696- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد نامی صاحب کے پاس ایک سیرانی (یعنی ریشمی) حلہ فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے استعمال کرنے سے منع کر دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی مانند ایک حلہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوایا تو انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد کے حلے کے بارے میں ، تو فلاں بات ارشاد فرمائی تھی اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہننے کے لیے دے رہے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ میں نے تمہیں اسی لیے نہیں دیا ، کہ تم اسے پہن لو ، میں نے تمہیں یہ اس لیے دیاہے ، تاکہ تم اسے خواتین کو پہنے کے لیے دو !“
697- اسماعیل بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں : ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ چراگاہ کی طرف گئے جب سورج غروب ہوگیا ، تو ہمیں یہ اندیشہ ہوا (کہ کہیں نماز کا وقت نہ گزرجائے ) ہم نے ان سے کہا: آپ سواری سے نیچے اتر ئیے اور نماز ادا کیجئے جب شفق غروب ہوگئی تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے نیچے اترے انہوں نے ہمیں مغرب کی نماز میں تین رکعات پڑھائیں پھر انہوں نے سلام پھیرا پھر انہوں نے عشاء کی نماز کی دورکعات ادا کیں پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بتایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے ۔
سفیان کہتے ہیں : ابن ابونجیح نامی راوی اکثر اوقات جب یہ حدیث بیان کرتے تھے ، تو اس میں یہ الفاظ نقل نہیں کرتے تھے ۔ ”جب شفق غروب ہوگئی“ ۔ بلکہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتے تھے ”جب افق کی سفیدی اور رات کی سیاہی چلی گئی تو وہ اپنی سواری سے اترے انہوں نے نماز ادا کی ۔“
سفیان کہتے ہیں : میں نے ابن ابونجیح سے اس کے بارے میں بات کی ، تو انہوں نے بتایا : اسماعیل نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ”جب شفق غروب ہوگئی“ ۔ میں ان الفاظ کو نقل کرنے کو اس لیے پسند نہیں کرتا ، کیونکہ مجاہد نے ہمیں یہ بات بتائی ہے : شفق سے مراد دن ہوتا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : تو میں بعض اوقات یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتا ہوں اور بعض اوقات ان الفاظ میں نقل کردیتا ہوں ۔
698- ابن ابونجیح اپنے والد کے حوالے سے ایک صاحب کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا ۔ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا ۔ میں نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا ۔ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا تو میں اس دن روزہ نہیں رکھوں گا اور اس کا حکم بھی نہیں دوں گا اور اس سے منع بھی نہیں کروں گا ۔
699- ابوثورین جمحی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے مجھے اس سے منع کردیا ۔
700- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : کوئی شخص کسی دوسرے کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر ہز گزنہ دوہ لے ۔ کیا کوئی شخص یہ بات پسند کرے گا؟اس کے گودام کے دروازے پر کوئی شخص آئے اس کا دروازہ توڑے اس کے اناج کو نکال لے ۔ خبر دار ! یہ ان لوگوں کی خوراک ہے ، جو ان کے جانوروں کے تھنوں میں ہے ۔
701- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کروایاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تربیت یافتہ گھوڑوں صلی اللہ علیہ وسلم کی دوڑ حفیاء سے مسجد بنوزریق تک کروائی تھی اور غیر تر بیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑثیتہ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک کروائی تھی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں بھی دوڑ میں حصہ لینے والوں میں شامل تھا ، تو میرا گھوڑا مجھے لے کر جرف میں داخل ہوگیا اور اس نے مجھے گرادیا ۔
702- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی زمینوں (پر موجود کجھور کے درخت ) کٹوا دیے تھے اور انہیں جلوادیا تھا ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے یہ روایت ان سے سنی نہیں ہے ۔
703- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران سیدنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا وہ یہ کہہ رہے تھے : میرے والد کی قسم ! میرے والد کی قسم ! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”خبردار ! اللہ تعالی نے تمہیں اس بات سے منع کر دیا ہے کہ تم اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسم اٹھاؤ ۔ جس شخص نے قسم اٹھانی ہو ، تو وہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے ۔“
704- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی مہم روانہ کی ان لوگوں کا دشمن سے سامناہوا تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہوگئے جب ہم لوگ مدینہ منورہ آئے تو ہمیں اس حوالے سے الجھن ہوئی ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم لوگ فرارہوکر آئے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” (نہیں ! ) بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں ۔“
705- محمد بن علی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی بات سنتے تھے ، تو اس میں کسی لفظ کا اضافہ یا کمی نہیں کرتے تھے ، نہ تو وہ ہٹ کر کسی دوسری طرف جاتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی کرتے تھے ۔
عبید بن عمر نے ایک حدیث بیان کی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ (حدیث یہ تھی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے : ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے ، جو دو ریوڑوں کے درمیان ہوتی ہے کبھی وہ اس میں سینگ مارتی ہے اور بھی اس میں سینگ مارتی ہے ۔“ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا : حدیث کے الفاظ ”ربیضین“ ہے (یعنی ایسا ر یوڑ جس کے ستھ لس چرواہا بھی ہوتاہے )
حدیث : ان سے کہاگیا : اے ابوعبدالرحمٰن ! مطلب تو ایک ہی ہے ، ”ربیضین“ کے درمیان ہویا ”غنمین“ کے درمیان ہو ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصرار کیا لفظ ”ربیضین“ ہے ، جس طرح انہوں نے سنا ہے ۔
706- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حبل الحبلہ“ کا سو دا کرنے (یعنی اتنی مد ت کا سودا کرنے کے جب اونٹنی اپنے بچے کو جنم دے اور پھر اس کے ہاں جنم دینے والی اونٹنی اپنے بچے کو جنم دے تو اس بچے کا سودا کرنے یا اس وقت یعنی غیر متعین وقت میں کسی دوسرے سودے کی ادائیگی طے کرنے ) سے منع کیا ہے ۔
707- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص قسم اٹھاتے ہوئے ان شاءاللہ کہہ دے تو وہ شخص استثناء کر لیتا ہے ۔“
708- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذمے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر کی تھی ، انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کی کہ وہ اعتکاف کرکے اپنی نذر کو پورا کریں ۔
709- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی عمارت کے قریب اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے چابی منگوائی وہ اپنی والدہ کے پاس گئے ، تو ان کی والدہ نے انہیں چابی دینے سے انکار کر دہا تو وہ بولے : یا تو آپ مجھے چابی دیں گی یا پھر میری پشت سے تلوار باہر آجائے گی ، تو اس خاتون نے انہیں چابی دے دی ۔ انہوں نے دروازہ کھولا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ، اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کے اند ر تشریف لے گئے ۔ ان حضرات نے تھوڑی دیر کے لیے دروازہ بند کر دیا میں اس وقت نوجوان طاقتور شخص تھا ، جب دروازہ کھلا تو میں تیزی سے دروازے کے پاس پہنچا ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ میرے سامنے آئے ، تو میں نے دریافت کیا : اے بلال (رضی اللہ عنہ) ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز ادا کی تھی؟ تو انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے والے دوستونوں کے درمیان نمازادا کی تھی ۔ (عبداللہ بن عمر کہتے ہیں) مجھے ان سے یہ سوال کرنا یاد نہیں رہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعات ادا کی تھیں ۔
710- سماک حنفی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خانہ کعبہ کے اندر نماز ادا کرنے کے با رے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : تم اس میں نماز ادا کرلو ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی ہے ۔ عنقریب کوئی ایسا شخص آئے گا ، جو تمہیں اس سے منع کرے گا ، تو تم اس کی بات نہ ماننا ۔
(راوی کہتے ہیں : ) میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا : وہ بولے : تم ا س کے مکمل حصے کی پیروی کرنا اور تم اس کے کسی بھی حصے کو اپنے پیچھے نہ رکھنا ۔ (یعنی ہر طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا)
711- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجد کی طرف ایک جنگی مہم پر بھیجا تو ہمارے حصے میں بارہ اونٹ آئے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک اونٹ ہمیں مزید عطیے کے طورپر عطاکیا ۔
712- نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو احرام کے دوران سردی لگ گئی تو انہوں نے نافع سے کہا: تم میرے اوپر کوئی چیز ڈال دو ! تو میں نے ان پر ٹوپی ڈالی تو وہ غصے میں آگئے اور بولے : کیا تم نے یہ میرے اوپر ڈالی ہے ، جبکہ میں نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے ۔
713- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار کروا دیا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کے ذریعے اس عورت کو بچانے کی کوشش کررہاتھا ۔
714- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”کسی بھی مسلمان کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ اس کے پاس مال موجود ہو ، جس کے بارے میں وصیت کی جاسکتی ہوا ور پھر اس پر دووراتیں گزر جائیں (اور اس نے وصیت نہ کی ہو) اس کی وصیت اس کے پاس تحریری شکل میں ہونی چاہے ۔“
715- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کافر قراردے تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لو ٹ آتا ہے ۔“
716- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قرآن کو ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین کی طرف سفرنہ کیا جائے کہیں دشمن اس تک نہ پہنچ جائے (اور اس کی بے حرمتی نہ کرے ) “
717- نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ”ضجنان“ کے مقام پرایک بارانی رات میں نماز کے لیے اقامت کہی پھرانہوں نے یہ کہا: تم لوگ اپنی رہائش کی جگہ پر ہی نمازادا کرلو ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارش والی رات میں ، یا انتہائی سردی والی رات میں جس میں تیز ہواچل رہی ہو ، اپنے مؤذن کو یہ حکم دیتے تھے وہ یہ اعلان کرتا تھا : ”خبردار ! اپنی رہائشی جگہ پر ہی نماز ادا کرلو ۔“
718- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”صدقہ فطر جو کا ایک صاع ہوگا یا کھجور کا ایک صاع ہوگا ۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد حکومت میں گندم کے نصف صا ع کو جو کے ایک صاع کے برابر قراردیا ۔
نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے ہر چھوٹے ، بڑے آزاداور غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے ۔
719- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی دہلیز پریہ ارشاد فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کے لیے ہر طرح کی حمد مخصوص ہے ، جس نے اپنے وعدے کو پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی اس نے تنہا دشمن کے لشکروں کو پسیا کردیا ہے ۔ یاد رکھنا قتل عمد خطا کے طور پر قتل ہونے والا شخص وہ ہے ، جس کو لاٹھی یا عصا کے ذریعے قتل کیا جائے اس میں ایک سواونٹوں کی مغلظہ دیت ہوگی ۔ جس میں چالیس خلفہ ہوں گے ، جن کے پیٹ میں اولاد موجود ہوگی ۔ یادرکھنا ! زمانہ جاہلیت کا ہر رواج اور ہر خون (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ہر مال میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے ما سوائے خانہ کعبہ کی خدمت کے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی رسم کے ، کیونکہ میں ان دونوں کو ان کے متعلقہ افراد کے لیے اسی طرح باقی رکھوں گا جیسے یہ پہلے تھیں ۔“
720- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشادفرمائی ہے : ”ا سلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکٰوۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۔“
721- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔
722- عمر وبن دینار بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نواس کے شراکت دار سے ایک ایسا اونٹ خریدا جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری تھی ۔ جب نو اس آئے ، تو انہوں نے اپنے شراکت دار سے کہا: تم نے اسے کس کو فروخت کیا ہے ، تو اس نے ان کے سامنے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا حلیہ بیان کیا ، تو نواس بولے : تمہارا ستیاناس ہو وہ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے ۔
نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور بولے : میرے شراکت دارنے آپ کو ایک ایسا اونٹ فروخت کیا ہے ، جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری ہے ، وہ آپ کو پہچانتا نہیں تھا ۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے : تم اسے لے جاؤ ۔ جب میں اسے لے کر جانے لگا ، تو انہوں نے فرمایا : تم اسے رہنے دو ! ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے راضی ہیں کہ عدویٰ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : عمروبن دینار نے یہ بات بیان کی ہے نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتے تھے اور انہیں ہنسایا کرتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے کہا: میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس ابوقبیس پہاڑ جتنا سونا ہوتا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم اس کے ساتھ کیا کرتے ؟ تو نواس بولے : میں اس پر مرجاتا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہنسنے لگے ۔
723- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر اللہ نے چاہا تو ہم لوگ کل روانہ ہوجائیں گے ۔“ لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فتح کر نے سے پہلے ہی واپس روانہ ہوجائیں گے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر اللہ نے چاہا تو تم لوگ کل جنگ کرنا ۔“
راوی کہتے ہیں : اگلے دن لوگوں نے جنگ کی ، تو انہیں شدید زخموں کا سامنا کرنا پڑا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ نے چاہا تو کل ہم واپسی کے لیے روانہ ہوجائیں گے“ تو لوگوں کی بھی گویا یہی خواہش تھی وہ اس پر ساکن رہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ۔
724- طاؤس بیان کرتے ہیں : میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور بولا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور دباء میں نبیذ تیار کرنے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔
725- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سن سکوں ، لیکن میرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لے آئے ۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ تو انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت (استعمال کرنے ) سے منع کردیا ہے ۔
------------------
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
726- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں میرے پاس سے گزرے میں اس وقت ہنڈیا کے نیچے آگ جلارہا تھا ، اور میری جوئیں میرے سر سے نیچے گررہی تھیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے کعب ! کیا تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے عرض کی : ہاں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنا سر منڈ وا دو اور ایک قربانی کرو یا تین دن روزے رکھو ، یا چھ مسکینوں کو ایک ”فرق“ کھانا کھلاؤ ۔ (یہ بارہ مد کے برابر ہوتا ہے ) “
727- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت اسی کی مانند منقول ہے ، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں : میں ہنڈ یا کے نیچے آگ جلا رہا تھا ، اور اس میں یہ الفاظ ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم ایک بکری ذبح کرو ۔“
728- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی ذات پر درود بھیجنے کا طریقہ تعلیم دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم لوگ یہ پڑھو ۔“
”اے اللہ تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود نازل کر ! جس طرح تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل پر دورد نازل کیا ۔ بے شک تو لائق حمد اور بزرگی کا مالک ہے ۔ اے اللہ ! تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر برکت نازل کر ! جس طرح تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی ۔ بے شک تو لائق حمد اور بزرگی کا مالک ہے ۔“
729- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔
------------------
سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------
730- ابویعفور عبدی بیان کرتے ہیں : میں سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے ان سے ٹڈی دل کھانے کے بارے میں دریافت کیا : انہوں نے بتایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات غزوات میں حصہ لیا ہے ۔ ہم ٹڈی دل کھا لیا کرتے تھے ۔
731- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : ”تم اترواور ہمارے لیے پانی میں ستو گھول دو“ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ابھی دھوپ ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اترو اور ہمارے لیے ستوگھول دو“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی میں ستوگھول دئیے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی سمت اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ”جب تم رات کو اس طرف سے آتے ہوئے دیکھو تو روزہ دار شخص افطاری کرلے ۔“
732- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز اور سفید مٹکے میں پینے سے منع کیا ہے ۔ سفیان کہتے ہیں : تیسری چیز کو میں بھول گیا ہوں ۔
733- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : غزوہ خبیر کے موقع پر ہمیں بستی سے باہر کچھ گدھے ملے ، تو ہم نے انہیں ذبح کر لیا ہنڈیاؤں میں ان کا گوشت پک رہا تھا ۔ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا : ”تم لوگ اپنی ہنڈیاؤں کو ان میں موجود چیز سمیت الٹا دو !“ تو ہم نے انہیں الٹا دیا حالانکہ وہ ابل رہی تھیں ۔ (یعنی کھانا پک کے تیار ہو چکا تھا)
ابواسحاق نامی راوی کہتے ہیں : میری ملاقات سعید بن جبیر سے ہوئی میں نے ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا ، تو وہ بولے : یہ وہ گدھے تھے ، جو گندگی کھایا کرتے تھے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع کردیا ۔
734- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کسی ایسی چیز کی تعلیم دیجئے جسے میں پڑھ لیا کروں ، تو میرے لیے قرآن کی تلاوت کی جگہ کافی ہو جائے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم یہ پڑھو ۔
« سبحان الله والحمدلله ولا اله الاالله والله اكبر » ۔
سفیان کہتے ہیں : مجھے علم نہیں ہے ، تاہم انہوں نے یہ الفاظ بھی کہے ہوں گے
« ولا حول ولاقوة الا بالله »
735- ابراہیم بن مسلم ہدی بیان کرتے ہیں : انہوں نے سیدنا عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنی صاحبزادی کے جنازے میں شریک دیکھا وہ ایک خچر پر سوار تھے ، جسے ہانک کرلے جایا جارہا تھا ، تو انہوں نے خچر کو لے جانے والے سے کہا: میں جنازے سے کہاں ہوں جب انہیں کہا: گیا : آپ ان سے آگے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا : تم اس کو روک دو ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس خاتون کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں پھر وہ تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہے ، تو حاضر ین نے سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا ۔ (یعنی انہیں متوجہ کرنا چاہا ) تو انہوں نے سلام پھر دیا وہ بولے : کیا تم لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ میں چاروں تکبیریں سے زیادہ تکبیریں کہہ دوں گا ، جبکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تکبیریں کہتے ہوئے دیکھا ہے ۔ پھر انہوں نے کچھ خواتین کو مرثیہ پڑھتے ہوئے سنا : تو انہیں اس سے منع کیا اور بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرثیہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے ۔
736- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوۂ احزاب کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے ۔ ”اے اللہ ! اے کتاب کو نازل کرنے والے ! اے جلدی حساب لینے والے ! اے بادلوں کو چلانے والے ! تو (دشمن کے ) لشکروں کو پسپا کردے ۔ اے اللہ ! انہیں پسپا کردے اور انہیں لڑکھڑادے ۔“
