• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بغیر چادر اوڑھے صرف ایک کپڑے میں لپٹ کر نماز پڑھنا بھی جائز ہے

حدیث نمبر : 370
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثني ابن أبي الموالي، عن محمد بن المنكدر، قال دخلت على جابر بن عبد الله وهو يصلي في ثوب ملتحفا به ورداؤه موضوع، فلما انصرف قلنا يا أبا عبد الله تصلي ورداؤك موضوع قال نعم، أحببت أن يراني الجهال مثلكم، رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي هكذا‏.‏
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبدالرحمن بن ابی الموالی نے محمد بن منکدر سے، کہا میں جابر بن عبداللہ انصاری کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ ایک کپڑا اپنے بدن پر لپیٹے ہوئے نماز پڑھ رہے تھے، حالانکہ ان کی چادر الگ رکھی ہوئی تھی۔ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو ہم نے کہا اے ابوعبداللہ! آپ کی چادر رکھی ہوئی ہے اور آپ ( اسے اوڑھے بغیر ) نماز پڑھ رہے ہیں۔ انھوں نے فرمایا، میں نے چاہا کہ تم جیسے جاہل لوگ مجھے اس طرح نماز پڑھتے دیکھ لیں، میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح ایک کپڑے میں نماز پڑھتے دیکھا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ران سے متعلق جو روایتیں آئی ہیں

ويروى عن ابن عباس وجرهد ومحمد بن جحش عن النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ الفخذ عورة‏"‏‏. ‏ وقال أنس حسر النبي صلى الله عليه وسلم عن فخذه‏.‏ وحديث أنس أسند، وحديث جرهد أحوط حتى يخرج من اختلافهم‏.‏ ‏ حضرت امام ابوعبداللہ ( بخاری ) نے کہا کہ ابن عباس، جرہد اور محمد بن حجش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نقل کیا کہ ران شرمگاہ ہے۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( جنگ خیبر میں ) اپنی ران کھولی۔ ابوعبداللہ ( امام بخاری ) کہتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ کی حدیث سند کے اعتبار سے زیادہ صحیح ہے۔ اور جرہد کی حدیث میں بہت احتیاط ملحوظ ہے۔ اس طرح ہم اس بارے میں علماء کے باہمی اختلاف سے بچ جاتے ہیں۔

کیوں کہ اگرران بالفرض ستر نہیں تب بھی اس کے چھپانے میں کوئی برائی نہیں۔

وقال أبو موسى غطى النبي صلى الله عليه وسلم ركبتيه حين دخل عثمان‏.‏ وقال زيد بن ثابت أنزل الله على رسوله صلى الله عليه وسلم وفخذه على فخذي فثقلت على حتى خفت أن ترض فخذي‏.‏

اور ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھٹنے ڈھانک لیے اور زید بن ثابت نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک مرتبہ وحی نازل فرمائی۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران مبارک میری ران پر تھی، آپ کی ران اتنی بھاری ہو گئی تھی کہ مجھے اپنی ران کی ہڈی ٹوٹ جانے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔

تشریح : حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل ہے، اس لیے اس کا چھپانا واجب ہے۔ اور ابن ابی ذائب رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابوداؤدظاہری رحمۃ اللہ علیہ اور امام احمد اور امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ محلّی میں امام ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اگرران شرمگاہ میں داخل ہوتی تواللہ پاک اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو معصوم اور پاک تھے، ران نہ کھولتا، نہ کوئی اس کو دیکھ لیتا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان بھی اسی طرف معلوم ہوتا ہے، باب کے تحت حضرت عبداللہ بن عباس کی جس حدیث کا ذکر امام بخاری لائے ہیں اس کوترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور جرہد کی حدیث کو امام مالک نے مؤطا میں اور محمد بن حجش کی حدیث کو حاکم نے مستدرک میں اور امام بخاری نے تاریخ میں نکالا ہے۔ مگران سب کی سندوں میں کلام ہے۔ حضرت انس بن مالک کی روایت یہاں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ خود لائے ہیں اور آپ کا فیصلہ احتیاطاً ران ڈھانکنے کا ہے وجوباً نہیں۔ آپ نے مختلف روایات میں تطبیق دینے کے لیے یہ درمیانی راستہ اختیار فرمایا ہے۔ جو آپ کی کمال دانائی کی دلیل ہے، ایسے فروعی اختلافات میں درمیانی راستے تلاش کئے جاسکتے ہیں مگرعلماءکے دلوں میں وسعت کی ضرورت ہے، اللہ پیدا کرے۔

امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ران کا شرمگاہ میں داخل ہونا صحیح ہے اور دلائل سے ثابت ہے، مگرناف اور گھٹنا سترمیں داخل نہیں ہیں۔ آپ کی تقریر یہ ہے۔ قال النووی ذہب اکثر العلماءالی ان الفخذ عورۃ وعن احمد ومالک فی روایۃ العورۃ القبل والدبر فقط وبہ قال اہل الظاہر وابن جریر والاصطخریوالحق ان الفخذ عورۃ الخ۔ ( نیل، ج2، ص: 62 ) یعنی بیشتر علماءبقول امام نووی رحمۃ اللہ علیہ اسی کے قائل ہیں کہ ران بھی شرم گاہ میں داخل ہے اور امام احمدوامام مالک کی روایت میں صرف قبل اور دبرہی شرمگاہ ہیں۔ ران شرمگاہ میں داخل نہیں ہے۔ اہل ظاہر اور ابن جریر اور اصطخری وغیرہ کا یہی مسلک ہے۔ مگرحق یہ ہے کہ ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے۔ وقد تقرر فی الاصول ان القول ارجح من الفعل۔ ( نیل ) یعنی اصول میں یہ مقرر ہوچکا ہے کہ جہاں قول اور فعل میں بظاہر تضاد نظر آئے وہاں قول کو ترجیح دی جائے گی۔

پس متعدد روایات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد الفخذ عورۃ ( یعنی ران بھی شرمگاہ میں داخل ہے ) وارد ہے۔ رہا آپ کا فعل سوحضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : الرابع غایۃ مافی ہذہ الواقعۃ ان یکون ذالک بالنبی صلی اللہ علیہ وسلم الخ یعنی چوتھی تاویل یہ بھی کی گئی ہے کہ اس واقعہ کی غایت یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات طیبات میں سے ہو۔

حضرت زیدبن ثابت رحمۃ اللہ علیہ جن کا ذکر یہاں آیا ہے، یہ انصاری ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے وحی قرآن لکھنے پر مامور تھے اور حضرت صدیق اکبررضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمع قرآن کا شرف ان کو حاصل ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر انھوں نے کتب یہود اور سریانی زبان کا علم حاصل کرلیاتھا اور اپنے علم وفضل کے لحاظ سے یہ صحابہ میں نمایاں مقام رکھتے تھے۔
روایت میں امہات المؤمنین میں سے ایک محترمہ خاتون صفیہ بنت حیی کا ذکر آیا ہے جو ایک یہودی سردار کی صاحبزادی تھیں۔ یہ جنگ خیبر میں جب لونڈی بن کر گرفتارہوئیں توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے احترام کے پیش نظر ان کو آزاد کردیا ان کی اجازت سے آپ نے ان کو اپنے حرم محترم میں داخل فرمالیا۔ خیبر سے روانہ ہوکر مقام صہباء پر رسم عروسی ادا کی گئی اور جو کچھ لوگوں کے پاس کھانے کا سامان تھا، اس کو جمع کرکے دعوت ولیمہ کی گئی۔ کھانے میں صرف پنیر، چھوہارے اور گھی کا ملیدہ تھا، حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا صبر و تحمل اور اخلاق حسنہ میں ممتاز مقام رکھتی تھیں، حضورعلیہ السلام بھی ان سے بے حد محبت فرماتے تھے۔ ساٹھ سال کی عمر میں رمضان 50ھ میں آپ کی وفات ہوئی۔ ( رضی اللہ عنہا )

