• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ حیض کی ابتدا کس طرح ہوئی
وقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ هذا شىء كتبه الله على بنات آدم‏"‏‏. ‏ وقال بعضهم كان أول ما أرسل الحيض على بني إسرائيل، وحديث النبي صلى الله عليه وسلم أكثر‏.‏
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کی تقدیر میں لکھ دیا ہے۔ بعض اہل علم نے کہا ہے کہ سب سے پہلے حیض بنی اسرائیل میں آیا۔ ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث تمام عورتوں کو شامل ہے۔
تشریح : یعنی “ آدم کی بیٹیوں ” کے لفظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل سے پہلے بھی عورتوں کو حیض آتا تھا۔ اس لیے حیض کی ابتدا کے متعلق یہ کہنا کہ بنی اسرائیل سے اس کی ابتدا ہوئی صحیح نہیں، حضرت امام بخاری قدس سرہ نے جو حدیث یہاں بیان کی ہے۔ اس کو خود انھوں نے اسی لفظ سے آگے ایک باب میں سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔ وقال بعضہم سے حضرت عبداللہ بن مسعود اور حضرت عائشہ مراد ہیں۔ ان کے اثروں کو عبدالرزاق نے نکالا ہے، عجب نہیں کہ ان دونوں نے یہ حکایت بنی اسرائیل سے لے کر بیان کی ہو۔ قرآن شریف میں حضرت ابراہیم کی بیوی سارہ کے حال میں ہے کہ فضحکت جس سے مراد بعض نے لیا ہے کہ ان کو حیض آگیا اور ظاہر ہے کہ سارہ بنی اسرائیل سے پہلے تھیں، یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسرائیل پر یہ بطور عذاب دائمی کے بھیجا گیا ہو۔

حدیث نمبر : 294
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال سمعت عبد الرحمن بن القاسم، قال سمعت القاسم، يقول سمعت عائشة، تقول خرجنا لا نرى إلا الحج، فلما كنا بسرف حضت، فدخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي قال ‏"‏ ما لك أنفست‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏ إن هذا أمر كتبه الله على بنات آدم، فاقضي ما يقضي الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت‏"‏‏. ‏ قالت وضحى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن نسائه بالبقر‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا میں نے عبدالرحمن بن قاسم سے سنا، کہا میں نے قاسم سے سنا۔ وہ کہتے تھے میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا۔ آپ فرماتی تھیں کہ ہم حج کے ارادہ سے نکلے۔ جب ہم مقام سرف میں پہنچے تو میں حائضہ ہو گئی اور اس رنج میں رونے لگی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا تمہیں کیا ہو گیا۔ کیا حائضہ ہو گئی ہو۔ میں نے کہا، ہاں! آپ نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے لکھ دیا ہے۔ اس لیے تم بھی حج کے افعال پورے کر لو۔ البتہ بیت اللہ کا طواف نہ کرنا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی۔ ( سرف ایک مقام مکہ سے چھ سات میل کے فاصلہ پر ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ عورت کا اپنے شوہر کے سر کو دھونا اور اس میں کنگھا کرنا جائز ہے

حدیث نمبر : 295
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، قالت كنت أرجل رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم وأنا حائض‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں خبر دی مالک نے ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے والد سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک کو حائضہ ہونے کی حالت میں بھی کنگھا کیا کرتی تھی۔

حدیث نمبر : 296

حدثنا إبراهيم بن موسى، قال أخبرنا هشام بن يوسف، أن ابن جريج، أخبرهم قال أخبرني هشام، عن عروة، أنه سئل أتخدمني الحائض أو تدنو مني المرأة وهى جنب فقال عروة كل ذلك على هين، وكل ذلك تخدمني، وليس على أحد في ذلك بأس، أخبرتني عائشة أنها كانت ترجل ـ تعني ـ رأس رسول الله صلى الله عليه وسلم وهي حائض، ورسول الله صلى الله عليه وسلم حينئذ مجاور في المسجد، يدني لها رأسه وهى في حجرتها، فترجله وهى حائض‏.‏
ہم سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ابن جریج نے انھیں خبر دی، انھوں نے کہا مجھے ہشام بن عروہ نے عروہ کے واسطے سے بتایا کہ ان سے سوال کیا گیا، کیا حائضہ بیوی میری خدمت کر سکتی ہے، یا ناپاکی کی حالت میں عورت مجھ سے نزدیک ہو سکتی ہے؟ عروہ نے فرمایا میرے نزدیک تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اس طرح کہ عورتیں میری بھی خدمت کرتی ہیں اور اس میں کسی کے لیے بھی کوئی حرج نہیں۔ اس لیے کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حائضہ ہونے کی حالت میں کنگھا کیا کرتی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مسجد میں معتکف ہوتے۔ آپ اپنا سر مبارک قریب کر دیتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے حجرہ سے کنگھا کر دیتیں، حالانکہ وہ حائضہ ہوتیں۔

