• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
436- ہشام بن عروہ اپنے والد ( عمارہ بن خزیمہ) کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ایسے شخص کے بارے میں نقل کرتے ہیں، جو قضائے حاجت کے لئے آتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”کیا کوئی شخص تین پتھر نہیں پاتا۔“
(رجاله ثقات وهو مرسل وأخرجه مالك فى «الموطأ» 1 / 38، برقم: 81 / 28، وأبو داود فى «سننه» برقم: 41، والدارمي فى «مسنده» برقم: 698، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 315، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 506،507، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5118، برقم: 22273)

436م- ہشام نے یہ بات بیان کی ہے، ابووجزہ نامی راوی نے عمارہ بن خزیمہ کے حواے سے ان کے والد (سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یا فرمان نقل کیا ہے: ” (ان پتھروں میں) مینگنی نہیں ہونی چاہئے۔“
(إسناده ضعيف أبو وجزه يزيد بن عبيد لم يسمع عمارة بن خزيمة و أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 41، والدارمي فى «مسنده» برقم: 698، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 315، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 506،507، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5118، برقم: 2227)

437- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(وانظر التعليق السابق)

438- سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی ہے اور مسافر کے لئے تین دن اور تین راتوں تک ہے اور مقیم کے لئے ایک دن اور ایک رات ہے۔ اگر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مزید کی گزارش کرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں مزید رخصت عطا کردیتے۔
(إسناده رجاله ثقات وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1329،1330،1332،1333، وأبو داود فى «سننه» برقم: 157، والترمذي فى «جامعه» برقم: 95، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 553،554، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1331)

439- سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند ہے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں: ”سوال کرنے والا اگر مزید سوال کرتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے مزید اجازت دے دیتے۔“
(رجاله ثقات وانظر التعليق السابق)

440- عمارہ بن خزیمہ اپنے والد (سیدنا خزیمہ بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ) کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”بے شک اللہ تعالیٰ حق بات سے حیا نہیں کرتا ہے، تم لوگ خواتین کی پچھلی شرمگاہوں میں صحبت نہ کرو۔“
(إسناده جيد و أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4198،4200 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1924، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1183، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5117، برقم: 22267)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ سُوَيْدِ بْنِ النُّعْمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
441- سیدنا سوید بن نعمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے، جب ہم صہباء کے مقام پر پہنچے اور ہمارے اور ان کے درمیان ایک منزل کا فاصلہ رہ گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زاد سفر منگوایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ستو پیش کئے گئے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہی چبا لئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی چبا لئے۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کلی کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی کلی کی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مغرب کی نماز پڑھائی ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں نماز ادا کی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے از سر نو وضو نہیں کیا۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري في «الوضوء» برقم: 209 ،215 ،2981 ،4175 ،4195 ،5384 ،5390 ، 5454 ومالك فى «الموطأ» برقم: 72 / 26، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1152،1155، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 61، برقم: 186 / 1، والنسائي في « الكبرى» 1 / 148، برقم: 189 ،6 / 243، برقم: 6666، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 492، والبيهقي فى «سننه الكبير» 1 / 160، برقم: 760، وأحمد في « مسنده » 6 / 3384، برقم: 16041، 6 / 3385، برقم: 16042، 6 / 3452، برقم: 16237)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ قَيْسِ بْنِ أَبِي غَرْزَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
442- سیدنا قیس بن ابوغرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ اقدس میں ہمیں ایجنٹ کہا جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے ، ہم اس وقت بقیع میں موجود تھے، ہمارے ساتھ گھوڑے بھی تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ نام دیا جو ہمارے پہلے نام سے بہتر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے تاجروں کے گروہ“ ، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اکھٹے ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ا ”س سودے میں قسم اور جھوٹ شامل ہوجاتا ہے، تو تم اس میں صدقہ ملادیا کرو۔“
( إسناده صحيح وأخرجه ابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 608، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2148، 2149، 2150، 2151، والنسائي في «المجتبى» 1 / 750، برقم: 3806 / 1، 1 / 750، برقم: 3807 / 2، 1 / 750، برقم: 3808 / 1، 1 / 750، برقم: 3809 / 2، 1 / 874، برقم: 4475 / 1، والنسائي في « الكبرى » برقم: 4720،4721،4722،4723،6012، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3326، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1208، وابن ماجه في «سننه» برقم: 2145)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مُحْصَنٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
443- سلمہ بن عبید اللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص اس حالت میں صبح کرے کہ وہ خوشحال ہو، جسمانی طور پر تندرست ہو، اس کے پاس اس دن کی خوراک موجود ہو تو، گویا اس کے لئے دنیا کو سمیٹ دیا گیا ہے۔“
( إسناده حسن وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 2346، ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4141، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 671)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
444- عبداللہ بن عقیم بیان کرتے ہیں: ہم لوگ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ کے پاس مدائن میں موجود تھے، انہوں نے ایک دیہاتی سے پانی مانگا، وہ چاندی سے بنے ہوئے برتن میں پانی لے کر ان کے پاس آیا، تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے پھینک دیا۔ وہ ایک ایسے صاحب تھے، جن کے مزاج میں کچھ تیزی تھی۔ لوگوں نے یہ بات ناپسند کی کہ وہ ان سے اس بارے میں بات چیت کریں۔ پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ لوگوں کی جانب متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا: میں سے بارے میں تمہارے سامنے عذر بیان کرتا ہوں، مجھے پہلے یہ بات بیان کردینی چاہئے تھی کہ اس طرح کے (برتن میں) مجھے پینے کے لئے نہ دیا جائے، پھر انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان کھڑے ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”چاندی یا سونے سے بنے ہوئے برتنوں میں نہ پیو، دیباج اور حریر استعمال نہ کرو، کیونکہ یہ ان (کفار) کے لئے دنیا میں ہیں ، تمہارے لئے آخرت میں ہوں گے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 5426، 5632، 5633، 5831، 5837، ومسلم برقم: 2067، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5339، 5343، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 5316 / 1، والنسائي في « الكبرى» برقم: 6597، 6841، 6842، 9542، وأبو داود في « سننه» برقم: 3723، والترمذي فى «جامعه » برقم: 1878، والدارمي في « مسنده» برقم: 2176، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3414، 3590، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5528، برقم: 23741، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 12 / 287، برقم: 24615)

445- مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 5426، 5632، 5633، 5831، 5837، ومسلم برقم: 2067، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5339، 5343، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 5316 / 1، والنسائي في « الكبرى» برقم: 6597، 6841، 6842، 9542، وأبو داود في « سننه» برقم: 3723، والترمذي فى «جامعه » برقم: 1878، والدارمي في « مسنده» برقم: 2176، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3414، 3590، وأحمد فى «مسنده» 10 / 5528، برقم: 23741، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 12 / 287، برقم: 24615)

446- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت جب بیدار ہوتے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منہ کو مسواک کے ذریعہ صاف کرتے تھے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 245، 889، 1136، ومسلم فى «صحيحه» " برقم: 255، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 136، 1149، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1072، 1075، 2591، والنسائي فى «المجتبى» (1 / 27) برقم: 2 / 1 ، (1 / 347) برقم: 1620 / 1 ، 1621 / 2، 1622 / 1 ، ( 1 / 348) برقم: 1623 / 1، والنسائي فى «الكبرى» (1 / 74) برقم: 2 ، (2 / 125) ، برقم: 1323، وأبو داود في « سننه» برقم: 55، والدارمي فى «مسنده» برقم: 712، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 286، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 164، 165، وأحمد في « مسنده» (10 / 5522) ، برقم: 23714، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 2 / 211، برقم: 1794، ، 2 / 212، برقم: 1795، ، 2 / 215، برقم: 1801)

447- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچرے کے ڈھیر پر تشریف لائے اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہوکر پیشاب کیا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے ہٹنے لگا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی طرف کھینچ لیا، یہاں تک کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہوگیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو دونوں موزوں پر مسح کرلیا۔
(إسناده صحيح أخرجه البخاري برقم: 224، 225، 226، 2471، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 273، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 52، 61، 63، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1424، 1425، 1427، 1428، 1429، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 18 ، 26 ،28 والنسائي فى «الكبرى» برقم: 18، 23، 24، وأبو داود في « سننه» برقم: 23، والترمذي فى «جامعه» برقم: 13، والدارمي فى «مسنده» برقم: 695، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 305، 306، 544، والبيهقي في « سننه الكبير» برقم: 491، 492، 493، 1298، 1318، 1319، وأحمد فى «مسنده » (8 / 4123) برقم: 18437)

448- ہمام بن حارث بیان کرتے ہیں: ہم لوگ سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے، اسی دوران ایک شخص ہمارے پاس سے گزرا، تو سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: یہ وہ شخص ہے، جو حکمرانوں تک لوگوں کی باتیں پہنچاتا ہے۔ (یعنی ان کی چغلی کرتا ہے) تو سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بولے: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”چغل خور جنت میں داخل نہیں ہوگا۔“
سفیان کہتے ہیں: (روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ) ”القتات“ سے مراد چغل خور ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 6056، ومسلم برقم: 105، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5765، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 11550، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4871، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2026، والبيهقي فى «سننه الكبير» (8 / 166) برقم: 16770، (10 / 247) برقم: 21222، وأحمد فى «مسنده» (10 / 5523) برقم: 23719، والطيالسي فى «مسنده» 1 / 337، برقم: 422، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 13 / 538، برقم: 27117)

449- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سونے کا ارادہ کرتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا دست مبارک اپنے سر کے نیچے رکھتے تھے، پھر یہ پڑھتے تھے۔ ”اے اللہ ! تو اس دن مجھے اپنے عذاب سے بچانا، جس دن تو اپنے بندوں کو جمع کرے گا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) دوبارہ زندہ کرے گا۔“
( إسناده صحيح وأخرجه الترمذي فى «جامعه» برقم: 3398، وأحمد في «مسنده» (10 / 5523) برقم: 23716، والبزار فى «مسنده» (7 / 246) برقم: 2825)

450- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری پنڈلی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) اپنی پنڈلی کا نیچے والا حصہ پکڑا اور فرمایا: ”یہ تہبند رکھنے کی جگہ ہے، اگر تیم نہیں مانتے تو اس سے کچھ نیچے کرلو، اگر نہیں مانتے تو اس سے بھی کچھ نیچے کرلو، اگر نہیں مانتے تو ٹخنوں سے نیچے تہبند کا کوئی حق نہیں ہے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5445، 5448، 5449، والنسائي فى «المجتبى» (1 / 1019 ) برقم: 5344 والنسائي فى «الكبرى» 9606، 9607، 9608، 9609، 9610، والترمذي في «جامعه» برقم: 1783، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3572، وأحمد في «مسنده» (10 / 5522) برقم: 23715، وابن أبى شيبة في «مصنفه» 12 / 499 برقم: 25315)

451- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو حدیثیں بیان کی تھیں، ان میں سے ایک میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا انتظار کررہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی تھی: ”امانت لوگوں کے دلوں کے اندر نازل ہوئی پھر قرآن نازل ہوا تو لوگوں نے قرآن کا علم حاصل کیا اور انہوں نے سنت کا بھی علم حاصل کیا۔“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امانت کے اٹھا لئے جانے کے بارے میں ہمیں بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”آدمی سوئے گا، تو اس کے دل سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا ، تو اس کے دل میں سے امانت کو اٹھا لیا جائے گا، یہاں تک کہ اس کا اس طرح نشان باقی رہ جائے گا، جس طرح آبلے کا نشان ہوتا ہے۔“
پھر سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ نے کچھ کنکریاں پکڑیں اور انہیں اپنے پاؤں پر ڈالا اور کہا: جس طرح ایک انگارہ اتر تم اپنے پاؤں پر ڈالو، وہ جگہ پھول جائے گی اور جلن محسوس ہوگی، لیکن اس کے اندر کچھ نہیں ہوگا، تو لوگ لین دین کریں گے لیکن ان میں کوئی ایسا شخص نہیں ہوگا جو امانت کو ادا کرے، یہاں تک کہ کسی شخص کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ کتنا تیز اور کتنا چالاک اور کتنا عقلمند ہے، حالانکہ کے اس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا۔ مجھے اپنے بارے میں یہ بات یاد ہے کہ میں پہلے اس بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا کہ میں کس کے ساتھ سودا کررہا ہوں، کیونکہ اگر وہ مسلمان ہوتا تو اس کا اسلام اسے میرے ساتھ ٹھیک رکھتا، اگر وہ یہودی یا عیسائی ہوتا، تو اس کا حکمران اسے میرے ساتھ ٹھیک رہنے دیتا، لیکن اب میں صرف فلاں اور فلاں شخص کے ساتھ ہی لین دین کرتا ہوں۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 6497، 7086، 7276، ومسلم برقم: 143، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6762، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2179، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4053، وأحمد فى «مسنده» (10 / 5525) ، برقم: 23727، 23728، 23729، 23912، والطيالسي فى «مسنده » (1 / 339) برقم: 425، وعبد الرزاق فى «مصنفه» (11 / 157) برقم: 20194)

452- سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”فتنے کے بارے میں کون ہمیں حدیث سنائے گا“ ۔ تو میں نے کہا: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”آدمی کے لئے آزمائش اس کی بیوی، اس کے مال اور اس کے پڑوسی میں ہوتی ہے۔ نماز پڑھنا ، صدقہ دینا اور روزہ رکھنا اس کا کفارہ بنتے ہیں۔“
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: میں نے اس بارے میں آپ سے دریافت نہیں کیا، میں آپ سے اس فتنے کے بارے میں دریافت کررہا ہوں ، جو سمند کی لہروں کی طرح موجزن ہوگا۔ میں نے کہا: آپ کے اور اس کے درمیان ایک بند دروازہ ہے ، جو ایک صاحب کے قتل ہونے یا انتقال کرنے کی صورت میں ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: ”کیا س دروازے کو توڑ دیا جائے گا یا اسے کھولا جائے گا؟“ تو میں نے کہا نہیں، بلکہ اسے توڑ دیا جائے گا، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بولے: ”پھر تو وہ اس لائق ہوگا کہ قیامت کے دن تک بند نہ ہو“ ۔
اعمش کہتے ہیں: ہم ہیبت کی وجہ سے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ دریافت نہیں کرسکے کہ کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بات جانتے تھے کہ دروازے سے مراد وہی ہیں، تو ہم نے مسروق سے یہ کہا انہوں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: جی ہاں! جس طرح تم لوگ یہ بات جانتے ہو کہ کل سے پہلے آج کی رات آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے انہیں ایک ایسی حدیث سنائی تھی جس میں غلطی نہیں تھی۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري برقم: 525، 1435، 1895، 3586، 7096، ومسلم برقم: 144، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5966، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8540، والنسائي في «الكبرى» برقم: 324، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2258، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3955، وأحمد فى «مسنده» (10 / 5530) برقم: 23752، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (21 / 37) برقم: 38284)

453- زر بن حبیش بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز ادا کی تھی؟ تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے : اے آگے سے گنجے! کیا تم یہ کہہ رہے ہو کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی تھی؟ میں نے جواب دیا : جی ہاں، میرے اور آپ کے درمیان فیصلہ قرآن کرے گا۔ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بولے: لے کر آؤ، جو شخص قرآن سے دلیل حاصل کرتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے، تو میں نے ان کے سامنے یہ آیت تلاوت کی۔
« سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى» (الإسراء: 1) ”پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات کے وقت مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی۔“
تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: تم نے اس میں کہاں یہ پایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی تھی؟ اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں نماز ادا کی ہوتی ، تو تم لوگوں پر وہاں نماز ادا کرنا لازم قرار دیا جاتا، جس طرح تم پر مسجد الحرام میں نماز ادا کرنا لازم کیا گیا ہے۔
پھر سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جانور پیش کیا گیا۔ جس کی پشت لمبی تھی ، جسے براق کہا جاتا تھا۔ اس کا ایک قدم وہاں تک جاتا تھا، جہاں تک نگاہ جاتی ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسلسل براق کی پشت پر سوار رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور جہنم کو ملاحظہ فرمایا، اور آخرت کا وعدہ تو زیادہ جمع کرنے والا ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگ یہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے باندھ دیا تھا۔ بھئی کیوں؟ کیا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑ کر بھاگ جانا تھا؟ حالانکہ غیب اور شہادت کا علم رکھنے والی ذات نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسخر کیا تھا۔
(إسناده حسن وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 45، والحاكم في «مستدركه» برقم: 3389، والنسائي في «الكبرى» برقم: 11216، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3147، وأحمد فى «مسنده» (10 / 5533) برقم: 23757 ، (10 / 5541) برقم: 23795 ، (10 / 5544) برقم: 23807، ، (10 / 5545) برقم: 23808، ( 10 / 5549) برقم: 23820، والطيالسي في «مسنده» (1 / 327) برقم: 411، وابن أبى شيبة فى "مصنفه" (16 / 440) برقم: 32356 ، (20 / 248) برقم: 37728، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 5014)

454- سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میرے بعد ان دو لوگوں کی کی پیروی کرنا، ابوبکر اور عمر اور عمار کی ہدایت پر عمل کرنا اور میرے بعد ابن ام عبد (یعنی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ) کے عہد کو مضبوطی سے پکڑ کر رکھنا۔“
( إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6902، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4477، 4478، 4479، 4480، 4481، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3662، 3663، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 97)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
455- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت، فاحشہ عورت کے معاوضے اور کاہن کی مٹھائی (یا معاوضے) سے منع کیا ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2237، 2282، 5346، 5761 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1567 ومالك فى «الموطأ» برقم: 2422 / 568، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5157، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4303 ، 4680 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4785 ، 6217 وأبو داود فى «سننه» برقم: 3428، 3481، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1133، 1276، 2071 والدارمي فى «مسنده» برقم: 2610، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2159، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3787) برقم: 17345، (7 / 3788) برقم: 17349 وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (9 / 429) برقم: 17767)

