أَحَادِيثُ أُمَّ هَانِئٍ بِنْتِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا |
333- سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میرے دو دیور میرے پاس آئے میں نے ان دونوں کو پناہ دے دی سیدنا علی رضی اللہ عنہ آئے تاکہ ان دونوں کو قتل کردیں، تو میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مکہ کے بالائی علاقے ابطح میں اپنے خیمے میں تشریف فرما تھے وہاں میری نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی۔
میرا سامنا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے ہوا تو وہ میرے لئے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے بھی زیادہ سخت تھیں انہوں نے کہا: تم کفار کو ٹھکانہ دے رہی ہو، تم انہیں پناہ دے رہی ہو، تم یہ کررہی ہو اور تم وہ کررہی ہو۔ میں وہیں ٹھہری رہی۔
اس دوران نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں تشریف لے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر گرد و غبار کے اثرات تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے فاطمہ! تم میرے لئے پانی تیار کرو“ ، تو سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ایک بڑے مرتبان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی تیار کیا جس میں گندھے ہوئے آٹے کا نشان دیکھ رہی تھی۔
پھر انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پردہ تان دیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی کپڑا اوڑھ کر اس کے مخالف سمتوں کو دونوں کاندھوں پر ڈال کر آٹھ رکعات نماز ادا کی۔ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے قبل اور بعد میں کبھی یہ نماز ادا کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز مکمل کرلی تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے اپنے دو دیوروں کو پناہ دی ہے، اور میرے ماں جائے سیدنا علی رضی اللہ عنہ دونوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ ایسا نہیں کرسکتا، جسے تم نے پناہ دی ہے اسے ہم بھی پناہ دیتے ہیں اور جس پر تم آمین کہتی ہو اس پر ہم بھی آمین کہتے ہیں۔“ (یعنی جو تم قبول کرتی ہو اسے ہم بھی قبول کرتے ہیں)
(إسناده حسن وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 280، 357، 1103، 1176، 3171، 4292، 6158، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 336، وابن حبان في «صحيحه» برقم: 1187، 1188، 1189، 2537، 2538، والحاكم في «مستدركه» برقم: 5246، والنسائي في «الكبرى» 1 / 162، برقم: 224، وأبو داود في «سننه» ، برقم: 1290، والترمذي في «جامعه» 1 / 486، برقم: 474،وابن ماجه فى «سننه» 1 / 294، برقم: 465)
334- سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: فتح مکہ کے موقع پر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑا اوڑھ کر اسے مخالف سمت میں کندھوں پر ڈال کر آٹھ رکعات نماز ادا کی۔
(إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبى زياد، غير أن الحديث صحيح، وقد أخرجه البيهقي فى الصلاة 48/3 باب: ذكر من رواها ثمان ركعات، من طريق سفيان، بهذا الإسناد، ولتمام التخريج انظرسابقه)
335- عبداللہ بن حارث بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں چاشت کی نماز کے بارے میں سوال کیا۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد موجود تھی لیکن مجھے کوئی ایسا شخص نہیں مل سکا جو مجھے یہ بتا سکے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نماز ادا کی ہے صرف سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا تھیں ، انہوں نے یہ بتایا میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فتح مکہ کے موقع پر ایک مرتبہ یہ نماز ادا کرے ہوئے دیکھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے کو اس کے کنارے مخالف سمت میں اوڑھ کر آٹھ رکعات ادا کی تھیں۔
(إسناده ضعيف لضعف أبى أمية عبد الكريم بن أبى المخارق، غير أن الحديث صحيح، فقد أخرجه البخاري فى الغسل 280، وأطرافه-، ومسلم فى الحيض 229، وقد استوفينا تخريجه فى صحيح ابن حبان برقم 1188، 2538)
335/م- سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: جب میں یہ آیت تلاوت کرتا ہوں:
« يُسَبِّحْنَ بِالْعَشِيِّ وَالإِشْرَاقِ » (38-ص:18) ”شام کو اور صبح کو تسبیح خوانی کریں“ ۔ تو میں دریافت کرتا ہوں کہ اشراق کی نماز کون سی ہے ، تو یہ اشراق کی نماز ہے۔
(موصول بالإسناد السابق. ونسبه السيوطي في الدر المنثور 298/5 إلى ابن مردويه أخرجه الحاكم فى «مستدركه» 4 / 53، برقم: 6965، وأورده ابن حجر فى «المطالب العالية» 4 / 592، برقم: 661، 3694 وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» 3 / 79، برقم: 4870، ، 3 / 79، برقم: 4871، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» 5 / 260، برقم: 7880)