• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

معرکۂ عظیم از رضی الدین سیّد

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
فلسطینی برادران پر بہیمانہ ظلم و تشدد کی خبریں ساری دنیا میں پھیل رہی ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انہیں خاک و خون میں نہ نہلایا جاتا ہو۔ عالمی ضمیر تو اس وقت بے حس ہے ہی کیونکہ یہ محض اپنے مفاد کے تحت ہی کچھ اثر قبول کرتا ہے لیکن اصل سوال امت مسلمہ کے ضمیر کا ہے۔ دنیا کا ضمیر بے شک خراٹے لیتا رہے لیکن امت مسلمہ کا ضمیر آخر کیوں سویا ہوا ہے؟ کیوں ان میں بیداری نہیں پائی جاتی؟ کیوں ان میں دکھ اور تڑپ نہیں پیدا ہوتی اور کیوں وہ ایسا کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھاتے جس سے دشمنوں پر کوئی ہیبت بیٹھ سکے؟ مسجد اقصیٰ کیوں آج فریاد کناں ہے؟ اور کیوں وہ پکار رہی ہے کہ'' امت مسلم سوتی ہے۔ مسجد اقصیٰ روتی ہے''؟
عالمی طور پر مسلمانوں کے کم و بیش ۵۶ آزاد ممالک موجود ہیں جہاں دنیا بھر کے خزانے پائے جاتے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کی کل تعداد سوا ارب کے لگ بھگ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس دنیا میں ہر پانچواں آدمی مسلمان ہے۔ دنیا کا کوئی کاروبار اور فضائی، بری و بحری نقل و حرکت اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ مسلم ممالک کی مربوط زنجیر پار نہ کر !!لی جائے جیسا کہ اس کتاب کے ٹائیٹل پر موجود نقشے سے واضح ہے۔ اس کے باوجود اگر وہ ذلت و بربادی اور استحصال کا شکار ہیں تو اس کی وجہ خود ان کی اپنی کوتاہی اور بزدلی ہے ورنہ اتنی بڑی حیثیت کی قوم کو تو تمام دنیا کو خود اپنے پیچھے چلنے پر مجبور کردینا چاہئے۔
آج اسرائیل دس عرب ممالک کے وسط میں واقع ہونے کے باوجود انہیں تباہ و برباد کررہا ہے تو اس میں عرب ممالک کی اپنی کوتاہی اور ان کی مغربی طاقتوں کی کاسہ لیسی شامل ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ان کے درمیان باہمی اتحاد ہو اور مسجد اقصیٰ کے مسئلے پر جرأت مندانہ کردار ہو۔ عرب ممالک اپنی تیل کی بلین ڈالرز سالانہ کی آمدنی سے جو وہ مغربی بینکوں میں جمع کراتے ہیں اور جس کی وجہ سے خود مغرب کی معیشت مضبوط ہو رہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ پر دباؤ ڈالیں تو ان کا دماغ محض چھ ماہ میں درست ہوسکتا ہے۔
دوسرا بڑا ہتھیار خود تیل کا ہے۔ اسی تیل سے استحصال پسند سامراجی ممالک کے ہر قسم کے پہئے چل رہے ہیں اور اسی تیل کے باعث اسرائیل کے طیارے اور توپیں آگ اُگل رہی ہیں۔ حیرت ہے کہ تیل کے پچاسی فیصد کنوئیں مسلم ممالک میں موجود ہیں لیکن پھر بھی ہم اس تیل کو مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کررہے ہیں۔ حالیہ عراق امریکہ جنگ میں عرب لیگ نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ اس جنگ میں تیل کا ہتھیار استعمال نہیں کرے گی۔ اگر ہم پیٹرول کے مسئلے پر اقوام متحدہ اور امریکہ سے محض سودے بازی کریں۔ تب بھی صرف ایک دو ہفتوں کے بعد ہی یہ قوتیں عرب ممالک کے آگے گھٹنے ٹیک سکتی ہیں۔ اس ضمن میں صرف ایک مجاہد اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک میں پیدا کیا تھا جس کا نام شاہ فیصل مرحوم تھا۔ اس کے اس اقدامات نے پورے مغرب کو بری طرح ہلادیا تھا۔ مغرب اس زمانے میں فی الحقیقت رو پڑا تھا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عرب ممالک استحصال پسند قوتوں کی پیداوار کی ایک بڑی منڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہاں سے وہ ایک بڑا زرمبادلہ ہر روز اپنے ممالک میں منتقل کررہے ہیں جس کے ذریعے وہ اسرائیل کو نہتے فلسطینیوں کے جسموں کو گولیوں سے چھلنی کرنے کا سامان فراہم کررہے ہیں۔ چنانچہ عالمی منڈی کی اپنی اسی قدر و قیمت کو محسوس کرتے ہوئے بھی عرب ممالک مغرب سے جرأت مندانہ سودے بازی کرسکتے ہیں۔ فلسطین کے ضمن میں مسلم امت کی ایک اور بڑی ذمہ داری فلسطینیوں کی عسکری امداد ہے۔ اس وقت تک وہ محض غلیلوں اور پتھروں کے ذریعے صیہونیوں سے جہاد جاری رکھتے ہوئے ہیں۔ ان کی جرأت و شجاعت پر داد دیئے بغیر نہیں رہا جا سکتا۔
اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
تاہم اسلحی امداد اب وقت کا تقاضا ہے۔ اگر قریب کے عرب ممالک فلسطینی مجاہدوں کو اسلحے کی فراہمی شروع کردیں تو یہودی اپنی تمام بربریت بھول جائیں گے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ اسرائیل کی بربادی ہی میں تمام عرب ممالک کی زندگی ہے۔ اسی اسلحے کی جدوجہد نے افغانستان سے روس کو نکال باہر کیا تھا۔ فلسطینیوں کو اسلحہ فراہم کرنا اسلام کی ایک بہت بڑی خدمت ہو گی۔ اس جہاد میں عرب ممالک کو بیس کیمپ کا کردار ادا کرنا چاہئے۔
اسلامی ممالک کی عالمی تنظیم او۔ آئی۔سی کو بھی اب اپنی مصلحتوں کو ایک کنارے رکھ کر بیدار ہونا پڑے گا۔ انہیں بہتے لہو اور جلتے مکانوں کے درمیان اپنی مدہوش نیندوں سے بیدار ہونا پڑے گا۔ انہیں عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے اور بعض اقدامی Offensive کردار اختیار کرنے ہوں گے۔
حماس اور دوسری جہادی تنظیموں کا کھلے عام ساتھ دینا پڑے گا۔ او۔آئی۔سی مسلمانوں کی عالمی تنظیم ہے مگر افسوس کہ اس کے ذمہ داران مغرب سے بے انتہا مرعوب ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ فلسطینیوں کی مؤثر آواز بنیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
دوسری طرف عوام الناس کو بھی اپنی غفلتوں سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔ انہیں راگ رنگ اور شراب و کباب سے باہر آ کر اپنے ممالک میں بے حس حکمرانوں کو جھنجھوڑنا ہو گا اور انہیں امریکہ سے دو ٹوک گفتگو پر اکسانا ہو گا۔ ارض فلسطین انبیاء کی مقدس سرزمین ہے اور اس پر قبضہ گویا خود اپنے وطن پر قبضے کے برابر ہے۔ اس لئے عام افراد کو بھی صیہونیوں سے نجات کی اس جدوجہد میں اپنے حصے کا بھرپور کردار ادا کرنا ہو گا۔
