• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مفسرین کا ایک غلط تفسیر

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
اکثر مفسرین نے سورہ بینہ کی آیت اولٰئک ھم خیر البریہ کا ترجمہ غلط کیاھے کیونکہ مفسرین کھتے ھیں کہ بریہ کا معنی ھے مخلوق جبکہ یہ ترجمہ باالکل غلط ھے کیونکہ بریہ کا معنی ھے زمین
والا مخلوق اس آیت کی ترجمے میں جن لوگوں نے مخلوق لکھا ھے وہ غلط اس لیے ھے کہ مخلوق کیلیے بریءۃ لفط آتا ھہ ناکہ بریہ امام رزای نے تفسیر کبیر اور دکتور وھبہ زحیلی نے اس فرق کو واضح کیا ھے لیکن اردو کی تفسیر والے تو سارے اندھے مقلد ھے اس لییے سب نے تقلید اور اندھے تقلید کی وجہ سے غلط ترجمہ کیا ھے
اگر کسی کی پاس دلیل ھو تو پیش کرے تاکہ ھم اپنا اصلاح کریں
سلف صالحین (مفسرین ودیگر) سے علم اور دلائل کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے انداز طعن آمیز نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر اگر انداز عمومی ہو، کیونکہ اس کی زد میں بعض مرتبہ صحابہ کرام﷢، تابعین عظام اور ائمہ کرام﷭ بھی آجاتے ہیں۔

الیاسی صاحب نے اعتراض تو کر دیا، لیکن دلیل میں جن مفسرین کا ذکر کیا، ان کے اقوال نقل نہ کیے اگر نقل کر دیتے تو بات واضح ہو جاتی۔

امام رازی﷫ اور وہبہ زحیلی دونوں کی رائے تو اکثر مفسرین کے ساتھ ہی ہے کہ یہ برأ بمعنیٰ (مخلوق) سے ہی ہے، انہوں نے اس اصل بري (بمعنیٰ مٹی) قرار دینے والوں کی رائے کو فاسد قرار دیا ہے۔

امام رازی کی تفسیر میں نقل کر دیتا ہوں:
السؤال الخامس: كيف القراءة في لفظ البرية؟ الجواب: قرأ نافع البريئة بالهمز، وقرأ الباقون بغير همز وهو من برأ الله الخلق، والقياس فيها الهمز إلا أنه ترك همزه، كالنبي والذرية والخابية، والهمزة فيه كالرد إلى الأصل المتروك في الاستعمال، كما أن من همز النبي كان كذلك وترك الهمز فيه أجود، وإن كان الهمز هو الأصل، لأن ذلك صار كالشيء المرفوض المتروك. وهمز من همز البرية يدل على فساد قول من قال: إنه من البرا الذي هو التراب ۔۔۔
امام رازی﷫ کی اس عبارت کے آخر میں صراحت ہے اس لفظ البرية میں چونکہ دو قراءات ہیں، ایک ہمزہ کے ساتھ (البريئة) اور دوسری ہمزہ کے بغیر (البرية)
جو لوگ اس لفظ کو ب ر ي بمعنیٰ (مٹی) سے باور کراتے ہیں، ہمزہ والی قراءت اس رائے کو فاسد کر دیتی ہے۔
گویا امام رازی﷫ کے نزدیک بھی یہاں لفظ البرية برأ سے ہی ہے اور اس میں تعلیل ہوئی ہے، جس کی طرف خضر حیات بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی بات ہے تو وہ فرماتے ہیں:
احتج بعضهم بقوله: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أي الخليقة ويؤيده قراءة الهمز على تفضيل البشر على الملائكة، أخرج ابن أبي حاتم عن أبي هريرة مرفوعا، قال: أتعجبون من منزلة الملائكة من اللَّه، والذي نفسي بيده لمنزلة العبد المؤمن عند اللَّه يوم القيامة، أعظم من ذلك، وقرأ هذه الآية. والجواب بأن الملائكة أيضا داخلون في الذين آمنوا وعملوا الصالحات، أو المراد بالبرية:
بنو آدم لأن اشتقاقها من البري: وهو التراب، لا من برأ اللَّه الخلق، فلا يدخل الملائكة في الآية البتة.
التفسير المنيرفي العقيدة والشريعة والمنهج

