ہم جہاں سے لفظ تراویح لیتے ہیں وہیں اس لفظ کی وضاحت بھی ہے۔
السنن الكبرى للبيهقي - (ج 2 / ص 497)
(وانبأ) ابن فنجويه انبأ احمد بن محمد بن اسحاق بن عيسى السنى ثنا محمد بن سعيد البزورى ثنا يعقوب بن ابراهيم الدورقى ثنا أبو بكر بن عياش عن الربيع بن سحيم الكاهلى عن زيد بن وهب قال كان عمر بن الخطاب رضى الله عنه يروحنا في رمضان يعنى بين الترويحتين قدر ما يذهب الرجل من المسجد إلى سلع * كذا قال ولعله اراد من يصلى بهم التراويح بامر عمر بن الخطاب رضى الله عنها والله اعلم
السنن الكبرى للبيهقي - (ج 2 / ص 496)
(وانبأ) أبو زكريا بن ابى اسحاق انبأ أبو عبد الله محمد بن يعقوب ثنا محمد بن عبد الوهاب انبأ جعفر بن عون انبأ ابو الخصيب قال يؤمنا سويد بن غفلة في رمضان فيصلى خمس ترويحات عشرين ركعة
اب بھٹی صاحب کو کیا معلوم کہ حنفی علماء تہجد اور تراویح کو ایک ہی نماز تسلیم کرتے ہیں؛
تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے اور یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت ہی ثابت ہیں:
یہ بات دار العلوم دیوبند کے
صدر المدرسین علامہ انور شاہ صاحب بڑی تحقیق سے بتاتے ہیں :
ولا مناص من تسليم أن تراويحه كانت ثمانية ركعات ولم يثبت في رواية من الروايات أنه صلى التراويح والتهجد على حدة في رمضان بل طول التراويح، وبين التراويح والتهجد في عهده لم يكن فرق في الركعات بل في الوقت والصفة أي التراويح تكون بالجماعة في المسجد بخلاف التهجد، وإن الشروع في التراويح يكون في أول الليل وفي التهجد في آخر الليل (العرف الشذی شرح ترمذی )۔۔فرماتے ہیں :
’’
اور یہ بات تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ نبی اکرم ﷺ آٹھ رکعت تراویح ہی پڑھتے تھے ،اور
ذخیرہ روایات سے یہ بات ثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے تراویح اور تہجد علیحدہ ،علیحدہ پڑھے ہوں ۔بلکہ تراویح کو ہی طویل کرتے (تہجد کاوقت تک )اور آپ کے دور مبارک میں تراویح اور تہجد میں رکعات کا کوئی فرق نہ تھا ،ہاں وقت اور صفت
کا فرق تھا کہ تراویح باجماعت پڑھی جاتی ،بخلاف تہجد کے ۔۔اور تراویح رات کے اول حصہ میں پڑھی جاتی تھی ،اور تہجد کا وقت رات کا پچھلا حصہ ‘‘
ملاحظہ فرمائیں: عكس صفحه 208 جلد 02 - العرف الشذي شرح سنن الترمذي - دار التراث العربي
تراویح بيس ركعت
ابوعيسى رحمۃ الله عليہ (صاحبِ سنن الترمذی) فرماتے ہیں كہ اكثر اہل علم اس پر ہیں كہ تراویح بيس (20) ركعت پڑھی جائیں جو كہ عمر اور على (رضى الله تعالى عنہما) اور دیگر اصحاب النبى رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے مروى ہے اور یہ بات ثوری رحمۃ اللہ علیہ، ابن المبارک رحمۃ اللہ علیہ اور شافعی رحمۃ اللہ علیہ سب نے بیان کی ہے۔ شافعی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ ہم نے مکہ شہر میں لوگوں کو 20 رکعات تراویح ہی پڑھتے پایا (سنن الترمذی باب ما جاء في قيام شهر رمضان)۔
نوٹ: ابو عیسیٰ رحمۃ اللہ نے تراویح بیس یا اس سے زیادہ کا ذکر کی ہے اس سے کم کا نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تراویح کا اطلاق ہوتا ہی بیس (20) رکعات یا اس سے زیادہ پر ہے۔
موطأ مالك - (ج 1 / ص 342)
1) یزید بن رومان رحمۃ اللہ علیہ درماتے ہیں کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں لوگ تئیس (23) رکعات پڑھا کرتے تھے۔