حدیث نمبر : 371
حدثنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثنا إسماعيل ابن علية، قال حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا خيبر، فصلينا عندها صلاة الغداة بغلس، فركب نبي الله صلى الله عليه وسلم وركب أبو طلحة، وأنا رديف أبي طلحة، فأجرى نبي الله صلى الله عليه وسلم في زقاق خيبر، وإن ركبتي لتمس فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، ثم حسر الإزار عن فخذه حتى إني أنظر إلى بياض فخذ نبي الله صلى الله عليه وسلم، فلما دخل القرية قال ‏"‏ الله أكبر، خربت خيبر، إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين‏"‏‏. ‏ قالها ثلاثا‏.‏ قال وخرج القوم إلى أعمالهم فقالوا محمد ـ قال عبد العزيز وقال بعض أصحابنا ـ والخميس‏.‏ يعني الجيش، قال فأصبناها عنوة، فجمع السبى، فجاء دحية فقال يا نبي الله، أعطني جارية من السبى‏.‏ قال ‏"‏ اذهب فخذ جارية‏"‏‏. ‏ فأخذ صفية بنت حيى، فجاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقال يا نبي الله، أعطيت دحية صفية بنت حيى سيدة قريظة والنضير، لا تصلح إلا لك‏.‏ قال ‏"‏ ادعوه بها‏"‏‏. ‏ فجاء بها، فلما نظر إليها النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ خذ جارية من السبى غيرها‏"‏‏. ‏ قال فأعتقها النبي صلى الله عليه وسلم وتزوجها‏.‏ فقال له ثابت يا أبا حمزة، ما أصدقها قال نفسها، أعتقها وتزوجها، حتى إذا كان بالطريق جهزتها له أم سليم فأهدتها له من الليل، فأصبح النبي صلى الله عليه وسلم عروسا فقال ‏"‏ من كان عنده شىء فليجئ به‏"‏‏. ‏ وبسط نطعا، فجعل الرجل يجيء بالتمر، وجعل الرجل يجيء بالسمن ـ قال وأحسبه قد ذكر السويق ـ قال فحاسوا حيسا، فكانت وليمة رسول الله صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے اسماعیل بن علیہ نے کہ کہا ہمیں عبدالعزیز بن صہیب نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کر کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خبیر میں تشریف لے گئے۔ ہم نے وہاں فجر کی نماز اندھیرے ہی میں پڑھی۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے۔ اور ابوطلحہ بھی سوار ہوئے۔ میں ابوطلحہ کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سواری کا رخ خیبر کی گلیوں کی طرف کر دیا۔ میرا گھٹنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھو جاتا تھا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران سے تہبند کو ہٹایا۔ یہاں تک کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاف اور سفید رانوں کی سفیدی اور چمک دیکھنے لگا۔ جب آپ خیبر کی بستی میں داخل ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے، خیبر برباد ہو گیا، جب ہم کسی قوم کے آنگن میں اتر جائیں تو ڈرائے ہوئے لوگوں کی صبح منحوس ہو جاتی ہے۔ آپ نے یہ تین مرتبہ فرمایا، اس نے کہا کہ خیبر کے یہودی لوگ اپنے کاموں کے لیے باہر نکلے ہی تھے کہ وہ چلا اٹھے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) آن پہنچے۔ اور عبدالعزیز راوی نے کہا کہ بعض حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والے ہمارے ساتھیوں نے والخمیس کا لفظ بھی نقل کیا ہے ( یعنی وہ چلا اٹھے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم لشکر لے کر پہنچ گئے ) پس ہم نے خیبر لڑ کر فتح کر لیا اور قیدی جمع کئے گئے۔ پھر دحیہ رضی اللہ عنہ آئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ! قیدیوں میں سے کوئی باندی مجھے عنایت کیجیئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جاؤ کوئی باندی لے لو۔ انھوں نے صفیہ بنت حیی کو لے لیا۔ پھر ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! صفیہ جو قریظہ اور نضیر کے سردار کی بیٹی ہیں، انھیں آپ نے دحیہ کو دے دیا۔ وہ تو صرف آپ ہی کے لیے مناسب تھیں۔ اس پر آپ نے فرمایا کہ دحیہ کو صفیہ کے ساتھ بلاؤ، وہ لائے گئے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو فرمایا کہ قیدیوں میں سے کوئی اور باندی لے لو۔ راوی نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ کو آزاد کر دیا اور انھیں اپنے نکاح میں لے لیا۔ ثابت بنانی نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ ابوحمزہ! ان کا مہر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا رکھا تھا؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خود انھیں کی آزادی ان کا مہر تھا اور اسی پر آپ نے نکاح کیا۔ پھر راستے ہی میں ام سلیم ( رضی اللہ عنہا حضرت انس رضی اللہ عنہ کی والدہ ) نے انھیں دلہن بنایا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رات کے وقت بھیجا۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دولہا تھے، اس لیے آپ نے فرمایا کہ جس کے پاس بھی کچھ کھانے کی چیز ہو تو یہاں لائے۔ آپ نے ایک چمڑے کا دستر خوان بچھایا۔ بعض صحابہ کھجور لائے، بعض گھی، عبدالعزیز نے کہا کہ میرا خیال ہے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے ستو کا بھی ذکر کیا۔ پھر لوگوں نے ان کا حلوہ بنا لیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کتنے کپڑوں میں نماز پڑھے؟

وقال عكرمة لو وارت جسدها في ثوب لأجزته‏.‏ اور عکرمہ نے کہا کہ اگر عورت اپنا سارا جسم ایک ہی کپڑے سے ڈھانپ لے تو بھی نماز درست ہے۔

حدیث نمبر : 372

حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة، أن عائشة، قالت لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي الفجر، فيشهد معه نساء من المؤمنات متلفعات في مروطهن ثم يرجعن إلى بيوتهن ما يعرفهن أحد‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم کو شعیب نے زہری سے خبر دی، کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی نماز پڑھتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں کئی مسلمان عورتیں اپنی چادریں اوڑھے ہوئے شریک نماز ہوتیں۔ پھر اپنے گھروں کو واپس چلی جاتی تھیں۔ اس وقت انھیں کوئی پہچان نہیں سکتا تھا۔

