ضدی
رکن
- شمولیت
- اگست 23، 2013
- پیغامات
- 290
- ری ایکشن اسکور
- 275
- پوائنٹ
- 76
یہ روایت کہاں سے اُٹھائیعن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
یہ روایت کہاں سے اُٹھائیعن النبي صلي الله عليه وآله وسلم، قال : مَن کنتُ مولاه فعلیّ مولاه.
یہ روایت کہاں سے اُٹھائی
یہ ایک سنی کتب حدیث کی صحیح اور حد تواتر سے بھی آگے کی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن کیا کریں وہابی مولوی اس حدیث کو نہیں مانتے !
من كنتُ مولاهُ ، فعليٌّ مولاهُ ، اللهمَّ والِ من والاهُ ، وعادِ من عاداهُ
الراوي: زيد بن أرقم و سعد بن أبي وقاص و بريدة بن الحصيب و علي بن أبي طالب و أبو أيوب الأنصاري و البراء بن عازب و ابن عباس و أنس بن مالك و أبو سعيد الخدري و أبو هريرة المحدث:الألباني - المصدر: السلسلة الصحيحة - الصفحة أو الرقم: 1750
خلاصة حكم المحدث: صحيح
مَن كنتُ مَولاهُ فعليٌّ مَولاهُ وسَمِعتُهُ يقولُ أنتَ منِّي بمنزلةِ هارونَ مِن موسَى إلَّا أنَّهُ لا نبيَّ بعدي وسَمِعتُهُ يقولُ لأُعطيَنَّ الرَّايةَ اليومَ رجلًا يحبُّ اللَّهَ ورسولَهُ
الراوي: سعد بن أبي وقاص المحدث:الألباني - المصدر: صحيح ابن ماجه - الصفحة أو الرقم: 98
خلاصة حكم المحدث: صحيح
يا بُرَيْدةُ ألستُ أولى بالمؤمنينَ من أنفسِهِم قلتُ : بلى يا رسولَ اللَّهِ قالَ : مَن كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ .
الراوي: بريدة بن الحصيب الأسلمي المحدث:الوادعي - المصدر: الصحيح المسند - الصفحة أو الرقم: 157
خلاصة حكم المحدث: صحيح
من كنت مولاه فعلي مولاه
الراوي: زيد بن أرقم أو حذيفة بن اسيد المحدث:الترمذي - المصدر: سنن الترمذي - الصفحة أو الرقم: 3713
خلاصة حكم المحدث: حسن صحيح
من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ
الراوي: - المحدث:النووي - المصدر: المنثورات - الصفحة أو الرقم: 289
خلاصة حكم المحدث: صحيح
من كنتُ مولاهُ فعليٌّ مولاهُ
الراوي: زيد بن أرقم المحدث:ابن حجر العسقلاني - المصدر: تخريج مشكاة المصابيح - الصفحة أو الرقم: 5/423
خلاصة حكم المحدث: [حسن كما قال في المقدمة]
مَنْ كنتُ مولاهُ، فعليَّ مولاهُ
الراوي: البراء بن عازب و بريدة الأسلمي و زيد بن أرقم المحدث:السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 9000
خلاصة حكم المحدث: حسن
مَنْ كنتُ مَولاهُ فعليٌّ مَولاهُ
الراوي: - المحدث:محمد بن محمد الغزي - المصدر: إتقان ما يحسن - الصفحة أو الرقم: 2/621
خلاصة حكم المحدث: متواتر ومشهور
من كنتُ مولاه فعليٌّ مولاه
الراوي: - المحدث:العجلوني - المصدر: كشف الخفاء - الصفحة أو الرقم: 2/361
خلاصة حكم المحدث: متواتر أو مشهور
یہ ایک سنی کتب حدیث کی صحیح اور حد تواتر سے بھی آگے کی حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے لیکن کیا کریں وہابی مولوی اس حدیث کو نہیں مانتے !
اس کے علاوہ اور بھی صحیح احادیث ہیں اس مضمون کی لنک ہی فراہم کردیتا ہوں خود ہی پڑھ لیں
http://dorar.net/enc/hadith?skeys=مَن کنتُ مولاه فعل&d[]=1
اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :{ یہ اس لیے کہ اللہ تعالی مومنوں کا مولی ومددگار ہے اور کافروں کا کوئ بھی مولی ومددگارنہیں } ۔
ہم بھی اس فرمان کو مانتے ہیں
حدیث ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) کا درجہ اورمعنی
حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی (رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) اس حدیث کی صحت کیسی اورمعنی کیا ہے ؟ میں آپ کا مشکورہوں ۔
الحمدللہ
یہ حدیث ترمذي حدیث نمبر ( 3713 ) ابن ماجہ حدیث نمبر ( 121 ) نے روایت کی ہے اوراس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ، زیلعی رحمہ اللہ تعالی نے ھدایہ کی تخریج ( 1 / 189 ) میں کہا ہے کہ :
کتنی ہی ایسی روایات ہیں جن کے راویوں کی کثرت اورمتعدد طرق سے بیان کی جاتیں ہیں ، حالانکہ وہ حدیث ضعیف ہوتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضی اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) بھی ہے ۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں :
یہ قول ( جس کا میں ولی ہوں علی ( رضي اللہ تعالی عنہ ) بھی اس کے ولی ہیں ) یہ صحیح کتابوں میں تونہیں لیکن علماء نے اسے بیان کیا اوراس کی تصحیح میں اختلاف کیا ہے ۔
