• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسند حمیدی یونیکوڈ (اردو ترجمہ)

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أحاديث أم كلثوم بنت عقبة بن أبي معيط رضی اللہ عنہا


330- سیدہ ام کلثوم بنت عقبہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”سب سے افضل صدقہ وہ ہے ، جو دشمنی رکھنے والے رشتے دار پر کیا جائے۔“
سفیان کہتے ہیں : میں نے یہ روایت زہری سے نہیں سنی ہے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: (روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ) «كاشح» کا مطلب دشمن ہے۔
( إسناده ضعيف وهو حديث صحيح أخرجه ابن خزيمة في «صحيحه» 4 / 131، برقم: 2386، والحاكم فى «مستدركه» 1 / 406، برقم: 1480، والبيهقي فى «سننه الكبير» 7 / 27، برقم: 13347، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 5 / 686، برقم: 971، وأخرجه الطبراني فى «الكبير» 25 / 80، برقم: 204)

331- عطاء بن یسار بیان کرتے ہیں: ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمت نازل کرے ، مجھے کوئی گناہ ہوگا اگر میں اپنی بیوی کے ساتھ جھوٹ بولتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں! لیکن اللہ جھوٹ کو پسند نہیں کرتا۔“ اس نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں اس کے ساتھ مصالحت کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں، یا خوش کرنے کے لئے ایسا کرتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تمہیں کوئی گناہ نہیں ہوگا۔“
(إسناده صحيح إلى عطاء بن يسار، وهو مرسل انفرد به المصنف من هذا الطريق ولكن أخرجه البخاري فى الصلح 2692، ومسلم فى البر والصلة 2605، وقد استوفينا تخريج هذه الرواية في «صحيح ابن حبان» برقم 5733،. وانظر فتح الباري:300/5)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حديث أسماء بنت عميس رضی اللہ عنہا

332- سیدہ اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: انہوں نے عرض کی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! سیدنا جعفر رضی اللہ عنہا کے بچوں کو نظر لگ جاتی ہے، تو کیا میں انہیں دم کردیا کروں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جی ہاں! اگر کوئی چیز تقدیر سے سبقت لے جاسکتی ، تو نظر لگنا اس سے سبقت لے جاتا۔“

(إسناده صحيح وأخرجه النسائي فى «الكبرى» 7 / 73، برقم: 7495، والترمذي فى «جامعه» 3 / 576، برقم: 2059، وابن ماجه في «سننه» 4 / 543، برقم: 3510، والبيهقي فى «سننه الكبير» 9 / 348، برقم: 19646، ، 9 / 348، برقم: 19647، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6696، برقم: 28115، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 12 / 99، برقم: 24057، ، 12 / 100، برقم: 24059، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» 4 / 327، برقم: 7189، والطبراني فى «الكبير» 24 / 142، برقم: 376)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
333- سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میرے دو دیور میرے پاس آئے میں نے ان دونوں کو پناہ دے دی سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تاکہ ان دونوں کو قتل کردیں، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ کے بالائی علاقے ابطح میں اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے وہاں میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔
میرا سامنا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تو وہ میرے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ سخت تھیں انہوں نے کہا: تم کفار کو ٹھکانہ دے رہی ہو، تم انہیں پناہ دے رہی ہو، تم یہ کررہی ہو اور تم وہ کررہی ہو۔ میں وہیں ٹھہری رہی۔
اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر گرد و غبار کے اثرات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فاطمہ! تم میرے لئے پانی تیار کرو“ ، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑے مرتبان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی تیار کیا جس میں گندھے ہوئے آٹے کا نشان دیکھ رہی تھی۔
پھر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پردہ تان دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر اس کے مخالف سمتوں کو دونوں کاندھوں پر ڈال کر آٹھ رکعات نماز ادا کی۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل اور بعد میں کبھی یہ نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اپنے دو دیوروں کو پناہ دی ہے، اور میرے ماں جائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایسا نہیں کرسکتا، جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں اور جس پر تم آمین کہتی ہو اس پر ہم بھی آمین کہتے ہیں۔“ (یعنی جو تم قبول کرتی ہو اسے ہم بھی قبول کرتے ہیں)
(إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 280، 357، 1103، 1176، 3171، 4292، 6158، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 336، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 1187، 1188، 1189، 2537، 2538، والحاكم في «مستدركه» برقم: 5246، والنسائي في «الكبرى» 1 / 162، برقم: 224، وأبو داود في «سننه» ، برقم: 1290، والترمذي في «جامعه» 1 / 486، برقم: 474،وابن ماجه فى «سننه» 1 / 294، برقم: 465)

334- سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کر اسے مخالف سمت میں کندھوں پر ڈال کر آٹھ رکعات نماز ادا کی۔
(إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد، غير أن الحديث صحيح، وقد أخرجه البيهقي فى الصلاة 48/3 باب: ذكر من رواها ثمان ركعات، من طريق سفيان، بهذا الإسناد، ولتمام التخريج انظرسابقه)

335- عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں چاشت کی نماز کے بارے میں سوال کیا۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد موجود تھی لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو مجھے یہ بتا سکے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ادا کی ہے صرف سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا تھیں ، انہوں نے یہ بتایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے موقع پر ایک مرتبہ یہ نماز ادا کرے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے کو اس کے کنارے مخالف سمت میں اوڑھ کر آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔
(إسناده ضعيف لضعف أبى أمية عبد الكريم بن أبى المخارق، غير أن الحديث صحيح، فقد أخرجه البخاري فى الغسل 280، وأطرافه-، ومسلم فى الحيض 229، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 1188، 2538)

335/م- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب میں یہ آیت تلاوت کرتا ہوں: « يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالإِشْرَاقِ » (38-ص:18) ”شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں“ ۔ تو میں دریافت کرتا ہوں کہ اشراق کی نماز کون سی ہے ، تو یہ اشراق کی نماز ہے۔
(موصول بالإسناد السابق. ونسبه السيوطي في الدر المنثور 298/5 إلى ابن مردويه أخرجه الحاكم فى «مستدركه» 4 / 53، برقم: 6965، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 4 / 592، برقم: 661، 3694 وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» 3 / 79، برقم: 4870، ، 3 / 79، برقم: 4871، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 5 / 260، برقم: 7880)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ خَوْلَةَ بِنْتِ حَكِيمٍ امْرَأَةِ عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
336- عمر بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں : ایک خاتون سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا جو سیدنا عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی اہلیہ ہیں ، انہوں نے یہ بات بیان کی ہے، ایک دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک نواسے کو گود میں اٹھایا ہوا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی: ”تم لوگ (یعنی اولاد) آدمی کو لاپروہ کردیتی ہے، اسے بزدل بنادیتی ہے ، اسے کنجوس کردیتی ہے ۔ بے شک تم اللہ تعالیٰ کا عطیہ ہو اور بے شک تمام جہانوں کا پروردگار کفار پر آخری گرفت ”وج“ کے مقام پر کرے گا (یہ طائف کے قریب ایک جگہ ہے) “

(في إسناده علتان : جهالة محمد بن ابي سويد ، والإنتقاع بين عمر و خولة وأخرجه الترمذي فى «جامعه» 3 / 473، برقم: 1910، والبيهقي فى «سننه الكبير» 10 / 202، برقم: 20921، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6638، برقم: 27955)

337- کعب الحبار کہتے ہیں : ”وج“ ایک مقدس جگہ ہے، یہ وہ جگہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے زمین کو پیدا کیا تھا ، تو یہاں سے اللہ تعالیٰ آسمان کی طرف بلند ہوگیا تھا۔ امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں ”وج“ طائف میں ہے۔
(إسناده منقطع : أخرجه الحميدي فى «مسنده» 1 / 331، برقم: 337، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 17 / 168، برقم: 4202، 7 / 172، برقم: 1330)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُمِّ خَالِدٍ بِنْتِ خَالِدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا

338- سیدہ ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ہے۔
موسیٰ بن عقبہ نامی راوی کہتے ہیں: میں اور کسی کی زبانی یہ بات نہیں سنی کہ سیدہ ام خالد رضی اللہ عنہا کے علاوہ کسی اور نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوئے سنا ہو۔
(إسناده صحيح : وأخرجه البخاري فى «الدعوات» برقم: 1376،6364، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1001، والحاكم فى «مستدركه» 3 / 251، برقم: 5124،7022، والنسائي فى «الكبرى» 7 / 149، برقم: 7673، وأحمد فى مسنده 12 / 6546، برقم: 27698، 27700، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 7 / 455، برقم: 12162، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» 13 / 180، برقم: 5184، والطبراني في «الكبير» 25 / 94، برقم: 242، 244، 246)

