• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کتاب الصلوٰۃ



باب : اس بارے میں کہ شب معراج میں نماز کس طرح فرض ہوئی؟

وقال ابن عباس حدثني أبو سفيان في حديث هرقل فقال يأمرنا ـ يعني النبي ـ صلى الله عليه وسلم بالصلاة والصدق والعفاف
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ہم سے ابوسفیان بن حرب نے بیان کیا حدیث ہرقل کے سلسلہ میں کہا کہ وہ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھنے، سچائی اختیار کرنے اور حرام سے بچے رہنے کا حکم دیتے ہیں۔

یعنی جب ہرقل شاہ روم نے ابوسفیان اور دوسرے کفارقریش کو جو تجارت کی غرض سے روم گئے ہوئے تھے، بلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں پوچھا توابوسفیان رضی اللہ عنہ نے مندرجہ بالاجواب دیا۔
تشریح : سیدالفقہاءوالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ مسائل طہارت بیان فرماچکے لہٰذا اب مسائل نماز کے لیے کتاب الصلوٰۃ کی ابتدا فرمائی۔ صلوٰۃ ہروہ عبادت ہے جو اللہ کی عظمت اور اس کی خشیت کے پیش نظر کی جائے۔ کائنات کی ہر مخلوق اللہ کی عبادت کرتی ہے جس پر لفظ صلوٰۃ ہی بولا گیا ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے کل قدعلم صلاتہ وتسبیحہ ( النور: 141 ) ہر مخلوق کو اپنے طریقے پر نماز پڑھنے اور اللہ کی تسبیح بیان کرنے کا طریقہ معلوم ہے۔ ایک آیت میں ہے وان من شئی الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقہون تسبیحہم الاسرائ: 44 ) ہرایک چیز اللہ کی تسبیح بیان کرتی ہے، لیکن اے انسانو! تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھ سکتے۔

قال النووی فی شرح مسلم اختلف العماءفی اصل الصلوۃ فقیل ہی الدعاءلاشتمالہا علیہ وہذا قول جماہیر اہل العربیۃ والفقہاءوغیرہم۔ ( نیل ) یعنی امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے شرح مسلم میں کہا ہے کہ علماءنے صلوٰۃ کی اصل میں اختلاف کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ صلوٰۃ کی اصل حقیقت دعا ہے۔ جمہوراہل عرب اور فقہاءوغیرہم کا یہی قول ہے۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: واشتقاقہا من الصلی یعنی یہ لفظ صلی سے مشتق ہے۔ صلی کسی ٹیڑھی لکڑی کو آگ میں تپاکر سیدھا کرنا۔ پس نمازی بھی اسی طرح نماز پڑھنے سے سیدھا ہو جاتا ہے اور جوشخص نماز کی آگ میں تپ کر سیدھا ہوگیا وہ اب دوزخ کی آگ میں داخل نہ کیا جائے گا۔ وہی صلۃ بین العبد وربہ یہ اللہ اور اس کے بندے کے درمیان ملنے کا ایک ذریعہ ہے جو عبادات نفسانی اور بدنی طہارت اور سترعورت اور مال خرچ کرنے اور کعبہ کی طرف متوجہ ہونے اور عبادت کے لیے بیٹھنے اور جوارح سے اظہار خشوع کرنے اور دل سے نیت کو خالص کرنے اور شیطان سے جہاد کرنے اور اللہ عزوجل سے مناجات کرنے اور قرآن شریف پڑھنے اور کلمہ شہادتین کو زبان پر لانے اور نفس کو جملہ پاک حلال چیزوں سے ہٹاکر ایک یادالٰہی پر لگادینے وغیرہ وغیرہ کا نام ہے۔ لغوی حیثیت سے صلوٰۃ دعا پر بولا گیا ہے اور شرعی طور پر کچھ اقوال و افعال ہیں جو تکبیر تحریمہ سے شروع کئے جاتے ہیں اور تسلیم یعنی سلام پھیرنے پر ختم ہوتے ہیں۔ بندوں کی صلوٰۃ اللہ کے سامنے جھکنا، نماز پڑھنا اور فرشتوں کی صلوٰۃ اللہ کی عبادت کے ساتھ مومنین کے لیے دعائے استغفار کرنا اور اللہ پاک کی صلوٰۃ اپنی مخلوقات پر نظررحمت فرمانا۔ حدیث معراج میں آیا ہے کہ آپ جب ساتویں آسمان پر تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ ذرا ٹھہریے آپ کا رب ابھی صلوٰۃ میں مصروف ہے یعنی اس صلوٰۃ میں جو اس کی شان کے لائق ہے۔

نماز ( عبادت ) ہر مذہب ہرشریعت ہردین میں تھی، اسلام نے اس کا ایک ایسا جامع مفید ترین طریقہ پیش کیا ہے کہ جس سے زیادہ بہتر اور جامع طریقہ ممکن نہیں ہے۔ کلمہ طیبہ کے بعد یہ اسلام کا اوّلین رکن ہے جسے قائم کرنا دین کو قائم اور جسے چھوڑدینا دین کی عمارت کو گرادینا ہے، نماز کے بے شمار فوائد ہیں جو اپنے اپنے مقامات پر بیان کئے جائیں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔

حدیث نمبر : 349
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن يونس، عن ابن شهاب، عن أنس بن مالك، قال كان أبو ذر يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ فرج عن سقف بيتي وأنا بمكة، فنزل جبريل ففرج صدري، ثم غسله بماء زمزم، ثم جاء بطست من ذهب ممتلئ حكمة وإيمانا، فأفرغه في صدري ثم أطبقه، ثم أخذ بيدي فعرج بي إلى السماء الدنيا، فلما جئت إلى السماء الدنيا قال جبريل لخازن السماء افتح‏.‏ قال من هذا قال هذا جبريل‏.‏ قال هل معك أحد قال نعم معي محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏ فقال أرسل إليه قال نعم‏.‏ فلما فتح علونا السماء الدنيا، فإذا رجل قاعد على يمينه أسودة وعلى يساره أسودة، إذا نظر قبل يمينه ضحك، وإذا نظر قبل يساره بكى، فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت لجبريل من هذا قال هذا آدم‏.‏ وهذه الأسودة عن يمينه وشماله نسم بنيه، فأهل اليمين منهم أهل الجنة، والأسودة التي عن شماله أهل النار، فإذا نظر عن يمينه ضحك، وإذا نظر قبل شماله بكى، حتى عرج بي إلى السماء الثانية فقال لخازنها افتح‏.‏ فقال له خازنها مثل ما قال الأول ففتح‏"‏‏. ‏ قال أنس فذكر أنه وجد في السموات آدم وإدريس وموسى وعيسى وإبراهيم ـ صلوات الله عليهم ـ ولم يثبت كيف منازلهم، غير أنه ذكر أنه وجد آدم في السماء الدنيا، وإبراهيم في السماء السادسة‏.‏ قال أنس فلما مر جبريل بالنبي صلى الله عليه وسلم بإدريس قال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ فقلت من هذا قال هذا إدريس‏.‏ ثم مررت بموسى فقال مرحبا بالنبي الصالح والأخ الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا موسى‏.‏ ثم مررت بعيسى فقال مرحبا بالأخ الصالح والنبي الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا عيسى‏.‏ ثم مررت بإبراهيم فقال مرحبا بالنبي الصالح والابن الصالح‏.‏ قلت من هذا قال هذا إبراهيم صلى الله عليه وسلم‏"‏‏. ‏ قال ابن شهاب فأخبرني ابن حزم أن ابن عباس وأبا حبة الأنصاري كانا يقولان قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ثم عرج بي حتى ظهرت لمستوى أسمع فيه صريف الأقلام‏"‏‏. ‏ قال ابن حزم وأنس بن مالك قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ ففرض الله على أمتي خمسين صلاة، فرجعت بذلك حتى مررت على موسى فقال ما فرض الله لك على أمتك قلت فرض خمسين صلاة‏.‏ قال فارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك‏.‏ فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إلى موسى قلت وضع شطرها‏.‏ فقال راجع ربك، فإن أمتك لا تطيق، فراجعت فوضع شطرها، فرجعت إليه فقال ارجع إلى ربك، فإن أمتك لا تطيق ذلك، فراجعته‏.‏ فقال هي خمس وهى خمسون، لا يبدل القول لدى‏.‏ فرجعت إلى موسى فقال راجع ربك‏.‏ فقلت استحييت من ربي‏.‏ ثم انطلق بي حتى انتهى بي إلى سدرة المنتهى، وغشيها ألوان لا أدري ما هي، ثم أدخلت الجنة، فإذا فيها حبايل اللؤلؤ، وإذا ترابها المسك‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے یونس کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے انس بن مالک سے، انھوں نے فرمایا کہ ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ یہ حدیث بیان کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے گھر کی چھت کھول دی گئی، اس وقت میں مکہ میں تھا۔ پھر جبرئیل علیہ السلام اترے اور انھوں نے میرا سینہ چاک کیا۔ پھر اسے زمزم کے پانی سے دھویا۔ پھر ایک سونے کا طشت لائے جو حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا تھا۔ اس کو میرے سینے میں رکھ دیا، پھر سینے کو جوڑ دیا، پھر میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے آسمان کی طرف لے کر چلے۔ جب میں پہلے آسمان پر پہنچا تو جبرئیل علیہ السلام نے آسمان کے داروغہ سے کہا کھولو۔ اس نے پوچھا، آپ کون ہیں؟ جواب دیا کہ جبرئیل، پھر انھوں نے پوچھا کیا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے؟ جواب دیا، ہاں میرے ساتھ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ انھوں نے پوچھا کہ کیا ان کے بلانے کے لیے آپ کو بھیجا گیا تھا؟ کہا، جی ہاں! پھر جب انھوں نے دروازہ کھولا تو ہم پہلے آسمان پر چڑھ گئے، وہاں ہم نے ایک شخص کو بیٹھے ہوئے دیکھا۔ ان کے داہنی طرف کچھ لوگوں کے جھنڈ تھے اور کچھ جھنڈ بائیں طرف تھے۔ جب وہ اپنی داہنی طرف دیکھتے تو مسکرا دیتے اور جب بائیں طرف نظر کرتے تو روتے۔ انھوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا، آؤ اچھے آئے ہو۔ صالح نبی اور صالح بیٹے! میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون ہیں؟ انھوں نے کہا کہ یہ آدم علیہ السلام ہیں اور ان کے دائیں بائیں جو جھنڈ ہیں یہ ان کے بیٹوں کی روحیں ہیں۔ جو جھنڈ دائیں طرف ہیں وہ جنتی ہیں اور بائیں طرف کے جھنڈ دوزخی روحیں ہیں۔ اس لیے جب وہ اپنے دائیں طرف دیکھتے ہیں تو خوشی سے مسکراتے ہیں اور جب بائیں طرف دیکھتے ہیں تو ( رنج سے ) روتے ہیں۔ پھر جبرئیل مجھے لے کر دوسرے آسمان تک پہنچے اور اس کے داروغہ سے کہا کہ کھولو۔ اس آسمان کے داروغہ نے بھی پہلے کی طرح پوچھا پھر کھول دیا۔ حضرت انس نے کہا کہ ابوذر نے ذکر کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان پر آدم، ادریس، موسیٰ، عیسیٰ اور ابراہیم علیہم السلام کو موجود پایا۔ اور ابوذر رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا ٹھکانہ نہیں بیان کیا۔ البتہ اتنا بیان کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت آدم کو پہلے آسمان پر پایا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو چھٹے آسمان پر۔ انس نے بیان کیا کہ جب جبرئیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ادریس علیہ السلام پر گزرے۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جواب دیا کہ یہ ادریس علیہ السلام ہیں۔ پھر موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ موسیٰ علیہ السلام ہیں۔ پھر میں عیسیٰ علیہ السلام تک پہنچا، انھوں نے کہا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بھائی۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ عیسی علیہ السلام ہیں۔ پھر میں ابراہیم علیہ السلام تک پہنچا۔ انھوں نے فرمایا آؤ اچھے آئے ہو صالح نبی اور صالح بیٹے۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ جبرئیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں۔ ابن شہاب نے کہا کہ مجھے ابوبکر بن حزم نے خبر دی کہ عبداللہ بن عباس اور ابوحبۃ الانصاری رضی اللہ عنہم کہا کرتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پھر مجھے جبرئیل علیہ السلام لے کر چڑھے، اب میں اس بلند مقام تک پہنچ گیا جہاں میں نے قلم کی آواز سنی ( جو لکھنے والے فرشتوں کی قلموں کی آواز تھی ) ابن حزم نے ( اپنے شیخ سے ) اور انس بن مالک نے ابوذر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ پس اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ میں یہ حکم لے کر واپس لوٹا۔ جب موسیٰ علیہ السلام تک پہنچا تو انھوں نے پوچھا کہ آپ کی امت پر اللہ نے کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا کہ پچاس وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ انھوں نے فرمایا آپ واپس اپنے رب کی بارگاہ میں جائیے۔ کیونکہ آپ کی امت اتنی نمازوں کو ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی ہے۔ میں واپس بارگاہ رب العزت میں گیا تو اللہ نے اس میں سے ایک حصہ کم کر دیا، پھر موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا اور کہا کہ ایک حصہ کم کر دیا گیا ہے، انھوں نے کہا کہ دوبارہ جائیے کیونکہ آپ کی امت میں اس کے برداشت کی بھی طاقت نہیں ہے۔ پھر میں بارگاہ رب العزت میں حاضر ہوا۔ پھر ایک حصہ کم ہوا۔ جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس پہنچا تو انھوں نے فرمایا کہ اپنے رب کی بارگاہ میں پھر جائیے، کیونکہ آپ کی امت اس کو بھی برداشت نہ کر سکے گی، پھر میں بار بار آیا گیا پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ نمازیں ( عمل میں ) پانچ ہیں اور ( ثواب میں ) پچاس ( کے برابر ) ہیں۔ میری بات بدلی نہیں جاتی۔ اب میں موسیٰ علیہ السلام کے پاس آیا تو انھوں نے پھر کہا کہ اپنے رب کے پاس جائیے۔ لیکن میں نے کہا مجھے اب اپنے رب سے شرم آتی ہے۔ پھر جبرئیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانک رکھا تھا۔ جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔ اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا، میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔

تشریح : معراج کا واقعہ قرآن مجید کی سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ نجم کے شروع میں بیان ہوا ہے اور احادیث میں اس کثرت کے ساتھ اس کا ذکر ہے کہ اسے تواتر کا درجہ دیا جا سکتا ہے۔ سلف امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کومعراج جاگتے میں بدن اور روح ہر دو کے ساتھ ہوا۔ سینہ مبارک کا چاک کرکے آبِ زمزم سے دھوکر حکمت اور ایمان سے بھرکر آپ کوعالم ملکوت کی سیر کرنے کے قابل بنادیاگیا۔ یہ شق صدردوبارہ ہے۔ ایک بارپہلے حالت رضاعت میں بھی آپ کا سینہ چاک کرکے علم وحکمت و انوارِ تجلیات سے بھردیاگیا تھا۔ دوسری روایات کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے آسمان پر حضرت آدم علیہ السلام سے، دوسرے آسمان پر حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام سے، تیسرے پر حضرت یوسف علیہ السلام سے، چوتھے پر حضرت ادریس علیہ السلام سے اور پانچویں آسمان پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام سے اور ساتویں پر سیدنا حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام سے ملاقات فرمائی۔ جب آپ مقام اعلیٰ پر پہنچ گئے، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں فرشتوں کی قلموں کی آوازیں سنیں اور مطابق آیت شریفہ لقدرای من آیات ربہ الکبریٰ ( النجم: 18 ) آپ نے ملااعلیٰ میں بہت سی چیزیں دیکھیں، وہاں اللہ پاک نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت پر پچاس وقت کی نمازیں فرض کیں۔ پھر آپ کے نوبارآنے جانے کے صدقے میں صرف پنچ وقت نماز باقی رہ گئی، مگرثواب میں وہ پچاس کے برابر ہیں۔ ترجمہ باب یہیں سے نکلتا ہے کہ نماز معراج کی رات میں اس تفصیل کے ساتھ فرض ہوئی۔

سدرۃ المنتہیٰ ساتویں آسمان پر ایک بیری کا درخت ہے جس کی جڑیں چھٹے آسمان تک ہیں۔ فرشتے وہیں تک جاسکتے ہیں آگے جانے کی ان کو بھی مجال نہیں ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ منتہیٰ اس کو اس لیے کہتے ہیں کہ اوپر سے جو احکام آتے ہیں وہ وہاں آکر ٹھہرجاتے ہیں اور نیچے سے جو کچھ جاتا ہے وہ بھی اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔
معراج کی اور تفصیلات اپنے مقام پر بیان کی جائیں گی۔ آسمانوں کا وجود ہے جس پر جملہ کتب سماویہ اور تمام انبیاءکرام کا اتفاق ہے، مگر اس کی کیفیت اور حقیقت اللہ ہی بہترجانتا ہے۔ جس قدر بتلادیا گیا ہے اس پر ایمان لانا ضروری ہے اور فلاسفہ وملاحدہ اور آج کل کے سائنس والے جو آسمان کا انکار کرتے ہیں۔ ان کے قول باطل پر ہرگز کان نہ لگانے چاہئیں۔

حدیث نمبر : 350
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن صالح بن كيسان، عن عروة بن الزبير، عن عائشة أم المؤمنين، قالت ‏"‏ فرض الله الصلاة حين فرضها ركعتين ركعتين في الحضر والسفر، فأقرت صلاة السفر، وزيد في صلاة الحضر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں خبر دی امام مالک نے صالح بن کیسان سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز میں دو دو رکعت فرض کی تھی۔ سفر میں بھی اور اقامت کی حالت میں بھی۔ پھر سفر کی نماز تو اپنی اصلی حالت پر باقی رکھی گئی اور حالت اقامت کی نمازوں میں زیادتی کر دی گئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ کپڑے پہن کرنماز پڑھنا واجب ہے

وقول الله تعالى ‏{‏خذوا زينتكم عند كل مسجد‏}‏‏.‏ ومن صلى ملتحفا في ثوب واحد، ويذكر عن سلمة بن الأكوع أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ يزره ولو بشوكة‏"‏‏. ‏ في إسناده نظر، ومن صلى في الثوب الذي يجامع فيه ما لم ير أذى، وأمر النبي صلى الله عليه وسلم أن لا يطوف بالبيت عريان‏.‏

( سورہ اعراف میں ) اللہ عزوجل کا حکم ہے کہ تم کپڑے پہنا کرو ہر نماز کے وقت اور جو ایک ہی کپڑے بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھے ( اس نے بھی فرض ادا کر لیا ) اور سلمہ بن اکوع سے منقول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( اگر ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھے تو ) اپنے کپڑے کو ٹانک لے اگرچہ کانٹے ہی سے ٹانکنا پڑے، اس کی سند میں گفتگو ہے اور وہ شخص جو اسی کپڑے سے نماز پڑھتا ہے جسے پہن کر وہ جماع کرتا ہے ( تو نماز درست ہے ) جب تک وہ اس میں کوئی گندگی نہ دیکھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ کوئی ننگا بیت اللہ کا طواف نہ کرے۔

تشریح : آیت شریفہ خذوا زینتکم الخ میں مسجد سے مراد نماز ہے۔ بقول حضرت عبداللہ بن عباس ایک عورت خانہ کعبہ کا ننگی ہوکر طواف کررہی تھی کہ یہ آیت شریفہ ناز ل ہوئی۔ مشرکین مکہ بھی عموماً طواف کعبہ ننگے ہوکر کیا کرتے تھے۔ اسلام نے اس حرکت سے سختی کے ساتھ روکا۔ اور نماز کے لیے مساجد میں آتے وقت کپڑے پہننے کا حکم فرمایا خذوا زینتکم میں زینت سے ستر پوشی ہی مراد ہے جیسا کہ مشہور مفسر قرآن مجاہد نے اس بارے میں امت کا اجماع واتفاق نقل کیا ہے۔ لفظ زینت میں بڑی وسعت ہے جس کا مفہوم یہ کہ مسجد خدا کا دربارہے اس میں ہرممکن وجائز زیب و زینت کے ساتھ اس نیت سے داخل ہونا کہ میں اللہ احکم الحاکمین بادشاہوں کے بادشاہ رب العالمین کے دربار میں داخل ہورہاہوں، عین آداب دربار خداوندی میں داخل ہے۔ یہ بات علیحدہ ہے کہ اگرصرف ایک ہی کپڑے میں نماز ادا کرلی جائے بشرطیکہ اس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوتو یہ بھی جائز ودرست ہے۔ ایسے ایک کپڑے کو ٹانک لینے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دونوں کنارے ملاکراسے اٹکائے۔ اگرگھنڈی تکمہ نہ ہو توکانٹے یاپن سے اٹکالے تاکہ کپڑا سامنے سے کھلنے نہ پائے اور شرمگاہ چھپی رہے۔ سلمہ بن اکوع کی روایت ابوداؤد اور ابن خزیمہ اور ابن حبان میں ہے۔ اس کی سند میں اضطراب ہے، اسی لیے حضرت امام اسے اپنی صحیح میں نہیں لائے ومن صلی فی الثوب الذی الخ ایک طویل حدیث میں وارد ہے جسے ابوداؤد اور نسائی نے نکالا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس کپڑے کو پہن کر صحبت کرتے اگر اس میں کچھ پلیدی نہ پاتے تو اسی میں نماز پڑھ لیتے تھے۔ اور حدیث ان لا یطوف فی البیت عریان کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ اس سے مقصد یہ ثابت کرنا ہے کہ جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تونماز بطریقِ اولیٰ منع ہے۔