اس حدیث سے باب کا مطلب یوں نکلا کہ ظاہر میں وہ عورتیں ایک ہی کپڑے میں نماز پڑھتی تھیں۔ ثابت ہوا کہ ایک کپڑے سے اگر عورت اپنا سارا بدن چھپالے تونماز درست ہے۔ مقصود پردہ ہے وہ جس طور پر مکمل حاصل ہو صحیح ہے۔ کتنی ہی غریب عورتیں ہیں جن کوبہت مختصر کپڑے میسر ہوتے ہیں، اسلام میں ان سب کو ملحوظ رکھا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : حاشیہ ( بیل ) لگے ہوئے کپڑے میں نماز پڑھنا اور اس کے نقش و نگار کو دیکھنا

حدیث نمبر : 373
حدثنا أحمد بن يونس، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، قال حدثنا ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في خميصة لها أعلام، فنظر إلى أعلامها نظرة، فلما انصرف قال ‏"‏ اذهبوا بخميصتي هذه إلى أبي جهم وائتوني بأنبجانية أبي جهم، فإنها ألهتني آنفا عن صلاتي‏"‏‏. ‏ وقال هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كنت أنظر إلى علمها وأنا في الصلاة فأخاف أن تفتنني‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن یونس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں ابراہیم بن سعد نے خبر دی، انھوں نے کہا کہ ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک چادر میں نماز پڑھی۔ جس میں نقش و نگار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں ایک مرتبہ دیکھا۔ پھر جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا کہ میری یہ چادر ابوجہم ( عامر بن حذیفہ ) کے پاس لے جاؤ اور ان کی انبجانیہ والی چادر لے آؤ، کیونکہ اس چادر نے ابھی نماز سے مجھ کو غافل کر دیا۔ اور ہشام بن عروہ نے اپنے والد سے روایت کی، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نماز میں اس کے نقش و نگار دیکھ رہا تھا، پس میں ڈرا کہ کہیں یہ مجھے غافل نہ کر دے۔

تشریح : حضرت عامربن حذیفہ صحابی ابوجہم نے یہ نقش ونگاروالی چادرآپ کو تحفہ میں پیش کی تھی۔ آپ نے اسے واپس کردیا اور سادہ چادران سے منگالی تاکہ ان کو رنج نہ ہوکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے میراتحفہ واپس کردیا۔ معلوم ہوا کہ جو چیز نماز کے اندر خلل کا سبب بن سکے اس کو علیحدہ کرنا ہی اچھا ہے۔ ہشام بن عروہ کی تعلیق کو امام احمد اور ابن ابی شیبہ اور مسلم اور ابوداؤد نے نکالا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایسے کپڑے میں اگرکسی نے نماز پڑھی جس پر صلیب یامورتیاں بنی ہوں تونماز فاسد ہوگی یا نہیں اور ان کی ممانعت کا بیان

حدیث نمبر : 374
حدثنا أبو معمر عبد الله بن عمرو، قال حدثنا عبد الوارث، قال حدثنا عبد العزيز بن صهيب، عن أنس، كان قرام لعائشة سترت به جانب بيتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أميطي عنا قرامك هذا، فإنه لا تزال تصاويره تعرض في صلاتي‏"‏‏. ‏
ہم سے ابومعمر عبداللہ بن عمرو نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبدالوارث بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن صہیب نے انس رضی اللہ عنہ سے نقل کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رنگین باریک پردہ تھا جسے انھوں نے اپنے گھر کے ایک طرف پردہ کے لیے لٹکا دیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے سے اپنا یہ پردہ ہٹا دو۔ کیونکہ اس پر نقش شدہ تصاویر برابر میری نماز میں خلل انداز ہوتی رہی ہیں۔

گواس حدیث میں صلیب کا ذکر نہیں ہے۔ مگراس کا حکم بھی وہی ہے جو تصویر کا ہے اور جب لٹکانے سے آپ نے منع فرمایا تویقینا بطریق اولیٰ منع ہوگا۔ اور شاید حضرت امام نے کتاب اللباس والی حدیث کی طرف اشارہ فرمایا ہے جس میں ذکر ہے کہ آپ اپنے گھر میں کوئی ایسی چیز نہ چھوڑتے جس پر صلیب بنی ہوتی، اس کو توڑ دیا کرتے تھے۔ اور باب کی حدیث سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ ایسے کپڑے کا پہننا یا لٹکانا منع ہے لیکن اگر کسی نے اتفاقاً پہن لیا تونماز فاسد نہ ہوگی کیوں کہ آپ نے اس نماز کو دوبارہ نہیں لوٹایا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے ریشم کے کوٹ میں نماز پڑھی پھر اسے اتاردیا