339- سیدہ ام خالد رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں حبشہ کی سرزمین سے آئی تو میں کم سن بچی تھی۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک چادر اوڑھنے کے لئے دی جس پر نقش و نگار بنے ہوئے تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دست مبارک کے ذریعے ان نقش و نگار پر ہاتھ پھیرتے ہوئے فرمارہے تھے: یہ کتنے اچھے ہیں ۔ یہ کتنے اچھے ہیں ۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: (روایت کے متن میں استعمال ہونے والے لفظ ”سناہ“ کا مطلب) اچھا ہونا ہے

(إسناده صحيح ، وأخرجه البخاري فى «اللباس» برقم: 3071، 3874، 5823، 5845،5993، والحاكم فى «مستدركه» 2 / 63، برقم: 2380، 2 / 624، برقم: 4271، ، 4 / 188، برقم: 7485، وأبو داود فى «سننه» 4 / 75، برقم: 4024، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6546، برقم: 27699، والطبراني فى «الكبير» 25 / 94، برقم: 240، 241)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ أُمِّ الْفَضْلِ بِنْتِ الْحَارِثِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
340- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کی نماز میں سورۂ «وَالْمُرْسَلاتِ عُرْفًا » کی تلاوت کرتے ہوئے سنا۔
سفیان سے یہ کہا گیا : لوگ تو یہ کہتے ہیں: تمام بن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ روایت بیان کی ہے، تو سفیان نے کہا: میں نے تو زہری کو کبھی تمام بن عباس کا ذکر کرتے ہوئے نہیں سنا۔ انہوں نے تو ہمیشہ سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے ان کی والدہ کے حوالے سے یہ روایت نقل کی ہے۔
(إسناده صحيح والحديث متفق عليه أخرجه البخاري فى «الآذان» برقم: 763، 4429، ومسلم فى «الصلاة» برقم: 462، ومالك فى «الموطأ» 1 / 106، برقم: 258 / 73، وابن خزيمة فى «صحيحه» 1 / 567، برقم: 519، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 1832، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6493، برقم: 27509، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7071، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 3 / 230، برقم: 3610)

341- سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: عرفہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزہ رکھنے کے بارے میں لوگوں کو شک ہوا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک برتن بھجوایا جس میں دودھ موجود تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پی لیا۔
سفیان نامی راوی اس روایت میں بعض اوقات یہ الفاظ نقل کرتے ہیں: لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عرفہ کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں شک ظاہر کیا ، تو سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھجوایا ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سفیان کو اس بات پر تنبیہہ کی گئی تو انہوں نے کہا: یہ روایت سیدہ ام فضل رضی اللہ عنہا سے منقول ہے۔
(إسناده صحيح وأخرجه البخاري فى «الأشربه» برقم: 1658، 1661، 1988، 5604، 5618، 5636، ومسلم فى «الصِّيَامِ» برقم: 1123، ومالك في «الموطأ» 1 / 549، برقم: 1389 / 388، وابن خزيمة فى «صحيحه» 3 / 509، برقم: 2102، ، وابن حبان فى «صحيحه» 8 / 370، برقم: 3605،3606، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 2830، 2832، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2441، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7073)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُمِّ أَيُّوبَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
342- سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں ٹھہرے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کھانے میں سبزی پکائی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پسند نہیں آئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے کہا: ”تم لوگ اسے کھالو، کیونکہ میں تمہاری مانند نہیں ہوں ، میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ میں اپنے ساتھی (یعنی فرشتے) کو اذیت پہنچاؤں۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے : سفیان نے یہ بات بیان کی ہے میں نے خواب میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا رائے ہے؟ اس روایت کے بارے میں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے بیان کی جاتی ہے کہ فرشتوں کو بھی اس چیز سے اذیت ہوتی ، جس سے انسانوں کو اذیت ہوتی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بالکل درست ہے۔“
( إسناده صحيح : وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1671، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2093، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1810، والدارمي فى «مسنده» 2 / 1306، برقم: 2098، وابن ماجه في «سننه» 4 / 457، برقم: 3364، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6683، برقم: 28085، وعبد الله بن أحمد بن حنبل فى زوائده على «مسند أحمد» 9 / 4874، برقم: 21376، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 5 / 534، برقم: 8750، وأخرجه الطحاوي في «شرح معاني الآثار» برقم: 6617، 6618، وأخرجه الطبراني في «الكبير» برقم: 329)

