• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کھجور کی چٹائی پر نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 381
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا سليمان الشيباني، عن عبد الله بن شداد، عن ميمونة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي على الخمرة‏.
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے سلیمان شیبانی نے عبداللہ بن شداد کے واسطے سے، انھوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ گاہ ( یعنی چھوٹے مصلے ) پر نماز پڑھا کرتے تھے۔

قال الجوہری الخمرۃ بالضم سجادۃ صغیرۃ تعمل من سحف النخل وترمل بالخبوط وقال صاحب النہایۃ ہی مقدار مایضع علیہ الرجل وجہہ فی سجودہ من حصیر اونسیحۃ خوض ونحوہ من الثیاب ولایکون خمرۃ الا فی ہذا المقدار۔ ( نیل، ج2،ص: 129 ) خلاصہ یہ کہ خمرہ چھوٹے مصلے پر بولاجاتا ہے وہ کھجور کا ہو یا کسی اور چیز کا اور حیصر طویل بوریا، ہردو پر نماز جائز ہے، یہاں بھی حضرت امام قدس سرہ ان لوگوں کی تردید کررہے ہیں جو سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کو شرط قراردیتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بچھونے پرنماز پڑھنا ( جائز ہے )

وصلى أنس على فراشه‏.‏ وقال أنس كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم فيسجد أحدنا على ثوبه‏.
اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنے بچھونے پر نماز پڑھی اور فرمایا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھا کرتے تھے پھر ہم میں سے کوئی اپنے کپڑے پر سجدہ کر لیتا تھا۔

حدیث نمبر : 382
حدثنا إسماعيل، قال حدثني مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت كنت أنام بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلاى في قبلته، فإذا سجد غمزني، فقبضت رجلى، فإذا قام بسطتهما‏.‏ قالت والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح‏.‏
ہم سے اسماعیل بن ابی اویس نے بیان کیا، کہ کہا مجھ سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سالم کے حوالہ سے، انھوں نے ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے بتلایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے سو جاتی اور میرے پاؤں آپ کے قبلہ میں ہوتے۔ جب آپ سجدہ کرتے، تو میرے پاؤں کو آہستہ سے دبا دیتے۔ میں اپنے پاؤں سمیٹ لیتی اور آپ جب کھڑے ہو جاتے تو میں انھیں پھر پھیلا دیتی۔ ان دنوں گھروں میں چراغ بھی نہیں ہوا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 383
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة، أن عائشة، أخبرته أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهى بينه وبين القبلة على فراش أهله، اعتراض الجنازة‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل سے، انھوں نے ابن شہاب سے، ان کو عروہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے انھیں بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر کے بچھونے پر نماز پڑھتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس طرح لیٹی ہوتیں جیسے ( نماز کے لیے ) جنازہ رکھا جاتا ہے۔

اوپر والی حدیث میں بچھونے کا لفظ نہ تھا، اس حدیث سے وضاحت ہوگئی۔

حدیث نمبر : 384
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، عن يزيد، عن عراك، عن عروة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان يصلي وعائشة معترضة بينه وبين القبلة على الفراش الذي ينامان عليه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا ہم سے لیث بن سعد نے حدیث بیان کی یزید سے، انھوں نے عراک سے، انھوں نے عروہ بن زبیر سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس بچھونے پر نماز پڑھتے جس پر آپ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سوتے اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آپ کے اور قبلہ کے درمیان اس بستر پر لیٹی رہتیں۔

اس حدیث میں مزید وضاحت آگئی کہ جس بستر پر آپ سویا کرتے تھے، اسی پر بعض دفعہ نماز بھی پڑھ لیتے۔ پس معلوم ہوا کہ سجدہ کے لیے زمین کی مٹی کا بطور شرط ہونا ضروری نہیں ہے۔ سجدہ بہرحال زمین ہی پر ہوتا ہے۔ اس لیے کہ وہ بستر یاچٹائی یا مصلّی پر بچھاہوا ہے
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سخت گرمی میں کپڑے پر سجدہ کرنا (جائز ہے)

وقال الحسن كان القوم يسجدون على العمامة والقلنسوة ويداه في كمه
اور حسن بصری رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ لوگ عمامہ اور کنٹوپ پر سجدہ کیا کرتے تھے اور ان کے دونوں ہاتھ آستینوں میں ہوتے۔

