• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب التیمم

باب : اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے اس ارشاد کی وضاحت کہ

قول الله تعالى ‏{‏فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا فامسحوا بوجوهكم وأيديكم منه‏}‏
“ پس نہ پاؤ تم پانی تو ارادہ کرو پاک مٹی کا، پس مل لو منہ اور ہاتھ اس سے ”
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (حکم تیمم کا نازل ہونا)

حدیث نمبر : 334
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن أبيه، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، حتى إذا كنا بالبيداء ـ أو بذات الجيش ـ انقطع عقد لي، فأقام رسول الله صلى الله عليه وسلم على التماسه، وأقام الناس معه، وليسوا على ماء، فأتى الناس إلى أبي بكر الصديق فقالوا ألا ترى ما صنعت عائشة أقامت برسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء‏.‏ فجاء أبو بكر ورسول الله صلى الله عليه وسلم واضع رأسه على فخذي قد نام فقال حبست رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس، وليسوا على ماء، وليس معهم ماء‏.‏ فقالت عائشة فعاتبني أبو بكر، وقال ما شاء الله أن يقول، وجعل يطعنني بيده في خاصرتي، فلا يمنعني من التحرك إلا مكان رسول الله صلى الله عليه وسلم على فخذي، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم حين أصبح على غير ماء، فأنزل الله آية التيمم فتيمموا‏.‏ فقال أسيد بن الحضير ما هي بأول بركتكم يا آل أبي بكر‏.‏ قالت فبعثنا البعير الذي كنت عليه، فأصبنا العقد تحته‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں مالک نے عبدالرحمن بن قاسم سے خبر دی، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے بتلایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بعض سفر ( غزوئہ بنی المصطلق ) میں تھے۔ جب ہم مقام بیداء یا ذات الجیش پر پہنچے تو میرا ایک ہار کھو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تلاش میں وہیں ٹھہر گئے اور لوگ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ٹھہر گئے۔ لیکن وہاں پانی کہیں قریب میں نہ تھا۔ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا “ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کیا کام کیا؟ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو ٹھہرا دیا ہے اور پانی بھی کہیں قریب میں نہیں ہے اور نہ لوگوں ہی کے ساتھ ہے۔ ” پھر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تشریف لائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ فرمانے لگے کہ تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام لوگوں کو روک لیا۔ حالانکہ قریب میں کہیں پانی بھی نہیں ہے اور نہ لوگوں کے پاس ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ والد ماجد ( رضی اللہ عنہ ) مجھ پر بہت خفا ہوئے اور اللہ نے جو چاہا انھوں نے مجھے کہا اور اپنے ہاتھ سے میری کوکھ میں کچوکے لگائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔ اس وجہ سے میں حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح کے وقت اٹھے تو پانی کا پتہ تک نہ تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری اور لوگوں نے تیمم کیا۔ اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا “ اے آل ابی بکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔ ” عائشہ ( رضی اللہ عنہا ) نے فرمایا۔ پھر ہم نے اس اونٹ کو ہٹایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اسی کے نیچے مل گیا۔

تشریح : لغت میں تیمم کے معنی قصد وارادہ کرنے کے ہیں۔ شرع میں تیمم یہ کہ پاک مٹی سے منہ اور ہاتھ کا مسح کرنا حدث یا جنابت دورکرنے کی نیت سے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہار گلے میں سے ٹوٹ کرزمین پر گر گیا تھا۔ پھر اس پر اونٹ بیٹھ گیا۔ لوگ ادھر ادھر ہار کو ڈھونڈتے رہے اسی حالت میں نماز کا وقت آگیا اور وہاں پانی نہ تھا جس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی، بعد میں اونٹ کے نیچے سے ہار بھی مل گیا۔

حدیث نمبر : 335
حدثنا محمد بن سنان، قال حدثنا هشيم، ح قال وحدثني سعيد بن النضر، قال أخبرنا هشيم، قال أخبرنا سيار، قال حدثنا يزيد ـ هو ابن صهيب الفقير ـ قال أخبرنا جابر بن عبد الله، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ أعطيت خمسا لم يعطهن أحد قبلي نصرت بالرعب مسيرة شهر، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، فأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل، وأحلت لي المغانم ولم تحل لأحد قبلي، وأعطيت الشفاعة، وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة، وبعثت إلى الناس عامة ‏"‏‏.‏
ہم سے محمد بن سنان عوفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا ( دوسری سند ) کہا اور مجھ سے سعید بن نضر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی ہشیم نے، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی سیار نے، انھوں نے کہا ہم سے یزید الفقیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں جابر بن عبداللہ نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے پانچ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی گئی تھیں۔ ایک مہینہ کی مسافت سے رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے اور تمام زمین میرے لیے سجدہ گاہ اور پاکی کے لائق بنائی گئی۔ پس میری امت کا جو انسان نماز کے وقت کو ( جہاں بھی ) پالے اسے وہاں ہی نماز ادا کر لینی چاہیے۔ اور میرے لیے غنیمت کا مال حلال کیا گیا ہے۔ مجھ سے پہلے یہ کسی کے لیے بھی حلال نہ تھا۔ اور مجھے شفاعت عطا کی گئی۔ اور تمام انبیاء اپنی اپنی قوم کے لیے مبعوث ہوتے تھے لیکن میں تمام انسانوں کے لیے عام طور پر نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں۔

تشریح : ارشاد نبوی جعلت لی الارض مسجدا وطہورا سے ترجمہ باب نکلتا ہے چونکہ قرآن مجید میں لفظ صعیداً طیبا ( پاک مٹی ) کہا گیا ہے لہٰذا تیمم کے لیے پاک مٹی ہی ہونی چاہئیے جو لوگ اس میں اینٹ چونا وغیرہ سے بھی تیمم جائز بتلاتے ہیں ان کاقول صحیح نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جب نہ پانی ملے اور نہ مٹی تو کیا کرے؟

حدیث نمبر : 336
حدثنا زكرياء بن يحيى، قال حدثنا عبد الله بن نمير، قال حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أنها استعارت من أسماء قلادة فهلكت، فبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا، فوجدها فأدركتهم الصلاة وليس معهم ماء فصلوا، فشكوا ذلك إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأنزل الله آية التيمم‏.‏ فقال أسيد بن حضير لعائشة جزاك الله خيرا، فوالله ما نزل بك أمر تكرهينه إلا جعل الله ذلك لك وللمسلمين فيه خيرا‏.‏
ہم سے سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے، وہ اپنے والد سے، وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ انھوں نے حضرت اسماء سے ہار مانگ کر پہن لیا تھا، وہ گم ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اس کی تلاش کے لیے بھیجا، جسے وہ مل گیا۔ پھر نماز کا وقت آ پہنچا اور لوگوں کے پاس ( جو ہار کی تلاش میں گئے تھے ) پانی نہیں تھا۔ لوگوں نے نماز پڑھ لی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق شکایت کی۔ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے تیمم کی آیت اتاری جسے سن کر اسید بن حضیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا آپ کو اللہ بہترین بدلہ دے۔ واللہ جب بھی آپ کے ساتھ کوئی ایسی بات پیش آئی جس سے آپ کو تکلیف ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے اور تمام مسلمانوں کے لیے اس میں خیر پیدا فرما دی۔

