• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
''آرمیگاڈون ''کی تیاریاں عروج پر
آج کل مغرب خصوصاً امریکہ میں آرمیگاڈون (Armegaddon) کا نظریہ بہت مقبول ہو رہا ہے، بلکہ اب اس کی مقبولیت نظرئیے سے بڑھ کر ایک تحریک کی سی ہو گئی ہے۔ عیسائیوں کے نزدیک یہ ایک مقدس جنگ ہے جس کی کمان حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ ان کے مطابق اس جنگ میں کم از کم تین ارب انسان ختم ہو جائیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ خیر اور شر کے درمیان یہ خوفناک جنگ فلسطین کے علاقے میں واقع ہو گی۔ ان کے پادری کہتے ہیں کہ خدا کی ہدایت کے مطابق ہمیں اس دنیا کو کلی طور پر ختم کر دینا چاہئے، ان کا عقیدہ ہے کہ یہ جنگ بت پرستوں اور حق پرستوں یعنی عیسائیوں کے درمیان واقع ہو گی۔ واضح رہے کہ بت پرستوں سے عیسائی مبلغین کی مراد مسلمان اور یہودی دونوں ہیں۔ اس ضمن میں امریکا کے سابق صدر ریگن کے الفاظ قابل غور ہیں۔ انہوں نے ایک چرچ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''کم سے کم بیس کروڑ سپاہی مشرق یعنی مسلم ممالک سے آئیں گے جب کہ کروڑوں سپاہی مغربی طاقتوں کے ہوں گے، سلطنت روماکی تجدید و قیام کے بعد پھر عیسیٰ مسیح ؑان مشرقی افواج پر حملہ کریں گے، جنہوں نے ان کے یروشلم کو غارت کر دیا ہے''۔ (ہال لینڈ سے کتاب دی لیٹ گریٹ پلینٹ ارتھ) وہ کہتے ہیں کہ ''اس میں کوئی شک نہیں کہ یروشلم سے دو سو میل تک اتنا خون بہے گا کہ وہ زمین سے گھوڑوں کی باگ کی بلندی تک پہنچ جائے گا اور یہ ساری وادی انسانوں اور جانوروں کے خون سے بھر جائے گی۔'' (ہال سیل۔ کتاب خوفناک جدید صلیبی جنگ)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
صدر ریگن گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''اگرچہ یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، لیکن اس دن خدا انسانی فطرت کو یہ اجازت دے دے گا کہ وہ اپنے آپ کو پوری طرح ظاہر کر دے۔ دنیا کے سارے شہر لندن، پیرس، ٹوکیو، نیویارک اور شکاگو وغیرہ سب کے سب اس دن صفحہ ہستی سے نیست و نابود ہو جائیں گے۔'' (ایضاً)۔ امریکا کے ایک اور صدر جمی کارٹر آرمیگاڈون کی تشریح کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ''اسرائیل کا قیام، بائبل کی پیشین گوئی کی تکمیل اور بائبل کے بیان کا حاصل ہے۔'' (ایضاً: صفحہ۶۹) ایک عیسائی بنیاد پرست اوول کہتا ہے کہ ''کٹر یہودی مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑا دیں گے جس سے مسلم دنیا بھڑک اٹھے گی، یہ اسرائیل کے ساتھ ایک مقدس جنگ ہو گی اور اس کے نتیجے میں مسیح علیہ السلام مجبورہو جائیں گے کہ درمیان میں مداخلت کریں۔'' (ایضاً ص:۷۵)۔ ایک اور بڑا مبلغ ڈیلوک علی الاعلان کہتا ہے کہ ''اسرائیل اپنے ہمسائے کے خلاف جنگ کرتے ہوئے خدا کی رضا پوری کر رہا ہے۔''(ایضاً:صفحہ۸۰)۔
1990ء میں جب خلیج کی جنگ جاری تھی اور حالیہ عراق جنگ میں بھی عالمی ذرائع ابلاغ سے آرمیگاڈون کا ذکر بڑے زور و شور سے ہو رہا تھا، امریکا کے سب سے زیادہ سنے جانے والے مبلغ جیری فال ویل اعلانیہ کہتے ہیں کہ آخری جنگ ایک خوفناک حقیقت ہے اور ہم سب آخری نسل کا حصہ ہیں۔ فال ویل کہتے ہیں کہ ایک آخری جھڑپ ہو گی اور پھر خدا تعالیٰ اس کرئہ ارض کو ٹھکانے لگا دے گا۔ (ایضاً صفحہ:۸)۔
