اولآتو اس بحث کو سابقہ منہج سلف صالحین سے الگ کردیناچاہئے، وہاں تبلیغی جماعت پر لگائے گئے الزام پرنقدپر اگرکوئی بات کرسکتاہوتوکرے،اہل الرائے پر بحث کو کہیں اورمنتقل کردیناچاہئےایک مناسب عنوان کے ساتھ۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے مقدمہ میں مفسروں کا شکوہ کرتے ہوئے لکھاہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ مفسرین قرآن کریم کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو یہ قرآن کو اپنی پست سطح پر لے آئے،یہی حال غیرمقلدین کا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے،یہ حضرات شاہ ولی اللہ کے ایک دوکلام سے ان کی تمام کتابوں اورتصنیفات پر پانی پھیرناچاہتے ہیں، حالانکہ شاہ ولی اللہ ایک بلند مرتبت صوفی بھی تھے،ایک عالی مرتبت فقیہ تھے ،مایہ نازمحدث تھے، اوراگر بعض لوگوں کو گراں نہ گزرے تویہ بھی کہہ دوں کہ وہ بڑے فلسفی اور متکلم بھی تھے،کسی گروہ کے چند اشخاص کی بے اعتدالیوں پر تنقید کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پورے گروہ کی خدمات پرپانی پھیردیاجائے،حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض اوقات محدثین پر بھی تنقید کی ہے،چنانچہ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں۔
’’یہ وصیت ہے کہ صحبت نہ اختیار کرے صوفیان جاہل کی اورنہ جاہلان عبادت شعار کی اورنہ فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اورنہ محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اورنہ اصحاب معقول اورکلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلال عقلی میں افراط کرتے ہیں بلکہ طالب حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو،دنیا کا تارک،ہردم اللہ کے دھیان میں ،حالات بلند میں ڈوباہوا، سنت مصطفویہ میں راغب ‘‘الخ ص 116-117،
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہےکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے محدثین پر بھی تنقید کی ہے اس کے علاوہ ایک اورکتاب میں انہوں نے محدثین کی اس روش پر بھی تنقید کی ہے کہ معمولی باتوںوصل وارسال کو بہانہ بناکر حدیث کو چھوڑدیتے ہیں،یہاں انہوں نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کے ساتھ صوفی بننے کی تاکید بھی ہے۔اس سے واضح ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ہے ،پورے گروہ پر تنقید نہیں ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو ان کی تصنیفات کے آئینہ میں دیکھاجائے نہ کہ اپناخودساختہ آئینہ بناکر شاہ ولی اللہ کو اس میں فٹ کیاجائے۔
متقشف کا ترجمہ خشک دماغ یاکوڑھ مغز کرنامترجم کی خشک دماغی اور کوڑھ مغزی ہے،مترجم کویہی نہیں معلوم کہ متقشف کا ترجمہ کیاہوتاہے اورکیاہوناچاہئے،تقشف کاترجمہ سخت گیر،دنیاوی عیش وآرام سے کنارہ کش وغیرہ ہےاورادبی انداز میں کیاجائے تو زاہد خشک ہے، زاہد خشک اور خشک دماغ میں فرق وفاصلہ جو محسوس نہ کرے اس کی کوڑھ مغزی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے۔تقشف کا معنی اس پر ابن دائود صاحب دیکھ لیں اوردیگر لغات میں بھی دیکھ لیں۔
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/تقشف/
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
محدث علماء جو فقہ وحدیث کے جامع ہوں، ان کی پیروی سے اہل حدیث علماء کے معتبرہونے پر استدلال کرنامارے گھٹناپھوٹے سر والی بات ہے،شاہ ولی اللہ تویہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے علماء کی پیروی کرنی چاہئے جو حدیث اورفقہ کے جامع ہوں اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔اگرابن دائود کا مطلب یہ ہے کہ ہرمحدث فقیہ ہوتاہے جیساکہ بعض غالی غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تویہ جہاں دلیل سے عاری ایک دعویٰ ہے وہیں ارشاد رسول کے خلاف بھی ہے کیونکہ ارشاد صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہے "فرب حامل فقہ لافقہ لہمسند احمد،رقم الحدیث 16738۔
