• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کیا عورت اسی کپڑے میں نماز پڑھ سکتی ہے جس میں اسے حیض آیاہو؟

حدیث نمبر : 312
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا إبراهيم بن نافع، عن ابن أبي نجيح، عن مجاهد، قال قالت عائشة ما كان لإحدانا إلا ثوب واحد تحيض فيه، فإذا أصابه شىء من دم، قالت بريقها فقصعته بظفرها‏.‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن نافع نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ ابن ابی نجیح سے، انھوں نے مجاہد سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ہمارے پاس صرف ایک کپڑا ہوتا تھا، جسے ہم حیض کے وقت پہنتے تھے۔ جب اس میں خون لگ جاتا تو اس پر تھوک ڈال لیتے اور پھر اسے ناخنوں سے مسل دیتے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت حیض کے غسل میں خوشبو استعمال کرے

حدیث نمبر : 313
حدثنا عبد الله بن عبد الوهاب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن حفصة ـ قال أبو عبد الله أو هشام بن حسان عن حفصة، عن أم عطية ـ قالت كنا ننهى أن نحد على ميت فوق ثلاث، إلا على زوج أربعة أشهر وعشرا، ولا نكتحل ولا نتطيب ولا نلبس ثوبا مصبوغا إلا ثوب عصب، وقد رخص لنا عند الطهر إذا اغتسلت إحدانا من محيضها في نبذة من كست أظفار، وكنا ننهى عن اتباع الجنائز‏.‏ قال رواه هشام بن حسان عن حفصة عن أم عطية عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے حفصہ سے، وہ ام عطیہ سے، آپ نے فرمایا کہ ہمیں کسی میت پر تین دن سے زیادہ سوگ کرنے سے منع کیا جاتا تھا۔ لیکن شوہر کی موت پر چار مہینے دس دن کے سوگ کا حکم تھا۔ ان دنوں میں ہم نہ سرمہ لگاتیں نہ خوشبو اور عصب ( یمن کی بنی ہوئی ایک چادر جو رنگین بھی ہوتی تھی ) کے علاوہ کوئی رنگین کپڑا ہم استعمال نہیں کرتی تھیں اور ہمیں ( عدت کے دنوں میں ) حیض کے غسل کے بعد کست اظفار استعمال کرنے کی اجازت تھی اور ہمیں جنازہ کے پیچھے چلنے سے منع کیا جاتا تھا۔ اس حدیث کو ہشام بن حسان نے حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔

تشریح : عورت جب حیض کا غسل کرے تومقام مخصوص پر بدبو کو دور کرنے کے لیے ضرور کچھ خوشبو کا استعمال کرے، اس کی یہاں تک تاکید ہے کہ سوگ والی عورت کو بھی اس کی اجازت دی گئی بشرطیکہ وہ احرام میں نہ ہو۔ کست یااظفار کست عود کو کہتے ہیں۔ بعض نے اظفار سے وہ شہر مراد لیا ہے جو یمن میں تھا۔ وہاں سے عود ہندی عربی ممالک میں آیا کرتا تھا۔ ہشام کی روایت خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الطلاق میں بھی نقل کی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حیض سے پاک ہونے کے بعد عورت کو اپنے بدن کو نہاتے وقت ملنا چاہیے

وكيف تغتسل، وتأخذ فرصة ممسكة فتتبع بها أثر الدم‏.‏
اور یہ کہ عورت کیسے غسل کرے، اور مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر خون لگی ہوئی جگہوں پر اسے پھیرے۔

حدیث نمبر : 314
حدثنا يحيى، قال حدثنا ابن عيينة، عن منصور ابن صفية، عن أمه، عن عائشة، أن امرأة، سألت النبي صلى الله عليه وسلم عن غسلها من المحيض، فأمرها كيف تغتسل قال ‏"‏ خذي فرصة من مسك فتطهري بها‏"‏‏. ‏ قالت كيف أتطهر قال ‏"‏ تطهري بها‏"‏‏. ‏ قالت كيف قال ‏"‏ سبحان الله تطهري‏"‏‏. ‏ فاجتبذتها إلى فقلت تتبعي بها أثر الدم‏.‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے منصور بن صفیہ سے، انھوں نے اپنی ماں صفیہ بنت شیبہ سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے فرمایا کہ ایک انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مشک میں بسا ہوا کپڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے پوچھا۔ اس سے کس طرح پاکی حاصل کروں، آپ نے فرمایا، اس سے پاکی حاصل کر۔ اس نے دوبارہ پوچھا کہ کس طرح؟ آپ نے فرمایا سبحان اللہ! پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے اسے اپنی طرف کھینچ لیا اور کہا کہ اسے خون لگی ہوئی جگہوں پر پھیر لیا کر۔