فال ویل کے ساتھ ایک اور بنیاد پرست مبلغ Lindsey کہتا ہے کہ ''اس وقت ایک درجن ممالک کے پاس ایٹمی اسلحے موجود ہیں، چنانچہ ہم یقینی طور پردنیا کو ختم کر سکتے ہیں۔'' (ایضاً۔ صفحہ۷)۔آخری جنگ عظیم کے نظرئیے پر کاربند مقبول عام پادری نہ صرف بڑے بڑے ہجوموں کو متاثر کرتے ہیں بلکہ بہت دولت بھی کماتے ہیں۔ ایک پادری اوول نے اپنے سننے والوں سے اسی لاکھ ڈالر طلب کئے تو وہ رقم انہیں اسی وقت فراہم کر دی گئی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
آرمیگاڈون کی جنگ کے موضوع پر اس وقت لاکھوں نہیں کروڑوںکے حساب سے کتابیں فروخت ہو رہی ہیں۔ ''آنجہانی کرئہ ارض'' (The Late Great Plannet) نامی کتاب مصنفہ ''ہال لینڈسے'' کی اب تک دو کروڑ پچاس لاکھ کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک اور بڑے مصنف Tim Lahaye کی کتاب کی تیس لاکھ سے زائد کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ ایک ہفت روزہ اخبار کے ایڈیٹر نے بتایا کہ ان کتابوں کی مقبولیت سے اندازہ ہو تا ہے کہ وہ مسیحیوں سے نکل کر سیکولر افراد میں بھی پہنچ گئی ہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ کتابیں ہمارے کلچر پر بھی حاوی ہو گئی ہیں۔
امریکہ کی نامور مصنفہ گریس ہالسیلز نے ایک بار ایک ممتاز مذہبی اسکالر ''براڈ'' سے دریافت کیا کہ کیا یہ جنگ عظیم فلسطین میں ہو گی؟ تو انہوں نے جواب دیا، ہاں یہیں ہو گی۔ جب مصنفہ نے مزید سوال کیا کہ آرمیگاڈون کی فتح کے بعد کیا ہو گا؟ تو براڈ نے جواب دیا ''حضرت عیسیٰ علیہ السلام آئیں گے اور بادشاہ دائود علیہ السلام کے تخت پر بیٹھ کر حکومت کریں گے۔'' (ایضاً صفحہ:۵۴) اس نے سوال کیا کہ کیا یہودی عبادت گاہ (ہیکل) میں؟ (واضح رہے کہ یہودیوں کے نزدیک حضرت دائود علیہ السلام ہیکل میں بیٹھ کر عبادت کیا کرتے تھے)۔ براڈ نے جواب دیا کہ ہاں وہ بادشاہ دائود کے تخت پر بیٹھ کر ساری دنیا پر حکومت کریں گے۔ (ایضاً صفحہ۵۴)۔ ایک امریکی بنیاد پرست پادری نے کسی سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''میں بائبل کا عالم ہوں اور علوم دینی کا ماہر۔ میری اپنی بصیرت کے مطابق خدا کا قانون امریکی حکومت اور امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے قانون سے بالاتر ہے۔'' (ایضاً صفحہ۱۰۲)۔
ایک اور نمایاں عیسائی مذہبی مبلغ Cloyd تبلیغ کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ پہلا وار حضرت عیسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ وہ ایک نیا ہتھیار استعمال کریں گے جس کے وہی اثرات ہوں گے جو نیوٹرون بم کے ہوتے ہیں۔ لوگ اپنے قدموں پر کھڑے رہیں گے لیکن ان کا سارا گوشت گل چکا ہو گا، ان کی آنکھیں اپنے خولوں میں ختم ہو چکی ہوں گی اور زبانیں منہ کے اندر گل چکیں ہوں گی۔ وہ کہتے ہیں کہ تم انہیں محض ایک مذہبی رہنما نہ سمجھو بلکہ وہ ایک فائیو اسٹار جنرل ہوں گے۔ (ایضاً صفحہ۲۵)۔
