• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

منهج سلف صالحين اور اس سے انحراف

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
میں نے تو کل بھی ختم کر دی تھی
اور آج بھی ختم کردیتا ہوں،
ان مراسلوں کو کہیں اور منتقل کردینے یا حذف کرنے کے بھی حق میں ہوں،
میں خاموش ہوں اب محمد فیض بھائی!
جزاکم اللہ خیرا
 
شمولیت
ستمبر 21، 2015
پیغامات
2,697
ری ایکشن اسکور
762
پوائنٹ
290
میرے بھائیو کیا ہوگیا ہے ۔ آپ دونوں صاحب علم ہیں ۔ صاحب علم کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
اس طرح کیوں الجھ رہے ہیں ۔ اور مجھے پہلے بہت دلی خوشی ہوئی تھی کہ آپ لوگ احادیث مبارکہ کے سامنے سرجھکا دیتے ہیں ۔ صحیح علم و عمل بیشک یہی ہوتا ہے ۔ لیکن ابھی دیکھ کر افسوس ہوا کہ پھر پرانی باتیں بھی دہرا رہے ہیں ۔ کیا حدیث شریف ہمارے دلوں کے لئے نہیں ہوتی ۔ ؟ اور پرانی باتیں دل میں رکھنے کو آپ مجھ سے اچھا جانتے ہیں کہ کیا کہا جاتا ہے ۔
اور اس کی کتنی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی کینہ۔
کینہ کسے کہتے ہیں ؟ دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کااِظہار کرنا کینہ کہلاتاہے (لسان العرب)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں۔ (مسلم)
مجھے معلوم ہے آپ بھائیوں میں ابھی اس سطح پر الحمد للہ نہیں ہے۔ لیکن یہی چھوٹی باتیں ہی شیطان کو سبب فراہم کرتی ہیں اور غصہ بھی شیطان کی جانب سے ہوتاہے ۔
اور چونکہ تاثیر معصوم کے کلام میں ہوتی ہے ۔ اس لئے انہی کا کلام ہی ہمارے لئے راہنمائی ہے ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا ۔ اور وہ ہے ۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ” میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردودسے “ ۔ (اوکما قال)
آئین جواں مردی حق گوئی و بیباکی

آپ منفرد ہیں ابن عثمان بهائی ۔ جزاک اللہ خیرا
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
ابن عثمان بھائی! میں تو اگلے روز بھی خاموش ہو گیا تھا!
اب بھی مزید کچھ نہ لکھتا، مگر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مسئلہ کیا ہے
اگر میں حدیث میں تحریف کرنے والا, قبیح بنیادوں پر عمارتیں کھڑی کرنے والا, کلام سے نا سمجھ اور علوم کی مبادی سے ناواقف جاہل بے تکی ہانکنے والا مقلد ہو سکتا ہوں تو پھر قائل بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے.
یہ اصل مسئلہ ہے، اور یہ دوسرے تھریڈ کی بحث میں ہوا ہے!
حالانکہ میں نے انہیں حدیث میں تحریف کرنے والا نہیں کہا ہے، بھائی کو کلام سمجھ نہیں آیا ، وہ سمجھ رہے ہیں کہ میں نے انہیں حدیث میں تحریف کرنے والا کہا ہے، باقی باتیں میں نے لکھی ہیں، تو اشماریہ بھائی اس کا بدلہ لینے کی کوشش میں نظر ِآتے ہیں! اور بنیاد کیا ہے کہ "ہو سکتا ہے"
اب یہ دیکھیں!
کبھی تو جناب اہل الرائے کا ذکر کرتے نہیں تھکتے اور آج یہ اہل الرائے جناب کے کلام میں موجود پانچ اقسام میں داخل ہو گئے؟ یعنی روافض، جہمیہ، معتزلہ، مرجیہ اور اہل الحدیث؟
میرے کس کلام میں یہ بات ہے! اتنی بےتکی بات کردی اور پھر آگے سوالیہ نشان ڈال کے اسے بے تکے سوال بنا کر جان چھڑانے کی کوشش!
بہر حال! میں تو ہر بات کے لئے تیار ہوں!
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
اگر معتبر ہو میری التماس تو
موضوع کلام کچھ اور تھا
اشماریہ بھائی اور ابن داود بھائی
آ پ دونوں آپس کی اس ذاتی بحث کو اگر ختم کر دیں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا البتہ جو کچھ میں نے پیش کیا اس پر آپ لوگ اپنی رائے پیش کریں
@ابن داود
@اشماریہ
فیض بھائی!
میرا مزاج یہ ہے کہ نہ تو میں شدت، تعصب اور غلو کا قائل ہوں اور نہ ہی کسی کے بارے میں جانے بغیر بولنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں میری اطلاعات وہ ہیں جو دوسروں سے منقول ہیں اور میں نے خود مشاہدہ نہیں کیا ہوا۔ جو اطلاعات دوسروں سے ملی ہیں وہ مثبت ہیں۔

