• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حائضہ عورت کے ساتھ سونا جب کہ وہ حیض کے کپڑوں میں ہو

حدیث نمبر : 322
حدثنا سعد بن حفص، قال حدثنا شيبان، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن زينب ابنة أبي سلمة، حدثته أن أم سلمة قالت حضت وأنا مع النبي، صلى الله عليه وسلم في الخميلة، فانسللت فخرجت منها، فأخذت ثياب حيضتي فلبستها، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أنفست‏"‏‏. ‏ قلت نعم، فدعاني فأدخلني معه في الخميلة‏.‏ قالت وحدثتني أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يقبلها وهو صائم، وكنت أغتسل أنا والنبي صلى الله عليه وسلم من إناء واحد من الجنابة‏.‏
ہم سے سعد بن حفص نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شیبان نحوی نے بیان کیا، انھوں نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انھوں نے ابوسلمہ سے، انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، اس لیے میں چپکے سے نکل آئی اور اپنے حیض کے کپڑے پہن لیے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کیا تمہیں حیض آ گیا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں۔ پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور اپنے ساتھ چادر میں داخل کر لیا۔ زینب نے کہا کہ مجھ سے ام سلمہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور اسی حالت میں ان کا بوسہ لیتے۔ اور میں نے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی برتن میں جنابت کا غسل کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جس نے ( اپنی عورت کے لیے ) حیض کے لیے پاکی میں پہنے جانے والے کپڑوں کے علاوہ کپڑے بنائے

حدیث نمبر : 323
حدثنا معاذ بن فضالة، قال حدثنا هشام، عن يحيى، عن أبي سلمة، عن زينب ابنة أبي سلمة، عن أم سلمة، قالت بينا أنا مع النبي، صلى الله عليه وسلم مضطجعة في خميلة حضت، فانسللت فأخذت ثياب حيضتي فقال ‏"‏ أنفست‏"‏‏. ‏ فقلت نعم‏.‏ فدعاني فاضطجعت معه في الخميلة‏.‏
ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام دستوائی نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، وہ ابوسلمہ سے، وہ زینب بنت ابی سلمہ سے، وہ ام سلمہ سے، انھوں نے بتلایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چادر میں لیٹی ہوئی تھی کہ مجھے حیض آ گیا، میں چپکے سے چلی گئی اور حیض کے کپڑے بدل لیے، آپ نے پوچھا کیا تجھ کو حیض آ گیا ہے۔ میں نے کہا، جی ہاں! پھر مجھے آپ نے بلا لیا اور میں آپ کے ساتھ چادر میں لیٹ گئی۔

معلوم ہوا کہ حیض کے لیے عورت کو علیحدہ کپڑے بنانے مناسب ہیں اور طہر کے لیے علیحدہ تاکہ ان کو سہولت ہوسکے، یہ اسراف میں داخل نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عیدین میں اور مسلمانوں کے ساتھ دعا میں حائضہ عورتیں بھی شریک ہوں اور یہ عورتیں نماز کی جگہ سے ایک طرف ہو کر رہیں

