• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أَبِي رَافِعٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
559- سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ میں پڑاؤ کروں ۔ یعنی وادی ابطح میں پڑاؤ کروں تاہم میں نے وہاں خیمہ لگا لیا تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں پڑاؤ کیا ۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم : 1313 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 2986 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 2009 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 9845 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 24399 ، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم : 13503 ، والطبراني فى الكبير برقم : 916)

560- سفیان کہتے ہیں : عمرو بن دینار نے یہ روایت صالح بن کیسان کے حوالے سے نقل کی ہے ، جب صالح ہمارے ہاں تشریف لائے ، تو انہوں نے ہم سے کہا: تم ان کے پاس جاؤ اور ان سے اس حدیث کے بارے میں دریافت کرو ۔
(وانظر التعليق السابق)


561- عبید اللہ بن ابورافع اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”میں تم سے کسی ایک شخص کو ہرگز ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ اپنے تکیے کے ساتھ ٹیک لگا کر بیٹھا ہوا ہو ، اس کے پاس ہمارے احکام میں سے کوئی حکم آئے جو حکم ہم نے دیا تھا یا جس چیز سے ہم نے منع کیا تھا ، تو وہ یہ کہے : مجھے نہیں معلوم ، ہمیں اللہ کی کتاب میں یہ نہیں ملا ، ورنہ ہم اس کی پیروی کرلیتے ۔ “
حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ابن منکدر کی روایات کو میں نے زیادہ اچھے طریقے سے یاد رکھا ہوا ہے ، میں نے سب سے پہلے یہ روایت ان سے سنی تھی اور میں نے یہ روایت یاد بھی رکھی ہے ۔
(إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم : 13 ، والحاكم فى «مستدركه» برقم : 368 ، 369 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 4605 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 2663 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 13 ، وأحمد فى «مسنده» برقم : 24384 ، 24400)

562- عمرو بن شرید بیان کرتے ہیں : سیدنا مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ نے میرا ہاتھ پکڑا اور بولے : تم میرے ساتھ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے پاس چلو ، میں ان کے ساتھ گیا ، ان کا ایک ہاتھ میرے کندھے پر تھا ۔ سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور انہوں نے سیدنا مسور بن مخزمہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ انہیں یعنی سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو یہ نہیں کہتے کہ وہ اپنے محلے میں موجود میرا گھر خرید لیں ، تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ بولے : نہیں ! اللہ کی قسم ! میں چار سو دینار سے زیادہ ادائیگی نہیں کروں گا ، اور وہ ادائیگی بھی قسطوں میں ہوگی (یہاں لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے ) راوی کہتے ہیں : تو سیدنا ابورافع رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: اللہ کی قسم ! میں تو پانچ سو دینار نقد میں منع کرچکا ہوں ، اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے نہیں سنا ہوتا : ”پڑوسی اپنی قریبی جگہ کا زیادہ حقدار ہوتا ہے ۔ “ تو یہ میں آپ کو فروخت نہ کرتا ۔
(إسناده إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2258 6977 6978 6980 6981 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5180 5181 5183 والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4716 4717 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 6256 وأبو داود فى «سننه» برقم: 3516، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2495، 2496، 2498، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11693)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
563- سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مجھے عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا، میں نے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے وہ عطا کردیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ مال سر سبز اور میٹھا ہے، جو شخص دل کی خوشی کے ساتھ اسے حاصل کرتا ہے اس کے لئے اس میں برکت رکھی جاتی ہے اور جو شخص لالچ کے ساتھ اسے حاصل کرتا ہے، اس کے لئے اس میں برکت نہیں رکھی جاتی ہے اور اس کی مثال اس طرح ہوتی ہے، جو شخص کھانے کے باوجود سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1427، 1472، 2750، 3143، 6441، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1034، 1035، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3220، 3402، 3406، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2142، 6099، 6102، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2530، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2322، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2463، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1690، 1693، 2792، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7846، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3230، برقم: 15551)

564- سیدنا حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے زمانۂ جاہلیت میں چالیس غلام آزاد کئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم نے پہلے جو نیکیاں کی تھیں اسی وجہ سے تم نے اسلام قبول کیا ہے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1436، 2220، 2538، 5992، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 123، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 329، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6100، 6101، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18361، 21632، 21633، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3230، برقم: 15552)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعَمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
565- محمد بن جبیر اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”میرے کچھ نام ہیں ، میں محمد ہوں ، میں أحمد ہوں ، میں ماحی (منانے والا) ہوں ۔ میرے ذریعہ کفر کو مٹایا گیا ۔ میں حاشر ہوں ، لوگوں کو میرے قدموں میں جمع کیا جائے گا ۔ میں عاقب ہوں ، و عاقب (بعد میں آنے والا) جس کے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا ۔“
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 3532 ، 4896 ، ومسلم فى «صحيحه» 2354 ، ومالك فى «الموطأ» برقم : 3676 / 844 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 6313 ، والحاكم فى «مستدركه» برقم : 4208 ، 7813 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 11526 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 2840 ، والدارمي فى «مسنده» برقم : 2817 ، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689 ، برقم : 17006)

566- محمد بن جبیر بن معطم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب ی نماز میں سورۂ طور کی تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے ۔
سفیان نے یہ بات بیان کی ہے ، محدثین نے اس روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں : سیدنا جبیر رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت سنا تھا ، جب میں مشرک تھا ، اور مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرا دل اڑ جاائے گا (یعنی میرے رونگھٹے کھڑے ہوگئے ) تاہم زہری نے یہ الفاظ ہمارے سامنے بیان نہیں کیے ۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 765 ، 3050 ، 3139 ، 4023 ، 4854 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم : 463 ، ومالك فى «الموطأ» برقم : 257 / 72 ، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم : 514 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 1833 ، برقم : 1834 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم : 986 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم : 1061 ، 11465 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 811 ، والدارمي فى «مسنده» برقم : 1332 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم : 832 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 3115 ، 3116 ، 4104 ، 4402 ، 12961 ، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689 ، برقم : 17007)

567- محمد بن جبیر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”قطعۂ رحمی کرنے والا جنت داخل نہیں ہوگا ۔“
سفیان کہتے ہیں : اس سے مراد قطعۂ رحمی کرنے والا ہے ۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم : 5984 ، ومسلم فى «صحيحه» برقم : 2556 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم : 454 ، وأبو داود فى «سننه» برقم : 1696 ، والترمذي فى «جامعه» برقم : 1909 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم : 13342 ، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689 ، برقم : 17004 ، 7 / 3696 ، برقم : 17036 ، 7 / 3697 ، برقم : 17045 ، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم : 7391 ، 7392 ، 7394)

568- محمد بن جبیر اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”اگر معطم بن عدی زندہ ہوتا اور پھر وہ ان قیدیوں کے بارے یں مجھ سے بات چیت کرتا ، تو میں انہیں چھوڑ دیتا ۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد بدر کے قیدی تھے ۔
(امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : ) جب سفیان اس نوعیت کی حدیث بیان کرتے تھے اور اس میں حدیث کے الفاظ بھی ذکر کرتے تھے ، تو وہ ان شاء اللہ ضرور کہا: کرتے تھے ، وہ اسے ترک نہیں کرتے تھے ۔ لیکن اگر وہ ا روایت کے الفاظ بیان نہیں کرتے تھے ، تو بعض اوقات ان شاء اللہ کہہ دیتے تھے اور بعض اوقات ان شاء اللہ نہیں کہتے تھے ۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4024، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2689، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12960، برقم: 18107، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689، برقم: 17005، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7416، والبزار فى «مسنده» برقم: 3404، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9400)

569- سیدنا محمد بن جبیر رضی اللہ عنہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: عرفہ کے دن میرا اونٹ گم ہوگیا، میں اس کی تلاش میں عرفہ آیا، تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ عرفہ میں وقوف کئے ہوئے ہیں، میں نے سوچا ان کا تعلق حمس (یعنی قریش) کے ساتھ ہے، یہ یہاں کیا کررہے ہیں؟
سفیان کہتے ہیں: احمس اس شخص کو کہا جاتا ہے، جو دینی اعتبار سے سخت ہو, قریش کا نام حمس رکھا گیا تھا، کیونکہ شیطان نے انہیں ایک غلط فہمی کا شکار کردیا تھا۔ اس نے انہیں یہ کہا کہ اگر تم لوگ اپنے حرم سے باہر کی جگہ کی تعظیم کروگے ، تو لوگ تمہارے حرم کی حدود کو کم تر محسوس کرنا شروع کردیں گے۔ اس لئے وہ لوگ حرم کی حدود سے باہر نہیں جاتے تھے۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1664، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1220، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2823، 3057، 3059، 3060، 3061، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3849، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1710، 1778، 1779، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3013، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3995، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1920، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9547، 9548، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689، برقم: 17009)

570- مجاہد بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ عرفہ میں ہی وقوف کیا ہے۔
(انفرد به المصنف من هذا الطريق إسناده صحيح إلى مجاهد)

571- سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب (راوی کو شک ہے، شاید یہ الفاظ ہیں) اے بنو عبد مناف! اگر تم اس معاملے کے نگران ہو، تو کسی شخص کو اس گھر کا طواف کرنے یا نماز کرنے سے منع نہ کرنا، خواہ رات یا دن کا کوئی بھی وقت ہو۔“
( إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1280، 2747، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1552، 1553، 1554، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1649، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 584، 2924، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1574، 3932، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1894، والترمذي فى «جامعه» برقم: 868، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1967، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1254، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4484، 4485، 9424، 9527، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3689، برقم: 17008، 7 / 3692، برقم: 17015، 7 / 3694، برقم: 17025، 7 / 3697، برقم: 17042، 7 / 3698، برقم: 17047، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7396، 7415، والبزار فى «مسنده» برقم: 3450، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9004، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13410، 37596)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
572- خالد بن حکیم بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے کسی شخص پر ناراض ہوگئے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں ان سے بات چیٹ کی، تو ان سے کہا گیا: آپ امیر کے سامنے غصے کا اظہار کررہے ہیں، تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے: میں ان پر غصہ نہیں کر رہا، میں نے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے شدید عذاب اس شخص کو ہوگا، جو دنیا میں لوگوں کو شدید ترین عذاب دیتا تھا۔“
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما سے منقول روایات
573- سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کروا دیں۔
سفیان کہتے ہیں یہ روایت شعبہ کی شرط کے مطابق ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں ، انہیں نے یہ خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا، وہ یہ کہتے ہیں، اس طرح روایت متصل ہوجاتی ہے۔
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
574- عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں میرے والد نے میری شادی کی ، انہوں نے ہمارے لئے ولیمے پر لوگوں کی دعوت کی، تو جو لوگ ہمارے ہاں آئے ان میں سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ دانت کے ذریعہ نوچ کر گوشت کو کھاؤ، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”یہ بھوک کو زیادہ بہتر طور پر ختم کرتا ہے اور معدے پر بوجھ بھی نہیں بنتا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) یہ بھوک کو زیادہ بہتر طور پر ختم کرتا ہے اور سلامتی سے زیادہ قریب ہے۔“

سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
575- صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں: بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ انہوں نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانۂ کعبہ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگی ہوئی دعا کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں نے بیت اللہ میں دنبے کے سینگ دیکھے تھے، تو یہ خیال نہیں رہا کہ میں تمہیں ہدایت دیتا کہ تم انہیں ڈھانپ دو، تو اب تم انہیں ڈھانپ دو، کیونکہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہئے جو نمازی کی توجہ کو منتشر کرنے کا باعث ہو۔“

سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
576- جعفر بن عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔

577- سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں «وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ» (یعنی سورۃ تکویر:17) کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔

سیدنا مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
578- سیدنا مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام عاص تھا اور ان کا تعلق قریش کے ساتھ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام مطیع رکھ دیا۔ قریش کے عاص کے نامی افراد میں صرف انہیں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، وہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”آج کے دن کے بعد کبھی بھی کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔“
سفیان کہتے ہیں: یعنی اس کے کفر کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
579- سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا تذکرہ کیا۔ جس نے حضرت (یونس علیہ السلام ) کی اونٹنی کے پاؤں کاٹےتھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے ایک ایسا شخص آگے بڑھا جو اپنی قوم میں صاحب حیثیت تھا۔جس طرح ابوزمعہ ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ”تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کی طرف جاتا ہے اوراسے یوں مارتا ہےجیسے غلام کو ماراجاتاہے۔پھر وہ دن کے آخری حصے میں اسے گلے لگالیتا ہے۔“
راوی بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے کسی کی ہوا خارج ہونے پرہنسنےپر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ فرمایا۔ ”کوئی شخص ایسے عمل پرہنستا ہے۔جو خود کرتا ہے۔“

سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
580-سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر تربیت کم سن لٹرکا تھا (ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہوۓ) میرا ہاتھ پیالے میں گردش کررہا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لڑکےاللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔“
سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد میرا کھانے کا یہی طریقہ رہا ہے۔

581- سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑا اوڑھ کرنمازادا کرتے ہوۓ دیکھاہے۔

سیدنا حارث بن مالک بن برصاء رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
582- سیدنا حارث بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوۓ سنا ہے: ”آج کے دن کے بعد مکہ پر حملہ نہیں کیا جاسکے گا۔“
سفیان کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہےٗ کفر کی بنیاد پر ایسا نہیں ہوگا۔

583- سیدنا حارث بن مالک رضی اللہ عنہ حج کے دنوں میں لوگوں میں اعلان کرتے تھے۔
سفیان کہتے ہیں: میرے علم کے مطابق انہوں نے یہ بات بیان کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو شخص کوئی قسم اٹھا کر کوئی اسں کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرے تو جب وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضرہو گا, توا للہ تعالی اس پر غضبنا ک ہوگا۔“

سیدنا کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
584- سیدنا کرزبن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔اس نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا اسلام کی کوئی انتہاء ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں ۔عرب یا عجم سے تعلق رکھنے والا جو بھی گھرانہ ہو،جس کے بارے میں اللہ تعالی بھلائی کا ارداہ کرلے ، تواللہ تعالیٰ ان پراسلام کو داخل کردیتا ہے۔“ انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !پھر کیاہوگا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بعد فتنے ہوں گے۔یوں جیسے وہ بادل ہوتے ہیں۔“ ان صاحب نے عرض کی:اللہ کی قسم! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔اگر اللہ نے چاہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا ہوگا، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اس وقت میں لوگوں کے بہت سے گروہ اس طرف مائل ہوجائیں گے اور وہ آپس میں قتل وغارت گری کرنے لگیں گے۔“
زہری کہتے ہیں اسود سے مراد سانپ ہے۔ جب کو کسی کو نگلنے کا ارادہ کرتا ہے تو یوں کھڑا ہوتا ہے ۔ پھر حمیدی رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے کھڑا کر کے دکھایا۔ سفیان جب یہ روایت بیان کرتے تھے، تو ساتھ یہ کہا کرتے تھے، تمہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ اگر تم نے یہ روایت ابن شہاب کی زبانی نہیں سنی (یعنی میں نے من و عن تمہارے سامنے بیان کردیا ہے۔)

سیدنا ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
585- سیدنا ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے۔“

586-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی کی مانند منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائدہیں۔ ”مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے، جواس سے زیادہ ہوگی وہ صدقہ ہوگا۔مہمان کا اہتمام کے ساتھ کھانا ایک دن اور ایک رات کیا جاۓ گا اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے،وہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ مقیم رہے، کہ اسے حرج میں مبتلا کر دے۔“

سیدنا ابن مربع انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
587- سیدنا یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابن مربع انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے ہم اس وقت عرفہ میں ایسی جگہ وقوف کیے ہوئے تھے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقوف کی جگہ سے دور تھی انہوں نے بتایا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام رساں کے طور پر تمہارے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ”تم اپنے اسی مقام تک رہنا کیونکہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وراثت کے وارث ہو۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے، کہ تم ان الفاظ کو یاد رکھو اور بعض اوقات یہ کہتے تھے: تم اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہو۔

سیدنا مطلب بن ابو وداعہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
588- سیدنا مطلب بن ابووداعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو سہم کے دروازے کے قریب نماز ادا کرتے ہوۓ دیکھا ۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان سترہ نہیں تھا۔

589-سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے پہلے یہ روایت کثیر کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے نقل کی تھی۔پھر جب میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولے :یہ میرے والد کے حوالے سے منقول نہیں ہےمیرے گھر کے ایک فرد یہ بات بیان کی ہے۔ انہوں نے سیدنا مطلب بن ابووداعہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوۓ سنا ہے۔

سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
590- سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے سیدنا ابواہاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے ساتھ شادی کر لی تو ایک سیاہ فام عورت آئی اور بولی ۔ میں نے تم دونوں (میاں،بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ ( سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دائیں طرف سے حاضر ہوا۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض کیا۔ پھر میں بائیں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ سے اعراض کیا۔پھر میں سامنے کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا: میں نے عرص کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ ایک سیاہ فام عورت ہےاور یہ ہےاور وہ ہے،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بات کردی گئی ہے، تو پھر اب کیا ہوسکتا ہے۔“

سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
591- سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اب رمی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔“ ایک اور صاحب آئے انہوں نے عرض کی۔میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوالیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اب قربانی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔“
سفیان سے یہ کہاگیا:آپ نےزہری کی زبانی یہ روایت یاد کی ہے؟انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! گویاکہ وہ اس وقت بھی اسے سن رہےتھے۔ تاہم یہ روایت طویل ہے۔ میں نے اس میں سے صرف اس حصے کویاد رکھاہے۔ تو بلبل نے ان سے کہا: (ایک قول کے مطابق اس کا نام بلیل بن حرب ہے) عبدالرحمن بن مہدی تو آپ کے حوالے سے یہ کہتے ہیں، آپ نے یہ بات بیان کی ہے، مجھے یہ روایت مکمل طور پریاد نہیں ہے، تاہم جہاں تک اس حصے کا تعلق ہے،تو یہ مجھے یقینی طور پر یاد ہے۔

592- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کویوں قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں میں سے نکال لے گا بلکہ وہ اسے علماء کو قبض کر کے قبض کرے گا، پھر وہ کسی عالم کوباقی نہیں رہنے دے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ وہ ان سے مسئلے دریافت کریں گے، تو وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود انہیں جواب دیں گے۔وہ لوگ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
عروہ کہتے ہیں۔ پھر کئی سال گزرگئے پھر میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا: تو انہوں نے مجھے اس کے بارے میں بتایا۔

593- سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص برتنوں سے منع کردیا، تو عرض کی گئی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !ہر شخص کے پاس مشکیزہ نہیں ہوتا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایسا مٹکا استعمال کرنے کی اجازت دی جو مزفت نہ ہو۔

594- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”دوعادات ایسی ہیں جو آسان ہیں، لیکن ان پر عمل کرنے والے لوگ تھوڑے ہیں،“ جو بھی مسلمان ان کو باقاعدگی سے سرانجام دے گا وہ جنت میں داخل ہوجاۓ گا۔“ لوگوں نے عرض کی :یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !وہ دنوں کون سی ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نماز کے بعد 10 مرتبہ «سبحان الله» پڑھنا،10 مرتبہ «الله اكبر» پڑھنا، 10 مرتبہ «الحمدلله » پڑھنا۔ اور سوتے وقت 33 مرتبہ «سبحان الله» پڑھنا۔33 مرتبہ « الحمدلله » پڑھنا اور 34 مرتبہ «الله اكبر» پڑھنا۔“
پھر سفیان نے یہ بات بیان کی ان میں سےکوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے،تویوں یہ روزانہ زبان کے اعتبار سے 250 کلمات ہو جائیں گےاور نامہ اعمال میں 2500 کلمات ہوں گے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کے ذریعے گنتی کر کے یہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کون شخص ایسا ہے، جو روزانہ 2500 گناہ کرتا ہے؟“ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! انہیں باقاعدگی سے پڑھا کیوں نہیں جاسکتا؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان کسی شخص کے پاس آتا ہےاور اسے کہتا ہے فلاں چیز یاد کرو ۔فلاں چیز یاد کرو،یہاں تک کہ آدمی اٹھ جاتا ہے (یعنی نماز کے بعد اٹھ جاتا ہے ) اور ان کلمات کو نہیں پڑھتا ہے۔“
یہ وہ پہلی روایت ہے،جس کے بارے میں ہم نے عطاء سے سوال کیاتھا۔جب عطاء بصرہ آۓ تو ایوب نے لوگوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ ان کی خدمت میں جائیں اور ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کریں۔

595- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کی :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لیے حاضرہواہوں، تاکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں۔اورمیں اپنے ماں،باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے پاس واپسں جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔“

596- سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔ تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں۔ ”تم ان دونوں کی اچھی طرح خدمت کرو۔“

597-سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کو پہچانتا نہیں ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“

598- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص چڑیا یا اس سے چھوٹے کسی جانور کوناحق طور پر ماردیتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اس مارنے میں اس سے حساب لے گا۔“
لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اس کا حق کیا ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ اسے ذبح کرکے اسے کھالے اور یہ کہ اس کا سر مکمل طور پر الگ کر کے اسے پھینک نہ دے۔“
سفیان سے کہا گیا: حمادبن زید اس روایت میں یہ کہتے ہیں: سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ روایت صہمیب الخداء کے حوالے سے نقل کی ہے،تو سفیان بولے:میں نے عمروکو کبھی بھی صہیب الخداء کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ تو صرف یہ کہتے تھےصہیب ، جو عبداللہ بن عامر کے غلام ہیں۔

599- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نور کے منبروں پر رحمان کے دائیں طرف ہوں گے حالانکہ اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو والی (یعنی حاکم یا قاضی) نہیں بنائے گۓ۔ لیکن وہ اپنے فیصلے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔“

600- سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھنے کا طریقہ ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز خضرت داؤد علیہ السلام کی نماز ہےوہ نصف رات سوۓ رہتے تھے۔ پھر ایک تہائی رات نوافل ادا کرتے رہتے تھے۔ پھر رات کا چھٹا حصہ سوئے رہتے تھے۔“