اس وقت سارے امریکہ میں بنیاد پرستی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور حکومت امریکا اس میں خود پیش پیش ہے، جیسا کہ ہم نے اوپر دیکھا کہ بنیاد پرست عیسائی مبلغین کو نہ صرف عام افراد پوری توجہ سے سنتے ہیں بلکہ امریکہ صدر بھی ان کی باتوں پر مِن و عَن ایمان لاتے ہیں۔ انہیں ان کی طلب کے مطابق بھاری عطیات بھی فوری طور پر دئیے جاتے ہیں، دوسری طرف بنیاد پرستی اور جنگی جنون کے نظرئیے پر مبنی کتابیں بھی لاکھوں، کروڑوں کی تعداد میں فروخت ہو رہی ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اب ایک طرف تو آرمیگاڈون کو آگے بڑھانے اور اس کی تیاری کے لئے یہ صورت حال ہے اور دوسری طرف پوری اسلامی دنیا میں بنیاد پرستی کو ایک گناہ اور گھنائونا جرم بنا کر اسے جڑ سے نکالا جا رہا ہے۔ علماء اور تحریکی افراد کو پکڑ پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال مسلم دنیا کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
واضح رہے کہ آرمیگاڈون جیسی خوفناک خونی جنگوں سے بچنے کے لئے عیسائی مبلغین نے ایک نیا عقیدہ اپنے عوام کو دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس جنگ کے وقوع سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر آکر تمام عیسائیوں کو بادلوں پر بلا لیں گے اور وہاں انہیں نجات عطا کریں گے۔ عیسائی اس عقیدے کو Rapture یعنی فضائی نجات کہہ کر پکارتے ہیں، ان کو یقین ہے کہ اس ایٹمی و جراثیمی جنگ میں نزول مسیح ہو گا اور ایمان والے عیسائی ان کے ساتھ بادلوں میں اوپر چلے جائیں گے۔ اس کے بعد دنیا سے بت پرستوں اور مشرکوںکا خاتمہ ہو جائے گا۔ اور اوپر آسمان سے وہ خیر و شر کا آخری معرکہ دیکھیں گے۔ واضح رہے کہ آج کی مسیحی دنیا میں تیزی سے پھیلنے والی تحریک یہی ہے۔ (ایضاً صفحہ ۳۷)۔
ان کے عقیدے کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک بار پھر اپنے ماننے والوں کو لینے کے لئے زمین پر آئیں گے اور اس کے بعد وہ آخری جنگ عظیم لڑنے کے لئے دوبارہ فلسطین (یروشلم)میں آئیں گے۔ (ایضاً صفحہ:۴۲)۔ ایک ممتاز دانشور کارل ملین ٹائر لکھتا ہے کہ ''خدا کا شکر ہے کہ میں جنت کی بلند و بالا نشست سے آرمیگاڈون کی جنگ کا منظر دیکھوں گا۔'' (ایک ممتاز ایونجلسٹ کارل میلنٹائر۔ جدید صلیبی جنگ۔ گریس ہالسیل صفحہ ۴۲)۔
عیسائیوں کے یہ عقائد و خیالات جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں ہیں، لیکن اوپر سے لے کر نیچے تک وہ سب کے سب اس میں مگن ہیں بلکہ وہ ان کو حقیقت بنانے کے لئے انتھک محنت کر رہے ہیں۔ ان کی نظر میں ہر آنے والا دن عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا دن ہے۔ دوسری طرف جب نظر مسلمانوں کے حالات پر جاتی ہے تو دل خوف سے بیٹھ جاتا ہے۔ پوری مسلم دنیا پر بے حسی طاری ہے۔ کسی کو خبر ہی نہیں ہے کہ کتنے خوفناک لمحات ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ان کی بودوباش، چلنا پھرنا، گفت و شنید، شب و روز کی سرگرمیاں اور شادی و بیاہ کی تقریبات سب کی سب یہی کہہ رہی ہیں کہ انہیں اپنے ذبح کئے جانے کا احساس بھی نہیں ہے۔ حالانکہ ہر طرف ''ہماری بربادیوں کے مشورے ہیں''۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلم دنیا میں کسی کو بھی خوفناک آرمیگاڈون کی آمد کی کوئی فکر نہیں ہے۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
یہودیو! ہمارا فلسطین چھوڑ دو