حدیث نمبر : 324
حدثنا محمد ـ هو ابن سلام ـ قال أخبرنا عبد الوهاب، عن أيوب، عن حفصة، قالت كنا نمنع عواتقنا أن يخرجن في العيدين، فقدمت امرأة فنزلت قصر بني خلف، فحدثت عن أختها، وكان زوج أختها غزا مع النبي صلى الله عليه وسلم ثنتى عشرة، وكانت أختي معه في ست‏.‏ قالت كنا نداوي الكلمى، ونقوم على المرضى، فسألت أختي النبي صلى الله عليه وسلم أعلى إحدانا بأس إذا لم يكن لها جلباب أن لا تخرج قال ‏"‏ لتلبسها صاحبتها من جلبابها، ولتشهد الخير ودعوة المسلمين‏"‏‏. ‏ فلما قدمت أم عطية سألتها أسمعت النبي صلى الله عليه وسلم قالت بأبي نعم ـ وكانت لا تذكره إلا قالت بأبي ـ سمعته يقول ‏"‏ يخرج العواتق وذوات الخدور، أو العواتق ذوات الخدور والحيض، وليشهدن الخير ودعوة المؤمنين، ويعتزل الحيض المصلى‏"‏‏. ‏ قالت حفصة فقلت الحيض فقالت أليس تشهد عرفة وكذا وكذا
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوہاب ثقفی نے ایوب سختیانی سے، وہ حفصہ بنت سیرین سے، انھوں نے فرمایا کہ ہم اپنی کنواری جوان بچیوں کو عیدگاہ جانے سے روکتی تھیں، پھر ایک عورت آئی اور بنی خلف کے محل میں اتریں اور انھوں نے اپنی بہن ( ام عطیہ ) کے حوالہ سے بیان کیا، جن کے شوہر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ لڑائیوں میں شریک ہوئے تھے اور خود ان کی اپنی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ جنگوں میں گئی تھیں۔ انھوں نے بیان کیا کہ ہم زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں اور مریضوں کی خبر گیری بھی کرتی تھیں۔ میری بہن نے ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہو تو کیا اس کے لیے اس میں کوئی حرج ہے کہ وہ ( نماز عید کے لیے ) باہر نہ نکلے۔ آپ نے فرمایا اس کی ساتھی عورت کو چاہیے کہ اپنی چادر کا کچھ حصہ اسے بھی اڑھا دے، پھر وہ خیر کے مواقع پر اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں، ( یعنی عیدگاہ جائیں ) پھر جب ام عطیہ آئیں تو میں نے ان سے بھی یہی سوال کیا۔ انھوں نے فرمایا، میرا باپ آپ پر فدا ہو، ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تھا۔ اور ام عطیہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کرتیں تو یہ ضرور فرماتیں کہ میرا باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر فدا ہو۔ ( انھوں نے کہا ) میں نے آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ جوان لڑکیاں، پردہ والیاں اور حائضہ عورتیں بھی باہر نکلیں اور مواقع خیر میں اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شریک ہوں اور حائضہ عورت جائے نماز سے دور رہے۔ حفصہ کہتی ہیں، میں نے پوچھا کیا حائضہ بھی؟ تو انھوں نے فرمایا کہ وہ عرفات میں اور فلاں فلاں جگہ نہیں جاتی۔ یعنی جب وہ ان جملہ مقدس مقامات میں جاتی ہیں تو پھر عیدگاہ کیوں نہ جائیں۔

تشریح : اجتماع عیدین میں عورتیں ضرور شریک ہوں: اجتماع عیدین میں عورتوں کے شریک ہونے کی اس قدر تاکید ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورتوںتک کے لیے تاکید فرمائی کہ وہ بھی اس ملی اجتماع میں شریک ہوکر دعاؤں میں حصہ لیں اور حالت حیض کی وجہ سے جائے نماز سے دوررہیں، ان مستورات کے لیے جن کے پاس اوڑھنے کے لیے چادربھی نہیں، آپ نے اس اجتماع سے پیچھے رہ جانے کی اجازت نہیں دی، بلکہ فرمایاکہ اس کی ساتھ والی دوسری عورتوں کو چاہئیے کہ اس کے لیے اوڑھنی کا انتظام کردیں۔ روایت مذکورہ میں یہاں تک تفصیل موجود ہے کہ حضرت حفصہ نے تعجب کے ساتھ ام عطیہ سے کہا کہ حیض والی عورتیں کس طرح نکلیں گی جب کہ وہ نجاست حیض میں ہیں۔ اس پر حضرت ام عطیہ نے فرمایاکہ حیض والی عورتیں حج کے دنوں میں آخر عرفات میں ٹھہرتی ہیں، مزدلفہ میں رہتی ہیں، منیٰ میں کنکریاں مارتی ہیں، یہ سب مقدس مقامات ہیں، جس طرح وہ وہاں جاتی ہیں اسی طرح عیدگاہ بھی جائیں۔ بخاری شریف کی اس حدیث کے علاوہ اور بھی بہت سی واضح احادیث اس سلسلہ میں موجود ہیں۔ جن سب کا ذکر موجب تطویل ہوگا۔ مگرتعجب ہے فقہائے احناف پر جنھوں نے اپنے فرضی شکوک واوہام کی بنا پر صراحتاً اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان کے خلاف فتویٰ دیا ہے۔

