سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
572- خالد بن حکیم بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کسی علاقے کے کسی شخص پر ناراض ہوگئے۔ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں ان سے بات چیٹ کی، تو ان سے کہا گیا: آپ امیر کے سامنے غصے کا اظہار کررہے ہیں، تو سیدنا خالد رضی اللہ عنہ بولے: میں ان پر غصہ نہیں کر رہا، میں نے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں سب سے شدید عذاب اس شخص کو ہوگا، جو دنیا میں لوگوں کو شدید ترین عذاب دیتا تھا۔“
سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر رضی اللہ عنہما سے منقول روایات |
573- سیدنا عبدالرحمٰن بن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کی تھی کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو سواری پر اپنے پیچھے بٹھائیں اور تنعیم سے انہیں عمرہ کروا دیں۔
سفیان کہتے ہیں یہ روایت شعبہ کی شرط کے مطابق ہے، جس میں یہ الفاظ ہیں ، انہیں نے یہ خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا، وہ یہ کہتے ہیں، اس طرح روایت متصل ہوجاتی ہے۔
سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
574- عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں میرے والد نے میری شادی کی ، انہوں نے ہمارے لئے ولیمے پر لوگوں کی دعوت کی، تو جو لوگ ہمارے ہاں آئے ان میں سیدنا صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ انہوں نے فرمایا: تم لوگ دانت کے ذریعہ نوچ کر گوشت کو کھاؤ، کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”یہ بھوک کو زیادہ بہتر طور پر ختم کرتا ہے اور معدے پر بوجھ بھی نہیں بنتا (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) یہ بھوک کو زیادہ بہتر طور پر ختم کرتا ہے اور سلامتی سے زیادہ قریب ہے۔“
سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
575- صفیہ بنت شیبہ بیان کرتی ہیں: بنو سلیم سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نے مجھے یہ بات بتائی ہے کہ انہوں نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خانۂ کعبہ کے اندر تشریف لے جانے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مانگی ہوئی دعا کے بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”میں نے بیت اللہ میں دنبے کے سینگ دیکھے تھے، تو یہ خیال نہیں رہا کہ میں تمہیں ہدایت دیتا کہ تم انہیں ڈھانپ دو، تو اب تم انہیں ڈھانپ دو، کیونکہ بیت اللہ میں کوئی ایسی چیز نہیں ہونی چاہئے جو نمازی کی توجہ کو منتشر کرنے کا باعث ہو۔“
سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
576- جعفر بن عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک پر سیاہ عمامہ دیکھا۔
577- سیدنا عمرو بن حریث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کی نماز میں «وَاللَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَ» (یعنی سورۃ تکویر:17) کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔
سیدنا مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
578- سیدنا مطیع بن اسود رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ایک ہیں، جن کا نام عاص تھا اور ان کا تعلق قریش کے ساتھ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نام مطیع رکھ دیا۔ قریش کے عاص کے نامی افراد میں صرف انہیں اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی، وہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ”آج کے دن کے بعد کبھی بھی کسی قریشی کو باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا۔“
سفیان کہتے ہیں: یعنی اس کے کفر کی وجہ سے قتل نہیں کیا جائے گا۔
سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
579- سیدنا عبداللہ بن زمعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کوسنا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کا تذکرہ کیا۔ جس نے حضرت (یونس علیہ السلام ) کی اونٹنی کے پاؤں کاٹےتھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے ایک ایسا شخص آگے بڑھا جو اپنی قوم میں صاحب حیثیت تھا۔جس طرح ابوزمعہ ہے۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواتین کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا۔ ”تم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کی طرف جاتا ہے اوراسے یوں مارتا ہےجیسے غلام کو ماراجاتاہے۔پھر وہ دن کے آخری حصے میں اسے گلے لگالیتا ہے۔“
راوی بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے کسی کی ہوا خارج ہونے پرہنسنےپر بھی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوۓ فرمایا۔ ”کوئی شخص ایسے عمل پرہنستا ہے۔جو خود کرتا ہے۔“
سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
580-سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیر تربیت کم سن لٹرکا تھا (ایک مرتبہ کھانا کھاتے ہوۓ) میرا ہاتھ پیالے میں گردش کررہا تھا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لڑکےاللہ کا نام لے کر کھاؤ۔ اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ۔“
سیدنا عمر بن ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اس کے بعد میرا کھانے کا یہی طریقہ رہا ہے۔
581- سیدنا عمر بن ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک کپڑا اوڑھ کرنمازادا کرتے ہوۓ دیکھاہے۔
سیدنا حارث بن مالک بن برصاء رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
582- سیدنا حارث بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: فتح مکہ کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشاد فرماتے ہوۓ سنا ہے: ”آج کے دن کے بعد مکہ پر حملہ نہیں کیا جاسکے گا۔“
سفیان کہتے ہیں۔ اس سے مراد یہ ہےٗ کفر کی بنیاد پر ایسا نہیں ہوگا۔
583- سیدنا حارث بن مالک رضی اللہ عنہ حج کے دنوں میں لوگوں میں اعلان کرتے تھے۔
سفیان کہتے ہیں: میرے علم کے مطابق انہوں نے یہ بات بیان کی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو شخص کوئی قسم اٹھا کر کوئی اسں کے ذریعے کسی مسلمان کا مال ہڑپ کرے تو جب وہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں حاضرہو گا, توا للہ تعالی اس پر غضبنا ک ہوگا۔“
سیدنا کرز بن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
