ساجد تاج
فعال رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 7,174
- ری ایکشن اسکور
- 4,517
- پوائنٹ
- 604
ایک اور معروف یہودی تنظیم اینٹی ڈی فیمیشن لیگ (adf) کی کاروائیوں کی تعریف کرتے ہوئے سابق امریکی صدر ہنری ٹرومین نے اسے ''امریکی عوام کے لئے کھلا ہوا گلاب'' قرار دیا۔ ایک اور صدر لنڈن بی جانسن نے اس کی ستائش کے لئے حسب ذیل الفاظ ادا کئے: ''آپ نے جہاں جہاں بھی اپنی شمع روشن کی، وہاں تحمل، برداشت، شائستگی، اور فیاضی جگمگا اٹھی اور تعصب اور ہٹ دھرمی نے اپنا منہ چھپا لیا''۔ (اس بیان کی شاعرانہ نوعیت پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے)۔ اسی adf نے ایک بار اسرائیلی صحافی اور رکن پارلیمنٹ (kenesset) ''یوری ایویزی'' کے خلاف پورا محاذ کھول دیا جو 1970ء میں امریکی دورے پر تھا۔ adf نے ملحقہ یہودی تنظیموں کو ہدایت کی کہ اسے نہ تو اپنے کسی پروگرام میں مدعو کریں اور نہ کسی اور تنظیم کے ساتھ مل کر اس کی کوئی تقریر کرائیں۔ ہدایات میں مذکورہ اسرائیلی صحافی کو صیہونیت اور یہودیت کے نظریئے کا مخالف قرار دیا گیا تھا اورکہا گیا تھا کہ یہ صحافی ایسی باتیں کہہ سکتا ہے جو یہودیوں کے لئے تکلیف دہ اور پریشان کن ثابت ہوں۔
1982ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران نیویارک ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس میں اس نے اسرائیل کو اس بات پر سخت سست کہا تھا کہ اس نے اس جنگ میں امریکیوں کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ اس کے جواب میں anti defamation league (adf) نے ایک تجزیہ شائع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ شام اور سعودی عرب اسرائیل کی قیمت پر امریکہ سے مفادات حاصل کررہے ہیں۔ اضافی طور پر اسی نیویارک ٹائمز میں ایک اشتہار شائع کروایا گیا جس کے الفاظ تھے کہ ''مشرق وسطیٰ کے 36 سال پرانے مرض اور عربوں کی طرف سے باربار مسترد کئے جانے کے باعث ''امن'' بالآخر چل بسا۔ امن کی اس موت پر صرف adf ہی کو ماتم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان تمام لوگوں کو بھی آنسو بہانے چاہئیں جو بربریت پر تہذیب کی فتح کے قائل ہیں''۔
ایک اور اسرائیلی تنظیم ''ماعا'' کے سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ٹھامسن ڈائن سرعام یہ کہتا رہا کہ ہم اپنی سیاسی قوت کا صرف زبانی ہی اظہار نہیں کرتے بلکہ اسے عمل میں بھی لاتے ہیں۔ تھامسن ڈائن اس تصور کی سختی سے مخالفت کرتا تھا کہ امریکی یہودیوں کو اسرائیل کی حمایت میں دبے پاؤں ہی چلنا چاہیئے۔ اور اسرائیل و یہودیت کی مخالفت کو بلاوجہ ابھارنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ امریکی ہاؤس آف ریپریزنیٹیٹیو کی اُمور خارجہ کی کمیٹی کا ڈیموکریٹ رکن مارون، اسرائیل کو مریکی امداد پر زیرلب نکتہ چینی کرتا رہتا تھا۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اس رکن نے بتایا کہ وہ جب بھی اسرائیلی امداد پر معمولی سی بھی تنقید کرتا تھا تو فوراً ہی ''ماعا'' (یہودی امریکی تنظیم) کا ایک وفد اس سے ملنے آجاتا تھا۔ اس رکن نے مزید بتایا کہ وہ بات تو ضرور اسرائیل کی امداد کے خلاف کرتا ہے لیکن ووٹ وہ بالآخر اسرائیل کے حق میں ہی استعمال کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے ''ماعا'' کے رکن کو بتایا کہ اس نے ایک بار بھی ان کے مفاد کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وفد کے ارکان نے کہا کہ فلاں موقع پر آپ اسرائیل کے حق میں ووٹنگ سے غیر حاضر رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ''ماعا'' کتنی باخبر ہے! ضرورت کے وقت ماعا جذباتی دباؤ بھی ڈالتی ہے۔ گذشتہ ایام میں کانگریس میںجب سعودی عرب کو اواکس طیارے دینے کے سوال پر بحث ہو رہی تھی تو اس دوران ماعا نے ہر رکن کانگریس کو ڈاک سے ''ہولوکاسٹ'' نامی ناول کی ایک ایک جلد فراہم کی۔ (واضح رہے کہ یہ ناول بے حد جذباتی مناظر پیش کرتا ہے)۔
1982ء کی لبنان اسرائیل جنگ کے دوران نیویارک ٹائمز نے ایک اداریہ لکھا جس میں اس نے اسرائیل کو اس بات پر سخت سست کہا تھا کہ اس نے اس جنگ میں امریکیوں کو بھی گھسیٹ لیا ہے۔ اس کے جواب میں anti defamation league (adf) نے ایک تجزیہ شائع کروایا جس میں کہا گیا تھا کہ شام اور سعودی عرب اسرائیل کی قیمت پر امریکہ سے مفادات حاصل کررہے ہیں۔ اضافی طور پر اسی نیویارک ٹائمز میں ایک اشتہار شائع کروایا گیا جس کے الفاظ تھے کہ ''مشرق وسطیٰ کے 36 سال پرانے مرض اور عربوں کی طرف سے باربار مسترد کئے جانے کے باعث ''امن'' بالآخر چل بسا۔ امن کی اس موت پر صرف adf ہی کو ماتم نہیں کرنا چاہیئے بلکہ ان تمام لوگوں کو بھی آنسو بہانے چاہئیں جو بربریت پر تہذیب کی فتح کے قائل ہیں''۔
ایک اور اسرائیلی تنظیم ''ماعا'' کے سابقہ ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ٹھامسن ڈائن سرعام یہ کہتا رہا کہ ہم اپنی سیاسی قوت کا صرف زبانی ہی اظہار نہیں کرتے بلکہ اسے عمل میں بھی لاتے ہیں۔ تھامسن ڈائن اس تصور کی سختی سے مخالفت کرتا تھا کہ امریکی یہودیوں کو اسرائیل کی حمایت میں دبے پاؤں ہی چلنا چاہیئے۔ اور اسرائیل و یہودیت کی مخالفت کو بلاوجہ ابھارنے سے گریز کرنا چاہیئے۔ امریکی ہاؤس آف ریپریزنیٹیٹیو کی اُمور خارجہ کی کمیٹی کا ڈیموکریٹ رکن مارون، اسرائیل کو مریکی امداد پر زیرلب نکتہ چینی کرتا رہتا تھا۔ امریکی جریدے وال اسٹریٹ جرنل کے مطابق اس رکن نے بتایا کہ وہ جب بھی اسرائیلی امداد پر معمولی سی بھی تنقید کرتا تھا تو فوراً ہی ''ماعا'' (یہودی امریکی تنظیم) کا ایک وفد اس سے ملنے آجاتا تھا۔ اس رکن نے مزید بتایا کہ وہ بات تو ضرور اسرائیل کی امداد کے خلاف کرتا ہے لیکن ووٹ وہ بالآخر اسرائیل کے حق میں ہی استعمال کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ اس نے ''ماعا'' کے رکن کو بتایا کہ اس نے ایک بار بھی ان کے مفاد کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ لیکن وفد کے ارکان نے کہا کہ فلاں موقع پر آپ اسرائیل کے حق میں ووٹنگ سے غیر حاضر رہے تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ''ماعا'' کتنی باخبر ہے! ضرورت کے وقت ماعا جذباتی دباؤ بھی ڈالتی ہے۔ گذشتہ ایام میں کانگریس میںجب سعودی عرب کو اواکس طیارے دینے کے سوال پر بحث ہو رہی تھی تو اس دوران ماعا نے ہر رکن کانگریس کو ڈاک سے ''ہولوکاسٹ'' نامی ناول کی ایک ایک جلد فراہم کی۔ (واضح رہے کہ یہ ناول بے حد جذباتی مناظر پیش کرتا ہے)۔