مناسب ہوگا کہ فقہائے احناف کا فتویٰ صاحب ایضاح البخاری کے لفظوں میں پیش کردیا جائے، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
“ اب عیدگاہ کا حکم بدل گیا ہے پہلے عیدگاہ مسجدکی شکل میں نہ ہوتی تھی، اس لیے حائضہ اور جنبی کو بھی اندر جانے کی اجازت تھی، اب عیدگاہیں مکمل مسجد کی صورت میں ہوتی ہیں، اس لیے ان کا حکم بعینہ مسجد کا حکم ہے۔ اسی طرح دورِحاضر میں عورتوں کو عیدگاہ کی نماز میں شرکت سے بھی روکا گیا ہے۔ صدراول میں اول تو اتنا اندیشہ فتنہ وفساد کا نہیں تھا، دوسرے یہ کہ اسلام کی شان و شوکت ظاہر کرنے کے لیے ضروری تھا،مرد وعورت سب مل کر عیدکی نماز میں شرکت کریں۔ اب فتنہ کا بھی زیادہ اندیشہ ہے اور اظہارشان وشوکت کی بھی ضرورت نہیں، اس لیے روکا جائے گا۔ متاخرین کا یہی فیصلہ ہے۔ الی آخرہ ( ایضاح البخاری، جز11،ص: 129 )
منصف مزاج ناظرین اندازہ فرماسکیں گے کہ کس جرات کے ساتھ احادیث صحیحہ کے خلاف فتویٰ دیا جارہا ہے، جس کا اگر گہری نظر سے مطالعہ کیا جائے تو یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگرعیدگاہ کھلے میدان میں ہو اور اس کی تعمیر مسجدجیسی نہ ہو اور پر دے کا انتظام اتنا بہتر کردیا جائے کہ فتنہ وفساد کا مطلق کوئی خوف نہ ہو اور اس اجتماع مرد وزن سے اسلام کی شان وشوکت بھی مقصود ہو تو پھر عورتوں کا عید کے اجتماع میں شرکت کرناجائز ہوگا۔ الحمد للہ کہ جماعت اہل حدیث کے ہاں اکثر یہ تمام چیزیں پائی جاتی ہیں۔ وہ بیشتر کھلے میدانوں میں عمدہ انتظامات کے ساتھ مع اپنے اہل وعیال عیدین کی نمازیں ادا کرتے ہیں اور اسلامی شان وشوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں، ان کی عیدگاہوں میں کبھی فتنہ وفساد کا نام تک بھی نہیں آیا۔ برخلاف اس کے ہمارے بہت سے بھائیوں کی عورتیں میلوں عرسوں میں بلاحجاب شریک ہوتی ہیں اور وہاں نت نئے فسادات ہوتے رہتے ہیں۔ مگر ہمارے محترم فقہائے عظام وہاں عورتوں کی شرکت پر اس قدر غیظ وغضب کا اظہار کبھی نہیں فرماتے جس قدر اجتماع عیدین میں مستورات کی شرکت پر ان کی فقاہت کی باریکیاں مخالفانہ منظرعام پر آجاتی ہیں۔
پھر یہ بھی تو غورطلب چیز ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جملہ مستورات، اصحاب کرام، انصار و مہاجرین کی مستورات درجہ شرافت میں جملہ مستورات امت سے افضل ہیں، پھر بھی وہ شریک عیدین ہوا کرتی تھیں جیساکہ خود فقہائے احناف کو تسلیم ہے۔ ہماری مستورات توبہرحال ان سے کمترہیں وہ اگر با پردہ شریک ہوں گی تو کیوں کر فتنہ وفساد کی آگ بھڑکنے لگے گی یا ان کی عزت و آبرو پر کون سا حرف آجائے گا۔ کیاوہ قرن اوّل کی صحابیات سے بھی زیادہ عزت رکھتی ہیں؟ باقی رہا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد : لورای رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم مااحدث النساء الخ کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج عورتوں کے نوپیداحالات کو دیکھتے تو ان کو عیدگاہ سے منع کردیتے۔ یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی ذاتی رائے ہے جو اس وقت کے حالات کے پیش نظر تھی، اور ظاہر ہے کہ ان کی اس رائے سے حدیث نبوی کو ٹھکرایا نہیں جاسکتا۔ پھر یہ بیان لفظ لو ( اگر ) کے ساتھ ہے جس کا مطلب یہ کہ ارشاد نبوی آج بھی اپنی حالت پر واجب العمل ہے۔ خلاصہ یہ کہ عیدگاہ میں پردہ کے ساتھ عورتوں کا شریک ہونا سنت ہے۔ وباللہ التوفیق۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ اگر کسی عورت کو ایک ہی مہینہ میں تین بار حیض آئے؟