حدیث نمبر : 375
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، عن يزيد، عن أبي الخير، عن عقبة بن عامر، قال أهدي إلى النبي صلى الله عليه وسلم فروج حرير، فلبسه فصلى فيه، ثم انصرف فنزعه نزعا شديدا كالكاره له وقال ‏"‏ لا ينبغي هذا للمتقين‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے یزید بن حبیب سے بیان کیا، انھوں نے ابوالخیر مرثد سے، انھوں نے عقبہ بن عامر سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ریشم کی قبا تحفہ میں دی گئی۔ اسے آپ نے پہنا اور نماز پڑھی لیکن آپ جب نماز سے فارغ ہوئے تو بڑی تیزی کے ساتھ اسے اتار دیا۔ گویا آپ اسے پہن کر ناگواری محسوس کر رہے تھے۔ پھر آپ نے فرمایا یہ پرہیزگاروں کے لائق نہیں ہے۔

تشریح : مسلم کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے مجھ کو اس کے پہننے سے منع فرمادیا۔ یہ کوٹ آپ نے اس وقت پہنا ہوگا جب تک مردوں کو ریشمی کپڑے کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔ بعدمیں آپ نے سونا اور ریشم کے لیے اعلان فرمادیا کہ یہ دونوں میری امت کے مردوں کے لیے حرام ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سرخ رنگ کے کپڑے میں نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 376
حدثنا محمد بن عرعرة، قال حدثني عمر بن أبي زائدة، عن عون بن أبي جحيفة، عن أبيه، قال رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم في قبة حمراء من أدم، ورأيت بلالا أخذ وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم ورأيت الناس يبتدرون ذاك الوضوء، فمن أصاب منه شيئا تمسح به، ومن لم يصب منه شيئا أخذ من بلل يد صاحبه، ثم رأيت بلالا أخذ عنزة فركزها، وخرج النبي صلى الله عليه وسلم في حلة حمراء مشمرا، صلى إلى العنزة بالناس ركعتين، ورأيت الناس والدواب يمرون من بين يدى العنزة‏.‏
ہم سے محمد بن عرعرہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر ابن ابی زائدہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، انھوں نے اپنے والد ابوحجیفہ وہب بن عبداللہ سے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک سرخ چمڑے کے خیمہ میں دیکھا اور میں نے یہ بھی دیکھا کہ بلال رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرا رہے ہیں اور ہر شخص آپ کے وضو کا پانی حاصل کرنے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اگر کسی کو تھوڑا سا بھی پانی مل جاتا تو وہ اسے اپنے اوپر مل لیتا اور اگر کوئی پانی نہ پا سکتا تو اپنے ساتھی کے ہاتھ کی تری ہی حاصل کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انھوں نے اپنی ایک برچھی اٹھائی جس کے نیچے لوہے کا پھل لگا ہوا تھا اور اسے انھوں نے گاڑ دیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( ڈیرے میں سے ) ایک سرخ پوشاک پہنے ہوئے تہبند اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے اور برچھی کی طرف منہ کر کے لوگوں کو دو رکعت نماز پڑھائی، میں نے دیکھا کہ آدمی اور جانور برچھی کے پرے سے گزر رہے تھے۔

تشریح : امام ابن قیم رحمہ اللہ نے کہا کہ آپ کا یہ جوڑا نرا سرخ نہ تھا بلکہ اس میں سرخ اور کالی دھاریاں تھیں۔ سرخ رنگ کے متعلق حافظ ابن حجر نے سات مذہب بیان کئے ہیں اور کہا ہے کہ صحیح یہ ہے کہ کافروں یا عورتوں کی مشابہت کی نیت سے مرد کو سرخ رنگ والے کپڑے پہننے درست نہیں ہیں اور کسم میں رنگا ہوا کپڑا مردوں کے لیے بالاتفاق ناجائز ہے۔ اسی طرح لال زین پوشوں کا استعمال جس کی ممانعت میں صاف حدیث موجود ہے۔ ڈیرے سے نکلتے وقت آپ کی پنڈلیاں کھلی ہوئی تھیں۔ مسلم کی روایت میں ہے، گویا میں آپ کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ سترہ کے باہر سے کوئی آدمی نمازی کے آگے سے نکلے تو کوئی گناہ نہیں ہے اور نہ نماز میں خلل ہوتا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : چھت، منبر اور لکڑی پر نماز پڑھنے کے بارے میں
قال أبو عبد الله ولم ير الحسن بأسا أن يصلى على الجمد والقناطر، وإن جرى تحتها بول أو فوقها أو أمامها، إذا كان بينهما سترة‏.‏ وصلى أبو هريرة على ظهر المسجد بصلاة الإمام‏.‏ وصلى ابن عمر على الثلج‏.‏
حضرت ابوعبداللہ ( امام بخاری ) نے فرمایا کہ حضرت امام حسن بصری برف پر اور پلوں پر نماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتے تھے۔ خواہ اس کے نیچے، اوپر، سامنے پیشاب ہی کیوں نہ بہہ رہا ہو بشرطیکہ نمازی اور اس کے بیچ میں کوئی آڑ ہو اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے مسجد کی چھت پر کھڑے ہو کر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی ( اور وہ نیچے تھا ) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے برف پر نماز پڑھی۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت امام بخاری قدس سرہ نے اشارہ فرمایا ہے کہ ان صورتوں میں نماز درست ہے اور یہ بھی بتلایا ہے کہ نجاست کا دورکرنا جو نمازی پر فرض ہے اس سے یہ غرض ہے کہ نمازی کے بدن یا کپڑے سے نجاست نہ لگے۔ اگردرمیان میں کوئی چیز حائل ہو جیسے لو ہے کا بمبا ہو یا ایسا کوئی نلوہ ہو جس کے اندر نجاست بہ رہی ہو اور اس کے اوپر کی سطح پر جہاں نجاست کا کوئی اثر نہیں ہے کوئی نماز پڑھے تو یہ درست ہے۔ حضرت ابوہریرہ والے اثر کو ابن ابی شیبہ اور سعید بن منصورنے نکالا ہے۔

