• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

شمولیت
جون 07، 2015
پیغامات
206
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
86
جزاک اللہ خیرا۔اللہ تعالیٰ شرفِ قبولیت عطا فرمائے اور مزید علمی خدمات سر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
696- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد نامی صاحب کے پاس ایک سیرانی (یعنی ریشمی) حلہ فروخت ہوتے ہوئے دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اسے استعمال کرنے سے منع کر دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کی مانند ایک حلہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو بھجوایا تو انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عطارد کے حلے کے بارے میں ، تو فلاں بات ارشاد فرمائی تھی اور اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ مجھے پہننے کے لیے دے رہے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”یہ میں نے تمہیں اسی لیے نہیں دیا ، کہ تم اسے پہن لو ، میں نے تمہیں یہ اس لیے دیاہے ، تاکہ تم اسے خواتین کو پہنے کے لیے دو !“

697- اسماعیل بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں : ہم لوگ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ چراگاہ کی طرف گئے جب سورج غروب ہوگیا ، تو ہمیں یہ اندیشہ ہوا (کہ کہیں نماز کا وقت نہ گزرجائے ) ہم نے ان سے کہا: آپ سواری سے نیچے اتر ئیے اور نماز ادا کیجئے جب شفق غروب ہوگئی تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سواری سے نیچے اترے انہوں نے ہمیں مغرب کی نماز میں تین رکعات پڑھائیں پھر انہوں نے سلام پھیرا پھر انہوں نے عشاء کی نماز کی دورکعات ادا کیں پھر وہ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور بتایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھاہے ۔
سفیان کہتے ہیں : ابن ابونجیح نامی راوی اکثر اوقات جب یہ حدیث بیان کرتے تھے ، تو اس میں یہ الفاظ نقل نہیں کرتے تھے ۔ ”جب شفق غروب ہوگئی“ ۔ بلکہ وہ یہ الفاظ استعمال کرتے تھے ”جب افق کی سفیدی اور رات کی سیاہی چلی گئی تو وہ اپنی سواری سے اترے انہوں نے نماز ادا کی ۔“
سفیان کہتے ہیں : میں نے ابن ابونجیح سے اس کے بارے میں بات کی ، تو انہوں نے بتایا : اسماعیل نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں ”جب شفق غروب ہوگئی“ ۔ میں ان الفاظ کو نقل کرنے کو اس لیے پسند نہیں کرتا ، کیونکہ مجاہد نے ہمیں یہ بات بتائی ہے : شفق سے مراد دن ہوتا ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : تو میں بعض اوقات یہ روایت ان الفاظ میں نقل کرتا ہوں اور بعض اوقات ان الفاظ میں نقل کردیتا ہوں ۔

698- ابن ابونجیح اپنے والد کے حوالے سے ایک صاحب کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : ایک شخص نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ نہیں رکھا تھا ۔ میں نے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا ۔ میں نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا ۔ میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا ، تو انہوں نے بھی اس دن روزہ نہیں رکھا تو میں اس دن روزہ نہیں رکھوں گا اور اس کا حکم بھی نہیں دوں گا اور اس سے منع بھی نہیں کروں گا ۔

699- ابوثورین جمحی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے مجھے اس سے منع کردیا ۔

700- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : کوئی شخص کسی دوسرے کے جانور کا دودھ اس کی اجازت کے بغیر ہز گزنہ دوہ لے ۔ کیا کوئی شخص یہ بات پسند کرے گا؟اس کے گودام کے دروازے پر کوئی شخص آئے اس کا دروازہ توڑے اس کے اناج کو نکال لے ۔ خبر دار ! یہ ان لوگوں کی خوراک ہے ، جو ان کے جانوروں کے تھنوں میں ہے ۔

701- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے درمیان دوڑ کا مقابلہ کروایاتھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے تربیت یافتہ گھوڑوں صلی اللہ علیہ وسلم کی دوڑ حفیاء سے مسجد بنوزریق تک کروائی تھی اور غیر تر بیت یافتہ گھوڑوں کی دوڑثیتہ الوداع سے لے کر مسجد بنوزریق تک کروائی تھی ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں بھی دوڑ میں حصہ لینے والوں میں شامل تھا ، تو میرا گھوڑا مجھے لے کر جرف میں داخل ہوگیا اور اس نے مجھے گرادیا ۔

702- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کی زمینوں (پر موجود کجھور کے درخت ) کٹوا دیے تھے اور انہیں جلوادیا تھا ۔
سفیان کہتے ہیں : میں نے یہ روایت ان سے سنی نہیں ہے ۔

703- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کے دوران سیدنا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو پایا وہ یہ کہہ رہے تھے : میرے والد کی قسم ! میرے والد کی قسم ! تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”خبردار ! اللہ تعالی نے تمہیں اس بات سے منع کر دیا ہے کہ تم اپنے آباؤ اجداد کے نام کی قسم اٹھاؤ ۔ جس شخص نے قسم اٹھانی ہو ، تو وہ اللہ کے نام کی قسم اٹھائے یا پھر خاموش رہے ۔“

704- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگی مہم روانہ کی ان لوگوں کا دشمن سے سامناہوا تو وہ لوگ وہاں سے فرار ہوگئے جب ہم لوگ مدینہ منورہ آئے تو ہمیں اس حوالے سے الجھن ہوئی ہم نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ہم لوگ فرارہوکر آئے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” (نہیں ! ) بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو اور میں تمہارے ساتھ ہوں ۔“

705- محمد بن علی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب کوئی بات سنتے تھے ، تو اس میں کسی لفظ کا اضافہ یا کمی نہیں کرتے تھے ، نہ تو وہ ہٹ کر کسی دوسری طرف جاتے تھے اور نہ ہی اس میں کوئی کمی کرتے تھے ۔
عبید بن عمر نے ایک حدیث بیان کی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہاں بیٹھے ہوئے تھے ۔ (حدیث یہ تھی)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ہے : ”منافق کی مثال اس بکری کی طرح ہے ، جو دو ریوڑوں کے درمیان ہوتی ہے کبھی وہ اس میں سینگ مارتی ہے اور بھی اس میں سینگ مارتی ہے ۔“ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بتایا : حدیث کے الفاظ ”ربیضین“ ہے (یعنی ایسا ر یوڑ جس کے ستھ لس چرواہا بھی ہوتاہے )
حدیث : ان سے کہاگیا : اے ابوعبدالرحمٰن ! مطلب تو ایک ہی ہے ، ”ربیضین“ کے درمیان ہویا ”غنمین“ کے درمیان ہو ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اصرار کیا لفظ ”ربیضین“ ہے ، جس طرح انہوں نے سنا ہے ۔

706- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”حبل الحبلہ“ کا سو دا کرنے (یعنی اتنی مد ت کا سودا کرنے کے جب اونٹنی اپنے بچے کو جنم دے اور پھر اس کے ہاں جنم دینے والی اونٹنی اپنے بچے کو جنم دے تو اس بچے کا سودا کرنے یا اس وقت یعنی غیر متعین وقت میں کسی دوسرے سودے کی ادائیگی طے کرنے ) سے منع کیا ہے ۔

707- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جو شخص قسم اٹھاتے ہوئے ان شاءاللہ کہہ دے تو وہ شخص استثناء کر لیتا ہے ۔“

708- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ذمے زمانہ جاہلیت میں مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کرنے کی نذر کی تھی ، انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یہ ہدایت کی کہ وہ اعتکاف کرکے اپنی نذر کو پورا کریں ۔

709- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی عمارت کے قریب اپنی اونٹنی کو بٹھایا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ سے چابی منگوائی وہ اپنی والدہ کے پاس گئے ، تو ان کی والدہ نے انہیں چابی دینے سے انکار کر دہا تو وہ بولے : یا تو آپ مجھے چابی دیں گی یا پھر میری پشت سے تلوار باہر آجائے گی ، تو اس خاتون نے انہیں چابی دے دی ۔ انہوں نے دروازہ کھولا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ ، اور سیدنا عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ خانہ کعبہ کے اند ر تشریف لے گئے ۔ ان حضرات نے تھوڑی دیر کے لیے دروازہ بند کر دیا میں اس وقت نوجوان طاقتور شخص تھا ، جب دروازہ کھلا تو میں تیزی سے دروازے کے پاس پہنچا ، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ میرے سامنے آئے ، تو میں نے دریافت کیا : اے بلال (رضی اللہ عنہ) ! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہاں نماز ادا کی تھی؟ تو انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سامنے والے دوستونوں کے درمیان نمازادا کی تھی ۔ (عبداللہ بن عمر کہتے ہیں) مجھے ان سے یہ سوال کرنا یاد نہیں رہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی رکعات ادا کی تھیں ۔

710- سماک حنفی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے خانہ کعبہ کے اندر نماز ادا کرنے کے با رے میں دریافت کیا ، تو انہوں نے فرمایا : تم اس میں نماز ادا کرلو ، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں نماز ادا کی ہے ۔ عنقریب کوئی ایسا شخص آئے گا ، جو تمہیں اس سے منع کرے گا ، تو تم اس کی بات نہ ماننا ۔
(راوی کہتے ہیں : ) میں سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے یہ مسئلہ دریافت کیا : وہ بولے : تم ا س کے مکمل حصے کی پیروی کرنا اور تم اس کے کسی بھی حصے کو اپنے پیچھے نہ رکھنا ۔ (یعنی ہر طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا)

711- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نجد کی طرف ایک جنگی مہم پر بھیجا تو ہمارے حصے میں بارہ اونٹ آئے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک اونٹ ہمیں مزید عطیے کے طورپر عطاکیا ۔

712- نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو احرام کے دوران سردی لگ گئی تو انہوں نے نافع سے کہا: تم میرے اوپر کوئی چیز ڈال دو ! تو میں نے ان پر ٹوپی ڈالی تو وہ غصے میں آگئے اور بولے : کیا تم نے یہ میرے اوپر ڈالی ہے ، جبکہ میں نے تمہیں یہ بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے ۔

713- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی مرد اور ایک یہودی عورت کو سنگسار کروا دیا تھا ۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے اس شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے ہاتھ کے ذریعے اس عورت کو بچانے کی کوشش کررہاتھا ۔

714- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”کسی بھی مسلمان کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ اس کے پاس مال موجود ہو ، جس کے بارے میں وصیت کی جاسکتی ہوا ور پھر اس پر دووراتیں گزر جائیں (اور اس نے وصیت نہ کی ہو) اس کی وصیت اس کے پاس تحریری شکل میں ہونی چاہے ۔“

715- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص اپنے کسی بھائی کو کافر قراردے تو وہ (کفر) ان دونوں میں سے کسی ایک کی طرف لو ٹ آتا ہے ۔“

716- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قرآن کو ساتھ لے کر دشمن کی سرزمین کی طرف سفرنہ کیا جائے کہیں دشمن اس تک نہ پہنچ جائے (اور اس کی بے حرمتی نہ کرے ) “

717- نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ”ضجنان“ کے مقام پرایک بارانی رات میں نماز کے لیے اقامت کہی پھرانہوں نے یہ کہا: تم لوگ اپنی رہائش کی جگہ پر ہی نمازادا کرلو ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بارش والی رات میں ، یا انتہائی سردی والی رات میں جس میں تیز ہواچل رہی ہو ، اپنے مؤذن کو یہ حکم دیتے تھے وہ یہ اعلان کرتا تھا : ”خبردار ! اپنی رہائشی جگہ پر ہی نماز ادا کرلو ۔“

718- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”صدقہ فطر جو کا ایک صاع ہوگا یا کھجور کا ایک صاع ہوگا ۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد حکومت میں گندم کے نصف صا ع کو جو کے ایک صاع کے برابر قراردیا ۔
نافع بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنے گھر کے ہر چھوٹے ، بڑے آزاداور غلام کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرتے تھے ۔

719- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : فتح مکہ کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہ کعبہ کی دہلیز پریہ ارشاد فرمایا : ”اللہ تعالیٰ کے لیے ہر طرح کی حمد مخصوص ہے ، جس نے اپنے وعدے کو پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی اس نے تنہا دشمن کے لشکروں کو پسیا کردیا ہے ۔ یاد رکھنا قتل عمد خطا کے طور پر قتل ہونے والا شخص وہ ہے ، جس کو لاٹھی یا عصا کے ذریعے قتل کیا جائے اس میں ایک سواونٹوں کی مغلظہ دیت ہوگی ۔ جس میں چالیس خلفہ ہوں گے ، جن کے پیٹ میں اولاد موجود ہوگی ۔ یادرکھنا ! زمانہ جاہلیت کا ہر رواج اور ہر خون (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) ہر مال میرے ان دو قدموں کے نیچے ہے ما سوائے خانہ کعبہ کی خدمت کے اور حاجیوں کو پانی پلانے کی رسم کے ، کیونکہ میں ان دونوں کو ان کے متعلقہ افراد کے لیے اسی طرح باقی رکھوں گا جیسے یہ پہلے تھیں ۔“

720- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشادفرمائی ہے : ”ا سلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے ، سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ، نماز قائم کرنا ، زکٰوۃ دینا ، رمضان کے روزے رکھنا اور بیت اللہ کا حج کرنا ۔“

721- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔

722- عمر وبن دینار بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نواس کے شراکت دار سے ایک ایسا اونٹ خریدا جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری تھی ۔ جب نو اس آئے ، تو انہوں نے اپنے شراکت دار سے کہا: تم نے اسے کس کو فروخت کیا ہے ، تو اس نے ان کے سامنے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا حلیہ بیان کیا ، تو نواس بولے : تمہارا ستیاناس ہو وہ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تھے ۔
نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آئے اور بولے : میرے شراکت دارنے آپ کو ایک ایسا اونٹ فروخت کیا ہے ، جسے شدید پیاس لگنے کی بیماری ہے ، وہ آپ کو پہچانتا نہیں تھا ۔ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بولے : تم اسے لے جاؤ ۔ جب میں اسے لے کر جانے لگا ، تو انہوں نے فرمایا : تم اسے رہنے دو ! ہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سے راضی ہیں کہ عدویٰ کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
سفیان کہتے ہیں : عمروبن دینار نے یہ بات بیان کی ہے نواس سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں بیٹھا کرتے تھے اور انہیں ہنسایا کرتے تھے ۔ ایک دن انہوں نے کہا: میری یہ خواہش ہے کہ میرے پاس ابوقبیس پہاڑ جتنا سونا ہوتا ، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا : تم اس کے ساتھ کیا کرتے ؟ تو نواس بولے : میں اس پر مرجاتا تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہنسنے لگے ۔

723- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل طائف کا محاصرہ کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر اللہ نے چاہا تو ہم لوگ کل روانہ ہوجائیں گے ۔“ لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے فتح کر نے سے پہلے ہی واپس روانہ ہوجائیں گے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اگر اللہ نے چاہا تو تم لوگ کل جنگ کرنا ۔“
راوی کہتے ہیں : اگلے دن لوگوں نے جنگ کی ، تو انہیں شدید زخموں کا سامنا کرنا پڑا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اللہ نے چاہا تو کل ہم واپسی کے لیے روانہ ہوجائیں گے“ تو لوگوں کی بھی گویا یہی خواہش تھی وہ اس پر ساکن رہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے ۔

724- طاؤس بیان کرتے ہیں : میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا ایک شخص آیا اور بولا: کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مٹکے اور دباء میں نبیذ تیار کرنے سے منع کیا ہے ؟ انہوں نے جواب دیا : جی ہاں ۔

725- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کو سن سکوں ، لیکن میرے آپ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچنے سے پہلے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے تشریف لے آئے ۔ میں نے لوگوں سے دریافت کیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے ؟ تو انہوں نے بتایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دباء اور مزفت (استعمال کرنے ) سے منع کردیا ہے ۔


------------------
سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

------------------

726- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں میرے پاس سے گزرے میں اس وقت ہنڈیا کے نیچے آگ جلارہا تھا ، اور میری جوئیں میرے سر سے نیچے گررہی تھیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”اے کعب ! کیا تمہاری جوئیں تمہیں تکلیف دے رہی ہیں؟“ میں نے عرض کی : ہاں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنا سر منڈ وا دو اور ایک قربانی کرو یا تین دن روزے رکھو ، یا چھ مسکینوں کو ایک ”فرق“ کھانا کھلاؤ ۔ (یہ بارہ مد کے برابر ہوتا ہے ) “

727- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہی روایت اسی کی مانند منقول ہے ، تا ہم اس میں یہ الفاظ ہیں : میں ہنڈ یا کے نیچے آگ جلا رہا تھا ، اور اس میں یہ الفاظ ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم ایک بکری ذبح کرو ۔“

728- سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنی ذات پر درود بھیجنے کا طریقہ تعلیم دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم لوگ یہ پڑھو ۔“
”اے اللہ تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر درود نازل کر ! جس طرح تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل پر دورد نازل کیا ۔ بے شک تو لائق حمد اور بزرگی کا مالک ہے ۔ اے اللہ ! تو سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر برکت نازل کر ! جس طرح تو نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آل پر برکت نازل کی ۔ بے شک تو لائق حمد اور بزرگی کا مالک ہے ۔“

729- یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔


------------------
سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات

------------------

730- ابویعفور عبدی بیان کرتے ہیں : میں سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے ان سے ٹڈی دل کھانے کے بارے میں دریافت کیا : انہوں نے بتایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چھ (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) سات غزوات میں حصہ لیا ہے ۔ ہم ٹڈی دل کھا لیا کرتے تھے ۔

731- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر کر رہا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے فرمایا : ”تم اترواور ہمارے لیے پانی میں ستو گھول دو“ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! ابھی دھوپ ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اترو اور ہمارے لیے ستوگھول دو“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیچے اترے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی میں ستوگھول دئیے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پی لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرق کی سمت اپنے دست مبارک کے ذریعے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : ”جب تم رات کو اس طرف سے آتے ہوئے دیکھو تو روزہ دار شخص افطاری کرلے ۔“

732- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سبز اور سفید مٹکے میں پینے سے منع کیا ہے ۔ سفیان کہتے ہیں : تیسری چیز کو میں بھول گیا ہوں ۔

733- ابواسحاق شیبانی بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : غزوہ خبیر کے موقع پر ہمیں بستی سے باہر کچھ گدھے ملے ، تو ہم نے انہیں ذبح کر لیا ہنڈیاؤں میں ان کا گوشت پک رہا تھا ۔ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کیا : ”تم لوگ اپنی ہنڈیاؤں کو ان میں موجود چیز سمیت الٹا دو !“ تو ہم نے انہیں الٹا دیا حالانکہ وہ ابل رہی تھیں ۔ (یعنی کھانا پک کے تیار ہو چکا تھا)
ابواسحاق نامی راوی کہتے ہیں : میری ملاقات سعید بن جبیر سے ہوئی میں نے ان کے سامنے اس بات کا تذکرہ کیا ، تو وہ بولے : یہ وہ گدھے تھے ، جو گندگی کھایا کرتے تھے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے منع کردیا ۔

734- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک صاحب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے کسی ایسی چیز کی تعلیم دیجئے جسے میں پڑھ لیا کروں ، تو میرے لیے قرآن کی تلاوت کی جگہ کافی ہو جائے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تم یہ پڑھو ۔ « سبحان الله والحمدلله ولا اله الاالله والله اكبر » ۔
سفیان کہتے ہیں : مجھے علم نہیں ہے ، تاہم انہوں نے یہ الفاظ بھی کہے ہوں گے « ولا حول ولاقوة الا بالله »

735- ابراہیم بن مسلم ہدی بیان کرتے ہیں : انہوں نے سیدنا عبداللہ بن اوفیٰ رضی اللہ عنہ کو اپنی صاحبزادی کے جنازے میں شریک دیکھا وہ ایک خچر پر سوار تھے ، جسے ہانک کرلے جایا جارہا تھا ، تو انہوں نے خچر کو لے جانے والے سے کہا: میں جنازے سے کہاں ہوں جب انہیں کہا: گیا : آپ ان سے آگے ہیں ۔ تو انہوں نے فرمایا : تم اس کو روک دو ۔ راوی کہتے ہیں : میں نے انہیں دیکھا کہ انہوں نے اس خاتون کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہیں پھر وہ تھوڑی دیر کے لیے کھڑے رہے ، تو حاضر ین نے سبحان اللہ کہنا شروع کر دیا ۔ (یعنی انہیں متوجہ کرنا چاہا ) تو انہوں نے سلام پھر دیا وہ بولے : کیا تم لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ میں چاروں تکبیریں سے زیادہ تکبیریں کہہ دوں گا ، جبکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چار تکبیریں کہتے ہوئے دیکھا ہے ۔ پھر انہوں نے کچھ خواتین کو مرثیہ پڑھتے ہوئے سنا : تو انہیں اس سے منع کیا اور بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مرثیہ پڑھنے سے منع کرتے ہوئے سنا ہے ۔

736- سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : غزوۂ احزاب کے دن میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھ رہے تھے ۔ ”اے اللہ ! اے کتاب کو نازل کرنے والے ! اے جلدی حساب لینے والے ! اے بادلوں کو چلانے والے ! تو (دشمن کے ) لشکروں کو پسپا کردے ۔ اے اللہ ! انہیں پسپا کردے اور انہیں لڑکھڑادے ۔“

737- ابن ابوخالد بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے کہ دریافت کیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کو جنت میں کھوکھلے موتی سے بنے ہوئے گھر کی بشارت دی تھی ؟ جس میں کوئی شوراور کوئی مشقت نہ ہو ، تو انہوں نے جواب دیا : ”جی ہاں ۔“

738- اسماعیل بن ابوخالد بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا : ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وعمرہ کیا ، تو ہم طواف کے دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اہل مکہ کے بچوں سے بچانے کی کوشش کررہے تھے کہ کہیں وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوکوئی تکلیف نہ پہنچا دیں ۔
سفیان کہتے ہیں : میرا خیال ہے یہ عمرہ قضا کا موقع تھا ۔
اسماعیل نامی راوی بیان کرتے ہیں : سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ نے ہمیں وہ ضرب دکھائی جوانہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ حنین میں شرکت کے دوران لگی تھی ۔

739- طلحہ بن مصرف بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن ابواوفیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی انہوں نے جواب دیا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی کوئی چیز چھوڑی ہی نہیں تھی جس کے بارے میں آپ وصیت کرتے ۔ میں نے دریافت کیا : پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کے بارے میں وصیت کرنے کے بارے میں کیوں حکم دیا؟ جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود وصیت نہیں کی ، تو انہوں نے فرمایا : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق وصیت کی تھی ۔
طلحہ نامی راوی کہتے ہیں : ہزیل بن شرحبیل فرماتے ہیں : کیا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کسی ایسے شخص سے آگے نکل سکتے تھے ، جس کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہو؟ حالانکہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اس بات کے خواہشمند ہوتے تھے کہ انہیں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی حکم کا پتہ چلے اور وہ اسے مکمل طور پر تسلیم کر لیں ۔

تخریج:

696- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 886، 948، 2104، 2612، 2619، 3054، 5841، 5981، 6081، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2068، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5113، 5439، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1381، 1559 ، 5310، 5314، 5315 ، 5322، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1076، 4040، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3591، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4267، 4268، 6032، وأحمد فى «مسنده» 1 / 115، برقم: 351، 3 / 1071، برقم: 4804، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 239، 5515، 5814)

697- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1091، 1106، 1109، 1805، 3000، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 703، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1455، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 587، 590، 591، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1207، 1212، 1217، والترمذي فى «جامعه» برقم: 555، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1558، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5595، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4558)

698- (إسناده ضعيف فيه جهالة ولكن الحديث صحيح أخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3604، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2836، 2838، 2839، 2840، والترمذي فى «جامعه» برقم: 751، والدارمي برقم: 1803، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1129، برقم: 5175، 3 / 1136، برقم: 5212، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5595)

699- (إسناده صحيح وانظر الحديث السابق)

700- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2435، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1726، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3560 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5171، 5282، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2623، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2302، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11614، 19705، 19706، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4557)

701- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 420، 2868، 2869، 2870، 7336، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1870، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4686، 4687، 4688، 4692، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3585، 3586، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2575، 2576، 2577، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1699، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2473، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2877، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19812، 19823، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1033، برقم: 4573، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5839)

702- (إسناده ضعيف لانقطاعه انظر ما قاله سفيان فى نهاية هذا الحديث. غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه البخاري فى «الحرث والزراعة» 2326 بوفروعه - ومسلم فى «الجهاد » 1746 ، بوقد استوفينا تخرجه فى «مسند» الموصلي برقم : 5837، و أخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2615، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1552، 3302، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2503، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2844، 2845، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18185، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1041، برقم: 4620، 3 / 1139، برقم: 5231)

703- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2679، 3836، 6108، 6646، 6647، 6648، 7401، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1646، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4359، 4360، 4361، 4362، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3773، 3774، 3775، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3249، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1533، 1534، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2386، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2094، 2101، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19880، 19881، وأحمد فى «مسنده» 1 / 45، برقم: 113، 1 / 87، برقم: 247)

704- (إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2647، 5223، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1716، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3704، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13716، 18158، 18159، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1077، برقم: 4841، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5596، 10 / 158، برقم: 5781)

705- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2784، 2784، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 264، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6435، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5052، والدارمي فى «مسنده» برقم: 327، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1096، برقم: 4966، 3 / 1129، برقم: 5174)

706- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2143، 2256، 3843، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1514، ومالك فى «الموطأ» برقم: 2410، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4637، 4638، 4639، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3380، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1229، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2197، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10971، 10972، 10973، 10974، وأحمد فى «مسنده» 1 / 134، برقم: 401، 2 / 644، برقم: 2689)

707- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 1734، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4339، 4340، 4342، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 7927، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3802 ، 3837، 3838، 3839، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4716، 4751، 4752، 4753، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3261، 3262، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1531، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2387، 2388، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2105، 2106، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15221، 15222، 19973، 19974، 19975، 19976 19977، 19978، 19982، 19983، 19984، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4329، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1038، برقم: 4598، 3 / 1048، برقم: 4671)

708- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2032، 2042، 2043، 3144، 4320، 6697، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1656، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4379، 4380، 4381، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1610، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3829، 3830، 3831 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2474، 3325، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1539، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2378، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1772، 2129، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8669، 8670، 8678)

709- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 397، 468، 504، 505، 506، 1167، 1598، 1599، 2988، 4289، 4400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2220، 3200، 3201، 3202، 3203، 3204، 3206، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5866، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 691، 748، 2905، 2906، 2907، 2908، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2023، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1908، 1909، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3063، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3851، 3852، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4550)

710- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 397، 468، 504، 505، 506، 1167، 1598، 1599، 2988، 4289، 4400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1329، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2220،3200، 3201، 3202، 3203، 3204، 3206، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5866، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 691، 748، 2905، 2906،2907، 2908، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2023، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1908، 1909، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3063، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3851، 3852، 3853، 3854، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1029، برقم: 4550)

711- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3134، 4338، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1749، 1750، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4833، 4834، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2741، 2743، 2744، 2745، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2524، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12917، 12918، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1048، برقم: 4669، 3 / 1146، برقم: 5276)

712- (إسناده صحيح وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9165، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1149، برقم: 5294، 3 / 1326، برقم: 6375، والبزار فى «مسنده» برقم: 5844)

713- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1329، 3635، 4556، 6819، 6841، 7332، 7543، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1699، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4431، 4432، 4434، 4435، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4446، 4449، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1436، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2367، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2556، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17030، 17215، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1035، برقم: 4585، 3 / 1041، برقم: 4617)

714- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2738، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1627، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6024، 6025، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3617، 3618، 3619، 3620، 3621، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2862، والترمذي فى «جامعه» برقم: 974، 2118، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3219، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2699، 2702، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12712، 12713، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1030، برقم: 4555، 3 / 1048، برقم: 4668)

715- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6104، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 60، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3606، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 249، 250، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4687، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2637، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20963، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1067، برقم: 4778، 3 / 1076، برقم: 4836)

716- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2990، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1869، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4715، 4716، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8006، 8738، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2610، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2879، 2880، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18306، 18307، 18308، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1037، برقم: 4595، 3 / 1040، برقم: 4613)

717- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 632، 666، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 697، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2076، 2077، 2078، 2080، 2084، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 653، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1060، 1061، 1062، 1063، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1311، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 937، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1897، 1898، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1031، برقم: 4564)

718- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1503، 1504، 1507، 1509، 1511، 1512، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 984، 986، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3299، 3300، 3301، 3302، 3303، 3304، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2599، 2500، 2501، 2502، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1610، 1611، 1614، 1615، والترمذي فى «جامعه» برقم: 675، 676، 677، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1702، 1703، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1825، 1826، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7764، 7769، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1033، برقم: 4572، 3 / 1145، برقم: 5270)