البتہ تبلیغی جماعت ہمارے سامنے ہے۔ صاحب تحریر کی مراد شاید کوئی اور ہی تبلیغی جماعت ہے ورنہ جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے وہ تبلیغ والوں کے اصول و ضوابط سے میل نہیں کھاتا۔
تبلیغی حضرات کسی بیعت کو لازمی قرار نہیں دیتے۔ تمام مدارس، مکاتب اور دینی کاموں میں شریک ہوتے ہیں اور مسجد میں صرف ذکر کے حلقے قائم کر کے نہیں بیٹھ جاتے۔ توحید میں تبلیغ کے عامی افراد کا بھی کم از کم جملہ یہ ہوتا ہے "اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور اللہ کے غیر سے کچھ نہ ہونے کا یقین"۔ یہ بہت مشہور جملہ ہے۔ تبلیغی جماعت کے طارق جمیل صاحب اجتماع کے منبر پر بیٹھ کر فروعی اختلافات میں غلو اور تکفیر سے روکتے ہیں اور دین کے پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بے شمار ایسے مجاہدین کو ہم نے ماضی میں دیکھا ہے جو تبلیغ میں بھی وقت لگاتے ہیں۔ انہیں جہاد سے کوئی نہیں روکتا تھا۔
یہ سب کچھ تو ہمارے سامنے ہے اور آغا خانیوں کے جماعت خانے کی طرح نہیں ہے کہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ سب کو کھلی اجازت ہے۔ جا کر شریک ہو جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ تبلیغ والے کسی کو آنے سے منع نہیں کرتے۔

ہاں تبلیغ والے ایک زمانے میں جہاد کی بالواسطہ مخالفت کا ضرور شکار ہو گئے تھے اور بہت زیادہ مخالفت کرنے لگ گئے تھے۔ لیکن بعد میں علماء کرام نے انہیں سنبھال لیا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ چند افراد اس زمانے کے بھی ہیں جیسے مولانا احمد بہاولپوری صاحب وغیرہ لیکن اس بار اجتماع میں انہوں نے بھی جہاد کے متعلق بہت معقول بات کی ہے۔

یہاں یہ عرض کر دوں کہ میرا تعلق اپنے والد اور اساتذہ کے واسطے سے حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ سے ہے اور مفتی صاحب جہاد کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے بہت بڑے اور بہت مضبوط مخالف تھے۔ لیکن جب ان کے بعد تبلیغ والوں میں تبدیلی آ گئی تو ہم نے بھی مخالفت بلاوجہ جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ صاحب تحریر نے اس تحریر میں ذرا بھی انصاف سے کام لیا ہے۔
تبلیغی جماعت میں عوام کی کثیر تعداد ہوتی ہے اور ظاہر ہے وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں لیکن ان کی اصلاح بھی کی جاتی ہے اور بوقت ضرورت تنبیہ بھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح عوام باجماعت نماز میں بھی غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔

محترم ابن داود بھائی سے درخواست ہے کہ میری ان گزارشات کو اپنا موضوع سخن نہ بنائیں۔ جزاک اللہ خیرا
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
میرے بھائیو کیا ہوگیا ہے ۔ آپ دونوں صاحب علم ہیں ۔ صاحب علم کی ذمہ داری بھی زیادہ ہوتی ہے ۔
اس طرح کیوں الجھ رہے ہیں ۔ اور مجھے پہلے بہت دلی خوشی ہوئی تھی کہ آپ لوگ احادیث مبارکہ کے سامنے سرجھکا دیتے ہیں ۔ صحیح علم و عمل بیشک یہی ہوتا ہے ۔ لیکن ابھی دیکھ کر افسوس ہوا کہ پھر پرانی باتیں بھی دہرا رہے ہیں ۔ کیا حدیث شریف ہمارے دلوں کے لئے نہیں ہوتی ۔ ؟ اور پرانی باتیں دل میں رکھنے کو آپ مجھ سے اچھا جانتے ہیں کہ کیا کہا جاتا ہے ۔
اور اس کی کتنی مذمت بیان کی گئی ہے ۔ یعنی کینہ۔
کینہ کسے کہتے ہیں ؟ دل میں دشمنی کو روکے رکھنا اور موقع پاتے ہی اس کااِظہار کرنا کینہ کہلاتاہے (لسان العرب)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا: پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور پھر ہر اس بندے کی بخشش کی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی شریک نہ کرتا البتہ وہ شخص اس بخشش سے محروم رہتا ہے جو اپنے اور کسی مسلمان بھائی کے درمیان عداوت رکھتا ہو اور فرشتوں سے کہا جاتا ہے ان دونوں کو جو آپس میں عداوت و دشمنی رکھتے ہیں مہلت دو تاآنکہ وہ آپس میں صلح و صفائی کر لیں۔ (مسلم)
مجھے معلوم ہے آپ بھائیوں میں ابھی اس سطح پر الحمد للہ نہیں ہے۔ لیکن یہی چھوٹی باتیں ہی شیطان کو سبب فراہم کرتی ہیں اور غصہ بھی شیطان کی جانب سے ہوتاہے ۔
اور چونکہ تاثیر معصوم کے کلام میں ہوتی ہے ۔ اس لئے انہی کا کلام ہی ہمارے لئے راہنمائی ہے ۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے کہ اگر یہ شخص اسے پڑھ لے تو اس کا غصہ جاتا رہے گا ۔ اور وہ ہے ۔ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ” میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کی شیطان مردودسے “ ۔ (اوکما قال)
بندہ دو چہرے نہیں رکھتا۔ احترام اور محبت کرتا ہے تو دل سے کرتا ہے، برداشت کرتا ہے تو انتہائی حد تک کرتا ہے۔
لیکن اگر برداشت کا مادہ ختم ہو جائے تو پھر جواب دینے میں بھی دوغلا نہیں رہتا۔ نہ ہی بعد میں یہ کہتا ہے کہ میری مراد فلاں نہیں تھی اور فلاں تھی۔
ابن داود بھائی سے متعلق آپ کو میری رائے یقینا یاد ہو گی اور اس کے تناظر میں آپ کو میرے موجودہ طرز عمل سے حیرت بھی ہوگی۔
میں نے خود کو ہمیشہ اہل علم کا خادم جانا ہے۔ کوشش کی ہے کہ غیر علمی بحث سے اجتناب کروں اور علماء کی تحاریر کی تلخیوں کو بھی برداشت کروں۔ لیکن محترم و ممدوح ابن داود بھائی نے ہر جگہ میرے اکابر علماء احناف سے لے کر مجھ تک ہر کسی پر جملے کسے ہیں اور مختلف الزامات لگائے ہیں۔ میں نے انہیں بھی علمی انداز میں سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ اور وقتا فوقتا صرف تحریر بدلنے کی استدعاء بھی کی ہے۔ فورم کے اوراق گواہ ہیں۔
میں اس بات کو بالکل نہیں چھپاتا کہ اس کے بعد ابن داود بھائی کا باوجود انتہائی احترام کرتے ہوئے اور انہیں اپنا بڑا سمجھتے ہوئے بات کرنے کے، میں انہیں ہر اشارہ، فقرہ، تلمیح اور نامناسب بات کا بھر پور جواب دوں گا اور میں اس کی صلاحیت رکھتا ہوں۔
اگر یہ اپنے طرز پر نظر ثانی فرمائیں گے تو میں بھی کچھ نہیں کہوں گا۔ مجھے کوئی غصہ نہیں ہے، بس جواب مکمل دوں گا۔