یہودیوں سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ ہماری ارض مقدس فلسطین سے نکل جائیں۔ یہ سرزمین ہماری ہے۔ اس پر ان کا کوئی دعویٰ نہیں ہے۔ بیت المقدس کو سب سے پہلے حضرت سلیمان u نے تعمیر کیا تھا جو ایک سچے اور مسلمان نبی تھے۔ اس کے بعد اسے حضرت عمر فاروق t نے اپنے دور خلافت میں ۶۳۸ عیسوی میں عیسائیوں سے حاصل کیا اور پھر وہاں مسلمان رہنے بسنے لگے۔ نو سو سال قبل ۱۱۸۷ء میں مسلمانوں کے عظیم اور دلیر سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے ایک بار پھر عیسائی سپہ سالار رچرڈ سے حاصل کیا۔ اس سرزمین مقدس پر مسلمان حضرت عمر فاروق tؓ کے دور ہی سے رہتے چلے آرہے تھے جسے آج ۱۴۰۰ سال سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ اس عرصے میں یہودی اس سرزمین پر کبھی موجود نہیں رہے۔ وہ مصر سے نکلنے کے بعد سزا کے طور پر ساری دنیا میں پھیلا دیئے گئے تھے۔ اب سے چار ہزار سال پہلے حضرت موسیٰ u کے زمانے میں البتہ وہ چالیس سال کے لئے یہاں رہے بسے تھے لیکن مسلمانوں کے مقابلے میں ان کا عرصہ رہائش نہ ہونے کے برابر ہے چنانچہ فلسطین پر ان کا کوئی حق تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ وہ تو یوں بھی اللہ تعالیٰ کی پھٹکاری ہوئی قوم ہے۔ یہ بات صرف قرآن مجید ہی میں نہیں بلکہ عیسائیوں اور یہودیوں کی اپنی کتابوں انجیل اور توریت میں بھی موجود ہے۔ انہوں نے اللہ کے ساتھ دھوکے بازی کی اس کا تمسخر اڑایا، اسے اپنے آپ سے چھوٹا قرار دیا، انہوں نے اس کے بھیجے ہوئے نبیوں کے ساتھ فریب کا سلوک کیا، انہیں قتل کیا، کنویں میں لٹکایا، پتھر مارے اور صلیب پر چڑھایا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اللہ تعالیٰ نے اس قوم پر پے در پے عذاب بھیجے۔ کبھی پسوؤں کا، کبھی مینڈکوں کا، کبھی خون کا اور کبھی بندر کی شکل میں تبدیل ہوجانے کا۔ آج بھی یہودی قوم سرزمین فلسطین پر قبضہ کرنے کے باوجود عذاب سے دوچار ہیں۔ پوری طرح زرہ و بکتر میں ڈوبی ہوئی اس قوم پر ننھے معصوم فلسطینی اور نوجوان عرب مسلمان سنگ باری کررہے ہیں اور خودکش حملے کر کے انہیں زندگی سے ہاتھ دھونے پر مجبور کررہے ہیں۔ یہودیوں کی زندگی کی آج کوئی ضمانت نہیں ہے۔ ان کی جان، مال، آبرو سب کچھ خطرے سے دوچار ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں، ذلت ان کا پیچھا کرتی ہے۔ ان کے ''وطن'' کا کوئی گوشہ اور کوئی کونہ محفوظ نہیں ہے۔ وہ آج سے چار ہزار سال قبل بھی غیر محفوظ تھے اور آج چار ہزار سال کے بعد بھی غیر محفوظ ہیں۔ موت کے خوف سے ان کی آنکھیں ابل پڑی ہیں اور چہرے زرد پڑ گئے ہیں۔ فلسطینی نوجوانوں کے خودکش حملوں نے جن میں کبھی چھ چھ اور کبھی بیس بیس یہودی جانیں ایک ساتھ جہنم رسید ہوتی ہیں، ان کی زندگی کو دردناک بنا دیا ہے۔ ان کی سیاحت، معیشت اور روزمرہ کے کاروبار سخت انجام سے دوچار ہیں۔