تشریح : حضرت امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: استدل بذلک جماعۃ من المحققین منہم المصنف علی وجوب الصلوٰۃ عندعدم المطہرین الماءوالتراب ولیس فی الحدیث انہم فقدوا التراب وانما فیہ انہم فقدوا الماءفقط ولکن عدم الماءفی ذلک الوقت کعدم الماءوالتراب لانہ لامطہر سواہ ووجہ الاستدلال بہ انہم صلوا معتقدین وجوب ذلک ولوکانت الصلوٰۃ حینئذ ممنوعۃ لا نکرعلیہم النبی صلی اللہ علیہ وسلم وبہذا قال الشافعی واحمد وجمہور المحدثین۔ ( نیل الاوطار،جزءاول، ص: 267 ) یعنی اہل تحقیق نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ اگرکہیں پانی اور مٹی ہردو نہ ہوں تب بھی نماز واجب ہے۔ حدیث میں جن لوگوں کا ذکر ہے انھوں نے پانی نہیں پایا تھا پھر بھی نماز کوواجب جان کر ادا کیا، اگران کا یہ نماز پڑھنا منع ہوتا توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ضرور ان پر انکار فرماتے۔ پس یہی حکم اس کے لیے ہے جو نہ پانی پائے نہ مٹی، اس لیے کہ طہارت صرف ان ہی دوچیزوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ تو اس کو نماز ادا کرنا ضروری ہوگا۔ جمہور محدثین کا یہی فتویٰ ہے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہی بتلانا چاہتے ہیں کہ جس طرح اس دور میں جب کہ تیمم کی مشروعیت نازل نہیں ہوئی تھی صرف پانی کے نہ ملنے کی صورت میں جو حکم تھا وہی اب پانی اور مٹی ہردو کے نہ ملنے کی صورت میں ہونا چاہئیے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: واستدل بہ علی ان فاقدالطہورین یصلی علی حالہ وہووجہ المطابقۃ بین الترجمۃ والحدیث الخ یعنی حدیث مذکورہ دلالت کررہی ہے کہ جوشخص پانی پائے نہ مٹی، وہ اسی حالت میں نماز پڑھ لے۔ حدیث اور ترجمہ میں یہی مطابقت ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اقامت کی حالت میں بھی تیمم کرنا جائز ہے

إذا لم يجد الماء، وخاف فوت الصلاة‏.‏ وبه قال عطاء‏.‏ وقال الحسن في المريض عنده الماء ولا يجد من يناوله يتيمم‏.‏ وأقبل ابن عمر من أرضه بالجرف، فحضرت العصر بمربد النعم فصلى، ثم دخل المدينة والشمس مرتفعة فلم يعد‏.‏ جب پانی نہ پائے اور نماز فوت ہونے کا خوف ہو۔ عطاء بن ابی رباح کا یہی قول ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ اگر کسی بیمار کے نزدیک پانی ہو جسے وہ اٹھا نہ سکے اور کوئی ایسا شخص بھی وہاں نہ ہو جو اسے وہ پانی ( اٹھا کر ) دے سکے تو وہ تیمم کر لے۔ اور عبداللہ بن عمر جرف کی اپنی زمین سے واپس آ رہے تھے کہ عصر کا وقت مقام مربدالنعم میں آ گیا۔ آپ نے ( تیمم سے ) عصر کی نماز پڑھ لی اور مدینہ پہنچے تو سورج ابھی بلند تھا مگر آپ نے وہ نماز نہیں لوٹائی۔

تشریح : حضرت امام قدس سرہ یہ ثابت فرما رہے ہیں کہ تیمم بوقت ضرورت سفر میں تو ہے ہی مگر حضر میں بھی اگرپانی نہ مل سکے اور نماز کا وقت نکلا جارہا ہو یا مریض کے پاس کوئی پانی دینے والا نہ ہو توایسی صورت میں تیمم سے نماز ادا کی جا سکتی ہے ارشاد باری لایکلف اللہ نفساً الا وسعہا ( البقرۃ: 286 ) اللہ نے ہر انسان کو اس کی طاقت کے اندر مکلف بنایا ہے۔

حدیث نمبر : 337

حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن جعفر بن ربيعة، عن الأعرج، قال سمعت عميرا، مولى ابن عباس قال أقبلت أنا وعبد الله بن يسار، مولى ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حتى دخلنا على أبي جهيم بن الحارث بن الصمة الأنصاري فقال أبو الجهيم أقبل النبي صلى الله عليه وسلم من نحو بئر جمل، فلقيه رجل فسلم عليه، فلم يرد عليه النبي صلى الله عليه وسلم حتى أقبل على الجدار، فمسح بوجهه ويديه، ثم رد عليه السلام‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے جعفر بن ربیعہ سے، انھوں نے عبدالرحمن اعرج سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام عمیر بن عبداللہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں اور عبداللہ بن یسار جو کہ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام تھے، ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری ( صحابی ) کے پاس آئے۔ انھوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم “ بئرجمل ” کی طرف سے تشریف لا رہے تھے، راستے میں ایک شخص نے آپ کو سلام کیا ( یعنی خود اسی ابوجہیم نے ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب نہیں دیا۔ پھر آپ دیوار کے قریب آئے اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا پھر ان کے سلام کا جواب دیا۔

تشریح : اس حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حالت حضرمیں تیمم کرنے کا جواز ثابت کیا۔ جب آپ نے سلام کے جواب کے لیے تیمم کرلیا تواسی طرح پانی نہ ملنے کی صورت میں نماز کے لیے بھی تیمم کرنا جائز ہوگا۔

جرف نامی جگہ مدینہ سے آٹھ کلومیٹر دورتھی۔ اسلامی لشکر یہاں سے مسلح ہوا کرتے تھے۔ یہیں حضرت عبداللہ بن عمر کی زمین تھی۔ مربدنعم نامی جگہ مدینہ سے تقریباً ایک میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہاں آپ نے عصر کی نماز تیمم سے ادا کرلی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کیا مٹی پر تیمم کے لیے ہاتھ مارنے کے بعد ہاتھوں کو پھونک کر ان کو چہرے اور دونوں ہتھیلوں پر مل لینا کافی ہے؟

