• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
301- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے بعد یہ پڑھتے تھے۔ ”اے اللہ ! میں تجھ سے نفع دینے والے علم، پاکیزہ رزق اور قبول ہونے والے عمل کا سوال کرتا ہوں۔“
( إسناده ضعيف فيه جهالة. ولكن الحديث صحيح، وقد استوفينا الحديث عنه فى «مسندالموصلي» برقم 6930، و 6950، 6997 اخرجه ابن ماجه فى سننه 928 ، وأحمد فى المسند 25956 , 26035 , 26124 , 26155 ، والنسائي فى الكبرى 8668 ، والطيالسي فى مسنده 1699 ، وعبدالرزاق فى مصنفه 3090 ، وابن أبى شيبة فى مصنفه 28689 ، وعبد بن حميد فى مسنده 1540 )

302- سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی اولاد سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب سلمہ بیان کرتے ہیں: حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا ایک شخص کے ساتھ جھگڑا ہو گیا وہ اپنامقدمہ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کے حق میں فیصلہ دے دیا تو وہ شخص بولا: آپ نے ان کے حق میں اس لیے فیصلہ دیا ہے کیونکہ یہ آپ کے پھوپھی زاد ہیں تو الله تعالی نے یہ آیت نازل کی:
”تمہارے پروردگار کی قسم یہ لوگ اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتے جب تک آپس کے اختلافی معاملات میں تمہیں حاکم تسلیم نہیں کرتے اور پھرتم نے جو فیصلہ دیا ہو اس کے بارے میں اپنے من میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتے اور اسے مکمل طور پر تسلیم نہیں کرتے ہیں“ ۔ (4-النساء:65)
(إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى المساقاة 2359، ومسلم فى الفضائل 2357، وقد استوفينا تخريجه والتعليق عليه فى «مسند الموصلي» برقم 6814،، كما خرجناه فى صحيح ابن حبان برقم 24)


303- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں یہ نہیں سنا کہ اللہ تعالیٰ نے ہجرت کے حوالے سے خواتین کا تذکرہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی:
”پس ان کے رب نے ان کی دعا قبول فرمالی کہ تم میں سے کسی کام کرنے والے کے کام کو خواه وه مرد ہو یا عورت میں ہرگز ضائع نہیں کرتا“ (3-آل عمران:195)
(إسناده جيد، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي برقم 6958 اخرجه الترمذي فى جامعه 3095 , 3096 ، وأحمد فى المسند 26009 , 26036 , 26160 ، والحاكم فى المستدرك 3131 , 3152 , 3519 ، والنسائي فى الكبرى 10028 , 10029 )

304- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، فاطمہ بن ابو حبیش کو استحاصہ کی شکایت ہوگئی تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ دریافت کیا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”یہ حیض نہیں ہے، بلکہ یہ کسی دوسری رگ کا مواد ہے۔“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خاتون کو یہ ہدایت کی کہ اپنے حیض کے مخصوص دنوں میں وہ نماز ترک کردے پھر وہ غسل کرے، پھر اگر خون غالب آجائے تو وہ کپڑے کو مظبوطی سے باندھ کر نماز ادا کرے۔
( إسناده صحيح، وقد استوفينا تخريجه فى «مسند الموصلي» برقم 6894 وأحمد فى المسند 25946 , 26026 , 26140 , 26164 ، ومالك فى الموطأ 135 ، والحاكم فى المستدرك 6985 ، والدارمي فى سننه 816 ، والنسائي فى الكبرى 210 )

305- ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب گھر سے باہر تشریف لے جاتے تھے، تو یہ پڑھتے تھے۔ ”اے اللہ میں اس بات سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ میں پھسل جاؤں، یا مجھے گمراہ کردیا جائے یا میں ظلم کروں، یا میرے اوپر ظلم کیا جائے یا میں جہالت کا مظاہرہ کروں، یا میرے خلاف جہالت کا مظاہرہ کیا جائے۔“
(إسناده صحيح، إن كان الشعبي سمعه من أم سلمة، فقد قال ابن المديني فى العلل:ولم يلق أبا سعيد ولا أم سلمة اخرجه أبو داود فى سننه 4495 ، والنسائي فى الصغرى 5487 ، والترمذي فى جامعه 3502 ، و 5435 ، وابن ماجه فى سننه 3908 ، وأحمد فى المسند 26047 , 26129 , 26153 ، والحاكم فى المستدرك 1863 ، والنسائي فى الكبرى 6698 , 6699 , 6700 , 8651 , 8652 , 8653 ، والطيالسي فى مسنده 1701 ، وابن أبى شيبة فى مصنفه 28626 ، وعبد بن حميد فى مسنده 1541 ، وابن المنذر فى الأوسط 1199 ، والطبراني فى الكبير 18391 ، وأبو نعيم الأصبهاني فى حلية الأولياء 10711 , 11822 ، والبيهقي فى السنن الكبير 9691 )