پہلے وہ اپنے مقدس وطن کی طرف دنیا بھر سے اُڑ اُڑ کر پہنچتے تھے لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ اب وہ دوبارہ اپنے اصل ممالک کی طرف لوٹ رہے ہیں۔وہ فلسطین خالی کررہے ہیں۔ ان کے اعصاب پر بیماریاں سوار ہیں ان کے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں حرام ہو گئی ہیں۔ حماس کے سربراہ شیخ یاسین (مرحوم) نے جو ایک معذور شخص تھے اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر اتنی عظیم الشان تحریک چلا رہے تھے ، اعلان کیا تھا کہ وہ خودکش حملے کبھی بند نہیں کریں گے۔ سڑکوںپر، بازاروں میں، نائٹ کلبوں میں اور بس اسٹاپوں پر وہ یہ حملے کرتے رہیں گے۔ انہوں نے یہودیوں کو تنبیہ کی تھی کہ صیہونی اگر اپنی زندگی چاہتے ہیں تو فلسطین سے نکل جائیں ورنہ وہ اسی طرح سسک کر مارے جائیں گے
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دنیا کی یہ واحد ریاست ہے جو دہشت گردی اور بدمعاشی کی بنیاد پر وجود میں آئی ہے۔ کل بھی اسکا فلسفہ یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ یہودی قائدین چاہے سول ہوں یا فوجی، ایہود بارک ہو یا ایریل شیرون، یہ سب دہشت گردی کی یکساں سوچ رکھتے ہیں۔ یہ وہ قوم ہے جسے دنیا کی ہر قوم نے تباہ کیا ہے۔ ۵۸۶ قبل مسیح میں شاہ بابل نے اپنی پوری طاقت سے اس کی سرزمین پر قبضہ کیا اور یروشلم میں ان کے عبادت خانے کو تباہ کردیا۔ ۷۰ء میں رومی بادشاہ Titus نے بھی یروشلم پر حملہ کر کے انہیں بالکل تباہ و برباد کردیا۔ ۱۳۵ء میں رومی عیسائیوں بادشاہ ہیڈ ریان نے بیت المقدس کو ایک بار پھر تباہ و برباد کیا اور سارے یہودی قید کرلئے۔ ہٹلر نے بھی پہلی جنگ عظیم میں ان پر دردناک ظلم توڑے۔ اس سے قبل ۴۷۲ قبل مسیح میں بھی یونانی بادشاہ انہولینس نے بیت المقدس پر حملہ کر کے نوتعمیر ہیکل سلیمانی کا ایک بار پھر نام و نشان مٹا دیاتھا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیاتھا۔ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف آیت نمبر ۱۶۷ میں پہلے ہی واضح کر دیا ہے کہ ''وہ قیامت تک ایسے لوگ بنی اسرائیل پر مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے۔''
چنانچہ یہ قوم تو اپنے کرتوتوں کی بنیاد پر ہمیشہ ساری قوموں کی ٹھوکروں پر پڑی رہی۔ یہ صرف مسلمان ہی تھے جنہوں نے اسے تحفظ اور امان دیا۔ اس کے باوجود ان کی ریشہ دوانیاں اور سازشیں جاری رہیں۔ انہوں نے اپنے عبرتناک انجام سے کبھی سبق نہ سیکھا۔ اب اس دور میں نہتے معصوم فلسطینی ان کے لئے طیطوس، ہٹلر اور ہیڈریان ثابت ہو رہے ہیں۔
یہودیوں کو ہم بتانا چاہتے ہیں کہ تم وہ قوم ہو کہ محض امریکہ کی سرپرستی سے تمہارا وجود قائم ہے ورنہ دنیا کی ہر قوم تم سے نفرت کرتی ہے۔ چند سال قبل افریقہ کے شہر ڈربن میں ہونے والی ایک کانفرنس میں تمہارے ملک کو ''نسل پرست'' اور ''نفرت انگیز ریاست''کے خطاب سے نوازا گیا۔ (روزنامہ نوائے وقت کراچی:(4-9-01 عظیم عربی مسلمان مفکر ڈاکٹر سفر عبدالرحمان الحوالی نے تو تمہاری موجودہ ذلت و تباہی کی ایک تاریخ تک متعین کردی ہے۔ انہوں نے انجیل اور توریت کی بے شمار پیشن گوئیوں کو کھنگالنے کے بعد نتیجہ نکالا ہے کہ یہودی قوم ۲۰۱۲ء تک اسرائیل سے ذلت و رسوائی کے ساتھ نکال باہر کی جائے گی۔ (کتاب یوم الغضب۔ ترجمہ راقم صفحہ174) اس لئے یہودیو! تم کو ہمارا پیغام ہے کہ تم اپنے انجام کو سامنے رکھو اور اسرائیل سے بھاگ جاؤ۔ ورنہ مرتے مرتے تمہاری قلیل آبادی یونہی ختم ہو جائے گی۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسرائیل اپنے محسنوں کو بھی نہیںبخشتا