حدیث نمبر : 338
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، حدثنا الحكم، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، قال جاء رجل إلى عمر بن الخطاب فقال إني أجنبت فلم أصب الماء‏.‏ فقال عمار بن ياسر لعمر بن الخطاب أما تذكر أنا كنا في سفر أنا وأنت فأما أنت فلم تصل، وأما أنا فتمعكت فصليت، فذكرت للنبي صلى الله عليه وسلم فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إنما كان يكفيك هكذا ‏"‏‏.‏ فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بكفيه الأرض، ونفخ فيهما ثم مسح بهما وجهه وكفيه‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حکم بن عیینہ نے بیان کیا، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک شخص عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی نہیں ملا ( تو میں اب کیا کروں ) اس پر عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب میں اور آپ سفر میں تھے، ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ آپ نے تو نماز نہیں پڑھی لیکن میں نے زمین پر لوٹ پوٹ لیا، اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ تجھے بس اتنا ہی کافی تھا اور آپ نے اپنے دونوں ہاتھ زمین پر مارے پھر انھیں پھونکا اور دونوں سے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔

تشریح : مسلم وغیرہ کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے کہا کہ نماز نہ پڑھ جب تک پانی نہ ملے۔ حضرت عمارنے غسل کی جگہ سارے جسم پر مٹی لگانا ضروری سمجھا، اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ صرف تیمم کرلینا کافی تھا۔ حضرت عمار نے اس موقع پر اپنے اجتہاد سے کام لیاتھا مگردربار رسالت میں جب معاملہ آیاتو ان کے اجتہاد کی غلطی معلوم ہوگئی اور فوراً انھوں نے رجوع کرلیاصحابہ کرام آج کل کے اندھے مقلدین کی طرح نہ تھے کہ صحیح احادیث کے سامنے بھی اپنے رائے اور قیاس پر اڑے رہیں اور کتاب وسنت کو محض تقلید جامد کی وجہ سے ترک کردیں۔ اسی تقلید جامد نے ملت کو تباہ کردیا۔فلیبک علی الاسلام من کان باکیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ تیمم میں صرف منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کرنا کافی ہے

حدیث نمبر : 339
حدثنا حجاج، قال أخبرنا شعبة، أخبرني الحكم، عن ذر، عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، قال عمار بهذا، وضرب شعبة بيديه الأرض، ثم أدناهما من فيه، ثم مسح وجهه وكفيه‏.‏ وقال النضر أخبرنا شعبة عن الحكم قال سمعت ذرا يقول عن ابن عبد الرحمن بن أبزى قال الحكم وقد سمعته من ابن عبد الرحمن عن أبيه قال قال عمار‏.‏
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے کہا کہ مجھے حکم بن عیینہ نے خبر دی ذر بن عبداللہ سے، وہ سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے باپ سے کہ عمار نے یہ واقعہ بیان کیا ( جو پہلے گزر چکا ) اور شعبہ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا۔ پھر انھیں اپنے منہ کے قریب کر لیا ( اور پھونکا ) پھر ان سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا اور نضر بن شمیل نے بیان کیا کہ مجھے شعبہ نے خبر دی حکم سے کہ میں نے ذر بن عبداللہ سے سنا، وہ سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ کے حوالہ سے حدیث روایت کرتے تھے۔ حکم نے کہا کہ میں نے یہ حدیث ابن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے سنی، وہ اپنے والد کے حوالہ سے بیان کرتے تھے کہ عمار نے کہا ( جو پہلے مذکور ہوا )

صحیح احادیث کی بنا پر تیمم میں ایک ہی بار ہاتھ مارنا اور منہ اور دونوں پنجوں کا مسح کرلینا کافی ہے۔ اہل حدیث کایہی فتویٰ ہے۔ اس کے خلاف جو ہے وہ قول مرجوح ہے۔ یعنی ایک بار منہ کا مسح کرنا پھردوبارہ ہاتھ مارکر دونوں ہاتھوں کا کہنیوں تک مسح کرنا اس بارے کی احادیث ضعیف ہیں۔ دوسری سند کے لانے کی غرض یہ ہے کہ حکم کا سماع ذربن عبداللہ سے صاف معلوم ہوجائے جس کی صراحت اگلی روایت میں نہیں ہے۔ بعض مقلدین نہایت ہی دریدہ دہنی کے ساتھ مسح میں ایک بار کا انکار کرتے ہیں بلکہ جماعت اہل حدیث کی تخفیف وتوہین کے سلسلہ میں تیمم کو بھی ذکر کرتے ہیں، یہ ان کی سخت غلطی ہے۔

حدیث نمبر : 340
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن الحكم، عن ذر، عن ابن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، أنه شهد عمر وقال له عمار كنا في سرية فأجنبنا، وقال تفل فيهما‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطہ سے حدیث بیان کی، وہ ذر بن عبداللہ سے، وہ ابن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے والد سے کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھے اور حضرت عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ ہم ایک لشکر میں گئے ہوئے تھے۔ پس ہم دونوں جنبی ہو گئے۔ اور ( اس میں ہے کہ بجائے نفخ فیہما کے ) انھوں نے تفل فیہما کہا۔

تفل بھی پھونکنے ہی کو کہتے ہیں لیکن نفخ سے کچھ زیادہ زور سے جس میں ذرا ذرا تھوک بھی نکل آئے۔

حدیث نمبر : 341
حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا شعبة، عن الحكم، عن ذر، عن ابن عبد الرحمن بن أبزى، عن عبد الرحمن، قال قال عمار لعمر تمعكت فأتيت النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ يكفيك الوجه والكفان ‏"‏‏.‏
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے، وہ ذر بن عبداللہ سے، وہ سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، وہ اپنے والد عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، انھوں نے بیان کیا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میں تو زمین میں لوٹ پوٹ ہو گیا پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تیرے لیے صرف چہرے اور پہنچوں پر مسح کرنا کافی تھا ( زمین پر لیٹنے کی ضرورت نہ تھی )

تشریح : بعض راویان بخاری نے یہاں الوجہ والکفان نقل کیا ہے اور ان کو یکفیک کا فاعل ٹھہرایا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ تجھ کو چہرہ اور دونوں پہنچے کافی تھے۔ فتح الباری میں ان کو یکفیک کا مفعول قراردیتے ہوئے الوجہ والکفین نقل کیا ہے۔ اس صورت میں ترجمہ یہ ہوگا کہ تجھ کو تیرا منہ اور پہنچوں کے اوپر مسح کرلینا کافی تھا۔

وقال الحافظ ابن حجر ان الاحادیث الواردۃ فی صفۃ التیمم لم یصح منہا سوی حدیث ابی جہیم وعمار الخ یعنی صفت تیمم میں سب سے زیادہ صحیح احادیث ابوجہیم اور عمارکی ہیں، یہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے۔ ان دونوں میں ایک ہی دفعہ مارنے اور منہ اور ہتھیلیوں پر مل لینے کا ذکر ہے۔