306-سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما اپنی والدہ ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا بیان نقل کرتی ہیں، ایک خاتون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اس نے عرض کیا: یا رسول اللد (صلی اللہ علیہ وسلم) ! میری بیٹی کا شوہر انتقال کر گیا ہے اور میری بیٹی کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو کیا وہ سرمہ لگالے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا: پہلے کوئی عورت ایک سال گزرنے کے بعد مینگنی پھینکتی تھی (یعنی ایک سال بعد اس کی عدت ختم ہوتی تھی) تو چار ماہ دس دن ہیں۔
یحییٰ کہتے ہیں: میں نے حمید بن نافع سے دریافت کیا:نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان الفاظ سے مراد کیا ہے۔ پہلے کوئی عورت ایک سال گزرنے کے بعد مینگنی پھینکتی تھی تو انہوں نے بتایا: زمانہ جاہلیت میں کوئی عورت (سوگ کے دوران) انتہائی برے کپڑے پہن لیتی تھی پھر وہ گھر کے دور دراز کے کمرے میں چلی جاتی تھی ایک سال گزر جانے کے بعد و مینگنی لے کر اسے اپنی پشت کے پچھے پھینکتی تھی یہاں امام حمیدی الی نے بعض اوقات یہ الفاظ نقل کیے ہیں وہ اپنے پیچھے پھینکتی تھی اور یہ کہتی تھی میں حلال ہوگئی۔
( إسناده صحيح، والحديث متفق عليه، فقد أخرجه البخاري فى الطلاق 5336، ومسلم فى الطلاق 1488، وقد استوفينا تخريجه فى مسند الموصلي، برقم 6961، وفي صحيح ابن حبان، برقم 3404)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث أم حبيبة بنت أبي سفيان زوج النبي صلى الله عليه وسلم

307- نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں ، ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں یہ کرتے تھے کہ صبح اندھیرے میں ہی مزدلفہ سے منیٰ کی طرف روانہ ہوجاے تھے ۔
سفیان کہتے ہیں : سالم بن شوال نامی راوی مکہ سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب ہیں میں نے ایسے کسی شخص کو نہیں سنا جس نے ان کے حوالے سے روایات بیان کی ہوں صرف عمرو بن دینار نے ان کے حوالے سے یہ روایت بیان کی ہے ۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «الحج» 4 / 77 ، برقم : 1292 ، والنسائي فى ا «لمجتبى» 1 / 599 ، برقم : 3035 / 4 ، 1 / 599 ، برقم : 3036 / 5 ، والنسائي فى الكبرى 4 / 169 ، برقم : 4025 ، 4 / 169 ، برقم : 4026 ، والدارمي فى «مسنده» 2 / 1199 ، برقم : 1927 ، والبيهقي فى ”سننه الكبير“ 5 / 124 ، برقم : 9611 ، ، 5 / 124 ، برقم : 9612 ، وأحمد فى ”مسنده“ 12 / 6468 ، برقم : 27418 ، 12 / 6669 ، برقم : 28039 ، 12 / 6671 ، برقم : 28048 ، وأبو يعلى فى «مسنده» 13 / 40 ، برقم : 7122 ، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» 2 / 219 ، برقم : 3991 ، والطبراني فى «الكبير» 23 / 242 ، برقم : 481 ، 23 / 245 ، برقم : 490 )

308- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں جب سیدنا ابوسفيان رضی اللہ عنہ کے انتقال کی اطلاع شام سے آئی تو سیده ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے تیسرے دن زرد رنگ منگایا اور اسے اپنے رخساروں اور کلائیوں پر لگایا اور یہ بات بیان کی مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی لیکن میں نے نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے :
”الله تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی کسی بھی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے وہ کسی کے مرنے پر تین دن سے زیادہ سوگ کرے البتہ اس کے شوہرکا مختلف ہے کیونکہ وہ اس پر چار ماہ دس دن سوگ کرے گی ۔“
سفیان سے یہ کہا: گیا : امام مالک نے اس روایت کے بارے میں یہ کہا: ہے حمید بن نافع کے حوالے سے سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا سے یا سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا سے یا سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے تو سفیان نے کہا: ایوب بن موسیٰ ہمیں یہ روایت سناتے ہوئے صرف سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ کیا ہے
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري في ”الطلاق“ برقم : 1280 ، 1281 ،5334 ، 5335 ، 5336 ، 5338 ، 5339 ، 5345 ، 5706 ، ومسلم فى ”الطلاق“ 1486 ، 1487 ، 1489 ،1486 ، 1488 ، 1488 ، 1486 ،1486 ، ومالك فى ”الموطأ“ 1 / 860 ، برقم : 2215 ، 2216 وابن الجارود فى ”المنتقى“ 1 / 285 ، برقم : 826 ، 830 ، وابن حبان فى ”صحيحه“ برقم : 4304 ، والنسائي فى ”المجتبى“ 1 / 692 ، برقم : 3500 / 1 ، 3501 / 2 والنسائي فى ”الكبرى“ 5 / 293 ، برقم : 5663 ، وأبو داود فى ”سننه“ برقم : 2299 ، والترمذي فى“ ”جامعه“ ”2 / 485 ، برقم : 1195 ، وابن ماجه فى ”سننه“ 3 / 229 ، برقم : 2084 وأبو يعلى في «مسنده» برقم: 6961 )

309- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتی ہیں، انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوسفیان کی صاحبزادی ”درہ“ میں دلچسپی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کیا کروں؟“ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا : آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ شادی کرلیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا تمہیں یہ بات پسند ہے؟“ میں نے جواب دیا : میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی اکلوتی بیوی نہیں ہوں میں یہ چاہتی ہوں کہ میری بہن بھی میری شراکت دار ہوجائے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ میرے لئے حلال نہیں ہے“ ، تو میں نے عرض کی مجھے تو یہ پتہ چلا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم زینب بنت ابوسلمہ کے لئے نکاح کا پیغام بھیجنے والے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”ام سلمہ کی بیٹی کے لئے؟“ میں نے جواب دیا : جی ہاں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم! اگر وہ میری سوتیلی بیٹی نہ ہوتی، تو بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی کیونکہ مجھے اور اس کے والد کو ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے، تم لوگ اپنی بیٹیوں ، یا بہنوں کا رشتہ میرے سامنے نہ پیش کیا کرو۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «النكاح» برقم: 5101، 5106، 5107، 5123، 5372، ومسلم برقم: 1449، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4110، والنسائي فى ”المجتبى“ برقم: 3284 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 5 / 185، برقم: 5392، وابن ماجه فى ”سننه“ 3 / 120، برقم: 1939، وأحمد فى "مسنده" 12 / 6394، برقم: 27137، وأبو يعلى فى "مسنده" 13 / 49، برقم: 7128)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث زينب بنت جحش الأسدية رضي الله عنها

310- سیدہ زینب بنت ابوسلمہ رضی اللہ عنہما، سیدہ حبیبہ بنت ام حبیبہ رضی اللہ عنہما کے حوالے سے ان کی والدہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتی ہیں، ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرۂ مبارک سرخ تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے۔ ”اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کے علاوہ اور کوئی معبود نہیں ہے، عربوں کے لئے اس شر کے حوالے سے بربادی ہے ، جو قریب آچکا ہے آج یاجوج ماجوج کی رکاوٹ کا اتنا حصہ کھل گیا ہے۔“
سفیان نامی راوی نے دس کا نشان بنا کر یہ بات بتائی۔
میں نے عرض کی : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا ہم لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے ، جبکہ ہمارے درمیان نیک لوگ بھی موجود ہوں گے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں! جب برائی زیادہ ہوجائے گی (تو سب لوگ ہلاکت کا شکار ہوجائیں گے) ۔“
سفیان کہتے ہیں: میری یاداشت کے مطابق اس روایت میں چار خواتین کا تذکرہ ہے اور یہ سب صحابیات ہیں ان میں سے دو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج ہیں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا اور دو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سوتیلی صاحبزادیاں ہیں یعینی سیدہ زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ حبیبہ بنت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا۔ ان کے والد کا نام عبید اللہ بن حجش رضی اللہ عنہ تھا جن کا انتقال حبشہ کی سرزمین پر ہوا تھا۔
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى ”الأنبياء“برقم: 3346، 3598، 5293، 7059، 7135، ومسلم فى ”الفتن“ برقم: 2880، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 327، 6831، والنسائي فى «الكبرى» 10 / 166، برقم: 11249، ، 10 / 186، برقم: 11270، والترمذي فى "جامعه" 4 / 55، برقم: 2187، وابن ماجه فى «سننه» 5 / 99، برقم: 3953، والبيهقي فى «سننه الكبير» 10 / 93، برقم: 20254، ، 10 / 93، برقم: 20255، وأحمد فى «مسنده » 12 / 6674، برقم: 28056، ، 12 / 6674، برقم: 28057، ، 12 / 6675، برقم: 28059، وأبو يعلى في”مسنده“ برقم: 7155، برقم: 7159، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 20749، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 21 / 74، برقم: 38369، والطبراني فى «الكبير» 24 / 51، برقم: 135، ، 24 / 51، برقم: 136، ، 24 / 52، برقم: 137، ، 24 / 53، برقم: 138، ، 24 / 55، برقم: 142، والطبراني فى «الأوسط» 7 / 218، برقم: 7319)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم

311- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھے یہ بات بتائی کہ وہ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرلیا کرتے تھے۔
سفیان نے یہ بات بیان کی اس سند کو شعبہ بہت پسند کرتے تھے (جس میں یہ الفاظ ہیں) ”میں نے سنا انہوں نے مجھے بتایا، میں نے سنا انہوں نے مجھے بتایا۔“ گویا وہ اس بات کے خواہشمند تھے کہ یہ روایت موصول ہوجائے۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى الغسل 253، وأخرجه مسلم فى ”الحيض“ برقم: 322، والنسائي فى "المجتبى" 1 / 70، برقم: 236 / 5، والنسائي في «الكبرى» 1 / 165، برقم: 233، والترمذي فى "جامعه" 1 / 105، برقم: 62، وابن ماجه فى "سننه" 1 / 246، برقم: 377، والبيهقي فى "سننه الكبير" 1 / 188، برقم: 913، ، 1 / 188، برقم: 914، وأحمد فى "مسنده" 12 / 6475، برقم: 27439، وأبو يعلى فى ”مسنده“ برقم: 7080، وعبد الرزاق فى ”مصنفه“1 / 269، برقم: 1032، وابن أبى شيبة فى ”مصنفه“ 1 / 355، برقم: 370، والطحاوي فى "شرح معاني الآثار" 1 / 25، برقم: 90)

312- منبود مکی اپنی والدہ کا بیان نقل کرتے ہیں: ہم لوگ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس موجود تھے، سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ان کے ہاں تشریف لائے، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میرے بیٹے! کیا وجہ ہے کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ تمہارے بال بکھرے ہوئے ہیں، تو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے عرض کیا: میرے بال سنوارنے والی ام عمار حیض کی حالت میں ہے تو سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اے میرے بیٹے! حیض کا ہاتھوں سے کیا واسطہ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک ہم (ازواج) میں سے کسی ایک کی گود میں رکھ دیتے تھے وہ خاتون اس وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھی، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کرلیا کرتے تھے اور ہم میں سے کوئی ایک اپنی چادر لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بچھا دیتی تھی، حالانکہ وہ خاتون اس وقت حیض کی حالت میں ہوتی تھی، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس چادر پر نماز ادا کرلیتے تھے۔ اے میرے بیٹے! حیض کا ہاتھ کے ساتھ کیا واسطہ؟
( إسناده صحيح أخرجه البخاري فى ”الحيض“ برقم: 333، 379،381، 517، 518، ومسلم فى “الصلاة“ 513،وابن خزيمة فى ” صحيحه“ 2 / 10، برقم: 768، وابن حبان فى “صحيحه“ 6 / 99، برقم: 2329، والنسائي فى ” المجتبى“ 1 / 76، برقم: 272 / 1، 1 / 97، برقم: 383 / 1، ، 1 / 166، برقم: 737 / 1، والنسائي فى ” الكبرى“ 1 / 176، برقم: 263 ، 1 / 404، برقم: 819، وأبو داود فى ” سننه“ 1 / 142، برقم: 369، ، 1 / 248، برقم: 656، والدارمي فى ” مسنده“ 2 / 865، برقم: 1413، وابن ماجه فى ” سننه“ 1 / 416، برقم: 653، وأحمد فى ” مسنده“ 12 / 6477، برقم: 27446، والطيالسي فى ” مسنده“ 3 / 197، برقم: 1731، وأبو يعلى فى ” مسنده“ 12 / 512، برقم: 7081)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
313- سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بڑی چادر پر نماز ادا کرلیتے تھے۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى ”الحیض“ برقم: 333، 379، ،381،517، 518، ومسلم فى ” الصلاۃ“ برقم: 513، وابن حبان فى “صحيحه“ برقم: 2329، والنسائي فى ” المجتبى“ 1 / 76، برقم: 272 / 1، والنسائي فى ” الكبرى“ 1 / 176، برقم: 263، وأبو داود فى “سننه“ 1 / 142، برقم: 369، وابن ماجه فى “سننه“ 1 / 416، برقم: 653، والبيهقي فى “سننه الكبير“ 2 / 239، برقم: 3341، وأحمد فى “مسنده“ 12 / 6477، برقم: 27446، والطيالسي فى “مسنده“ 3 / 197، برقم: 1731، وأبو يعلى فى ” مسنده“ 12 / 512، برقم: 7081)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
314- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک چوہا گھی میں گر کر مرگیا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں دریافت کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا : ”اسے اور اس کے آس پاس والے (جمے ہوئے) گھی کو پھینک دو اور (باقی بچ جانے والے ) کو کھالو۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان سے کہا گیا: معمر نے یہ روایت زہری کے حوالے سے سعید کے حوالے سے سیدنا ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی ہے، تو سفیان نے جواب دیا: میں نے زہری کو یہی بیان کرتے ہوئے سنا ہے کہ یہ روایت عبید اللہ کے حوالے سے سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے اور یہ روایت میں نے ان کی زبانی کئی مرتبہ سنی ہے۔
(إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «الذَّبَائِحِ وَالصَّيْدِ » برقم: 235، 236،5538، 5539، 5540، ومالك فى «الموطأ» 1 / 1415، برقم: 3563 / 790، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1392، 1393، 1394، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 839، برقم: 4269 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 4 / 387، برقم: 4570، وأبو داود فى «سننه» 3 / 429، برقم: 3841، والترمذي فى « جامعه» 3 / 392، برقم: 1798، وأحمد فى «مسنده» 3 / 1516، برقم: 7298، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 5841، 7078 )
 