ظاہری طو رپر اسرائیل کی دہشت گردی ہمیں بس اتنی نظر آتی ہے کہ وہ فلسطینیوں پر تشدد کررہا ہے۔ ان کی جان، مال، آبرو اور زمین کسی چیز کی کوئی قدر و قیمت اسرائیل کے نزدیک باقی نہیں ہے۔ دوسری طرف آس پاس کے عرب ممالک بھی اس کی دہشت گردی سے محفوظ نہیں ہیں۔ عرب ممالک میں کون سا ایسا ملک ہے جو اس کے ظلم و تشدد سے بچا ہوا ہے لیکن اسرائیل کی جارحیت کا یہ محض ایک رخ ہے۔ دوسرا رخ یہ ہے کہ وہ اپنی دہشت گردانہ کارروائیاں خود برطانیہ، امریکہ اور اقوام متحدہ کے خلاف بھی جاری رکھتا ہے۔ قارئین کے لئے یہ شاید اچنبھے کی بات ہو لیکن یہ حقیقت ہے کہ اسرائیل اپنے ان محسن ممالک و اداروں پر بھی تشدد کرنے سے باز نہیں آتا۔ اسرائیل کی فطرت ہی میں محسن کشی داخل ہے۔ یہودیوں نے تو اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی سازشیں اور دغا بازی کی اور اپنے مہربان پیغمبروں پر بے پناہ تشدد کیا تو امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ آخر کیا شے ہیں؟ ذیل میں ہم وہ چند اہم تاریخی حقائق بیان کرتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ان ممالک کے خلاف اسرائیل نے کس کس طرح دہشت گردی کی؟
برطانوی تسلط سے اسرائیل کو آزاد کرانے کی خاطر صیہونیوں نے خوفناک کارروائیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جس میں ایک کنگ ڈیوڈ ہوٹل پر ان کی بمباری تھی۔ ۱۹۴۶ء میں اس بمباری سے مجموعی طور پر ۹۳ افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے برطانوی سپاہیوں اور افسران کو بھی جو اس ہوٹل میں مقیم تھے، بے رحمی کے ساتھ قتل کردیا تھا۔ ان بے رحم اور سخت دل یہودیوں کا ایک اور طریقہ واردات یہ بھی تھا کہ وہ برطانوی سپاہیوں کو اغوا کرلیتے اور انہیں آہستہ آہستہ سزا دیتے یہاں تک کہ وہ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس دہشتگردانہ کاروائی کا مقصد یہ تھا کہ برطانیہ جلد از جلد فلسطین سے نکل جائے۔
۱۹۵۴ء میں اسرائیلی حکومت نے امریکہ کے خلاف دہشت گردی کے لئے خفیہ آپریشن کیا جس کا نام اس نے ''آپریشن سوزّنا'' رکھا۔ اس کا منصوبہ تھا کہ آپریشن کے بعد ایسی جھوٹی گواہیاں سامنے لائی جائیں جن سے یہ محسوس ہو کہ یہ کارروائی مصریوں نے کی ہے تاکہ اس طرح امریکہ کا ٹکراؤ براہ راست مصر سے ہوجائے۔ یہودی ایجنٹوں نے قاہرہ اور اسکندریہ میں چند ڈاک خانے اور امریکی لائبریریاں دھماکے سے اڑادیں۔ تاہم ایک امریکی سینما گھر کو دھماکے سے اڑانے سے قبل ہی اسرائیلی ایجنٹ کے ہاتھوں وہ بم پھٹ گیا اس طرح سارا منصوبہ طشت از بام ہو گیا اور روبہ عمل آنے سے پہلے ہی ختم ہو گیا۔ اسرائیلی ایجنٹ پکڑا گیا اور اسی کے نتیجے میں اسرائیلی وزیر خارجہ پہناس لیون کو استعفیٰ دینا پڑا۔ بہت سے یہودی گرفتار ہوئے اور ان میں سے کچھ لوگوں کو پھانسی پر بھی لٹکایا گیا تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