باب کی حدیث سے مطابقت ظاہر ہے۔ ادیان سابقہ میں عورت کو ایام حیض میں بالکل علیحدہ قید کردیا جاتا تھا۔ اسلام نے ان قیود کو ہٹا دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ مرد کا اپنی بیوی کی گودمیں حائضہ ہونے کے باوجود قرآن پڑھنا جائز ہے

وكان أبو وائل يرسل خادمه وهى حائض إلى أبي رزين، فتأتيه بالمصحف فتمسكه بعلاقته‏.‏
ابووائل اپنی خادمہ کو حیض کی حالت میں ابورزین کے پاس بھیجتے تھے اور وہ ان کے یہاں سے قرآن مجید جزدان میں لپٹا ہوا اپنے ہاتھ سے پکڑ کر لاتی تھی۔
اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے موصولاً روایت کیا ہے۔

حدیث نمبر : 297
حدثنا أبو نعيم الفضل بن دكين، سمع زهيرا، عن منصور ابن صفية، أن أمه، حدثته أن عائشة حدثتها أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يتكئ في حجري وأنا حائض، ثم يقرأ القرآن‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے زہیر سے سنا، انھوں نے منصور بن صفیہ سے کہ ان کی ماں نے ان سے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میری گود میں سر رکھ کر قرآن مجید پڑھتے، حالانکہ میں اس وقت حیض والی ہوتی تھی۔

حدیث اور باب کی مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص سے متعلق جس نے نفاس کا نام بھی حیض رکھا

حدیث نمبر : 298
حدثنا المكي بن إبراهيم، قال حدثنا هشام، عن يحيى بن أبي كثير، عن أبي سلمة، أن زينب ابنة أم سلمة، حدثته أن أم سلمة حدثتها قالت، بينا أنا مع النبي، صلى الله عليه وسلم مضطجعة في خميصة إذ حضت، فانسللت فأخذت ثياب حيضتي قال ‏"‏ أنفست‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فدعاني فاضطجعت معه في الخميلة‏.‏
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام نے یحییٰ بن کثیر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوسلمہ سے کہ زینب بنت ام سلمہ نے ان سے بیان کیا اور ان سے ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی، اتنے میں مجھے حیض آ گیا۔ اس لیے میں آہستہ سے باہر نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہیں نفاس آ گیا ہے؟ میں نے عرض کیا ہاں۔ پھر مجھے آپ نے بلا لیا، اور میں چادر میں آپ کے ساتھ لیٹ گئی۔

تشریح : نفاس کے مشہور معنی تو یہ ہیں کہ جو خون عورت کو زچگی میں آئے وہ نفاس ہے۔ مگر کبھی حیض کو بھی نفاس کہہ دیتے ہیں اور نفاس کو حیض، اس طرح نام بدل کر تعبیر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہاں حیض کے لیے نفاس کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ کے ساتھ مباشرت کرنا ( یعنی جماع کے علاوہ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا جائز ہے )

حدیث نمبر : 299
حدثنا قبيصة، قال حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت كنت أغتسل أنا والنبي، صلى الله عليه وسلم من إناء واحد، كلانا جنب‏.
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے منصور بن معمر کے واسطے سے، وہ ابراہیم نخعی سے، وہ اسود سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے۔ حالانکہ دونوں جنبی ہوتے۔

حدیث نمبر : 300
وكان يأمرني فأتزر، فيباشرني وأنا حائض‏.‏
اور آپ مجھے حکم فرماتے، پس میں ازار باندھ لیتی، پھر آپ میرے ساتھ مباشرت کرتے، اس وقت میں حائضہ ہوتی۔

حدیث نمبر : 301
وكان يخرج رأسه إلى وهو معتكف، فأغسله وأنا حائض‏.‏
اور آپ اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے۔ اس وقت آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور میں حیض کی حالت میں ہونے کے باوجود آپ کا سر مبارک دھو دیتی۔