صحافیوں اور دانشوروں کو چاہئے کہ وہ اپنے قلم کے ذریعے فلسطین کے جہاد کو مضبوط تر کریں اور امریکی و یورپی میڈیا میں اپنے احتجاج مسلسل ریکارڈ کروائیں تاکہ وہاں کے عوام بھی اصل ظلم سے آگاہ ہوسکیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ یہاں ہم کشمیر، افغانستان اور فلسطین کے بارے میں اگرچہ بہت کچھ جانتے ہیں لیکن مغرب کے عوام ان مسائل کی تفصیل سے اتنے آگاہ نہیں ہوتے اس لئے مغربی میڈیا میں بھی مسئلوں کی تفصیلات بھیجی جاتی رہنی چاہئیں۔
ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یہودی اداروں کی تیار کردہ مصنوعات جو اس وقت دنیا پر حاوی ہیں اور جن سے ہم بھی بہت مرعوب ہیں، ان کی خریداری سے اجتناب برتیں۔ ان مصنوعات کی آمدنی کا ایک بڑا حصہ صیہونیوں کی عسکری امداد پر خرچ کیا جاتا ہے جس سے اسرائیل کو ہر لحظہ تقویت پہنچتی ہے۔ ان مصنوعات میں مشروبات، صابن، کھانے پینے کی اشیاء اور کاسمیٹکس وغیرہ شامل ہیں۔ اگر ہمیں اپنے ان فلسطینی بھائیوں کا لہو بچانا ہے تو ان اشیاء کا بھی بائیکاٹ کرنا لازم ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ بعض یہودی صنعتوں کے مالکان بذات خود سرگرم یہودی ہیں۔
مسلم ممالک کے سربراہوں پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان کی حیثیت امت مسلمہ کے ترجمان کی ہے۔ اس وقت اقوام متحدہ میں ایک بڑی اکثریت مسلم ممالک کی ہے۔ ان سربراہوں کو اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی اداروں میں یہودی و امریکی اقدامات کی مذمت کرنی چاہئے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ نہتے طلبہ و معصوم بچے گولیوں سے چھلنی کئے جا رہے ہیں اور خواتین کی بے حرمتی کی جا رہی ہے مگر ہمارے سربراہاں محض اپنے اقتدار کی توسیع و استحکام ہی میں مگن ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مسئلہ فلسطین کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ الفتح خود ہے۔ عزم و حوصلے کی کمی اور مغرب سے مرعوبیت نے اس کی گذشتہ تمام جدوجہد پر پانی پھیر دیا ہے اور اب وہ اسرائیل سے ہر آن ذلت آمیز معاہدے کررہی ہے۔ ایک طرف وہ یہودیوں سے دوستی کا ہاتھ بڑھاتی ہے تو دوسری طرف وہ خود حماس کے مجاہدوں کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزارتی ہے۔ مسلم ممالک پر یہ بھی لازم ہے کہ فلسطینیوں کی اپنی مرضی سے قائم کردہ حماس کی حکومت کو مکمل قانونی، اخلاقی اور مالی تعاون پیش کریں تاکہ وہ اسرائیل پر حاوی ہو سکے۔
معاملہ یہ ہے کہ فلسطین کے لحاظ سے مسلمانان عالم پر محض دو چار نہیں بلکہ دسیوں ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ یہ وقت خاموش بیٹھنے اور میٹھی نیند سونے کا نہیں بلکہ کچھ کر گزرنے کا ہے۔ یہ ہم سوا ارب سے زائد مسلمانوں کی خاموشی ہی ہے جس نے ظلم و ستم کے لئے یہودیوں کے حوصلے بلند کئے ہیں۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ ارض مقدس محض تمنائیں کرنے اور دعائیں مانگنے سے آزاد نہیں ہوسکتا۔ اس کے لئے ہمیں لازوال قربانیاں رقم کرنی پڑیں گی۔
ایک طرف مسجد اقصیٰ یہودیوں کے ناپاک قدموں تلے روندی جا رہی ہے دوسری طرف امت مسلمہ خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔
نہ جانے غیب سے وہ مردِ مجاہد، سلطان صلاح الدین ایوبی، کب برآمد ہو گا جو یہودیوں کو فلسطین سے نکال باہر کرے گا اور مسجد اقصیٰ کی آزاد حیثیت بحال کرے گا؟
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عیسائیت آخر کار یہودیت کے آگے ڈھیر ہوگئی
یہودیوں اور عیسائیوں کی دشمنی ہزاروں سال پرانی ہے ۔ یہ حضرت عیسیٰ ؑ کے دور سے شروع ہوئی تھی اور اب سے تقریباً سو سال پہلے تک شد و مد سے جاری تھی ۔ عیسائیوں کے نزدیک یہودیوں کے دو بڑے جرائم تھے جن کی بنیاد پر بہ قابل گردن زدنی سمجھے جاتے تھے ۔
۱۔ عیسائیوں کے خیال کے مطابق یہودی حضرت عیسیٰ کے قاتل ہیں۔
۲۔ وہ دوبارہ آنے والے حضرت عیسیٰ کو نعوذ باللہ دجال قرار دیتے ہیں۔
چنانچہ انہی دو بڑے جرائم کی بنیاد پر عیسائیوں کے نزدیک یہودی قوم انتہائی قابل نفرت رہی ہے ۔ وہ انہیں روئے زمین پر سب سے شریر اور خبیث مخلوق قرار دیتے تھے اور جہاں پاتے تھے قتل کردیتے تھے ۔ حال یہ تھا کہ ابتدائی دور میں جب یورپ میں طاعون (یا کالی وبا ) پھیلی جس کے باعث لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں تو عیسائیوں نے اس کا سبب یہودیوں کو ٹہرایا حالانکہ خودیہودی بھی اس مرض میں ہلاک ہورہے تھے ۔
یہودی کس طرح پوری تاریخ میں عیسائیوں کے ہاتھوں دہشت اور بربریت کا شکار رہے ۔ یہودیوں کی نفسیات اور تاریخ کا مطالعہ کرنے والوں کیلئے ان تفصیلات کو جاننا بے حد دلچسپی کا حامل رہے گا ۔
یہودیوں کی جلاوطنی اور بربادی ''صلیب کے سائے سائے ''
586ق م میں شاہ بابل (بخت نصر) نے یروشلم پر قبضہ کیا اور عبادت خانے کو تباہ کردیا۔
472ق م میں یونانی بادشاہ انہولنس نے یروشلم پر حملہ کرکے نو تعمیر سلیمانی ہیکل کا نام و نشان مٹادیا اور اسے بت خانے میں تبدیل کردیا ۔
70ء میں رومی بادشاہ Titusنے یروشلم کو تباہ و برباد کردیا ۔
135ء میں رومی بادشاہ ہیڈریان نے یروشلم کو ایک بار پھر تباہ و برباد کردیا ۔
(حوالہ : ویب سائٹ اور دیگر بیرونی رسائل
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مختلف ادوار میں یہودیوں کے ساتھ عیسائیوں کا رویہ
1100ء ۔ 1500یہودی جرمنی سے فرار کئے گئے ۔
1228ء۔ اسپین میں یہودیوں کو قانونی طور پر لباس کے اوپر نمایاں نشان آویزاں کرنے کا حکم دیا گیا ۔
1266ء ۔ پولینڈ کے گرجائوں نے فیصلے صادر کئے کہ یہودی عیسائیوں کے ساتھ اکھٹے نہیں رہ سکتے ۔
1279ء ۔ ہنگری کے گرجائوں نے حکمنامہ جاری کیا کہ یہودی اپنے لباس پر بائیں جانب سرخ کپڑا ڈالیں ۔
1321ء۔ فرانس: ایک گڑھے میں 160یہودی دفن کئے گئے ۔
1355ء ۔ اسپین میں ا یک مشتعل ہجوم نے بارہ ہزار یہودیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
1391ء۔ میجور کا کے جزیرے میں پچاس ہزار یہودی تہہ تیغ کئے گئے ۔
1391ء ۔ سسلی میں بڑے پیمانے پر یہودیوں کا قتل عام کیا گیا ۔
1399ء۔ پولینڈ : پہلی بار یہودیوں کے خلاف تعزیری کاروائیاں کی گئیں ۔
1422ء ۔' 'کیسٹائل ''میں یہودیوں کو علیحدہ علاقے میں رہنے اور امتیازی پٹی پہننے پر مجبور کیا گیا ۔