2) اعرج فرماتے ہیں کہ ہم نے لاگوں کو رمضان میں کفار پر لعنت کرتے پیا اور یہ کہ قاری سورہ بقرہ آٹھ رکعات میں پڑھتا تھا۔ اگر وہ سورہ بقرہ بارہ رکعات میں پڑھتا تو لوگ کہتے کہ رکعات ہلکی پڑھی ہیں۔
السنن الكبرى للبيهقي کی روایات
3) سائب بن یزید فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے-
4) یزید بن رومان فرماتے ہیں کہ لوگ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں ماہ رمضان میں بیس رکعات (تراویح) پڑھتے تھے ۔
5) سويد بن غفلہ نے رمضان میں پانچ ترویحوں کے ساتھ بیس رکعات (تراویح) پڑھائی ۔
6) شتير بن شكل جو کہ على رضى الله عنه کے شاگردوں میں سے تھے، رمضان کے مہینہ میں بیس رکعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر ۔
7) على رضى الله تعالیٰ عنہ نے رمضان میں قاری حضرات کو بلوایا اور ان میں سے ایک کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کوبیس رکعات (تراویح) پڑھائے اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کو وتر پڑھاتے ۔
8) على رضى الله عنہ نے ايك قارى كو حكم ديا لوگوں كو بيس ركعت تراويح پانچ ترويحوں کے ساتھ پڑھانے کا ۔
مصنف ابن أبي شيبة کی روایات
9) شتیر بن شکل رمضان میں بيس ركعت (تراویح) اور وتر پڑھاتے ۔
10) علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم کیا کہ ان کو رمضان میں بيس ركعت (تراویح) پڑھائے ۔
11)
عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو حکم کیا کہ ان کو رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھائے -
12)
عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ابن ابی ملیکہ ہمیں رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھاتے اور بحمد الملائكة ایک رکعت میں پڑھتے ۔
13) ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ میں لوگوں كو رمضان میں بيس ركعات (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر -
14)
حارث رحمۃ اللہ علیہ لوگوں کو رمضان میں رات کو بيس ركعت (تراویح) پڑھاتے اور وتر تین رکعات اور رکوع سے پہلے دعاء قنوت پڑھتے تھے ۔
15)
ابی البختری رحمۃ اللہ علیہ رمضان میں پانچ ترويحات کے ساتھ نماز (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر پڑھتے -
16)
عطاء رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے لوگوں کو (رمضان میں) بيس (رکعات تراویح) اور تین ركعات وتر پڑھتے پایا ۔
17)
علی بن ربيعہ رحمۃ اللہ علیہ رمضان میں پانچ ترويحات کے ساتھ نماز (تراویح) پڑھاتے اور تین رکعات وتر -
نوٹ:- حرمین شریفین میں نماز تراویح اب بھی بیس رکعات ہی پڑھی جاتی ہیں ۔ اس بات کی تصدیق اہل حدیث رائٹر ابو عدنان محمد منیر قمر کی کتاب "نماز تراویح" ناشر "توحید پبلیکیشنز" بنگلور سے بھی ہوتی ہے۔ دیکھئے اس کا صفحہ نمبر 77 اور 78 بعنوان "مسئلہ تراویح اور آئمہ و علماء حرمین شریفین"
مذکورہ بالا روایات کی صحت سے قطع نظر کسی ایک روایت میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعت سے زائد تراویح کا ثبوت تو کجا ، ذکر بھی نہیں! یہ آٹھ رکعت تراویح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کی عملی سنت باور کروانے کے لئے حنفی مقلدین کی دجل کاری کےسوا کچھ نہیں!