۱۹۶۷ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ کے دوران اسرائیل نے امریکہ کے خلاف مزید ہولناک کارروائی کی۔ ۸ جون ۱۹۶۷ء کو اسرائیل نے امریکی بحری جہاز ''یو ایس ایس لبرٹی'' پر فائٹرز اور تارپیڈو کشتیاں استعمال کر کے حملہ کیا جس کے باعث ۳۴ امریکی ہلاک اور ۱۷۱ زخمی ہوئے۔ اسرائیلیوں نے سب سے پہلے لبرٹی کے ریڈیو ٹاور پر حملہ کیا تاکہ امریکہ کا چھٹا بحری بیڑا واقف نہ ہو سکے کہ !حملہ آور اسرائیل ہے۔ زندہ بچ رہنے والے امریکی سپاہیوں کو بھی، جو حفاظتی کشتیوں کے ذریعے فرار ہو رہے تھے، اسرائیل نے مشین گن چلا کر بھون دیا تاکہ دنیا کو اس حملے کا سراغ نہ مل سکے، تاہم کسی نہ کسی وجہ سے اس کا یہ منصوبہ بھی طشت از بام ہو گیا اور اسرائیل نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ یہ حادثہ شناخت کی غلطی کے باعث ہوا۔ اسرائیل نے کہا وہ یہ سمجھا تھا کہ یہ کوئی مصری بحری جہاز ہے جس پر جنگ کے دوران حملہ جائز ہے۔ تاہم امریکہ کے اس وقت کے وزیر مملکت ڈین رسک اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی ایڈمرل تھومس مورر نے واضح بیان دیا کہ یہ حملہ ہرگز اتفاقی نہیں تھا بلکہ اسرائیل نے جان بوجھ کر یو ایس ایس لبرٹی پر حملہ کیا تھا کیونکہ جہاز پر امریکی پرچم لہرا رہا تھا۔
ایک امریکی یہودی جوناتھن پولارڈ نے امریکہ کے خلاف جاسوسی کی اور امریکہ کے ایٹمی راز سوویت یونین کو فراہم کئے۔ پولارڈ کی فراہم کردہ معلومات نے نہ صرف یہ کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی انٹیلی جنس کے کاموں کو برباد کیا بلکہ سوویت روس اور مشرقی بلاک میں بھی اسے نقصان پہنچایا۔ پولارڈ کی فراہم کردہ معلومات کے بعد کمیونسٹ دنیا میں امریکہ کے کئی وفادار ایجنٹوں کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا۔ اسی طرح لاس اینجلس ٹائمز نے ۲۰ فروری ۱۹۹۷ء کی اشاعت میں اطلاع دی کہ ایک امریکی یہودی اے ٹیننے ہام نے اقرار کیا تھا کہ وہ اسرائیل کے لئے جاسوسی کرتا رہا ہے۔ ایرل شیرون نے ایک اخباری رپورٹر کو انٹرویو میں کہا تھا کہ ''ہر بار جب ہم کچھ کارروائی کرتے ہیں تو تم بتاتے ہو کہ امریکہ یہ کردے گا اور امریکہ وہ کردے گا۔ میں تمہیں ایک بات بہت واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ اسرائیل پر امریکی دباؤ کی کبھی پرواہ نہ کرو۔ ہم یہودی امریکہ پر اپنا تسلط رکھتے ہیں اور امریکہ اسے جانتا بھی ہے۔ (روسی اخبار پراودا ۔ ۳ اکتوبر ۲۰۰۱ء)
اسرائیلی دہشت گردی کی ایک اور مثال ۱۹۹۶ء میں ''قانا'' لبنان میں اقوام متحدہ کے مر کز پر بمباری تھی۔ یہ اقوام متحدہ کی جانب سے لبنانیوں کے لئے ایک پناہ گاہ تھی۔ ایک مشہور انگریز صحافی رابرٹ فِسک نے اس بمباری اور قتل عام کا نقشہ خود کھینچا ہے۔ ''قانا، جنوبی لبنان میں معصوم افراد کی جو قربانی میں نے دیکھی وہ صابرہ اور شتیلا کے بعد کہیںنہیں دیکھی۔ لبنانی پناہ گزین مرد، عورتیں اور بچے ایک دوسرے پر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئے تھے جن کے یا تو بازو و ٹانگیں غائب تھیں یا ان کے سرجدا ہوچکے تھے یا ان کی آنتیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اسرائیلی بموں نے انہیں اس وقت ٹکڑے ٹکڑے کردیا تھا جب کہ وہ اقوام متحدہ کی پناہ میں آئے ہوئے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ وہ عالمی ادارے کی حفاظت میں آگئے ہیں۔'' بعد میں اسرائیل نے اسے ایک غلطی اور صدر کلنٹن نے اسے ایک حادثہ قرار دیا۔ واضح رہے کہ آج کا وزیر اعظم ایرل شیرون صابرہ و شتیلا کیمپوں کی خوں آشام دہشت گردی کی وجہ سے عالمی عدالت انصاف ہیگ ٹریبونل کو بھی مطلوب ہے۔