إذا حاضت في شهر ثلاث حيض وما يصدق النساء في الحيض والحمل فيما يمكن من الحيض‏.‏ لقول الله تعالى ‏{‏ولا يحل لهن أن يكتمن ما خلق الله في أرحامهن‏} اور حیض و حمل سے متعلق جب کہ حیض آنا ممکن ہو تو عورتوں کے بیان کی تصدیق کی جائے گی۔ کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ( سورہ بقرہ میں ) فرمایا ہے کہ ان کے لیے جائز نہیں کہ جو کچھ اللہ تعالیٰ نے ان کے رحم میں پیدا کیا ہے وہ اسے چھپائیں۔ ( لہٰذا جس طرح یہ بیان قابل تسلیم ہو گا اسی طرح حیض کے متعلق بھی ان کا بیان مانا جائے گا۔ )

ويذكر عن علي وشريح إن امرأة جاءت ببينة من بطانة أهلها ممن يرضى دينه، أنها حاضت ثلاثا في شهر‏.‏ صدقت‏.‏ وقال عطاء أقراؤها ما كانت، وبه قال إبراهيم‏.‏ وقال عطاء الحيض يوم إلى خمس عشرة‏.‏ وقال معتمر عن أبيه سألت ابن سيرين عن المرأة ترى الدم بعد قرئها بخمسة أيام قال النساء أعلم بذلك‏.‏
اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اور قاضی شریح سے منقول ہے کہ اگر عورت کے گھرانے کا کوئی آدمی گواہی دے اور وہ دین دار بھی ہو کہ یہ عورت ایک مہینہ میں تین مرتبہ حائضہ ہوتی ہے تو اس کی تصدیق کی جائے گی اور عطاء بن ابی رباح نے کہا کہ عورت کے حیض کے دن اتنے ہی قابل تسلیم ہوں گے جتنے پہلے ( اس کی عادت کے تحت ) ہوتے تھے۔ ( یعنی طلاق وغیرہ سے پہلے ) ابراہیم نخعی نے بھی یہی کہا ہے اور عطاء نے کہا کہ حیض کم سے کم ایک دن اور زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہو سکتا ہے۔ معتمر اپنے والد سلیمان کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے ابن سیرین سے ایک ایسی عورت کے متعلق پوچھا جو اپنی عادت کے مطابق حیض آ جانے کے پانچ دن بعد خون دیکھتی ہے تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں اس کا زیادہ علم رکھتی ہیں۔

حدیث نمبر : 325
حدثنا أحمد بن أبي رجاء، قال حدثنا أبو أسامة، قال سمعت هشام بن عروة، قال أخبرني أبي، عن عائشة،‏.‏ أن فاطمة بنت أبي حبيش، سألت النبي صلى الله عليه وسلم قالت إني أستحاض فلا أطهر، أفأدع الصلاة فقال ‏"‏ لا، إن ذلك عرق، ولكن دعي الصلاة قدر الأيام التي كنت تحيضين فيها، ثم اغتسلي وصلي‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن ابی رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابو اسامہ نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے ہشام بن عروہ سے سنا، کہا مجھے میرے والد نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واسطہ سے خبر دی کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے، ہاں اتنے دنوں میں نماز ضرور چھوڑ دیا کر جن میں اس بیماری سے پہلے تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔

تشریح : آیت کریمہ ولایحل لہن ان یکتمن ماخلق اللہ فی ارحامہن ( البقرۃ: 228 ) کی تفسیر میں زہری اور مجاہد نے کہا کہ عورتوں کواپنا حیض یاحمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہئیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کردیں۔ اب اگران کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آگئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔

اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جلد1،ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہوسکی۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔
حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کے دلائق قوی نہیں ہیں۔صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔ ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے اگرمعین بھی کریں توچھ یا سات روز اکثر مدت معین ہوگی جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔
ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چندایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تواس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ومناسبۃ الحدیث للترجمۃ فی قولہ قدرالایام التی کنت تحیضین فیہا فیوکل ذلک الی امانتہا وردہا الی عادتہا یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑدو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔ پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑدیا جائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ زرد اور مٹیالا رنگ حیض کے دنوں کے علاوہ ہو ( تو کیا حکم ہے؟ )

حدیث نمبر : 326
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا إسماعيل، عن أيوب، عن محمد، عن أم عطية، قالت كنا لا نعد الكدرة والصفرة شيئا‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، انھوں نے ایوب سختیانی سے، وہ محمد بن سیرین سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہم زرد اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔

تشریح : یعنی جب حیض کی مدت ختم ہوجاتی تومٹیالے یازرد رنگ کی طرح پانی کے آنے کو ہم کوئی اہمیت نہیں دیتی تھیں۔ اس حدیث کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی ان الصفرۃ والکدرۃ بعدالطہر لیستا من الحیض واما فی وقت الحیض فہما حیض ( نیل الاوطار ) یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ طہر کے بعد اگرمٹیالے یازرد رنگ کا پانی آئے تووہ حیض نہیں ہے۔ لیکن ایام حیض میں ان کا آنا حیض ہی ہوگا۔

بالکل برعکس:
صاحب تفہیم البخاری ( دیوبند ) نے محض اپنے مسلک حنفیہ کی پاسداری میں اس حدیث کا ترجمہ بالکل برعکس کیا ہے، جو یہ ہے “ آپ نے فرمایاکہ ہم زردا اور مٹیالے رنگ کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے ( یعنی سب کو حیض سمجھتے تھے۔ ) ”
الفاظ حدیث پر ذرا بھی غورکیا جائے توواضح ہوگا کہ ترجمہ بالکل برعکس ہے، اس پر خود صاحب تفہیم البخاری نے مزید وضاحت کردی ہے کہ “ ہم نے ترجمہ میں حنفیہ کے مسلک کی رعایت کی ہے۔ ” ( تفہیم البخاری، ج2،ص: 44 ) اس طرح ہر شخص اگراپنے اپنے مزعومہ مسالک کی رعایت میں حدیث کا ترجمہ کرنے بیٹھے گا تو معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ سکتا ہے۔ مگرہمارے معزز فاضل صاحب تفہیم البخاری کا ذہن محض حمایت مسلک کی وجہ سے ادھر نہیں جاسکا۔ تقلید جامد کا نتیجہ یہی ہونا چاہئیے۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: ای من الحیض اذا کان فی غیرزمن الحیض امافیہ فہومن الحیض تبعا وبہ قال سعید بن المسیب وعطاءواللہث وابوحنیفۃ ومحمدوالشافعی واحمد ( قسطلانی ) یعنی غیرزمانہ حیض میں مٹیالے یازرد رنگ والے پانی کوحیض نہیں مانا جائے گا، ہاں زمانہ حیض میں آنے پر اسے حیض ہی کہا جائے گا۔ سعید بن مسیب اور عطاء اور لیث اور ابوحنیفہ اور محمد اور شافعی اور احمد کا یہی فتویٰ ہے۔ خدا جانے صاحب تفہیم البخاری نے ترجمہ میں اپنے مسلک کی رعایت کس بنیاد پر کی ہے؟ اللہم وفقنا لماتحب وترضیٰ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : استحاضہ کی رگ کے بارے میں