امام بخاری اور ابراھیم حربی محدثین کے ایک گروہ سے یہ منقول ہے کہ انہوں نے اس قول میں طعن کیا ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد والا قول ( اللھم وال من والاہ وعاد من عاداہ ) آخرتک ، تویہ بلاشبہ کذب افتراء ہے ۔
دیکھیں منھاج السنۃ ( 7 / 319 ) ۔
امام ذھبی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے بارہ میں کہتے ہیں :
حديث ( من کنت مولاہ ) کے کئ طریق جید ہیں ، اورعلامہ البانی رحمہ اللہ تعالی نے السلسلۃ الصحیحۃ حدیث نمبر ( 1750 ) میں اس کی تصحیح کرنے کے بعد اس حدیث کو ضعیف کہنے والوں کا مناقشہ کیا ہے ۔
اوراگر یہ جملہ ( من کنت مولاہ فعلی مولاہ ) صحیح بھی مان لیا جاۓ اور اس کے صحیح ہونے سے کسی بھی حال میں یہ حدیث میں ان کلمات کی زیادتی کی دلیل نہیں بن سکتی جس کا غالیوں نے حدیث میں اضافہ کیا ہے تاکہ وہ علی رضی اللہ تعالی عنہ کوباقی سب صحابہ سے افضل قرار دے سکیں ، یاپھرباقی صحابہ پرطعن کرسکیں کہ انہوں نے ان کا حق سلب کیا تھا ۔
شیخ الاسلام نے ان زيادات اوران کے ضعیف ہونےکا ذکر منھاج السنۃ میں دس مقامات پر کیا ہے ۔
اس حديث کے معنی میں بھی اختلاف کیا گیا ہے ، توجوبھی معنی ہو وہ احاديث صحیحہ میں جویہ ثابت اورمعروف ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت میں افضل ترین شخصیت ابوبکررضي اللہ تعالی عنہ ہیں اور خلافت کے بھی وہی زيادہ حق دارتھے ان کے بعد عمربن الخطاب اورپھرعثمان بن عفان اوران کےبعد علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنھم سے تعارض نہیں رکھتا ، اس لیے کہ کسی ایک صحابی کی کسی چیزمیں معین فضیلت اس پردلالت نہی کرتی کہ وہ سب صحابہ سے افضل ہیں ، اورنہ ہی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا صحابہ کرام میں سب سے افضل ہونا اس کے منافی ہے جیسا کہ عقائد کے باب میں یہ مقرر شدہ بات ہے ۔
اس حدیث کے جومعانی ذکرکیے گۓ ہیں ان میں کچھ کا ذکر کیا جاتا ہے :
ان کے معنی میں یہ کہا گيا ہے کہ :
یہاں پرمولا ولی جوکہ عدو کی ضدہے کے معنی میں ہے تومعنی یہ ہوگا ، جس سے میں محبت کرتا ہوں علی رضی اللہ تعالی عنہ بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، اور یہ بھی معنی کیا گيا ہے کہ : جومجھ سے محبت کرتا ہے علی رضی اللہ تعالی عنہ اس سے محبت کرتے ہيں ،یہ معنی قاری نے بعض علماء سےذکرکیا ہے ۔
اورامام جزری رحمہ اللہ تعالی نے نھایہ میں کہا ہے کہ :
حدیث میں مولی کا ذکر کئ ایک بار ہوا ہے ، یہ ایک ایسا اسم ہے جو بہت سے معانی پرواقع ہوتا ہے ، اس کے معانی میں : الرب ، المالک ، السید ، المنعم ( نتمتیں کرنے والا ) ، المعتق آزاد کرنےوالا ) ، الناصر ( مددکرنے والا) ، المحب ( محبت کرنےوالا ) ، التابع ( پیروی کرنے والا) ، الجار( پڑوسی ) ، ابن العم ( چچا کا بیٹا ) ، حلیف ، العقید( فوجی افسر ) ، الصھر ( داماد) العبد ( غلام ) ، العتق ( آزاد کیا گیا ) ، المنعم علیہ ( جس پرنعمتیں کی جائيں ) ۔
ان معانی میں سے اکثرتوحدیث میں وارد ہیں جن کا اضافت کے اعتبارسے معنی کیا جاتا ہے ، توجس نے بھی کوئ کام کیا یا وہ کام اس کے سپرد ہوا تو اس کا مولا اورولی ہے ، اورحدیث مذکورہ کوان مذکورہ اسماء میں سے اکثر پر محمول کیا جا سکتا ہے ۔
امام شافی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اس سے اسلام کی ولاء مراد ہے جیسا کہ
اللہ تعالی کے اس فرمان میں ہے :
اورطیبی رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں :
حدیث میں مذکور ولایہ کواس امامت پرمحمول کرنا صحیح نہیں جو مسلمانوں کے امورمیں تصرف ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں مستقل طورپرتصرف کرنے والے تونبی صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں ان کے علاوہ کوئ اورنہیں تواس لیے اسے محبت اورولاء اسلام اوراس جیے معانی پرمحمول کرنا ضروری ہے ۔
دیکھیں تحفۃ الاحوذی لشرح الترمذي حديث نمبر ( 3713 ) اس کی عبارت میں کچھ تصرف کر کے پیش کیا گیا ہے ۔
واللہ تعالی اعلم .
الشیخ محمد صالح المنجد
اگر اس کا ترجمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بتائی ہوئی تشریح کے مطابق کربھی دیا جائے تو بھی آپ نے نہیں ماننا ہے اگر مانے تو آپ کی خدمت میں پیش کئے دیتا ہوںمن كنتُ مولاهُ ، فعليٌّ مولاهُ ، اللهمَّ والِ من والاهُ ، وعادِ من عاداهُ - اس کا ترجمہ کر دیجیے پر ایک بات کا خیال رکھنا ہے کہ ہائ لائٹ الفاظ کا ترجمہ ایسے ہی کرنا ہے جیسے آپ مولاہ کا ترجمہ کریں
بہرام