باب : (حکم تیمم کا نازل ہونا)
حدیث نمبر : 334
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء ـ أو بذات الجيش ـ انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه، وليسوا على ماء، فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء. فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء. فقالت عائشة فعاتبني أبو بكر، وقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم فتيمموا. فقال أسيد بن الحضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر. قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فأصبنا العقد تحته.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمن بن قاسم سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر ( غزوئہ بنی المصطلق ) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ ” پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ والد ماجد ( رضی اللہ عنہ ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انھوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا “ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ ” عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔
تشریح : لغت میں تیمم کے معنی قصد وارادہ کرنے کے ہیں۔ شرع میں تیمم یہ کہ پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح کرنا حدث یا جنابت دورکرنے کی نیت سے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گلے میں سے ٹوٹ کرزمین پر گر گیا تھا۔ پھر اس پر اونٹ بیٹھ گیا۔ لوگ ادھر ادھر ہار کو ڈھونڈتے رہے اسی حالت میں نماز کا وقت آگیا اور وہاں پانی نہ تھا جس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی، بعد میں اونٹ کے نیچے سے ہار بھی مل گیا۔
حدیث نمبر : 335
حدثنا محمد بن سنان، قال حدثنا هشيم، ح قال وحدثني سعيد بن النضر، قال أخبرنا هشيم، قال أخبرنا سيار، قال حدثنا يزيد ـ هو ابن صهيب الفقير ـ قال أخبرنا جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال " أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي نصرت بالرعب مسيرة شهر، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل، وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي، وأعطيت الشفاعة، وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة، وبعثت إلى الناس عامة ".
ہم سے محمد بن سنان عوفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ( دوسری سند ) کہا اور مجھ سے سعید بن نضر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی ہشیم نے، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی سیار نے، انھوں نے کہا ہم سے یزید الفقیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں جابر بن عبداللہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو ( جہاں بھی ) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
تشریح : ارشاد نبوی جعلت لی الارض مسجدا وطہورا سے ترجمہ باب نکلتا ہے چونکہ قرآن مجید میں لفظ صعیداً طیبا ( پاک مٹی ) کہا گیا ہے لہٰذا تیمم کے لیے پاک مٹی ہی ہونی چاہئیے جو لوگ اس میں اینٹ چونا وغیرہ سے بھی تیمم جائز بتلاتے ہیں ان کاقول صحیح نہیں ہے۔