حدیث نمبر : 327
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا معن، قال حدثني ابن أبي ذئب، عن ابن شهاب، عن عروة، وعن عمرة، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أن أم حبيبة استحيضت سبع سنين، فسألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ذلك، فأمرها أن تغتسل فقال ‏"‏ هذا عرق‏"‏‏. ‏ فكانت تغتسل لكل صلاة‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے معن بن عیسیٰ نے بیان کیا، انھوں نے ایوب بن ابی ذئب سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ اور عمرہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ( جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہیں ) کہ ام حبیبہ سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ رگ ( کی وجہ سے بیماری ) ہے۔ پس ام حبیبہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔

تشریح : استحاضہ والی عورت کے لیے ہرنماز کے وقت غسل کرناواجب نہیں ہے۔یہاں حضرت ام حبیبہ کے غسل کا ذکر ہے جو وہ ہر نمازکے لیے کیا کرتی تھیں۔سویہ ان کی خود اپنی مرضی سے تھا۔حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ولااشک ان شاءاللہ ان غسلھا کان تطوعاغیرما امرت بہ وذلک واسع لہا وکذا قال سفیان واللہث بن سعد وغیرھما وذہب الیہ الجمہورمن عدم وجوب الاغتسال الالادبار الحیضۃ ہوالحق لفقد الدلیل الصحیح الذی تقوم بہ الحجۃ۔ ( نیل الاوطار باب طہر المستحاضۃ )

ان شاءاللہ مجھ کو قطعاً شک نہیں ہے کہ حضرت ام حبیبہ کا یہ ہرنماز کے لیے غسل کرنا محض ان کی اپنی خوشی سے بطور نفل کے تھا جمہور کا مذہب حق یہی ہے کہ صرف حیض کے خاتمہ پر ایک ہی غسل واجب ہے۔ اس کے خلاف جو روایات ہیں جن سے ہرنماز کے لیے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں۔
حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وجمیع الاحادیث التی فیہا ایجاب الغسل لکل صلوۃ قدذکر المصنف بعضہا فی ہذاالباب و اکثرہا یاتی فی ابواب الحیض وکل واحد منہالایخلو عن مقال۔ ( نیل الاوطار )

یعنی وہ جملہ احادیث جن سے ہر نماز کے لیے غسل واجب معلوم ہوتا ہے ان سب کی سند اعتراضات سے خالی نہیں ہیں۔ پھر الدین یسر ( کہ دین آسان ہے ) کے تحت بھی ہر نماز کے لیے نیا غسل کرنا کس قدر باعث تکلیف ہے۔ خاص کر عورت ذات کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس لیے لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا وقدجمع بعضہم بین الاحادیث بحمل احادیث الغسل لکل صلوۃ علی الاستحباب ( نیل الاوطار ) یعنی بعض حضرات نے جملہ احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے کی احادیث میں استحباباً کہا گیا ہے۔ یعنی یہ غسل مستحب ہوگا، واجب نہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جوعورت ( حج میں ) طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو ( اس کے متعلق کیاحکم ہے؟ )

حدیث نمبر : 328
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن عبد الله بن أبي بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، عن أبيه، عن عمرة بنت عبد الرحمن، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت لرسول الله صلى الله عليه وسلم يا رسول الله، إن صفية بنت حيى قد حاضت‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لعلها تحبسنا، ألم تكن طافت معكن‏"‏‏. ‏ فقالوا بلى‏.‏ قال ‏"‏ فاخرجي‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے عبداللہ بن ابی بکر بن عمرو بن حزم سے، انھوں نے اپنے باپ ابوبکر سے، انھوں نے عبدالرحمن کی بیٹی عمرہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور صفیہ بنت حیی کو ( حج میں ) حیض آ گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، شاید کہ وہ ہمیں روکیں گی۔ کیا انھوں نے تمہارے ساتھ طواف ( زیارت ) نہیں کیا۔ عورتوں نے جواب دیا کہ کر لیا ہے۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ پھر نکلو۔