456- زہری بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ عمر بن عبدالعزیز‫ؒ نے نماز ادا کرنے میں تاخیر کردی تو عروہ بن زبیر نے ان سے کہا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے:
”جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے انہوں نے میری امامت کی میں نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی ، پھر وہ نازل ہوئے انہوں نے میری امامت کی ، میں نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی، پھر نازل ہوئے انہوں نے نے میری امامت کی، تو میں نے ان کی اقتداء میں نماز ادا کی، یہاں تک کہ راوی نے پانچ نمازوں کا تذکرہ کیا“ ، تو عمر بن عبدالعزیز نے ان سے کہا: ”اللہ سے ڈرو، اے عروہ! اور اس بات کا جائزہ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو۔“ تو عروہ نے کہا: بشر بن ابو مسعود نے اپنے والد ( سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ ) کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت مجھے سنائی ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 521، 3221، 4007 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 610، 611، ومالك فى «الموطأ» برقم: 5 / 2، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 352، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1448، 1449، 1450، 1494، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 697، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 493 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1494، وأبو داود فى «سننه» برقم: 394، والدارمي فى «مسنده» (2 / 757) برقم: 1223، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 668)

457- سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو شخص رات کے وقت سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت کرے، تو یہ دونوں اس کے لئے کافی ہوں گی۔“
عبدالرحمٰن بن یزید نامی راوی کہتے ہیں: بعد میں میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ سے ہوئی میں نے ان سے اس روایت کے بارے دریافت کیا، تو انہوں نے مجھے یہ بات بتائی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو شخص رات کے وقت سورۂ بقرہ کی آخری دو آیات کی تلاوت کرلے ، تو یہ دونوں اس کے لئے کافی ہوں گی۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4008، 5008، 5009، 5040، 5051 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 807، 808 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1141، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 781، 2575 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7949، 7950، 7951، 7964، 7965، 7966، 10486، 10487، 10488، 10489 وأبو داود فى «سننه» برقم: 1397، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2881، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1528، 3431، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1368، 1369)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
458- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! میں صبح کی نماز باجماعت میں اس لئے شریک نہیں ہو پایا، کیونکہ فلاں صاحب ہمیں طویل نماز پڑھاتے ہیں۔ راوی کہتے ہیں: وعظ و نصیحت کرتے ہوئے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن جتنے غصے میں دیکھا، اتنا غصے میں کبھی نہیں دیکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے بعض لوگ متنفر کردیتے ہیں، تم میں بعض لوگ متنفر کردیتے ہیں۔ جس شخص نے لوگوں کو نماز پڑھانی ہو، وہ مختصر نماز پڑھائے، کیونکہ لوگوں میں بڑی عمر کےآدمی، بیمار آدمی ، کمزور آدمی اور کام کاج والے آدمی بھی ہوتے ہیں۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 90، 702، 704، 6110، 7159، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 466 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1605 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2137، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5860، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1294، وابن ماجه فى «سننه» 2 / 123، برقم: 984، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5347، 5348، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3786) برقم: 17339)

459- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایسی نماز درست نہیں ہوتی ، جس میں آدمی رکوع اور سجدے کے دوران اپنی پشت کو درست نہیں رکھتا۔“
سفیان کہتے ہیں : اعمش نامی راوی نے یہ روایت اسی طرح بیان کی ہے۔ روایت کے الفاظ «لَا تُرْجَى» اس کی امید نہیں کی جاسکتی ، یعنی وہ درست نہیں ہوتی ۔
(إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 591، 592، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1892، 1893، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1026 ، 1110، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 703، 1101 وأبو داود فى «سننه» برقم: 855، والترمذي فى «جامعه» برقم: 265، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1366، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 870، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2612، 2613، 2614، 2770، 2771، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1315، 1316، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3787) برقم: 17348)

460- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: جس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا، اس دن سورج گرہن ہوگیا، تو لوگوں نے کہا: سیدنا ابراھیم رضی اللہ عنہ کے انتقال کی وجہ سے سورج گرہن ہوا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک سورج اور چاند اللہ تعالیٰ کی دو نشانیاں ہیں، یہ کسی کے جینے یا مرنے کی وجہ سے گرہن نہیں ہوتے ہیں، جب تم انہیں (گرہن کی حالت میں) دیکھو تو اللہ کے ذکر اور نماز کی طرف تیزی سے جاؤ۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1041، 1057، 3204، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 911، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1370، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1461 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1858، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1566، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1261، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6388، 6389، 6443، 6444، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3794) برقم: 17376، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (5 / 416) برقم: 8383)

461- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز شروع ہونے سے پہلے ہمارے کندھے سیدھے کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کرتے تھے: ”تم لوگ آپس میں اختلاف نہ کرو (یعنی آگے پیچھے نہ کھڑے ہو) ورنہ تمہارے دلوں میں بھی اختلاف آجائے گا اور تم میں سے سمجھدار اور تجربہ کار لوگ میرے قریب کھڑے ہوں ، پھر اس کے بعد وہ لوگ ہوں جو ان کے قریب کے مرتبے کے ہیں پھر وہ لوگ ہوں جو ان کے قریب کے مرتبے کے ہوں۔“
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 432، وابن الجارود فى المنتقى برقم: 345، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1542، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2172، 2178، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 801، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 806 ، 811، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 883، 888، وأبو داود فى «سننه» برقم: 674، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1302، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 976، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5243، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1085، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3794) برقم: 17377)

462- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”لوگوں کی امامت وہ شخص کرے جو اللہ کی کتاب زیادہ اچھے طریقے سے پڑھ سکتا ہو اگر وہ لوگ قرأت میں برابر ہوں، تو وہ شخص کرے جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو، اگر وہ لوگ سنت کے علم میں بھی برابر ہوں تو وہ شخص کرے جس نے ہجرت پہلے کی ہو، اگر وہ ہجرت میں بھی برابر ہوں ، تو وہ شخص کرے جس کی عمر زیادہ ہو اور کوئی بھی شخص کسی دوسرے کی حکومت میں میں امامت نہ کرے اور نہ ہی اس کے گھر میں اس کے بیٹھنے کی مخصوص جگہ پر بیٹھے، البتہ اس کی اجازت کے ساتھ ایسا کیا جاسکتا ہے۔“
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 673، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 338، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1507، 1516، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2127، 2133، 2144، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 893، 894، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 779، 782، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 857، 860، وأبو داود فى «سننه» برقم: 582، والترمذي فى «جامعه» برقم: 235، 2772، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 980، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3785) برقم: 17337، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (3 / 189) برقم: 3470)

463- سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”ربیعہ اور مضر قبیلے سے تعلق رکھنے والے وہ لوگ جو اونٹوں کو ان کی دم کی طرف سے ہانک کر لے جاتے ہیں ان میں جفا، سختی اور شدت پسندی پائی جاتی ہے۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3302، 3498، 4387، 5303، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 51، وأحمد فى «مسنده» (7 / 3786) ، برقم: 17340، (10 / 5257) برقم: 22774، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (17 / 318) برقم: 33100)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ الْعَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
464- کثیر بن عباس اپنے والد سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: غزوۂ حنین کے موقع پر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس خچر پر سوار تھے، جو جذامی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تحفے کے طور پر دیا تھا۔ جب مسلمان پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اے عباس! آپ بلند آواز میں پکاریں اور کہیں اے درخت! (کے نیچے بیعت کرنے والو) اے سورۂ بقرہ (پر ایمان رکھنے والو) !“
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں ایک ایسا شخص تھا، جس کی آواز بلند تھی، تو میں نے بلند آواز میں پکارا، اے درخت (کے نیچے بیعت کرنے والو) ! اے سورۂ بقرہ (پر ایمان رکھنے والو) ! تو وہ لوگ یکبارگی یوں پلٹے جس طرح گائے اپنی اولاد کی طرف پلٹتی ہے۔ آوزیں بلند ہوئیں اور وہ لوگ یہ کہہ رہے تھے، اے انصار کے گروہ! اے انصار کے گروہ! پھر دعوت کو مختصر کرکے بنو حارث بن خزرج کی طرف کیا گیا اور کہا گیا: اے بنو حارث!
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پر سوار رہتے ہوئے جنگ کا جائزہ لیتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اب جنگ اچھی طرح بھڑک اٹھی ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا: ”اے عباس (﷜) ! آپ آگے بڑھئے“ ۔پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چند کنکریاں پکڑیں اور انہیں پھینکا اور یہ فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! یہ پسپا ہوجائیں گے۔“
سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ لفظ نقل کرتے ہیں : محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پروردگار کی قسم!
سفیان کہتے ہیں : زہری نے یہ طویل حدیث ہمیں سنائی تھی ، لیکن اس کا یہ حصہ مجھے یاد رہ گیا ہے۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1775، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7049، والحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 5147، 5459، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8593، 8599، وأحمد فى «مسنده» (1 / 452) ، برقم: 1800، ( 1 / 453) ، برقم: 1801، وأبو يعلى فى «مسنده» (66/12) برقم: 6708، والبزار فى «مسنده» (4 / 128) برقم: 1301، وعبد الرزاق فى «مصنفه» (5 / 379) برقم: 9741)

465- سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! جناب ابوطالب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خیال رکھا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کیا کرتے تھے، تو کیا اس کا انہیں کوئی فائدہ ہوگا؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں، میں نے انہیں جہنم کے بڑے حصے میں پایا تو انہیں نکال کر اس کے معمولی سے حصے میں لے آیا۔“
( إسناده صحيح و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3883، 6208، 6572، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 209، وأحمد فى «مسنده» 1 / 448، برقم: 1788، ( 1 / 449) ، برقم: 1793، (1 / 452) ، برقم: 1799، (1 / 458) ، برقم: 1814، وأبو يعلى فى «مسنده» (12 / 53) ، برقم: 6694، (12 / 54) ، برقم: 6695، (12 / 78) ، برقم: 6715، والبزار فى «مسنده» (4 / 137) ، برقم: 1311، وعبد الرزاق فى «مصنفه» (6 / 41) ، برقم: 9939، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» (8 / 5031) ، برقم: 35297)

466- سیدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا کی تعلیم دیجئے جسے میں مانگا کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس (﷜) آپ اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کیا کریں۔
انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا کی تعلیم دیجئے جسے میں مانگا کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس (﷜) اے اللہ کے رسول (ﷺ) کے چچا! آپ اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کیا کریں۔
انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ ﷺ مجھے کوئی ایسی دعا کی تعلیم دیجئے جسے میں مانگا کروں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عباس (﷜) اے اللہ کے رسول (ﷺ) کے چچا! آپ اللہ تعالیٰ سے عفو اور عافیت کا سوال کیا کریں۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نامی راوی اس روایت کو بیان کرتے ہوئے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن حارث نے یہ بات بیان کی ہے ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے عرض کی: یا رسول اللہ ( ﷺ) ! تاہم اکثر اوقات انہوں نے یہی بات بیان کی ہے کہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ یہ بات بیان کرتے ہیں: انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ ( ﷺ) !
(إسناده ضعيف غير أن الحديث صحيح بشواهده وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 6696، وانظر طبقات ابن سعد (18/1/4) ويشهد له حديث أبى بكر وقد خرجناه فى «مسند الموصلي» برقم 49، كما يشهد له حديث أنس وقد خرجناه فى المسند المذكور برقم 3929 ، ويشهد له أيضاً حديث ابن عباس وقد خرجناه فى «صحيح اين حبان» برقم 951)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
467- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما مزدلفہ سے روانہ ہوتے وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھے، یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کرلی۔ وہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسلسل تلبیہ پڑھتے ہوئے سنتا رہا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ کی رمی کرلی (تو تلبیہ پڑھنا موقوف کیا) ۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1543، 1670، 1685، 1686، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1281، 1282، وابن الجارود فى «المنتقى» برقم: 523، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2825، 2832، 2843، 2860، 2873، 2881، 2885، 2887، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3804، 3855، 3872، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5235، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3017، 3020، 3052 ،3055، 3058، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1815، 1920، والترمذي فى «جامعه» برقم: 918، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3040، وأحمد فى «مسنده» 1 / 458، برقم: 1816، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 8 / 323، برقم: 14096)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الَّتِي قَالَ فِيهَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
وہ روایات جن میں یہ الفاظ ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، یا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کرتے ہوئے دیکھا۔
468- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ان لوگوں میں شامل تھا ، جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر کے کمزور افراد کے ہمراہ مزدلفہ سے منیٰ جلدی روانہ کردیا تھا۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026]

469- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے مندرجہ بالا روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026]

470- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنوعبدالمطلب سے تعلق رکھنے والے کم سن لڑکوں کو مزدلفہ سے منیٰ (لوگوں سے) پہلے روانہ کردیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے زانوں پر نرمی سے ہاتھ مارتے ہوئے ارشاد فرمایا: ”اے میرے چھوٹے بچوں! تم لوگ جمرہ ، عقبیٰ کی رمی اس وقت تک نہ کرنا جب تک سورج نہ نکل آئے۔“
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1677، 1678، 1856، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1293، 1294، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2870، 2872، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3862، 3863، 3865، 3869، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3032، 3033، 3048، 3064 ، 3065 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4021، 4022، 4041، 4056، 4057، 4169، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1939، 1940، 1941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 892، 893، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3025، 3026]

471- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کررہے تھے، ایک شخص اپنے اونٹ سے گرا، اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹی اور وہ انتقال کرگیا۔ وہ احرام باندھے ہوئے تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے پانی اور بیری کے پتوں کے ذریعے غسل دو اور اسے اس کے دو کپڑوں میں کفن دو ، تم اس کے سر کو نہ ڈھانپنا، کیونکہ قیامت کے دن اسے تلبیہ پڑھتے ہوئے زندہ کیا جائے گا۔“
(یہاں اک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے)
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1265، 1266، 1267، 1268، 1839، 1849، 1850، 1851، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1206، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3957، 3958، 3959، 3960، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1903، 2712، 2713 ، 2853، 2854 ، 2855، 2856، 2857، 2858 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2042، 3679، 3680، 3822، 3823، 3824، 3825، 3826، 3827، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3238، 3241، والترمذي فى «جامعه» برقم: 951، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1894، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3084]

472- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں : ”اسے خوشبو نہ لگانا۔“
[إسناده صحيح والحديث متفق عليه وانظر التعليق السابق]

473- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”کوئی مرد کسی عورت سے تنہا ہرگز نہ رہے، اور کسی بھی عورت کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ سفر پر جائے ماسوائے اس کے کہ اس اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہونا چاہئے۔“
ایک صاحب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھڑے ہوئے ، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! میرا نام فلاں ، فلاں جنگ میں حصہ لینے کے لئے درج کرلیا گیا ہے، اور میری بیوی حج کرنے کے لئے جارہی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔“
سفیان نامی راوی کہتے ہیں: کوفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ (میرے استاد) عمر بن دینار مکی کی خدمت میں آیا کرتے تھے اور ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کرتے تھے۔ وہ یہ کہتے تھے، وہ حدیث کیسی ہے، جس میں یہ ہے کہ میرا نام فلاں فلاں جنگ میں حصہ لینے کے لئے لکھا گیا ہے۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1862، 3006، 3061، 5233، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1341،وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2529، 2530، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2731، 3756،3757، 5589، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9174، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2900، وأحمد فى «مسنده» (2 / 489) برقم: 1959، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2391، 2516]

474- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ” (احرام والے) جس شخص کو جوتے نہیں ملتے وہ موزے پہن لے، جسے تہہ بند نہیں ملتا، ول شلوار پہن لے (راوی کہتے ہیں: یعنی احرام والا شخص) ۔“
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1740، 1841، 1843، 5804، 5853، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1178، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2681، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3781، 3782، 3785،3786، 3789، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2670 ، 2671 ،2678 ، 5340، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3637، 3638، 3645، 9596، 9597، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1829، والترمذي فى «جامعه» برقم: 834، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1840، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2931]

475- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں مدینۂ منورہ میں آٹھ رکعات ایک ساتھ اور سات رکعات ایک ساتھ ادا کی ہیں۔
عمر و بن دینار مکی نامی راوی کہتے ہیں: میں نے (اپنے استاد) جابر بن زید سے دریافت کیا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کی ہوگی اور عصر کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی اور مغرب کی تاخیر سے ادا کی ہوگی، اور عشاء کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی، تو وہ بولے: میرا بھی یہی خیال ہے۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 543، 562، 1174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 705، ومالك فى «الموطأ» برقم: 480 / 151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 967، 971، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1596، 1597، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 375، 381، 382، 1578، 1586، 1587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1210، 1211، 1214، والترمذي فى «جامعه» برقم: 187، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1069، وأحمد فى «مسنده» 2 / 478، برقم: 1899، 2 / 487، برقم: 1943، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2394، 2401، 2531، 2678]

476- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے مدینہ منورہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں کسی سفر کے علاوہ (یعنی حضر کی حالت میں) اور خوف کے بغیر آٹھ رکعات ایک ساتھ اور سات رکعات ایک ساتھ ادا کی ہیں۔
راوی کہتے ہیں: میں نے اپنے استاد سے دریافت کیا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ تو انہوں نے جواب دیا: میرا خیال ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کو حرج میں مبتلا نہ کریں۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 543، 562، 1174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 705، ومالك فى «الموطأ» برقم: 480 / 151، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 967، 971، 972، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1596، 1597، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 588، 589، 600 ، 601 ، 602، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 375، 381، 382، 1578، 1586، 1587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1210، 1211، 1214، والترمذي فى «جامعه» برقم: 187، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1069]

477- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا ، جو مختصر تھا۔ پھر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ تھوڑا سا تھا، تو میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی اسی طرح کیا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں طرف کھڑا کرلیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لئے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 117، 138، 183، 697، 698، 699، 726، 728، 859، 992، 1198، 4569، 4570، 4571، 4572، 5919، 6215، 6316، 7452، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 256، 304، 763، ومالك فى «الموطأ» برقم: 396 / 120، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 127، 448، 449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1445، 2196، 2579، 2592، 2626، 2627، 2636،وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2465، 2545، 2570]

478- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے اسی کی مانند منقول ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں: ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے کی طرف سے مجھے اپنے دائیں طرف کھڑا کیا اور نماز ادا کی۔“
جب عطاء بن ابی رباح نے یہ روایت بیان کی، تو وہاں عمرو بن دینار مکی بھی بیٹھے ہوئے تھے، پھر انہوں نے ہا: اے شیخ ابو محمد! آپ مزید روایت بھی تو بیان کیجئے ، تو عطاء نے کہا اور کیا بیان کرنا ہے؟ میں نے تو یہ اسی طرح سنی ہے، تو عمرو نے بتایا: کریب نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے کہ انہوں نے یہ فرمایا تھا: پھرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے اور سو گئے ، یہاں تک کہ خراٹے لینے لگے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے لئے بلایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا کی اور از سر نو وضو نہیں کیا۔
[إسناده صحيح فقد صرح ابن جريج بالتحديث عند مسلم . وأخرجه مسلم فى صلاة المسافرين 763، 192، باب: الدعاء فى صلاة الليل و قيامه من طريق محمد بن حاتم حدثنا محمد ابن بكر أخبرنا ابن جريج بهذا الإسناد ولتمام تخريجه النظر التعليق السابق]