ترجمہ: بعض لوگوں نے أولئك هم خير البرية میں البریۃ کا معنیٰ مخلوق (اور ہمزہ والی قراءت اس کی تائید بھی کرتی ہے) کرتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ ابن ابی حاتم﷫ نے سیدنا ابو ہریرہ﷜ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اللہ کے نزدیک فرشتوں کے مقام ومرتبہ پر تعجب کرتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مؤمن بندے کا مقام قیامت کے نزدیک اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے، پھر نبی کریمﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔
(وہبہ زحیلی کہتے ہیں) اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو فرشتے بھی الذين ءامنوا وعملوا الصالحات میں شامل ہیں یا پھر البرية سے مراد صرف بنی آدم ہیں کیونکہ یہ بري سے ہے، جس کا معنیٰ مٹی ہے، نہ کہ برأ سے، لہٰذا اس میں فرشتے شامل ہی نہیں (یعنی صرف انسانوں کا ذکر ہو رہا ہے، فرشتے مراد ہی نہیں۔)

گویا درج بالا اقتباس میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بھی البرية کے متعلق دونوں قول ذکر کیے ہیں، اور ہمزہ والی قراءت کی وجہ سے ’مخلوق‘ والے معنیٰ کو ہی ترجیح دی ہے، امام رازی﷫ کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے تو باقاعدہ مٹی کا معنیٰ فاسد قرار دیا ہے۔

لہٰذا جن مفسرین نے اس کا معنیٰ مخلوق ذکر کیا ہے ان کے قول کو غلط قرار دینا بجائے خود ایک غلطی ہے۔

واللہ اعلم!
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
خضر بھایی جزاک اللہ بھت زبردست اب قاعدہ سمجھ آیا آپ تو کمال کی آدمی ہوموسی بھایی نے بھی بھت زبردست تحقیق کی ہےاللہ تعالی آپ دونوں کو جزاے خیر عطاء فرماے اب انشاء اللہ ہم اصل مسئلے کی طرف آینگے کہ دونوں معنوں میں کیا فرق ہے ؟ اس پر کیااثرات مرتب ہونگے ؟ الیاسی صاحب اور میں ھم دونوں ایک ادارے میں کام کرتے ہیں اور یہ مسئلہ روزانہ زیر بحث آتا ہے محدث فورم نے میرا مشکل کچھ آسان تو کردیاہے لیکن میں اس مسئلے کی حوالے سے جس مشکل میں ھو وہ فارغ ٹایم مین لکھ لونگا کاشمیں
ارسلان بھایی کی طرح تیز لکھ سکتا ھوتا تو آج ھی لکھ لیتا لیکن کل ول ان شاء اللہ لکھ لونگا امیدہے کہ محدث فورم پر موجود سب اھل علم رھنمایی فرماینگے خصوصا خضربھایی اور موسی بھای
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
سلف صالحین (مفسرین ودیگر) سے علم اور دلائل کے ساتھ اختلاف کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کیلئے انداز طعن آمیز نہیں ہونا چاہئے، خاص طور پر اگر انداز عمومی ہو، کیونکہ اس کی زد میں بعض مرتبہ صحابہ کرام﷢، تابعین عظام اور ائمہ کرام﷭ بھی آجاتے ہیں۔

الیاسی صاحب نے اعتراض تو کر دیا، لیکن دلیل میں جن مفسرین کا ذکر کیا، ان کے اقوال نقل نہ کیے اگر نقل کر دیتے تو بات واضح ہو جاتی۔

امام رازی﷫ اور وہبہ زحیلی دونوں کی رائے تو اکثر مفسرین کے ساتھ ہی ہے کہ یہ برأ بمعنیٰ (مخلوق) سے ہی ہے، انہوں نے اس اصل بري (بمعنیٰ مٹی) قرار دینے والوں کی رائے کو فاسد قرار دیا ہے۔