حدیث نمبر : 377
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا أبو حازم، قال سألوا سهل بن سعد من أى شىء المنبر فقال ما بقي بالناس أعلم مني هو من أثل الغابة، عمله فلان مولى فلانة لرسول الله صلى الله عليه وسلم، وقام عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم حين عمل، ووضع، فاستقبل القبلة كبر وقام الناس خلفه، فقرأ وركع وركع الناس خلفه، ثم رفع رأسه، ثم رجع القهقرى، فسجد على الأرض، ثم عاد إلى المنبر، ثم قرأ ثم ركع، ثم رفع رأسه، ثم رجع القهقرى حتى سجد بالأرض، فهذا شأنه‏.‏ قال أبو عبد الله قال علي بن عبد الله سألني أحمد بن حنبل ـ رحمه الله ـ عن هذا الحديث، قال فإنما أردت أن النبي صلى الله عليه وسلم كان أعلى من الناس، فلا بأس أن يكون الإمام أعلى من الناس بهذا الحديث‏.‏ قال فقلت إن سفيان بن عيينة كان يسأل عن هذا كثيرا فلم تسمعه منه قال لا‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابوحازم سلمہ بن دینار نے بیان کیا۔ کہا کہ لوگوں نے سہل بن سعد ساعدی سے پوچھا کہ منبر نبوی کس چیز کا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ اب ( دنیائے اسلام میں ) اس کے متعلق مجھ سے زیادہ جاننے والا کوئی باقی نہیں رہا ہے۔ منبر غابہ کے جھاؤ سے بنا تھا۔ فلاں عورت کے غلام فلاں نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بنایا تھا۔ جب وہ تیار کر کے ( مسجد میں ) رکھا گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر کھڑے ہوئے اور آپ نے قبلہ کی طرف اپنا منہ کیا اور تکبیر کہی اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے۔ پھر آپ نے قرآن مجید کی آیتیں پڑھیں اور رکوع کیا۔ آپ کے پیچھے تمام لوگ بھی رکوع میں چلے گئے۔ پھر آپ نے اپنا سر اٹھایا۔ پھر اسی حالت میں آپ الٹے پاؤں پیچھے ہٹے۔ پھر زمین پر سجدہ کیا۔ پھر منبر پر دوبارہ تشریف لائے اور قرات رکوع کی، پھر رکوع سے سر اٹھایا اور قبلہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے پیچھے لوٹے اور زمین پر سجدہ کیا۔ یہ ہے منبر کا قصہ۔ امام ابوعبداللہ بخاری نے کہا کہ علی بن عبداللہ مدینی نے کہا کہ مجھ سے امام احمد بن حنبل نے اس حدیث کو پوچھا۔ علی نے کہا کہ میرا مقصد یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں لوگوں سے اونچے مقام پر کھڑے ہوئے تھے اس لیے اس میں کوئی حرج نہ ہونا چاہیے کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو۔ علی بن مدینی کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل سے کہا کہ سفیان بن عیینہ سے یہ حدیث اکثر پوچھی جاتی تھی، آپ نے بھی یہ حدیث ان سے سنی ہے تو انھوں نے جواب دیا کہ نہیں۔