584- سیدنا کرزبن علقمہ خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔اس نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم) ! کیا اسلام کی کوئی انتہاء ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں ۔عرب یا عجم سے تعلق رکھنے والا جو بھی گھرانہ ہو،جس کے بارے میں اللہ تعالی بھلائی کا ارداہ کرلے ، تواللہ تعالیٰ ان پراسلام کو داخل کردیتا ہے۔“ انہوں نے عرض کی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !پھر کیاہوگا۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بعد فتنے ہوں گے۔یوں جیسے وہ بادل ہوتے ہیں۔“ ان صاحب نے عرض کی:اللہ کی قسم! یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ایسا ہر گز نہیں ہوگا۔اگر اللہ نے چاہا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا ہوگا، اس ذات کی قسم! جس کے دست قدرت میں میری جان ہے، اس وقت میں لوگوں کے بہت سے گروہ اس طرف مائل ہوجائیں گے اور وہ آپس میں قتل وغارت گری کرنے لگیں گے۔“
زہری کہتے ہیں اسود سے مراد سانپ ہے۔ جب کو کسی کو نگلنے کا ارادہ کرتا ہے تو یوں کھڑا ہوتا ہے ۔ پھر حمیدی رحمہ اللہ نے اپنا ہاتھ اٹھا کر اسے کھڑا کر کے دکھایا۔ سفیان جب یہ روایت بیان کرتے تھے، تو ساتھ یہ کہا کرتے تھے، تمہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کہ اگر تم نے یہ روایت ابن شہاب کی زبانی نہیں سنی (یعنی میں نے من و عن تمہارے سامنے بیان کردیا ہے۔)
سیدنا ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
585- سیدنا ابوشریح کعبی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جوشخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کر کے ۔ جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی عزت افزائی کرے۔“
586-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوشریح رضی اللہ عنہ کے حوالے سے اسی کی مانند منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ زائدہیں۔ ”مہمان نوازی تین دن تک ہوتی ہے، جواس سے زیادہ ہوگی وہ صدقہ ہوگا۔مہمان کا اہتمام کے ساتھ کھانا ایک دن اور ایک رات کیا جاۓ گا اور مہمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے،وہ میزبان کے ہاں اتنا عرصہ مقیم رہے، کہ اسے حرج میں مبتلا کر دے۔“
سیدنا ابن مربع انصاری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
587- سیدنا یزید بن شیبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ سیدنا ابن مربع انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے پاس تشریف لائے ہم اس وقت عرفہ میں ایسی جگہ وقوف کیے ہوئے تھے، جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقوف کی جگہ سے دور تھی انہوں نے بتایا: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پیغام رساں کے طور پر تمہارے پاس آیا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ”تم اپنے اسی مقام تک رہنا کیونکہ تم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وراثت کے وارث ہو۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ کہا کرتے تھے، کہ تم ان الفاظ کو یاد رکھو اور بعض اوقات یہ کہتے تھے: تم اپنے جد امجد سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے وارث ہو۔
سیدنا مطلب بن ابو وداعہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
588- سیدنا مطلب بن ابووداعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بنو سہم کے دروازے کے قریب نماز ادا کرتے ہوۓ دیکھا ۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گزر رہے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور طواف کرنے والوں کے درمیان سترہ نہیں تھا۔
589-سفیان کہتے ہیں: ابن جریج نے پہلے یہ روایت کثیر کے حوالے سے ان کے والد کے حوالے سے نقل کی تھی۔پھر جب میں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا، تو وہ بولے :یہ میرے والد کے حوالے سے منقول نہیں ہےمیرے گھر کے ایک فرد یہ بات بیان کی ہے۔ انہوں نے سیدنا مطلب بن ابووداعہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوۓ سنا ہے۔
سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
590- سیدنا عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔میں نے سیدنا ابواہاب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے ساتھ شادی کر لی تو ایک سیاہ فام عورت آئی اور بولی ۔ میں نے تم دونوں (میاں،بیوی) کو دودھ پلایا ہے۔ ( سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں دائیں طرف سے حاضر ہوا۔میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال کیا،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے اعراض کیا۔ پھر میں بائیں طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر مجھ سے اعراض کیا۔پھر میں سامنے کی طرف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آیا ۔اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا: میں نے عرص کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !وہ ایک سیاہ فام عورت ہےاور یہ ہےاور وہ ہے،تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب بات کردی گئی ہے، تو پھر اب کیا ہوسکتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے منقول روایات |
591- سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اب رمی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔“ ایک اور صاحب آئے انہوں نے عرض کی۔میں نے قربانی سے پہلے سر منڈوالیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اب قربانی کرلو۔کوئی حرج نہیں ہے۔“
سفیان سے یہ کہاگیا:آپ نےزہری کی زبانی یہ روایت یاد کی ہے؟انہوں نے جواب دیا: جی ہاں ! گویاکہ وہ اس وقت بھی اسے سن رہےتھے۔ تاہم یہ روایت طویل ہے۔ میں نے اس میں سے صرف اس حصے کویاد رکھاہے۔ تو بلبل نے ان سے کہا: (ایک قول کے مطابق اس کا نام بلیل بن حرب ہے) عبدالرحمن بن مہدی تو آپ کے حوالے سے یہ کہتے ہیں، آپ نے یہ بات بیان کی ہے، مجھے یہ روایت مکمل طور پریاد نہیں ہے، تاہم جہاں تک اس حصے کا تعلق ہے،تو یہ مجھے یقینی طور پر یاد ہے۔
592- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ اس علم کویوں قبض نہیں کرے گا کہ اسے لوگوں کے دلوں میں سے نکال لے گا بلکہ وہ اسے علماء کو قبض کر کے قبض کرے گا، پھر وہ کسی عالم کوباقی نہیں رہنے دے گا، تو لوگ جاہلوں کو پیشوا بنا لیں گے۔ وہ ان سے مسئلے دریافت کریں گے، تو وہ لوگ علم نہ ہونے کے باوجود انہیں جواب دیں گے۔وہ لوگ خود گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے۔“
عروہ کہتے ہیں۔ پھر کئی سال گزرگئے پھر میری ملاقات طواف کے دوران سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے ہوئی ۔ میں نے ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا: تو انہوں نے مجھے اس کے بارے میں بتایا۔
593- سیدنا عبد اللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مخصوص برتنوں سے منع کردیا، تو عرض کی گئی:یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !ہر شخص کے پاس مشکیزہ نہیں ہوتا، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایسا مٹکا استعمال کرنے کی اجازت دی جو مزفت نہ ہو۔
594- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”دوعادات ایسی ہیں جو آسان ہیں، لیکن ان پر عمل کرنے والے لوگ تھوڑے ہیں،“ جو بھی مسلمان ان کو باقاعدگی سے سرانجام دے گا وہ جنت میں داخل ہوجاۓ گا۔“ لوگوں نے عرض کی :یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) !وہ دنوں کون سی ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نماز کے بعد 10 مرتبہ «سبحان الله» پڑھنا،10 مرتبہ «الله اكبر» پڑھنا، 10 مرتبہ «الحمدلله » پڑھنا۔ اور سوتے وقت 33 مرتبہ «سبحان الله» پڑھنا۔33 مرتبہ « الحمدلله » پڑھنا اور 34 مرتبہ «الله اكبر» پڑھنا۔“
پھر سفیان نے یہ بات بیان کی ان میں سےکوئی ایک کلمہ 34 مرتبہ ہے،تویوں یہ روزانہ زبان کے اعتبار سے 250 کلمات ہو جائیں گےاور نامہ اعمال میں 2500 کلمات ہوں گے۔
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک کے ذریعے گنتی کر کے یہ بتایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کون شخص ایسا ہے، جو روزانہ 2500 گناہ کرتا ہے؟“ لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! انہیں باقاعدگی سے پڑھا کیوں نہیں جاسکتا؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان کسی شخص کے پاس آتا ہےاور اسے کہتا ہے فلاں چیز یاد کرو ۔فلاں چیز یاد کرو،یہاں تک کہ آدمی اٹھ جاتا ہے (یعنی نماز کے بعد اٹھ جاتا ہے ) اور ان کلمات کو نہیں پڑھتا ہے۔“
یہ وہ پہلی روایت ہے،جس کے بارے میں ہم نے عطاء سے سوال کیاتھا۔جب عطاء بصرہ آۓ تو ایوب نے لوگوں کو یہ ہدایت کی کہ وہ ان کی خدمت میں جائیں اور ان سے اس روایت کے بارے میں دریافت کریں۔
595- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا۔اس نے عرض کی :یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس لیے حاضرہواہوں، تاکہ ہجرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کروں۔اورمیں اپنے ماں،باپ کو روتا ہوا چھوڑ کر آیا ہوں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم ان کے پاس واپسں جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ۔“
596- سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے۔ تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں۔ ”تم ان دونوں کی اچھی طرح خدمت کرو۔“
597-سیدنا عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جو شخص ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کے حق کو پہچانتا نہیں ہے اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔“
598- سیدنا عبداللہ بن عمر وبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”جو شخص چڑیا یا اس سے چھوٹے کسی جانور کوناحق طور پر ماردیتا ہے،تو اللہ تعالیٰ اس مارنے میں اس سے حساب لے گا۔“
لوگوں نے عرض کی: یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! اس کا حق کیا ہے؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ اسے ذبح کرکے اسے کھالے اور یہ کہ اس کا سر مکمل طور پر الگ کر کے اسے پھینک نہ دے۔“
سفیان سے کہا گیا: حمادبن زید اس روایت میں یہ کہتے ہیں: سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے یہ روایت صہمیب الخداء کے حوالے سے نقل کی ہے،تو سفیان بولے:میں نے عمروکو کبھی بھی صہیب الخداء کا تذکرہ کرتے ہوئے نہیں سنا۔ وہ تو صرف یہ کہتے تھےصہیب ، جو عبداللہ بن عامر کے غلام ہیں۔
599- سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”انصاف کرنے والے لوگ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں نور کے منبروں پر رحمان کے دائیں طرف ہوں گے حالانکہ اس کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو والی (یعنی حاکم یا قاضی) نہیں بنائے گۓ۔ لیکن وہ اپنے فیصلے اور اپنے گھر والوں کے بارے میں انصاف سے کام لیتے ہیں۔“
600- سیدنا عبداللہ بن عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ پسندیدہ روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ رکھنے کا طریقہ ہے۔ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن روزہ نہیں رکھتے تھے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ نماز خضرت داؤد علیہ السلام کی نماز ہےوہ نصف رات سوۓ رہتے تھے۔ پھر ایک تہائی رات نوافل ادا کرتے رہتے تھے۔ پھر رات کا چھٹا حصہ سوئے رہتے تھے۔“
تخریج:
572- (إسناده صحيح وأخرجه أحمد فى «مسنده» 7 / 3711، برقم: 17094، والطيالسي في « مسنده» برقم: 1253، والحميدي فى «مسنده» برقم: 572، والطبراني فى "الكبير" برقم: 3824، 4121، 4122)
573- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1784، 2985، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1212، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6071، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4216، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1995، والترمذي فى «جامعه» برقم: 934، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1904، 1905، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2999، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8887، 8888، 8889، 8890، وأحمد فى «مسنده» 1 / 427، برقم: 1727، 1 / 429، برقم: 1731، 1 / 429، برقم: 1732)
574- (إسناده ضعيف وأخرجه الحميدي فى «مسنده» برقم: 574، والطبراني فى "الكبير" برقم: 7331، 7332)
575- ( إسناده صحيح وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2030، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 9083، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 4618، والطبراني فى "الكبير" برقم: 8396)
576- (إسناده جيد وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1359، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5361، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9674، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4077، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1104، 2821، 3584، 3587، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6058،6059، 6223، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4268، برقم: 19036، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1459، 1460، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25450، 25481، والترمذي فى "الشمائل" برقم: 115، 116)
577-(أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 456، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1599، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 950، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1025، 11586، 11587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 817، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1336، 1337، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 817، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3118، 4079، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4268، برقم: 19035، 8 / 4269، برقم: 19039، 8 / 4269، برقم: 19040، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1456، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 3562)
578- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1782، 1782، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3718، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7821، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2431، 2432، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3256، برقم: 15644)
579- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3377، 4942، 5204، 6042، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2855، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4190، 5794، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9121، 11611، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3343، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2266، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1983، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14898، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3534، برقم: 16472)
580- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5376، 5377، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2022، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5211، 5212، 5215، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6722، 6723، 6726، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3777، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1857، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2062، 2089، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3265، 3267، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14727، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3554، برقم: 16588)
581- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 354، 355، 356، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 517، ومالك فى «الموطأ» برقم: 464، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 761، 770، 771، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2291، 2292، 2293، 2302، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 763، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 842، وأبو داود فى «سننه» برقم: 628، والترمذي فى «جامعه» برقم: 339، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1049، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3333، 3334، 3335، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3554، برقم: 16587)
582- (إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 6696، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1611، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18853، وأحمد فى «مسنده» 6 / 3255، برقم: 15642)
583- (إسناده صحيح وأخرجه الطبراني فى "الكبير" برقم: 3331، 3332)
584- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5956 والحاكم فى «مستدركه» برقم: 97، 98، 8497 وأحمد فى «مسنده» (6 / 3423) برقم: 16162، 16163، 16164)
585- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6019، 6135، 6476، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 48، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3434، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5287، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7389، 7391، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11779، 11780، 11781، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2078، 2079، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3672، 3675، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9270، 18756، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3565، برقم: 16632)
586- (إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6019، 6135، 6476 ومسلم فى «صحيحه» برقم: 48 ومالك فى «الموطأ» برقم: 3434 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5287 والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7389، 7391 والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 11779، 11780، 11781 والترمذي فى «جامعه» برقم: 1967، 1968 والدارمي فى «مسنده» برقم: 2078، 2079 وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3672، 3675 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9270، 18756 وأحمد فى «مسنده» (7 / 3565) برقم: 16632)
587- ( إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2818، 2819، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1705، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3014، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3996، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1919، والترمذي فى «جامعه» برقم: 883، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3011، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9558، 9559، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3834، برقم: 17506)
588- (إسناده ضعيف وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 815، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2363، 2364، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 939، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 757، 2959، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 836، 3939، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2016، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2958، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3535، 3536، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6619، برقم: 27884)