تشریح : بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی استہزاء کرتے ہوئے اسے قرآن کے خلاف بتلایا ہے۔ ان کے خیال ناپاک میں مباشرت کا لفظ جماع ہی پر بولا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مباشرت کے معنی بدن سے بدن لگانا اور بوس وکنار مراد ہے اور اسلام میں بالاتفاق حائضہ عورت کے ساتھ صرف جماع حرام ہے۔ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا، بوس وکنار بشرائط معلومہ منع نہیں ہے۔ منکرین حدیث اپنے خیالات فاسدہ کے لیے محض ہفوات باطلہ سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جس کو اپنی شہوت پر قابو نہ ہو اسے مباشرت سے بھی بچنا چاہئیے۔

حدیث نمبر : 302
حدثنا إسماعيل بن خليل، قال أخبرنا علي بن مسهر، قال أخبرنا أبو إسحاق ـ هو الشيباني ـ عن عبد الرحمن بن الأسود، عن أبيه، عن عائشة، قالت كانت إحدانا إذا كانت حائضا، فأراد رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يباشرها، أمرها أن تتزر في فور حيضتها ثم يباشرها‏.‏ قالت وأيكم يملك إربه كما كان النبي صلى الله عليه وسلم يملك إربه‏.‏ تابعه خالد وجرير عن الشيباني‏.
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہر نے، ہم سے ابواسحاق سلیمان بن فیروز شیبانی نے عبدالرحمن بن اسود کے واسطہ سے، وہ اپنے والد اسود بن یزید سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا ہم ازواج میں سے کوئی جب حائضہ ہوتی، اس حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر مباشرت کا ارادہ کرتے تو آپ ازار باندھنے کا حکم دے دیتے باوجود حیض کی زیادتی کے۔ پھر بدن سے بدن ملاتے، آپ نے کہا تم میں ایسا کون ہے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح اپنی شہوت پر قابو رکھتا ہو۔ اس حدیث کی متابعت خالد اور جریر نے شیبانی کی روایت سے کی ہے۔(یہاں بھی مباشرت سے ساتھ لیٹنا بیٹھنا مراد ہے )

حدیث نمبر : 303
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا الشيباني، قال حدثنا عبد الله بن شداد، قال سمعت ميمونة، كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا أراد أن يباشر امرأة من نسائه أمرها فاتزرت وهى حائض‏.‏ ورواه سفيان عن الشيباني‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسحاق شیبانی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبداللہ بن شداد نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے میمونہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں میں سے کسی سے مباشرت کرنا چاہتے اور وہ حائضہ ہوتی، تو آپ کے حکم سے وہ پہلے ازار باندھ لیتیں۔ اور سفیان نے شیبانی سے اس کو روایت کیا ہے۔

ان تمام احادیث میں حیض کی حالت میں مباشرت سے عورت کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا مراد ہے۔ منکرین حدیث کا یہاں جماع مراد لے کران احادیث کو قرآن کا معارض ٹھہرانا بالکل جھوٹ اور افترا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ عورت روزے چھوڑدے ( بعد میں قضا کرے )

حدیث نمبر : 304
حدثنا سعيد بن أبي مريم، قال أخبرنا محمد بن جعفر، قال أخبرني زيد ـ هو ابن أسلم ـ عن عياض بن عبد الله، عن أبي سعيد الخدري، قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في أضحى ـ أو فطر ـ إلى المصلى، فمر على النساء فقال ‏"‏ يا معشر النساء تصدقن، فإني أريتكن أكثر أهل النار‏"‏‏. ‏ فقلن وبم يا رسول الله قال ‏"‏ تكثرن اللعن، وتكفرن العشير، ما رأيت من ناقصات عقل ودين أذهب للب الرجل الحازم من إحداكن‏"‏‏. ‏ قلن وما نقصان ديننا وعقلنا يا رسول الله قال ‏"‏ أليس شهادة المرأة مثل نصف شهادة الرجل‏"‏‏. ‏ قلن بلى‏.‏ قال ‏"‏ فذلك من نقصان عقلها، أليس إذا حاضت لم تصل ولم تصم‏"‏‏. ‏ قلن بلى‏.‏ قال ‏"‏ فذلك من نقصان دينها‏"‏‏. ‏
ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے محمد بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے زید نے اور یہ زید اسلم کے بیٹے ہیں، انھوں نے عیاض بن عبداللہ سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عید الفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کی کہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انھوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔

تشریح : قسطلانی نے کہا کہ لعنت کرنا اس پر جائز نہیں ہے جس کے خاتمہ کی خبرنہ ہو، البتہ جس کا کفر پر مرنا یقینی ثابت ہو اس پر لعنت جائز ہے۔ جیسے ابوجہل وغیرہ، اسی طرح بغیرنام لیے ہوئے ظالموں اور کافروں پر بھی لعنت کرنی جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ بیت اللہ کے طواف کے علاوہ حج کے باقی ارکان پورا کرے گی

وقال إبراهيم لا بأس أن تقرأ الآية‏.‏ ولم ير ابن عباس بالقراءة للجنب بأسا‏.‏ وكان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل أحيانه‏.‏ وقالت أم عطية كنا نؤمر أن يخرج الحيض، فيكبرن بتكبيرهم ويدعون‏.‏ وقال ابن عباس أخبرني أبو سفيان أن هرقل دعا بكتاب النبي صلى الله عليه وسلم فقرأ فإذا فيه ‏"‏ بسم الله الرحمن الرحيم و‏{‏يا أهل الكتاب تعالوا إلى كلمة‏}‏‏"‏‏. ‏ الآية‏.‏ وقال عطاء عن جابر حاضت عائشة فنسكت المناسك غير الطواف بالبيت، ولا تصلي‏.‏ وقال الحكم إني لأذبح وأنا جنب‏.‏ وقال الله ‏{‏ولا تأكلوا مما لم يذكر اسم الله عليه‏}‏‏.‏
ابراہیم نے کہا کہ آیت پڑھنے میں کوئی حرج نہیں اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما جنبی کے لیے قرآن مجید پڑھنے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت اللہ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ امام عطیہ نے فرمایا ہمیں حکم ہوتا تھا کہ ہم حیض والی عورتوں کو بھی ( عید کے دن ) باہر نکالیں۔ پس وہ مردوں کے ساتھ تکبیر کہتیں اور دعا کرتیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ان سے ابوسفیان نے بیان کیا کہ ہرقل نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گرامی نامہ کو طلب کیا اور اسے پڑھا۔ اس میں لکھا ہوا تھا۔ شروع کرتا ہوں میں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ اور اے کتاب والو! ایک ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان مشترک ہے کہ ہم خدا کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کا کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کے قول مسلمون تک۔ عطاء نے جابر کے حوالہ سے بیان کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ( حج میں ) حیض آ گیا تو آپ نے تمام مناسک پورے کئے سوائے بیت اللہ کے طواف کے اور آپ نماز بھی نہیں پڑھتی تھیں اور حکم نے کہا میں جنبی ہونے کے باوجود ذبح کرتا ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جس ذبیحہ پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اسے نہ کھاؤ۔

اس لیے حکم کی مراد بھی ذبح کرنے میں اللہ کے ذکر کوجنبی ہونے کی حالت میں کرنا ہے۔

حدیث نمبر : 305
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي سلمة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن القاسم بن محمد، عن عائشة، قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم لا نذكر إلا الحج، فلما جئنا سرف طمثت، فدخل على النبي صلى الله عليه وسلم وأنا أبكي فقال ‏{‏ما يبكيك‏}‏‏.‏ قلت لوددت والله أني لم أحج العام‏.‏ قال ‏{‏لعلك نفست‏}‏‏.‏ قلت نعم‏.‏ قال ‏"‏ فإن ذلك شىء كتبه الله على بنات آدم، فافعلي ما يفعل الحاج، غير أن لا تطوفي بالبيت حتى تطهري‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی سلمہ نے بیان کیا، انھوں نے عبدالرحمن بن قاسم سے، انھوں نے قاسم بن محمد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے اس طرح نکلے کہ ہماری زبانوں پر حج کے علاوہ اور کوئی ذکر ہی نہ تھا۔ جب ہم مقام سرف پہنچے تو مجھے حیض آ گیا۔ ( اس غم سے ) میں رو رہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ نے پوچھا کہ کیوں رو رہی ہو؟ میں نے کہا کاش! میں اس سال حج کا ارادہ ہی نہ کرتی۔ آپ نے فرمایا شاید تمہیں حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا یہ چیز تو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں کے لیے مقرر کر دی ہے۔ اس لیے تم جب تک پاک نہ ہو جاؤ طواف بیت اللہ کے علاوہ حاجیوں کی طرح تمام کام انجام دو۔