تشریح : اسی کو طواف الافاضہ بھی کہتے ہیں۔یہ دسویں تاریخ کو منیٰ سے آکر کیا جاتا ہے۔ یہ طواف فرض ہے اور حج کا ایک رکن ہے، لیکن طواف الوداع جو حاجی کعبہ شریف سے رخصتی کے وقت کرتے ہیں، وہ فرض نہیں ہے۔ اس لیے وہ حائضہ کے واسطے معاف ہے۔

حدیث نمبر : 329
حدثنا معلى بن أسد، قال حدثنا وهيب، عن عبد الله بن طاوس، عن أبيه، عن ابن عباس، قال رخص للحائض أن تنفر، إذا حاضت‏.‏
ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے عبداللہ بن طاؤس کے حوالہ سے، وہ اپنے باپ طاؤس بن کیسان سے، وہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، آپ نے فرمایا کہ حائضہ کے لیے ( جب کہ اس نے طواف افاضہ کر لیا ہو ) رخصت ہے کہ وہ گھر جائے ( اور طواف وداع کے لیے نہ رکی رہے )

حدیث نمبر : 330
وكان ابن عمر يقول في أول أمره إنها لا تنفر‏.‏ ثم سمعته يقول تنفر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم رخص لهن‏.‏
ابن عمر ابتدا میں اس مسئلہ میں کہتے تھے کہ اسے ( بغیر طواف وداع کے ) جانا نہیں چاہیے۔ پھر میں نے انھیں کہتے ہوئے سنا کہ چلی جائے کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس کی رخصت دی ہے۔

تشریح : اس حدیث کے ذیل میں مولانا وحیدالزماں صاحب حیدرآبادی مرحوم نے خوب لکھا ہے، فرماتے ہیں: “ توعبداللہ بن عمر کو جب حدیث پہنچی انھوں نے اپنی رائے اور فتوے سے رجوع کرلیا۔ ہمارے دین کے کل اماموں اور پیشواؤں نے ایسا ہی کیا ہے کہ جدھر حق معلوم ہوا ادھر ہی لوٹ گئے۔ کبھی اپنی بات کی پچ نہیں کی، امام ابوحنیفہ اور امام شافعی اور امام مالک اور امام احمد سے ایک ایک مسئلہ میں دودو، تین تین، چارچار قول منقول ہیں۔ ہائے ایک وہ زمانہ تھا اور ایک یہ زمانہ ہے کہ صحیح حدیث دیکھ کر بھی اپنی رائے اور خیال سے نہیں پلٹتے بلکہ جو کوئی حدیث کی پیروی کرے اس کی دشمنی پر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ ”

مقلدین جامدین کا عام طور پر یہی رویہ ہے

سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے
حدیثوں پر چلنے میں دیں کا خلل ہے

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب مستحاضہ اپنے جسم میں پاکی دیکھے تو کیا کرے؟

قال ابن عباس تغتسل وتصلي ولو ساعة، ويأتيها زوجها إذا صلت، الصلاة أعظم‏.‏
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غسل کرے اور نماز پڑھے اگرچہ دن میں تھوڑی دیر کے لیے ایسا ہوا ہو اور اس کا شوہر نماز کے بعد اس کے پاس آئے۔ کیونکہ نماز سب سے زیادہ عظمت والی چیز ہے۔

حدیث نمبر : 331
حدثنا أحمد بن يونس، عن زهير، قال حدثنا هشام، عن عروة، عن عائشة، قالت قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغسلي عنك الدم وصلي‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ زمانہ گزر جائے تو خون کو دھو اور نماز پڑھ۔

یعنی جب مستحاضہ کے لیے غسل کرکے نماز پڑھنا درست ہوا تو خاوند کو اس سے صحبت کرنا توبطریق اولیٰ درست ہوگا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہی ثابت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ نفاس میں مرنے والی عورت پر نماز جنازہ اور اس کا طریقہ کیاہے؟