حدیث نمبر : 385
حدثنا أبو الوليد، هشام بن عبد الملك قال حدثنا بشر بن المفضل، قال حدثني غالب القطان، عن بكر بن عبد الله، عن أنس بن مالك، قال كنا نصلي مع النبي صلى الله عليه وسلم فيضع أحدنا طرف الثوب من شدة الحر في مكان السجود‏.‏
ہم سے ابوالولید ہشام بن عبدالملک نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے بشر بن مفضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے غالب قطان نے بکر بن عبداللہ کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتے تھے۔ پھر سخت گرمی کی وجہ سے کوئی ہم میں سے اپنے کپڑے کا کنارہ سجدے کی جگہ رکھ لیتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جوتوں سمیت نماز پڑھنا (جائز ہے)

حدیث نمبر : 386
حدثنا آدم بن أبي إياس، قال حدثنا شعبة، قال أخبرنا أبو مسلمة، سعيد بن يزيد الأزدي قال سألت أنس بن مالك أكان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في نعليه قال نعم‏.‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابومسلمہ سعید بن یزید ازدی نے بیان کیا، کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جوتیاں پہن کر نماز پڑھتے تھے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ ہاں!

تشریح : ابوداؤد اور حاکم کی حدیث میں یوں ہے کہ یہودیوں کے خلاف کرو وہ جوتیوں میں نماز نہیں پڑھتے۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ نماز میں جوتے اتارنا مکروہ جانتے تھے اور ابوعمرو شیبانی کوئی نماز میں جوتا اتارے تواسے مارا کرتے تھے۔ مگریہ شرط ضروری ہے کہ پاک صاف ہوں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ نعل عربوں کا ایک خاص جوتا تھا اور عام جوتوں میں نماز جائز نہیں۔ خواہ وہ پاک صاف بھی ہوں۔ دلائل کی رو سے ایسا کہناصحیح نہیں ہے۔ جوتوں میں نماز بلاکراہت جائز درست ہے۔ بشرطیکہ وہ پاک صاف ستھرے ہوں، گندگی کا ذرا بھی شبہ ہو تو ان کو اتاردینا چاہئیے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : موزے پہنے ہوئے نماز پڑھنا (جائز ہے)

حدیث نمبر : 387
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، عن الأعمش، قال سمعت إبراهيم، يحدث عن همام بن الحارث، قال رأيت جرير بن عبد الله بال ثم توضأ، ومسح على خفيه، ثم قام فصلى، فسئل فقال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل هذا‏.‏ قال إبراهيم فكان يعجبهم، لأن جريرا كان من آخر من أسلم‏.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے اعمش کے واسطہ سے، اس نے کہا کہ میں نے ابراہیم نخعی سے سنا۔ وہ ہمام بن حارث سے روایت کرتے تھے، انھوں نے کہا کہ میں نے جریر بن عبداللہ کو دیکھا، انھوں نے پیشاب کیا پھر وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔ پھر کھڑے ہوئے اور ( موزوں سمیت ) نماز پڑھی۔ آپ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا، تو فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے۔ ابراہیم نخعی نے کہا کہ یہ حدیث لوگوں کی نظر میں بہت پسندیدہ تھی کیونکہ جریر رضی اللہ عنہ آخر میں اسلام لائے تھے۔

حدیث نمبر : 388
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا أبو أسامة، عن الأعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن المغيرة بن شعبة، قال وضأت النبي صلى الله عليه وسلم فمسح على خفيه وصلى‏.‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا کہ کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق بن اجدع سے، انھوں نے مغیرہ بن شعبہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرایا۔ آپ نے اپنے موزوں پر مسح کیا اور نماز پڑھی۔