باقی برادران کے ساتھ میرا رویہ ہمیشہ کی طرح نیاز مندانہ اور طالب علمانہ ہی رہے گا ان شاء اللہ، (تاوقتیکہ وہ بھی یہ عمل شروع نہ کر دیں)۔ مجھے بس علم کی طلب ہے جہاں سے بھی ملے۔
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,412
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محترم ابن داود بھائی سے درخواست ہے کہ میری ان گزارشات کو اپنا موضوع سخن نہ بنائیں۔ جزاک اللہ خیرا
بروقت بتلا دینا ہی بہتر ہے!
ویسے آپ میرا تذکرہ نہ کرتے تو میں واقعی کچھ نہ لکھتا! لیکن اتنا بتلا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کی یا میری کسی بات پر نقد کرنا تمام صارفین کا حق ہے، اگر تھریڈ عام ہے، اور اس میں کوئی خاص معاملہ اختیار نہیں کیا گیا!
اور یہ بات آپ کو پہلے بھی بتلائی تھی! کہ آپ کی کسی بات پر نقد کرنے کا میں حق رکھتا ہوں!
لہٰذا آئندہ آپ سے گزارش ہے کہ آئندہ ایسی گزارش نہ کیجئے !
تبلیغی جماعت کے لوگوں یعنی کہ عوام کا میں احترام کرتا ہوں، ان کی دین کے لئے محنت قابل تعریف ہے، مجھے تبلغی جماعت کے نظم سے بھی ایسا کوئی بڑا اختلاف نہیں، میرا اختلاف تبلیغی نصاب اور تعلیم سے ہے!
تبلیغی جماعت کے متعلق گفتگو کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا، مگر رحمانی صاحب کی تحریر نے اس پر گفتگو کرنے پر راغب کیا تھا۔
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,682
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

بروقت بتلا دینا ہی بہتر ہے!
ویسے آپ میرا تذکرہ نہ کرتے تو میں واقعی کچھ نہ لکھتا! لیکن اتنا بتلا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کی یا میری کسی بات پر نقد کرنا تمام صارفین کا حق ہے، اگر تھریڈ عام ہے، اور اس میں کوئی خاص معاملہ اختیار نہیں کیا گیا!
اور یہ بات آپ کو پہلے بھی بتلائی تھی! کہ آپ کی کسی بات پر نقد کرنے کا میں حق رکھتا ہوں!
لہٰذا آئندہ آپ سے گزارش ہے کہ آئندہ ایسی گزارش نہ کیجئے !
تبلیغی جماعت کے لوگوں یعنی کہ عوام کا میں احترام کرتا ہوں، ان کی دین کے لئے محنت قابل تعریف ہے، مجھے تبلغی جماعت کے نظم سے بھی ایسا کوئی بڑا اختلاف نہیں، میرا اختلاف تبلیغی نصاب اور تعلیم سے ہے!
تبلیغی جماعت کے متعلق گفتگو کرنے کا میرا ارادہ نہیں تھا، مگر رحمانی صاحب کی تحریر نے اس پر گفتگو کرنے پر راغب کیا تھا۔
آپ "حقوق" تو اور بھی بہت سارے رکھتے ہیں. اور جہاں نہیں رکھتے ہوں گے وہاں اپنی "فہم" سے گھس آئیں گے.
میں نے اس لیے عرض کیا ہے کہ پھر فیض بھائی کہیں گے کہ پھر بحث شروع ہو گئی ہے.