حدیث نمبر : 332
حدثنا أحمد بن أبي سريج، قال أخبرنا شبابة، قال أخبرنا شعبة، عن حسين المعلم، عن ابن بريدة، عن سمرة بن جندب، أن امرأة، ماتت في بطن، فصلى عليها النبي صلى الله عليه وسلم فقام وسطها‏.‏
ہم سے احمد بن ابی سریح نے بیان کیا، کہا ہم سے شبابہ بن سوار نے، کہا ہم سے شعبہ نے حسین سے۔ وہ عبداللہ بن بریدہ سے، وہ سمرہ بن جندب سے کہ ایک عورت ( ام کعب ) زچگی میں مر گئی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، اس وقت آپ ان کے ( جسم کے ) وسط میں کھڑے ہو گئے۔

تشریح : فی بطن سے زچگی کی حالت میں مرنا مراد ہے۔ اس سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ ثابت فرمایا ہے کہ نفاس والی عورت کا حکم پاک عورتوں کا سا ہے۔ کیوں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر جنازہ کی نماز ادا فرمائی۔ اس سے ان لوگوں کے قول کی بھی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ موت سے آدمی نجس ہو جاتا ہے۔ یہی حدیث دوسری سند سے کتاب الجنائز میں بھی ہے۔ جس میں نفاس کی حالت میں مرنے کی صراحت موجود ہے۔ مسلم، ترمذی، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ نے بھی اس حدیث کوروایت کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ...

حدیث نمبر : 333
حدثنا الحسن بن مدرك، قال حدثنا يحيى بن حماد، قال أخبرنا أبو عوانة ـ اسمه الوضاح ـ من كتابه قال أخبرنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، قال سمعت خالتي، ميمونة ـ زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها كانت تكون حائضا لا تصلي، وهى مفترشة بحذاء مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي على خمرته، إذا سجد أصابني بعض ثوبه‏.‏
ہم سے حسن بن مدرک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ بن حماد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابوعوانہ وضاح نے اپنی کتاب سے دیکھ کر خبر دی۔ انھوں نے کہا کہ ہمیں خبر دی سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد سے، انھوں نے کہا میں اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا سے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ تھیں سنا کہ میں حائضہ ہوتی تو نماز نہیں پڑھتی تھی اور یہ کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ( گھر میں ) نماز پڑھنے کی جگہ کے قریب لیٹی ہوتی تھی۔ آپ نماز اپنی چٹائی پر پڑھتے۔ جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کے کپڑے کا کوئی حصہ مجھ سے لگ جاتا تھا۔

تشریح : حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ حائضہ عورت اگرچہ ناپاک ہوگئی ہے مگرا س قدر ناپاک نہیں ہے کہ اس سے کسی کا کپڑا چھوجائے تو وہ بھی ناپاک ہوجائے۔ ایسی مشکلات ادیان سابقہ میں تھیں، اسلام نے ان مشکلات کوآسانیوں سے بدل دیا ہے۔ ماجعل علیکم فی الدین من حرج دین میں تنگی نہیں ہے۔

علامہ قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: واستنبط منہ عدم نجاسۃ الحائض والتواضع المسکنۃ فی الصلوۃ بخلاف صلوٰۃ المتکبرین علی سجادید غالیۃ الاثمان مختلفۃ الالوان۔ ( قسطلانی ) اس حدیث سے حائضہ کی عدم نجاست پر استنباط کیا گیا ہے اور نماز میں تواضع اور مسکینی پر۔ بخلاف نماز متکبرین کے جوبیش قیمت مصلوں پر جو مختلف رنگوں سے مزین ہوتے ہیں تکبر سے نماز پڑھتے ہیں۔ ( الحمد للہ کہ رمضان شریف 1387ھ میں بحالت قیام بنگلور کتاب الحیض کے ترجمہ سے فراغت حاصل ہوئی والحمدللہ علی ذلک
 
Top