تشریح : سیدالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ بیان کرنا ہے کہ حائضہ اور جنبی کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کی اجازت ہے۔ جیسا کہ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب مبارک پوری مرحوم فرماتے ہیں: اعلم ان البخاری عقد بابا فی صحیحہ یدل علی انہ قائل بجواز قراءۃ القرآن للجنب والحائض۔ ( تحفۃ الاحوذی،جلد1،ص: 124 )

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی صحیح روایت ایسی نہیں ہے جس میں جنبی اور حائضہ کو قرات سے روکا گیا ہوگو اس سلسلے میں متعدد روایات ہیں اور بعض کی متعدد محدثین نے تصحیح کی ہے لیکن صحیح یہی ہے کہ کوئی صحیح روایت اس سلسلہ میں نہیں ہے جیسا کہ صاحب ایضاح البخاری نے جزء11،ص: 94 پر تحریر فرمایا ہے۔ درجہ حسن تک کی روایات توموجود ہیں، البتہ ان تمام روایات کا قدر مشترک یہی ہے کہ جنبی کو قرات قرآن کی اجازت نہیں ہے۔ لیکن چونکہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی نظر میں کوئی روایت درجہ صحت تک پہنچی ہوئی نہیں ہے۔ اس لیے انھوں نے جنبی اور حائضہ کے لیے قرات قرآن کو جائز رکھا ہے۔ ائمہ فقہاءمیں سے حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے دوروایتیں ہیں۔ ایک میں جنبی اور حائضہ ہردو کوقرات کی اجازت ہے اور طبری،ابن منذر اور بعض حضرات سے بھی یہ اجازت منقول ہے۔ حضرت مولانا مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں۔ تمسک البخاری ومن قال بالجواز غیرہ کالطبری وابن المنذر وداود بعموم حدیث کان یذکر اللہ علی کل احیانہ لان الذکر اعم ان یکون بالقرآن اوبغیرہ الخ ( تحفۃ الاحوذی،ج1،ص: 124 )

یعنی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے علاوہ دیگر مجوزین نے حدیث یذکراللہ علی کل احیانہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہرحال میں اللہ کا ذکر فرماتے تھے ) سے استدلال کیا ہے۔ اس لیے کہ ذکرمیں تلاوت قرآن بھی داخل ہے۔ مگرجمہور کا مذہب مختار یہی ہے کہ جنبی اور حائضہ کوقرات قرآن جائز نہیں۔ تفصیل کے لیے تحفۃ الاحوذی کا مقام مذکورہ مطالعہ کیاجائے۔

صاحب ایضاح البخاری فرماتے ہیں کہ “ درحقیقت ان اختلافات کا بنیادی منشاءاسلام کا وہ توسع ہے جس کے لیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات میں بھی فرمایا تھا اور ایسے ہی اختلافات کے متعلق آپ نے خوش ہوکر پیشین گوئی کی تھی کہ میری امت کا اختلاف باعث رحمت ہوگا۔ ( ایضاح البخاری،ج2،ص: 32 ) ( امت کا اختلاف باعث رحمت ہونے کی حدیث صحیح نہیں
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : استحاضہ کے بیان میں

استحاضہ عورت کے لیے ایک ایسی بیماری ہے جس میں اسے ہر وقت خون آتا رہتا ہے اس کے احکام بھی حیض کے احکام سے مختلف ہیں۔

حدیث نمبر : 306
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أنها قالت قالت فاطمة بنت أبي حبيش لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله إني لا أطهر، أفأدع الصلاة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما ذلك عرق وليس بالحيضة، فإذا أقبلت الحيضة فاتركي الصلاة، فإذا ذهب قدرها فاغسلي عنك الدم وصلي‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بیان کیا کہ فاطمہ ابی حبیش کی بیٹی نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو پاک ہی نہیں ہوتی، تو کیا میں نماز بالکل چھوڑ دوں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں اس لیے جب حیض کے دن ( جس میں کبھی پہلے تمہیں عادتاً آیا کرتا تھا ) آئیں تو نماز چھوڑ دے اور جب اندازہ کے مطابق وہ دن گزر جائیں، تو خون دھو ڈال اور نماز پڑھ۔

تشریح : یعنی غسل کرکے ایک روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہو۔ مالکیہ اس عورت کے لیے جس کا خون جاری ہی رہے یابواسیر والوں کے لیے مجبوری کی بنا پر وضونہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حیض کا خون دھونے کے بیان میں