حدیث نمبر : 351
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا يزيد بن إبراهيم، عن محمد، عن أم عطية، قالت أمرنا أن نخرج، الحيض يوم العيدين وذوات الخدور، فيشهدن جماعة المسلمين ودعوتهم، ويعتزل الحيض عن مصلاهن‏.‏ قالت امرأة يا رسول الله، إحدانا ليس لها جلباب‏.‏ قال ‏"‏ لتلبسها صاحبتها من جلبابها‏"‏‏. ‏ وقال عبد الله بن رجاء حدثنا عمران، حدثنا محمد بن سيرين، حدثتنا أم عطية، سمعت النبي صلى الله عليه وسلم بهذا‏.‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن ابراہیم نے بیان کیا، وہ محمد سے، وہ ام عطیہ سے، انھوں نے فرمایا کہ ہمیں حکم ہوا کہ ہم عیدین کے دن حائضہ اور پردہ نشین عورتوں کو بھی باہر لے جائیں۔ تا کہ وہ مسلمانوں کے اجتماع اور ان کی دعاؤں میں شریک ہو سکیں۔ البتہ حائضہ عورتوں کو نماز پڑھنے کی جگہ سے دور رکھیں۔ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ! ہم میں بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کے پاس ( پردہ کرنے کے لیے ) چادر نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا کہ اس کی ساتھی عورت اپنی چادر کا ایک حصہ اسے اڑھا دے۔ اور عبداللہ بن رجاء نے کہا ہم سے عمران قطان نے بیان کیا، کہا ہم سے محمد بن سیرین نے، کہا ہم سے ام عطیہ نے، میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اور یہی حدیث بیان کی۔

تشریح : ترجمہ باب حدیث کے الفاظ لتلبسہا صاحبتہا من جلبابہا ( جس عورت کے پاس کپڑا نہ ہو اس کی ساتھ والی عورت کو چاہئیے کہ اپنی چادر ہی کا کوئی حصہ اسے بھی اڑھا دے ) سے نکلتا ہے۔ مقصد یہ کہ مساجد میں جاتے وقت، عیدگاہ میں حاضری کے وقت، نماز پڑھتے وقت اتنا کپڑا ضرور ہونا چاہئیے جس سے مرد وعورت اپنی اپنی حیثیت میں ستر پوشی کرسکیں۔ اس حدیث سے بھی عورتوں کا عیدگاہ جانا ثابت ہوا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے سند میں عبداللہ بن رجاء کو لاکر اس شخص کا رد کیا جس نے کہا کہ محمد بن سیرین نے یہ حدیث ام عطیہ سے نہیں سنی بلکہ اپنی بہن حفصہ سے، انھوں نے ام عطیہ سے۔ اسے طبرانی نے معجم کبیر میں وصل کیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز میں گدی پر تہبند باندھنے کے بیان میں

وقال أبو حازم عن سهل صلوا مع النبي صلى الله عليه وسلم عاقدي أزرهم على عواتقهم‏.‏
اور ابوحازم سلمہ بن دینار نے سہل بن سعد سے روایت کرتے ہوئے کہا کہ لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی تہبند کندھوں پر باندھ کر نماز پڑھی۔
حدیث نمبر : 352
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا عاصم بن محمد، قال حدثني واقد بن محمد، عن محمد بن المنكدر، قال صلى جابر في إزار قد عقده من قبل قفاه، وثيابه موضوعة على المشجب قال له قائل تصلي في إزار واحد فقال إنما صنعت ذلك ليراني أحمق مثلك، وأينا كان له ثوبان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے واقد بن محمد نے محمد بن منکدر کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے تہبند باندھ کر نماز پڑھی۔ جسے انھوں نے سر تک باندھ رکھا تھا اور آپ کے کپڑے کھونٹی پر ٹنگے ہوئے تھے۔ ایک کہنے والے نے کہا کہ آپ ایک تہبند میں نماز پڑھتے ہیں؟ آپ نے جواب دیا کہ میں نے ایسا اس لیے کیا کہ تجھ جیسا کوئی احمق مجھے دیکھے۔ بھلا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو کپڑے بھی کس کے پاس تھے؟

حدیث نمبر : 353
حدثنا مطرف أبو مصعب، قال حدثنا عبد الرحمن بن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، قال رأيت جابر بن عبد الله يصلي في ثوب واحد وقال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في ثوب‏.‏
ہم سے ابومصعب بن عبداللہ مطرف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرحمن بن ابی الموالی نے بیان کیا، انھوں نے محمد بن منکدر سے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا اور انھوں نے بتلایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔

اس حدیث کا ظاہر میں اس باب سے کوئی تعلق نہیں معلوم ہوتا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسے یہاں اس لیے نقل کیا کہ اگلی روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا صاف مذکور نہ تھا، اس میں صاف صاف مذکور ہے۔
تشریح : رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اکثر لوگوں کے پاس ایک ہی کپڑا ہوتا تھا، اسی میں وہ ستر پوشی کرکے نماز پڑھتے۔ حضرت جابررضی اللہ عنہ نے کپڑے موجود ہونے کے باجود اسی لیے ایک کپڑے میں نماز ادا کی تاکہ لوگوں کو اس کا بھی جواز معلوم ہوجائے۔ بہت سے دیہات میں خاص طور پر خانہ بدوش قبائل میں ایسے لوگ اب بھی مل سکتے ہیں جوسرسے پیرتک صرف ایک ہی چادر یا کمبل کا تہبند وکرتا بنالیتے ہیں اور اسی سے ستر پوشی کرلیتے ہیں۔ اسلام میں ادائے نماز کے لیے ایسے سب لوگوں کے لیے گنجائش رکھی گئی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ صرف ایک کپڑے کو بدن پر لپیٹ کر نماز پڑھنا جائز و درست ہے

قال الزهري في حديثه الملتحف المتوشح، وهو المخالف بين طرفيه على عاتقيه، وهو الاشتمال على منكبيه‏.‏ قال وقالت أم هانئ التحف النبي صلى الله عليه وسلم بثوب، وخالف بين طرفيه على عاتقيه‏.‏ امام زہری نے اپنی حدیث میں کہا کہ ملتحف متوشح کو کہتے ہیں۔ جو اپنی چادر کے ایک حصے کو دوسرے کاندھے پر اور دوسرے حصے کو پہلے کاندھے پر ڈال لے اور وہ دونوں کاندھوں کو ( چادر سے ) ڈھانک لیتا ہے۔ ام ہانی نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر اوڑھی اور اس کے دونوں کناروں کو اس سے مخالف طرف کے کاندھے پر ڈالا۔

حدیث نمبر : 354
حدثنا عبيد الله بن موسى، قال حدثنا هشام بن عروة، عن أبيه، عن عمر بن أبي سلمة، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في ثوب واحد قد خالف بين طرفيه‏.‏
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے والد کے حوالہ سے بیان کیا، وہ عمر بن ابی سلمہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں نماز پڑھی اور آپ نے کپڑے کے دونوں کناروں کو مخالف طرف کے کاندھے پر ڈال لیا۔

حدیث نمبر : .355
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا هشام، قال حدثني أبي، عن عمر بن أبي سلمة، أنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في ثوب واحد في بيت أم سلمة، قد ألقى طرفيه على عاتقيه‏.‏
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے عمر بن ابی سلمہ سے نقل کر کے بیان کیا کہ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ام سلمہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا، کپڑے کے دونوں کناروں کو آپ نے دونوں کاندھوں پر ڈال رکھا تھا۔