343- عبید اللہ بن ابویزید اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں: میں سیدہ ام ایوب انصاریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہرا تو انہوں نے مجھے بتایا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”قرآن سات حروف پر نازل ہوا ہے تم اس میں سے جو بھی قرأت کروگے وہ ٹھیک ہوگی۔“
( إسناده صحيح، وانظر التعليق السابق، وأخرجه أحمد 6/ 433، 463، وابن أبى شيبة فى فضائل القرآن برقم 10166، باب: القرآن على كم حرف نزل، من طريق سفيان، بهذا الإسناد. وانظر مجمع الزوائد 154/7 ويشهد له حديث أبى هريرة، وقد خر جناه فى مسند الموصلي برقم 6016،، وفي «صحيح ابن حبان» برقم 74 ، وحديث ابن مسعود وقد خر جناه فى «المسند المذكور» برقم 5149)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ أُمَيْمَةَ بِنْتِ رَقِيقَةَ نَسِيبَةِ خَدِيجَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
344- سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں : میں چند خواتین سمیت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہاں تک تمہاری استطاعت ہوگی اور جتنی تم میں طاقت ہوگی (تم ان احکام پر عمل کروگی) “ ۔
میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے ہماری اپنی جان سے زیادہ رحم دل ہے۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے بیعت لے لیجئے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تمہارے ساتھ مصافحہ نہیں کروں گا، میرا ایک سو خواتین کے ساتھ گفتگو کرنا اسی طرح ہے، جس طرح میں ایک خاتون کے ساتھ بات کروں۔“
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان سے یہ کہا گیا : دوسرے محدثین نے تو یہ بات بیان کی ہے کہ یہ روایت سیدہ امیمہ بنت رقیقہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے، جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی رشتہ دار تھیں۔ تو سفیان نے کہا: وہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی بہن کی بیٹی (بھانجی) تھیں۔ تاہم ابن المنکدر نے ہمیں یہ روایت سناتے ہوئے ان الفاظ کا تذکرہ نہیں کیا۔
( إسناده صحيح وأخرجه مالك في «الموطأ» برقم: 3602 / 812، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4553، والحاكم في «مستدركه» 4 / 71، برقم: 7039،7041، والنسائي فى «المجتبى» برقم: 4192 / 3، 4201 / 4، والنسائي فى «الكبرى» برقم: 7756، 7765، 8660، 8672، 9196، 11525، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1597، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2874، والبيهقي فى «سننه الكبير» 8 / 148، برقم: 16665، وأحمد في «مسنده» 12 / 6530، برقم: 27648)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
حَدِيثُ الرُّبَيِّعِ بِنْتِ مُعَوِّذِ ابْنِ عَفْرَاءَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا

345- عبداللہ بن محمد کہتے ہیں: امام زین العابدین رحمہ اللہ نے مجھے سیدہ ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں بھیجا تاکہ میں ان سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کے بارے میں دریافت کروں، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ہاں وضو کیا تھا، میں اس خاتون کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے ایک برتن نکال کر مجھے دکھایا جس میں ایک مد یا شاید ایک مد اور ایک چوتھائی مد پانی آتا ہوگا۔ انہوں نے بتایا: میں اس برتن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی رکھتی تھی۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آغاز کرتے ہوئے پہلے دونوں ہاتھ برتن میں داخل کرنے پہلے تین مرتبہ دھوتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ کلی کرتے تھے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالتے تھے اور تین مرتبہ اپنا چہرہ دھوتے تھے، پھر دونوں بازو تین مرتبہ دھوتے تھے، پھر اپنے سر مبارک کا آگے سے پیچھے کی طرف اور پیچھے سے آگے کی طرف مسح کرتے تھے۔ پھر دونوں پاؤں تین ، تین مرتبہ دھوتے تھے۔ پھر اس خاتون نے بتایا، تمہارے چچازاد میرے پاس آئے تھے، انہوں نے مجھ سے اس بارے میں دریافت کیا تھا میں انہیں بتایا تو وہ بولے: مجھے اللہ کی کتاب میں صرف دو چیزوں کو دھونے اور دو چیزوں پر مسح کا حکم ملتا ہے۔ اس خاتون کی مراد سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما تھے۔
امام حمیدی رحمہ اللہ کہتے ہیں: سفیان نے ہمارے سامنے مسح کا طریقہ کرکے دکھایا انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ مانگ کے دونوں اطراف پر رکھے پھر ان کے ذریعے اپنی پیشانی تک مسح کیا پھر انہوں نے سر کے درمیان میں مانگ کے دونوں کناروں پر دونوں ہاتھ رکھے پھر پیچھے گردن تک مسح کیا۔
سفیان کہتے ہیں : ابن عجلان نے پہلے یہ روایت ابن عقیل کے حوالے سے سیدہ ربیع رضی اللہ عنہا سے نقل کی تھع اور انہوں نے مسح کے بارے میں مزید یہ الفاظ نقل کئے :
”پھر وہ اپنے دونوں کناروں کا مسح کرتے ہوئے رخساروں تک آئے، یہاں تک کہ داڑھی کے کنارے تک آئے۔“ جب ہم نے ابن عقیل سے اس بارے میں دریافت کیا، تو انہوں نے رخساروں پر مسح کرنے کا تذکرہ نہیں کیا۔ ان کے حافظے میں کچھ کمزوری تھی اس لئے میں نے انہیں تلقین کرنے کو پسند نہیں کیا۔

( إسناده حسن : أخرجه الحاكم في «مستدركه» برقم: 542، وأبو داود فى «سننه» برقم: 126، والترمذي فى «جامعه» 1 / 83، برقم: 33، والدارمي فى «مسنده» برقم: 717، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 418، والبيهقي في «سننه الكبير» برقم: 274،والدارقطني في «سننه» 1 / 150، برقم: 288،وأحمد فى «مسنده» 12 / 6533، برقم: 27657، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» 1 / 258، برقم: 59)
 

مظاہر امیر

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 15، 2016
پیغامات
1,427
ری ایکشن اسکور
411
پوائنٹ
190
أَحَادِيثُ أُمِّ قَيْسٍ بِنْتِ مُحْصَنٍ الْأَسَدِيَّةِ أَسَدِ خُزَيْمَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا
346- سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں اپنے ایسے چھوٹے بیٹے کو ساتھ لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی جو ابھی کھانا نہیں کھاتا تھا اس نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پیشاب کردیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر اس پر چھڑک دیا۔
( إسناده صحيح وأخرجه البخاري في «الطب» برقم: 223،5692، 5693،5713، 5715،5718، ومسلم فى «الطهارة» برقم: 287، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 1373،1374،6070، وعبد الرزاق فى «مصنفه» 1 / 379، برقم: 1485، 1 / 380، برقم: 1486، وابن أبى شيبة في «مصنفه» 2 / 78، برقم: 1296، وأحمد فى «مسنده» 12 / 6527، برقم: 27638)

347- سیدہ ام قیس بنت محصن رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: میں اپنے بیٹے کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے اس کے حلق کے ورم کی وجہ سے اس کا گلا ملا ہوا تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم اس طرح گلا مل کر پانے بچوں کو کیوں تکلیف پہنچاتی ہو؟ تم پر لازم ہے کہ تم عود ہندی استعمال کرو، کیونکہ اس میں سات قسم کی شفائیں ہیں۔ حلق میں ورم کی صورت میں اسے ناک میں ڈالا جائے گا اور ذات الجب کی صورت میں اسے زبان کے نیچے ٹپکایا جائے گا۔“
زہری کہتے ہیں: عبیداللہ نامی راوی نے دو چیزوں کا ذکر کردیا باقی پانچ کا تذکرہ نہیں کیا (یعنی باقی کون سی پانچ بیماریوں کے لئے شفا ہے؟)
امام حمید رحمہ اللہ کہتے ہیں: عود ہندی سے مراد ”قُسط“ ہے۔
(إسناده صحيح أخرجه البخاري فى "الطب" 223،5692،5693، 5713، 5715، 5718، ومسلم فى «السلام» 287،2214، ومالك فى «الموطأ» 1 / 87، برقم: 207 / 53،وأحمد فى «مسنده» 12 / 6527، برقم: 27638، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 1373،1374، 6070)
 
Top