تشریح : غابہ مدینہ کے قریب ایک گاؤں تھا۔ جہاں جھاؤ کے درخت بہت عمدہ ہوا کرتے تھے۔ اسی سے آپ کے لیے منبر بنایا گیا تھا۔ حدیث سے ثابت ہوا کہ امام مقتدیوں سے اونچی جگہ پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور یہ بھی نکلا کہ اتنا ہٹنا یا آگے بڑھنا نماز کو نہیں توڑتا۔ خطابی نے کہا کہ آپ کا منبرتین سیڑھیوں کا تھا۔ آپ دوسری سیڑھی پر کھڑے ہوں گے تواترنے چڑھنے میں صرف دوقدم ہوئے۔ امام احمدبن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے جب یہ حدیث علی بن مدینی سے سنی تواپنا مسلک یہی قرار دیا کہ امام مقتدیوں سے بلند کھڑا ہو تواس میں کچھ قباحت نہیں۔ سننے کی نفی سے مراد یہ کہ پوری روایت نہیں سنی۔ امام احمدنے اپنی سندسے سفیان سے یہ حدیث نقل کی ہے اس میں صرف اتنا ہی ذکر ہے کہ منبر غابہ کے جھاؤ کا بنایاگیا تھا۔

حنفیہ کے ہاں بھی اس صورت میں اقتدا صحیح ہے بشرطیکہ مقتدی اپنے امام کے رکوع اور سجدہ کو کسی ذریعہ سے جان سکے اس کے لیے اس کی بھی ضرورت نہیں کہ چھت میں کوئی سوراخ ہو۔ ( تفہیم الباری، جلددوم، ص: 77 )

حدیث نمبر : 378
حدثنا محمد بن عبد الرحيم، قال حدثنا يزيد بن هارون، قال أخبرنا حميد الطويل، عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سقط عن فرسه، فجحشت ساقه أو كتفه، وآلى من نسائه شهرا، فجلس في مشربة له، درجتها من جذوع، فأتاه أصحابه يعودونه، فصلى بهم جالسا، وهم قيام فلما سلم قال ‏"‏ إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا، وإذا ركع فاركعوا، وإذا سجد فاسجدوا، وإن صلى قائما فصلوا قياما‏"‏‏. ‏ ونزل لتسع وعشرين فقالوا يا رسول الله إنك آليت شهرا فقال ‏"‏ إن الشهر تسع وعشرون‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یزید بن ہارون نے، کہا ہم کو حمید طویل نے خبر دی انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( 5 ھ میں ) اپنے گھوڑے سے گر گئے تھے۔ جس سے آپ کی پنڈلی یا کندھا زخمی ہو گئے اور آپ نے ایک مہینے تک اپنی بیویوں کے پاس نہ جانے کی قسم کھائی۔ آپ اپنے بالاخانہ میں بیٹھ گئے۔ جس کے زینے کھجور کے تنوں سے بنائے گئے تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ مزاج پرسی کو آئے۔ آپ نے انھیں بیٹھ کر نماز پڑھائی اور وہ کھڑے تھے۔ جب آپ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے۔ پس جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو اور جب وہ رکوع میں جائے تو تم بھی رکوع میں جاؤ اور جب وہ سجدہ کرے تو تم بھی سجدہ کرو اور اگر کھڑے ہو کر تمہیں نماز پڑھائے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور آپ انتیس دن بعد نیچے تشریف لائے، تو لوگوں نے کہا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینہ کے لیے قسم کھائی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ مہینہ انتیس دن کا ہے۔

تشریح : 5ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم تفاقاً گھوڑے سے گرگئے تھے اور ایک موقع پر آپ نے ازواج مطہرات سے ایک مہینہ کے لیے 9ھ میں علیحدگی کی قسم کھالی تھی۔ ان دونوں مواقع پر آپ نے بالاخانے میں قیام فرمایا تھا۔ زخمی ہونے کی حالت میں اس لیے کہ صحابہ کو عیادت میں آسانی ہو اور ازواج مطہرات سے جب آپ نے ملنا جلنا ترک کیا تواس خیال سے کہ پوری طرح ان سے علیحدگی رہے، بہرحال ان دونوں واقعات کے سن وتاریخ الگ الگ ہیں۔ لیکن راوی اس خیال سے کہ دونوں مرتبہ آپ نے بالاخانہ پر قیام فرمایا تھا انھیں ایک ساتھ ذکر کردیتے ہیں۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ امام اگر بیٹھ کر نماز پڑھے تو تم بھی بیٹھ کر پڑھو۔ قسطلانی فرماتے ہیں: والصحیح انہ منسوخ بصلاتہم فی آخرعمرہ علیہ الصلوۃ والسلام قیاما خلفہ وہوقاعد۔ یعنی صحیح یہ ہے کہ یہ منسوخ ہے اس لیے کہ آخر عمر میں ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) نے بیٹھ کر نماز پڑھائی، اور صحابہ رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب سجدے میں آدمی کا کپڑا اس کی عورت سے لگ جائے توکیاحکم ہے؟