امام رازی کی تفسیر میں نقل کر دیتا ہوں:
السؤال الخامس: كيف القراءة في لفظ البرية؟ الجواب: قرأ نافع البريئة بالهمز، وقرأ الباقون بغير همز وهو من برأ الله الخلق، والقياس فيها الهمز إلا أنه ترك همزه، كالنبي والذرية والخابية، والهمزة فيه كالرد إلى الأصل المتروك في الاستعمال، كما أن من همز النبي كان كذلك وترك الهمز فيه أجود، وإن كان الهمز هو الأصل، لأن ذلك صار كالشيء المرفوض المتروك. وهمز من همز البرية يدل على فساد قول من قال: إنه من البرا الذي هو التراب ۔۔۔
امام رازی﷫ کی اس عبارت کے آخر میں صراحت ہے اس لفظ البرية میں چونکہ دو قراءات ہیں، ایک ہمزہ کے ساتھ (البريئة) اور دوسری ہمزہ کے بغیر (البرية)
جو لوگ اس لفظ کو ب ر ي بمعنیٰ (مٹی) سے باور کراتے ہیں، ہمزہ والی قراءت اس رائے کو فاسد کر دیتی ہے۔
گویا امام رازی﷫ کے نزدیک بھی یہاں لفظ البرية برأ سے ہی ہے اور اس میں تعلیل ہوئی ہے، جس کی طرف خضر حیات بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے۔

جہاں تک ڈاکٹر وہبہ زحیلی کی بات ہے تو وہ فرماتے ہیں:
احتج بعضهم بقوله: أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أي الخليقة ويؤيده قراءة الهمز على تفضيل البشر على الملائكة، أخرج ابن أبي حاتم عن أبي هريرة مرفوعا، قال: أتعجبون من منزلة الملائكة من اللَّه، والذي نفسي بيده لمنزلة العبد المؤمن عند اللَّه يوم القيامة، أعظم من ذلك، وقرأ هذه الآية. والجواب بأن الملائكة أيضا داخلون في الذين آمنوا وعملوا الصالحات، أو المراد بالبرية:
بنو آدم لأن اشتقاقها من البري: وهو التراب، لا من برأ اللَّه الخلق، فلا يدخل الملائكة في الآية البتة.
التفسير المنيرفي العقيدة والشريعة والمنهج

ترجمہ: بعض لوگوں نے أولئك هم خير البرية میں البریۃ کا معنیٰ مخلوق (اور ہمزہ والی قراءت اس کی تائید بھی کرتی ہے) کرتے ہوئے استدلال کیا ہے کہ انسان فرشتوں سے افضل ہے۔ ابن ابی حاتم﷫ نے سیدنا ابو ہریرہ﷜ کی حدیث ذکر کی ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تم لوگ اللہ کے نزدیک فرشتوں کے مقام ومرتبہ پر تعجب کرتے ہو، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، مؤمن بندے کا مقام قیامت کے نزدیک اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ ہے، پھر نبی کریمﷺ نے یہ آیت کریمہ تلاوت کی۔
(وہبہ زحیلی کہتے ہیں) اس کا جواب یہ ہے کہ یا تو فرشتے بھی الذين ءامنوا وعملوا الصالحات میں شامل ہیں یا پھر البرية سے مراد صرف بنی آدم ہیں کیونکہ یہ بري سے ہے، جس کا معنیٰ مٹی ہے، نہ کہ برأ سے، لہٰذا اس میں فرشتے شامل ہی نہیں (یعنی صرف انسانوں کا ذکر ہو رہا ہے، فرشتے مراد ہی نہیں۔)

گویا درج بالا اقتباس میں ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے بھی البرية کے متعلق دونوں قول ذکر کیے ہیں، اور ہمزہ والی قراءت کی وجہ سے ’مخلوق‘ والے معنیٰ کو ہی ترجیح دی ہے، امام رازی﷫ کی بھی یہی رائے ہے۔ انہوں نے تو باقاعدہ مٹی کا معنیٰ فاسد قرار دیا ہے۔