Last edited:

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
315- سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونی چادر اوڑھ کر نماز ادا کی جس کا بعض حصہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر تھا اور بعض حصہ مجھ پر تھا، حالانکہ میں اس وقت حیض کی حالت میں تھی۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى "الحیض" برقم: 333، 379، 381، 517، 518، ومسلم فى "الصلاۃ" برقم: 513، وابن خزيمة فى «صحيحه» 2 / 10، برقم: 768، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2329، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 76، برقم: 272 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 1 / 176، برقم: 263، وأبو داود فى «سننه» برقم: 369، والدارمي فى «مسنده» 2 / 865، برقم: 1413، وابن ماجه فى «سننه» 1 / 416، برقم: 653، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6477، برقم: 27446، وأبو يعلى فى «مسنده» 12 / 512، برقم: 7081، 7090)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
316- سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جاتے ، اگر بکری کا کوئی بچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نیچے سے گزرنا چاہتا تو وہ گزر سکتا تھا، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے بازؤں کو پہلو سے اتنا دور رکھتے تھے۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «الصلاة» برقم: 496، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7097، وأبو داود فى «سننه» 1 / 339، برقم: 898، والدارمي فى «مسنده» 2 / 840، برقم: 1370، وابن ماجه فى «سننه» 2 / 52، برقم: 880)

317- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کی کنیز کی بکری کے پاس سے ہو جو مردہ تھی اور وہ ان کی کنیز کو صدقے کے طور پر دی گئی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے مالک کو کوئی نقصان نہیں ہوگا اگر وہ اس کی کھال کو حاصل کرکے اس دباغت کرکے استعمال کرے“ انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو مردار ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔“
سفیان سے کہا گیا ہے: معمر اس روایت کو نقل کرتے ہوئے یہ الفاظ استعمال نہیں کرتے۔
”وہ اس کی دباغت کرلیں۔“
وہ کہتے ہیں : زہری دباغت کے الفاظ کا انکار کرتے تھے، تو سفیان نے کہا: میں نے تو اسے اسی طرح یاد رکھا ہے اور ہم اس روایت کے ان الفاظ کو بطور خاص توجہ کا مرکز بناتے ہیں جو ان کے علاوہ اور کسی نے نقل نہیں کئے یعنی یہ الفاظ کہ ”اسے کھانا حرام قرار دیا گیا ہے۔“
سفیان نامی راوی بعض اوقات اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ نہیں کرتے جب انہیں اس پر تنبیہ کی گئی ہو تو انہوں نے کہا: اس میں سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا تذکرہ ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى ”الحيض“ برقم: 364، وابن الجارود فى المنتقى 1 / 326، برقم: 941، وابن حبان فى صحيحه برقم: 1283، ، 4 / 101، برقم: 1285، ، 4 / 104، برقم: 1289، ، 4 / 106، برقم: 1291، وأبو داود في «سننه» 4 / 111، برقم: 4120، وابن ماجه فى «سننه» 4 / 603، برقم: 3610، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7079، 7086، 7100)

318- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ، سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کرتے ہوئے اپنے دست مبارک کے ذریعے اپنی شرمگاہ کو دھویا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ دیوار پر ملا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دھویا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل کرکے فارغ ہوگئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں دھو لئے۔
( إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى «الغسل» برقم: 249، 257، 259،260، 265، 266، 274، 276، 281، ومسلم برقم: 317،337، وأبو داود فى «سننه» برقم: 245، والترمذي فى «جامعه» برقم: 103، والدارمي فى "مسنده" 1 / 555، برقم: 739، ، 1 / 578، برقم: 774، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 467، 573، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1190، وأبو يعلى في «مسنده» برقم: 7101)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث جويرية بنت الحارث رضي الله عنها

319- عبید بن سباق بیان کرتے ہیں: انہوں نے سیدہ جویریہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا ہے: ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہاں تشریف لائے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا کچھ کھانے کے لئے ہے؟“ میں نے عرض کی: جی نہیں! صرف ایک ہڈی (ولا گوشت ہے) جو ہماری کنیز کا صدقے کے طور پر دیا گیا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہی لے آؤ، کیونکہ وہ اپنی جگہ تک پہنچ گیا ہے۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں : یعنی اب اس کی حیثیت صدقے والی نہیں رہی ہے۔
( إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «الزكاة» برقم: 1073، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5117، 5118، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7067)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث أسماء بنت أبي بكر الصديق رحمة الله عليه ورضوانه


320- سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: قریش کے عہد میں میری والدہ (جو مسلمان نہیں ہوئی تھیں) میرے پاس (کچھ مالی امداد) کے لئے تشریف لائیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: کیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کروں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: جی ہاں۔
سفیان کہتے ہیں : تو اس بارے میں یہ آیت نازل ہوئی: «لا يَنْهَاكُمُ اللهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ » ”جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی نہیں لڑی اور تمہیں جلاوطن نہیں کیا ان کے ساتھ سلوک واحسان کرنے اور منصفانہ بھلے برتاؤ کرنے سے اللہ تعالیٰ تمہیں نہیں روکتا، بلکہ اللہ تعالیٰ تو انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے“ ۔ (60-الممتحنة:8)
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى «الأدب» برقم: 2620، 3183، 5978، ومسلم فى «الزكاة» برقم: 1003، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 452، وأبو داود في «سننه» برقم: 1668، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6504، برقم: 27555، والبزار فى «مسنده» 18 / 169، برقم: 151 / 127، وعبد الرزاق فى «مصنفه» 6 / 38، برقم: 9932، والطبراني فى «الكبير» 24 / 78، برقم: 203)

321- فاطمہ بنت منذر اپنی دادی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا یہ بیان نقل کرتی ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے: ”آدمی کے پاس جو کچھ نہ ہو، اسے اپنے پاس موجود ظاہر کرنے والا اسی طرح ہے، جس طرح اس نے جھوٹ کے دو کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔“
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه وأخرجه البخاري فى "النكاح" برقم: 5219، ومسلم فى «اللباس وزينة» برقم: 2129، 2130،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5738، 5739، والنسائي في «الكبرى» 8 / 163، برقم: 8871، وأبو داود في «سننه» برقم: 4997، وأحمد في «مسنده» 11 / 5946، برقم: 25232)

322- فاطمہ بنت منذر بیان کرتی ہیں: انہوں نے سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حیض کے خون کے بارے میں دریافت کیا: جو کپڑے پر لگ جاتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے کھرچ دو اور پھر پانی کے ذریعے دھو دو پھر اس پر پانی چھڑکو اور اس میں نماز ادا کرلو۔“
( إسناده صحيح و أخرجه البخاري فى «الوضوء» برقم: 227، 307، ومسلم في « الطهارة» برقم: 291، ومالك فى "الموطأ" 1 / 82، برقم: 196 / 49،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1396، 1397،1398، والنسائي في «المجتبى» 1 / 80، برقم: 292 / 2، والنسائي فى «الكبرى» 1 / 183، برقم: 281، وأبو داود فى «سننه» 1 / 141، برقم: 360، وابن ماجه فى «سننه» 1 / 398، برقم: 629، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6506، برقم: 27562)

323- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ایک خاتون نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اس نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے بیٹی کو بخار ہوا جس کے نتیجے میں اس کے بال گر گئے اب میں نے اس کی شادی کرنا ہے تو کیا میں اسے مصنوعی بال لگوادوں؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مصنوعی بال لگانے والی اور جس کے مصنوعی بال لگائے جائیں ان پر لعنت کی ہے۔“
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «اللباس» برقم: 5935، 5936، 5941، ومسلم فى «اللباس وزينة» برقم: 2122، وأحمد فى «مسنده» 11 / 5990، برقم: 25443،وابن ماجه فى «سننه» 3 / 154، برقم: 1988)

324- سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں ہم نے ایک گھوڑا ذبح کیا تھا، اور اسے کھا لیا تھا۔
(أخرجه البخاري فى «اللباس» برقم: 5510،5511، 5512، 5519، ومسلم فى «اللباس وزينة» برقم: 1942، وابن الجارود فى «المنتقى» 1 / 330، برقم: 954، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5271، والنسائي فى «المجتبى» 1 / 864، برقم: 4418 / 1، والنسائي فى «الكبرى» 4 / 352، برقم: 4480، ، وابن ماجه فى «سننه» 4 / 354، برقم: 3190، والبيهقي فى «سننه الكبير» 9 / 279، برقم: 19196،وأحمد فى «مسنده» 12 / 6506، برقم: 27561)

325- سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی:«تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ» ”ابولہب کے دونوں ہاتھ برباد ہوجائیں۔“ (111-المسد:1) تو ام جمیل بنت حرب (جو ابوجہل کی بیوی تھی) بڑے غصے میں آئی اس نے ہاتھ میں مٹھی بھر پٹھر پکڑے ہوئے تھے اور یہ کہہ رہی تھی : وہ قابل مذمت میں، جن کا ہم نے انکار کردیا ہے اور ان کے دین کو ہم نے چھوڑ دیا ہے اور ان کے معاملے کی ہم نے نافرمانی کی ہے۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کی تلاوت کی آپ صلی اللہ علی وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بھی تھے، سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب اس عورت کو دیکھا تو انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! یہ عورت آرہی ہے مجھے یہ اندیشہ ہے کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لے گی ( اور بدتمیزی کا مظاہرہ کرے گی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”وہ مجھے نہیں دیکھ سکے گی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پڑھنے لگے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے مضبوطی حاصل کررہے تھے، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «وَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ جَعَلْنَا بَيْنَكَ وَبَيْنَ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ حِجَابًا مَّسْتُورًا » ”اور جب تم قرآن پڑھو تو ہم تمہارے اور ان لوگوں کے درمیان، جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ہیں، ایک مستور پردہ ڈال دیں گے۔“ (17-الإسراء:45)
وہ عورت آئی وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آکر ٹھہر گئی اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نظر نہیں آئے ، وہ بولی: اے ابوبکر! مجھے پتہ چلا ہے تمہارے آقا نے ہماری ہجو بیان کی ہے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جی نہیں! اس گھر کے پروردگار کی قسم! انہوں نے تمہاری ہجو بیان نہیں کی ہے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو وہ عورت مڑ گئی ، جاتی ہوئی وہ کہہ رہی تھی: قریش یہ بات جانتے ہیں کہ میں ان کے سردار کی بیٹی ہوں۔
یہاں ولید نامی راوی نے اپنی روایت میں یہ الفاظ نقل کئے ہیں: یا شاید دوسرے کسی راوی نے نقل کئے ہیں: ”تو ام جمیل غصے میں تھی وہ اپنی چادر اوڑھ کر بیت اللہ کا طواف کررہی تھی ، اس نے یہ کہا وہ شخص برباد ہوجائے جس کی مذمت کی گئی ہے“ ۔ تو جناب عبدالمطلب کی صاحبزادی ام حکیم نے کہا: ”میں پاکدامن ہوں مجھ پر الزام عائد نہیں کیا جاسکتا۔ میں سمجھدار ہوں ، مجھے تعلیم نہیں دی جاسکتی ہم دونوں خواتین چچا زاد ہیں اور قریش اس بات سے بخوبی واقف ہیں۔“
(أخرجه الحاكم فى «مستدركه» 2 / 361، برقم: 3396، وقال الحاكم: « هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه » . ووافقه الذهبي ، وأورده ابن حجر في « المطالب العالية » 15 / 462، برقم: 3788 / 1، ، 15 / 463، برقم: 3788 / 2)

326- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: لوگوں نے ان سے دریافت کیا: آپ نے مشرکین کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سب سے زیادہ سخت سلوک کیا دیکھا ہے تو انہوں نے بتایا: مشرکین مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اور اپنے معبودوں کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے کا تذکرہ کررہے تھے وہ لوگ اسی حالت میں تھے کہ اسی دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے وہ لوگ اٹھ کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے جب وہ لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے بارے میں دریافت کرتے تھے تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی بات کو سچ قراردیتے تھے۔
انہوں نے دریافت کیا: کیا آپ نے ایک ایسی بات نہیں کہی ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”جی ہاں!“ تو وہ سب لوگ مل کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھپٹ پڑے تو کسی شخص نے بلند آواز میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پکارا ان سے کہا گیا: آپ اپنے آقا کے پاس پہنچیں تو حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ ہمارے ہاں سے نکلے اس وقت ان کے لمبے لمبے بال تھے۔ وہ مسجد میں داخل ہوئے اور یہ کہتے جارہے تھے تمہارا ستیاناس ہو کیا تم ایک ایسے صاحب کو قتل کرنا چاہتے ہو جو یہ کہتے ہیں: ”میرا پروردگار الله تعالی ہے اور تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے واضح دلائل بھی آ چکے ہیں“
راوی کہتے ہیں: تو ان لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو چھوڑا اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہو گئے (اور ان پر حملہ کر دیا) جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہمارے ہاں واپس تشریف لائے تو ان کے جس بھی بال کو ہاتھ لگایا جاتا وہ ہاتھ میں آجاتا تھا لیکن حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یہی کہہ رہے تھے ”اے جلال اور اکرام والے تو برکت والا ہے۔“
(أخرجه سعيد بن منصور فى «سننه» 7 / 371، برقم: 2899، وأبو يعلى فى «مسنده» 1 / 52، برقم: 52، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 17 / 254، برقم: 4228 / 2)

327- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”اے اسماء! تم (اللہ کی راہ میں) خرچ کرنے سے نہ رکو ورنہ تم سے رزق کو روک لیا جائے گا۔“
(إسناده صحيح أخرجه البخاري فى «الزكاة» برقم: 1433، 1434، 2590، 2591، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1029، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3209، 3357، والنسائي في «المجتبى» 1 / 511، برقم: 2549 / 2، ، 1 / 511، برقم: 2550 / 3، والنسائي فى "الكبرى" 3 / 58، برقم: 2342، ،وأبو داود فى «سننه» 2 / 61، برقم: 1699، والترمذي فى «جامعه» 3 / 509، برقم: 1960، وأحمد في «مسنده» 12 / 6504، برقم: 27554)
328- ابومحیاۃ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: جب حجاج بن یوسف نے سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا تو حجاج، سیدہ اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے گزارش کی : اے اماں جان! امیر المؤمنین نے مجھے آپ کے بارے میں تلقین کی ہے، تو کیا آپ کو کوئی ضرورت ہے؟ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا: مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے اور میں تمہاری ماں نہیں ہوں۔ میں اس شخص کی ماں ہوں، جسے گھاٹی کے سرے پر مصلوب کیا گیا ہے۔
تم رکو! میں تمہیں وہ بات بتاتی ہوں جو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی سنی ہے : ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ثقیف قبیلے سے ایک نبوت کا جھوٹا دعویدار اور ایک قتل و غارت گری کرنے والا پیدا ہوگا۔“
جہاں تک جھوٹے کا تعلق ہے، تو اسے تو ہم دیکھ چکے ہیں۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی مراد مختار ثقفی تھا، اور جہاں تک خون بہانے والے کا تعلق ہے، تو وہ تم ہو، تو حجاج بولا: میں منافقوں کا خون بہانے والا ہوں۔
[إسناده جيد وأخرجه مسلم فى «الفضائل » برقم: 2545، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 553، برقم: 6400، ، 4 / 526، برقم: 8697، ، 4 / 526، برقم: 8698، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6519، برقم: 27609، ، 12 / 6521، برقم: 27616، والطيالسي فى «مسنده» 3 / 211، برقم: 1746]

329- سیدہ اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے مؤمن خواتین کے گروہ! کوئی بھی عورت اپنے سر امام کے اٹھنے سے پہلے نہ اٹھائے“ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لئے فرمائی) کیونکہ مردوں کے کپڑے چھوٹے ہوتے تھے۔
(إسناده ضعيف أخرجه أبو داود فى «سننه» 1 / 316، برقم: 851، والبيهقي في «سننه الكبير» 2 / 241، برقم: 3353، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6513، برقم: 27589، ، 12 / 6513، برقم: 27590،وعبد الرزاق في «مصنفه» 3 / 148، برقم: 5109، والطبراني في «الكبير» 24 / 97، برقم: 260)
 
Last edited:
Top