بھٹی صاحب کو کیا معلوم کہ اکابرین حنفی علماء و دیوبند اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آٹھ رکعت تراویح ہی تھا:
عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي الحنفي(المتوفى: 1052هـ):
الفصل الاول في تعداد ركعاتها فعندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله وروي ابن عباس انه صلّی رسول الله صلی الله عليه وسلم عشرين ركعة في رمضان ثم أوتر بثلث لكن المحدثين قالوا ان هذا الحديث ضعيف والصحيح ما روته عائشة رضي الله عنها صلّی احدي عشرة ركعة كما هوا عادتة في قيام الليل وروي انه كان بعض السلف في عهد عمر بن عبدالعزيز يصلون احدي عشرة ركعة قصدا للتشبه برسول الله صلی الله عليه وسلم والذي استقر عليه الامر واشتهر من الصحابة والتابعين ومن بعد هم هو العشرون وما روي انها ثلث وعشرون فلحساب الوتر معها وقال مالك وروي عن الشافعي ايضا انها ست وثلثون او تسع وثلثون مع الوتر فهو عمل اهل المدينة خاصة وقالوا سبب ذلك ان اهل مكة يطوفون بالبيت اسبوعا ويصلون ركعتي الطواف بين كلّ رويحتين واهل المدينة لما بعد ومن ادراك هذه الفضيلة صلوا بين ذلك اربع ركعات ويسمونها الست عشرية واستمر عادتهم علی ذلك الیٰ الان وقد يروي ذلك عن عمرو علي رضي الله عنهما لكنه غير مشهور عنهما فان صلی غيرهم ايضا لا باس ويستوي فيه الامام وغيره وينبغي ان يصلو افرادي لان التنفيل بالجماعة في غير التراويح مكروه عندنا لكن اهل المدينة يصلونها بالجماعة والتنفيل بالجماعة لا يكره عندهم قال الشيخ قاسم الحنفي من متاخرين علماء مصر التنفيل بالجماعة مكروه لانه لو كان مستحبا كابت افضل كالمكتوبات ولو كانت افضل لكان المتهجدون والقائمون بالليل يجتمعون فيصلون جماعة طلبا للفضيلة ولما لم يرو ذلك عن رسول الله صلی الله عليه وسلم وعن اصحابه رضوان الله عليهم اجمعين علم انه لا فضل في ذلك.
پہلی فصل رکعات کی گنتی میں سو ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اتنے ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعتیں پڑھیں پھر اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ حديث ضعيف ہے
اور صحیح وہ ہی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں جیسے کہ قیام الیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے اور گنتی جو ٹھر گئی ہے صحابی اور تابعین سے اور انکے بعد لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں ۔ یہ جو روایت ہے کہ تراویح تئیس 23 رکعات ہیں سو وتر کو تراویح کے ساتھ ملا لیا ہے اور مالک کہتے ہیں اور شافعی سے بھی روایت ہے کہ تراویح مع وتر چھتیس 36 یا انتالیس 39 ہیں۔ سو یہ خاص مدینہ والوں کا عمل ہے اور کہتے ہیں کہ اسکا یہ سبب ہے کہ مکہ والے کعبہ کے ساتھ طواف کرتے ہیں اور طواف کے دو رکعت ہر دو تراویحوں کے بیچ میں پڑھتے ہیں اور مدینہ والے چونکہ اس فضیلت کے حاصل کرنے سے دور ہیں تو انہوں نے انکے بیچ میں چار رکعت پڑھنی شروع کر دیں اور ان کا نام ست عشریہ کہہ دیا اور انکی عادت آج تک وہی چلی آرہی ہے۔ اور کبھی یہی روایت عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے بھی آئی ہے ، پر ان سے مشہور نہیں ہے۔ پس اگر انکے سواء کوئی اور بھی پڑھ لے تو کیا ڈر ہے اور اسمیں امام وغیرہ سب برابر ہیں اور بہتر یہ ہے کہ الگ الگ پڑھہیں اس واسطے کہ سوائے تراویح اور نوافل جماعت سے ہمارے نزدیک مکروہ ہیں، لیکن مدینہ والے انکو جماعت سے پڑھتے ہیں اور نفلیں جماعت سے انکے نزدیک مکروہ نہیں ہیں۔ شیخ قاسم حنفی مصر کے متاخر علماء میں سے کہتا ہے کہ نفلیں جماعت سے مکروہ ہوتی ہیں اسلئے کہ اگر مستحب ہوتیں تو افضل ہوتی جیست فرائض جماعت سے افضل ہوتی ہیں اور اگر افضل ہوتیں تو تہجد گزار اور اور رات کے قائم رہنے والے جمع ہوا کرتے اور فضیلت کی طلب میں جماعت سے پڑھا کرتے اور چونکہ یہ فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ اسمیں کچھ فضیلت نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 217 - 219 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة مع ترجمة باللغة الأردية - عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي - بالمطبع المجتبائي بدهلي سنة 1891
كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ):
وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ. نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِ.