تشریح : خف کی تعریف یہ ہے والخف نعل من ادم یغطی الکعبین ( نیل الاوطار ) یعنی وہ چمڑے کا ایک ایسا جوتا ہوتا ہے جو ٹخنوں تک سارے پیر کو ڈھانپ لیتا ہے۔اس پر مسح کا جائز ہونا جمہور امت کا مسلمہ ہے۔ عن ابن المبارک قال لیس فی المسح علی الخفین عن الصحابۃ اختلاف۔ ( نیل الاوطار ) یعنی صحابہ میں خفین پر مسح کرنے کے جواز میں کسی کا اختلاف منقول نہیں ہوا۔ نووی شرح مسلم میں ہے کہ مسح علی الخفین کا جواز بے شمار صحابہ سے مروی ہے۔ یہ ضروری شرط ہے کہ پہلی دفعہ جب بھی خف پہنا جائے وضو کرکے پیر دھوکر پہنا جائے، اس صورت میں مسافرکے لیے تین دن اور تین رات اور مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اس پر مسح کرلینا جائز ہوگا۔ ترجمہ میں موزوں سے یہی خف مراد ہیں۔ جرابوں پر بھی مسح درست ہے بشرطیکہ وہ اس قدر موٹی ہوں کہ ان کوحقیقی جراب کہا جاسکے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کوئی پورا سجدہ نہ کرے (تواس کی نماز کے متعلق کیا فتویٰ ہے؟)

حدیث نمبر : 389
أخبرنا الصلت بن محمد، أخبرنا مهدي، عن واصل، عن أبي وائل، عن حذيفة، رأى رجلا لا يتم ركوعه ولا سجوده، فلما قضى صلاته قال له حذيفة ما صليت ـ قال وأحسبه قال ـ لو مت مت على غير سنة محمد صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہمیں صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے مہدی بن میمون نے واصل کے واسطہ سے، وہ ابووائل شقیق بن سلمہ سے، وہ حذیفہ رضی اللہ عنہ سے کہ انھوں نے ایک شخص کو دیکھا جو رکوع اور سجدہ پوری طرح نہیں کرتا تھا۔ جب اس نے اپنی نماز پوری کر لی تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے نماز ہی نہیں پڑھی۔ ابووائل راوی نے کہا، میں خیال کرتا ہوں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے یہ بھی فرمایا کہ اگر تو ایسی ہی نماز پر مر جاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نہیں مرتا۔

تشریح : رکوع اور سجدہ پورا کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم تین تین مرتبہ رکوع اور سجدہ کی دعائیں پڑھی جائیں اور رکوع ایسا ہو کہ کمر بالکل سیدھی جھک جائے اور ہاتھ عمدہ طور پر گھٹنوں پر ہوں۔ سجدہ میں پیشانی اور ناک اور دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں اور پیروں کی قبلہ رخ انگلیاں زمین پر جم جائیں۔ رکوع اور سجدہ کو ان صورتوں میں پورا کیا جائے گا۔ جو لوگ مرغوں کی طرح ٹھونگے مارتے ہیں، وہ اس حدیث کی وعید کے مصداق ہیں۔ سنت کے مطابق آہستہ آہستہ نماز ادا کرنا جماعت اہل حدیث کا طرئہ امتیاز ہے، اللہ اسی پر قائم دائم رکھے آمین۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سجدہ میں اپنی بغلوں کو کھلی رکھے اور اپنی پسلیوں سے (ہر دو کہنیوں کو) جدا رکھے

حدیث نمبر : 390
أخبرنا يحيى بن بكير، حدثنا بكر بن مضر، عن جعفر، عن ابن هرمز، عن عبد الله بن مالك ابن بحينة، أن النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا صلى فرج بين يديه حتى يبدو بياض إبطيه‏.‏ وقال الليث حدثني جعفر بن ربيعة نحوه‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، کہا مجھ سے حدیث بیان کی بکر بن مضر نے جعفر سے، وہ ابن ہرمز سے، انھوں نے عبداللہ بن مالک بن بحینہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازوؤں کے درمیان اس قدر کشادگی کر دیتے کہ دونوں بغلوں کی سفیدی ظاہر ہونے لگتی تھی اور لیث نے یوں کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے اسی طرح حدیث بیان کی۔

یہ سب رکوع وسجود کے آداب بیان کئے گئے ہیں جن کا ملحوظ رکھنا بے حد ضروری ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قبلہ کی طرف منہ کرنے کی فضیلت