حدیث نمبر : 356
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، أن عمر بن أبي سلمة، أخبره قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي في ثوب واحد مشتملا به في بيت أم سلمة، واضعا طرفيه على عاتقيه‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطے سے بیان کیا، وہ اپنے والد سے جن کو عمر بن ابی سلمہ نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے گھر میں ایک کپڑے میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ آپ اسے لپیٹے ہوئے تھے اور اس کے دونوں کناروں کو دونوں کاندھوں پر ڈالے ہوئے تھے

حدیث نمبر : 357
حدثنا إسماعيل بن أبي أويس، قال حدثني مالك بن أنس، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله أن أبا مرة، مولى أم هانئ بنت أبي طالب أخبره أنه، سمع أم هانئ بنت أبي طالب، تقول ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح، فوجدته يغتسل، وفاطمة ابنته تستره قالت فسلمت عليه فقال ‏"‏ من هذه‏"‏‏. ‏ فقلت أنا أم هانئ بنت أبي طالب‏.‏ فقال ‏"‏ مرحبا بأم هانئ‏"‏‏. ‏ فلما فرغ من غسله، قام فصلى ثماني ركعات، ملتحفا في ثوب واحد، فلما انصرف قلت يا رسول الله، زعم ابن أمي أنه قاتل رجلا قد أجرته فلان بن هبيرة‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قد أجرنا من أجرت يا أم هانئ‏"‏‏. ‏ قالت أم هانئ وذاك ضحى‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہا مجھ سے امام مالک بن انس نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن امیہ سے کہ ام ہانی بنت ابی طالب کے غلام ابومرہ یزید نے بیان کیا کہ انھوں نے ام ہانی بنت ابی طالب سے یہ سنا۔ وہ فرماتی تھیں کہ میں فتح مکہ کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ میں نے دیکھا کہ آپ غسل کر رہے ہیں اور آپ کی صاحبزادی فاطمہ رضی اللہ عنہ پردہ کئے ہوئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ نے پوچھا کہ کون ہے؟ میں نے بتایا کہ ام ہانی بنت ابی طالب ہوں۔ آپ نے فرمایا اچھی آئی ہو، ام ہانی۔ پھر جب آپ نہانے سے فارغ ہو گئے تو اٹھے اور آٹھ رکعت نماز پڑھی، ایک ہی کپڑے میں لپٹ کر۔ جب آپ نماز پڑھ چکے تو میں نے عرض کی کہ یا رسول اللہ! میرے ماں کے بیٹے ( حضرت علی بن ابی طالب ) کا دعویٰ ہے کہ وہ ایک شخص کو ضرور قتل کرے گا۔ حالانکہ میں نے اسے پناہ دے رکھی ہے۔ یہ ( میرے خاوند ) ہبیرہ کا فلاں بیٹا ہے۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ام ہانی جسے تم نے پناہ دے دی، ہم نے بھی اسے پناہ دی۔ ام ہانی نے کہا کہ یہ نماز چاشت تھی۔

تشریح : حضرت علی رضی اللہ عنہ ام ہانی کے سگے بھائی تھے۔ ایک باپ ایک ماں۔ ان کو ماں کا بیٹا اس لیے کہا کہ مادری بھائی بہن ایک دوسرے پر بہت مہربان ہوتے ہیں۔ گویا ام ہانی یہ ظاہر کررہی ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ میرے سگے بھائی ہونے کے باوجود مجھ پر مہربانی نہیں کرتے۔ ہبیرہ کا بیٹا جعدہ نامی تھا جو ابھی بہت چھوٹا تھا۔ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ مارنے کا ارادہ کیوں کرتے۔ ابن ہشام نے کہا ام ہانی نے حارث بن ہشام اور زہیربن ابی امیہ یاعبداللہ بن ربیعہ کو پناہ دی تھی۔ یہ لوگ ہبیرہ کے چچا زاد بھائی تھے۔ شاید فلاں بن ہبیرہ میں راوی کو بھول سے عم کا لفظ چھوٹ گیا ہے یعنی دراصل فلاں بن عم ہبیرہ ہے۔

ہبیرہ بن ابی وہب بن عمرو مخزومی ام ہانی بنت ابی طالب کے خاوند ہیں جن کی اولاد میں ایک بچے کا نام ہانی بھی ہے جن کی کنیت سے اس خاتون کو ام ہانی سے پکارا گیا۔ ہبیرہ حالت شرک ہی میں مرگئے۔ ان کا ایک بچہ جعدہ نامی بھی تھا جو ام ہانی ہی کے بطن سے ہے جن کا اوپر ذکر ہوا، فتح مکہ کے دن ام ہانی نے ان ہی کو پناہ دی تھی۔ ان کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی پناہ کو قبول فرمایا، آپ اس وقت چاشت کی نماز پڑھ رہے تھے۔ بعض کے نزدیک یہ فتح مکہ پر شکریہ کی نماز تھی۔

حدیث نمبر : 358
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن سائلا، سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الصلاة في ثوب واحد فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أولكلكم ثوبان‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے ابن شہاب کے حوالہ سے خبر دی، وہ سعید بن مسیب سے نقل کرتے ہیں، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک پوچھنے والے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( کچھ برا نہیں ) بھلا کیا تم سب میں ہر شخص کے پاس دو کپڑے ہیں؟

ایک ہی کپڑا جس سے ستر پوشی ہوسکے اس میں نماز جائزو درست ہے۔ جمہورامت کا یہی فتویٰ ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایک کپڑے میں کو ئی نماز پڑھے تو اس کو مونڈھوں پر ڈالے

حدیث نمبر : 359
حدثنا أبو عاصم، عن مالك، عن أبي الزناد، عن عبد الرحمن الأعرج، عن أبي هريرة، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يصلي أحدكم في الثوب الواحد، ليس على عاتقيه شىء‏"‏‏. ‏
ہم سے ابوعاصم ضحاک بن مخلد نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوالزناد سے، انھوں نے عبدالرحمن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی شخص کو بھی ایک کپڑے میں نماز اس طرح نہ پڑھنی چاہیے کہ اس کے کندھوں پر کچھ نہ ہو۔

حدیث نمبر : 360
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا شيبان، عن يحيى بن أبي كثير، عن عكرمة، قال سمعته ـ أو، كنت سألته ـ قال سمعت أبا هريرة، يقول أشهد أني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من صلى في ثوب واحد، فليخالف بين طرفيه‏"‏‏. ‏
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبان بن عبدالرحمن نے یحییٰ بن ابی کثیر کے واسطہ سے، انھوں نے عکرمہ سے، یحییٰ نے کہا میں نے عکرمہ سے سنایا میں نے ان سے پوچھا تھا تو عکرمہ نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ فرماتے تھے۔ میں اس کی گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے یہ ارشاد فرماتے سنا تھا کہ جو شخص ایک کپڑے میں نماز پڑھے اسے کپڑے کے دونوں کناروں کو اس کے مخالف سمت کے کندھے پر ڈال لینا چاہیے۔

التحاف اور توشیح اور اشتمال سب کے ایک ہی معنی ہیں یعنی کپڑے کا وہ کنارہ جو دائیں مونڈھے پر ہو اس کو بائیں ہاتھ کی بغل سے اور جو بائیں مونڈھے پر ڈالا ہو اس کو داہنے ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر دونوں کناروں کو ملا کر سینے پر باندھ لینا، یہاں بھی مخالف سمت کندھے سے یہی مراد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کپڑا تنگ ہو تو کیا کیا جائے؟