حدیث نمبر : 342
حدثنا مسلم، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن ذر، عن ابن عبد الرحمن، عن عبد الرحمن، قال شهدت عمر فقال له عمار‏.‏ وساق الحديث‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے حکم سے، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے سعید بن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے۔ انھوں نے عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، انھوں نے کہا کہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ عمار رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا۔ پھر انھوں نے پوری حدیث بیان کی۔

حدیث نمبر : 343
حدثنا محمد بن بشار، قال حدثنا غندر، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن ذر، عن ابن عبد الرحمن بن أبزى، عن أبيه، قال قال عمار فضرب النبي صلى الله عليه وسلم بيده الأرض، فمسح وجهه وكفيه‏.‏
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا ہم سے غندر نے، کہا کہ ہم سے شعبہ نے حکم کے واسطے سے، انھوں نے ذر بن عبداللہ سے، انھوں نے ابن عبدالرحمن بن ابزیٰ سے، انھوں نے اپنے والد سے کہ عمار نے بیان کیا “ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر مارا اور اس سے اپنے چہرے اور پہنچوں کا مسح کیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : پاک مٹی مسلمانوں کا وضو ہے پانی کے بدل وہ اس کو کافی ہے

يكفيه من الماء‏.‏ وقال الحسن يجزئه التيمم ما لم يحدث‏.‏ وأم ابن عباس وهو متيمم‏.‏ وقال يحيى بن سعيد لا بأس بالصلاة على السبخة والتيمم بها‏.‏ اور حسن بصری نے کہا کہ جب تک اس کو حدث نہ ہو ( یعنی وضو توڑنے والی چیزیں نہ پائی جائیں ) تیمم کافی ہے اور ابن عباس رضی اللہ عنہما نے تیمم سے امامت کی اور یحییٰ بن سعید انصاری نے فرمایا کہ کھاری زمین پر نماز پڑھنے اور اس سے تیمم کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

تشریح : حضرت امام حسن بصری کے اس اثر کو عبدالرزاق نے موصولاً روایت کیا ہے، سنن میں اتنے الفاظ اور زیادہ ہیں وان لم یجد الماءعشرسنین ( ترمذی وغیرہ ) یعنی اگرچہ وہ پانی کو دس سال تک نہ پائے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اثر مذکور کو ابن ابی شیبہ اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام شوکانی منتقی کے باب تعیین التراب للتیمم دون بقیۃ الجامدات۔ ( یعنی تیمم کے لیے جمادات میں مٹی ہی کی تعیین ہے ) کے تحت حدیث وجعلت تربتھا لنا طہورا۔ ( اور اس زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکی حاصل کرنے کا ذریعہ بنائی گئی ہے ) لکھتے ہیں والحدیث یدل علی قصر التیمم علی التراب فیہ ( نیل الاوطار ) یہ حدیث اس امر پر دلیل ہے کہ تیمم کے لیے مٹی کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ اس میں صراحتاً تراب مٹی کا لفظ موجود ہے۔ پس جو لوگ چونا، لوہا اور دیگرجملہ جمادات پر تیمم کرنا جائز بتلاتے ہیں ان کا قول صحیح نہیں۔ شورزمین پر تیمم کرنا نماز پڑھنا، اس کی دلیل وہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا ہے جس میں ذکر ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رایت دار ہجرتکم سبخۃ ذات نخل یعنی المدینۃ وقدسمی النبی صلی اللہ علیہ وسلم المدینۃ الطبیۃ فدل ان السبخۃ داخلۃ فی الطیب ( قسطلانی ) میں نے تمہارے ہجرت کے گھر کو دیکھا جو اس بستی میں ہے جس کی اکثر زمین شورہے اور وہاں کھجوریں بہت ہوتی ہیں آپ نے اس سے مدینہ مرادلیا۔ جس کا نام آپ نے خود ہی مدینہ طیبہ رکھا۔ یعنی پاک شہر۔ پس ثابت ہوا کہ شورزمین بھی پاکی میں داخل ہے۔ پھر شور زمین کی ناپاکی پر کوئی دلیل کتاب وسنت سے نہیں ہے۔ اس لیے بھی اس کی پاکی ثابت ہوئی۔