1420ء ۔ لیئون : فرانس سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔
1420ء ۔طولوس : فرانس میں یہودی طبقوں کا صفایا کردیا گیا ۔
1474ء۔ سسلی میں یہودیوں کا ایک بار پھر بڑے پیمانے پر قتل عام کیا گیا
1492ء ۔ اسپین میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار یہودی ملک بد ر کئے گئے ۔
1492ء۔ اسپین میں ملک بدری کے دوران 20ہزار سے زیادہ یہودی ایک ساتھ یا تو ہلاک ہوگئے یا انہیں ہلاک کیا گیا ۔
1492ء۔ سسلی اور مالٹا سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔
1494ء۔ ''کراکائو''میں یہودیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ صرف مخصوص علاقوں تک خود کو محدود رکھیں ۔ پولینڈ نے پہلی یہودی حد بندی کا آغاز کیا (یہودیوں کو ایک مخصوص علاقہ میں محدود کرنے کو یورپ میں ghetto کی اصطلاح سے پکارا جاتا ہے۔)
1498ء ۔ پرتگال میں ایک بھی یہودی باقی نہ رہنے دیا گیا ۔
1541ء۔ '' نیپلز'' سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا ۔
1550ء۔ ''گینوآ'' سے یہودیوں کو نکال باہر کیا گیا۔
1935ء تا 1941ء۔ ہٹلر نے لاکھوں یہودیوں کو انسانیت سوز سلوک سے دوچار کرکے عظیم تباہی مچائی۔ (یہودی اس سانحے کو ہولوکاسٹ holocaust کہہ کر پکارتے اور بے حد مبالغے سے کام لے کر دنیا کی ہمدردیاں سمیٹتے ہیں )
(حوالہ کتاب: عرب اور اسرائیل ' ازرون ڈیوڈ صفحہ 75اور صفحہ 108)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
مندرجہ بالا تفصیل سے ہمیں یہودیوں کے خلاف عیسائیوں کے بد ترین انتقا م و حقارت کے جذبات سمجھنے میں مدد ملتی ہے ۔
چونکہ اس صورتحال میں یہودیوں کو زمین سے اپنے فنا ہوجانے اور مٹ جانے کے خطرات پیدا ہوگئے تھے لہٰذا انہوں نے عیسائیوں کو زیر کرنے کے لئے تدبیریں شروع کردیں ۔ اقتدار تو چونکہ انہیں کہیں بھی حاصل نہ تھا لہٰذا انہوں نے فتنہ پروری اور سازشوں سے کام لینا شروع کردیا ۔ واضح رہے کہ یہودیوں کی کتاب '' دی پرٹوکولز '' بھی اسی دور کی اہم کتاب ہے جس میں انہوں نے دنیا کو اپنے حق میں مسخر کرنے کے ہر پہلو سے تفصیلی روشنی ڈالی ہے ۔ اس کتاب کو انہوں نے ایک طویل عرصے تک خفیہ رکھا تاہم کسی نہ کسی طرح یہ کتا ب فاش ہوگئی اور آج یہ ہر جگہ دستیاب ہے ۔
تشدد اور بربریت کے اس طویل دور میں یہودیوں کو اگر کہیں پناہ ملی تو وہ صرف مسلمان مملکتیں ہی تھیں جہاں اسلامی قوانین کے تحت جزیہ لیکر انہیں ہر طرح کی ضمانت دی جاتی تھی لہٰذا اس دور میں جبکہ تمام عیسائی دنیا میں ان کے لئے دروازے بند تھے مسلم ممالک ان کے لئے راحت جان محسوس ہوا کرتے تھے۔ ابتداء میں بھی جب یہودی فلسطین آتے تھے تو اسے اپنے مقدس شہر سمجھ کر نہیں بلکہ ایک عمدہ پناہ گاہ سمجھ کر آئے تھے ۔ اس وقت شاید یہودیوں کے ذہن میں کبھی خیال بھی نہ آیا ہوگا کہ مسلمانوں کے ساتھ انہیں دشمنی اختیار کرنی ہے ۔ اس وقت یہودیوں کے دشمن عیسائی تھے ۔ چنانچہ انہیں زیر کرنے کے لئے انہوں نے ظلم و تشدد اور خونی راستوں سے ہٹ کر (جس کی قوت ان کے پاس اس وقت دستیاب نہ تھی )۔ دیگر غیر تشدد پسندانہ راستے اختیار کئے ۔ سب سے پہلی ضرب انہوں نے عیسائی مذہب کی کُلیّت یا وحدانیت پر لگائی ۔ عیسائیوں کا اصل مذہب کیتھولک ہے لیکن یہودیوں نے اپنی سازشوں سے اس کے اندر ایک نیا بدعتی فرقہ ''پروٹسٹنٹ '' ایجاد کیا ۔ جس کے بعد عیسائیت دو بڑے ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ۔ کیتھولک عیسائی اور پروٹسٹنٹ عیسائی ' پھر کیتھولک عیسائی پروٹسٹنٹ عیسائیوں کے بھی اسی طرح جانی دشمن بن گئے جیسے وہ یہودیوں کے جانی دشمن تھے۔ انتشار کے بعد عیسائیت مزید تقسیم در تقسیم ہوتی چلی گئی اور اس کے بیپٹسٹ اور میتھوڈیسٹ وغیرہ فرقے پیدا ہوئے ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
چنانچہ پروٹسٹنٹ طبقے ہی کی وجہ سے عیسائی طلبہ کو بائبل کی اولڈ اور نیو ٹیسٹامنٹ ایک ساتھ پڑھانے کا سلسلہ شروع کیا گیا ۔ واضح رہے کہ ' ' عہد نامہ قدیم '' توریت سے متعلق کتاب ہے جبکہ ''عہد نامہ جدید '' انجیل سے متعلق کتاب ہے ۔ عیسائی طالب علم عہد نامہ قدیم سے اپنی تعلیم کا آغاز کرکے عہد نامہ جدید پر پہنچتے تھے ۔ چنانچہ رفتہ رفتہ ان میں یہودی عقائد جگہ بنانے لگے ۔
دوسرا حملہ یہودیوں نے 1908ء میں ''اسکو فیلڈ'' نامی ایک نئی بائبل ایجاد کرکے کیا۔ انہوں نے عیسائیوں کے ایک ذہین فرد '' اسکو فیلڈ'' کو خرید کر گوسپل پر اس سے اپنی مطلب کے حاشیے اور تفسیر لکھوائی اور اس کی بڑے پیمانے پر اشاعت کروائی ۔ اس بائبل کی خصوصیت یہ تھی کہ اس حاشیوں میں جگہ جگہ یہودی عقائد داخل کردیئے گئے تھے۔ حاشیوں کی زبان آسان جبکہ اصل متن قدیم انگلش کا تھا ۔ جسے سمجھنے میں مشکل پیش آتی تھی۔ یوں مشکل متن کے بجائے آسان حاشیئے کا چلن عام ہوا اور یہودی عقائد عیسائیوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے ۔ انہی ساری کاروائیوں کی وجہ سے عیسائی بطریق اور پادری بھی یہودیوں کے ہمنوا بن گئے ۔ حتیٰ کہ ساٹھ کی دہائی میں کیتھولک گرجائوں سے یہودیوں کے سابقہ جرائم کی معافی کا باقاعدہ سرکاری اعلان جاری کیا گیا
ایک اور حربہ عیسائی دنیا کو اپنا ہم خیال بنانے کے لئے یہ اختیار کیا گیا کہ عالمی سطح پر علمی و فکری تحریکیں شروع کی گئیں ۔ یعنی سوشلزم ' نیشنلزم ' کمیونزم اور نظریہ آبادی وغیرہ ۔ان سب کے بانی عموماً یہودی تھے ۔ چنانچہ عیسائی دنیا میں جہاں مذہب کی گرفت برائے نام ہے یہ نظریئے بہت مقبول ہوئے اور انہوں نے مذہب کا اثر کمزور سے کمزور تر کیا ۔
اسی کے ساتھ انہوں نے فحاشی و عریانی کو بھی فروغ دیا ۔ دنیا میں کوئی بھی مذہب معاشرے میں بے حیائی کی اجازت نہیں دیتا ۔ عیسائیت بھی ایسا نہیں چاہتی ۔لیکن یہودیوں نے اپنی طرف سے توجہ ہٹانے کی خاطر ان میں جنس کے نظریئے کو فروغ دیا۔ حتیٰ کہ امریکہ میں دنیا کی مشہور عریاں فلمی صنعت ہالی وڈ کا آغاز ہوا ۔ انہوں نے عیسائیوں میں سیکس اور کھلی فحاشی کو فروغ دیا ۔ انہیں نائٹ کلبوں اور اوپیرائوں پر لگایا ۔ جس سے ان کی اخلاقیات کھوکھلی ہوتی چلی گئیں ۔ یہی حال انہوں نے میڈیا کا بھی کیا ۔ تمام بڑے رسائل و جرائد ' ٹائمز ' نیوز ویک ' بی بی سی ' رائٹر وغیرہ یہ سارے نشری و اشاعتی ادارے یہودی ہیں یا ان کی کلیدی جگہوں پر یہودی فائز ہیں۔ جہاں سے وہ عیسائیوں ( اور باقی دنیا کو بھی ) اپنی مرضی کی خبریں سناتے اور نشر کرواتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیوں کو یہودیوں کی سازشوں کے بارے میں عام طور پر آگاہی نہیںہونے پاتی ۔ اس حقیقت کو کئی اہل ِ علم عیسائی مفکرین مثلاً ڈیوڈ ڈیوک اور رَون ڈیوڈ بھی تسلیم کرتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
جنگ عظیم اول اور دوم میں جب یورپی حکومتیں آپس میں ٹکراکر ختم ہورہی تھیں' بعض مضبوط یہودی سرمایہ کاروں نے ان مملکتوں کو بڑے بڑے قرضے فراہم کرکے انہیں اپنی مٹھی میں جکڑنے کی کوشش کی ۔ اس دور میں آئی ا یم ایف اور ورلڈ بینک طرز کے ادارے موجود نہ تھے۔ چنانچہ ان کی کسر یہودی ساہوکاروں نے انفرادی طور پر پوری کی ۔ مثال کے طور پر روتھ شیلڈ جو گذشتہ دور میں یہودیوں کا ایک بہت بڑا سرمایہ دار تھا، اس نے امریکی نوآبادیوں کے خلاف جنگ کی غرض سے ''ہیسٹین'' کے فوجی دستوں کو سب سے پہلے 20 ملین ڈالر کی ادائیگی کی تھی۔ (حوالہ کتاب: دی انٹرنیشنل جیو۔ از: ہنری فورڈ)۔ اسی طرح برطانیہ کے ولیم آف آرٹیج (1689ء) نے جسے یہودی برسراقتدار لائے تھے، اولین دور میں بادشاہ بنتے ہی یہودی سود خوروں سے 12 1/2 لاکھ پونڈ کا قرضہ لیا تھا۔ (کتاب: پاکستان اور ہشت پا۔ از خورشید وارثی)۔ دوسری طرف ایک بڑی یہودی شخصیت ''ہرٹزمین'' کے ترکی یہودی نمائندے حافام صوآفندی نے سلطان ترکی عبدالحمید خان کو پیشکش کی تھی کہ اگر وہ فلسطین کا علاقہ یہودیوں کو دے دے تو ترکی کا تمام قرضہ یہودی ادا کرنے کو تیار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سلطان نے اس کی اس پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔ (حوالہ کتابچہ: بیت المقدس۔ ازمولانا مودودی۱۵)۔
یہودیوں کے ایک اور مفکرہ چیمز وائز مین نے انگلستان کی حکومت کو یقین دلایا تھا کہ جنگ عظیم اول کے نقصان کو پورا کرنے کے لئے انگلستان کو تمام دنیا کے یہودیوں کا سرمایہ مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ فلسطین کو یہودیوں کا قومی وطن بنا دے۔ (کتابچہ: بیت المقدس۔ از مولانا مودودی۔ صفحہ۱۷)۔
انہوں نے بڑے بڑے بین الاقوامی کاروبار مثلاً لیور برادرز' پیپسی ' کوک اور مکڈونلڈ وغیرہ عالمی طور پر پھیلائے ۔ جس کی وجہ سے عیسائی افراد معاشی طور پر ان کے غلام بنتے چلے گئے ۔ دوسرے اس طرح انہوں نے عیسائی اسکولوں کے نصاب میں بھی تبدیلیاں کیں اور ان میں اپنے مقاصد شامل کرکے اپنے لئے نرم جذبات پیدا کئے اسی لئے عیسائیوں کی موجودہ نسل یہودیوں کو عام طور پر اپنا دشمن نہیں سمجھتی ہے۔