تشریح : اس غسل کی کیفیت مسلم کی روایت میں یوں ہے کہ اچھی طرح سے پاکی حاصل کر پھر اپنے سر پر پانی ڈال تاکہ پانی بالوں کی جڑوںمیں پہنچ جائے پھر سارے بدن پر پانی ڈال۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کی طرف اشارہ کرکے بتلایا کہ اگرچہ یہاں نہ بدن کا ملنا ہے نہ غسل کی کیفیت مگر خوشبو کا پھایہ لینا مذکور ہے۔ تعجب کے وقت سبحان اللہ کہنا بھی اس سے ثابت ہوا۔ عورتوں سے شرم کی بات اشارہ وکنایہ سے کہنا، عورتوں کے لیے مردوں سے دین کی باتیں پوچھنا یہ جملہ امور اس سے ثابت ہوئے، قالہ الحافظ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حیض کا غسل کیونکر ہو؟

حدیث نمبر : 315
حدثنا مسلم، قال حدثنا وهيب، حدثنا منصور، عن أمه، عن عائشة، أن امرأة، من الأنصار قالت للنبي صلى الله عليه وسلم كيف أغتسل من المحيض قال ‏"‏ خذي فرصة ممسكة، فتوضئي ثلاثا‏"‏‏. ‏ ثم إن النبي صلى الله عليه وسلم استحيا فأعرض بوجهه أو قال ‏"‏ توضئي بها ‏"‏ فأخذتها فجذبتها فأخبرتها بما يريد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے، کہا ہم سے منصور بن عبدالرحمن نے اپنی والدہ صفیہ سے، وہ عائشہ سے کہ انصاریہ عورت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں حیض کا غسل کیسے کروں۔ آپ نے فرمایا کہ ایک مشک میں بسا ہوا کپڑا لے اور پاکی حاصل کر، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دفعہ فرمایا۔ پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم شرمائے اور آپ نے اپنا چہرہ مبارک پھیر لیا، یا فرمایا کہ اس سے پاکی حاصل کر۔ پھر میں نے انھیں پکڑ کر کھینچ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو بات کہنی چاہتے تھے وہ میں نے اسے سمجھائی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کا حیض کے غسل کے بعد کنگھا کرنا جائز ہے

حدیث نمبر : 316
حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا إبراهيم، حدثنا ابن شهاب، عن عروة، أن عائشة، قالت أهللت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فكنت ممن تمتع، ولم يسق الهدى، فزعمت أنها حاضت، ولم تطهر حتى دخلت ليلة عرفة فقالت يا رسول الله، هذه ليلة عرفة، وإنما كنت تمتعت بعمرة‏.‏ فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ انقضي رأسك، وامتشطي، وأمسكي عن عمرتك‏"‏‏. ‏ ففعلت، فلما قضيت الحج أمر عبد الرحمن ليلة الحصبة فأعمرني من التنعيم مكان عمرتي التي نسكت‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے ابن شہاب زہری نے عروہ کے واسطہ سے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کیا، میں تمتع کرنے والوں میں تھی اور ہدی ( یعنی قربانی کا جانور ) اپنے ساتھ نہیں لے گئی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے متعلق بتایا کہ پھر وہ حائضہ ہو گئیں اور عرفہ کی رات آ گئی اور ابھی تک وہ پاک نہیں ہوئی تھیں۔ اس لیے انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ حضور آج عرفہ کی رات ہے اور میں عمرہ کی نیت کر چکی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے سر کو کھول ڈال اور کنگھا کر اور عمرہ کو چھوڑ دے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ پھر میں نے حج پورا کیا۔ اور لیلۃ الحصبہ میں عبدالرحمن بن ابوبکر کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا۔ وہ مجھے اس عمرہ کے بدلہ میں جس کی نیت میں نے کی تھی تنعیم سے ( دوسرا ) عمرہ کرا لائے۔