حدیث نمبر : 379
حدثنا مسدد، عن خالد، قال حدثنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، عن ميمونة، قالت كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا حذاءه وأنا حائض وربما أصابني ثوبه إذا سجد‏.‏ قالت وكان يصلي على الخمرة‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا خالد سے، کہا کہ ہم سے سلیمان شیبانی نے بیان کیا عبداللہ بن شداد سے، انھوں نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے، آپ نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے اور حائضہ ہونے کے باوجود میں ان کے سامنے ہوتی، اکثر جب آپ سجدہ کرتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا۔ انھوں نے کہا کہ آپ ( کھجور کے پتوں سے بنے ہوئے ایک چھوٹے سے ) مصلے پر نماز پڑھتے تھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بورئیے پر نماز پڑھنے کا بیان

وصلى جابر وأبو سعيد في السفينة قائما‏.‏ وقال الحسن تصلي قائما ما لم تشق على أصحابك، تدور معها وإلا فقاعدا‏.‏
اور جابر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور امام حسن رضی اللہ عنہ نے کہا کشتی میں کھڑے ہو کر نماز پڑھ جب تک کہ اس سے تیرے ساتھیوں کو تکلیف نہ ہو اور کشتی کے رخ کے ساتھ تو بھی گھومتا جا ورنہ بیٹھ کر پڑھ۔

تشریح : حضرت جابربن عبداللہ کے اثرکو ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔ اس میں یہ بھی ہے کہ کشتی چلتی رہتی اور ہم نماز پڑھتے رہتے حالانکہ ہم چاہتے تو کشتی کا لنگر ڈال سکتے تھے۔ امام حسن بصری والے اثر کو ابن ابی شیبہ نے اور امام بخاری نے تاریخ میں روایت کیا ہے۔ کشتی کے ساتھ گھومنے کا مطلب یہ ہے کہ نماز شروع کرنے کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرلو، پھرجدھر کشتی گھومے کچھ مضائقہ نہیں۔ نماز پڑھتے رہو۔ گوقبلہ رخ باقی نہ رہے، امام بخاری یہ اثر اس لیے لائے ہیں کہ کشتی بھی زمین نہیں ہے جیسا بوریا زمین نہیں ہے اور اس پر نماز درست ہے۔ جوزابوحنیفۃ الصلوٰۃ فی السفینۃ قاعدا مع القدرۃ علی القیام ( قسطلانی ) یعنی حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے کشتی میں بیٹھ کر نماز پڑھنے کو جائز قراردیا ہے اگرچہ کھڑے ہونے کی قدرت بھی ہو۔ ( یہ باب منعقد کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ان لوگوں کی تردید کرنا ہے کہ جو مٹی کے سوا اور کسی بھی چیز پر سجدہ جائز نہیں جانتے )

حدیث نمبر : 380
حدثنا عبد الله، قال أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، أن جدته، مليكة دعت رسول الله صلى الله عليه وسلم لطعام صنعته له، فأكل منه ثم قال ‏"‏ قوموا فلأصل لكم‏"‏‏. ‏ قال أنس فقمت إلى حصير لنا قد اسود من طول ما لبس، فنضحته بماء، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم وصففت واليتيم وراءه، والعجوز من ورائنا، فصلى لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين ثم انصرف‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی اسحاق بن عبداللہ بن ابی طلحہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ ان کی نانی ملیکہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانا تیار کر کے کھانے کے لیے بلایا۔ آپ نے کھانے کے بعد فرمایا کہ آو تمہیں نماز پڑھا دوں۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے گھر سے ایک بوریا اٹھایا جو کثرت استعمال سے کالا ہو گیا تھا۔ میں نے اس پر پانی چھڑکا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لیے ( اسی بورئیے پر ) کھڑے ہوئے اور میں اور ایک یتیم ( کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابوضمیرہ کے لڑکے ضمیرہ ) آپ کے پیچھے صف باندھ کر کھڑے ہو گئے اور بوڑھی عورت ( انس کی نانی ملیکہ ) ہمارے پیچھے کھڑی ہوئیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھائی اور واپس گھر تشریف لے گئے۔

تشریح : بعض لوگوں نے ملیکہ کو حضرت انس کی دادی بتلایا ہے۔ ملیکہ بنت مالک بن عدی انس کی ماں کی والدہ ہیں۔ انس کی ماں کا نام ام سلیم اور ان کی ماں کا نام ملیکہ ہے۔ اوالضمیر فی جدتہ یعودعلی انس نفسہ وبہ جزم ابن سعد ( قسطلانی ) یہاں بھی حضرت امام ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے صرف مٹی ہی کو بطور شرط خیال کرتے ہیں۔
 
Top