یہ ہے اسرائیل کی چند محسن کش کارروائیاں، اس کے باوجود امریکی صدور اس کے وزیراعظموں کو گلے لگاتے، مصافحہ کرتے اور ان پر ہر قسم کی امداد روا رکھتے ہیں۔ اسرائیلی دنیا میں کبھی کسی کے وفادار نہیں رہے۔ بدقسمتی کہ آج سعودی عرب، پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اسی اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کررہے ہیں۔ (حوالہ کے لئے دیکھیں کتاب: سازشیں۔ ڈیوڈ ڈیوک ترجمہ راقم)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسئلہ فلسطین اور ہماری ذمہ داریاں
دنیا کی جس سرزمین سے بھی اسلام وابستہ ہو یا جہاں مسلمان کفر سے پنجہ آزما ہوں، وہ زمین درحقیقت ہماری ہی ہے۔ اس کے لئے بے قرار رہنا، دعائیں مانگنا اور مادی و اخلاقی تعاون کرنا ہمارے دین کا ایک حصہ ہے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کروڑوں مسلمان آج دین اسلام کے احیاء اور اپنی سرزمین کو کفر کی قوتوں سے آزاد کرانے کی خاطر مصروف جدوجہد ہیں اور اس جرم میں یہ قوتیں ان پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہیں۔ ایسے پہاڑ کہ جنہیں کفر کی یہ طاقتیں خود بھی نہ برداشت کرسکیں۔
سرزمین فلسطین بھی ہماری ایک ایسی ہی سرزمین ہے۔ اس خطے کو دنیا میں مقدس مقام کا درجہ حاصل ہے۔ یہ وہ خطہ ہے جہاں جلیل القدر انبیاء ایک طویل عرصے تک دنیا کے فساد زدہ لوگوں کو اللہ کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دیتے رہے۔ یہاں مسلمانوں کا مقدس قبلہ اول بھی واقع ہے۔ اللہ کے نبیوں کی یہ سرزمین آج یہودیوں کے ناپاک قدموں تلے مسلسل روندی جارہی ہے۔ خود بیت المقدس، حضرت سلیمان علیہ السلام کی مسجد، بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہیں ہے۔ وہ مسلم فلسطینی جو تقریباً ایک ہزار سال سے وہاں آباد تھے، عیسائیوں اور یہودیوں کی شرمناک سازش کے نتیجے میں وہاں سے نکال باہر کئے گئے ہیں اور ان کے دیرینہ گھروں کو مسمار کرکے ان پر یہودیوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔ ناجائز طور پر آباد کیا جانے والا ملک اسرائیل آج اس اسرائیل سے کئی گنا زیادہ وسیع ہوچکا ہے جو ۱۹۴۸ء میں موجود تھا۔
امریکہ اور اس کے حلقوں نے دنیا بھر میں بکھرے ہوئے یہودیوں کو زبردستی لا لا کر اسرائیل میں بسایا ہے جب کہ ان بیرونی یہودیوں کے پاس آج بھی اپنے اصلی ملک کے پاسپورٹ موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ بازی کسی بھی وقت پلٹ سکتی ہے۔ انہیں فلسطین سے نکلنا پڑسکتا ہے۔ اس لئے اپنے اصلی ملک کا پاسپورٹ ان کی جیب میں موجود رہنا چاہئے تاکہ جب چاہیں یہاں سے پرواز کرجائیں۔ اسرائیل کی ریاست کے ناجائز ہونے کا یہ ایک واضح ثبوت ہے۔ نیز یہ بھی اس کے ثبوت کی نشانی ہے کہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ڈیڑھ کروڑ یہودیوںمیں سے محض ۵۰ لاکھ یہودی ہی اسرائیل جانے پر رضامند ہوسکے ہیں ورنہ ایک کروڑ یہودی تاحال اپنے اپنے ممالک میں بدستور مقیم ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ اسرائیل کے مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں ہے۔
 
Top