حدیث نمبر : 344
حدثنا مسدد، قال حدثني يحيى بن سعيد، قال حدثنا عوف، قال حدثنا أبو رجاء، عن عمران، قال كنا في سفر مع النبي صلى الله عليه وسلم وإنا أسرينا، حتى كنا في آخر الليل، وقعنا وقعة ولا وقعة أحلى عند المسافر منها، فما أيقظنا إلا حر الشمس، وكان أول من استيقظ فلان ثم فلان ثم فلان ـ يسميهم أبو رجاء فنسي عوف ـ ثم عمر بن الخطاب الرابع، وكان النبي صلى الله عليه وسلم إذا نام لم يوقظ حتى يكون هو يستيقظ، لأنا لا ندري ما يحدث له في نومه، فلما استيقظ عمر، ورأى ما أصاب الناس، وكان رجلا جليدا، فكبر ورفع صوته بالتكبير، فما زال يكبر ويرفع صوته بالتكبير حتى استيقظ لصوته النبي صلى الله عليه وسلم فلما استيقظ شكوا إليه الذي أصابهم قال ‏"‏ لا ضير ـ أو لا يضير ـ ارتحلوا ‏"‏‏.‏ فارتحل فسار غير بعيد ثم نزل، فدعا بالوضوء، فتوضأ ونودي بالصلاة فصلى بالناس، فلما انفتل من صلاته إذا هو برجل معتزل لم يصل مع القوم قال ‏"‏ ما منعك يا فلان أن تصلي مع القوم ‏"‏‏.‏ قال أصابتني جنابة ولا ماء‏.‏ قال ‏"‏ عليك بالصعيد، فإنه يكفيك ‏"‏‏.‏ ثم سار النبي صلى الله عليه وسلم فاشتكى إليه الناس من العطش فنزل، فدعا فلانا ـ كان يسميه أبو رجاء نسيه عوف ـ ودعا عليا فقال ‏"‏ اذهبا فابتغيا الماء ‏"‏‏.‏ فانطلقا فتلقيا امرأة بين مزادتين ـ أو سطيحتين ـ من ماء على بعير لها، فقالا لها أين الماء قالت عهدي بالماء أمس هذه الساعة، ونفرنا خلوفا‏.‏ قالا لها انطلقي إذا‏.‏ قالت إلى أين قالا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏ قالت الذي يقال له الصابئ قالا هو الذي تعنين فانطلقي‏.‏ فجاءا بها إلى النبي صلى الله عليه وسلم وحدثاه الحديث قال فاستنزلوها عن بعيرها ودعا النبي صلى الله عليه وسلم بإناء، ففرغ فيه من أفواه المزادتين ـ أو السطيحتين ـ وأوكأ أفواههما، وأطلق العزالي، ونودي في الناس اسقوا واستقوا‏.‏ فسقى من شاء، واستقى من شاء، وكان آخر ذاك أن أعطى الذي أصابته الجنابة إناء من ماء قال ‏"‏ اذهب، فأفرغه عليك ‏"‏‏.‏ وهى قائمة تنظر إلى ما يفعل بمائها، وايم الله لقد أقلع عنها، وإنه ليخيل إلينا أنها أشد ملأة منها حين ابتدأ فيها، فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ اجمعوا لها ‏"‏‏.‏ فجمعوا لها من بين عجوة ودقيقة وسويقة، حتى جمعوا لها طعاما، فجعلوها في ثوب، وحملوها على بعيرها، ووضعوا الثوب بين يديها قال لها ‏"‏ تعلمين ما رزئنا من مائك شيئا، ولكن الله هو الذي أسقانا ‏"‏‏.‏ فأتت أهلها، وقد احتبست عنهم قالوا ما حبسك يا فلانة قالت العجب، لقيني رجلان فذهبا بي إلى هذا الذي يقال له الصابئ، ففعل كذا وكذا، فوالله إنه لأسحر الناس من بين هذه وهذه‏.‏ وقالت بإصبعيها الوسطى والسبابة، فرفعتهما إلى السماء ـ تعني السماء والأرض ـ أو إنه لرسول الله حقا، فكان المسلمون بعد ذلك يغيرون على من حولها من المشركين، ولا يصيبون الصرم الذي هي منه، فقالت يوما لقومها ما أرى أن هؤلاء القوم يدعونكم عمدا، فهل لكم في الإسلام فأطاعوها فدخلوا في الإسلام‏.
ہم سے مسدد نے بیان کیا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید نے، کہا کہ ہم سے عوف نے، کہا کہ کہا ہم سے ابورجاء نے عمران کے حوالہ سے، انھوں نے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے کہ ہم رات بھر چلتے رہے اور جب رات کا آخری حصہ آیا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا اور مسافر کے لیے اس وقت کے پڑاؤ سے زیادہ مرغوب اور کوئی چیز نہیں ہوتی ( پھر ہم اس طرح غافل ہو کر سو گئے ) کہ ہمیں سورج کی گرمی کے سوا کوئی چیز بیدار نہ کر سکی۔ سب سے پہلے بیدار ہونے والا شخص فلاں تھا۔ پھر فلاں پھر فلاں۔ ابورجاء نے سب کے نام لیے لیکن عوف کو یہ نام یاد نہیں رہے۔ پھر چوتھے نمبر پر جاگنے والے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ تھے اور جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرماتے تو ہم آپ کو جگاتے نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ خود بخود بیدار ہوں۔ کیوں کہ ہمیں کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ آپ پر خواب میں کیا تازہ وحی آتی ہے۔ جب حضرت عمر جاگ گئے اور یہ آمدہ آفت دیکھی اور وہ ایک نڈر دل والے آدمی تھے۔ پس زور زور سے تکبیر کہنے لگے۔ اسی طرح با آواز بلند، آپ اس وقت تک تکبیر کہتے رہے جب تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی آواز سے بیدار نہ ہو گئے۔ تو لوگوں نے پیش آمدہ مصیبت کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ کوئی ہرج نہیں۔ سفر شروع کرو۔ پھر آپ تھوڑی دور چلے، اس کے بعد آپ ٹھہر گئے اور وضو کا پانی طلب فرمایا اور وضو کیا اور اذان کہی گئی۔ پھر آپ نے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھی۔ جب آپ نماز پڑھانے سے فارغ ہوئے تو ایک شخص پر آپ کی نظر پڑی جو الگ کنارے پر کھڑا ہوا تھا اور اس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک ہونے سے کون سی چیز نے روکا۔ اس نے جواب دیا کہ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور پانی موجود نہیں ہے۔ آپ نے فرمایا کہ پاک مٹی سے کام نکال لو۔ یہی تجھ کو کافی ہے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر شروع کیا تو لوگوں نے پیاس کی شکایت کی۔ آپ ٹھہر گئے اور فلاں ( یعنی عمران بن حصین رضی اللہ عنہ ) کو بلایا۔ ابورجاء نے ان کا نام لیا تھا لیکن عوف کو یاد نہیں رہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی طلب فرمایا۔ ان دونوں سے آپ نے فرمایا کہ جاؤ پانی تلاش کرو۔ یہ دونوں نکلے۔ راستہ میں ایک عورت ملی جو پانی کی دو پکھالیں اپنے اونٹ پر لٹکائے ہوئے بیچ میں سوار ہو کر جا رہی تھی۔ انھوں نے اس سے پوچھا کہ پانی کہاں ملتا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ کل اسی وقت میں پانی پر موجود تھی ( یعنی پانی اتنی دور ہے کہ کل میں اسی وقت وہاں سے پانی لے کر چلی تھی آج یہاں پہنچی ہوں ) اور ہمارے قبیلہ کے مرد لوگ پیچھے رہ گئے ہیں۔ انھوں نے اس سے کہا۔ اچھا ہمارے ساتھ چلو۔ اس نے پوچھا، کہاں چلوں؟ انھوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں۔ اس نے کہا، اچھا وہی جن کو لوگ صابی کہتے ہیں۔ انھوں نے کہا، یہ وہی ہے، جسے تم کہہ رہی ہو۔ اچھا اب چلو۔ آخر یہ دونوں حضرات اس عورت کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں لائے۔ اور سارا واقعہ بیان کیا۔ عمران نے کہا کہ لوگوں نے اسے اونٹ سے اتار لیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک برتن طلب فرمایا۔ اور دونوں پکھالوں یا مشکیزوں کے منہ اس برتن میں کھول دئیے۔ پھر ان کا اوپر کا منہ بند کر دیا۔ اس کے بعد نیچے کا منہ کھول دیا اور تمام لشکریوں میں منادی کر دی گئی کہ خود بھی سیر ہو کر پانی پئیں اور اپنے تمام جانوروں وغیرہ کو پلا لیں۔ پس جس نے چاہا پانی پیا اور پلایا ( اور سب سیر ہو گئے ) آخر میں اس شخص کو بھی ایک برتن میں پانی دیا جسے غسل کی ضرورت تھی۔ آپ نے فرمایا، لے جا اور غسل کر لے۔ وہ عورت کھڑی دیکھ رہی تھی کہ اس کے پانی سے کیا کیا کام لیے جا رہے ہیں اور خدا کی قسم! جب پانی لیا جانا ان سے بند ہوا، تو ہم دیکھ رہے تھے کہ اب مشکیزوں میں پانی پہلے سے بھی زیادہ موجود تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کچھ اس کے لیے ( کھانے کی چیز ) جمع کرو۔ لوگوں نے اس کے لیے عمدہ قسم کی کھجور ( عجوہ ) آٹا اور ستو اکٹھا کیا۔ یہاں تک کہ بہت سارا کھانا اس کے لیے جمع ہو گیا۔ تو اسے لوگوں نے ایک کپڑے میں رکھا اور عورت کو اونٹ پر سوار کر کے اس کے سامنے وہ کپڑا رکھ دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ہم نے تمہارے پانی میں کوئی کمی نہیں کی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے ہمیں سیراب کر دیا۔ پھر وہ اپنے گھر آئی، دیر کافی ہو چکی تھی اس لیے گھر والوں نے پوچھا کہ اے فلانی! کیوں اتنی دیر ہوئی؟ اس نے کہا، ایک عجیب بات ہوئی وہ یہ کہ مجھے دو آدمی ملے اور وہ مجھے اس شخص کے پاس لے گئے جسے لوگ صابی کہتے ہیں۔ وہاں اس طرح کا واقعہ پیش آیا، خدا کی قسم! وہ تو اس کے اور اس کے درمیان سب سے بڑا جادوگر ہے اور اس نے بیچ کی انگلی اور شہادت کی انگلی آسمان کی طرف اٹھا کر اشارہ کیا۔ اس کی مراد آسمان اور زمین سے تھی۔ یا پھر وہ واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان اس قبیلہ کے دور و نزدیک کے مشرکین پر حملے کیا کرتے تھے۔ لیکن اس گھرانے کو جس سے اس عورت کا تعلق تھا کوئی نقصان نہیں پہنچاتے تھے۔ یہ اچھا برتاؤ دیکھ کر ایک دن اس عورت نے اپنی قوم سے کہا کہ میرا خیال ہے کہ یہ لوگ تمہیں جان بوجھ کر چھوڑ دیتے ہیں۔ تو کیا تمہیں اسلام کی طرف کچھ رغبت ہے؟ قوم نے عورت کی بات مان لی اور اسلام لے آئی۔ حضرت ابوعبداللہ امام بخاری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ صبا کے معنی ہیں اپنا دین چھوڑ کر دوسرے کے دین میں چلا گیا اور ابوالعالیہ نے کہا ہے کہ صابئین اہل کتاب کا ایک فرقہ ہے جو زبور پڑھتے ہیں اور سورہ یوسف میں جو اصب کا لفظ ہے وہاں بھی اس کے معنی اَمِلُ کے ہیں۔