حدیث نمبر : 307
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام، عن فاطمة بنت المنذر، عن أسماء بنت أبي بكر، أنها قالت سألت امرأة رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله، أرأيت إحدانا إذا أصاب ثوبها الدم من الحيضة، كيف تصنع فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أصاب ثوب إحداكن الدم من الحيضة، فلتقرصه ثم لتنضحه بماء، ثم لتصلي فيه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے بیان کیا، انھوں نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے، انھوں نے فاطمہ بنت منذر سے، انھوں نے اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے کہا کہ ایک عورت نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔ اس نے پوچھا کہ یا رسول اللہ آپ ایک ایسی عورت کے متعلق کیا فرماتے ہیں جس کے کپڑے پر حیض کا خون لگ گیا ہو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی عورت کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو چاہیے کہ اسے رگڑ ڈالے، اس کے بعد اسے پانی سے دھوئے، پھر اس کپڑے میں نماز پڑھ لے۔

حدیث نمبر : 308
حدثنا أصبغ، قال أخبرني ابن وهب، قال أخبرني عمرو بن الحارث، عن عبد الرحمن بن القاسم، حدثه عن أبيه، عن عائشة، قالت كانت إحدانا تحيض، ثم تقترص الدم من ثوبها عند طهرها فتغسله، وتنضح على سائره، ثم تصلي فيه‏.‏
ہم سے اصبغ نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے عمرو بن حارث نے عبدالرحمن بن قاسم کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد قاسم بن محمد سے بیان کیا، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ہمیں حیض آتا تو کپڑے کو پاک کرتے وقت ہم خون کو مل دیتے، پھر اس جگہ کو دھو لیتے اور تمام کپڑے پر پانی بہا دیتے اور اسے پہن کر نماز پڑھتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کے لیے استحاضہ کی حالت میں اعتکاف

حدیث نمبر : 309
حدثنا إسحاق، قال حدثنا خالد بن عبد الله، عن خالد، عن عكرمة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم اعتكف معه بعض نسائه وهى مستحاضة ترى الدم، فربما وضعت الطست تحتها من الدم‏.‏ وزعم أن عائشة رأت ماء العصفر فقالت كأن هذا شىء كانت فلانة تجده‏.‏
ہم سے اسحاق بن شاہین ابوبشر واسطی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے خالد بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے خالد بن مہران سے، انھوں نے عکرمہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی بعض ازواج نے اعتکاف کیا، حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں اور انھیں خون آتا تھا۔ اس لیے خون کی وجہ سے طشت اکثر اپنے نیچے رکھ لیتیں۔ اور عکرمہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کسم کا پانی دیکھا تو فرمایا یہ تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے فلاں صاحبہ کا استحاضہ کا خون آتا تھا۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مستحاضہ مسجد میں رہ سکتی ہے اور اس کا اعتکاف اور نماز درست ہے اور مسجد میں حدث کرنا بھی درست ہے جب کہ مسجد کے آلودہ ہونے کا ڈر نہ ہو اور جو مرد دائم الحدث ہو وہ بھی مستحاضہ کے حکم میں ہے یا جس کے کسی زخم سے خون جاری رہتاہو۔

حدیث نمبر : 310
حدثنا قتيبة، قال حدثنا يزيد بن زريع، عن خالد، عن عكرمة، عن عائشة، قالت اعتكفت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم امرأة من أزواجه، فكانت ترى الدم والصفرة، والطست تحتها وهى تصلي‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے خالد سے، وہ عکرمہ سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کی ازواج میں سے ایک نے اعتکاف کیا۔ وہ خون اور زردی ( نکلتے ) دیکھتیں، طشت ان کے نیچے ہوتا اور نماز ادا کرتی تھیں۔

یہ خون استحاضہ کی بیماری کا تھا جس میں عورتوں کے لیے نماز معاف نہیں ہے۔

حدیث نمبر : 311
حدثنا مسدد، قال حدثنا معتمر، عن خالد، عن عكرمة، عن عائشة، أن بعض، أمهات المؤمنين اعتكفت وهى مستحاضة‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے معتمر بن سلیمان نے خالد کے واسطہ سے بیان کیا، وہ عکرمہ سے وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ بعض امہات المومنین نے اعتکاف کیا حالانکہ وہ مستحاضہ تھیں۔ ( اوپر والی روایت میں ان ہی کا ذکر ہے
 
Top