لہٰذا جن مفسرین نے اس کا معنیٰ مخلوق ذکر کیا ہے ان کے قول کو غلط قرار دینا بجائے خود ایک غلطی ہے۔

واللہ اعلم!
لیکن بھر حال مفسرین کو دونوں قول ذکر کرنا چاھیے اس میں تو اختلاف نھی ہے نا کہ دونوں معنی مراد لے سکتے ہیں اور دونوں ٹھیک ہے ترجیح تو ہر کویی اپنے مفادات کی مطابق دیگانا
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
لیکن بھر حال مفسرین کو دونوں قول ذکر کرنا چاھیے اس میں تو اختلاف نھی ہے نا کہ دونوں معنی مراد لے سکتے ہیں اور دونوں ٹھیک ہے ترجیح تو ہر کویی اپنے مفادات کی مطابق دیگانا
مفاد اور خواہش کے مطابق کیوں دے گا؟؟؟ دلیل کے مطابق دے گا۔
﴿ وَأَنِ احْكُم بَيْنَهُم بِمَا أَنزَلَ اللَّـهُ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَاءَهُمْ ۔۔۔ ٤٩ ﴾ ۔۔۔ المائدة

جب ہمزہ والی متواتر قراءت موجود ہے خير البريئة، دیکھئے:
مصحف قالون- صور الإصدارات
تب پھر جس طرح قرآنی آیات دیگر آیات کی تفسیر کرتی ہیں، اسی طرح قراءات بھی دیگر قراءات کی تفسیر کرتی ہیں، لہٰذا برأ بمعنیٰ خلق والا معنیٰ ہی راجح ہے، علمائے تفسیر کے ہاں معروف قواعد ہیں:
تنوع القراءات بمنزلة تعدد الآيات
القراءات يبين بعضها بعضًا

تفصیل کیلئے دیکھئے:
مختصر في قواعد التفسير

واللہ اعلم!!
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,351
پوائنٹ
800
جزاک اللہ خیرا ۔۔ انس نضر صاحب ،اللہ آپ کے علم میں مزید برکت دے آمین
وایاکم اجمعین

اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق عطا فرمائیں!
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
السلام علیکم
اگر خیرالبریہ کا تفسیر یہ ہے کہ انسان مخلوق پر بہتر ہے تو پھر اس آیات کا تعارض آیگا سورہ بنی اسراییل کی آیت نمبر ستر کی ساتھ جس میں اللہ تعالی فرماتے ھیں
ولقد کرمنا بنی آدم وفضلنھم علی کثیرممن خلقنا تفضیلا
کیونکہ اس آیت سے تو معلوم ہوتاہے کہ انسان کی فضیلت کثیر پر ہے تمام مخلوق پر نہیں اور اگر خیرالبریہ کا معنی وہ ہو جو عام مفسرین کرام نے کی ہے کہ مخلوق پر تو پھر یا تو تاویل کرنا پڑیگا اور یا تعارض کی دفعہ کیلیے کویی اور راستہ بنانا پڑیگا کیا ہوگا وہ راستہ ؟؟؟
اے میرے بہایی انس نضرصاحب اورموسی صاحب اور اے مقلدین مفسرین صاحبان جواب دیکر ممنون فرماے یا تقلید چھوڑ کر متبعین حقیقت بن جاے
 

الیاسی

رکن
شمولیت
فروری 28، 2012
پیغامات
425
ری ایکشن اسکور
736
پوائنٹ
86
تنوع القراءات منزلۃ تعدد الآیات
یہ تو بھت گٹھیا بات ہے بھت غلط بات ہے پھر دعوہ کرو کہ قرآن چالیس پارے ہیں کیونکہ قرائآت تو بھت ہے اور اس کو بمنزلہ آیات کردو تو دس پارے اور بن جاییگے پھر پھلے پارے سے لاریب فیہ کاٹ دو جناب عالی
 
Top