يستقبل بأطراف رجليه‏.‏ قال أبو حميد عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
اور ابوحمید رضی اللہ عنہ صحابی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ نمازی نماز میں پاؤں کی انگلیاں بھی قبلے کی طرف رکھے۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قیام مکہ میں اور شروع زمانہ میں مدینہ میں بیت المقدس ہی کی طرف منہ کرکے نماز ادا کرتے رہے۔ مگر آپ کی تمنا تھی کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ مکہ شریف کی مسجد کومقرر کیاجائے۔ چنانچہ مدینہ میں تحویل قبلہ ہوا اور آپ نے مکہ شریف کی مسجد کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز شروع کی اور قیامت تک کے لیے یہ تمام دنیائے اسلام کے لیے قبلہ مقررہوا۔ اب کلمہ شہادت کے ساتھ قبلہ کو تسلیم کرنا بھی ضروریات ایمان سے ہے۔

حدیث نمبر : 391
حدثنا عمرو بن عباس، قال حدثنا ابن المهدي، قال حدثنا منصور بن سعد، عن ميمون بن سياه، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ من صلى صلاتنا، واستقبل قبلتنا، وأكل ذبيحتنا، فذلك المسلم الذي له ذمة الله وذمة رسوله، فلا تخفروا الله في ذمته‏"‏‏. ‏
ہم سے عمرو بن عباس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن مہدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے منصور بن سعد نے میمون بن سیاہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور ہماری طرح قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے جس کے لیے اللہ اور اس کے رسول کی پناہ ہے۔ پس تم اللہ کے ساتھ اس کی دی ہوئی پناہ میں خیانت نہ کرو۔

حدیث نمبر : 392
حدثنا نعيم، قال حدثنا ابن المبارك، عن حميد الطويل، عن أنس بن مالك، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا لا إله إلا الله‏.‏ فإذا قالوها وصلوا صلاتنا، واستقبلوا قبلتنا، وذبحوا ذبيحتنا، فقد حرمت علينا دماؤهم وأموالهم إلا بحقها، وحسابهم على الله‏"‏‏.‏
ہم سے نعیم بن حماد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ ابن المبارک نے حمید طویل کے واسطہ سے، انھوں نے روایت کیا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں۔ پس جب وہ اس کا اقرار کر لیں اور ہماری طرح نماز پڑھنے لگیں اور ہمارے قبلہ کی طرف نماز میں منہ کریں اور ہمارے ذبیحہ کو کھانے لگیں تو ان کا خون اور ان کے اموال ہم پر حرام ہو گئے۔ مگر کسی حق کے بدلے اور ( باطن میں ) ان کا حساب اللہ پر رہے گا۔

حدیث نمبر : 393
قال ابن أبي مريم أخبرنا يحيى، حدثنا حميد، حدثنا أنس، عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏ وقال علي بن عبد الله حدثنا خالد بن الحارث قال حدثنا حميد قال سأل ميمون بن سياه أنس بن مالك قال يا أبا حمزة، ما يحرم دم العبد وماله فقال من شهد أن لا إله إلا الله، واستقبل قبلتنا، وصلى صلاتنا، وأكل ذبيحتنا، فهو المسلم، له ما للمسلم، وعليه ما على المسلم‏.‏
علی بن عبداللہ بن مدینی نے فرمایا کہ ہم سے خالد بن حارث نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حمید طویل نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میمون بن سیاہ نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اے ابوحمزہ! آدمی کی جان اور مال پر زیادتی کو کیا چیزیں حرام کرتی ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا کہ جس نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کیا اور ہماری نماز کی طرح نماز پڑھی اور ہمارے ذبیحہ کو کھایا تو وہ مسلمان ہے۔ پھر اس کے وہی حقوق ہیں جو عام مسلمانوں کے ہیں اور اس کی وہی ذمہ داریاں ہیں جو عام مسلمانوں پر ہیں اور ابن ابی مریم نے کہا، ہمیں یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، انھوں نے کہا ہم سے حمید نے حدیث بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کر کے حدیث بیان کی۔

تشریح : ان احادیث میں ان چیزوں کا بیان ہے جن پر اسلام کی بنیاد قائم ہے جن میں اوّلین چیز کلمہ طیبہ پڑھنا اور توحید ورسالت کی گواہی دینا ہے اور اسلامی تعلیم کے مطابق قبلہ رخ ہوکر نماز ادا کرنا اور اسلام کے طریقہ پر ذبح کرنا اور اسے کھانا، یہ وہ ظاہری امورہیں جن کے بجالانے والے کو مسلمان ہی کہا جائے گا۔ رہا اس کے دل کامعاملہ وہ اللہ کے حوالہ ہے۔ چونکہ اس میں قبلہ رخ منہ کرنا بطور اصل اسلام مذکور ہے، اس لیے حدیث اور باب میں مطابقت ہوئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مدینہ اور شام والوں کے قبلہ کا بیان اور مشرق کا بیان