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً ". وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ.
وَفِي الْمُوَطَّإِ رِوَايَةٌ بِإِحْدَى عَشْرَةَ. وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ، فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةَ ذَلِكَ لَوَاظَبْت بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» نَدْبٌ إلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَ ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ.
وَظَاهِرُ كَلَامِ الْمَشَايِخِ أَنَّ السُّنَّةَ عِشْرُونَ، وَمُقْتَضَى الدَّلِيلِ مَا قُلْنَا، فَالْأَوْلَى حِينَئِذٍ مَا هُوَ عِبَارَةُ الْقُدُورِيِّ مِنْ قَوْلِهِ يُسْتَحَبُّ لَا مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ فِيهِ.
اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔) ہاں موطا سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس 20 رکعات ثابت ہے، جیسا کہ یزید بن رومان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تئیس 23 رکعات قیام کیا کرتے تھے۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی لتاب المعرفۃ میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس 20 رکعات اور وتر پڑھتے تھے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے خلاصہ میں اس کی سند کو صحیح کہا۔
اور موطا کی روایت میں گیارہ 11 رکعات ہیں، انہیں جمع کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ پہلے گیارہ رکعات پڑھی جاتی تھیں، بعد میں عمل بیس 20 رکعات پر ہوا ، اور یہ جاری ہو گیا۔ یہاں تک کی پوری بحث کا حاصل یہ ہو ا کہ قیام رمضان بمع وتر گیارہ رکعات جماعت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے سنت ہے، اور امت پر فرض کا حکم نازل ہونے کو خوف سے آپ نے جماعت سے پڑھانا ترک کردیا، اور بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ خوف نہ رہا، تو یہ گیارہ رکعات سنت ہوئیں۔ اور بیس رکعات 20 رکعات خلفائے راشدین کی سنت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو کی بنا پر خلفائے راشدین کی سنت مندوب ہیں، اور اس سے ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مواظبت یعنی ہمیشگی کے ساتھ کی ہو، یا سوائے اس کی کہ کوئی عذر ہو، اور اگر یہ عذر نہ ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر مواظبت یعنی ہمیشگی ہوتی جو انہوں نے پہلے کیا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ،
لہٰذا بیس 20 رکعات تراویح مستحب ہے اور ان میں سے بالقدر عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی آٹھ 8) سنت ہیں۔ جیسا کہ عشاء کے بعد چار 4 رکعات مستحب ہیں اور ان میں سے دو 2 سنت ہیں۔
اور مشائخ کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ پوری 20 رکعتیں سنت ہیں، لیکن دلیل کا تقاضا تو وہی ہے جو میں نے بیان کیاہے، اسی صورت میں قدوری رحمہ اللہ کا یہ قول کہ وہ مستحب ہے زیادہ بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري(المتوفى: 970هـ):
لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا لَكِنْ ذَكَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ مَا حَاصِلُهُ أَنَّ الدَّلِيلَ يَقْتَضِي أَنْ تَكُونَ السُّنَّةُ مِنْ الْعِشْرِينَ مَا فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْهَا ثُمَّ تَرَكَهُ خَشْيَةَ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْنَا وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
چونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں تئیس 23 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور اس پر مشرق و مغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔لیکن محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا
خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 72 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):
ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف كما ذكر صاحب المواهب فعلی هذا تكون العشرون ثابتة من فعله صلی الله عليه وسلم اوعترض قوله ثم تركه خشية أن يكتب علينا بأنه كيف يخشي ذلك وهو عليه السلام قد أمن الزيادة بقوله سبحانه بعد فرض الخمس لا يبدل القول لديّ وأجيب بأن الممنوع زيادة الاوقات وبقصانها لازيادة عدد الركعات ونقصانها ألا تری أن الصلاة فرضت ركعتين فأقرت في السفر وزيدت في الحضر أبو السعود عن الشلبيّ وبأن صلاة الليل كانت واجبة عليه صلی الله عليه وسلم ويجب علی الامة الاقتداء به في أفعاله الشرعية فترك الخروج اليهم لئلا يدخل ذلك في الواجب من طريق الامر بالاقتداء به لا من طريق انشاء فرض جديد زائد علی الخمس وهذا كما يوجب المرء علی نفسه صلاة نذر فتجب عليه ولا يلزم من ذلك زيادة فرض في أصل الشرع وبأن الله تعالی قد فرض الصلاة خمسين ثم حط معظمها بشفاعة نبيه صلی الله عليه وسلم فاذا عادت الامّة فيما استوهب لها والترمت ما استعفی لهم نبيهم عليه الصلاة السلام يستنكّر أن يثبت ذلك فرضا عليهم وبأن المخوف افترض قيام الليل علی الكفاية لا علی الاعيان فلا يكون زائدا علی الخمس المفروضة علی الاعيان فتكون نظير الوتر في أنه لم يكر زائدا علی الفرائض وبأن المخوف افتراض قيام رمضان خاصة فيرتفع الاشكال لان قيام رمضان لا يتكّرّر كل يوم بل في السنة فلا يكون قدرا زائد علی الخمس وهناك أجوبة أخری تطلب من المواهب وشرحها (تنبيه) قام صلی الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين بالصلاة الی ثلث الليل الاوّل وليلة خمس وعشرين الی نصف الليل وليلة سبع وعشرين حتی ظنوا أنهم لا يدركون السحور (قولهلم واظبة الخلفاء الراشدين) أي معظمهم والا فأبوبكر لم يفعلها وهي سنة رسول الله عليه وسلم لقوله عليه الصلاة والسلام ان الله تعالی فرض عليكم صيامه وسنت لكم قيامه كافي واشار في كتاب الكراهية من البزازية الی انه لو قال التراويح سنة عمر كفر لانه استخفاف وهو كلام الروافض وفيه نظر فقد صرّح في كثير من المتداولات المعتبرة بأنها سنة عمر لانّ النبيّ عليه الصلاة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني ولم يوظب علی ذلك وصلاها عمر بعده عشرين ووافقه الصحابة علی ذلك ودعوی الستخفاف في حيزا المنع حمويّ.
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 295 جلد 01 حاشية الطحطاوي على الدر المختار - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي - طبعة القديمة في مصر
طحطاوی بحر الرائق سے ابن نجیم کا بیان کردہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور پھر صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس 20 رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ 8 پڑھیں ہیں
محمد يوسف کاندھلوی دیوبندی(المتوفى: 1384هـ):
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا اور یہ واقعہ رمضان کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابی! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے گھر میں چند عورتیں تھیں ان عورتوں نے کہا ہم نے قرآن نہیں پڑھا۔، ہم آپ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھیں گی، چنانچہ میں نے انہیں
آٹھ رکعت نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نہ فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی بناء پر
یہ سنت ہوئی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ مکتبۃ الحسن، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ دار الاشاعت،کراچی
نوٹ: ابو جہل کی طرح کوئی جہالت اختیار کرکے ہٹ دھرم ہو جائے تو اس جس طرح ابو جہل کی ہٹ دھرمی کا کوئی علاج نہیں، اسی طرح ابو جہل کی طرح ہٹ دھرم ہو جانے والے حنفی مقلدی کا کوئی علاج نہیں!