تخریج:
572- (إسناده صحيح وأخرجه أحمد فى «مسنده» 7 / 3711، برقم: 17094، والطيالسي في « مسنده» برقم: 1253، والحميدي فى «مسنده» برقم: 572، والطبراني فى "الكبير" برقم: 3824، 4121، 4122)
573- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1784، 2985، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1212، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6071، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4216، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1995، والترمذي فى «جامعه» برقم: 934، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1904، 1905، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2999، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8887، 8888، 8889، 8890، وأحمد فى «مسنده» 1 / 427، برقم: 1727، 1 / 429، برقم: 1731، 1 / 429، برقم: 1732)
574- (إسناده ضعيف وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 574، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7331، 7332)
575- ( إسناده صحيح وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2030، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9083، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4618، والطبراني فى "الكبير" برقم: 8396)
576- (إسناده جيد وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1359، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5361، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9674، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4077، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1104، 2821، 3584، 3587، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6058،6059، 6223، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4268، برقم: 19036، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1459، 1460، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25450، 25481، والترمذي فى "الشمائل" برقم: 115، 116)
577-(أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 456، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1599، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 950، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1025، 11586، 11587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 817، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1336، 1337، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 817، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3118، 4079، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4268، برقم: 19035، 8 / 4269، برقم: 19039، 8 / 4269، برقم: 19040، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1456، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3562)
578- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1782، 1782، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3718، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7821، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2431، 2432، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3256، برقم: 15644)
579- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3377، 4942، 5204، 6042، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2855، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4190، 5794، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9121، 11611، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3343، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2266، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1983، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14898، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3534، برقم: 16472)
580- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5376، 5377، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2022، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5211، 5212، 5215، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6722، 6723، 6726، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3777، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1857، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2062، 2089، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3265، 3267، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14727، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3554، برقم: 16588)
581- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 354، 355، 356، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 517، ومالك فى «الموطأ» برقم: 464، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 761، 770، 771، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2291، 2292، 2293، 2302، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 763، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 842، وأبو داود فى «سننه» برقم: 628، والترمذي فى «جامعه» برقم: 339، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1049، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3333، 3334، 3335، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3554، برقم: 16587)
582- (إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 6696، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1611، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18853، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3255، برقم: 15642)
583- (إسناده صحيح وأخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 3331، 3332)
584- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5956 والحاكم فى «مستدركه» برقم: 97، 98، 8497 وأحمد فى «مسنده» (6 / 3423) برقم: 16162، 16163، 16164)
585- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6019، 6135، 6476، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 48، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3434، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5287، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7389، 7391، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11779، 11780، 11781، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2078، 2079، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3672، 3675، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9270، 18756، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3565، برقم: 16632)
586- (إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6019، 6135، 6476 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 48 ومالك فى «الموطأ» برقم: 3434 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5287 والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7389، 7391 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 11779، 11780، 11781 والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968 والدارمي فى «مسنده» برقم: 2078، 2079 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3672، 3675 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9270، 18756 وأحمد فى «مسنده» (7 / 3565) برقم: 16632)
587- ( إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2818، 2819، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1705، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3014، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3996، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1919، والترمذي فى «جامعه» برقم: 883، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3011، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9558، 9559، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3834، برقم: 17506)
588- (إسناده ضعيف وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 815، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2363، 2364، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 939، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 757، 2959، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 836، 3939، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2016، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2958، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3535، 3536، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6619، برقم: 27884)
589- (إسناده ضعيف وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 815، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2363، 2364، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 939، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 757، 2959، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 836، 3939، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2016، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2958، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3535، 3536، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6619، برقم: 27884، وأبو يعلى في «مسنده » برقم: 6875 ) 590- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 88، 2052، 2640، 2659، 2660، 5104، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4216، 4217، 4218، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5885، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3330، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5460، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3603، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1151، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2301، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15771، 15772، 15773، 15774)
591- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 83، 124، 1736، 1737، 1738، 6665، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1306، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2949، 2951، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3877، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2014، والترمذي فى «جامعه» برقم: 916، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1948، 1949، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3051، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9713، 9714، 9722، 9723، 9724، 9725،وأحمد فى «مسنده» 3 / 1364، برقم: 6595)
592- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 100، 7307، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4571، 6719، 6723، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5876، 5877، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2652، والدارمي فى «مسنده» برقم: 245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 52، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20411، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1370، برقم: 6622)
593- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5593، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2000، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5661، 5666، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5140، 6812، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3700، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17562، 17563، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4673، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6608)
594- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 843، 2012، 2018، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2012، 2013، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1347، 1354، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1272، 1280، 10580، 10586، 10587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1502، 5065، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3410، 3411، 3486، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 926، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3077، 3419، 3420، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6609)
595-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3004، 5972، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2549، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 318، 419، 420، 421، 423، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7343، 7348، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3103، 4174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4296، 7738، 8643، 8644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2528، 2529، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2782 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17900، 17901، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1365، برقم: 6601)
596- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3004، 5972، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2549، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 318، 419، 420، 421، 423، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3103، 4174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4296، 7738،8643، 8644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2528، 2529، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2782، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17900، 17901، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1365، برقم: 6601)
597- (إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 209، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4943، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1920، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1416، برقم: 6848)
598- (إسناده جيد وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7669، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4360، 4457، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4519، 4841، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2021، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18201، 19197، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1377، برقم: 6661)
599- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1827، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4484، 4485، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7098، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5394، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5885، 5886، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20219، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1364، برقم: 6596)
600- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1131، 1153، 1974، 1975، 1976، 1977، 1978، 1979، 1980، 3418، 3419، 3420، 5052، 5053، 5054، 5199، 6134، 6277، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1159، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 11، 352، 756، 757، 758، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4127، 4128، 4730،4808، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1361، برقم: 6588)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
601- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مجھے یہ پتہ چلاہے ، تم رات بھر نفل پڑھتے رہتے ہو روزانہ دن کے وقت نفلی روزہ رکھ لیتے ہو؟ “ انہوں نے عرض کی : میں ایسا ہی کرتا ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم ایسا نہ کرو ، تمھاری دونوں آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے ، تمہاری جان کا بھی تم پر حق ہے ، تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے ، اگر تم ایسا کروگے ، تو تمہاری نظر کمزور ہوجاۓ گی ، تم خود کمزور ہوجاؤ گے ۔ تم نوافل بھی پڑھا کرو ۔ اور سوبھی جایا کرو ۔ نفلی روزہ رکھ بھی لیا کرو ۔ اور چھوڑ بھی دیا کرو ۔ “

602- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”رحم کرنے والوں پر رحمن بھی رحم کرتا ہے ۔ تم لوگ اہل زمین پر رحم کرو ۔ آسمان والے تم پر رحم کریں گے ۔ “

603- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”رحم ، رحمٰن سے ماخوذ ہے ، جو شخص اسے ملاتا ہے اللہ تعالیٰ اسے ملاتا ہے ۔ جو شخص اسے کاٹ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ٹکڑے کر دیتا ہے ۔ “

604-قیس بن سائب بیان کرتے ہیں : سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے حکم کے تحت ایک بکری ذبح کی گئی انہوں نے اپنے ملازم سے یہ کہا: تم ہمارے یہودی پڑوسی کو بھی بھجو ادو ، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جبرئیل علیہ السلام پڑوسی کے بارے میں مجھے مسلسل تلقین کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے یہ گمان کیا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے ۔ “

605- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”بدلہ دینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہوتا ۔ صلہ رحمی کرنے والا وہ شخص ہوتا ہے ، جب اس کے رشتے کے حق کو پامال کیا جائے تو وہ اس وقت رشتے داری کے حقوق کا خیال رکھے ۔ “

606-امام شعبی بیان کرتے ہیں : ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں اس وقت ان کے پاس بیٹھا ہوا تھا ۔ وہ لوگوں کی گردنیں پھلا نگتا ہوا آکر سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے سامنے بیٹھ گیا ۔ وہ بولا: آپ مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے ، جو آپ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو ۔ آپ دو عادل راویوں کے حوالے سے مجھے حدیث نہ سنائیے گا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوۓ سنا ہے : ”مسلمان وہ ہے ، جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں اور مہاجر وہ شخص ہے ، جو برائی سے لا تعلقی اختیار کے (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے اس سے لاتعلقی اختیار کرے ۔

607-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ، تاہم دوعادل راویوں کا تذکرہ نہیں ہے ۔

608- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ ایک شخص کو خزانہ ملا ، تو اس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر تمہیں یہ کسی رہاشی آبادی سے ملا ہے ، توتم اس کا اعلان کرتے رہو لیکن اگر تمہیں یہ زمانہ جاہلیت کے کسی کھنڈ رسے ملاہے یا غیر رہائشی آبادی سے ملا ہے یا عام گزر گاہ سے ہٹ کر کسی راستے سے ملا ہے ، تو پھر اس میں اور ”رکاز“ میں ”خمس“ کی ادائیکی لازم ہوگی ۔ “

609- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”قیامت کے دن تکبر کرنے والوں کو انسانوں کی شکل میں ، چھوٹی چیونٹیوں کی شکل میں ، کرکے زندہ کیا جاۓ گاہر چھوٹی چیز بھی ان سے بڑی ہوگی (یا ان کے اوپر سے گزر جاۓ گی) پھر انہیں ہانک کر جہنم میں موجود قید خانے کی طرف لے جایا جاۓ گا ۔ جس کا نام ”بولس“ ہے ان پر لکڑیوں کی آگ غالب آجاۓ گی ۔ اور انہیں ”طینت الخبال“ یعنی اہل جہنم (کے خون اور پیب وغیرہ ) کا نچوڑ پلایا جاۓ گا ۔ “

610- سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”آدمی کے گنہگار ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے ، جن لوگوں کو خوراک فراہم کرنا اس کی ذمہ داری ہے ، وہ انہیں ضائع کردے (یعنی ان کی ضرو ریات کا بند و بست نہ کرے ) “

تخریخ:

601- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1131، 1153، 1974، 1975، 1976، 1977، 1978، 1979، 1980، 3418، 3419، 3420، 5052، 5053، 5054، 5199، 6134، 6277، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1159، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 11، 352، 756، 757، 758، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4127، 4128، 4730،4808، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1361، برقم: 6588)
602- (إسناده جيد وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5991، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 445، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7367، 7381، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1697، 4941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1908، 1924، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13343، 13344، 17978، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6605)
603-(إسناده جيد انظر التعليق السابق وهو طرف للحديث السابق)
604- (إسناده صحيح وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 5152، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1943، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6607)
605- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5991، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 445، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7367، 7381، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1697، 4941، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1908، 1924، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13343، 13344، 17978، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6605)
606- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 10، 6484، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 196، 230، 399، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5011 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8648، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2481، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2758، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20812، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1371، برقم: 6626)
607- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
608- (إسناده حسن وأخرجه ابن الجارود فى "المنتقى" برقم: 727، 893، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2327، 2328، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2387، 8243، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2493، 4971، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1710، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1289، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2596، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7735)
609- (إسناده حسن وأخرجه النسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11827، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2492، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1404، برقم: 6788، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 27114)
610- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 996، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4240، 4241، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1692، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15796، 15875، 17896، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6606)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہما سے منقول روایات
611- حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں:میں نے عاشورہ کے دن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر سنا۔انہوں نے اپنی آستین میں سے بالوں کی ”وگ“ نکالی ۔اور بولے: اے اہل مدینہ ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے استعمال کرنے سے منع کرتے ہوۓ سناہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”بنی اسرائیل اس وقت ہلاکت کا شکار ہوگئےجب ان کی خواتین نے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔“