737- ابن ابوخالد بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ دریافت کیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں کھوکھلے موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی تھی ؟ جس میں کوئی شوراور کوئی مشقت نہ ہو ، تو انہوں نے جواب دیا : ”جی ہاں ۔“
738- اسماعیل بن ابوخالد بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعمرہ کیا ، تو ہم طواف کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے بچوں سے بچانے کی کوشش کررہے تھے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی تکلیف نہ پہنچا دیں ۔
سفیان کہتے ہیں : میرا خیال ہے یہ عمرہ قضا کا موقع تھا ۔
اسماعیل نامی راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں وہ ضرب دکھائی جوانہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شرکت کے دوران لگی تھی ۔
739- طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی انہوں نے جواب دیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں تھی جس کے بارے میں آپ وصیت کرتے ۔ میں نے دریافت کیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے بارے میں وصیت کرنے کے بارے میں کیوں حکم دیا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وصیت نہیں کی ، تو انہوں نے فرمایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق وصیت کی تھی ۔
طلحہ نامی راوی کہتے ہیں : ہزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں : کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایسے شخص سے آگے نکل سکتے تھے ، جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہو؟ حالانکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کے خواہشمند ہوتے تھے کہ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کا پتہ چلے اور وہ اسے مکمل طور پر تسلیم کر لیں ۔
تخریج:
696- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 886، 948، 2104، 2612، 2619، 3054، 5841، 5981، 6081، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2068، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5113، 5439، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1381، 1559 ، 5310، 5314، 5315 ، 5322، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1076، 4040، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3591، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4267، 4268، 6032، وأحمد فى «مسنده» 1 / 115، برقم: 351، 3 / 1071، برقم: 4804، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 239، 5515، 5814)
697- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1091، 1106، 1109، 1805، 3000، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1455، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 587، 590، 591، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1207، 1212، 1217، والترمذي فى «جامعه» برقم: 555، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1558، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5595، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4558)
698- (إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3604، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2836، 2838، 2839، 2840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 751، والدارمي برقم: 1803، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1129، برقم: 5175، 3 / 1136، برقم: 5212، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5595)
699- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)
700- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2435، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1726، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3560 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5171، 5282، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2623، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2302، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11614، 19705، 19706، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4557)
701- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 420، 2868، 2869، 2870، 7336، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1870، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4686، 4687، 4688، 4692، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3585، 3586، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2575، 2576، 2577، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1699، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2473، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2877، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19812، 19823، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1033، برقم: 4573، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5839)
702- (إسناده ضعيف لانقطاعه انظر ما قاله سفيان فى نهاية هذا الحديث. غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه البخاري فى «الحرث والزراعة» 2326 بوفروعه - ومسلم فى «الجهاد » 1746 ، بوقد استوفينا تخرجه فى «مسند» الموصلي برقم : 5837، و أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2615، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1552، 3302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2503، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2844، 2845، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18185، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1041، برقم: 4620، 3 / 1139، برقم: 5231)
703- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2679، 3836، 6108، 6646، 6647، 6648، 7401، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1646، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4359، 4360، 4361، 4362، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3773، 3774، 3775، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3249، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1533، 1534، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2386، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2094، 2101، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19880، 19881، وأحمد فى «مسنده» 1 / 45، برقم: 113، 1 / 87، برقم: 247)