حدیث نمبر : 361
حدثنا يحيى بن صالح، قال حدثنا فليح بن سليمان، عن سعيد بن الحارث، قال سألنا جابر بن عبد الله عن الصلاة، في الثوب الواحد فقال خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم في بعض أسفاره، فجئت ليلة لبعض أمري، فوجدته يصلي وعلى ثوب واحد، فاشتملت به وصليت إلى جانبه، فلما انصرف قال ‏"‏ ما السرى يا جابر‏"‏‏. ‏ فأخبرته بحاجتي، فلما فرغت قال ‏"‏ ما هذا الاشتمال الذي رأيت‏"‏‏. ‏ قلت كان ثوب‏.‏ يعني ضاق‏.‏ قال ‏"‏ فإن كان واسعا فالتحف به، وإن كان ضيقا فاتزر به‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، وہ سعید بن حارث سے، کہا ہم نے جابر بن عبداللہ سے ایک کپڑے میں نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ تو آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر ( غزوہ بواط ) میں گیا۔ ایک رات میں کسی ضرورت کی وجہ سے آپ کے پاس آیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں مشغول ہیں، اس وقت میرے بدن پر صرف ایک ہی کپڑا تھا۔ اس لیے میں نے اسے لپیٹ لیا اور آپ کے بازو میں ہو کر میں بھی نماز میں شریک ہو گیا۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو دریافت فرمایا جابر اس رات کے وقت کیسے آئے؟ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی ضرورت کے متعلق کہا۔ میں جب فارغ ہو گیا تو آپ نے پوچھا کہ یہ تم نے کیا لپیٹ رکھا تھا جسے میں نے دیکھا۔ میں نے عرض کی کہ ( ایک ہی ) کپڑا تھا ( اس طرح نہ لپیٹتا تو کیا کرتا ) آپ نے فرمایا کہ اگر وہ کشادہ ہو تو اسے اچھی طرح لپیٹ لیا کر اور اگر تنگ ہو تو اس کو تہبند کے طور پر باندھ لیا کر۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر پر اس وجہ سے انکار فرمایاکہ انھوں نے کپڑے کو سارے بدن پر اس طرح سے لپیٹ رکھا ہوگا کہ ہاتھ وغیرہ سب اندر بند ہوگئے ہوں گے اسی کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا اسی کو اشتمال صماءکہتے ہیں، مسلم کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑا تنگ تھا اور جابر نے اس کے دونوں کناروں میں مخالفت کی تھی اور نماز میں ایک جانب جھکے ہوئے تھے تاکہ ستر نہ کھلے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بتلایا کہ یہ صورت جب ہے جب کپڑا فراخ ہو اگر تنگ ہو تو صرف تہبند کرلینا چاہئیے۔

حدیث نمبر : 362
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن سفيان، قال حدثني أبو حازم، عن سهل، قال كان رجال يصلون مع النبي صلى الله عليه وسلم عاقدي أزرهم على أعناقهم كهيئة الصبيان، وقال للنساء لا ترفعن رءوسكن حتى يستوي الرجال جلوسا‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے، انھوں نے سفیان ثوری سے، انھوں نے کہا مجھ سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا سہل بن سعد ساعدی سے، انھوں نے کہا کہ کئی آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بچوں کی طرح اپنی گردنوں پر ازاریں باندھے ہوئے نماز پڑھتے تھے اور عورتوں کو ( آپ کے زمانے میں ) حکم تھا کہ اپنے سروں کو ( سجدے سے ) اس وقت تک نہ اٹھائیں جب تک مرد سیدھے ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔

کیونکہ مردوں کے بیٹھ جانے سے پہلے سراٹھانے میں کہیں عورتوں کی نظر مردوں کے ستر پر نہ پڑجائے۔ اسی لیے عورتوں کو پہلے سراٹھانے سے منع فرمایا۔ اس زمانہ میں عورتیں بھی مردوں کے ساتھ نمازوں میں شریک ہوتی تھیں اور مردوں کا لباس بھی اسی قسم کا ہوتا تھا۔ آج کل یہ صورتیں نہیں ہیں پھر عورتوں کے لیے اب عیدگاہ میں بھی پر دے کا بہترین انتظام کردیا جاتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : شام کے بنے ہوئے چغہ میں نماز پڑھنے کے بیا ن میں

وقال الحسن في الثياب ينسجها المجوسي لم ير بها بأسا‏.‏ وقال معمر رأيت الزهري يلبس من ثياب اليمن ما صبغ بالبول‏.‏ وصلى علي في ثوب غير مقصور‏.‏ امام حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جن کپڑوں کو پارسی بنتے ہیں اس کو استعمال کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ معمر بن راشد نے فرمایا کہ میں نے ابن شہاب زہری کو یمن کے ان کپڑوں کو پہنے دیکھا جو ( حلال جانوروں کے ) پیشاب سے رنگے جاتے تھے اور علی بن ابی طالب نے نئے بغیر دھلے کپڑے پہن کر نماز پڑھی۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کامقصد یہ ہے کہ کافروں کے بنائے ہوئے کپڑے پہن کر نماز پڑھنی درست ہے جب تک ان کی ظاہری نجاست کا یقین نہ ہو۔ حافظ نے کہا کہ شام میں ان دنوں کافروں کی حکومت تھی اور وہاں سے مختلف اقسام کے کپڑے یہاں مدینہ میں آیا کرتے تھے، اس لیے ان مسائل کے بیان کی ضرورت ہوئی۔ پیشاب سے حلال جانوروں کا پیشاب مراد ہے۔ جس کو رنگائی کے مصالحوں میں ڈالا جاتا تھا۔

حدیث نمبر : 363
حدثنا يحيى، قال حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن مغيرة بن شعبة، قال كنت مع النبي صلى الله عليه وسلم في سفر فقال ‏"‏ يا مغيرة، خذ الإداوة‏"‏‏. ‏ فأخذتها فانطلق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى توارى عني فقضى حاجته، وعليه جبة شأمية، فذهب ليخرج يده من كمها فضاقت، فأخرج يده من أسفلها، فصببت عليه فتوضأ وضوءه للصلاة، ومسح على خفيه، ثم صلى‏.‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ سے، آپ نے فرمایا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر ( غزوہ تبوک ) میں تھا۔ آپ نے ایک موقع پر فرمایا۔ مغیرہ! پانی کی چھاگل اٹھا لے۔ میں نے اسے اٹھا لیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چلے اور میری نظروں سے چھپ گئے۔ آپ نے قضائے حاجت کی۔ اس وقت آپ شامی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ ہاتھ کھولنے کے لیے آستین اوپر چڑھانی چاہتے تھے لیکن وہ تنگ تھی اس لیے آستین کے اندر سے ہاتھ باہر نکالا۔ میں نے آپ کے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح وضو کیا اور اپنے خفین پر مسح کیا۔ پھر نماز پڑھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ( بے ضرورت ) ننگا ہونے کی کراہیت نماز میں ہو ( یا اور کسی حال میں )