612 -حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں:میں نے عاشورہ کے دن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کوسنا وہ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم منبر پرموجود تھے۔ انہوں نے ارشاد فرمایا:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوۓ سناہے: ”میں نے روزہ رکھا ہوا ہے، تو تم میں سے جو شخص اس دن روزہ رکھنا چاہے۔وہ روزہ رکھ لے۔“

613- سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”تم لوگ مجھ سے پہلے رکوع یا سجدے میں جانے کی کوششش نہ کرو کیونکہ میر ا جسم بھاری ہوگیا ہے۔رکوع میں جاتے وقت میں جو تم سے پہلے جاؤں گا، تو تم مجھے اس وقت پالو گے کہ جب میں ا ٹھ رہا ہوں گا اور سجدے میں جاتے وقت میں جتنا بھی تم سے آگے نکلاہوں گا، تو تم مجھے اس وقت پالوگے، جب میں اٹھ رہاہوں گا۔“

614-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں۔ ”اب میرا جسم وزنی ہوگیا ہے۔“

615- سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”کسی سے کچھ مانگتے ہوئے گڑگڑایا نہ کرو۔ اللہ کی قسم! تم میں سے جو شخص مجھ سے مانگے گا اور اس کا مانگنا میری طرف سے اس چیز کو اس کے لئے نکالے گا اور میں چیز اسے دے دوں گا، حالانکہ یہ بات مجھے پسند نہیں ہوتی، تو میں نے جو چیز اسے دی ہوگی اس میں اسے برکت نصیب ہوگی۔“

616- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔یہ چیز سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف حجت ہے یعنی انہوں نے یہ جو کہا کہ میں نے ایک دیہاتی کی قینچی کے ذریعے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مروہ پہاڑ کے قریب چھوٹے کیے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔ یہ اس وقت ہواتھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حج تمتع کرنے سے منع کیا تھا۔

617- سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا۔ جب مؤذن نے اللہ اکبر ۔اللہ اکبر کہا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اللہ اکبر ۔ اللہ اکبر کہا۔جب مؤذن نے «اشهد ان لا اله الا الله» کہا ،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں۔ جب مؤذن نے «اشهدان محمداً رسول الله» پڑھا تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :میں بھی اس بات کی گواہی دیتا ہوں ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہوگئے۔

618-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ہے۔

سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما سے منقول روایات
619-سالم بن عبداللہ اپنے والد ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو جنازے آگے چلتے ہوئے دیکھاہے۔

620-سالم بن عبداللہ اپنے والد ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کا یہ بیان نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر ایہ ارشاد فرماتے ہوۓ سنا ہے: ”تم میں سے جو شخص جمعہ کے لیے آئے اسے غسل کر لینا چاہئے۔“

621-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔

622-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔

623-سالم اپنے والد سیدنا (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”بلال رات کے وقت ہی اذان دے دیتا ہے، تو تم اس وقت تک کھاتے پیتے رہو جب تک تم ابن ام مکتوم کی اذان نہیں سنتے۔“

624-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”جب کسی شخص کی بیوی اس سے مسجد جانے کی اجازت مانگے، تو وہ منع نہ کرے۔“
سفیان کہتے ہیں۔علماء کایہ خیال ہے یہ حکم رات کے بارے میں ہے۔

625-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”جو شخص کسی غلام کو فروخت کرے اور اس غلام کے پاس مال موجود ہو، تواس غلام کا مال اس شخص کی ملکیت ہوگا۔ جس نے اسے فروخت کیا ہے۔البتہ اگر خریداراس کی شرط عائد کر دیتا ہے، تو حکم مختلف ہوگا۔اور جو شخص پیوندکاری ہوجانے کے بعد کھجور کا باغ فروخت کرے تو اس کا پھل فروخت کرنے والے کی ملکیت ہوگا۔ البتہ اگر خریدار نے اس کی شرط عائد کی ہو (تو حکم مختلف ہوگا) “

626-سالم بن عبداللہ اپنے والدکایہ بیان نقل کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کندھوں تک دونوں ہاتھ بلند کیے۔پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں جانے لگے اور رکوع سے سراٹھانے کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کیا۔

627-نافع بیان کرتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب کسی شخص کو دیکھتے کہ وہ نماز کے دوران ہر مرتبہ جھکتے اور اٹھتے ہوۓ رفع یدین نہیں کررہا تو وہ اسے کنکریاں مارتے تھے،یہاں تک کہ وہ رفع یدین کرنے لگتا۔

628-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیزی سے سفر کرنا ہوتاتھا، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب اور عشاء کی نماز یں ایک ساتھ ادا کرتے تھے۔

629-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”رشک صرف دو طرح کے آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم عطا کیا ہواور وہ رات دن اس کے ساتھ قائم رہتا ہو (یعنی اسے پڑھتا ہو اور اس کی تعلیم دیتا ہو) ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطاکیا ہو اور وہ رات دن اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتارہتا ہو۔“

630-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں۔ ”تم لوگ سوتے وقت اپنے گھروں میں آگ جلتی ہوئی نہ چھوڑا کرو۔“

تخریج:

611- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2003، 3468، 5932، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1129، 2127، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1053، 3487، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2085، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3626، 5512، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2370، 5260، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2692، 2866، 2867، 2868، 2869، 2870، 9314، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4167، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2781، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4297، 8505، 8506، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3725، برقم: 17140)

612- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2003، 3468، 5932، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1129، 2127، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1053، 3487، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2085، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3626، 5512، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2370، 5260، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2692، 2866، 2867، 2868، 2869، 2870، 9314، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4167، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2781، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4297، 8505، 8506، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3725، برقم: 17140)

613- (إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1594، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2229، 2230، وأبو داود فى «سننه» برقم: 619، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1354، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 963، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2639، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3719، برقم: 17113، 7 / 3731، برقم: 17166)

614- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1594، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2229، 2230، وأبو داود فى «سننه» برقم: 619، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1354، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 963، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2639، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3719، برقم: 17113، 7 / 3731، برقم: 17166)

615- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» 3 / 95، برقم: 1038، 3 / 95، برقم: 1038، وابن حبان فى «صحيحه» 8 / 183، برقم: 3389، والحاكم فى «مستدركه» 2 / 62، برقم: 2377، والنسائي فى «المجتبیٰ» 1 / 520، برقم: 2592 / 1، والنسائي فى «الكبریٰ» 3 / 77، برقم: 2385، والدارمي فى «مسنده» 2 / 1024، برقم: 1684، والبيهقي فى «سننه الكبير» 4 / 196، برقم: 7967، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3732، برقم: 17167)

616- (إسناده قوي و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1730، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1246، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2736 ، 2987 ، 2988، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3703، 3967، 3968، 4104، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1802، 1803، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9488، 9489، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3724، برقم: 17138)

617- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 612، 613، 914، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 414، 415، 416، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1684، 1687، 1688، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 674 ، 675 ، 676 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1650، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1958، 1959، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3716، برقم: 17103)

618- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 612، 613، 914، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 414، 415، 416، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1684، 1687، 1688، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 674 ، 675 ، 676 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1650، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1958، 1959، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3716، برقم: 17103)

619- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 763، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3045، 3046، 3047، 3048، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1943، 1944، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2082، 2083، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3179، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1007، 1008، 1009، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1482، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6958، 6959، 6960، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1809، 1810، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1043، برقم: 4627)

620- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 877، 894، 919، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 844، ومالك فى «الموطأ» برقم: 338، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1223، 1224، 1225، 1226، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1375، 1404، 1406، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1683، والترمذي فى «جامعه» برقم: 492، 493، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1577، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1088، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1418، 1419، 1420، 1438، 5740، 5741، 5742، وأحمد فى «مسنده» 2 / 733، برقم: 3116)

621- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 877، 894، 919، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 844، ومالك فى «الموطأ» برقم: 338، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1223، 1224، 1225، 1226، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1375، 1404، 1406، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1683، والترمذي فى «جامعه» برقم: 492، 493، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1577، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1088، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1418، 1419، 1420، 1438، 5740، 5741، 5742، وأحمد فى «مسنده» 2 / 733، برقم: 3116)

622- ( إسناده صحيح والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 877، 894، 919، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 844، ومالك فى «الموطأ» برقم: 338، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1223، 1224، 1225، 1226، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1375، 1404، 1406، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1683، والترمذي فى «جامعه» برقم: 492، 493، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1577، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1088، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1418، 1419، 1420، 1438، 5740، 5741، 5742، وأحمد فى «مسنده» 2 / 733، برقم: 3116)

623- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 617، 620، 1918، 2656، 7248، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 380، 1092، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3469، 3470، 3471، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 636، 637، والترمذي فى «جامعه» برقم: 203، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1226، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1816، 1817، 1818، 2036، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1044، برقم: 4640)

624- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 865، 873، 899، 900، 5238، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 442، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2208، 2209، 2210، 2213، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 705، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 787، وأبو داود فى «سننه» برقم: 566، 567، 568، والترمذي فى «جامعه» برقم: 570، والدارمي فى «مسنده» برقم: 456، 1314، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 16، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5442، 5449، 5450، 5451، 5452، 5453، 10240، 10241، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1039، برقم: 4610)

625- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2204، 2206، 2379، 2716، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1543، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4922، 4923، 4924، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4649، 4650، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3433، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1244، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2210، 2211، 2212، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7444، 10685، 10686، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1036، برقم: 4589، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5427، 5468، 5479، 5508، 5797)

626- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 735، 736، 738، 739، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 390، ومالك فى «الموطأ» برقم: 245 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1861، 1864، 1868، 1877، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 875 ، 876، وأبو داود فى «سننه» برقم: 721، 722، 741، 742، والترمذي فى «جامعه» برقم: 255، 256، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1285، 1347، 1348، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 858، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2338، 2339، 2347، 2350، 2351، برقم: 2543، 2544، 2545، 2546، 2547، 2548، 2549، 2550، 2551، 2552، 2553، 2563، 2582، 2646، 2859، 6274)

627- (إسناده صحيح وأخرجه الدارقطني فى «سننه» برقم: 1118، والبخاري فى الجز رفع اليدين)

628- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1091، 1106، 1109، 1805، 3000، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1455، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 587، 590، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1207، 1212، 1217، والترمذي فى «جامعه» برقم: 555، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1558، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5595، 5596، 5597، 5598، 5599، 5601، 5603، 5604، 5620)

629- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5025، 7529، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 815، 815، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 125، 126، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8018، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1936، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4209، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7920، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1044، برقم: 4639، 3 / 1104، برقم: 5019، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5417، 5478، 5543)

630- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6293، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2015، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7860، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5246، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1813، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3769، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1039، برقم: 4603، 3 / 1043، برقم: 4635، 3 / 1121، برقم: 5123، 3 / 1177، برقم: 5496، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5434، 5486، 5531)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
631-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”پانچ قسم کے جانور ایسے ہیں ، حل یا حرم میں انہیں قتل کرنے والے کو کوئی گناہ نہیں ہوگا ۔ کوا ، چیل ، بچھو ، چوہااور باؤلہ کتا“ ۔
سفیان سے کہا: گیا : معمر نے یہ روایت زہری کے حوالے سے عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کی ہے ، تو وہ بولے : اللہ کی قسم ۔ زہری نے یہ روایت سالم کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے نقل کی ہے ۔ انہوں نے عروہ کے حوالے سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اسے نقل نہیں کیا ۔

632-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”دودھاریوں والے اور دم کٹے ہوئے سانپوں کو مار دو ۔ کیونکہ یہ بینائی زائل کر دیتے ہیں اور حمل ضائع کردیتے ہیں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کو سانپ ملتا تھا وہ اسے ماردیا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ یا سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا ۔ وہ ایک سانپ تلاش کررہے تھے ، تو وہ بولے : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر میں رہنے والے سانپوں کو مارنے سے منع کیا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں ۔ زہری ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے یا شاید سیدنا ابولبانہ رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھا ۔

633-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”نحوست تین چیزوں میں ہوتی ہے گھوڑے ، عورت اور گھر میں ۔“
حمیدی رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں : سفیان سے یہ کہا: گیا : دیگر محدثین نے اس روایت میں یہ بات ذکر کی ہے کہ یہ روایت حمزہ سے منقول ہے ، تو سفیان بولے : میں نے زہری کو اس روایت میں کبھی بھی حمزہ کاتذکرہ کرتے ہوئے نہیں سنا ۔

634-سالم اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھل کے پک کر تیار ہونے سے پہلے اسے فروخت کرنے سے منع کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجور کے عوض میں پھل کو فروخت کرنے سے منع کیا ہے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے , نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا کے بارے میں اجازت دی ہے ۔

635-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”اہل مدینہ ذوالحلیفہ سے احرام باندھیں گے اہل شام حجفہ سے احرام باندھیں گے اور اہل نجد قرن سے احرام باندھیں گے ۔“

636- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : مجھے یہ بات بتائی گئی ہے ، ویسے میں نے خود یہ بات نہیں سنی ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”اہل یمن یلملم سے احرام باندھیں گے ۔“

637-سالم بن عبداللہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنے والد کی قسم اٹھاتے ہوئے سنا : تو ارشاد فرمایا : خبردار اللہ تعالیٰ نے تم لوگوں کو اس بات سے منع کیا ہے کہ تم لوگ اپنے آباؤ اجداد کی قسم اٹھاؤ ۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کی قسم ! اس کے بعد میں نے جان بوجھ کریا بھول کر کبھی بھی (باپ دادا کے نام کی) قسم نہیں اٹھائی ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے محمد بن عبدالرحمٰن کومیں نے یہ کہتے ہوئے سنا : جو عربی زبان پر بڑا عبور رکھتے تھے وہ یہ کہتے ہیں : روایت کے الفاظ «ولا آثرا» کا مطلب یہ ہے کہ یعنی میں نے کسی دوسرے کو بھی ایسا نہیں کرنے دیا جس کے بارے میں یہ بتایا گیا ، کہ اس نے یہ قسم اٹھائی ہے ۔

638-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انصاری کو سنا جو اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں نصیحت کررہاتھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”بے شک حیاایمان کا حصہ ہے ۔“

639-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : احرام والا شخص کون سے کپڑے پہن سکتا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ قمیص ، عمامہ ، شلوار ، ٹوپی اور ایسا کپڑا نہیں پہنے گا ، جس پر زعفران ی اور س لگا ہوا ہو ۔ وہ موزے نہیں پہنے گا البتہ اگر اسے جوتے نہیں ملتے تو حکم مختلف ہے ۔ جس شخص کو جوتے نہیں ملتے وہ موزوں کو اتنا کاٹ لے گا کہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہوجائیں ۔“

640- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں : ”وہ ایسا کپڑا نہیں پہنے گا ، جس پر زعفران یا ورس لگا ہوا ہو ۔“

641-سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے یہ بات نقل کرتے ہیں ، وہ یہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا ہے : ”رات کی نماز دو ، دو کرکے ادا کی جائے گی جب تمہیں صبح صادق قریب ہونے کا اندیشہ ہو ، تو ایک رکعت وتر ادا کر لو ۔“

642-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ۔

643-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ۔

644- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے ایک شخص کو سنا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت منبر پر موجود تھے (سوال یہ تھا) کوئی شخص رات کے وقت کس طرح نوافل ادا کرے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”دو ، دو کرکے ۔ جب تمہیں صبح صادق قریب ہونے کا اندیشہ ہو ، توایک رکعت وترادا کرو یہ تمہاری سابقہ تمام نماز کو طاق کردے گی ۔“
سفیان کہتے ہیں : یہ روایت زیادہ بہتر ہے ۔

645-سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جو شخص کتا پالے ، تاہم شکار کے لیے یا جانوروں کی حفاظت کے لیے کتا پالنے کا حکم مختلف ہے ، تو اس شخص کے اجر میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں ۔“

646-عبداللہ بن دینار بیان کرتے ہیں : میں سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بنو معاویہ کی طرف گیا ، تو ہم پر ان کے کتے بھونکنے لگے تو سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو شخص کوئی ایسا کتا پالے جو شکار کرنے یا جانوروں کی حفاظت کے لیے نہ ہو ، تو اس شخص کے اجر میں سے روزانہ دو قیراط کم ہوجاتے ہیں ۔“

647-سالم اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی : میں نے شب قدر کو خواب میں دیکھا ہے کہ وہ فلاں فلاں رات ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”میں یہ دیکھ رہاہوں کہ تم لوگوں کے خواب ایک جیسے ہیں ، تو تم آخری عشر ے میں طارق راتوں میں اسے تلاش کرو ۔ (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں) ”باقی رہ جانے والی سات راتوں میں تلاش کرو ۔“
سفیان کہتے ہیں : روایت میں یہ شک میری طرف سے ہے ، زہری کی طرف سے نہیں ہے ۔

648- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص کچھ کھائے ، تو اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے اور جب پیئے ، تو اپنے دائیں ہاتھ سے پیئے ، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے ۔“

649-سفیان کہتے ہیں : میں نے معمر کو سنا انہوں نے یہ روایت زہری کے حوالے سے سالم کے حوالے سے ان کے والد سے نقل کی ، تو میں نے ان سے کہا: اے ابوعروہ ! یہ روایت تو ابوبکر بن عبیداللہ کے حوالے سے منقول ہے ۔ تو معمر بولے : ہم نے یہ روایت ان کے سامنے پیش کی تھی بعض اوقات سفیان یہ کہتے ہیں : یہ ان روایات میں سے ایک ہے ، جو ہم نے ان کے سامنے پیش کی تھیں ۔

650-زید بن اسلم بیان کرتے ہیں : میرے والد نے مجھے سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بھیجا تو میں اجازت لیے بغیر ان کے ہاں اندر چلاگیا انہوں نے مجھے تعلیم دی اور فرمایا : جب تم آؤ تو پہلے اندر آنے کی اجازت لو ، اگر تمہیں اجازت مل جائے ، تو اندر داخل ہوکے تم سلام کرو ۔ اسی دوران سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا پوتا عبداللہ بن واقد وہاں سے گزرا اس نے نیا لباس پہنا ہوا تھا ، اور وہ دامن لٹکا کر چل رہا تھا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم اپنے تہبند کو اوپر کرو ، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرتا جو اپنے کپڑے کو تکبر کے طور پر لٹکا تا ہے ۔“

651-مسلم بن یناق بیان کرتے ہیں : میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ عبداللہ بن خالد کے گھر کے دروازے کے پاس موجود تھا وہاں سے ایک نوجوان گزرا جس نے اپنے تہبند کو لٹکایا ہوا تھا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے فرمایا : تم اپنے تہبند کو اوپر کرلو ، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سناہے : ”اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرتا جو کپڑے کو تکبر کے طور پر لٹکا تا ہے ۔“

652- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے ۔ ”دیہاتی لوگ تمہاری نماز کے نام کے حوالے سے تم پر غالب نہ آجائیں یہ عشاء ہے ، وہ لوگ اسے عتمہ کہتے ہیں ، کیونکہ وہ اس وقت اونٹوں کے حوالے سے کام کاج کرکے فارغ ہوتے ہیں ۔“ ( یہاں ایک لفظ میں راوی کو شک ہے )
سفیان کہتے ہیں : ابن ابولبید نے اسی طرح شک کے ہمراہ روایت نقل کی ہے ۔

653- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء کو فروخت کرنے یا اسے ہبہ کرنے سے منع کیا ہے ۔
( راوی سے کہا گیا) شبعہ نے اس بارے میں عبداللہ سے حلف لیا تھا ، تو وہ بولے : ہم ان سے حلف نہیں لیتے ہم نے ان سے کئی مرتبہ یہ روایت سنی ہے ۔ پھر سفیان ہنس پڑے ۔

654- سيدنا عبدالله بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر اطاعت وفرمانبرداری کی بیعت کی تھی جب ہم نے بیعت کر لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تلقین کرتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔ ”جہاں تک تمہاری استطاعت ہوئی (تم ان احکام پر عمل کرو گے ) “

655- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے گوہ کے بارے میں دریافت کیا گیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”میں اسے کھاتا بھی نہیں ہوں اور میں اسے حرام بھی قرار نہیں دیتا ۔“

656-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

657-سالم بن عبداللہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب حج یا عمرے یا شاید کسی جنگ سے واپس تشریف لارہے تھے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سخت اور بلند جگہ پر پہنچے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پڑھا ۔ ”اللہ تعالی کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے ، وہی ایک معبود ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے بادشاہی اسی کے لیے مخصوص ہے ۔ حمد اسی کے لیے مخصوص ہے اور وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے اگر اللہ نے چاہا تو ہم رجوع کرنے والے ہیں ، توبہ کرنے والے ہیں ۔ عبادت کرنے والے ہیں اپنے پروردگار کی حمد بیان کرنے والے ہیں ۔ اللہ تعالی نے اپنے وعدے کو سچ ثابت کیا اور اس نے اپنے بند ے کی مد د کی اور اس نے تنہا (دشمن کے ) لشکروں کو پسپاکردیا ۔“

658-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ نہیں ہیں ۔ ”ان شاء اللہ“ ۔ سفیان سے کہا: گیا : اس میں یہ الفاظ ہیں : ”سجد ہ کرنے والے ہیں“ تو وہ بولے : نہ تو یہ الفاظ اس کے مناسب ہیں اور نہ ہی مجھے یہ الفاظ یاد ہیں ۔

659- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی میں بات نہ کریں ۔“

660- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر باہم سر گوشی میں بات نہ کریں ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جب کسی شخص سے سرگوشی میں بات کرنی ہوتی اور وہاں تین افراد موجود ہوتے تو وہ چوتھے کو بلا لیا کرتے تھے ۔

تخریج

631- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1826، 1827، 1828، 3315، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1199، 1200، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3961، 3962، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2828، 2830، 2832، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1846، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1857، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3088، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10150، 10151، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4547، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5428، 5497، 5544، 5810)
632- (أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3297، 3310، 3312، 4016، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2233، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3579 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5638، 5639، 5642، 5643، 5645، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5252، 5253، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1483، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3535، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1045، برقم: 4646، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5429، 5493، 5498، 5540)
633- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566 ، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570 ، 3571 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 م 1، 2824 م 2، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1043، برقم: 4633)
634- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1486، 2173، 2183، 2184، 2188، 2192، 2194، 2380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2289، 2296، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4981، 4989، 4991، 5001، 5004 5005، 5009، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3931، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3362، 3367، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1300، 1300 م، 1302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2597، 2600، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2214، 2268، 2269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10675، 10676، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1034، برقم: 4576)
635- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 133، 1522، 1525، 1527، 1528، 7344، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1182، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1186، 1187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3759، 3760، 3761، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2650، 2651، 2654، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1737، والترمذي فى «جامعه» برقم: 831، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1831، 1832، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8998، 8999، 9000، 9001، 9002، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1028، برقم: 4541)
636- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
637- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2679، 3836، 6108، 6646، 6647، 6648، 7401، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1646، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1750، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4359، 4360، 4361، 4362، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3773 ، 3774، 3775، 3776، 3777 / 3، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3249، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1533، 1534، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2386، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2094، 2101، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19880، 19881، 19882، 19883، 19884، 19885، 19886، 19892، 20781، وأحمد فى «مسنده» 1 / 45، برقم: 113، 1 / 87، برقم: 247)
638- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» 1 / 14، برقم: 24، 6118، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 36، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3360 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 610، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5048، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4795، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2615، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 58، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1044، برقم: 4643، 3 / 1147، برقم: 5279، 3 / 1338، برقم: 6452، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5424)
639- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 134، 366، 1542، 1838، 1842، 5794، 5802، 5805، 5806، 5847، 5852، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1177، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1160، 1163 ، 1175، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3761، 3782، 3784، 3787، 3788، 3955، 3956، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2665، 2666 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1823، 1826، 1827، والترمذي فى «جامعه» برقم: 833، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1839، برقم: 1841، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2929، 2930، 2932، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1369، 9131، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1028، برقم: 4540)
640- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
641- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 472، 473، 990، 993، 995، 998، 1137، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 749، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2426، 2482، 2483، 2494، 2620، 2622، 2623، 2624، 2625، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1665، 1666 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1295، 1326، 1421 1438، والترمذي فى «جامعه» برقم: 437، 461، 597، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1499، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1144، 1174، 1175، 1318، 1319، 1320، 1322، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4588، 4643، وأحمد فى «مسنده» 2 / 687، برقم: 2882)
642- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
643-(إسناده صحيح وانظر الحديثین السابقین)
644- (إسناده صحيح وانظر الأحايث ثلاثة السابقة)
645- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5480، 5481، 5482، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1574، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3554 ، وابن حبان فى «صحيحه» 5653، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4295، 4297، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1487، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11134، 11135، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1032، برقم: 4565، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5418، 5441)
646- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5480، 5481، 5482، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1574، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3554 ، وابن حبان فى «صحيحه» 5653، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4295، 4297، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1487، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11134، 11135، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1032، برقم: 4565، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5418، 5441)
647- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1156، 2015، 6991، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1165، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3675، 3676، 3681، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1385، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1824، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8621، 8622، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4586)
648- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2020، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3412 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5226، 5229، 5331، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3776، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1799، 1800، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2073، 2074، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14724، 14725، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1042، برقم: 4625)
649- (أخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» 10 / 414، برقم: 19541، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 12 / 382، برقم: 24924)
650- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3665، 5783، 5784، 5791، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2085، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3387، 3389 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5443، 5444، 5681، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5342 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4085، 4094، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1730، 1731، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3569، 3576، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3302، 3365، 3367، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1034، برقم: 4575)
651- (أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3665، 5783، 5784، 5791، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2085، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3387، 3389 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5443، 5444، 5681، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5342 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4085، 4094، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1730، 1731، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3569، 3576، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3302، 3365، 3367، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1034، برقم: 4575)
652-( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 644، 644، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 349، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1541، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 540، 541 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1534، 1535، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4984، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 704، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1769، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1047، برقم: 4661، 3 / 1067، برقم: 4779)
653- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2156، 2169، 2535، 2562، 6752، 6756، 6757، 6759، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1506، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2894، 2896، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4948، 4949، 4950، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4658، 4671، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2915، 2919، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1236، 2126، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2614، 3200، 3201، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2747، 2748، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12509، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1046، برقم: 4649)
654- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2955، 7144، 7202، 7203، 7205، 7272، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1839، 1867، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3601 ، 3603، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4548، 4549، 4552، 4557، 4561، 4565، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4198، 4199، 4217، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2626، 2940، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1593، 1707، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2864، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5385، 5417، 5418،16650، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1046، برقم: 4654)
655- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5536، 7267، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1943، 1944، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3551 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5264، 5265، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4325 ، 4326، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4807، 4808، 6614، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1790، والدارمي فى «مسنده» برقم: 280، 2058، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 26، 3242، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19469، 19470، 19471، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4584)
656- (إسناده صحيح وهو مرسل، أخرجه أحمد فى «مسنده» 3 / 1047، برقم: 4662، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 8673، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 24839)

657- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1797، 2995، 3084، 4116، 6385، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1342، 1344، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2695، 2696، 2707، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2599، 2770، والترمذي فى «جامعه» برقم: 950، 3447، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2715، 2724، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10425، 10473، 10474، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4583)
658- (إسناده حسن و أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10425، 10473، 10474، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4583)
659- (إسناده صحيح من الشعبتين وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، 2183، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3623، 3624، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1820، 1822، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581)
660- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، 2183 ومالك فى «الموطأ» برقم: 3623، 3624 وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1820، 1822 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
661- قاسم بن محمد کہتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یحییٰ بن حبان سے کہا: تم لوگ تو قتل کرنے کو بھی کچھ نہیں سمجھتے جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”دوآدمی تیسرے کو چھوڑ کر باہم سر گوشی میں بات نہ کریں ۔“

662- علی بن عبدالرحمٰن معاوی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پہلو میں نماز ادا کی ۔ (نماز کے دوران ) میں نے کنکریوں کو الٹا پلٹا ۔ جب میں نے نماز مکمل کی ، تو انہوں نے فرمایا : تم (نماز کے دوران ) کنکریاں نہ الٹایا کرو ، کیونکہ کنکریاں الٹانا شیطان کا کام ہے ۔ تم ویسا کیا کرو جس طرح میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے میں نے دریافت کیا : آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ تو انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ اپنے دائیں زانو پر رکھا ۔
پھر امام حمیدی رحمہ اللہ نے اپنی تین انگلیاں ملا کر اور اپنی شہادت کی انگلی کو کھڑا کیا اور انہوں نے اپنا بایاں ہاتھ اپنے بائیں زانو پر رکھا اور اسے پھیلایا ۔

663- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ، تاہم اس میں یہ الفاظ زائد ہیں ۔ ”یہ شیطان کو پرے کرنے کے لیے ہے ، تاکہ کوئی شخص سہوکا شکارنہ ہو ۔“
انہوں نے یہ بھی کہا: کہ اس طرح حمیدی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی ایک انگلی کو کھڑا کیا ۔
مسلم نامی راوی کہتے ہیں : ایک صاحب نے مجھے یہ بات بتائی کہ انہوں نے شام کی ایک عبادت گاہ میں کچھ انبیاء کی نماز ادا کرتے ہوئے کی تصویر دیکھی تو انہوں نے بھی اسی طرح کیا ہوا تھا ۔ امام حمیدی رحمہ اللہ نے انگلی کھڑی کی ہوئی تھی ۔

664- سالم بن عبداللہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کے بارے میں حکم بیان کیا ، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میرا تہبند ایک پہلو سے نیچے ہو جاتا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم ان لوگوں میں شامل نہیں ہو ۔“

665- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

666- عبید بن جریج جو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے شاگرد ہیں وہ بیان کرتے ہیں : انہوں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا وہ بولے : میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ کچھ ایسے کا م کرتے ہیں ، جو میں نے آپ کے اصحاب میں سے کسی کو کرتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ اس وقت تلبیہ پڑھنا شروع کرتے ہیں جب آپ کی سواری کھڑی ہوتی ہے ۔ میں نے آپ کو دیکھا ہے آپ یہ سبتی جو تے پہنتے ہیں اور انہی میں وضو کر لیتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ بیت اللہ کے صرف دوار کان کا استلام کرتے ہیں اور میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ اپنی داڑھی پر زردخضاب استعمال کرتے ہیں ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے انہیں جواب دیا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تلبیہ پڑھنا شروع کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کھڑی ہوئی تھی ۔ اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سبتی جوتے پہنے ہوئے دیکھا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پہن کر ہی وضو کر لیتے تھے اور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیت اللہ کے دوارکان کا استلام کرتے تھے ۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی داڑھی پر زرد خضاب استعمال کرتے تھے ۔

667- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! مجھے ایسی زمین ملی ہے کہ اس کی طرح کی زمین مجھے کبھی نہیں ملی ۔ مجھے خیبر میں ایک سو حصے ملے ہیں میں یہ چاہتا ہوں کہ میں ان کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قرب حاصل کروں (یعنی انہیں صدقہ خیرات کروں) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے عمر ! یہ زمین اپنے پاس رہنے دواور اس کے پھل کو اللہ کی راہ میں دے دو ۔“

668- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وادی حجر کے رہنے والوں کے بارے میں فرمایا تھا : ”تم ان لوگوں کے ہاں ، جنہیں عذاب دیا گیا ہے ، یہاں روتے ہوئے داخل ہو ، اگر رونہیں سکتے تو تم وہاں نہ جاؤ ، کیونکہ مجھے یہ اندیشہ ہے کہ تمہیں بھی وہی عذاب لاحق ہوگا ، جو انہیں لاحق ہوا تھا ۔“

669- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب دوخرید وفروخت کرنے والے کو ئی سودا کرلیں ، تو ان دونوں میں سے ہر ایک کو (سودا ختم کرنے کا) اختیار ہوگا ، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوجاتے یا ان دونوں نے اختیار کی شرط پر سودا کیا ہو ۔“ راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی چیز خریدتے تھے اور وہ یہ چاہتے کہ یہ سودا طے ہوجائے ، تو وہ تھوڑی دور چل کر چلے جاتے تھے ، پھر واپس آتے تھے ۔

670- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”خرید وفروخت کرنے والوں کو سودا ختم کرنے کا اختیار ہوتا ہے ، جب تک وہ ایک دوسرے سے جدانہ ہوں ، یا ان دونوں نے سوداہی اختیار کی شرط پر کیا ہو ۔ اگر وہ اختیار کی شرط پر سودااختیار کیا گیا ہوگا ، تو طے ہوجائے گا ۔“

671- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرتے ہوئے ”السام علیک“ (تمہیں موت آئے ) کہے ، تو تم کہو ”علیک“ (یعنی تمہیں بھی آئے ) “ ۔ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں : ایک شخص پہلے یہودی تھا پھر اس نے اسلام قبول کرلیا وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا تھا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے جب بھی سلا م کا جواب دیتے تھے تو ہمیشہ ”علیک“ ہی کہا: کرتے تھے ۔ اس نے عرض کی : اے ابوعبدالرحٰمن ! میں مسلمان ہوچکا ہوں ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پھر بھی ”علیک“ ہی کہا کرتے تھے ۔

672- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : کیا کوئی شخص جنابت کی حالت میں سوسکتا ہے ؟نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی ہاں ۔ جب وضو کرلے ، تو وہ سوسکتا ہے اور اگر وہ چاہے ، تو کچھ کھا بھی سکتا ہے ۔“

673- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل کر یا سوار ہوکر ہر ہفتے قبا تشریف لے جایا کرتے تھے ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا ہے کہ وہ ہر ہفتے سوارہو کر یا پیدل چل کر قبا تشریف لے جایا کرتے تھے ۔

674- سالم بن عبداللہ کہتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے : یہ ”بیداء“ وہ جگہ ہے ، جس کے بارے میں تم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے غلط بات بیان کرتے ہو ۔ اللہ کی قسم ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں موجود مسجد کے پاس سے تلبیہ پڑھنا شروع کیا ۔

675- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ پڑھتے ہوئے سناہے : ”میں حاضر ہوں اے اللہ ! میں حاضر ہوں تیرا کو ئی شریک نہیں ہے ۔ میں حاضر ہوں ، بے شک حمد اور نعمت تیرے لیے مخصوص ہے اور بادشاہی بھی ، تیرا کوئی شریک نہیں ہے ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس میں ان الفاظ کا اضافہ کرتے تھے ۔ ”میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، میں حاضر ہوں ، سعادت تیری طرف سے ہی نصیب ہوسکتی ہے ۔ میں حاضر ہوں ۔ بھلائی تیرے دست قدرت میں ہے ۔ میں حاضر ہوں“ ۔ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ”تیرے دونوں ہاتھوں میں ہے“ ۔
سفیان بھی اسی طرح کہاکرتے تھے ۔ ”میں حاضر ہوں رغب تیری طرف کی جاسکتی ہے اور عمل تیری توفیق سے کیا جاسکتا ہے یا تیری ہی طرف لوٹتا ہے“ ۔

676- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اکیلے رہنے کے بارے میں جو کچھ مجھے پتہ ہے اگر لوگوں کو پتہ چل جائے ، تو کوئی بھی شخص اکیلا رات کے وقت (سفر نہ کرے ) “

677- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا منقذ رضی اللہ عنہ (یہ ایک انصاری صحابی ہیں) کو زمانہ جاہلیت میں سر میں چوٹ لگی تھی جس کے نیچے میں ان کی زبان میں لکنت آگئی تھی جب وہ کوئی سودا کرتے تھے ، تو سودا کرنے کے دوران ان کے ساتھ دھوکہ ہوجاتا تھا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم سودا کرتے ہوئے یہ کہو کہ دھو کہ نہیں ہوگا ۔ پھر تمہیں تین دن تک اختیار ہوگا (اگر تم چاہو تو سودے کو کالعدم قراردو) “
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں : میں نے انہیں سودا کرتے ہوئے سنا : وہ یہ کہہ رہے تھے «لا خذابة» (یعنی لکنت کی وجہ سے وہ لام کو ذال پڑھ رہے تھے )

678- سالم اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”تم لوگوں کو ایسے سو اونٹوں کی مانند پاؤ گے جن میں سے کوئی ایک بھی سواری کے قابل نہیں ہوگا“ ۔

679- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”کوئی بھی شخص کسی دوسرے کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود وہاں نہ بیٹھے بلکہ تم کشاد گی اور وسعت اختیار کرو“ ۔

680- نافع بیان کرتے ہیں ؛ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک درخت کے پاس سے جب بھی گزرتے تو اس کے لیے دور سے پانی لا کر اس کو پانی دیا کرتے تھے کہ یہ وہ درخت تھا ، جس کے نیچے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سائے میں آرام فرماتے تھے ۔

تخریچ

661- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، 2183، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581، 582، 584، 586، 587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4828، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2749، 2750، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2695، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5975، 5976، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1027، برقم: 4536 والطبراني في «الصغير» (2 / 62) برقم: (785) )
662- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 580، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1942، 1947، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1159، 1265، 1266، 1268 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 987، والترمذي فى «جامعه» برقم: 294، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1378، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 913، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2823، 2824، 2825، 2834، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1048، برقم: 4665)
663- (إسناده هذا القول ضعيف لجهالة شيخ مسلم، وهو موقوف على هذا المجهول)
664- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» 8 / 18، برقم: 3665، 6062، و مسلم فى «صحيحه» برقم:2085 والبيهقي فى «سننه الكبير» 2 / 243، برقم: 3366، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 5443 5444 5681)
665- (انفرد به المصنف من هذا الطريق وانظر الحديث السابق)
666- (إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 166، 1606، 1609، 5851، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1187، 1267، 1268، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1195، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3697، 3698، 3763، 3827، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 550، برقم: 2759، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1772، 1874، 1876، 4064، 4210، والترمذي فى «جامعه» برقم: 959، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1880، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2946، 2956، 3626، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1383، 1384، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4548)
667- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2313، 2737، 2764، 2772، 2773، 2777، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1633، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4899، 4900، 4901، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3599 ، 3600، وأبو داود فى «سننه» 2878، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1375، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3340، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2396، 2397، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12004، 12005، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4402، 4403، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1053، برقم: 4698)
668- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 433، 3380، 3381، 4419، 4420، 4702، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2980، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6199، 6200، 6201، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11206، 11210، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4437، 4438، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1046، برقم: 4650، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5575، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 1624، 1625)
669- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2107، 2109، 2111، 2112، 2113، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1531، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4912، 4913، 4915، 4916، 4917، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4477، 4478، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3454، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2181، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10541، 10542، وأحمد فى «مسنده» 1 / 133، برقم: 400)
670- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2107، 2109، 2111، 2112، 2113، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1531، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4912، 4913، 4915، 4916، 4917، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4477، 4478، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3454، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2181، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10541، 10542، وأحمد فى «مسنده» 1 / 133، برقم: 400)
671- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6257، 6928، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2164، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3528، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 502، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10138، 10139، 10140، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5206، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1603، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2677، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18789، 18790، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1046، برقم: 4652، 3 / 1069، برقم: 4789، 3 / 1069، برقم: 4790، 3 / 1151، برقم: 5317، 3 / 1268، برقم: 6046، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 13 / 201، برقم: 26276)
672- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 287، 289، 290، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 306، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1212، 1213، 1214، 1215، 1216، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 259، 260،وأبو داود فى «سننه» برقم: 221، والترمذي فى «جامعه» برقم: 120، والدارمي فى «مسنده» برقم: 783، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 585، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 980، 981،وأحمد فى «مسنده» 1 / 39، برقم: 95، 1 / 42، برقم: 106)
673- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1191، 1193، 1194، 7326، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1399، ومالك فى «الموطأ» برقم: 578 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1618، 1628، 1629، 1630، 1632، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1799، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 697، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2040، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10400، 10401، 10402، 10403، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1033، برقم: 4571)
674- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1514، 1541، 1552، 2865، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1184، 1186، 1187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3762، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2756، 2757، 2758 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1771، والترمذي فى «جامعه» برقم: 818، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1970، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2916، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9073، 9074، 9075، 9076، 9077، 9078، 9118، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1047، برقم: 4659)
675- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1540، 1549، 1554، 5914، 5915، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1184، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3799، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1657، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2682، 2746، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1747، 1748، 1812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 825، 826، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1849، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2918، 3047، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9067، 9068، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1028، برقم: 4543، 3 / 1088، برقم: 4914، وأبو يعلى فى «مسنده» 10 / 57، برقم: 5692)
676- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2998، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2569، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2704، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2507، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1673، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2721، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3768، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10457، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1077، برقم: 4839)
677- (إسناده صحيح فقد صرح ابن إسحاق بالتحديث عند البخاري وغيره وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2117، 2407، 2414، 6964، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1533، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5051، 5052، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4496، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3500، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10568، 10569، 10570، 10571، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1122، برقم: 5131، 3 / 1157، برقم: 5367)
678- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6498، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2547، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5797، 6172، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2872، 2873، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3990، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17863، 20518، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1039، برقم: 4604)
679- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 911، 6269، 6270، 6288، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2177، 2183، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 580، 581، 582، 584، 586، 587، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1091، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4828، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2749، 2750، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2695، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3776، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5975، 5976، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1027، برقم: 4536، 3 / 1046، برقم: 4653)
680- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7074، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10378، والبزار فى «مسنده» برقم: 5908، 5909، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 3968)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
681- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں کسی بھی شخص کو رات یا دن کے کسی بھی وقت میں نماز ادا کرنے سے منع نہیں کرتا، میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا میں نے اپنے ساتھیوں کو کرتے ہوئے دیکھا ہے، جبکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”تم لوگ بطور خاص سورج طلوع ہونے کے قریب یا غروب ہونے کے قریب نماز ادا کرنے کی کوشش نہ کرو۔“
سفیان سے کہا گیا: یہ روایت تو ہشام کے حوالے سے نقل کی گئی ہے، تو وہ بولے : میں نے ہشام کو اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کبھی نہیں سنا۔

682- نا فع بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو صفا پہاڑ پر ایک مخصوص جگہ پر کھڑے ہوئے دیکھا ،میرا خیال ہے ،اللہ کی قسم ! انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جگہ کھڑے ہوئے دیکھا ہوگا۔

683- عمر وبن دینار بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایسے شخص کے بارے میں دریافت کیا گیا جو عمرہ کرتے ہوئے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کرتا ہے، لیکن صفا و مروہ کا چکر نہیں لگاتا تو کیا وہ اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرسکتا ہے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقام ابراہیم کے پاس نماز ادا کی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا اور مروہ کا طواف کیا جبکہ اللہ تعالیٰ نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: «لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ» (33-الأحزاب:21) ”تمہارے لیے اللہ کے رسول کے طریقے میں بہترین نمونہ ہے۔“

684- عمر و بن دینار کہتے ہیں: ہم نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے یہ سوال کیا، تو انہوں نے فرمایا : تم اپنی بیوی کے قریب اس وقت تک نہیں جاسکتے جب تک تم صفاومروہ کا چکر نہیں لگا لیتے۔

685- عمر و بن دینار کہتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہا گیا: مکہ کا ایک شخص ابو نہیک بہت زیادہ کھاتا ہے، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”مومن ایک آنت میں کھاتا ہے اور کا فر سات آنتوں میں کھا تا ہے۔“
راوی کہتے ہیں:تو وہ صاحب بولے : جہاں تک میرا تعلق ہے ، تو میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہوں۔