704- (إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2647، 5223، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1716، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3704، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13716، 18158، 18159، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1077، برقم: 4841، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5596، 10 / 158، برقم: 5781)
705- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2784، 2784، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 264، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6435، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5052، والدارمي فى «مسنده» برقم: 327، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1096، برقم: 4966، 3 / 1129، برقم: 5174)
706- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2143، 2256، 3843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1514، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2410، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4637، 4638، 4639، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3380، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1229، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2197، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10971، 10972، 10973، 10974، وأحمد فى «مسنده» 1 / 134، برقم: 401، 2 / 644، برقم: 2689)
707- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1734، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4339، 4340، 4342، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7927، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3802 ، 3837، 3838، 3839، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4716، 4751، 4752، 4753، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3261، 3262، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1531، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2387، 2388، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2105، 2106، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15221، 15222، 19973، 19974، 19975، 19976 19977، 19978، 19982، 19983، 19984، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4329، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1038، برقم: 4598، 3 / 1048، برقم: 4671)
708- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2032، 2042، 2043، 3144، 4320، 6697، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1656، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4379، 4380، 4381، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1610، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3829، 3830، 3831 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2474، 3325، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1539، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2378، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1772، 2129، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8669، 8670، 8678)
709- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 397، 468، 504، 505، 506، 1167، 1598، 1599، 2988، 4289، 4400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2220، 3200، 3201، 3202، 3203، 3204، 3206، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5866، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 691، 748، 2905، 2906، 2907، 2908، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2023، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1908، 1909، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3063، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3851، 3852، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4550)
710- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 397، 468، 504، 505، 506، 1167، 1598، 1599، 2988، 4289، 4400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2220،3200، 3201، 3202، 3203، 3204، 3206، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5866، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 691، 748، 2905، 2906،2907، 2908، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2023، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1908، 1909، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3063، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3851، 3852، 3853، 3854، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4550)
711- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3134، 4338، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1749، 1750، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4833، 4834، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2741، 2743، 2744، 2745، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2524، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12917، 12918، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1048، برقم: 4669، 3 / 1146، برقم: 5276)
712- (إسناده صحيح وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9165، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1149، برقم: 5294، 3 / 1326، برقم: 6375، والبزار فى «مسنده» برقم: 5844)
713- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1329، 3635، 4556، 6819، 6841، 7332، 7543، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1699، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4431، 4432، 4434، 4435، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4446، 4449، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1436، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2556، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17030، 17215، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4585، 3 / 1041، برقم: 4617)
714- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2738، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1627، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6024، 6025، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3617، 3618، 3619، 3620، 3621، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2862، والترمذي فى «جامعه» برقم: 974، 2118، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3219، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2699، 2702، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12712، 12713، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1030، برقم: 4555، 3 / 1048، برقم: 4668)
715- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6104، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 60، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3606، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 249، 250، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4687، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2637، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20963، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1067، برقم: 4778، 3 / 1076، برقم: 4836)
716- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2990، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1869، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4715، 4716، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8006، 8738، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2610، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2879، 2880، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18306، 18307، 18308، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1037، برقم: 4595، 3 / 1040، برقم: 4613)
717- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 632، 666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 697، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2076، 2077، 2078، 2080، 2084، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 653، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1060، 1061، 1062، 1063، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1311، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 937، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1897، 1898، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4564)
718- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1503، 1504، 1507، 1509، 1511، 1512، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 984، 986، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3299، 3300، 3301، 3302، 3303، 3304، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2599، 2500، 2501، 2502، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1610، 1611، 1614، 1615، والترمذي فى «جامعه» برقم: 675، 676، 677، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1702، 1703، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1825، 1826، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7764، 7769، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1033، برقم: 4572، 3 / 1145، برقم: 5270)
719- (إسناده ضعيف فيه على بن زيد بن جدعان غير أن الحديث صحيح من حديث عبدالله بن عمرو بن االعاص أخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4813 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6975، وأبو داود فى «سننه» 4 / 310 (بدون ترقيم) ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2628، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16096، 16221، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4673، 5021، 5909، وأبو يعلى فى «مسنده» 10 / 42، برقم: 5675)
720- (إسناده ضعيف فيه تدليس حبيب بن أبى ثابت ولكن الحديث متفق عليه فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 8، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 16، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 158، 1446، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5016 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2609، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1705، 7321، 7322، 7986، 7987، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1084، برقم: 4890، 3 / 1223، برقم: 5776)
721- (وانظر الحديث السابق)
722- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570، 3571، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 (م 1) ، 2824 (م 2) ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1043، برقم: 4633، 3 / 1080، برقم: 4867، 3 / 1104، برقم: 5022)
723- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» ، برقم: 7480، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17988، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1050، برقم: 4678، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5773، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38107، والطبراني فى "الكبير" برقم: 13684)
724- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» ، برقم: 1997، 1998، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5403، 5411، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5630، 5631، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3690، 3691، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1867، 1868، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2155، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17549، 17550، 17551، 17559، 17560، وأحمد فى «مسنده» 2 / 772، برقم: 3319، 2 / 779، برقم: 3363)
725- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» ، برقم: 1997، 1998، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5403، 5411، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5630، 5631، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3690، 3691، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1867، 1868، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2155، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17549، 17550، 17551، 17559، 17560، وأحمد فى «مسنده» 2 / 772، برقم: 3319، 2 / 779، برقم: 3363)
726- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1814، 1815، 1816، 1817، 1818، 4159، 4190، 4191، 4517، 5665، 5703، 6708، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1201، ، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1575، 1576، 1577 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3978، 3979، 3980، 3981، 3982، 3983، 3984، 3985، 3986، 3987، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2851، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1856، 1857، 1858، 1860، والترمذي فى «جامعه» برقم: 953، 2973، 2974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3079، 3080، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7811، 8795، 9182، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4109، برقم: 18388، 8 / 4111، برقم: 18393)
727- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1814، 1815، 1816، 1817، 1818، 4159، 4190، 4191، 4517، 5665، 5703، 6708، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1201، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3978، 3979، 3980، 3981، 3982، 3983، 3984، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2851 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1856، 1857، 1858، 1860، والترمذي فى «جامعه» برقم: 953، 2973، 2974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3079، 3080، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7811، 8795، 9182، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4109، برقم: 18388، 8 / 4111، برقم: 18393)
728- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3370، 4797، 6357، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 912، 1957، 1964، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4735، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1286 ، 1287، 1288، وأبو داود فى «سننه» برقم: 976، والترمذي فى «جامعه» برقم: 483، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1381، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 904، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2895، 2896، 2900، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4110، برقم: 18391، 8 / 4110، برقم: 18392)
729- (إسناده ضعيف لضعف عبدالكريم، وانظر التعليق االسابق)
730- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5495، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1952، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5257، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4367، 4368 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1821، 1822، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2053، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19059، 19060، 19061، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19418، 8 / 4402، برقم: 19457)
731- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1941، 1955، 1956، 1958، 5297، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1101، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3511، 3512، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3297، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2352، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8102، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4459، برقم: 19705، 8 / 4460، برقم: 19709، 8 / 4464، برقم: 19723)
732- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5596، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5402، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5637 ، 5638 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5111، 5112، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17557، 17558، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4392، برقم: 19409، 8 / 4393، برقم: 19412، 8 / 4400، برقم: 19449)
733- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3155، 4220، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1937، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4350 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4832، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3192، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19514، 19520، 19521، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4395، برقم: 19427، 8 / 4397، برقم: 19434)
734- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1808، 1809، 1810، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 887، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 923 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 998، وأبو داود فى «سننه» برقم: 832، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4046، 4047، 4048، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1195، برقم: 1196، 1197، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19416، 8 / 4399، برقم: 19445، 8 / 4463، برقم: 19719)
735- (إسناده ضعيف وأخرجه الضياء المقدسي فى «الأحاديث المختارة» برقم: 176، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1334، 1416، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1503، 1592، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7038، 7039، 7081، 7088، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4399، برقم: 19447، 8 / 4465، برقم: 19727)
736- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1600، 1791 (م1) ، 2933، 3819، 4115، 4188، 4255، 4314، 6392، 7489، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1742، 2433، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2775، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3843، 3844، 7004، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6494، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4205، 10363، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1902، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1678، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1963، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2796، 2990، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9486، 9487، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19413، 8 / 4393، برقم: 19414)
737- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 1792، و أخرجه مسلم 2433، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 7004)
738- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 1600، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3843 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4220، والدارمي برقم: 1963، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19413)
739- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2740، 4460، 5022، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3622، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6414، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2119، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3224، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2696، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12676، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4396، برقم: 19430، 8 / 4398، برقم: 19443، 8 / 4462، برقم: 19718)