- شمولیت
- مارچ 03، 2011
- پیغامات
- 4,178
- ری ایکشن اسکور
- 15,351
- پوائنٹ
- 800
سلف صالحین (مفسرین ودیگر) سے علم اور دلائل کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے انداز طعن آمیز نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر اگر انداز عمومی ہو، کیونکہ اس کی زد میں بعض مرتبہ صحابہ کرام، تابعین عظام اور ائمہ کرام بھی آجاتے ہیں۔اکثر مفسرین نے سورہ بینہ کی آیت اولٰئک ھم خیر البریہ کا ترجمہ غلط کیاھے کیونکہ مفسرین کھتے ھیں کہ بریہ کا معنی ھے مخلوق جبکہ یہ ترجمہ باالکل غلط ھے کیونکہ بریہ کا معنی ھے زمین
والا مخلوق اس آیت کی ترجمے میں جن لوگوں نے مخلوق لکھا ھے وہ غلط اس لیے ھے کہ مخلوق کیلیے بریءۃ لفط آتا ھہ ناکہ بریہ امام رزای نے تفسیر کبیر اور دکتور وھبہ زحیلی نے اس فرق کو واضح کیا ھے لیکن اردو کی تفسیر والے تو سارے اندھے مقلد ھے اس لییے سب نے تقلید اور اندھے تقلید کی وجہ سے غلط ترجمہ کیا ھے
اگر کسی کی پاس دلیل ھو تو پیش کرے تاکہ ھم اپنا اصلاح کریں
الیاسی صاحب نے اعتراض تو کر دیا، لیکن دلیل میں جن مفسرین کا ذکر کیا، ان کے اقوال نقل نہ کیے اگر نقل کر دیتے تو بات واضح ہو جاتی۔
امام رازی اور وہبہ زحیلی دونوں کی رائے تو اکثر مفسرین کے ساتھ ہی ہے کہ یہ برأ بمعنیٰ (مخلوق) سے ہی ہے، انہوں نے اس اصل بري (بمعنیٰ مٹی) قرار دینے والوں کی رائے کو فاسد قرار دیا ہے۔
امام رازی کی تفسیر میں نقل کر دیتا ہوں:
السؤال الخامس: كيف القراءة في لفظ البرية؟ الجواب: قرأ نافع البريئة بالهمز، وقرأ الباقون بغير همز وهو من برأ الله الخلق، والقياس فيها الهمز إلا أنه ترك همزه، كالنبي والذرية والخابية، والهمزة فيه كالرد إلى الأصل المتروك في الاستعمال، كما أن من همز النبي كان كذلك وترك الهمز فيه أجود، وإن كان الهمز هو الأصل، لأن ذلك صار كالشيء المرفوض المتروك. وهمز من همز البرية يدل على فساد قول من قال: إنه من البرا الذي هو التراب ۔۔۔
امام رازی کی اس عبارت کے آخر میں صراحت ہے اس لفظ البرية میں چونکہ دو قراءات ہیں، ایک ہمزہ کے ساتھ (البريئة) اور دوسری ہمزہ کے بغیر (البرية)
جو لوگ اس لفظ کو ب ر ي بمعنیٰ (مٹی) سے باور کراتے ہیں، ہمزہ والی قراءت اس رائے کو فاسد کر دیتی ہے۔
گویا امام رازی کے نزدیک بھی یہاں لفظ البرية برأ سے ہی ہے اور اس میں تعلیل ہوئی ہے، جس کی طرف خضر حیات بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے۔
جہاں تک ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی بات ہے تو وہ فرماتے ہیں:
احتج بعضهم بقوله: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أي الخليقة ويؤيده قراءة الهمز على تفضيل البشر على الملائكة، أخرج ابن أبي حاتم عن أبي هريرة مرفوعا، قال: أتعجبون من منزلة الملائكة من اللَّه، والذي نفسي بيده لمنزلة العبد المؤمن عند اللَّه يوم القيامة، أعظم من ذلك، وقرأ هذه الآية. والجواب بأن الملائكة أيضا داخلون في الذين آمنوا وعملوا الصالحات، أو المراد بالبرية:
بنو آدم لأن اشتقاقها من البري: وهو التراب، لا من برأ اللَّه الخلق، فلا يدخل الملائكة في الآية البتة.
التفسير المنيرفي العقيدة والشريعة والمنهج
ترجمہ: بعض لوگوں نے أولئك هم خير البرية میں البریۃ کا معنیٰ مخلوق (اور ہمزہ والی قراءت اس کی تائید بھی کرتی ہے) کرتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ ابن ابی حاتم نے سیدنا ابو ہریرہ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اللہ کے نزدیک فرشتوں کے مقام ومرتبہ پر تعجب کرتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مؤمن بندے کا مقام قیامت کے نزدیک اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے، پھر نبی کریمﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔
(وہبہ زحیلی کہتے ہیں) اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو فرشتے بھی الذين ءامنوا وعملوا الصالحات میں شامل ہیں یا پھر البرية سے مراد صرف بنی آدم ہیں کیونکہ یہ بري سے ہے، جس کا معنیٰ مٹی ہے، نہ کہ برأ سے، لہٰذا اس میں فرشتے شامل ہی نہیں (یعنی صرف انسانوں کا ذکر ہو رہا ہے، فرشتے مراد ہی نہیں۔)
گویا درج بالا اقتباس میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بھی البرية کے متعلق دونوں قول ذکر کیے ہیں، اور ہمزہ والی قراءت کی وجہ سے ’مخلوق‘ والے معنیٰ کو ہی ترجیح دی ہے، امام رازی کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے تو باقاعدہ مٹی کا معنیٰ فاسد قرار دیا ہے۔
لہٰذا جن مفسرین نے اس کا معنیٰ مخلوق ذکر کیا ہے ان کے قول کو غلط قرار دینا بجائے خود ایک غلطی ہے۔
واللہ اعلم!