جیساکہ میری امید تھی کہ ابن دائود نے یہی راگ الاپاکہ میری مطلب نہیں سمجھاگیاہے اورفلاں کا مطلب نہیں سمجھاگیاہے، انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ شافعی مالکی اورحنبلی جو تقلید کے قائل ہیں وہ اہل حدیث ہیں یانہیں ہیں،کیونکہ ان کی عادت اورفطرت ہے کہ دوسروں سے تو دوٹوک جواب کا مطالبہ کرتے ہیں اورخود گول گول گھوم کردوسروںکو گھماناچاہتے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد نے ترجمان القرآن کے مقدمہ میں مفسروں کا شکوہ کرتے ہوئے لکھاہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب یہ مفسرین قرآن کریم کی بلندیوں کا ساتھ نہیں دے سکے تو یہ قرآن کو اپنی پست سطح پر لے آئے،یہی حال غیرمقلدین کا حضرت شاہ ولی اللہ علیہ الرحمہ کے بارے میں ہے،یہ حضرات شاہ ولی اللہ کے ایک دوکلام سے ان کی تمام کتابوں اورتصنیفات پر پانی پھیرناچاہتے ہیں، حالانکہ شاہ ولی اللہ ایک بلند مرتبت صوفی بھی تھے،ایک عالی مرتبت فقیہ تھے ،مایہ نازمحدث تھے، اوراگر بعض لوگوں کو گراں نہ گزرے تویہ بھی کہہ دوں کہ وہ بڑے فلسفی اور متکلم بھی تھے،کسی گروہ کے چند اشخاص کی بے اعتدالیوں پر تنقید کا یہ مطلب نہیں ہوتاکہ پورے گروہ کی خدمات پرپانی پھیردیاجائے،حضرت شاہ ولی اللہ نے بعض اوقات محدثین پر بھی تنقید کی ہے،چنانچہ شفاء العلیل میں لکھتے ہیں۔
’’یہ وصیت ہے کہ صحبت نہ اختیار کرے صوفیان جاہل کی اورنہ جاہلان عبادت شعار کی اورنہ فقیہوں کی جو زاہد خشک ہیں اورنہ محدثین ظاہری کی جو فقہ سے عداوت رکھتے ہیں اورنہ اصحاب معقول اورکلام کی جو منقول کو ذلیل سمجھ کر استدلال عقلی میں افراط کرتے ہیں بلکہ طالب حق کو چاہئے کہ عالم صوفی ہو،دنیا کا تارک،ہردم اللہ کے دھیان میں ،حالات بلند میں ڈوباہوا، سنت مصطفویہ میں راغب ‘‘الخ ص 116-117،
اس اقتباس میں دیکھاجاسکتاہےکہ حضرت شاہ ولی اللہ نے محدثین پر بھی تنقید کی ہے اس کے علاوہ ایک اورکتاب میں انہوں نے محدثین کی اس روش پر بھی تنقید کی ہے کہ معمولی باتوںوصل وارسال کو بہانہ بناکر حدیث کو چھوڑدیتے ہیں،یہاں انہوں نے جاہل صوفی سے بچنے کی نصیحت کے ساتھ صوفی بننے کی تاکید بھی ہے۔اس سے واضح ہے کہ کسی گروہ کے بعض افراد پر تنقید ہے ،پورے گروہ پر تنقید نہیں ہے
ضرورت اس بات کی ہے کہ شاہ ولی اللہ کو ان کی تصنیفات کے آئینہ میں دیکھاجائے نہ کہ اپناخودساختہ آئینہ بناکر شاہ ولی اللہ کو اس میں فٹ کیاجائے۔
وسخن مقشقۂ فقہا
ایسے خشک دماغ فقہا کی بات کبھی نہ سننا چاہئے جو کسی ایک عالم کی تقلید کو اپنی دستاویز سمجھ لے اور سنت رسول کو ترک کردے۔ اس قسم کے کوڑھ مغز فقہا
متقشف کا ترجمہ خشک دماغ یاکوڑھ مغز کرنامترجم کی خشک دماغی اور کوڑھ مغزی ہے،مترجم کویہی نہیں معلوم کہ متقشف کا ترجمہ کیاہوتاہے اورکیاہوناچاہئے،تقشف کاترجمہ سخت گیر،دنیاوی عیش وآرام سے کنارہ کش وغیرہ ہےاورادبی انداز میں کیاجائے تو زاہد خشک ہے، زاہد خشک اور خشک دماغ میں فرق وفاصلہ جو محسوس نہ کرے اس کی کوڑھ مغزی میں کوئی شبہ باقی نہیں رہتاہے۔تقشف کا معنی اس پر ابن دائود صاحب دیکھ لیں اوردیگر لغات میں بھی دیکھ لیں۔
http://www.almaany.com/ar/dict/ar-ar/تقشف/
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
و در فروع پیروی علماء محدثین کہ جامع باشند میان فقہ وحدیث کردن
شاہ ولی اللہ دہلوی نے بھی علمائے اہل الحدیث کو معتبر باور کرواتے ہوئے انہیں سے رجوع کرنے کی وصیت کی ہے، اور علمائے مقلدین کو کوڑھ مغز قرار دیتے ہوئے ان سے رجوع نہ کرنے کی وصیت کی ہے!
محدث علماء جو فقہ وحدیث کے جامع ہوں، ان کی پیروی سے اہل حدیث علماء کے معتبرہونے پر استدلال کرنامارے گھٹناپھوٹے سر والی بات ہے،شاہ ولی اللہ تویہ کہہ رہے ہیں کہ ایسے علماء کی پیروی کرنی چاہئے جو حدیث اورفقہ کے جامع ہوں اس میں جہاں یہ بات شامل ہے کہ ایسے فقیہ کی پیروی جس کو حدیث میں مہارت نہ ہو پیروی نہ کرنااولیٰ ہے وہیں ایسے محدث کی پیروی سے بھی بچناچاہئے جو فقہ سے عاری اورخالی ہے۔اگرابن دائود کا مطلب یہ ہے کہ ہرمحدث فقیہ ہوتاہے جیساکہ بعض غالی غیرمقلدین کا دعویٰ ہے تویہ جہاں دلیل سے عاری ایک دعویٰ ہے وہیں ارشاد رسول کے خلاف بھی ہے کیونکہ ارشاد صلی اللہ علیہ وسلم واضح ہے "فرب حامل فقہ لافقہ لہمسند احمد،رقم الحدیث 16738۔
جیساکہ میری امید تھی کہ ابن دائود نے یہی راگ الاپاکہ میری مطلب نہیں سمجھاگیاہے اورفلاں کا مطلب نہیں سمجھاگیاہے، انہوں نے یہ بات واضح نہیں کی کہ شافعی مالکی اورحنبلی جو تقلید کے قائل ہیں وہ اہل حدیث ہیں یانہیں ہیں،کیونکہ ان کی عادت اورفطرت ہے کہ دوسروں سے تو دوٹوک جواب کا مطالبہ کرتے ہیں اورخود گول گول گھوم کردوسروںکو گھماناچاہتے ہیں۔