Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
کتاب الصلوٰۃ
باب : اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟
وقال ابن عباس حدثني أبو سفيان في حديث هرقل فقال يأمرنا ـ يعني النبي ـ صلى الله عليه وسلم بالصلاة والصدق والعفاف
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔
یعنی جب ہرقل شاہ روم نے ابوسفیان اور دوسرے کفارقریش کو جو تجارت کی غرض سے روم گئے ہوئے تھے، بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا توابوسفیان رضی اللہ عنہ نے مندرجہ بالاجواب دیا۔
تشریح : سیدالفقہاءوالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مسائل طہارت بیان فرماچکے لہٰذا اب مسائل نماز کے لیے کتاب الصلوٰۃ کی ابتدا فرمائی۔ صلوٰۃ ہروہ عبادت ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کی خشیت کے پیش نظر کی جائے۔ کائنات کی ہر مخلوق اللہ کی عبادت کرتی ہے جس پر لفظ صلوٰۃ ہی بولا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کل قدعلم صلاتہ وتسبیحہ ( النور: 141 ) ہر مخلوق کو اپنے طریقے پر نماز پڑھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا طریقہ معلوم ہے۔ ایک آیت میں ہے وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم الاسرائ: 44 ) ہرایک چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، لیکن اے انسانو! تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔
قال النووی فی شرح مسلم اختلف العماءفی اصل الصلوۃ فقیل ہی الدعاءلاشتمالہا علیہ وہذا قول جماہیر اہل العربیۃ والفقہاءوغیرہم۔ ( نیل ) یعنی امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں کہا ہے کہ علماءنے صلوٰۃ کی اصل میں اختلاف کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ صلوٰۃ کی اصل حقیقت دعا ہے۔ جمہوراہل عرب اور فقہاءوغیرہم کا یہی قول ہے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: واشتقاقہا من الصلی یعنی یہ لفظ صلی سے مشتق ہے۔ صلی کسی ٹیڑھی لکڑی کو آگ میں تپاکر سیدھا کرنا۔ پس نمازی بھی اسی طرح نماز پڑھنے سے سیدھا ہو جاتا ہے اور جوشخص نماز کی آگ میں تپ کر سیدھا ہوگیا وہ اب دوزخ کی آگ میں داخل نہ کیا جائے گا۔ وہی صلۃ بین العبد وربہ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ملنے کا ایک ذریعہ ہے جو عبادات نفسانی اور بدنی طہارت اور سترعورت اور مال خرچ کرنے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے اور عبادت کے لیے بیٹھنے اور جوارح سے اظہار خشوع کرنے اور دل سے نیت کو خالص کرنے اور شیطان سے جہاد کرنے اور اللہ عزوجل سے مناجات کرنے اور قرآن شریف پڑھنے اور کلمہ شہادتین کو زبان پر لانے اور نفس کو جملہ پاک حلال چیزوں سے ہٹاکر ایک یادالٰہی پر لگادینے وغیرہ وغیرہ کا نام ہے۔ لغوی حیثیت سے صلوٰۃ دعا پر بولا گیا ہے اور شرعی طور پر کچھ اقوال و افعال ہیں جو تکبیر تحریمہ سے شروع کئے جاتے ہیں اور تسلیم یعنی سلام پھیرنے پر ختم ہوتے ہیں۔ بندوں کی صلوٰۃ اللہ کے سامنے جھکنا، نماز پڑھنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ اللہ کی عبادت کے ساتھ مومنین کے لیے دعائے استغفار کرنا اور اللہ پاک کی صلوٰۃ اپنی مخلوقات پر نظررحمت فرمانا۔ حدیث معراج میں آیا ہے کہ آپ جب ساتویں آسمان پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ذرا ٹھہریے آپ کا رب ابھی صلوٰۃ میں مصروف ہے یعنی اس صلوٰۃ میں جو اس کی شان کے لائق ہے۔
نماز ( عبادت ) ہر مذہب ہرشریعت ہردین میں تھی، اسلام نے اس کا ایک ایسا جامع مفید ترین طریقہ پیش کیا ہے کہ جس سے زیادہ بہتر اور جامع طریقہ ممکن نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کے بعد یہ اسلام کا اوّلین رکن ہے جسے قائم کرنا دین کو قائم اور جسے چھوڑدینا دین کی عمارت کو گرادینا ہے، نماز کے بے شمار فوائد ہیں جو اپنے اپنے مقامات پر بیان کئے جائیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔
حدیث نمبر : 349
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال " فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة، فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فأفرغه في صدري ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح. قال من هذا قال هذا جبريل. قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم. فقال أرسل إليه قال نعم. فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم. وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه، فأهل اليمين منهم أهل الجنة، والأسودة التي عن شماله أهل النار، فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها افتح. فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح". قال أنس فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ـ صلوات الله عليهم ـ ولم يثبت كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة. قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. فقلت من هذا قال هذا إدريس. ثم مررت بموسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح. قلت من هذا قال هذا موسى. ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح. قلت من هذا قال هذا عيسى. ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح. قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم". قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال النبي صلى الله عليه وسلم " ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام". قال ابن حزم وأنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم " ففرض الله على أمتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى فقال ما فرض الله لك على أمتك قلت فرض خمسين صلاة. قال فارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك. فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى قلت وضع شطرها. فقال راجع ربك، فإن أمتك لا تطيق، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إليه فقال ارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته. فقال هي خمس وهى خمسون، لا يبدل القول لدى. فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك. فقلت استحييت من ربي. ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها ألوان لا أدري ما هي، ثم أدخلت الجنة، فإذا فيها حبايل اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك".
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرئیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں۔ پھر جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسی علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرئیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی ( جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی ) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور ( ثواب میں ) پچاس ( کے برابر ) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرئیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔
تشریح : معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔ سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔ یہ شق صدردوبارہ ہے۔ ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔ دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔ جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ ( النجم: 18 ) آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔
سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔ فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔ آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔
حدیث نمبر : 350
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، قالت " فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في صلاة الحضر".
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