تشریح : تمتع اسے کہتے ہیں کہ آدمی میقات پر پہنچ کر صرف عمرہ کا احرام باندھے پھر مکہ پہنچ کر عمرہ کرکے احرام کھول دے۔ اس کے بعدآٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے۔ ترجمہ الباب اس طرح نکلا کہ جب احرام کے غسل کے لیے کنگھی کرنا مشروع ہوا توحیض کے غسل کے لیے بطریق اولیٰ ہوگا۔ تنعیم مکہ سے تین میل دور حرم سے قریب ہے۔ روایت میں لیلۃ الحصبۃ کا تذکرہ ہے اس سے مراد وہ رات ہے جس میں منیٰ سے حج سے فارغ ہوکر لوٹتے ہیں اور وادی محصب میں آکر ٹھہرتے ہیں، یہ ذی الحجہ کی تیرہویں یا چودہویں شب ہوتی ہے، اسی کو لیلۃ الحصبہ کہتے ہیں۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اور دیگر شارحین نے مقصد ترجمہ کے سلسلہ میں کہا ہے کہ آیا حائضہ حج کا احرام باندھ سکتی ہے یا نہیں، پھر روایت سے اس کا جواز ثابت کیا ہے۔ گویہ بھی درست ہے مگرظاہری الفاظ سے معنی یہ ہیں کہ حائضہ کس حالت کے ساتھ احرام باندھے یعنی غسل کرکے احرام باندھے یا بغیر غسل ہی، سودوسری روایت میں غسل کا ذکر موجود ہے اگرچہ پاکی حاصل نہ ہوگی، مگرغسل احرام سنت ہے۔ اس پر عمل ہوجائے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حیض کے غسل کے وقت عورت کا اپنے بالوں کو کھولنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 317
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت خرجنا موافين لهلال ذي الحجة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أحب أن يهل بعمرة فليهلل، فإني لولا أني أهديت لأهللت بعمرة‏"‏‏. ‏ فأهل بعضهم بعمرة، وأهل بعضهم بحج، وكنت أنا ممن أهل بعمرة، فأدركني يوم عرفة وأنا حائض، فشكوت إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ دعي عمرتك، وانقضي رأسك وامتشطي، وأهلي بحج‏"‏‏. ‏ ففعلت حتى إذا كان ليلة الحصبة أرسل معي أخي عبد الرحمن بن أبي بكر، فخرجت إلى التنعيم، فأهللت بعمرة مكان عمرتي‏.‏ قال هشام ولم يكن في شىء من ذلك هدى ولا صوم ولا صدقة‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابواسامہ حماد نے ہشام بن عروہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے فرمایا ہم ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی نکلے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کا دل چاہے تو اسے عمرہ کا احرام باندھ لینا چاہیے۔ کیونکہ اگر میں ہدی ساتھ نہ لاتا تو میں بھی عمرہ کا احرام باندھتا۔ اس پر بعض صحابہ نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا۔ میں بھی ان لوگوں میں سے تھی جنھوں نے عمرہ کا احرام باندھا تھا۔ مگر عرفہ کا دن آ گیا اور میں حیض کی حالت میں تھی۔ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عمرہ چھوڑ اور اپنا سر کھول اور کنگھا کر اور حج کا احرام باندھ لے۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ یہاں تک کہ جب حصبہ کی رات آئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ میرے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا۔ میں تنعیم میں گئی اور وہاں سے اپنے عمرہ کے بدلے دوسرے عمرہ کا احرام باندھا۔ ہشام نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کی وجہ سے بھی نہ ہدی واجب ہوئی اور نہ روزہ اور نہ صدقہ۔ ( تنعیم حد حرم سے قریب تین میل دور ایک مقام کا نام ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ عزوجل کے قول مخلقہ و غیر مخلقہ ( کامل الخلقت اور ناقص الخلقت ) کے بیان میں

حدیث نمبر : 318
حدثنا مسدد، قال حدثنا حماد، عن عبيد الله بن أبي بكر، عن أنس بن مالك، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن الله ـ عز وجل ـ وكل بالرحم ملكا يقول يا رب نطفة، يا رب علقة، يا رب مضغة‏.‏ فإذا أراد أن يقضي خلقه قال أذكر أم أنثى شقي أم سعيد فما الرزق والأجل فيكتب في بطن أمه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے عبید اللہ بن ابی بکر کے واسطے سے، وہ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ رحم مادر میں اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ مقرر کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اے رب! اب یہ نطفہ ہے، اے رب! اب یہ علقہ ہو گیا ہے، اے رب! اب یہ مضغہ ہو گیا ہے۔ پھر جب خدا چاہتا ہے کہ اس کی خلقت پوری کرے تو کہتا ہے کہ مذکر یا مونث، بدبخت ہے یا نیک بخت، روزی کتنی مقدر ہے اور عمر کتنی۔ پس ماں کے پیٹ ہی میں یہ تمام باتیں فرشتہ لکھ دیتا ہے۔