479- سفیان بن عنیہ کہتے ہیں: یہ حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوجایا کرتی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قلب مبارک نہیں سوتا تھا۔
[جزء من حديث أخرجه البخاري فى الأذان 859، باب: وضوء الصبيان وانظر التعليق السابق . والتعليق اللاحق أيضاً]

480- سفیان کہتے ہیں : عمرو بن دینار نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ انہوں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے انبیائے کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں، اور انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت تلاوت کی۔ «إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ» (الصافات: 102) ”میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔“
[انفرد به المصنف من هذا الطريق - جزء من حديث أخرجه البخاري فى الأذان 859، باب: وضوء الصبيان وانظر التعليق السابق . والتعليق اللاحق أيضاً]

481- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں اور سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما ایک گدھی پر سوار ہو کر آئے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت عرفہ میں تھے، ہم ایک صف کے کچھ حصے کے آگے سے گزرے ، ہم اس سے اترے اور ہم نے اسے چرنے کے لئے چھوڑ دیا۔ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں نماز میں شامل ہوگئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں کچھ بھی نہیں کہا۔
[إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 76، 493، 861، 1857، 4412، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 504، ومالك فى «الموطأ» برقم: 531 / 163، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 833، 834، 835، 837، 838، 882، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2151، 2356، 2381، 2393، والنسائي فى «المجتبیٰ»برقم: 751 ، 753، والنسائي فى «الكبریٰ» 830، 832، 5833، وأبو داود فى «سننه» برقم: 715، 716، والترمذي فى «جامعه» برقم: 337، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1455، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 947، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2382، 2423]

482- عطاء بن رباح بیان کرتے ہیں: میں نے سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں گواہی دے کر یہ بات کہتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید کے دن خطبےت سے پہلے نماز ادا کی تھی پھر خطبہ دیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیا کہ شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز خواتین تک نہیں پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لے گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وعظ و نصیحت کی اور انہیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ تھے، جنہوں نے اپنے کپڑے کو اس طرح پھیلایا ہوا تھا۔
امام حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں: یعنی انہوں نے اپنے کپڑے کو پھیلایا ہوا تھا، تو خواتین نے اپنی انگھوٹھیاں ، بالیاں اور دیگر چیزیں اس میں ڈالنا شروع کیں۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 98، 863، 960، 962، 964، 975، 977، 979،989، 1431، 1449، 4895، 5249، 5880، 5881، 5883، 7325، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 884، 886، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1436، 1437، 1458، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2818، 2823، 2824، 3322، 3325، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1100، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1568، 1585 ، 1586، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 497، 498، 1779، 1781، 1789، 1791، 1805، 5863، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1142، 1147، 1159، والترمذي فى «جامعه» برقم: 537، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1644، 1645، 1646، 1652، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1273، 1274، 1291]

483- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سورۂ ص میں سجدۂ تلاوت کرتے ہوئے دیکھا ہے، تاہم یہ لازمی سجدہ نہیں ہے۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 1069، 3421، 3422، 4632، 4806، 4807، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 550، 551، 552،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2766، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 956 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1409، والترمذي فى «جامعه» برقم: 577]

484- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کرکے تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا، تو عرض کی گئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو نہیں کریں گے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نماز تو نہیں پڑھنے لگا، جو وضو کروں۔“
[إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه»برقم: 374 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 35، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5208، والنسائي فى «المجتبیٰ»برقم: 132 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6703، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3760، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1847]

485- ہشام بن عروہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں، سیدنا عمر قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے، جب وہ واپس تشریف لائے ، تو ان کی خدمت میں کھانا پیش کیا گیا۔ ان سے کہا گیا: آپ وضو نہیں کریں گے، تو وہ بولے: میں نے اپنے بائیں ہاتھ کے ذریعے طہارت حاصل کی تھی اور دائیں ہاتھ کے ذریعے اسے کھانا ہے۔
[إسناده صحيح إلى عمر وهو موقوف عليه وأخرجه وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» برقم: 2405، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 2 / 164، برقم: 1627، 12 / 391، برقم: 24950]

486- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ختم ہونے کا پتہ تکبیر کے ذریعے چلتا تھا۔
عمرو بن دینار نامی راوی یہ کہتے ہیں: میں اپنے استاد ابومعمر کے سامنے یہ روایت ذکر کی، تو انہوں نے ا کا انکار کردیا اور بولے: میں نے تو یہ حدیث تمہیں نہیں سنائی ہے، میں نے کہا: جی ہاں۔ آپ اس سے قبل یہ حدیث مجھے سنا چکے ہیں۔
سفیان کہتے ہیں : گویا انہیں اپنی ذات کے حوالے سے اندیشہ تھا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه»برقم: 842، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 583، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1706، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2232، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1334، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1259، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1002، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 3062 ، 3063 وأحمد فى «مسنده» 2 / 489، برقم: 1958، وأبو يعلى فى «مسنده» (4 / 279) برقم: 2392]

487- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت آب زم زم کا ڈول نکالا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھڑے ہوکر پیا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1637، 5617، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2027، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2945، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3838، 5319، 5320، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7303، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2964، 2965، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3942، 3943، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1882، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3422]

488- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گیا، ہمارے ساتھ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گزارش کی : یا رسول اللہ (ﷺ) ! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وہ چیز کھانے کے لئے پیش نہ کریں جو ام عفیق نے ہمیں تحفے کے طور پر دی ہے ، وہ کچھ بھونی ہوئی گوہ لے آئیں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ملاحظہ کیا، تو تین مرتبہ تھوک پھینکا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کھایا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ہدایت کی کہ ہم اسے کھا لیں۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن پیش کیا گیا، جس میں دودھ موجود تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نوش فرمایا۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف موجود تھا، اور سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”لڑکے پینے کا حق تو تمہارا بنتا ہے، اگر تم چاہو تو خالد کے لئے ایثار کردو۔“
میں نے عرض کی : میں ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بچائے ہوئے کے بارے میں کسی کے لئے ایثار نہیں کروں گا۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ کسی کو کھانے کے لئے کچھ عطا کرے ، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت دے اور ہمیں اس کے بدلے میں اس سے زیادہ بہتر عطا کر۔“ اور جس شخص کو اللہ تعالیٰ پینے کے لئے دودوھ عطا کرے ، تو وہ یہ پڑھے: ”اے اللہ تو ہمارے لئے اس میں برکت عطا کر اور ہمیں یہ مزید عطا کر“ ۔ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) میرے علم کے مطابق اس (دودھ) کے علاوہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے، جو کھانے اور پینے (یعنی بھوک اور پیاس) دونوں کے لئے کافی ہو۔“
[إسناده ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان ولكن الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، 1947، 1948، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3550 / 781، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5221، 5223، 5263، 5267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4327، 4328، 4329، 4330، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4809، 4810، 4811، 4812، 6593، 6619، 6667، 10045، 10046، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426، وأحمد فى «مسنده» (2 / 484) برقم: 1929، وأخرجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2335، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» (12 / 361) برقم: 24834]

489- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر خطبہ دیتے ہوئے یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”تم لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیدل، برہنہ پاؤن، برہنہ جسم اور ختنے کے بغیر حاضر ہو گے۔“
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3349، 3447، 4625، 4626، 4740، 6524، 6525، 6526، ومسلم فى «صحيحه»برقم: 2860، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7318، 7321، 7322، 7347، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2423، 3167، 3332، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2844، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1938، 1975، 2055، 2127، 2317، 2318، 2364، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2760، وأبو يعلى فى «مسنده»برقم: 2396، 2578]

490- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میرے علم کے مطابق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی مخصوص دن کی فضیلت کو اہتمام سے حاصل کرنے کے لئے اس دن روزہ نہیں رکھا صرف یہ ایسا دن ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد عاشورہ کا دن تھا، یا یہ مہینہ ہے، سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی مراد رمضان کا مہینہ تھا۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2006، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1132، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2086، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2369 / 26، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2691، والبيهقي فى«سننه الكبير»برقم: 8487، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1963، 2901، 3544، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7837، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9470]

491-داؤد بن علی اپنے والد کے حوالے سے اپنے دادا کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”اگر میں زندہ رہ گیا، تو میں اس سے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد روزہ رکھنے کا حکم ضرور دوں گا۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد عاشورہ کا دن تھا۔
[إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2095، والبيهقي فى«سننه الكبير» برقم: 8494، 8495، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2188، والبزار فى «مسنده» برقم: 5238، والطحاوي فى "شرح معاني الآثار" برقم: 3303، 3304]

492- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جس چمڑے کی دباغت کرلی جائے وہ پاک ہوجاتا ہے۔“
[إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 366 ومالك فى «الموطأ» برقم: 1830 / 484، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1287، 1288، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7246، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4252 / 8، 4253 / 9، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4553، 4554، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4123، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1728، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2028، 2029، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3609، وأحمد فى «مسنده» برقم: 1920، 2474، 2563، 2579، 3259، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 2385، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 190، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25266]

493- شیبانی بیان کرتے ہیں: میں شعمی کے ہمراہ مسجد میں داخل ہوا تو وہ بولے: کیا تمہارے علم میں کوئی ایسا صاحب علم ہے، جس کے پاس جا کر ہم بیٹھیں۔ کا تم ابوحصین کے پاس جانا چاہو گے ، میں نے جواب دیا: جی نہیں۔ پھر انہوں نے جائزہ لیا تو ان کی نظر یزید بن اصم پر پڑی تو وہ بولے: کیا تم ان کے پاس جا کر بیٹھنا چاہو گے، کیونکہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا ان کی خالہ ہیں، تو ہم ان کے پاس جا کر بیٹھ گئے، تو یزید بن اصم نے بتایا: سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے گوہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ذکر کیا گیا۔ کہ ”میں اسے کھاتا بھی نہیں ہوں اور اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا۔“ تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما غضبناک ہوئے اور بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صرف حلال چیزیں بیان کرنے کے لئے اور حرام چیزیں بیان کرنے کے لئے معبوث کیا تھا، اور یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھائی گئی ہے ۔ (اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حلال ہے) ۔
[ إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2575، 5389، 5391، 5400، 5402، 5537، 7358، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1945، 1946، 1947، 1948، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3550 / 781، وابن حبان فى «صحيحه»برقم: 5221، 5223، 5263، 5267، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4327 / 3، 4328 / 4، 4329 / 5، 4330 / 6، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4809، 4810، 4811، 4812، 6593، 6619، 6667، 10045، 10046، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3730، 3793، 3794، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3455، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2060، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3241، 3322، 3426]

494- سالم بن ابوجعد بیان کرتے ہیں: ایک شخص سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا، جو کسی مؤمن کو جان بوجھ کر قتل کردیتا ہے ، پھر وہ توبہ کرکے ایمان لے آتا ہے، وہ نیک عمل کرتا ہے، پھر وہ ہدایت حاصل کرلیتا ہے، تو سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اسے ہدایت کہاں سے مل سکتی ہے؟ میں نے تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
”قیامت کے دن مقتول کو ایسی حالت میں لایا جائے گا کہ وہ قاتل کے ساتھ ہوگا ، اس کی رگوں سے خون بہہ رہا ہوگا وہ اسے ساتھ لے کر عرش کے پاس آئے گا اور عرض کرے گا: اے میرے پرودگار! اس سے پوچھ کہ اس نے مجھے کیوں قتل کیا تھا؟۔“
سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : اللہ کی قسم! یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کی تھی پر جب سے یہ آیت نازل ہوئی ہے کسی چیز نے اسے منسوخ نہیں کیا ۔
[إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3855، 4590، 4762، 4763، 4764، 4765، 4766، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 3023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4010 / 14، 4011 / 15، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3448، 3449، وأبو داود فى «سننه» 4 / 168، برقم: 4273، 4 / 169، برقم: 4275، والترمذي فى «جامعه» 5 / 122، برقم: 3029، وابن ماجه فى «سننه» 3 / 641، برقم: 2621، وأحمد فى «مسنده» (2 / 490)، برقم: 1966، (2 / 532) برقم: 2175، (2 / 651) برقم: 2727، (2 / 804) برقم: 3513]
 
Last edited:
Top