تشریح : یعنی حضرت یوسف علیہ السلام نے کہا تھا کہ خدایا اگرتومجھے نہ بچائے گا تومیں ان عورتوں کی طرف جھک جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہوجاؤں گا۔ پس لفظ صابی اسی سے بنا ہے جس کے معنی دوسری طرف جھک جانے کے ہیں۔ سفر مذکور کون سا سفر تھا؟ بعض نے اسے سفرخبیر، بعض نے سفرحدیبیہ، بعض نے سفرتبوک اور بعض نے طریق مکہ کا سفر قراردیا ہے۔ بہرحال ایک سفر تھا جس میں یہ واقعہ پیش آیا۔ چونکہ تکان غالب تھی اور پچھلی رات، پھر اس وقت ریگستان عرب کی میٹھی ٹھنڈی ہوائیں، نتیجہ یہ ہوا کہ سب کو نیند آگئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی سوگئے۔ حتیٰ کہ سورج نکل آیا، اور مجاہدین جاگے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ حال دیکھا توزور زور سے نعرہ تکبیر بلند کرنا شروع کیاتاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ بھی کھل جائے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جاگ اٹھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تسلی دلائی کہ جو ہوا اللہ کے حکم سے ہوا فکر کی کوئی بات نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں سے کوچ کا حکم دیا اور تھوڑی دورآگے بڑھ کر پھر پڑاؤ کیاگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اذان کہلواکر جماعت سے نماز پڑھائی اور نماز کے بعد ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے ہوئے دیکھا تومعلوم ہواکہ اس کو غسل کی حاجت ہوگئی ہے اور وہ پانی نہ ہونے کی وجہ سے نماز نہ پڑھ سکا ہے۔ اس پر آپ نے فرمایاکہ اس حالت میں تجھ کو مٹی پر تیمم کرلینا کافی تھا۔ ترجمۃ الباب اسی جگہ سے ثابت ہوتا ہے۔ بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کی تلاش میں حضرت علی اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کومقرر فرمایا اور انھوں نے اس مسافرعورت کو دیکھا کہ پانی کی پکھالیں اونٹ پر لٹکائے ہوئے جارہی ہے، وہ اس کو بلا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے، ان کی نیت ظلم وبرائی کی نہ تھی بلکہ عورت سے قیمت سے پانی حاصل کرنا یا اس سے پانی کے متعلق معلومات حاصل کرنا تھا۔ آپ نے اس کی پکھالوں کے منہ کھلوادئیے اور ان میں اپنا ریق مبارک ڈالا جس کی برکت سے وہ پانی اس قدر زیادہ ہو گیا کہ مجاہدین اور ان کے جانورسب سیراب ہوگئے اور اس جنبی شخص کو غسل کے لیے بھی پانی دیا گیا۔ اس کے بعد آپ نے پکھالوں کے منہ بندکرادئیے اور وہ پانی سے بالکل لبریز تھیں۔ ان میں ذرا بھی پانی کم نہیں ہوا تھا۔ آپ نے احسان کے بدلے احسان کے طور پر اس عورت کے لیے کھانا غلہ صحابہ کرام سے جمع کرایا اور اس کو عزت واحترام کے ساتھ رخصت کردیا۔ جس کے نتیجہ میں آگے چل کر اس عورت اور اس کے قبیلہ والوں نے اسلام قبول کرلیا۔

حضرت امام المحدثین رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد اس روایت کی نقل سے یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی صورت میں مٹی پر تیمم کرلینا وضو اور غسل ہر دو کی جگہ کافی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب جنبی کو ( غسل کی وجہ سے ) مرض بڑھ جانے کا یا موت ہونے کا یا (پانی کے کم ہونے کی وجہ سے) پیاس کا ڈر ہو تو تیمم کر لے

أو خاف العطش، تيمم‏.‏ ويذكر أن عمرو بن العاص أجنب في ليلة باردة فتيمم وتلا ‏{‏ولا تقتلوا أنفسكم إن الله كان بكم رحيما‏}‏ فذكر للنبي صلى الله عليه وسلم فلم يعنف‏.‏ کہا جاتا ہے کہ حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کو ایک جاڑے کی رات میں غسل کی حاجت ہوئی۔ تو آپ نے تیمم کر لیا اور یہ آیت تلاوت کی “ اپنی جانوں کو ہلاک نہ کرو، بے شک اللہ تعالیٰ تم پر بڑا مہربان ہے۔ ” پھر اس کا ذکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی کوئی ملامت نہیں فرمائی۔