تشریح : اس باب کے انعقاد سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ حاملہ کو جو خون آجائے وہ حیض نہیں ہے کیونکہ اگر حمل پورا ہے تورحم اس میں مشغول ہوگا اور جوخون نکلا ہے وہ غذا کاباقی ماندہ ہے۔ اگرناقص ہے تورحم نے پتلی بوٹی نکال دی ہے تووہ بچہ کا حصہ کہا جائے گا حیض نہ ہوگا۔

ابن منیر نے کہا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب کی حدیث سے یہ دلیل لی ہے کہ حاملہ کا خون حیض نہیں ہے کیونکہ وہاں ایک فرشتہ مقرر کیا جاتا ہے اور وہ نجاست کے مقام پر نہیں جاتا۔ ابن منیر کے اس استدلال کو ضعیف کہا گیا ہے۔ احناف اور حنابلہ اور اکثر حضرات کا مذہب یہ ہے کہ حالت حمل میں آنے والا خون بیماری مانا جائے گا حیض نہ ہوگا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی یہی ثابت فرما رہے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت آپ نے عنوان مخلقۃ و غیر مخلقۃ اختیار فرمایا ہے۔ روایت مذکورہ اسی طرف مشیرہے، پوری آیت سورۃ حج میں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ عورت حج اور عمرہ کا احرام کس طرح باندھے؟

حدیث نمبر : 319
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت خرجنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، فمنا من أهل بعمرة، ومنا من أهل بحج، فقدمنا مكة فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من أحرم بعمرة ولم يهد فليحلل، ومن أحرم بعمرة وأهدى فلا يحل حتى يحل بنحر هديه، ومن أهل بحج فليتم حجه‏"‏‏. ‏ قالت فحضت فلم أزل حائضا حتى كان يوم عرفة، ولم أهلل إلا بعمرة، فأمرني النبي صلى الله عليه وسلم أن أنقض رأسي وأمتشط، وأهل بحج، وأترك العمرة، ففعلت ذلك حتى قضيت حجي، فبعث معي عبد الرحمن بن أبي بكر، وأمرني أن أعتمر مكان عمرتي من التنعيم‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حجۃ الوداع کے سفر میں نکلے، ہم میں سے بعض نے عمرہ کا احرام باندھا اور بعض نے حج کا، پھر ہم مکہ آئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور ہدی ساتھ نہ لایا ہو تو وہ حلال ہو جائے اور جس نے عمرہ کا احرام باندھا ہو اور وہ ہدی بھی ساتھ لایا ہو تو وہ ہدی کی قربانی سے پہلے حلال نہ ہو گا۔ اور جس نے حج کا احرام باندھا ہو تو اسے حج پورا کرنا چاہیے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں حائضہ ہو گئی اور عرفہ کا دن آ گیا۔ میں نے صرف عمرہ کا احرام باندھا تھا مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اپنا سر کھول لوں، کنگھا کر لوں اور حج کا احرام باندھ لوں اور عمرہ چھوڑ دوں، میں نے ایسا ہی کیا اور اپنا حج پورا کر لیا۔ پھر میرے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالرحمن بن ابی بکر کو بھیجا اور مجھ سے فرمایا کہ میں اپنے چھوٹے ہوئے عمرہ کے عوض تنعیم سے دوسرا عمرہ کروں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حیض کا آنا اور اس کا ختم ہونا کیونکر ہے؟

وكن نساء يبعثن إلى عائشة بالدرجة فيها الكرسف فيه الصفرة فتقول لا تعجلن حتى ترين القصة البيضاء‏.‏ تريد بذلك الطهر من الحيضة‏.‏ وبلغ ابنة زيد بن ثابت أن نساء يدعون بالمصابيح من جوف الليل ينظرن إلى الطهر فقالت ما كان النساء يصنعن هذا‏.‏ وعابت عليهن‏.‏
عورتیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں ڈبیا بھیجتی تھیں جس میں کرسف ہوتا۔ اس میں زردی ہوتی تھی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتیں کہ جلدی نہ کرو یہاں تک کہ صاف سفیدی دیکھ لو۔ اس سے ان کی مراد حیض سے پاکی ہوتی تھی۔ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو معلوم ہوا کہ عورتیں رات کی تاریکی میں چراغ منگا کر پاکی ہونے کو دیکھتی ہیں تو آپ نے فرمایا کہ عورتیں ایسا نہیں کرتی تھیں۔ انھوں نے ( عورتوں کے اس کام کو ) معیوب سمجھا