یہ ہے وہ طویل داستان کہ کس طرح یہودی جیسی شاطر قوم نے اپنے خونی دشمن عیسائیوں کو اپنے دائرہ اختیار میں قید کرلیا ہے اور ان سے وہی کچھ کہلوانے لگے ہیںجو کچھ وہ چاہتے تھے ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ عیسائی عوام اپنے پادریوں سے محض واجبی سا رابطہ رکھتے ہیں۔ اس کے باعث مذہب سے ان کی گرفت ڈھیلی ہوتی چلی گئی ۔ فادرس ان کے لئے کوئی قابل توجہ ہستیاں نہیں رہے جبکہ یہودی اپنے ربائیوں سے آج بھی گہری وابستگی رکھتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے مذہبی جذبات اس اکیسویں صدی میں بھی شدت سے پائے جاتے ہیں ۔ وہ آج بھی نمازیں پڑھنے ' روزے رکھنے اور حلال گوشت کھانے میں شدت پسندی کا رویہ اختیار کئے ہوئے ہیں ۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
عیسائیوں کو ہر لحاظ سے ڈھیر کرنے کے بعد پھر کہیں جاکر یہودی مسلمانوں کی طرف متوجہ ہوئے ۔ ایک دشمن پر قابو پانے کے بعد انہیں محسوس ہوا کہ بہرحال مسلمان بھی ان کے لئے دشمن ثابت ہوں گے ۔ ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ یہودی صرف اپنے مذہب ہی کو اعلیٰ ترین مذہب جانتے ہیں ۔ دوسری طرف انہوں نے حضور اکرم e کی دجال اور اپنے بارے میں احادیث پڑھی ہوئی ہیں ( ہوشیار دشمن ہر حال میں چوکنا رہتا ہے) نیز اپنے مسیحا (دجال ) کی آمد کی شرائط میں سے ان کے نزدیک ایک یہ بھی ہے کہ دنیا سے غیر یہودی مذاہب سرے سے ختم ہوجائیں ۔ لہٰذا اب انہوں نے مسلمانوں سے جنگ کا آغاز کردیا اور آج وہ بعینیہ تمام طریقے استعمال کررہے ہیں جو انہوں نے اپنے دشمن نمبر ایک کے لئے کبھی استعمال کئے تھے۔ یعنی فحاشی و عریانی کا فروغ ' مملکتوں کو قرضوں کی فراہمی، نصاب میں تبدیلی ' مذہب میں دراڑیں' میڈیا پر گرفت ' علمی و فکری تحریکیں ' حکمرانوں کی خریداری اور بین الاقوامی کاروبار پر گرفت وغیرہ ۔ اس وقت عیسائیوں اور یہودیوں نے ایک دوسرے کے گناہ معاف کرکے صرف ایک بات پر اتفاق کیا ہے کہ مسلمانوں کو مارو جہاں پائو اور یہ کہ ان نسلیں تباہ کردو ۔ آپس کے جھگڑوں سے ہم اس وقت نمٹیں گے جب حضرت عیسیٰ ؑ تشریف لے آئیں گے ۔
البتہ مسلم دنیا میںانہیں ایک بالکل ہی مختلف قسم کے ردعمل کا سامنا کرنا پڑا ۔ عیسائی چونکہ برائے نام مذہبی ہوتے ہیں اس لئے یہودیوں کے آگے وہ بالکل ڈھیر ہو گئے۔ اسلام چونکہ متحرک ' زندہ اور عملی مذہب ہے اور اس میں عوام کا اپنے علماء ' مساجد اور قرآن پاک سے مستقل رابطہ رہتا ہے ۔ اس لئے یہودیت کو مسلمانوں کے خلاف سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا بلکہ انہیں اس کے برعکس مسلمانوں کے جہاد سے سابقہ پیش آگیا ۔ جو ان کے لئے انتہائی اچنبھے کی بات تھی ۔ عوام پر ان کے اقدامات سے تھوڑے بہت تو اثرات قائم ہوئے لیکن مجموعی طور پر امت مسلمہ ان کے خلاف غم' وغصہ سے بھر گئی ۔ اور انہوں نے یہودیوں کے ساتھ اپنے مذہب پر صلح کرنے سے واضح طور پر انکار کردیا ۔
یہ تھی وہ طویل داستان کہ کس طرح عیسائیت یہودیوں کے آگے ڈھیر ہوگئی ۔ کل بھی ان کے حربے وہی تھے اور آج بھی ان کے حربے وہی ہیں ۔ صدر واشنگٹن کے الفاظ میں'' یہ لوگ خون آشام چمگادڑیں (VAMPIRES) ہیں اور یہ عیسائیوں اور دوسری قوموں کا خون چوستے ہیں۔'' (حوالہ کتاب: اینٹی زائن از ولیئم گرمسٹارڈ)۔
 
Top