آیت کریمہ پھر صحابہ کرام کے عمل سے اسلام میں بڑی بڑی آسانیاں معلوم ہوتی ہیں۔ مگرصدافسوس کہ نام نہاد علماءوفقہاءنے دین کو ایک ہوابناکررکھ دیا ہے۔

حدیث نمبر : 345
حدثنا بشر بن خالد، قال حدثنا محمد ـ هو غندر ـ عن شعبة، عن سليمان، عن أبي وائل، قال قال أبو موسى لعبد الله بن مسعود إذا لم يجد الماء لا يصلي‏.‏ قال عبد الله لو رخصت لهم في هذا، كان إذا وجد أحدهم البرد قال هكذا ـ يعني تيمم وصلى ـ قال قلت فأين قول عمار لعمر قال إني لم أر عمر قنع بقول عمار‏.‏
ہم سے بشر بن خالد نے بیان کیا، کہا مجھ کو محمد نے خبر دی جو غندر کے نام سے مشہور ہیں، شعبہ کے واسطہ سے، وہ سلیمان سے نقل کرتے ہیں اور وہ ابووائل سے کہ ابوموسیٰ نے عبداللہ بن مسعود سے کہا کہ اگر ( غسل کی حاجت ہو اور ) پانی نہ ملے تو کیا نماز نہ پڑھی جائے۔ عبداللہ نے فرمایا ہاں! اگر مجھے ایک مہینہ تک بھی پانی نہ ملے تو میں نماز نہ پڑھوں گا۔ اگر اس میں لوگوں کو اجازت دے دی جائے تو سردی معلوم کر کے بھی لوگ تیمم سے نماز پڑھ لیں گے۔ ابوموسیٰ کہتے ہیں کہ میں نے کہا کہ پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سامنے حضرت عمار رضی اللہ عنہ کے قول کا کیا جواب ہو گا۔ بولے کہ مجھے تو نہیں معلوم ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ عمار رضی اللہ عنہ کی بات سے مطمئن ہو گئے تھے۔

حدیث نمبر : 346
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال سمعت شقيق بن سلمة، قال كنت عند عبد الله وأبي موسى فقال له أبو موسى أرأيت يا أبا عبد الرحمن إذا أجنب فلم يجد، ماء كيف يصنع فقال عبد الله لا يصلي حتى يجد الماء‏.‏ فقال أبو موسى فكيف تصنع بقول عمار حين قال له النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كان يكفيك ‏"‏ قال ألم تر عمر لم يقنع بذلك‏.‏ فقال أبو موسى فدعنا من قول عمار، كيف تصنع بهذه الآية فما درى عبد الله ما يقول فقال إنا لو رخصنا لهم في هذا لأوشك إذا برد على أحدهم الماء أن يدعه ويتيمم‏.‏ فقلت لشقيق فإنما كره عبد الله لهذا قال نعم‏.‏
ہم سے عمر بن حفص نے بیان کیا کہ کہا ہم سے میرے والد حفص بن غیاث نے، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ میں نے شقیق بن سلمہ سے سنا، انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ ( بن مسعود ) اور ابوموسیٰ اشعری کی خدمت میں تھا، ابوموسیٰ نے پوچھا کہ ابوعبدالرحمن! آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو اور پانی نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ عبداللہ نے فرمایا کہ اسے نماز نہ پڑھنی چاہیے۔ جب تک اسے پانی نہ مل جائے۔ ابوموسیٰ نے کہا کہ پھر عمار کی اس روایت کا کیا ہو گا جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا تھا کہ تمہیں صرف ( ہاتھ اور منہ کا تیمم ) کافی تھا۔ ابن مسعود نے فرمایا کہ تم عمر کو نہیں دیکھتے کہ وہ عمار کی اس بات پر مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ پھر ابوموسیٰ نے کہا کہ اچھا عمار کی بات کو چھوڑو لیکن اس آیت کا کیا جواب دو گے ( جس میں جنابت میں تیمم کرنے کی واضح اجازت موجود ہے ) عبداللہ بن مسعود اس کا کوئی جواب نہ دے سکے۔ صرف یہ کہا کہ اگر ہم اس کی بھی لوگوں کو اجازت دے دیں تو ان کا حال یہ ہو جائے گا کہ اگر کسی کو پانی ٹھنڈا معلوم ہوا تو اسے چھوڑ دیا کرے گا۔ اور تیمم کر لیا کرے گا۔ ( اعمش کہتے ہیں کہ ) میں نے شقیق سے کہا کہ گویا عبداللہ نے اس وجہ سے یہ صورت ناپسند کی تھی۔ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں۔

تشریح : قرآنی آیت اولٰمستم النساء ( المائدۃ: 6 ) سے صاف طور پر جنبی کے لیے تیمم کا ثبوت ملتا ہے کیونکہ یہاں لمس سے جماع مراد ہے۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ آیت سن کر کوئی جواب نہ دے سکے۔ ہا ں ایک مصلحت کا ذکر فرمایا۔

مسندابن ابی شیبہ میں ہے کہ بعدمیں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس خیال سے رجوع فرمالیاتھا اور امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے قول سے رجوع فرمالیاتھا۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس پر تمام امت کا اجماع ہے کہ جنبی اور حائضہ اور نفاس والی سب کے لیے تیمم درست ہے جب وہ پانی نہ پائیں یا بیمارہوں کہ پانی کے استعمال سے بیماری بڑھنے کا خطرہ ہو یا وہ حالات سفر میں ہوں اور پانی نہ پائیں توتیمم کریں۔ حضر ت عمررضی اللہ عنہ کو یہ عمار رضی اللہ عنہ والا واقعہ یاد نہیں رہاتھا۔ حالانکہ وہ سفرمیں عماررضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ مگر ان کو شک رہا۔ مگرعمار کا بیان درست تھا اس لیے ان کی روایت پر سارے علماءنے فتویٰ دیاکہ جنبی کے لیے تیمم جائز ہے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ اور حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے خیالوں کو چھوڑدیاگیا۔ جب صحیح حدیث کے خلاف ایسے جلیل القدر صحابہ کرام کا قول چھوڑا جا سکتا ہے توامام یا مجتہد کا قول خلاف حدیث کیوں کر قابل تسلیم ہوگا۔ اسی لیے ہمارے امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے خود فرمادیاکہ اذا صح الحدیث فہومذہبی صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔ پس میرا جو قول صحیح حدیث کے خلاف پاؤ اسے چھوڑدینا اور حدیث صحیح پر عمل کرنا۔ رحمہ اللہ تعالیٰ آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : تیمم میں ایک ہی دفعہ مٹی پر ہاتھ مارنا کافی ہے