کیونکہ شریعت میں آسانی ہے۔ فقہاءنے استحاضہ کے مسائل میں بڑی باریکیاں نکالی ہیں مگر صحیح مسئلہ یہی ہے کہ عورت کو پہلے خون کا رنگ دیکھ لینا چاہئیے۔ حیض کا خون کالا ہوتا ہے اور پہچانا جاتا ہے۔ عورتوں کو اپنی حیض کی عادت کا بھی اندازہ کرلینا چاہئیے۔ اگر رنگ اور عادت دونوں سے تمیز نہ ہوسکے تو چھ یا سات دن حیض کے مقرر کرلے۔ کیونکہ اکثر مدت حیض یہی ہے اس میں نماز ترک کردے۔ جس پر جملہ مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ مگر خوارج اس سے اختلاف کرتے ہیں جو غلط ہے۔

حدیث نمبر : 320
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا سفيان، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن فاطمة بنت أبي حبيش، كانت تستحاض فسألت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ذلك عرق، وليست بالحيضة، فإذا أقبلت الحيضة فدعي الصلاة، وإذا أدبرت فاغتسلي وصلي‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ بن ہشام بن عروہ سے، وہ اپنے باپ سے، وہ حضرت عائشہ سے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش کو استحاضہ کا خون آیا کرتا تھا۔ تو انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا۔ آپ نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے اور حیض نہیں ہے۔ اس لیے جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑ دیا کر اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو غسل کر کے نماز پڑھ لیا کر۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ حائضہ عورت نماز قضا نہ کرے

وقال جابر وأبو سعيد عن النبي صلى الله عليه وسلم تدع الصلاة‏.‏
اور جابر بن عبداللہ اور ابوسعید رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ حائضہ نماز چھوڑ دے۔
حدیث نمبر : 321
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا همام، قال حدثنا قتادة، قال حدثتني معاذة، أن امرأة، قالت لعائشة أتجزي إحدانا صلاتها إذا طهرت فقالت أحرورية أنت كنا نحيض مع النبي صلى الله عليه وسلم فلا يأمرنا به‏.‏ أو قالت فلا نفعله‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ہمام بن یحییٰ نے، کہا ہم سے قتادہ نے، کہا مجھ سے معاذہ بنت عبداللہ نے کہ ایک عورت نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ جس زمانہ میں ہم پاک رہتے ہیں۔ ( حیض سے ) کیا ہمارے لیے اسی زمانہ کی نماز کافی ہے۔ اس پر عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم حروریہ ہو؟ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں حائضہ ہوتی تھیں اور آپ ہمیں نماز کا حکم نہیں دیتے تھے۔ یا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا کہ ہم نماز نہیں پڑھتی تھیں۔

تشریح : شیخنا المکرم حضرت مولاناعبدالرحمن صاحب مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: الحروری منسوب الی حرورابفتح وضم الراءالمہملتین وبعدالواو الساکنۃ راءایضاً بلدۃ علی میلین من الکوفۃ و یقال من یعتقد مذہب الخوارج حروری لان اول فرقۃ منہم خرجواعلی علی بالبلدۃ المذکورۃ فاشتہروا بالنسبۃ الیہا وہم فرق کثیرۃ لکن من اصولہم المتفق علیہا بینہم الاخذ بما دل علیہ القرآن وردما زاد علیہ من الحدیث مطلقا۔ ( تحفۃ الاحوذی،ج1، ص: 123 )

یعنی حروری حرورا گاؤں کی طرف نسبت ہے جو کوفہ سے دومیل کے فاصلہ پر تھا۔ یہاں پر سب سے پہلے وہ فرقہ پیداہوا جس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کیا۔ یہ خارجی کہلائے، جن کے کئی فرقے ہیں مگریہ اصول ان سب میں متفق ہے کہ صرف قرآن کو لیا جائے اور حدیث کو مطلقاً رد کردیا جائے گا۔
چونکہ حائضہ پر فرض نماز کا معاف ہوجانا صرف حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن میں اس کا ذکر نہیں ہے۔ اس لیے مخاطب کے اس مسئلہ کی تحقیق کرنے پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایاکہ کیاتم حروری تو نہیں جو اس مسئلہ کے متعلق تم کو تامل ہے۔
 
Top