719- (إسناده ضعيف فيه على بن زيد بن جدعان غير أن الحديث صحيح من حديث عبدالله بن عمرو بن االعاص أخرجه النسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4813 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6975، وأبو داود فى «سننه» 4 / 310 (بدون ترقيم) ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2628، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16096، 16221، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4673، 5021، 5909، وأبو يعلى فى «مسنده» 10 / 42، برقم: 5675)

720- (إسناده ضعيف فيه تدليس حبيب بن أبى ثابت ولكن الحديث متفق عليه فقد أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 8، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 16، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 158، 1446، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5016 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2609، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1705، 7321، 7322، 7986، 7987، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1084، برقم: 4890، 3 / 1223، برقم: 5776)

721- (وانظر الحديث السابق)

722- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2099، 2858، 5093، 5094، 5753، 5772، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2225، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3566، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3570، 3571، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3922، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2824 (م 1) ، 2824 (م 2) ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 86، 1995، 3540، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10849، 10850، 14346، 16620، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1043، برقم: 4633، 3 / 1080، برقم: 4867، 3 / 1104، برقم: 5022)

723- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» ، برقم: 7480، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17988، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1050، برقم: 4678، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5773، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 38107، والطبراني فى "الكبير" برقم: 13684)

724- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» ، برقم: 1997، 1998، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5403، 5411، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5630، 5631، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3690، 3691، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1867، 1868، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2155، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17549، 17550، 17551، 17559، 17560، وأحمد فى «مسنده» 2 / 772، برقم: 3319، 2 / 779، برقم: 3363)

725- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» ، برقم: 1997، 1998، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5403، 5411، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 3819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5630، 5631، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3690، 3691، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1867، 1868، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2155، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3402، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17549، 17550، 17551، 17559، 17560، وأحمد فى «مسنده» 2 / 772، برقم: 3319، 2 / 779، برقم: 3363)

726- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1814، 1815، 1816، 1817، 1818، 4159، 4190، 4191، 4517، 5665، 5703، 6708، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1201، ، ومالك فى «الموطأ» برقم: 1575، 1576، 1577 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3978، 3979، 3980، 3981، 3982، 3983، 3984، 3985، 3986، 3987، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2851، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1856، 1857، 1858، 1860، والترمذي فى «جامعه» برقم: 953، 2973، 2974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3079، 3080، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7811، 8795، 9182، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4109، برقم: 18388، 8 / 4111، برقم: 18393)

727- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1814، 1815، 1816، 1817، 1818، 4159، 4190، 4191، 4517، 5665، 5703، 6708، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1201، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3978، 3979، 3980، 3981، 3982، 3983، 3984، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2851 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1856، 1857، 1858، 1860، والترمذي فى «جامعه» برقم: 953، 2973، 2974، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3079، 3080، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7811، 8795، 9182، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4109، برقم: 18388، 8 / 4111، برقم: 18393)

728- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3370، 4797، 6357، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 406، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 912، 1957، 1964، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4735، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1286 ، 1287، 1288، وأبو داود فى «سننه» برقم: 976، والترمذي فى «جامعه» برقم: 483، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1381، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 904، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2895، 2896، 2900، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4110، برقم: 18391، 8 / 4110، برقم: 18392)

729- (إسناده ضعيف لضعف عبدالكريم، وانظر التعليق االسابق)

730- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5495، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1952، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5257، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4367، 4368 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3812، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1821، 1822، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2053، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19059، 19060، 19061، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19418، 8 / 4402، برقم: 19457)

731- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1941، 1955، 1956، 1958، 5297، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1101، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3511، 3512، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3297، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2352، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8102، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4459، برقم: 19705، 8 / 4460، برقم: 19709، 8 / 4464، برقم: 19723)

732- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 5596، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5402، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5637 ، 5638 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5111، 5112، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17557، 17558، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4392، برقم: 19409، 8 / 4393، برقم: 19412، 8 / 4400، برقم: 19449)

733- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3155، 4220، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1937، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4350 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4832، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3192، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19514، 19520، 19521، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4395، برقم: 19427، 8 / 4397، برقم: 19434)

734- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 544، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1808، 1809، 1810، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 887، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 923 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 998، وأبو داود فى «سننه» برقم: 832، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4046، 4047، 4048، والدارقطني فى «سننه» برقم: 1195، برقم: 1196، 1197، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19416، 8 / 4399، برقم: 19445، 8 / 4463، برقم: 19719)

735- (إسناده ضعيف وأخرجه الضياء المقدسي فى «الأحاديث المختارة» برقم: 176، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1334، 1416، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1503، 1592، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7038، 7039، 7081، 7088، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4399، برقم: 19447، 8 / 4465، برقم: 19727)

736- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1600، 1791 (م1) ، 2933، 3819، 4115، 4188، 4255، 4314، 6392، 7489، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1742، 2433، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2775، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3843، 3844، 7004، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6494، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4205، 10363، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1902، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1678، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1963، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2796، 2990، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9486، 9487، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19413، 8 / 4393، برقم: 19414)

737- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 1792، و أخرجه مسلم 2433، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 7004)

738- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري 1600، وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3843 والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4220، والدارمي برقم: 1963، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4393، برقم: 19413)

739- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2740، 4460، 5022، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3622، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6414، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2119، والدارمي فى «مسنده» برقم: 3224، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2696، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12676، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4396، برقم: 19430، 8 / 4398، برقم: 19443، 8 / 4462، برقم: 19718)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

740- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوتے وقت یہ پڑھا کرتے تھے (راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ہدایت کی ہے کہ سوتے وقت یہ پڑھا جائے ۔
(راوی کوشک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یہ ہدایت کی کہ میں سوتے وقت یہ کلمات پڑھوں ۔
یہ شک سفیان نامی راوی کوہے کہ ان میں سے کون سے الفاظ ہیں؟ وہ یہ الفاظ ہیں : ”اے اللہ ! میں اپنا رخ تیری طرف کرتا ہوں میں نے اپنا آپ تجھے سونپ دیا ہے میں نے اپنا معاملہ تیرے سپرد کردیا ہے میں اپنی پشت کو تیرا سہارا دیتا ہوں ۔ تیری طرف رغبت کرتے ہوئے بھی اور تجھ سے ڈرتے ہوئے بھی ۔ تیرے مقابلے میں صرف تو ہی پناہ گاہ اور جائے نجات ہے ۔ میں تیری اس کتاب پر ایمان لایا جسے تو نے نازل کیا ہے ۔ اس نبی پر ایمان لایا جسے تو نے معبوث کیا ہے ۔“ تو لوگوں نے ان سے (یعنی سفیان سے ) کہا: کہ روایت میں ، تویہ الفاظ ہیں : ”اس رسول پرایمان لایا جسے تو نے مبعوث کیا“ ۔ تو انہوں نے اس بات کو تسلیم نہیں کیا اور یہ کہا: کہ یہی الفاظ ہیں ۔ ”میں تیرے نبی پر ایمان لایا“ ۔

741- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا آغاز کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع یدین کیا ۔
سفیان کہتے ہیں : میرے استاد کوفہ آئے تو میں نے انہیں یہ حدیث بیان کرتے ہوئے سنا ۔ اس میں انہوں نے مزید یہ الفاظ نقل کیے پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا نہیں کیا ۔ (یعنی دوبارہ رفع یدین نہیں کیا) تو اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا ، لوگوں نے انہیں ان الفاظ کی تلقین کی ہوگی ۔ حالانکہ جب میں نے انہیں کوفہ میں دیکھا تھا ، تو اس دن کے مقابلے میں جب وہ مکہ میں تھے اس وقت وہ روایات کو زیادہ اچھے طریقے سے یادرکھے ہوئے تھے ۔ لوگوں نے مجھ سے کہا کہ ان کے حافظے میں تبدیلی آگئی ہے یا ان کا حافظہ خراب ہوگیا ہے ۔

742- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ہم میں سے کوئی بھی شخص (نماز کے دوران ) اس وقت تک نہیں جھکتا تھا ، جب تک وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجد ے میں جاتے ہوئے نہیں دیکھ لیتا تھا ۔

743- سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں ”سورہ والتین“ کی تلا وت کرتے ہوئے سنا ۔
سفیان کہتے ہیں : مسعر نامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں : میں نے کسی بھی شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اچھی قرأت کرتے ہوئے نہیں سنا ۔

744- ابومنہال بیان کرتے ہیں : میرے شراکت دارنے کو فہ میں کچھ درہموں کے عوض میں درہم فروخت کیے جن میں اضافی ادائیگی کی گئی تھی ، تو میں نے کہا: میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے ، تو وہ بولا: میں نے یہ بازار میں فروخت کیے ہیں اور کسی نے مجھ پر کوئی اعتراض نہیں کیا ، تو میں سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضرہوا میں نے ا ن سے اس بارے میں دریافت کیا ، تو وہ بولے : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو ہمارا تجارت کا طریقہ یہی تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو چیز نقد لین دین ہواس میں حرج نہیں ہے اور جوادھار ہو ، تو اس میں کوئی بھلائی نہیں ہے ۔“ تم سیدنا زید بن ارم رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ کیونکہ ان کا تجارت کا کام مجھ سے زیادہ تھا ۔ میں ان کے پاس آیا میں نے ان کے سامنے یہ بات ذکر کی ، تو وہ بولے : سیدنا براء رضی اللہ عنہ نے سچ بیان کیا ہے ۔
امام حمیدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں : یہ حکم منسوخ ہے اور اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا جاتا ۔

تخریج:
740- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 247، 6311، 6313، 6315، 7488، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2710، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5522، 5523، 5527، 5536، 5542، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5046، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3394، 3399، 3574، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2725، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3876، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4207، برقم: 18764، 8 / 4217، برقم: 18809)
741- (إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 749، 752، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2346، 2568، 2569، 2570، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4209، برقم: 18779، 8 / 4255، برقم: 18973، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1658، 1689)
742- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 690، 747، 811، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 474، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2226، 2227، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 828، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 536، 905، وأبو داود فى «سننه» برقم: 620، 621، 622، والترمذي فى «جامعه» برقم: 281، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2637، 2638، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4216، برقم: 18805، 8 / 4217، برقم: 18814)
743- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 767، 769، 4952، 7546، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 464، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1838، 6318، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 999، 1000، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1074، 1075، 11618، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1221، والترمذي فى «جامعه» برقم: 310، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 834، 835، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3117، 4109، 4110، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4214، برقم: 18797، 8 / 4220، برقم: 18824، 8 / 4220، برقم: 18825)
744- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2060، 2180، 2497، 3939، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1589، 1589، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4589، 4590، 4591، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6123، 6124، 6125، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10608، 10609، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2847، 2848، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4226، برقم: 18839، 8 / 4429، برقم: 19582)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

745- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی سمت میں بلغم لگا ہوا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکری لے کر اسے کھرچ دیا ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع کیا کہ آدمی (نماز کے دوران ) اپنے سامنے کی طرف یا اپنے دائیں طرف تھوکے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ” (نمازی کو ) اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں پاوں کے نیچے تھوکنا چاہیے ۔“

746- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ عراجین (زردرنگ کی مخصوص قسم کی لکڑی ) پسند تھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے ہاتھ میں رکھتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے ۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں تھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی سمت میں (دیوار پر) بلغم لگا ہو ا دیکھا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرج دیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عالم میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور ارشاد فرمایا : ”کیا کوئی شخص اس بات کو پسند کرتا ہے ، اس کے چہرے کے سامنے کی طرف تھوک دیا جائے ۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جب بندہ نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے ، تو وہ اپنے پروردگار کی طرف رخ کرتا ہے ، تو اسے اپنے سامنے کی طرف یا اپنے دائیں طرف نہیں تھوکنا چاہیے ۔ بلکہ اپنے بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لینا چاہیے ۔ اور اگر نماز کے دوران آدمی کو زیادہ شدت کے ساتھ تھوکنے کی ضرورت پیش آجائے ، تو اسے اپنے کپڑے پر تھوک کر پھر اسے اس طرح مل دینا چاہیے ۔“ سفیان نامی راوی نے اپنی آستین کے ذریعے اسے مل کے دکھایا ۔

747- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کے سودے اور دو طرح کے لباس سے منع کیا ہے جہاں تک دو طرح کے سودے کا تعلق ہے ، تو وہ ملامسہ اور منابذہ ہیں جہاں دوطرح کے لباس کا تعلق ہے ، تو وہ اشتمال صماء اور آدمی کا ایک کپڑے کو احتباء کے طور پر یوں لپیٹنا ہے ، کہ آدمی کی شرمگاہ پر کپڑا نہ ہو ۔

748- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک اور صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک کوئی بھی نماز ادا کرنے سے منع کیا ہے ۔

749- سیدنا عبداللہ بن عبدالرحٰمن رضی اللہ عنہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : جو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے زیر پرورش تھے ۔ وہ بیان کرتے ہیں : سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! جب تم آبادی سے باہر ہو ، تو تم بلند آواز میں اذان دو ۔ کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو بھی انسان ، جن ، پتھر ، درخت یا جو بھی چیز اس کو سنتی ہے ۔ وہ قیامت کے دن اس شخص کے حق میں گواہی دے گی ۔“

750- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”عنقریب ایسا وقت آئے گا کہ جب کسی مسلمان شخص کا سب سے بہتر مال بکریاں ہوں گی جنہیں وہ لے کر پہاڑوں کی چوٹیوں پر اور بارش کے نزول کی جگہ (یعنی ویران جنگلات میں) چلانے جائے گا ۔ وہ اپنے دین کو فتنوں سے بچانے کے لیے بھاگے گا ۔“

751- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ میں ایک محفل میں بیٹھا ہوا تھا ۔ جس میں سیدنا اُبی بن کعب رضی اللہ عنہ تشریف فرما تھے ۔ اسی دوران سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ گھبرائے ہوئے ہمارے پاس آئے ۔ ہم نے دریافت کیا : آپ کو کیا ہو ا ہے ، تو وہ بولے : سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے کسی کام کے لیے بلوایا ، جب میں ان کے ہاں آیا ، تو میں نے تین مرتبہ اندر آنے کی اجازت مانگی ۔ جب مجھے اجازت نہیں ملی تو میں واپس آگیا ۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جب کوئی شخص تین مرتبہ اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ دی جائے ، تو وہ واپس چلا جائے ۔“ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا ۔ تم نے جو بات بیان کی ہے یا تو اس کا کوئی ثبوت لے کر آؤ ، ورنہ پھر میں تمہیں سخت سزادوں گا ۔
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا : آپ کے ساتھ اٹھ کروہ شخص جائے گا ، جو حاضر ین میں سب سے کم سن ہو ۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ میں چونکہ وہاں سب سے کم سن تھا ، تو میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا ۔ اور انہیں یہ بات بتائی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جب کوئی شخص (کسی کے ہاں اندرآنے کی) تین مرتبہ اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے ، تو اسے واپس چلے جانا چاہیے ۔“

752- سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”پانچ اونٹؤں سے کم میں زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی، پانچ وسق سے کم اناج میں زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ، پانچ اوقیہ سے کم (چاندی میں ) زکوٰۃ لازم نہیں ہوتی ۔“
سفیان کہتے ہیں : عمر وبن دینار اور یحییٰ بن سعید نے روایت عمر وبن یحییٰ کے حوالے سے نقل کی ہے ۔

753- سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”جمعہ کے دن غسل کرنا ہر بالغ شخص پر لازم ہے ۔“

754- علاء بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے والد کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ۔ میں سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے ان سے سوال کیا ۔ کیاآپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تہبند کے بارے میں کوئی بات ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : انہوں نے جواب دیا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”بندہ مومن کا تہبند اس کی نصف پنڈ لی تک ہوتا ہے ، تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ، جو اس نصف پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان ہو ۔ لیکن جو ٹخنوں سے نیچے ہو وہ جہنم میں ہوگا ۔ اللہ تعالیٰ اس شخص کی طرف نظر رحمت نہیں کرے گا ، جو تکبر کے طور پر اپنے تہبند کو لٹکائے گا ۔“

755- سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) تین بہنیں ہوں ، یا دوبیٹیاں ہوں ، یا دوبہنیں ہوں اور وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور (ان کی ذمہ داری اٹھانے کے حوالے سے ) صبر سے کام لے اور ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے ، تو وہ شخص جنت میں داخل ہوگا ۔“

756- سیدنا ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ روایت بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”بے شک اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندے سے سوال کرے گا اور فرمائے گا تمہیں کس بات نے روک لیا تھا کہ ، جب تم نے دنیا میں منکر چیز کو دیکھا تو تم نے اس کا انکار کیوں نہیں کیا؟ پھر اللہ تعالیٰ بندے کواس کی دلیل کی تلقین کرے گا ، تو وہ بندہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار ! میں نے تجھ سے امید رکھی اور میں لوگوں سے خوفزدہ ہوگیا ۔“

757- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پریہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ اندیشہ اس بات کا ہے ، اللہ تعالیٰ تمہارے لیے زمین کے نباتاب اور دنیاوی آرائش و زیبائش کو ظاہر کردے گا ۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ایک صاحب کھڑے ہوئے انہوں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کیا بھلائی برائی کولے کرآئے گی؟ انہوں نے تین مرتبہ یہ بات عرض کی ، راوی کہتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے ، یہاں تک کہ ہمیں یہ محسوس ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہورہی ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوتی تھی ، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سانس پھول جاتا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آجاتا تھا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : سوال کرنے والا شخص کہاں ہے ؟ اس نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں یہاں ہوں ۔ میں نے صرف بھلائی کا ارادہ کیا تھا ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”بھلائی صرف بھلائی کو لے کر آتی ہے ۔ بے شک بھلائی صرف بھلائی ہی کو لے کر آتی ہے ۔ بے شک بھلائی صرف بھلائی ہی کولے کر آتی ہے ۔ تاہم دنیا سر سبز اور میٹھی ہے موسم بہار جو کچھ اگاتا ہے اس کے نتیجے میں کچھ جانور زیادہ کھانے کی وجہ سے مرجاتے ہیں اور کچھ موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں ۔ تاہم سبزہ کھانے والے کا حکم مختلف ہے کیونکہ وہ اسے کھاتا ہے ، تو اسکے پہلو پھول جاتے ہیں ۔ وہ دھوپ میں آتا ہے وہاں لید کرتا ہے پیشاب کرتا ہے ، پھر واپس جاتا ہے ، پھر کھاتاہے ، پھر روانہ ہوتا ہے اور جگالی کرتا ہے ، تو جو شخص مال کو اس کے حق کے ہمراہ حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس مال میں برکت رکھی جاتی ہے ۔ اور جو شخص مال کوناحق طور پر حاصل کرتا ہے اس کے لیے اس مال میں برکت نہیں رکھی جاتی ۔ اور اس کی مثال اس شخص کی مانند ہوتی ہے ، جو کھانے کے باوجود سیر نہیں ہوتا اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے ۔“
سفیان کہتے ہیں ۔ میں جب کبھی اعمش کے پاس گیا انہوں نے مجھ سے باربار یہی روایت سنانے کی فرمائش کی ۔

758- عیاض بن عبداللہ بیان کرتے ہیں میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ تشریف لائے ۔ مروان اس وقت جمعہ کے دن کا خطبہ دے رہا تھا ۔ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ دورکعات ادا کرنے کے لیے کھڑے ہوئے سپاہی ان کے پاس آئے تاکہ انہیں زبردستی بٹھا دیں ، تو انہوں نے بیٹھنے سے انکار کردیا اور دورکعات ادا کیں جب انہوں نے نماز مکمل کی ، تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے ان سے کہا: اے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ قریب تھا کہ یہ لوگ آپ سے کوئی نارواسلوک کرتے ، تو سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بولے : میں نے ان کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد میں کسی اور وجہ سے ان دونوں رکعات کو ترک نہیں کروں گا ۔ مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ، یاد ہے، ایک شخص آیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جمعے کے دن خطبہ دے رہے تھے ۔ وہ شخص اس وقت عام سی حالت میں مسجد میں داخل ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا : کیا تم نے نماز ادا کرلی ہے ؟ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم دورکعت ادا کرلو ۔“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی تو لوگوں نے اپنے کپڑے صدقہ کئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو ان کپڑوں میں سے دوکپڑے عطاکیے ۔ جب اگلا جمعہ آیا ، تو ایک شخص آیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : کیا تم نے دورکعات ادا کرلی ہیں؟ اس نے عرض کی ”جی نہیں“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم دورکعات ادا کرلو ۔“
پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی ، تو لوگوں نے اپنے کپڑے دئیے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کوان میں سے سوکپڑے دے دئیے۔ جب اس سے اگلا جمعہ آیا ، تو ایک شخص آیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کیا تم نے دورکعات ادا کرلی ہیں؟“ اس نے عرض کی : جی نہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم دورکعات ادا کرلو“ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کوصدقہ کرنے کی ترغیب دی ۔ لوگوں نے اپنے کپڑے پیش کیے تو اس شخص نے اپنے دو کپڑوں میں سے ایک کپڑاوہاں رکھ دیا ، تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز میں اسے پکاراور فرمایا : ”تم اسے حاصل کرلو ۔“ اس نے اسے لے لیا ۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس شخص کو دیکھو ۔ یہ اس دن برے حال میں جمعے کے دن آیا تھا ۔ میں نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی لوگوں نے اپنے کپڑے پیش کیے تو میں نے اس میں سے دوکپڑے اسے دے دئیے ۔ اب جب یہ اس جمعے آیاہے ، تو میں لوگوں کو صدقہ کرنے کا حکم دیاہے ، تو اس نے دومیں سے ایک کپڑا دے دیا ہے ۔“
سفیان یہ کہاکرتے تھے ۔ صدقہ وہ ہوتا ہے ، جسے کرنے کے بعد بھی آدمی خوشحال رہے ۔ اور وہ شخص اگر کپڑادے دیتا تو پھر اس کے پاس خوشحالی نہیں رہنی تھی ۔

759- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم صدقہ فطر میں کھجور کاایک صاع یا پنیر کا ایک صاع دیا کرتے تھے ۔

760- سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا ، جس میں بہت سے لوگ جنگ میں حصہ لیں گے ، تو یہ کہا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسے صاحب موجود ہیں جونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہوں؟ تو جواب دیا جائے گا ۔ جی ہاں ، تو ان لوگوں کو فتح نصیب ہوگی ۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا ۔ جب بہت سے لو گ جنگ میں حصہ لینے کے لیے جائیں گے ، تو ان سے دریافت کیا جائے گا کیا تم میں کوئی ایسا شخص موجود ہے ، جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی خدمت میں رہا ہو ، تو انہیں جواب دیا جائے گا ۔ جی ہاں ، تو انہیں بھی فتح نصیب ہوگی ۔ پھر لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا ، جس میں بہت سے لو گ جنگ کرنے کے لیے جائیں گے ، تو دریافت کیا جائے گا : کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا شخص موجود ہے ، جس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہ کے ساتھیوں کوپایا ہو؟ تو جواب دیا جائے گا : جی ہاں ، تو انہیں بھی فتح نصیب ہوجائے گی ۔“

تخریج:

745- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 408، 410، 414، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 548، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2268، 2270، 2271، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 949، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 724 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 806، 11655، وأبو داود فى «سننه» برقم: 480، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1438، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 761، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3658، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2281، برقم: 11182، 5 / 2292، برقم: 11222)
746- (إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 408، 410، 414، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 548، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2268، 2270، 2271، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 949، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 724 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 806، 11655، وأبو داود فى «سننه» برقم: 480، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1438، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 761، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3658، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2281، برقم: 11182، 5 / 2292، برقم: 11222)
747- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 367، 2144، 2147، 5820، 5822، 6284، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1512، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4976، 5427، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4522 ، 4523، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3377، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2604، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2170، 3559، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3256، 10979، 10980، 10981، 10982، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2281، برقم: 11179، 5 / 2281، برقم: 11180)
748- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 586، 1188، 1197، 1864، 1991، 1995، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 827، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1617، 2723، 2724، 3599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 565، 566، 567، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2417، والترمذي فى «جامعه» برقم: 326، 772، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1794، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1249، 1410، 1721، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4444، 5490، 5491، 8550، 20191، والدارقطني فى «سننه» برقم: 964، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2284، برقم: 11190، 5 / 2286، برقم: 11197، 5 / 2359، برقم: 11467)
749- (الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 609، 3296، 7548، ومالك فى «الموطأ» برقم: 222، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 389، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1661، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 643، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1620، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 723، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1891، 2040، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2283، برقم: 11188، 5 / 2362، برقم: 11478، 5 / 2385، برقم: 11569، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 982)
750-(الحديث صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 19، 3300، 3600، 6495، 7088، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3558، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5955، 5958، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5051، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4267، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3980، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2283، برقم: 11189، 5 / 2350، برقم: 11426)
751- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2062، 6245، 7353، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2153، 2154، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5806، 5807، 5810، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5180، 5181، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2690، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13692، 17742، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2282، برقم: 11186، 5 / 2321، برقم: 11314)
752- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1405، 1447، 1459، 1484، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 979، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3268، 3275، 3276، 3277، 3281، 3282، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2444 ، 2445، 2472 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1558، 1559، والترمذي فى «جامعه» برقم: 626، 627، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1673، 1674، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1793، 1799 1832، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7343، 7344، 7345، 7432، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2283، برقم: 11187، 5 / 2350، برقم: 11425)
753- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 858، 879، 880، 895، 2665، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 846، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1228، 1229، 1233، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1374، 1376، 1382، وأبو داود فى «سننه» برقم: 341، 344، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1578، 1579، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1089، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1421، 5743، 6036، 6037، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2282، برقم: 11184، 5 / 2349، برقم: 11422)
754- (إسناده صحيح وأخرجه مالك فى «الموطأ» برقم: 3390، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5446، 5447، 5450، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9630، 9631، 9632، 9633، 9634، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4093، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3570، 3573، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3368، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2278، برقم: 11166، 5 / 2282، برقم: 11185، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 980، 1310)
755- (إسناده جيد وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 446، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5147، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1912، 1916، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2383، برقم: 11560، 5 / 2515، برقم: 12105، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 25947)
756- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7368، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4017، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20240، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2339، برقم: 11384، 5 / 2346، برقم: 11417، 5 / 2466، برقم: 11913، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1089، 1344)
757- (إسناده حسن ولكن أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 921، 1465، 2842، 6427، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1052، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3225، 3226، 3227، 4513، 5174، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2580 ، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3995، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5792، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2284، برقم: 11192، 5 / 2286، برقم: 11194)
758- (إسناده حسن وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1799، 1830، 2481، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2503، 2505، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1058، 1513، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1407، 2535، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1731، 2328، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1675، والترمذي فى «جامعه» برقم: 511، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1593، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1113، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5775، 5897، 7872، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2301، برقم: 11248، 5 / 2335، برقم: 11367)
759- (إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1505، 1506، 1508، 1510، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 985، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3305، 3306، 3307، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1500، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2510، 2511، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1616، 1618، والترمذي فى «جامعه» برقم: 673، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1704، 1705، 1706، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1829، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7766، 7792، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2302، برقم: 11249، 5 / 2331، برقم: 11352)
760- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2897، 3594، 3649، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2532، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4768، 6666، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2286، برقم: 11198، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 974)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
761- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”درہم کے عوض میں درہم اور دینار کے عوض میں دینار کا برابر ، برابر لین دین کیاجائے گا ۔ اور اس میں کوئی اضافی ادائیگی نہیں ہوگی ۔“
راوی کہتے ہیں : میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے گزارش کی سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے ہیں ۔ پھر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بولے : میری سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما سے ملاقات ہوئی تھی ۔ میں نے ان سے کہا: آپ مجھے اس کے بارے میں بتائیے جو آپ کہتے ہیں : کیا آپ نے اس بارے میں اللہ کی کتاب میں کوئی حکم پایا ہے ؟یا پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی اس بارے میں کوئی بات سنی ہے ؟ انہوں نے بتایا : میں نے اللہ کی کتاب میں اس بارے میں کوئی حکم نہیں پایا ہے ا ور میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بھی کوئی بات نہیں سنی ۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مجھ سے زیادہ جانتے ہیں تاہم سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی تھی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”سود ، ادھار میں ہوتا ہے ۔“

762-ضمرہ بن سعید مزنی بیان کرتے ہیں ۔ میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حوالے سے بیع صرف کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کرتے ہوئے سنا ہے : سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما تشریف لائے اور انہوں نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا : میں اس وقت وہاں موجود تھا ۔
سفیان کہتے ہیں : اس بارے میں مجھے صرف یہی بات یاد ہے ، یہ اسی کی مانند حدیث تھی ۔ جو لوگوں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے ۔
”سونے کے عوض میں سونے کالین دین برابر ہوگا اور چاندی کے عوض میں چاندی کا لین دین برابر ہوگا ۔“

763- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں اپنی ایک کنیز کو لا کر بنو قینقاع کے بازار میں کھڑا ہوا , تاکہ میں اس کنیز کو فروخت کردوں ۔ ایک یہودی میرے پاس آیا اور بولا: اے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ! یہ لڑکی یہاں کس لیے ہے ؟ میں نے جواب دیا : یہ تمہاری اولاد موجود ہے ، تو میں نے کہا: میں ، تو اس سے عزل کیا کرتا تھا ، تو وہ بولا: یہ زندہ درگور کرنے کی جھوٹی قسم ہے ۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ میں نے اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یہودیوں نے غلط کہاہے ، تاہم اگر تم ایسا نہ کرو ، تو تم پر کوئی حرج بھی نہیں ہوگا ۔“

764- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے عزل کا تذکرہ کیاگیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا : ”کوئی ایسا کیوں کرتا ہے ؟“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد نہیں فرمایا ۔ کہ کوئی شخص ایسا نہ کرے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا) ”جس بھی جان نے پیدا ہونا ہو اس کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے (یا اللہ تعالیٰ نے اسے پیدا کر دینا ہے ) ۔“

765-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول ہے ۔

766- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک مسلمانوں کے دوبڑے گروہ آپس میں جنگ نہیں کریں گے اور ان دونوں کا دعوٰی ایک ہوگا اور ان میں حق کے زیادہ قریب وہ ہوگا ، جو غالب آجائے گا ۔ ابھی وہ لوگ اسی حالت میں ہوں گے کہ ان میں سے ایک گروہ نکل جائے گا اور وہ لوگ دین سے یوں نکل جائیں گے ، جس طرح تیر نشانے سے پارہوجاتا ہے ۔“

767- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں : ”سفر صرف تین مساجد کی طرف کیا جاسکتا ہے ۔ مسجد الحرم ، میری یہ مسجد اور مسجد ایلیاء (یعنی بیت المقدس) ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے : ”عورت اگر تین دن سے زیادہ کا سفر کرتی ہے ، تو اس کے ساتھ کوئی محرم عزیز ہو نا چاہیے ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کی نماز کے بعد سورج غروب ہونے تک صبح کی نماز کے بعد سورج نکلنے تک ادا کرنے سے منع کیا ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دن کے روزے رکھنے سے بھی منع کیا ہے ۔ عیدالاضحیٰ کا دن اور عید الفطر کا دن ۔

768- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اگر اللہ تعالیٰ لوگوں پر سات سال تک بارش نازل نہ کرے اور پھر بارش نازل کر دے تو ان لوگوں میں سے ایک گروہ پھر بھی اللہ تعالیٰ کا انکار کرتے ہوئے یہ کہے گا کہ فلاں ، فلاں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے ۔ اور مجدح ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش نازل ہوئی ہے ۔“

769- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد سے لے کر سورج غروب ہونے کے قریب تک ہمیں خطبہ دیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیامت قائم ہونے تک کی ہر بڑی چیز کے بارے میں ہمیں بتادیا ، تو جس شخص کو اس کا علم ہے اسے علم ہے ، اور جو شخص ناواقف رہا ۔ وہ ناواقف ہے ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”یہ دنیا سر سبز اور میٹھی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس میں تمہیں اپنا نائب مقرر کیا ہے ، تاکہ وہ اس بات کو ظاہر کرے کہ تم کیا عمل کرتے ہو؟ خبردار ! دنیا سے بچنا اور خواتین کے بارے میں احتیاط کرنا ۔ یادرکھنا ! قیامت کے دن غداری کرنے والے کے لیے ایک مخصوص جھنڈا ہوگا ، جواس کی غداری کے حساب سے ہوگا اور یہ جھنڈا اس کی سرین کے پاس ہوگا ۔ یادرکھنا ! سب سے افضل جہاد حق بات کہنا ہے (یہاں سفیان نامی راوی بعض اوقات یہ لفظ نقل کرتے ہیں) انصاف کی بات کہنا ہے ظالم حکمران کے سامنے۔“
راوی بیان کرتے ہیں ۔ پھر سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بولے : ہم نے کتنے ہی منکرات دیکھے ۔ لیکن ہم نے ان کا انکار نہیں کیا ۔
(نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا) ”خبردار اولاد آدم کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا ہے ان میں سے کچھ لوگوں کو مومن پیدا کیا جاتا ہے ، وہ مومن ہونے کے طور پرہی زندہ رہتے ہیں اور مومن ہونے کے طور پرہی مرتے ہیں ، اور کچھ لوگوں کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کافر ہونے کے طور پر زندہ رہتے ہیں اور کافر ہونے کے طور پر مرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو مومن ہونے کے طور پر پیدا کیا جاتا ہے وہ مومن ہونے کے طور پر زندہ رہتے ہیں اور کافر ہونے کے طور پر مرتے ہیں ۔ کچھ لوگوں کو کافر پیدا کیا جاتا ہے وہ کافر کے طور پر زندہ رہتے ہیں ، لیکن مرتے وقت مومن ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں ۔ جن کو غصہ جلدی آتا ہے اور ا ن کا عضہ ختم بھی جلدی ہو جاتا ہے ، تو یہ برابر ہے ۔ ان میں سے کچھ لوگ وہ ہیں ، جنہیں غصہ دیر سے آتا ہے اور ان غصہ ختم بھی دیر سے ہوتا ہے ۔ یہ بھی برابر ہیں ۔ یادرکھنا غصے ہونا اگر کا یک انگارہ ہے ، تو تم میں سے جو شخص اس کیفیت کو محسوس کرے اگر وہ کھڑا ہوا ہو ، تو بیٹھ جائے اگر بیٹھا ہوا ، تو لیٹ جائے ۔“

770- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ صحبت کرے ، پھر اگر وہ دوبارہ ایسا کرناچاہے ، تو اسے نماز کے وضو کی طرح وضو کر لینا چاہیے ۔“

771- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میں نعمتوں سے کیسے لطف اندوز ہوسکتا ہوں؟ جبکہ صور پھونکنے والے فرشتے نے صور کو اپنے منہ کے ساتھ لگایا ہوا ہے ۔ اس کی پیشانی چمکی ہوئی ہے، اور اس نے اپنی سماعت کو متوجہ رکھا ہوا ہے ، اور وہ اس بات کا انتظار کررہا ہے ، اسے کب حکم ہوگا؟ (کہ وہ صور میں پھونک ماردے ) “
لوگوں نے عرض کی : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کیا حکم دیتے ہیں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم یہ پڑھا کرو ۔ «حسبنا الله ونعم الوكيل على الله توكلنا» ”ہمارے لیے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے اور وہی بہترین کارساز ہے ہم اللہ تعالیٰ ہی پر توکل کرتے ہیں ۔“

772- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ” (جنت میں) بلند درجات والے لوگ ”علیین“ کے لوگوں کو یوں دیکھیں گے ، جس طرح تم افق میں چمکتے ہوئے ستارے کودیکھتے ہو اور ابوبکر و عمر ان میں شامل ہیں ۔ اور یہ دونوں بہت اچھے ہیں ۔“

773-یہ روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے ۔

774- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان کے مہینے کے درمیانی عشرے میں اعتکاف کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم نے بھی اعتکاف کیا ۔ جب بیسویں رات کی صبح ہوئی ہم نے اپنا ساز و سامان منتقل کرنا شروع کیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ملاحظہ فرمایا ، تو ارشاد فرمایا : ”تم میں سے جو شخص اعتکاف کرنا چاہتا ہو وہ اپنے اعتکاف کی جگہ پر واپس چلا جائے ۔ کیونکہ مجھے یہ رات (یعنی شب قدر) آخری عشرے میں دکھائی گئی ہے ۔ میں نے خود کودیکھا ہے ، میں اس رات کی صبح پانی اور مٹی (یعنی کیچڑ) میں سجدہ کر رہا ہوں ۔“
(راوی کہتے ہیں) اسی دن بارش ہوگئی ۔ مسجد کی چھت (کھجور کے پتوں سے بنی ہوئی تھی) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی جگہ پر پانی اکٹھا ہوگیا ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک پیشانی اور ناک پر پانی اور مٹی (یعنی کیچڑ) کا نشان تھا ۔

تخریج:

761- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2178، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1596، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5023، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4594، 4595 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6128، 6129، 6130، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2622، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2257، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10606، 10607، وأحمد فى «مسنده» 9 / 5090، برقم: 22157، 9 / 5092، برقم: 22164)
762- ( صحيح ، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2134، 2170، 2174، 2176 2177، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1584، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5013، 5016، 5017، 5019، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4572، 4579، 4584 ، 4585، 4586، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3348، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1241 1243، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2620، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2253، 2259، 2260، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10585، 10586، 10598، وأحمد فى «مسنده» برقم: 164، 244، 320، والحميدي فى «مسنده» برقم: 12، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 149)
763- (رجاله ثقات غير أن ابن إسحاق قد عنعن وهو مدلس، و أخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 16870، 16871، 37991، والطحاوي فى "شرح معاني الآثار" برقم: 4345، 4347، 4348، ولتمام تخرجه وانظر الحديث التالي)
764- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2229، 2542، 4138، 5210، 6603، 7409، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1438، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4191، 4193، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3327، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2170، 2171، 2172، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1138، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2269، 2270، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1926، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14420، 14421، 18148، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2297، برقم: 11237، 5 / 2300، برقم: 11245)
765- (إسناده ضعيف لضعف مجالد بن سعيد، ولكن أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2229، 2542، 4138، 5210، 6603، 7409، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1438، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4191، 4193، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3327 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2170، 2171، 2172، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1138، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2269، 2270، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1926، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14420، 14421، 14422، 14423، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2297، برقم: 11237، 5 / 2300، برقم: 11245)
766- (إسناده ضعيف لضعف على بن زيد بن جدعان، وأخرجه عبد الرزاق برقم : 18658، من طريق معمر عن على بن زيد بهذا الإسناد. إلى قوله : « تقتلها أولى الطائفتين بالحق » . ومن طريق عبد الرزاق أخرجه أحمد 90/3 والبغوي فى شرح السنة برقم 2555،. وانظر دلائل النبوة للبيهقي 418/6 «شرح السنة» 38/15 . غير أن الحديث صحيح فقد أخرجه مسلم «في الزكاة» 1064، وقد استوفينا تحريجه فى «مسند الموصلي» برقم : 1008، وبرقم 1036، 1246، 1274، وفي صحيح ابن حبان برقم : 6735)
767- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 586، 1188، 1197، 1864، 1991، 1995، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 827، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1617، 2723، 2724، 3599، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 565، 566 ، 567 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2417، والترمذي فى «جامعه» برقم: 326، 772، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1794، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1249، 1410، 1721، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4444، 5490، 5491، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2284، برقم: 11190، 5 / 2286، برقم: 11197، 5 / 2359، برقم: 11467)
768- (إسناده جيد وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6130، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1525، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1849، 10696، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2804، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2287، برقم: 11199، وأبو يعلى فى «مسنده» 2 / 482، برقم: 1312، والطحاوي فى "شرح مشكل الآثار" برقم: 5218)
769- (إسناده ضعيف وقد استوفينا تخريجه أبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1101، 1212، 1213، 1232، 1245، 1293، 1297، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 275، 278، 1378، 3221، 5591، 5592، وعبد بن حميد فى "المنتخب من مسنده" برقم: 864، 867، 869، 912، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6607، 6807)
770- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 308، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 219، 221، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1210، 1211، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 544، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 262، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 254، 8989، 8990، 8991، وأبو داود فى «سننه» برقم: 220، والترمذي فى «جامعه» برقم: 141، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 587، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1001، 1002، 14197، 14198، 14200، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2285، برقم: 11193، 5 / 2326، برقم: 11331)
771- (عطية العوفي ضعيف ولكنه متابع عليه، فيصح الإسناد وقد استوفينا تخريجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 823، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8775، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2431، 3243، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4273، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2286، برقم: 11196، 5 / 2455، برقم: 11875، 8 / 4445، برقم: 19654، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1084)
772- (إسناده ضعيف لضعف عطية، ولكن الحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3256، 6555، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2830، 2831، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7393، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3658، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2873، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 96، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2338، برقم: 11376، 5 / 2339، برقم: 11383)
773- (وانظر الحديث السابق)
774- (إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 669، 813، 836، 2016، 2018، 2027، 2036، 2040، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1167، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3661، 3673، 3674، 3677، 3684، 3685، 3687، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1038، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1094 ، 1355 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 894، 911، 1382، 1383، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1766، 1775، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 2696، 3607، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2284، برقم: 11191، 5 / 2295، برقم: 11235)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

775-حمزہ بن مغیرہ بیان کرتے ہیں : میں نے اپنے والد کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے : میں ایک سفر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : ”اے مغیرہ ! تم پیچھے رہو ۔ اے لوگو ! تم لوگ چلتے رہو ۔“
راوی بیان کرتے ہیں : لوگ چلتے رہے میں پیچھے رہ گیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے تشریف لے گئے ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لائے ، تو میں نے برتن میں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی انڈیلا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومی جبہ پہنا ہوا تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بازو اس سے نکالنے کی کوشش کی لیکن وہ تنگ تھا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیچے کی طرف سے بازو باہر نکالا ۔ اسے دھویا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا چہرہ مبارک اور دونوں بازوؤں کودھویا ۔ اپنے سر کا مسح کیا ۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں موزوں پر بھی مسح کر لیا ۔
سفیان کہتے ہیں : اسماعیل بن محمد نامی راوی نے مجھے یہ بات بتائی ہے میں نے یہ روایت زہری کو سنائی تو ایک دن وہ موزوں پر مسح کے بارے میں روایات بیان کررہے تھے ۔ جب وہ ان روایات کو بیان کرکے فارغ ہوگئے جو ان کے پاس تھیں ، تو میری طرف متوجہ ہوئے ا ور بولے : انہوں نے حمزہ بن مغیرہ کے حوالے سے مجھے یہ حدیث بیان کی ہے ۔ پھر انہوں نے میری نقل کردہ روایت بیان کی اور اسے مکمل بیان کیا ۔

776-عروہ بن مغیرہ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے عر ض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کوئی شخص موزوں پر مسح کر سکتا ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جی ہاں ۔ جب اس نے (اپنے دونوں پاؤں موزوں میں) اس وقت داخل کیے ہوں جب وہ دونوں پاک (یعنی باوضو حالت میں ) ہوں ۔“

777- سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قیام کیا (یعنی بکثرت نوافل ادا کیا ) کرتے تھے ، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں ورم آلود رہنے لگے ، تو عرض کی گئی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کیا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گزشتہ اور آئندہ گناہوں کی مغفرت نہیں کردی ہے ؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں ۔“

778-عروہ بن مغیرہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”جو شخص شراب فروخت کرتا ہے وہ گویا خنزیروں کا گوشت (یعنی اسے کھانے کو جائز سمجھتا ہے )۔ “
779- سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے منبر تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک ”مرفوع“ حدیث کے طور پریہ بات بیان کی : ”سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے اپنے پروردگار سے سوال کیا ۔ انہوں نے عرض کی ۔ اے میرے پروردگار ! جنت میں قدرو منزلت کے اعتبار سے سب سے کم مرتبے کا شخص کو ن ہوگا ؟“ تواللہ تعالیٰ نے فرمایا : ”وہ ایک ایسا شخص ہوگا ، جو اس کے بعد آئے گا ، جب اہل جنت ، جنت میں داخل ہوچکے ہوں گے ، تو اسے کہاں جائے گا : تم جنت میں داخل ہوجاؤ ۔ حالانکہ اہل جنت اپنی ، اپنی جگہ پر پہنچ چکے ہوں گے ۔ اور انہوں نے اپنی مخصوص جائے قیام پر پڑاؤ کر لیا ہوگا ، تواللہ تعالیٰ اس سے فرمائے گا : کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہیں (جنت میں) اتنی جگہ مل جائے ، جو دنیا میں کسی بادشاہ کے پاس ہوتی تھی ؟“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ ”وہ شخص عرض کرے گا ۔ اے میرے پروردگار ! جی ہاں ! میں اس سے راضی ہوں ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تو اس سے کہا جائے گا : ”تمہیں یہ اور اس کی مانند (مزید ) اور اس کی مانند (مزید) اور اس کی مانند (مزید ) اور اس کی مانند (مزید ) جگہ ملتی ہے ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ”وہ شخص عرض کرے گا ۔ اے میرے پروردگار ! میں راضی ہوں ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ، تو اس شخص سے کہا جائے گا ۔ ”تمہیں یہ بھی ملتی ہے اور اس کے ساتھ اس کی دس گنا (مزید جگہ بھی) ملتی ہے“ ، تو وہ عرض کرے گا : ”اے میرے پروردگار ! میں راضی ہوں ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ ”اس سے کہا جائے گا: اس کے ساتھ تمہیں وہ سب کچھ ملے گا ، جس کی تمہارے نفس کو خواہش ہے اور جس سے تمہاری آنکھوں کو لذت حاصل ہوتی ہے ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے عرض کی ۔ ”اے پروردگار ! جنت میں سب سے بلند ترین مرتبہ کس کا ہوگا ؟“ ، تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : ”تم اس کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں تمہیں ان لوگوں کے بارے میں بتاتا ہوں ۔ میں نے اپنے دست قدرت کے ذریعے ان کی کرامت کا پودا لگایا ہے اور میں نے اس پر مہر لگا دی ہے ، تو کسی آنکھ نے اسے دیکھا نہیں ، کسی کان نے اس کے بارے میں سنا نہیں اور کسی انسان کے ذہن میں اس کا خیال تک نہیں آیا ہوگا ۔“
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں اس کی تائید موجود ہے (ارشاد باری تعالیٰ ہے ) «فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ» (32-السجدة:14) ”کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ اس کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے کیا کچھ پوشیدہ رکھا گیا ہے ؟“

780-وراد جو سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے سیکرٹری ہیں وہ بیان کرتے ہیں: سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ کو خط لکھا ۔ کہ آپ مجھے کوئی ایسی حدیث لکھ کر بھجوائیں جو آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہو ، تو سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے انہیں جوابی خط میں لکھا ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سنا ۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مکمل کر لیتے تھے ، تو یہ پڑھتے تھے ۔ ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے ، وہی ایک معبود ہے ، اس کا کوئی شریک نہیں ہے ۔ بادشاہی اسی کے لیے مخصوص ہے اور وہ ہر شئے پر قدرت رکھتا ہے ۔ اے اللہ ! جسے تو عطا کردے اسے کوئی روکنے والا نہیں ہے اور جسے تو نہ دے اسے کوئی دینے والا نہیں ہے تیری مرضی کے مقابلے میں کسی کوشش کرنے والے کی کوشش (یا کسی صاحب حیثیت شخص کا مال و مرتبہ ) اس کے کسی کام نہیں آسکتا ۔“

781-عقار بن مغیرہ اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”جو شخص دم ، جھاڑ کرتا ہے یا داغ لگواتا ہے ۔ وہ توکل نہیں کرتا ۔“

782- سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے د جال کے بارے میں کسی نے اتنے سوالات نہیں کیے جتنے میں نے کیے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تمہیں اس کے بارے میں دریافت کرنے کی کیا ضرورت ہے ؟ تم اس تک نہیں پہنچ سکو گے (یا تم اس کا زمانہ نہیں پاؤ گے ) ۔“

تخریج:

775- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 182، 203، 206، 363، 388، 2918، 4421، 5798، 5799، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 274، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1326، 1342، 1346، 1347، 2224، 2225، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 17 ، 79، 82 ، 107، 108، 123، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1، 149، 150، 151، 156، 161، والترمذي فى «جامعه» برقم: 20، 98، 100، والدارمي فى «مسنده» 1 / 523، برقم: 686، 687، 740، 1374، 1375، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 331، 389، 545، 1236، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 267، 268، 269، 280، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4117، برقم: 18421، 8 / 4120، برقم: 18428)
776- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 182 203، 206، 363، 388، 2918، 4421، 5798، 5799، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 274، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1326، 1342، 1346، 1347، 2224، 2225، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 489، 610، 5953، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 17، 79، 82، 107، 108 ، 109، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1، 149، 150، 151، 156، 161، والترمذي فى «جامعه» برقم: 20، 98، 100، والدارمي فى «مسنده» برقم: 686، 687، 740، 1374، 1375، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 331، 389، 545، 1236، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 267، 268، 269، 280، 391، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4117، برقم: 18421، 8 / 4120، برقم: 18428)
777- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1130، 4836، 6471، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2819، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1643 ، والترمذي فى «جامعه» برقم: 412، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1419، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4807، 13398، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4135، برقم: 18485، 8 / 4143، برقم: 18527)
778- (إسناده جيد ، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 3489، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2147، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11160، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4138، برقم: 18501، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 735، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22039، والطبراني فى «الكبير» برقم: 884، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 8532)
779- (إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 189، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6216، 7385، 7426، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3198، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 35152، والطبراني فى "الكبير" برقم: 989)
780- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 844، 1477، 2408، 5975، 6330، 6473، 6615، 7292، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 593، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2005، 2006، 2007، 5555، 5556، 5719، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1340، 1341، 1342، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1505، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1389، 2793، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3065، 3066، 11459، 11460، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4119، برقم: 18426، 8 / 4122، برقم: 18434، 8 / 4124، برقم: 18445)
781- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6087، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 8373، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7561، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2055، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3489، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19603، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4130، برقم: 18467، 8 / 4135، برقم: 18487)
782- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7122، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2152، 2939، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6782، 6800، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4073، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4124، برقم: 18442، 8 / 4127، برقم: 18454، 8 / 4136، برقم: 18491)

 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا ابوموسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

783-زہدم جرمی بیان کرتے ہیں : ہم لوگ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس موجود تھے ۔ وہاں مرغی کا گوشت لایا گیا تو ایک شخص پیچھے ہٹ گیا ۔ اس نے کھانے میں حصہ نہیں لیا ، سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اسے دعوت دی تو وہ بولا: میں نے اسے گندگی کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔ اس لیے میں اسے گندا سمجھتا ہوں ۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے کھاتے ہوئے دیکھا ہے ۔

784- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کا جانور مانگیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سفید کوہان والے کچھ اونٹ پیش کئے گئے تھے، ہم نے عرض کی: یا رسول اللہ (ﷺ) ! ہمیں سواری کے لئے دیجئے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ قسم اٹھائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں سواری کے لئے جانور نہیں دیں گے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ اور اونٹ پیش کئے گئے ، ہم نے عرض کی : یا رسول اللہ (ﷺ) ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری سواری کے لئے دیجئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سواری کے لئے دے دئے، جب ہم وہاں سے واپس آئے تو ہم نے سوچا، یہ ہم نے کیا کیا ، کیا ہے؟ ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قسم کی طرف مبذول نہیں کروائی، پھر ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ہم نے اس بات کا تذکرہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں جب بھی قسم اٹھاؤں گا اور پھر اس کے برعکس کام کو سے بہتر سمجھوں گا، تو وہ کام کروں گا، جو زیادہ بہتر ہو اور اپنی قسم کا کفارہ ادا کردوں گا۔“

785-شعبہ کہتے ہیں : میں سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا ابوبردہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ان کے گھر کی پشت کی طرف کے کمرے میں موجود تھا ۔ انہوں نے اپنے بچوں کو بلاایا اور بولے : اے میرے بچو ! آگے آؤ تاکہ میں تمہیں وہ حدیث سناؤں جو میں نے اپنے والد کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کرتے ہوئے سنا ہے : میں نے اپنے والد کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو شخص ایک گردن (یعنی غلام یا کنیز ) کو آزاد کرتا ہے ، تواللہ تعالیٰ اس (غلام یا کنیز) کے ہر ایک عضو کے عوض میں اس (آزاد کرنے والے کے ) ہرایک عضو کو جہنم سے آزاد کردے گا ۔ “

786-صالح بن حیی کے صاحبزادے بیان کرتے ہیں : ایک شخص امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ کے پاس آیا، میں اس وقت ان کے پاس موجود تھا ۔ وہ بولا: اے ابوعمرو ! خراسان میں ہمارے ہاں کچھ ایسے لوگ ہیں ، جو اس بات کے قائل ہیں ، اگر کوئی شخص اپنی کنیز کو آزاد کرنے کے بعد پھر اس سے شادی کرلے ، تو وہ اپنے قربانی کے جانور پر سوار ہونے والے شخص کی مانند ہے ، تو امام شعبی رحمتہ اللہ علیہ نے جواب دیا : سیدنا ابوبردہ بن ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اپنے والد کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کیا ہے ۔ ”تین لوگوں کو دگنا اجر ملے گا ۔ اہل کتاب سے تعلق رکھنے والا وہ شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعشت سے پہلے بھی مومن تھا اور پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آیا ، تو اسے دگنا اجر ملے گا ۔ ایک وہ شخص جس کی کوئی کنیز ہو وہ اس کی تعلیم وتربیت کرے اور اچھی تعلیم وتربیت کرے ، پھر وہ اسے آزاد کرکے اس کے ساتھ شادی کرلے ۔ اور ایک وہ غلام جو اللہ تعالیٰ کے احکام کی بھی فرمانبرداری کرے اور اپنے آقا کے حق کو بھی ادا کرے تو اسے دگنا اجر ملے گا ۔ “
(امام شعبی نے فرمایا) : تم کسی معاوضے کے بغیر اسے حاصل کرلو ۔ حالانکہ پہلے کوئی شخص اس سے کم مضمون والی روایت کے لیے مدینہ منورہ تک کا سفر کیا کرتا تھا ۔

787- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”وہ امانت دار خزانچی جو اجر کی امید رکھتے ہوئے وہ چیز (اللہ کی راہ میں کسی کو ) دیتا ہے ۔ جس کا اسے حکم دیا گیا ہے ، تو وہ بھی صد قہ کرنے والوں میں سے ایک شمار ہوگا ۔ “

788- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”اچھے ہم نشین کی مثال عطار کی مانند ہے اگر وہ تمہیں اپنا عطر نہیں بھی دے گا ، تو اس کی خوشبو تم تک پہنچے گی ۔ اور برے ہمنشین کی مثال لوہار کی مانند ہے اگر وہ اپنے شراروں کے ذریعے تمہیں نہیں جلائے گا ، تو بھی اس کی بدبو تم تک پہنچے گی ۔ “

789- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”میرے سامنے سفارش کیا کرو ۔ تمہیں اجر ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی جو چاہے فیصلہ دے دیتا ہے ۔ “

790- سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی حیثیت رکھتا ہے ، جس کا ایک حصہ دوسرے کو مضبوط کرتا ہے “ ۔

791- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ، سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کایہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”جب کوئی شخص (کسی گھر میں داخل ہونے کے لیے ) تین مرتبہ اجازت مانگے اور اسے اجازت نہ ملے ، تو وہ واپس چلا جائے ۔ “

792-سعید بن جبیر فرماتے ہیں : تکلیف دہ بات کو سن کر اللہ تعالیٰ سے زیادہ صبرکرنے والا کوئی نہیں ہے ۔ لوگ اس کے شریک کو پکارتے ہیں ، لیکن وہ پھر بھی ان لوگوں کو رزق دیتا ہے ۔ انہیں عافیت فراہم کرتا ہے ۔
اعمش کہتے ہیں : سعید بن جبیر سے کہا گیا : اے عبداللہ ! آپ نے یہ روایت کس سے سنی ہے ؟ تو وہ بولے : میں غلط بیانی نہیں کروں گا ، ابوعبدالرحمن سلمی نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے ۔

تخریج:

783- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3133، 4385، 5517، 5518، 6623، 6649، 6680، 6718، 6719، 6721، 7555، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1649، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4354، 5222، 5255، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3788 ، 3789، 4357، 4358، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3276، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1826، 1827، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2099، 2100، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2107، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19467، 19541، 19867، 19902، 19903، أحمد فى «مسنده» برقم: 13033، 6 / 2889، برقم: 13827)
784- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3133، 4385، 5517، 5518، 6623، 6649، 6680، 6718، 6719، 6721، 7555، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1649، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4354، 5222، 5255، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3788 ، 3789، 4357، 4358، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3276، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1826، 1827، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2099، 2100، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2107، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 19467، 19541، 19867، 19902، 19903، أحمد فى «مسنده» برقم: 13033، 6 / 2889، برقم: 13827)
785-(إسناده صحيح وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2859، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4858، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21367، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4517، برقم: 19932، والطحاوي فى "شرح مشكل الآثار" برقم: 718)
786- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 97، 2544، 2547، 2551، 3011، 3446، 5083، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 154، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 227، 4053، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3344 ، 3345، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5476، 5477، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2053، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1116، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2290، 2291، وابن ماجه فى «سننه» 1956، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13851، 13852، 13853 15902، 15908، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4497، برقم: 19841، 8 / 4504، برقم: 19873)
787- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 481، 1438، 2101، 2260، 2319، 2446، 5534، 6026، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1023، 2585، 2628، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 231، 232، 561، 579، 3359، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 25591، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2352، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1684، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1928، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7941، 11245، 11628، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4493، برقم: 19821، 8 / 4518، برقم: 19933)
788- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 481، 1438، 2101، 2260، 2319، 2446، 5534، 6026، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1023، 2585، 2628، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 231، 232، 561، 579، 3359، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 25591، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2352، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1684، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1928، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7941، 11245، 11628، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4493، برقم: 19821، 8 / 4518، برقم: 19933)
789- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1432، 6027، 6028، 7476، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2627، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 531، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2555 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2348، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5131، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2672، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16777، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4508، برقم: 19893، 8 / 4538، برقم: 20020، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7296، والبزار فى «مسنده» برقم: 3181)
790- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 481، 1438، 2101، 2260، 2319، 2446، 5534، 6026، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1023، 2585، 2628، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 231، 232، 561، 579، 3359، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2559 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 2352، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1684، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1928، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7941، 11245، 11628، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4493، برقم: 19821، 8 / 4518، برقم: 19933)
791- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2062، 6245، 7353، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2153، 2154، ومالك فى «الموطأ» برقم: 3539 ، 3540 ، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5806، 5807، 5810، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5180، 5181، والترمذي فى «جامعه» 4 / 421، برقم: 2690، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2671، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3706، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13692، 17742، وأحمد فى «مسنده» 5 / 2282، برقم: 11186، 5 / 2321، برقم: 11314، 8 / 4493، برقم: 19819)
792- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6099، 7378، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2804، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 642، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 7661، 11261، 11381، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4495، برقم: 19836، 8 / 4509، برقم: 19898، 8 / 4519، برقم: 19943، والبزار فى «مسنده» 8 / 27، برقم: 3006، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20250 20273، والطبراني فى "الأوسط" برقم: 3470)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سید جندب بن عبداللہ البجلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

793-سفیان بیان کرتے ہیں ۔ اسود بن قیس سردیوں کے موسم میں دھوپ میں بیٹھے ہوئے اپنی جوئیں نکال رہے تھے ۔ انہوں نے ہمیں یہ حدیث سنائی ۔ وہ کہتے ہیں ۔ میں نے سیدنا جندب بجلی رضی اللہ عنہ کویہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے ، وہ کہتے ہیں : میں عید کے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ چلا کہ کچھ لوگوں نے نماز سے پہلے قربانی کرلی ہے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جس شخص نے نماز سے پہلے جانور ذبح کرلیا تھا وہ دوبارہ قربانی کرے اور جس نے پہلے ذبح نہیں کیا تھا ، اب وہ اللہ کا نام لے کر ذبح کرلے ۔ “

794- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں غاز میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی مبارک زخمی ہوئی تھی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا ۔ ”تم صر ف ایک انگلی ہو ، جو خون آلود ہوئی ہو تمہیں اللہ کی راہ میں اس صورت حال کا سامنا کرناپڑا ہے ۔ “

795- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : ایک مرتبہ جبرائیل علیہ السلام کچھ عرصے تک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں وحی لے کر حاضر نہیں ہوئے تو مشرکین یہ کہنے لگے : سیدنا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! کو چھوڑ دیا گیا ہے ، اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی : «وَالضُّحَى * وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى * مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى» ”چاشت کے وقت کی قسم ہے اور رات کی قسم ہے ، جب وہ چھا جائے ۔ تمہارے پروردگار نے نہ تو تمہیں چھوڑا ہے اور نہ ہی وہ تم سے ناراض ہوا ہے ۔ “

796- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو شخص مشہورہونا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مشہور کروا دیتا ہے اور جو شخص دکھاوا ظاہر کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا دکھاوا ظاہر کر دیتا ہے ۔ “

797- سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”خبر دار ! میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا ۔ “
سفیان کہتے ہیں ۔ اس روایت میں ایک اور چیز کا بھی ذکر ہے ۔

798- سیدنا صنابحی احمسی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”خبردار ! میں حوض کوثر پر تمہارا پیش رو ہوں گا اور میں دوسری امتوں کے سامنے تمہاری کثرت پر فخر کروں گا ، تو تم میرے بعد آپس میں لڑائی جھگڑا (یا مذہبی اختلافات) شروع نہ کر دینا ۔ “
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : صنابحی نامی یہ راوی ان کی کنیت ابواعسر ہے یہ بات ہمیں سفیان نے نہیں بتائی ہے ہمیں یہ دوسرے حوالے سے پتہ چلی ہے ۔

تخریج:

793- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 985، 5500، 5562، 6674، 7400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1960، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5913، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4380، 4410 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4442، 4469، 7615، وابن ماجه فى «سننه» 3152، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6351، 19090، 19183، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4282، برقم: 19100، 8 / 4283، برقم: 19104، 8 / 4283، برقم: 19107)
794- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2802، 6146، ومسلم فى «صحيحه» 1796 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6577، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 10317، 10381، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3345، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 13422، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4281، برقم: 19099، 8 / 4284، برقم: 19109)
795- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1124، 1125، 4950، 4951، 4983، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1797 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6565، 6566، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11617، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 4795، 4796، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4281، برقم: 19098، 8 / 4283، برقم: 19103، 8 / 4283، برقم: 19106، 8 / 4283، برقم: 19108)
796- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» ، برقم: 6499، 7152، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2987، وابن حبان فى «صحيحه» 2 / 133، برقم: 406، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 4207، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4284، برقم: 19110، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1524، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 36309، 36446، 37183)
797- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6589، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2289، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6445، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4284، برقم: 19111، 8 / 4284، برقم: 19112، 8 / 4284، برقم: 19113، 8 / 4285، برقم: 19115، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1525، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 32320، والطبراني فى "الكبير" برقم: 1688)
798- (إسناده صحيح وأخرجه ابن حبان فى صحيحه برقم: 5985، 6446، 6447 وابن ماجه فى سننه برقم: 3944 وأحمد فى مسنده 8 / 4381 برقم: 19375، 8 / 4387 برقم: 19389 وأبو يعلى فى مسنده برقم: 1452، 1454، 1455 وابن أبى شيبة فى مصنفه برقم: 32315، 38327، 38328 والطبراني فى الكبير برقم: 7414)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

799- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ نے مجھے یہ بات بتائی ہے میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی علا قے کے رہنے والے مشرکین کے بارے میں دریافت کیا گیا : جن پررات کے وقت حملہ کیا جاتا ہے ، اور ا س میں ان کی خواتین اور بچے مارے جاتے ہیں ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”وہ لوگ ان کا حصہ ہیں ۔“
سفیان کہتے ہیں ۔ عمر ونامی راوی نے پہلے یہ روایت زہری کے حوالے سے سنائی تھی ۔ اور اس میں یہ الفاظ نقل کیے تھے ۔ ”وہ اپنے آباؤ اجداد میں سے ہیں ۔“ لیکن جب ہمارے پاس زہری تشریف لائے ، تو یہ الفاظ میں نے ان سے نہیں سنے ۔ انہوں نے صرف یہی الفاظ بیان کیے ۔ ”وہ ان کا حصہ ہیں“ ۔

800- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں ۔ ”چراگاہ صرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے“ ۔

801- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نیل گائے کا گو شت پیش کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ”ابواء“ یا شاید ”ودان“ کے مقام پر تھے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے واپس کردیا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب میرے چہرے پرنا پسندیدگی کے آثار دیکھے تو ارشاد فرمایا : ”ہم نے یہ تمہیں واپس نہیں کرنا تھا ۔ لیکن ہم اس وقت احرام کی حالت میں ہیں ۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں : سفیان بعض اوقات ان دونوں روایات کو ایک ہی حدیث میں ایک ساتھ جمع کرکے بیان کر دیتے تھے اور بعض اوقات انہیں الگ ، الگ کرکے بیان کرتے تھے اور سفیان پہلے صرف ”نیل گائے“ کے الفاظ نقل کرتے تھے ، پھر بعد میں انہوں نے ”نیل گائے کے گوشت“ کے الفاظ نقل کرنا شروع کر دئیے ۔


------------------
سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

802-طاؤس بیان کرتے ہیں : میں نے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کو دیکھا ۔ ان کی ملاقات سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے سیدنا زید رضی اللہ عنہ کو حدیث یاد کروانا شروع کی، اور بولے : آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے یہ حدیث مجھے کیسے سنائی تھی؟ جو شکار کے گوشت کے بارے میں ہے ، تو سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے ان کے سامنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اس کی مانند روایت نقل کی ، جیسی روایت سیدنا صعب بن جثامہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔

803- سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ یمن میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں تین آدمی پیش کیے گئے ،۔ جنہوں نے اپنی کنیز کے ساتھ ایک ہی طہر کے دوران صحبت کی تھی اور اس کنیز کے ہاں بچہ پیدا ہوگیا تھا ، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے دو افراد سے کہا: ۔ کیا تم دونوں اپنے تیسرے ساتھی کے حق میں دستبر دار ہو نا چاہوگے ؟ ان دونوں نے جواب دیا : جی نہیں ۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے باقی دو سے دریافت کیا : کیا تم دونوں اپنے ساتھی کے حق میں دستبردار ہونا چاہوگے ؟ ان دونوں نے بھی جواب دیا : جی نہیں ، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا : ”تم آپس میں اختلاف رکھنے والے شراکت دار ہو میں تمہارے درمیان قرعہ اندازی کرواتا ہوں ۔ جس کے نام قرعہ نکل آیا میں بچے کو اس کے ساتھ لاحق کردوں گا اس شخص کو اپنے باقی دوساتھیوں کو کنیز کی دو تہائی قیمت تاوان کے طور پر دینا ہوگی ۔“ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ جب ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس بات کا ذکر کیا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس بارے میں میری بھی وہی رائے ہے ، جو علی نے بیان کی ہے ۔“

804-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ بھی منقول ہے ۔


------------------
سیدنا یعلیٰ بن امیہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

805-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر یہ آیات تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے : «وَنَادَوْا يَا مَالِكُ» (43-الزخرف:77) ”اور وہ ندادیں گے : اے مالک !“

806-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ۔ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوۂ تبوک میں شریک ہوا میں نے اس جنگ میں اللہ کی راہ میں ایک جوان اونٹ دیا تھا جو میرے نزدیک میرا سب سے بہتر ین عمل تھا ۔ میں نے اس شخص کو ملازم رکھا اس کی ایک اور شخص کے ساتھ لڑائی ہوگئی ۔ اس نے اس کے ہاتھ پر کاٹا تو دوسرے شخص نے اس کے منہ سے اپنے ہاتھ کو کھینچا تو پہلے شخص کے سامنے کے دانت گرگئے ۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا وہ اپنے ہاتھ کو تمہارے منہ میں رہنے دیتا ؟ تاکہ تم اسے یوں چبا لیتے ۔ جس طرح اونٹ چباتا ہے“ ۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نقصان کو کالعدم قراردیا ۔

807-ایک سند کے ساتھ یہ روایت عطاء نے بیان کی ہے اور انہوں نے اس کی سند بیان نہیں کی ۔ سفیان نامی راوی بعض اوقات ان دونوں روایات کوا یک ساتھ ذکر کر دیتے ہیں اور اس کی سند میں ادراج کرتے ہیں ، لیکن جب وہ ان دونوں روایات کو الگ سے نقل کرتے ہیں، تو وہ ابن جریج سے منقول روایت کو ”مسند“ روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں : اور عمر و سے منقول روایت کو ”مرسل“ روایت کے طور پر نقل کرتے ہیں ۔

808-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں : ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ”جعرانہ“ کے مقام پر موجود تھے ۔ ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اس نے جبہ پہنا ہوا تھا ۔ اور وہ خوشبو میں لتھڑا ہوا تھا ۔ اس نے عرض کی : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں نے عمرے کا احرام باندھ لیا ہے اور یہ پہنا ہوا ہے ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”تم نے حج کرنا ہوتا ، تو تم کیا کرتے ؟“ اس نے عرض کی ۔ پھر میں اس خوشبو کو دھولیتا اور اس قبے کواتا ر دیتا (اور ان سلا لباس پہنتا ) تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو تم نے اپنے حج میں کرنا ہوتا ہے ۔ وہی اپنے عمرے میں کرو ۔“

809-صفوان بن یعلیٰ اپنے والد کایہ بیان نقل کرتے ہیں : میں نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے یہ کہا: میری یہ خواہش ہے ، میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت دیکھوں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہورہی ہوتی ہے ۔ سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ۔ ہم ”جعرانہ“ کے مقام پر موجود تھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بلوایا ۔ میں ان کے پاس آیا ، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرا س وقت چادرڈال دی گئی تھی ، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے کپڑا ہٹا کر مجھے دکھایا ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک سرخ ہورہا تھا ۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ کیفیت ختم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا : سوال کرنے والا شخص کہاں ہے ؟ اس سے پہلے ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تھا ۔ وہ خوشبو میں لتھڑا ہوا تھا ۔ اور اس نے یہ جبہ پہن کر احرام باندھاہے ( سیدنا یعلیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں) اس سائل نے عرض کی : میں یہاں ہوں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”تم اپنے حج میں کیا کرتے ؟“ وہ بولا: میں اس خوشبو کو دھو لیتا اور جبے (یعنی سلے ہوئے کپڑے ) کو اتار دیتا ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جوتم اپنے حج میں کرتے ہووہی اپنے عمرے میں کرو ۔“


------------------
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

810- سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں ۔ میرے والد نے مجھے ایک خط املاء کروایا ۔ جو انہوں نے میرے بھائی کو لکھا تھا ۔ جو کسی علاقے کا گورنر تھا (اس میں یہ تحریر تھا) کہ تم غصے کی حالت میں دو آدمیوں کے درمیان فیصلہ نہ دینا کیونکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”ثالث کے لیے یہ بات مناسب نہیں ہے ، وہ دو آدمیوں کے درمیان اس وقت فیصلہ دے جب وہ غصے کی حالت میں ہو ۔“

811- سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر دیکھا ۔ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ لوگوں صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوتے تھے ۔ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوتے اور یہ ارشاد فرما رہے تھے : ”میرا یہ بیٹا سردار ہے ، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مسلمانوں کے دو بڑے گروہوں کے درمیان صلح کروائے گا ۔“

تخریج:

799- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3012، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1745، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 136 137، 4786، 4787، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 6685، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8568، 8569، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2672، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1570، وابن ماجه فى "سننه برقم: 2839، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18167، 18169، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3583، برقم: 16687، 7 / 3583، برقم: 16689)
800- (إسناده صحيح و أخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2370، 3012، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 136، 137، 4684، 4787، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2371، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5743 ، 8570، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3083، 3084، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11923، 11924، 11925، 13501، 18169 وأحمد فى «مسنده» 7 / 3583، برقم: 16684، 7 / 3583، برقم: 16688)
801- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1825، 2573، 2596، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1193، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 136، 3967، 3969، 4787، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2818، 2819 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3787، 3788، والترمذي فى «جامعه» برقم: 849، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1870، 1872، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 3090، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10037، 10038، 10039، 10040، 10041، 18169، وأحمد فى «مسنده» 7 / 3583، برقم: 16683، 7 / 3583، برقم: 16686)
802- (رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن ولكن الحديث صحيح فقد أخرجه مسلم 1195، و وابن حبان فى ” صحيحه“ : 3968، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2820 ، 2821 ، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3789، 3790، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1850، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10049، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4428، برقم: 19579، 8 / 4434، برقم: 19602)
803- (إسناده حسن وأخرجه الحاكم فى «مستدركه» برقم: 2846، 4684، 4685، 7129، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3488 ، 3489 ، 3490 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2269، 2270، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2348، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 21339، 21340، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4441، برقم: 19637، 8 / 4444، برقم: 19650، 8 / 4444، برقم: 19652، والطبراني فى "الكبير" 5 / 173، برقم: 4990)
804- (إسناده ضعيف لا يضعف به إسناد قوي وانظر التعلقين السابقين)
805- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3230، 3266، 4819، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 871، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 11415، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3992، والترمذي فى «جامعه» برقم: 508، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5861، وأحمد فى «مسنده» 7 / 4060، برقم: 18244، والطبراني فى "الكبير" 22 / 260، برقم: 671)
806- (إسناده ضعيف فيه عنعنة ابن جريج ولكنه صرح بالتحديث عند ان أبى شيبة وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2265، 2973، 4417، 6893، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1673، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5997، 6000، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5842، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4777 ، 4778 ، 4779 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4584، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2656، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 17718، وأحمد فى «مسنده» 7 / 4057، برقم: 18232، 7 / 4058، برقم: 18236، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28222)
807- (أخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28224)
808- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1536، 1789، 1847، 4329، 4985، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1180، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3778، 3779، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2667 ، 2708 ، 2709 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1819، والترمذي فى «جامعه» برقم: 835، 836، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9189، 9190، وأحمد فى «مسنده» 7 / 4057، برقم: 18231، 7 / 4061، برقم: 18247)
809- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1536، 1789، 1847، 4329، 4985، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1180، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3778، 3779، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2667 ، 2708 ، 2709 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1819، والترمذي فى «جامعه» برقم: 835، 836، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9189، 9190، وأحمد فى «مسنده» 7 / 4057، برقم: 18231، 7 / 4061، برقم: 18247)
810- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7158، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1717، 1717، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5063، 5064، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 5421، 5436، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 5923، 5942، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3589، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1334، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2316، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20334، 20335، 20336، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4709، برقم: 20706، 9 / 4712، برقم: 20716)
811- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2704، 3629، 3746، 7109، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 6964، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4836، 4837، 4838، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1409 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4662، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3773، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12043، 13520، وأحمد فى «مسنده» 9 / 4713، برقم: 20719، 9 / 4729، برقم: 20778)
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
------------------
سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
------------------

812- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اس بات کی بیعت کی تھی کہ ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی اختیار کروں گا ۔
سفیان نامی راوی نے ایک اور سند کے ساتھ اس میں سیدنا جریر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ بھی نقل کیے ہیں ۔ ”میں تم لوگوں کا خیر خواہ ہوں ۔“

813- سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کے لیے خیر خواہی کی بیعت کی تھی ۔

814- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب زکوٰۃ وصول کرنے والا شخص تمہارے پاس آئے تو وہ مطمئن ہو کر تم سے الگ ہو ۔“

815-ہمام بن حارث بیان کرتے ہیں ۔ میں نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو مسجد کے وضو خانے سے وضو کرتے ہوئے دیکھا؟ جہاں سے عام لوگ بھی وضو کرتے ہیں ۔ پھر انہوں نے اپنے موزوں پر مسح کر لیا تو ان سے دریافت کیاگیا : آپ ایسا کرتے ہیں ۔ انہوں نے فرمایا : میں ایسا کیوں نہ کروں ، جبکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔
ابراہیم نخعی بیا ن کرتے ہیں ۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں کو یہ روایت بہت پسند تھی ۔ کیونکہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے سورۃ مائدہ نازل ہونے کے بعد اسلام قبول کیا تھا ۔

816- سیدنا جریررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر (حاکم کی) اطاعت و فرمانبرداری کرنے ، نماز قائم کرنے ، زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کی بیعت کی تھی ۔

817- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ مہینے کی چودھویں رات میں ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”کیا تم اس چاند کو دیکھ رہے ہو؟ بے شک تم اپنے پروردگار کا اسی طرح دیدار کرو گے ، جس طرح تم اس چاند کو دیکھ رہے ہوکہ تمہیں اسے دیکھنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آرہی ، تو تم میں سے جس شخص کے لیے یہ ممکن ہو وہ سورج نکلنے سے پہلے والی اور سورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز کے حوالے سے مغلوب نہ ہوجائے (یعنی انہیں قضانہ کرے ) “

818- سیدنا جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی مجھے دیکھتے تھے ، تو مجھے دیکھ کر مسکر ادیتے تھے ۔

819- سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”اس دروازے میں سے تمہارے سامنے ایک ایسا شخص آئے گا ، جو برکت والوں میں سب سے بہتر ہے اور اس کے چہرے پر فرشتے نے ہاتھ پھرا ہے ۔“ تو سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ وہاں سے سامنے آئے ۔

820- سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”کیا تم یمن کے ( بت کدے ) ”خلصہ“ کو تباہ نہیں کرو گے ؟“ میں نے عرض کی : یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ! میں ایک ایسا شخص ہوں ۔ جو گھوڑے پرجم کر نہیں بیٹھ سکتا ۔ راوی کہتے ہیں : تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سینے پر ہاتھ مارا ور دعا کی ۔ ”اے اللہ ! اسے جماکے رکھ اور اسے ہدایت دینے والا اور ہدایت کا مرکز بنادے ۔“
راوی کہتے ہیں : میں روانہ ہوا ۔ سفیان نامی راوی کہتے ہیں : شاید چالیس یا پچاس افراد کے ہمراہ روانہ ہوا جو میری قوم سے تعلق رکھتے تھے ۔ میں نے اس بت خانے کو جلا دیا ۔ پھر میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خد مت میں حاضر ہوا ۔ میں نے عرض کی : میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا ہوں ۔ جب میں نے اسے خارش زادہ اونٹ کی مانند (بے کار) چھوڑا تھا ( یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے ) راوی کہتے ہیں : تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے احمس قبیلے کے گھڑ سواروں اور پیادہ افراد کے لیے تین مرتبہ دعائے رحمت کی ۔

821- سیدنا جریررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے : ”جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔ اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا ۔“

822-نافع بن جبیر بیان کرتے ہیں ۔ سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک جنگی مہم کا سپہ سالار مقرر کیا ۔ راستے میں انہیں شدید سردی لاحق ہوئی تو سیدنا جریر رضی اللہ عنہ انہیں لے کر واپس آگئے ۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا : آپ انہیں لے کر واپس کیوں آئے ہیں؟ تو سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بولے : میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے : ”جو شخص لوگوں پر رحم نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا ۔“ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے دریافت کیا : آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی یہ بات سنی ہے ؟ تو انہوں نے جواب دیا : ”جی ہاں ۔“

823-سفیا ن نامی راوی کہتے ہیں : سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ لوگوں کے سامنے یہ واضح کرنا چاہ رہے تھے ۔ کہ انہوں نے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو اس لیے چھوڑ دیا کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے حدیث بیان کردی ہے ورنہ اور کسی کی اتنی جرأت نہیں ہوسکتی ، کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ سے اجازت لیے بغیر کسی مہم سے واپس آجائے ۔

824- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں : کچھ لوگ پھٹے پرانے کپڑوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مد د کی درخواست کی ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو صدقہ کرنے کی ترغیب دی ، تو لوگوں نے عطیات نہیں دئیے اس کا رد عمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک سے ظاہر ہوا پھر انصار سے تعلق رکھنے والا ایک شخص لوہے کا ایک ٹکڑا لے کر آیا (یہاں ایک لفظ کے بارے میں راوی کو شک ہے ) تو لوگ یکے بعد دیگرے (اس کی دیکھا دیکھی) چیزیں لانے لگے ، یہاں تک کہ اس چیز کاردعمل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر محسوس ہوا (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے ) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ”جو شخص کسی اچھے کام کا آغاز کرتا ہے ۔ اور اس پر عمل کیا جاتا ہے ، تو اس شخص کو ان تمام لوگوں جتنا اجر ملے گا ، جو اس اچھے کام پر عمل کرتے ہیں اور ان لوگوں کے اجر میں کوئی کمی نہیں ہوگی ، جو اس پر عمل کرتے ہیں ، اور ان لوگوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہو گی ۔“

825- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ”جب کوئی غلام مفرور ہو کر دشمن کی سرزمین کی طرف چلا جائے ، تو اس سے اللہ تعالیٰ کا ذمہ ختم ہو جاتا ہے“ ۔

826-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے ۔

827- سیدنا جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے فرمایا ۔ ” (قبر بناتے ہوئے ) لحد کا طریقہ ہمارے لیے ہے اور شق کا طریقہ دوسروں کے لیے ہے ۔“

تخریج:

812- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 57، 58، 524، 1401، 2157، 2714، 2715، 7204، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 56، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4545، 4546، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4167 ، 4168 ، 4185 ، 4186 ، 4187 ، 4188 ، 4200 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4945، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1925، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2582، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10563، 10564، 16651، 17824، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4402، برقم: 19459، 8 / 4403، برقم: 19460، 8 / 4405، برقم: 19468)
813- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 57، 58، 524، 1401، 2157، 2714، 2715، 7204، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 56، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4545، 4546، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4167 ، 4168 ، 4185 ، 4186 ، 4187 ، 4188 ، 4200 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4945، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1925، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2582، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10563، 10564، 16651، 17824، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4402، برقم: 19459، 8 / 4403، برقم: 19460، 8 / 4405، برقم: 19468)
814- (إسناده صحيح نعم مجالد بن سعيد ضعيف لكنه متابع عليه أخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 989، 1017، وابن حبان فى «صحيحه» 8 / 101، برقم: 3308، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2459، 2460 ، 2553، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1589، والترمذي فى «جامعه» برقم: 647، 648، 2675، والدارمي فى «مسنده» برقم: 529، 531، 1712، 1713، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 203، 1802، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7472، 7623، 7624، 7835، 7836، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4403، برقم: 19463، 8 / 4404، برقم: 19464)
815- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 387، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 272، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1335، 1336، 1337، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 608، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 51، 118، 773، وأبو داود فى «سننه» برقم: 154، والترمذي فى «جامعه» برقم: 93، 94، 611، 612، والدارمي فى «مسنده» برقم: 706، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 359، 543، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 526، 562، 1296، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4406، برقم: 19475، 8 / 4414، برقم: 19508، 8 / 4418، برقم: 19529، 8 / 4418، برقم: 19531)
816- (إسناده ضعيف، من أجل مجالد، والحديث متفق عليه، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 57، 58، 524، 1401، 2157، 2714، 2715، 7204، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 56، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4545، 4546، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 5949، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4167، 4168 ، 4185، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4945، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1925، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2582، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10563، 10564، 16651، 17824، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4402، برقم: 19459، 8 / 4403، برقم: 19460)
817- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 554، 1 / 119، برقم: 573، 4851، 7434، 7435، 7436، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 633، 634، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7442، 7443، 7444، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4729، والترمذي فى «جامعه» برقم: 2551، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 177، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 1712، 2216، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4412، برقم: 19497، 8 / 4415، برقم: 19512)
818- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3822، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2475، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7200، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8244، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3820، 3821، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 159، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16785، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4406، برقم: 19480، 8 / 4409، برقم: 19485)
819- (إسناده صحيح وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1797، 1798، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7199، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1057، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8246، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 5924، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4409، برقم: 19487، 8 / 4410، برقم: 19488، 8 / 4419، برقم: 19535)
820- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 3020، 3035، 3076، 3823، 4355، 4356، 4357، 6089، 6333، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2475، 2476، 2476، 2476، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 7201، 7202، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 8245، 8558، 8618، 10281، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2772، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 18656، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4411، برقم: 19492، 8 / 4412، برقم: 19495، 8 / 4415، برقم: 19511، 8 / 4422، برقم: 19556)
821- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6013، 7376، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2319 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 465 467، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1922، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16739، 17976، 17977، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4405، برقم: 19468، 8 / 4405، برقم: 19471)
822- (إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 6013، 7376، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2319 وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 465 467، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1922، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16739، 17976، 17977، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4405، برقم: 19468، 8 / 4405، برقم: 19471)
823-(انفرد به المصنف من هذا الطريق)
824- (إسناده حسن وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 989، 1017، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3308، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2459 ، 2460 ، 2553، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1589، والترمذي فى «جامعه» برقم: 647، 648 2675، والدارمي فى «مسنده» برقم: 529، 531، 1712، 1713، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 203، 1802، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7472، 7623، 7624، 7835، 7836، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4403، برقم: 19463، 8 / 4404، برقم: 19464)
825- (إسناده ضعيف لانقطاعه، حبيب بن أبى ثابت لم يدر جريراً۔ وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 68، 69، 70، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 941، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4060 ، 4061 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4360، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16976، 16977، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4403، برقم: 19462، 8 / 4417، برقم: 19518)
826- (إسناده فيه جهالة، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 941، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4060، 4061 ، 4062 ، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4360، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16976، 16977، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4403، برقم: 19462، 8 / 4417، برقم: 19518، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 33529، 33530، والطبراني فى «الصغير» برقم: 826)
827- (إسناده ضعيف لضعف ثابت بن أبى صفية ، ولكنه صحيح بطرقه و شواهده أخرجه ابن ماجه فى «سننه» 2 / 501، برقم: 1555، والبيهقي فى «سننه الكبير» 3 / 408، برقم: 6820، وأحمد فى «مسنده» 8 / 4404، برقم: 19465، 8 / 4404، برقم: 19466، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 7 / 310، برقم: 11748، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» 2 / 319، برقم: 2328)
 
Last edited:
Top