حدیث نمبر : 347
حدثنا محمد بن سلام، قال أخبرنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن شقيق، قال كنت جالسا مع عبد الله وأبي موسى الأشعري فقال له أبو موسى لو أن رجلا أجنب، فلم يجد الماء شهرا، أما كان يتيمم ويصلي فكيف تصنعون بهذه الآية في سورة المائدة ‏{‏فلم تجدوا ماء فتيمموا صعيدا طيبا‏}‏ فقال عبد الله لو رخص لهم في هذا لأوشكوا إذا برد عليهم الماء أن يتيمموا الصعيد‏.‏ قلت وإنما كرهتم هذا لذا قال نعم‏.‏ فقال أبو موسى ألم تسمع قول عمار لعمر بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة فأجنبت، فلم أجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إنما كان يكفيك أن تصنع هكذا ‏"‏‏.‏ فضرب بكفه ضربة على الأرض ثم نفضها، ثم مسح بها ظهر كفه بشماله، أو ظهر شماله بكفه، ثم مسح بهما وجهه فقال عبد الله أفلم تر عمر لم يقنع بقول عمار وزاد يعلى عن الأعمش عن شقيق كنت مع عبد الله وأبي موسى فقال أبو موسى ألم تسمع قول عمار لعمر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني أنا وأنت فأجنبت فتمعكت بالصعيد، فأتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم فأخبرناه فقال ‏"‏ إنما كان يكفيك هكذا ‏"‏‏.‏ ومسح وجهه وكفيه واحدة
ہم سے محمد بن سلام نے بیان کیا، کہا ہمیں ابومعاویہ نے خبر دی اعمش سے، انھوں نے شقیق سے، انھوں نے بیان کیا کہ میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا۔ حضرت ابوموسی رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اگر ایک شخص کو غسل کی حاجت ہو اور مہینہ بھر پانی نہ پائے تو کیا وہ تیمم کر کے نماز نہ پڑھے؟ شقیق کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود نے جواب دیا کہ وہ تیمم نہ کرے اگرچہ وہ ایک مہینہ تک پانی نہ پائے ( اور نماز موقوف رکھے ) ابوموسی رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ پھر سورہ مائدہ کی اس آیت کا کیا مطلب ہو گا “ اگر تم پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی پر تیمم کر لو۔ ” حضرت عبداللہ بن مسعود بولے کہ اگر لوگوں کو اس کی اجازت دے دی جائے تو جلد ہی یہ حال ہو جائے گا کہ جب ان کو پانی ٹھنڈا معلوم ہو گا تو وہ مٹی سے تیمم ہی کر لیں گے۔ اعمش نے کہا میں نے شقیق سے کہا تو تم نے جنبی کے لیے تیمم اس لیے برا جانا۔ انھوں نے کہا ہاں۔ پھر حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا آپ کو حضرت عمار کا حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے سامنے یہ قول معلوم نہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کام کے لیے بھیجا تھا۔ سفر میں مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی، لیکن پانی نہ ملا۔ اس لیے میں مٹی میں جانور کی طرح لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے لیے صرف اتنا اتنا کرنا کافی تھا۔ اور آپ نے اپنے ہاتھوں کو زمین پر ایک مرتبہ مارا پھر ان کو جھاڑ کر بائیں ہاتھ سے داہنے کی پشت کو مل لیا یا بائیں ہاتھ کا داہنے ہاتھ سے مسح کیا۔ پھر دونوں ہاتھوں سے چہرے کا مسح کیا۔ عبداللہ نے اس کا جواب دیا کہ آپ عمر کو نہیں دیکھتے کہ انھوں نے عمار کی بات پر قناعت نہیں کی تھی۔ اور یعلی ابن عبید نے اعمش کے واسطہ سے شقیق سے روایت میں یہ زیادتی کی ہے کہ انھوں نے کہا کہ میں عبداللہ اور ابوموسیٰ کی خدمت میں تھا اور ابوموسیٰ نے فرمایا تھا کہ آپ نے عمر سے عمار کا یہ قول نہیں سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور آپ کو بھیجا۔ پس مجھے غسل کی حاجت ہو گئی اور میں مٹی میں لوٹ پوٹ لیا۔ پھر میں رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے صورت حال کے متعلق ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا اور اپنے چہرے اور ہتھیلیوں کا ایک ہی مرتبہ مسح کیا۔

تشریح : ابوداؤد کی روایت میں صاف مذکور ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کا طریقہ بتلاتے ہوئے پہلے بائیں ہتھیلی کو دائیں ہتھیلی اور پہنچوں پر مارا پھر دائیں کو بائیں پر مارا اس طرح دونوں پہنچوں پر مسح کرکے پھر منہ پر پھیر لیا۔ بس یہی تیمم ہے اور یہی راحج ہے۔ علمائے محققین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔ دوبار کی روایتیں سب ضعیف ہیں۔

علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ حدیث عمار رواہ الترمذی کے تحت فرماتے ہیں: والحدیث یدل علی ان التیمم ضربۃ واحدۃ للوجہ والکفین وقد ذہب الی ذلک عطاءومکحول والاوزاعی واحمدبن حنبل واسحاق والصادق والامامیۃ قال فی الفتح ونقلہ ابن المنذر عن جمہور العلماءواختارہ وہوقول عامۃ اہل الحدیث۔ ( نیل الاوطار ) یعنی یہ حدیث دلیل ہے کہ تیمم میں صرف ایک ہی مرتبہ ہاتھوں کو مٹی پر مارنا کافی ہے اور جمہور علماءوجملہ محدثین کا یہی مسلک ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : (پاک مٹی سے تیمم کرنا)

حدیث نمبر : 348
حدثنا عبدان، قال أخبرنا عبد الله، قال أخبرنا عوف، عن أبي رجاء، قال حدثنا عمران بن حصين الخزاعي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى رجلا معتزلا لم يصل في القوم فقال ‏"‏ يا فلان ما منعك أن تصلي في القوم ‏"‏‏.‏ فقال يا رسول الله، أصابتني جنابة ولا ماء‏.‏ قال ‏"‏ عليك بالصعيد فإنه يكفيك ‏"‏‏.‏
ہم سے عبدان نے حدیث بیان کی، کہا ہمیں عبداللہ نے خبر دی، کہا ہمیں عوف نے ابورجاء سے خبر دی، کہا کہ ہم سے کہا عمران بن حصین خزاعی نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا کہ الگ کھڑا ہوا ہے اور لوگوں کے ساتھ نماز میں شریک نہیں ہو رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے فلاں! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا۔ اس نے عرض کی یا رسول اللہ! مجھے غسل کی ضرورت ہو گئی اور پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر تم کو پاک مٹی سے تیمم کرنا ضروری تھا، بس وہ تمہارے لیے کافی ہوتا۔
 
Top