686- سالم بن عبداللہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جو غلام دو آدمیوں کی ملکیت ہوان دونوں میں سے کوئی ایک شخص اپنے حصے کو آزاد کر دے ۔ اگر وہ شخص خوشحال ہو، تو اس غلام کی منصفانہ طور پر کسی کمی بیشی کے بغیر مناسب قیمت لگائی جائے گی اور پھر وہ شخص اپنے ساتھی کو اس کے حصے کی تاوان کی رقم ادا کرے گا اوراس غلام کو (مکمل طور پر) آزاد کردے گا۔“
سفیان کہتے ہیں:عمر و کو اس روایت کے اس طرح ہونے میں شک ہے۔

687- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کولعان کرنے والے (میاں بیوی سے ) یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ”تم دونوں کا حساب اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے، تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹا ہے، لیکن اب (تمہیں یعنی مرد کو) اس عورت پر کوئی حق حاصل نہیں ہے۔“
ان صاحب نے عرض کی: یا رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میرا مال ، میرامال ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں مال نہیں ملے گا اگر تم نے اس عورت کے بارے میں سچ کہا ہے، تویہ مال اس چیز کا عوض بن جائے گا، جو تم نے اس کی شر مگاہ کو حلال کیا تھا، اور اگر تم نے اس پر جھوٹا الزام لگا یا ہے، تو پھر تو وہ تم سے اور بھی زیادہ دور ہوجائے گا۔“ (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے)

688- سعید بن جبیر بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال کیا میں نے کہا :اے ابوعبدالرحمن ! کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ لعان کرسکتا ہے؟ سیدنا تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھ کے ذریعے اشارہ کیا اس طرح۔انہوں نے اپنی شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے کہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عجلان سے تعلق رکھنے والے دومیاں بیوی کے درمیان علیحدگی کروادی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”اللہ تعالیٰ یہ بات جانتا ہے کہ تم دونوں میں سے کوئی ایک جھوٹ بول رہا ہے، تو کیا تم دونوں، توبہ کرو گے؟“
سفیان کہتے ہیں: پہلے ایوب نے ہمیں یہ روایت عمرو کی محفل میں سنائی تھی پھر عمرونے ان کی حدیث کے حوالے سے یہ روایت اس طرح بیان کی، تو ایوب نے ان سے کہا :اے ابو محمد! آپ اس روایت کو مجھ سے زیادہ بہتر طورپر بیان کرسکتے ہیں۔

689- اسماعیل شیبانی بیان کرتے ہیں:میں نے کھجور کے درختوں پر لگے ہوئے پھل کو ایک سو وسق کھجور وں کے عوض میں فروخت کردیا، (اس شرط پر کہ اگر درخت پر لگا ہو ا پھل ) زیادہ ہوا تو ان لوگوں کو مل جائے گا اگر کم ہوا تو اس کا نقصان بھی ان کو ہوگا۔ میں نے اس بارے میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا،تو انہوں نے بتایا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے، تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرایا میں اس کی اجازت دی ہے۔

690- سالم اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جمعہ کے بعددورکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ظہر سے پہلے دورکعات ادا کرتے، اور ظہر کے بعد دورکعات ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور مغرب کے بعد دورکعات ادا کرتے ہوئے اور عشاء کے بعد دورکعات ( سنت ادا کرتے ہوئے دیکھا ہے)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: مجھے یہ بات بتائی گئی ہے ، ویسے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خود دیکھا نہیں،کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح صادق ہوجانے کے بعد بھی دورکعات ادا کرتے تھے۔

691- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہے تھے میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ایک ایسے اونٹ پر سوار تھا جو سخت تھا وہ مجھ پر غالب آجاتاتھا، اور لوگوں سے آگے نکل جاتا تھا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اسے جھڑ کتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے وہ پھر آگے ہوجاتا تھا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پھر اسے جھڑکتے تھے اور اسے واپس کرتے تھے ،نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ”یہ مجھے فروخت کردو“ انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم ) !یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہوا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ مجھے فروخت کردو“ ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ ان سے خرید لیا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے عبداللہ بن عمر! یہ تمہارا ہو اتم اس کےساتھ جو چاہوکرو۔“

692- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےسونے کی انگوٹھی پہنی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اتاردیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی پہنی جس کا نگینہ بھی چاندی کا بنا ہوا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نگینے کو ہتھیلی کی سمت میں رکھتے تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ”محمد رسول اللہ“ نقش کروایا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا تھا کہ کوئی شخص اس کی مطابق نقش بنوائے۔
یہ وہی انگوٹھی ہے،جو سیدنا معیقیب رضی اللہ عنہ سے ”اریس“ کے کنویں میں گر گئی تھی۔

693- مجاہد بیان کرتے ہیں: میں ثنیہ تک سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ گیا، تو میں نے انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے کوئی حدیث بیان کرتے ہوئے نہیں سنا انہوں نے صرف ایک حدیث بیان کی وہ بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیا خدمت جمار (کھجور کے درخت کا گوند ) لایا گیا ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”مجھے ایک ایسے درخت کے بارے میں پتہ ہے، جس کی مثال مسلمان بندے کی مانند ہے۔“ ( سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں:) میرے ذہن میں آئی کہ وہ کھجور کا درخت ہوگا پہلے میں بات کرنے لگا، لیکن میں نے جائزہ لیا تو میں حاضرین میں سب سے کم سن تھا ۔اس لیے میں خاموش رہا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ کھجور کا درخت ہے“ ۔

694- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا: اگر تم یہ بات کہہ دیتے تو میرے نزدیک اس ،اس چیز سے زیادہ محبوب تھا۔ (راوی کو شک ہے شاہد یہ الفاظ ہیں) سرخ اونٹوں سے زیادہ محبوب تھا۔

695- نافع بیان کرتے ہیں: سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمر ے کا احرام باندھا اس وقت جب مدینہ سے روانہ ہوئے تھے، پھر وہ بولے: اگر مجھے روک لیاگیا، تو میں ویسا ہی کروں گا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، جب وہ بیداء کے مقام پر آئے تو بولے :حج اور عمر ے کی حیثیت ایک ہی ہے۔ میں تم لوگوں کو گواہ بنا کر کہہ رہاہوں کہ میں نے اپنے عمرے کے ساتھ حج بھی لازم کرلیا ہے۔راوی کہتے ہیں: پھر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ آئے انہوں نے بیت اللہ کا سات مرتبہ طواف کیا مقام ابرہیم کے پاس دو رکعات نماز نماز ادا کی پر صفا ومروہ کا چکر لگا یا پھر انہوں نے یہ بات بتائی میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایسا کرتے دیکھا ہے۔
ایوب بن موسیٰ نامی راوی نے اپنی روایت میں مزید یہ الفاظ نقل کیے ہیں:جب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ”قدید“ کے مقام پر پہنچے، تو وہاں سے انہوں نے قربانی کا جانور لیا اور اسے ساتھ لے آئے۔

تخریج:

681- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 582، 583، 585، 589، 1629، 3272، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 828، 829، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1545، 1548، 1566، 1567، 1569، 5996، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 562، 563، 570 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4449، 4450، 4451، 4494، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1054، برقم: 4702)
682- (إسناده ضعيف وما وجدته عند غير الحميدي ولكن أخرجه الطبرني فى «الكبير» برقم: 10036 والبيهقي فى الحج 95/5 وأحمد فى «مسنده» 3 / 1223، برقم: 5773)
683- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 395، 1623، 1627، 1645، 1647، 1793، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1233، 1234، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3809، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2929 ، 2930 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2959، 2974، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9338، 9420، 9457، 9458، 9459، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1038، برقم: 4600)
684- (حديث جابر هذا موصول بلإسناد السابق وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 396، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9458، 9911، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5634، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14944)
685- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5393، 5394، 5395، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2060، 2061، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5238، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6740، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1818، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2084، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3257، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1072، برقم: 4809)
686- (إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2491، 2503، 2521، 2522، 2523، 2524، 2525، 2553، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1501، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4315، 4316، 4317، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4712 ، 4713 / 1، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3940، 3947، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1346، 1347، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2528، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11636، 21377، 21378، وأحمد فى «مسنده» 1 / 134، برقم: 404)
687- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4748، 5306، 5311، 5312، 5313، 5314، 5315، 5349، 5350، 6748، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1493، 1494، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4286، 4287، 4288، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3473، 3474، 3475، 3476 ، 3477 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2257، 2258، 2259، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1202، 1203، 3178، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2277، 2278، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2069، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15394، 15421، 15422، 15423، 15424، 15435، 15437، 15438، 15449، 15450، 15451، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3706، وأحمد فى «مسنده» 1 / 134، برقم: 405، 3 / 1031، برقم: 4563)
688- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 4748، 5306، 5311، 5312، 5313، 5314، 5315، 5349، 5350، 6748، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1493، 1494، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4286، 4287، 4288، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3473، 3474، 3475، 3476 ، 3477 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2257، 2258، 2259، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1202، 1203، 3178، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2277، 2278، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2069، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15394، 15421، 15422، 15423، 15424، 15435، 15437، 15438، 15449، 15450، 15451، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3706، وأحمد فى «مسنده» 1 / 134، برقم: 405، 3 / 1031، برقم: 4563)
689- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2173، 2184، 2188، 2192، 2380، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1534، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5001، 5004، 5005، 5009، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4546، 4550، 4551، 4552 ، 4553، 4554 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3362، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1300، 1302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2600، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2268، 2269، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10758، 10759، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1034، برقم: 4576، 3 / 1043، برقم: 4629)
690- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 937، 1165، 1172، 1180، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 728، 729، 882، 882، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2454، 2473، 2476، 2479، 2487، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 872، 1426، 1427، 1428، والترمذي فى «جامعه» برقم: 425، 433، 434، 521، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1477، 1485، 1614، 1615، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1131، 1143، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3090، 4547، 4548، 4578، 4609، 6018، 6023، 6024، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1037، برقم: 4593)
(691- إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2115، 2610، 2611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7073، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10814، 12075، والطبراني فى "الكبير" برقم: 13666)
692- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5865، 5866، 5867، 5873، 5876، 6651، 7298، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2091، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5491، 5494، 5495، 5499، 5500، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5179، 5229، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4218، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1741، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3639، 3645، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4282، 7657، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1066، برقم: 4768، 3 / 1074، برقم: 4825)
693- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 61، 62، 72، 131، 2209، 4698، 5444، 5448، 6122، 6144، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2811، 2811، 2811، 2811، 2811، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 243، 244، 245، 246، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11197، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2867، والدارمي فى «مسنده» برقم: 290، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1052، برقم: 4689)
694- (إسناده صحيح وانظر التعليق السابق)
695- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1639، 1640، 1693، 1708، 1806، 1807، 1812، 1813، 4183، 4184، 4185، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1230، 1232، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3998، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2745، 2859، 2933 ، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8838، 8872، 8920، 9520، 10187، 10191، 10192، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1032، برقم: 4566)
 
Last edited:
Top