جزاک اللہ خیرا
 

رحمانی

رکن
شمولیت
اکتوبر 13، 2015
پیغامات
382
ری ایکشن اسکور
105
پوائنٹ
91
خض
رحمانی صاحب کا صرف ایک کام ہے ، وہ کیا ہے ؟ کسی اور کی زبانی نہ سنیے ، ان کی ارسال کردہ پوسٹیں پڑھ کر فیصلہ کیجیے ، اور اپنی اس عادت شریفہ کو پورا کرنے کے لیے کہ فلاں نے پہلے کہا ، اور میں نے بعد میں کہا ، یا اس نے یہ کیا ، اس لیے میں نے یہ کیا ، یہ سب ان کا طریقہ واردات ہے ۔
وہی لفظ ’ مخبوط الحواس ‘ جس پر وہ اس قدر سیخ پا ہوئے ہیں ، بالکل یہی لفظ یہ چند مہینے پہلے تبلیغی جماعت کے ناقدین کے لیے استعمال فرما چکے ہیں ، ملاحظہ کیجیے :

اور یہاں تو یہ مسئلہ ہے کہ اوپر پوسٹ میں انہیں کچھ الفاظ نظر آگئے ، جہاں سے ان کا اقتباس نقل کیا ہے ، وہاں موضوع کے شروع میں شیخ صالح المنجد کی ویب سائٹس سے فتوی نقل کیا گیا ہے ، لیکن اس کے باوجود انہوں نے وہاں جو زبان استعمال کی ہے ، اس سے ان کے حالیہ بیان کی حقیقت ملاحظہ کی جاسکتی ہے ۔
تبلیغی جماعت ، خوبیاں اور خامیاں
ایک سعودی عالم دین کی ویب سائٹ سے نقل کردہ جواب پر ، رحمانی صاحب کے نقد کی ابتدا ملاحظہ کیجیے :

سعودیہ میں لکھی گئی تحریر کا جواب بر صغیر پاک و ہند کے تناظر میں دیا جارہا ہے ، بلکہ بقول ان کے جو سعودی مقلدین ہیں ، ان کا جواب برصغیر پاک و ہند کے غیر مقلدین پر طعنہ زنی کرکے دیا جارہا ہے ۔
یہ نمونہ صرف اس لیے نقل کیا ہے ، تاکہ نئے قارئین ( پرانے تو پہلے سے ہی واقف ہیں ) بھی جان لیں کہ شرارت کے شراروں ، اور تعصب کے بھبوکوں نے اٹھنا ہی ہوتا ہے ، بہانہ نظر آجائے تو عید ہے ، نہ آئے تو خود گھڑنا کون سا بعید ہے ۔
خضرحیات صاحب کی جلن اورتڑپ اوردل کی سوزش قابل دید اورقابل عبرت دونوں ہے،اپنوں پرتنقید سے انہیں کتنی تکلیف ہورہی ہے لیکن دوسروں کے باب میں خاموشی کی چادراوڑھے سوئے رہتے ہیں اوراس وقت شاید اپنے انہی جملوں کا مصداق بن جاتے ہیں۔
شرارت کے شراروں ، اور تعصب کے بھبوکوں نے اٹھنا ہی ہوتا ہے ، بہانہ نظر آجائے تو عید ہے ، نہ آئے تو خود گھڑنا کون سا بعید ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
فیض بھائی!
میرا مزاج یہ ہے کہ نہ تو میں شدت، تعصب اور غلو کا قائل ہوں اور نہ ہی کسی کے بارے میں جانے بغیر بولنا مناسب سمجھتا ہوں۔ اخوان المسلمین کے بارے میں میری اطلاعات وہ ہیں جو دوسروں سے منقول ہیں اور میں نے خود مشاہدہ نہیں کیا ہوا۔ جو اطلاعات دوسروں سے ملی ہیں وہ مثبت ہیں۔

