ہم ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے، تو یزید بن اصم نے بتایا: سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے گوہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذکر کیا گیا۔ کہ ”میں اسے کھاتا بھی نہیں ہوں اور اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔“ تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما غضبناک ہوئے اور بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف حلال چیزیں بیان کرنے کے لئے اور حرام چیزیں بیان کرنے کے لئے معبوث کیا تھا، اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھائی گئی ہے ۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حلال ہے) ۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، 1947، 1948، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3550 / 781، وابن حبان فى «صحيحه»برقم: 5221، 5223، 5263، 5267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4327 / 3، 4328 / 4، 4329 / 5، 4330 / 6، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4809، 4810، 4811، 4812، 6593، 6619، 6667، 10045، 10046، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426] |
494- سالم بن ابوجعد بیان کرتے ہیں: ایک شخص سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کردیتا ہے ، پھر وہ توبہ کرکے ایمان لے آتا ہے، وہ نیک عمل کرتا ہے، پھر وہ ہدایت حاصل کرلیتا ہے، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے ہدایت کہاں سے مل سکتی ہے؟ میں نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
”قیامت کے دن مقتول کو ایسی حالت میں لایا جائے گا کہ وہ قاتل کے ساتھ ہوگا ، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ اسے ساتھ لے کر عرش کے پاس آئے گا اور عرض کرے گا: اے میرے پرودگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی پر جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے کسی چیز نے اسے منسوخ نہیں کیا ۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3855، 4590، 4762، 4763، 4764، 4765، 4766، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 3023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4010 / 14، 4011 / 15، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3448، 3449، وأبو داود فى «سننه» 4 / 168، برقم: 4273، 4 / 169، برقم: 4275، والترمذي فى «جامعه» 5 / 122، برقم: 3029، وابن ماجه فى «سننه» 3 / 641، برقم: 2621، وأحمد فى «مسنده» (2 / 490)، برقم: 1966، (2 / 532) برقم: 2175، (2 / 651) برقم: 2727، (2 / 804) برقم: 3513] |