حدیث نمبر : 364
حدثنا مطر بن الفضل، قال حدثنا روح، قال حدثنا زكرياء بن إسحاق، حدثنا عمرو بن دينار، قال سمعت جابر بن عبد الله، يحدث أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينقل معهم الحجارة للكعبة وعليه إزاره‏.‏ فقال له العباس عمه يا ابن أخي، لو حللت إزارك فجعلت على منكبيك دون الحجارة‏.‏ قال فحله فجعله على منكبيه، فسقط مغشيا عليه، فما رئي بعد ذلك عريانا صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مطر بن فضل نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے زکریا بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، انھوں نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہما سے سنا، وہ بیان کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( نبوت سے پہلے ) کعبہ کے لیے قریش کے ساتھ پتھر ڈھو رہے تھے۔ اس وقت آپ تہبند باندھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس نے کہا کہ بھتیجے کیوں نہیں تم تہبند کھول لیتے اور اسے پتھر کے نیچے اپنے کاندھ پر رکھ لیتے ( تا کہ تم پر آسانی ہو جائے ) حضرت جابر نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تہبند کھول لیا اور کاندھے پر رکھ لیا۔ اسی وقت غشی کھا کر گر پڑے۔ اس کے بعد آپ کبھی ننگے نہیں دیکھے گئے۔ ( صلی اللہ علیہ وسلم )

تشریح : اللہ پاک نے آپ کو بچپن ہی سے بے شرمی اور جملہ برائیوں سے بچایاتھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج اقدس میں کنواری عورتوں سے بھی زیادہ شرم تھی۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ واقعہ سنا اور نقل کیا، ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ ایک فرشتہ اترا اور اس نے فوراً آپ کا تہبند باندھ دیا۔ ( ارشادالساری )

ایمان کے بعد سب سے بڑا فریضہ ستر پوشی کا ہے، جو نماز کے لیے ایک ضروری شرط ہے۔ میاں بیوی کا ایک دوسرے کے سامنے بے پردہ ہوجانا امردیگرہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قمیص اور پاجامہ اور جانگیا اور قبا ( چغہ ) پہن کر نماز پڑھنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 365
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن أيوب، عن محمد، عن أبي هريرة، قال قام رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فسأله عن الصلاة في الثوب الواحد فقال ‏"‏ أوكلكم يجد ثوبين‏"‏‏. ‏ ثم سأل رجل عمر فقال إذا وسع الله فأوسعوا، جمع رجل عليه ثيابه، صلى رجل في إزار ورداء، في إزار وقميص، في إزار وقباء، في سراويل ورداء، في سراويل وقميص، في سراويل وقباء، في تبان وقباء، في تبان وقميص ـ قال وأحسبه قال ـ في تبان ورداء‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہ کہا ہم سے حماد بن زید نے ایوب کے واسطہ سے، انھوں نے محمد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا اور اس نے صرف ایک کپڑا پہن کر نماز پڑھنے کے بارے میں سوال کیا۔ آپ نے فرمایا کہ کیا تم سب ہی لوگوں کے پاس دو کپڑے ہو سکتے ہیں؟ پھر ( یہی مسئلہ ) حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ایک شخص نے پوچھا تو انھوں نے کہا جب اللہ تعالیٰ نے تمہیں فراغت دی تو تم بھی فراغت کے ساتھ رہو۔ آدمی کو چاہیے کہ نماز میں اپنے کپڑے اکٹھا کر لے، کوئی آدمی تہبند اور چادر میں نماز پڑھے، کوئی تہبند اور قمیص، کوئی تہبند اور قبا میں، کوئی پاجامہ اور چادر میں، کوئی پاجامہ اور قمیص میں، کوئی پاجامہ اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قبا میں، کوئی جانگیا اور قمیص میں نماز پڑھے۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے یاد آتا ہے کہ آپ نے یہ بھی کہا کہ کوئی جانگیا اور چادر میں نماز پڑھے۔

تشریح : اس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو شک تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آخر کا لفظ کہا تھا یا نہیں، کیونکہ محض جانگیا سے ستر پوشی نہیں ہوتی ہاں اس پر ایسا کپڑا ہو جس سے ستر پوشی کامل طور پر حاصل ہوجائے توجائز ہے اور یہ اں یہی مراد ہے، والستر بہ حاصل مع القبا ومع القمیص ( قسطلانی ) چغہ یا طویل قمیص پہن کر اس کے ساتھ ستر پوشی ہوجاتی ہے۔


حدیث نمبر : 366
حدثنا عاصم بن علي، قال حدثنا ابن أبي ذئب، عن الزهري، عن سالم، عن ابن عمر، قال سأل رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال ما يلبس المحرم فقال ‏"‏ لا يلبس القميص ولا السراويل ولا البرنس ولا ثوبا مسه الزعفران ولا ورس، فمن لم يجد النعلين فليلبس الخفين وليقطعهما حتى يكونا أسفل من الكعبين‏"‏‏. ‏ وعن نافع عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله‏.‏
ہم سے عاصم بن علی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن ابی ذئب نے زہری کے حوالہ سے بیان کیا، انھوں نے سالم سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک آدمی نے پوچھا کہ احرام باندھنے والے کو کیا پہننا چاہیے۔ تو آپ نے فرمایا کہ نہ قمیص پہنے نہ پاجامہ، نہ باران کوٹ اور نہ ایسا کپڑا جس میں زعفران لگا ہوا ہو اور نہ ورس لگا ہوا کپڑا، پھر اگر کسی شخص کو جوتیاں نہ ملیں ( جن میں پاؤں کھلا رہتا ہو ) وہ موزے کاٹ کر پہن لے تا کہ وہ ٹخنوں سے نیچے ہو جائیں اور ابن ابی ذئب نے اس حدیث کو نافع سے بھی روایت کیا، انھوں نے ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی روایت کیا ہے۔

تشریح : ورس ایک زرد رنگ والی خوشبودار گھاس یمن میں ہوتی تھی جس سے کپڑے رنگے جاتے تھے۔ مناسبت اس حدیث کی باب سے یہ ہے کہ محرم کو احرام کی حالت میں ان چیزوں کو پہننے سے منع فرمایا۔ معلوم ہوا کہ احرام کے علاوہ دیگر حالتوں میں ان سب کو پہنا جا سکتا ہے حتیٰ کہ نماز میں بھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ اس حدیث کویہاں بیان کرنے سے مقصد یہ ہے کہ قمیص اور پاجامے کے بغیر بھی ( بشرطیکہ ستر پوشی حاصل ہو ) نماز درست ہے کیونکہ محرم ان کو نہیں پہن سکتا اور آخر وہ نماز ضرور پڑھے گا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت ( یعنی ستر ) کا بیان جس کو ڈھانکنا چاہیے

حدیث نمبر : 367
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا ليث، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن أبي سعيد الخدري، أنه قال نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اشتمال الصماء وأن يحتبي الرجل في ثوب واحد، ليس على فرجه منه شىء‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث نے ابن شہاب سے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے، انھوں نے ابوسعید خدری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صماء کی طرح کپڑا بدن پر لپیٹ لینے سے منع فرمایا اور اس سے بھی منع فرمایا کہ آدمی ایک کپڑے میں احتباء کرے اور اس کی شرم گاہ پر علیحدہ کوئی دوسرا کپڑا نہ ہو۔