البتہ تبلیغی جماعت ہمارے سامنے ہے۔ صاحب تحریر کی مراد شاید کوئی اور ہی تبلیغی جماعت ہے ورنہ جو کچھ انہوں نے ذکر کیا ہے وہ تبلیغ والوں کے اصول و ضوابط سے میل نہیں کھاتا۔
تبلیغی حضرات کسی بیعت کو لازمی قرار نہیں دیتے۔ تمام مدارس، مکاتب اور دینی کاموں میں شریک ہوتے ہیں اور مسجد میں صرف ذکر کے حلقے قائم کر کے نہیں بیٹھ جاتے۔ توحید میں تبلیغ کے عامی افراد کا بھی کم از کم جملہ یہ ہوتا ہے "اللہ سے سب کچھ ہونے کا یقین اور اللہ کے غیر سے کچھ نہ ہونے کا یقین"۔ یہ بہت مشہور جملہ ہے۔ تبلیغی جماعت کے طارق جمیل صاحب اجتماع کے منبر پر بیٹھ کر فروعی اختلافات میں غلو اور تکفیر سے روکتے ہیں اور دین کے پھیلانے کی ترغیب دیتے ہیں۔ بے شمار ایسے مجاہدین کو ہم نے ماضی میں دیکھا ہے جو تبلیغ میں بھی وقت لگاتے ہیں۔ انہیں جہاد سے کوئی نہیں روکتا تھا۔
یہ سب کچھ تو ہمارے سامنے ہے اور آغا خانیوں کے جماعت خانے کی طرح نہیں ہے کہ کوئی نہ دیکھ سکے۔ سب کو کھلی اجازت ہے۔ جا کر شریک ہو جائیں اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ تبلیغ والے کسی کو آنے سے منع نہیں کرتے۔

ہاں تبلیغ والے ایک زمانے میں جہاد کی بالواسطہ مخالفت کا ضرور شکار ہو گئے تھے اور بہت زیادہ مخالفت کرنے لگ گئے تھے۔ لیکن بعد میں علماء کرام نے انہیں سنبھال لیا۔ اب ایسا نہیں ہوتا۔ چند افراد اس زمانے کے بھی ہیں جیسے مولانا احمد بہاولپوری صاحب وغیرہ لیکن اس بار اجتماع میں انہوں نے بھی جہاد کے متعلق بہت معقول بات کی ہے۔

یہاں یہ عرض کر دوں کہ میرا تعلق اپنے والد اور اساتذہ کے واسطے سے حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ سے ہے اور مفتی صاحب جہاد کے معاملے میں تبلیغی جماعت کے بہت بڑے اور بہت مضبوط مخالف تھے۔ لیکن جب ان کے بعد تبلیغ والوں میں تبدیلی آ گئی تو ہم نے بھی مخالفت بلاوجہ جاری رکھنا مناسب نہیں سمجھا۔
میں نہیں سمجھتا کہ صاحب تحریر نے اس تحریر میں ذرا بھی انصاف سے کام لیا ہے۔
تبلیغی جماعت میں عوام کی کثیر تعداد ہوتی ہے اور ظاہر ہے وہ غلطیاں بھی کرتے ہیں لیکن ان کی اصلاح بھی کی جاتی ہے اور بوقت ضرورت تنبیہ بھی۔ بالکل اسی طرح جس طرح عوام باجماعت نماز میں بھی غلطیاں کرتے رہتے ہیں۔

محترم ابن داود بھائی سے درخواست ہے کہ میری ان گزارشات کو اپنا موضوع سخن نہ بنائیں۔ جزاک اللہ خیرا
بالکل اشماریہ بھائی آپ کو اختلاف رائے کا حق ہے ا ور میں اس امر کی وضاحت بھی کروں گا جو آپ نے پیش کی
 
Top