589- (إسناده ضعيف وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 815، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2363، 2364، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 939، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 757، 2959، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 836، 3939، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2016، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2958، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3535، 3536، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6619، برقم: 27884، وأبو يعلى في «مسنده » برقم: 6875 ) 590- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 88، 2052، 2640، 2659، 2660، 5104، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4216، 4217، 4218، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5885، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3330، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5460، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3603، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1151، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2301، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15771، 15772، 15773، 15774)
591- ( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 83، 124، 1736، 1737، 1738، 6665، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1306، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2949، 2951، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3877، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2014، والترمذي فى «جامعه» برقم: 916، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1948، 1949، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3051، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9713، 9714، 9722، 9723، 9724، 9725،وأحمد فى «مسنده» 3 / 1364، برقم: 6595)
592- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 100، 7307، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4571، 6719، 6723، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5876، 5877، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2652، والدارمي فى «مسنده» برقم: 245، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 52، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20411، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1370، برقم: 6622)
593- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5593، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2000، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5661، 5666، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5140، 6812، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3700، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17562، 17563، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4673، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6608)
594- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 843، 2012، 2018، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2012، 2013، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1347، 1354، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1272، 1280، 10580، 10586، 10587، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1502، 5065، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3410، 3411، 3486، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 926، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3077، 3419، 3420، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1366، برقم: 6609)
595-(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3004، 5972، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2549، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 318، 419، 420، 421، 423، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7343، 7348، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3103، 4174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4296، 7738، 8643، 8644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2528، 2529، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2782 والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17900، 17901، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1365، برقم: 6601)
596- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3004، 5972، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2549، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 318، 419، 420، 421، 423، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3103، 4174، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4296، 7738،8643، 8644، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2528، 2529، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2782، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17900، 17901، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1365، برقم: 6601)
597- (إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 209، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4943، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1920، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1416، برقم: 6848)
598- (إسناده جيد وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 7669، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4360، 4457، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4519، 4841، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2021، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18201، 19197، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1377، برقم: 6661)
599- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1827، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4484، 4485، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7098، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5394، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5885، 5886، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20219، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1364، برقم: 6596)
600- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1131، 1153، 1974، 1975، 1976، 1977، 1978، 1979، 1980، 3418، 3419، 3420، 5052، 5053، 5054، 5199، 6134، 6277، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1159، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 11، 352، 756، 757، 758، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4127، 4128، 4730،4808، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1361، برقم: 6588)