تشریح : احتباءکا مطلب یہ کہ اکڑوں بیٹھ کرپنڈلیوں اور پیٹھ کو کسی کپڑے سے باندھ لیاجائے۔ اس کے بعد کوئی کپڑا اوڑھ لیا جائے۔ عرب اپنی مجلسوں میں ایسے بھی بیٹھا کرتے تھے۔ چونکہ اس صورت میں بے پردہ ہونے کا اندیشہ تھا اس لیے اسلام نے اس طرح بیٹھنے کی ممانعت کردی۔

اشتمال صماء یہ ہے کہ کپڑے کو لپیٹ کے اور ایک طرف سے اس کو اٹھا کر کندھے پر ڈال لے۔ اس میں شرمگاہ کھل جاتی ہے اس لیے منع ہوا، ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنا اس کو کہتے ہیں کہ دونوں سرین کو زمین سے لگادے اور دونوں پنڈلیاں کھڑی کردے۔ اس میں بھی شرمگاہ کے کھلنے کا احتمال ہے، اس لیے اس طرح بیٹھنا بھی منع ہوا۔

حدیث نمبر : 368
حدثنا قبيصة بن عقبة، قال حدثنا سفيان، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، قال نهى النبي صلى الله عليه وسلم عن بيعتين عن اللماس والنباذ، وأن يشتمل الصماء، وأن يحتبي الرجل في ثوب واحد‏.‏
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا، جو ابوالزناد سے نقل کرتے ہیں، وہ اعرج سے، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو طرح کی بیع و فروخت سے منع فرمایا۔ ایک تو چھونے کی بیع سے، دوسرے پھینکنے کی بیع سے اور اشتمال صماء سے ( جس کا بیان اوپر گزرا ) اور ایک کپڑے میں گوٹ مار کر بیٹھنے سے۔

تشریح : عرب میں خرید وفروخت کا طریقہ یہ بھی تھا کہ خریدنے والا اپنی آنکھ بندکرکے کسی چیز پر ہاتھ رکھ د یتا، دوسرا طریقہ یہ کہ خود بیچنے والا آنکھ بندکرکے کوئی چیز خریدنے والے کی طرف پھینک دیتا، ان دونوں صورتوں میں مقررہ قیمت پر خریدوفروخت ہوا کرتی تھی، پہلے کو لماس اور دوسرے کو نباذ کہا جاتا تھا۔ یہ دونوں صورتیں اسلام میں ناجائز قراری دی گئیں اور یہ اصول ٹھہرایا گیا کہ خریدوفروخت میں بیچنے یا خریدنے والا ناواقفیت کی وجہ سے دھوکا نہ کھاجائے۔ ( یہاں تک فرمایا کہ دھوکہ بازی سے خریدوفروخت کرنے والا ہماری امت سے نہیں ہے۔ )

حدیث نمبر : 369
حدثنا إسحاق، قال حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا ابن أخي ابن شهاب، عن عمه، قال أخبرني حميد بن عبد الرحمن بن عوف، أن أبا هريرة، قال بعثني أبو بكر في تلك الحجة في مؤذنين يوم النحر نؤذن بمنى أن لا يحج بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان‏.‏ قال حميد بن عبد الرحمن ثم أردف رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، فأمره أن يؤذن ببراءة قال أبو هريرة فأذن معنا علي في أهل منى يوم النحر لا يحج بعد العام مشرك، ولا يطوف بالبيت عريان‏.‏
ہم سے اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے میرے بھائی ابن شہاب نے اپنے چچا کے واسطہ سے، انھوں نے کہا مجھے حمید بن عبدالرحمن بن عوف نے خبر دی کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس حج کے موقع پر مجھے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے یوم نحر ( ذی الحجہ کی دسویں تاریخ ) میں اعلان کرنے والوں کے ساتھ بھیجا۔ تا کہ ہم منیٰ میں اس بات کا اعلان کر دیں کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کر سکتا اور کوئی شخص ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف نہیں کر سکتا۔ حمید بن عبدالرحمن نے کہا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھیجا اور انھیں حکم دیا کہ وہ سورہ برات پڑھ کر سنا دیں اور اس کے مضامین کا عام اعلان کر دیں۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ہمارے ساتھ نحر کے دن منیٰ میں دسویں تاریخ کو یہ سنایا کہ آج کے بعد کوئی مشرک نہ حج کر سکے گا اور نہ بیت اللہ کا طواف کوئی شخص ننگے ہو کر کر سکے گا۔

مذکورہ امور کی ممانعت اس لیے کردی گئی کیونکہ بیت اللہ کی خدمت وحفاظت اب مسلمانوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔

تشریح : جب ننگے ہوکر طواف کرنا منع ہوا تو ستر پوشی طواف میں ضرور واجب ہوگئی، اسی طرح نماز میں بطریق اولیٰ ستر پوشی واجب ہوگی۔ سورۃ توبہ کے نازل ہونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کافروں کی آگاہی کے لیے پہلے سیدنا حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کو بھیجا۔ پھر آپ کو یہ خیال آیاکہ معاہدہ کو توڑنے کا حق دستورعرب کے مطابق اسی کو ہے، جس نے خود معاہدہ کیا ہے یا کوئی اس کے خاص گھروالوں سے ہونا چاہئیے۔ اس لیے آپ نے پیچھے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی روانہ فرمادیا۔ قریش مکہ کی بدعہدی کی آخری مثال صلح حدیبیہ تھی۔ طے ہوا تھا کہ ایک طرف مسلمان اور ان کے حلیف ہوں گے اور دوسری طرف قریش اور ان کے حلیف، مسلمانوں کے ساتھ قبیلہ خزاعہ شریک ہوا اور قریش کے ساتھ بنوبکر۔ صلح کی بنیادی شرط یہ تھی کہ دس برس تک دونوں فریق صلح وامن سے رہیں گے۔ مگرابھی دوسال بھی پورے نہ ہوئے تھے کہ بنوبکر نے خزاعہ پر حملہ کردیا اور قریش نے ان کی مدد کی۔ بنوخزاعہ نے کعبہ میں اللہ کے نام پر امان مانگی، پھر بھی وہ بے دریغ قتل کئے گئے۔ صرف چالیس آدمی بچ کر مدینہ پہنچے اور سارا حال زار پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ وسلم کو سنایا۔ اب معاہدہ کی رو سے آپ کے لیے ضروری ہوگیا کہ قریش کو ان کی بدعہدی کی سزادی جائے۔ چنانچہ دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوچ فرمایا اور بغیر کسی خون ریزی کے مکہ شریف فتح ہوگیا۔ جس کے بعد 9ہجری میں اس سورۃ شریفہ کی ابتدائی دس آیات نازل ہوئیں اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو مسلمانوں کا امیرحج بناکر بھیجا۔ یہ حجۃ الوداع سے پہلے کا واقعہ ہے بعد میں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مکہ شریف بھیجاتاکہ وہ سورۃ توبہ کی ان آیات کا کھلے عام اعلان کردیں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دل میں ذرا سا خیال پیدا ہوا کہ کہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے خفا تو نہیں ہوگئے جوبعد میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا بھی اسی مقصد کے لیے بھیجنا ضروری سمجھا۔ اس پر آپ نے ان کی تشفی فرمائی اور بتلایا کہ دستور عرب کے تحت مجھ کو علی رضی اللہ عنہ کا بھیجنا ضروری ہوا، ورنہ آپ میرے یارغار ہیں۔ بلکہ حوض کوثر پر بھی آپ ہی کو رفاقت رہے گی۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین۔
 
Top