ليس في المشرق ولا في المغرب قبلة، لقول النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تستقبلوا القبلة بغائط أو بول ولكن شرقوا أو غربوا‏"‏‏. ‏
اور ( مدینہ اور شام والوں کا ) قبلہ مشرق و مغرب کی طرف نہیں ہے۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ( خاص اہل مدینہ سے متعلق اور اہل شام بھی اسی میں داخل ہیں ) کہ پاخانہ پیشاب کے وقت قبلہ کی طرف رخ نہ کرو، البتہ مشرق کی طرف اپنا منہ کر لو، یا مغرب کی طرف۔

تشریح : مدینہ اور شام سے مکہ جنوب میں پڑتا ہے، اس لیے مدینہ اور شام والوں کو پاخانہ اور پیشاب مشرق اور مغرب کی طرف منہ کرکے کرنے کا حکم ہوا لیکن جو لوگ مکہ سے مشرق یا مغرب میں رہتے ہیں ان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ جنوب یا شمال کی طرف منہ کریں۔ امام بخاری کی مشرق اور مغرب میں قبلہ نہ ہونے سے یہی مراد ہے کہ ان لوگوں کا قبلہ مشرق اور مغرب نہیں ہے جو مکہ سے جنوب یاشمال میں رہتے ہیں۔

حدیث نمبر : 394
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا الزهري، عن عطاء بن يزيد، عن أبي أيوب الأنصاري، أن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا أتيتم الغائط فلا تستقبلوا القبلة ولا تستدبروها، ولكن شرقوا أو غربوا‏"‏‏. ‏ قال أبو أيوب فقدمنا الشأم فوجدنا مراحيض بنيت قبل القبلة، فننحرف ونستغفر الله تعالى‏.‏ وعن الزهري عن عطاء قال سمعت أبا أيوب عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان نے، کہا ہم سے زہری نے عطاء بن یزید لیثی کے واسطہ سے، انھوں نے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم قضائے حاجت کے لیے جاؤ تو اس وقت نہ قبلہ کی طرف منہ کرو اور نہ پیٹھ کرو۔ بلکہ مشرق یا مغرب کی طرف اس وقت اپنا منہ کر لیا کرو۔ ابوایوب نے فرمایا کہ ہم جب شام میں آئے تو یہاں کے بیت الخلاء قبلہ رخ بنے ہوئے تھے ( جب ہم قضائے حاجت کے لیے جاتے ) تو ہم مڑ جاتے اور اللہ عزوجل سے استغفار کرتے تھے اور زہری نے عطاء سے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا۔ اس میں یوں ہے کہ عطاء نے کہا میں نے ابوایوب سے سنا، انھوں نے اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔

تشریح : اصل میں یہ حدیث ایک ہے جو دوسندوں سے روایت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ سفیان نے علی بن عبداللہ مدینی سے یہ حدیث دوبار بیان کی، ایک بار میں توعن عطاءعن ابی ایوب کہا، اور دوسری بار میں سمعت اباایوب کہا تو دوسری بار میں عطاءکے سماع کی ابوایوب سے وضاحت ہوگئی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اللہ عزو جل کا ارشاد ہے کہ “ مقام ابراہیم کو نماز کی جگہ بناؤ۔ ” (البقرہ : 125)

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ابراہیمی مصلے پر نماز ادا کرنے کا حکم دیا تھا مگر صدافسوس کہ امت نے کعبہ کو ہی تقسیم کرڈالا اور چار مصلے حنفی، شافعی، مالکی اور حنبلی ناموں سے ایجاد کرلیے گئے۔ اس طرح امت میں وہ تفریق پیداہوئی کہ جس کی سزا آج تک مسلمانوں کو مل رہی ہے اور وہ باہمی اتفاق کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اللہ بھلاکرے نجدی حکومت کا جس نے کعبہ سے اس تفریق کو ختم کرکے تمام مسلمانوں کو ایک مصلیٰ ابراہیمی پر جمع کردیا، اللہ اس حکومت کو ہمیشہ نیک توفیق دے اور قائم رکھے۔ آمین۔

حدیث نمبر : 395
حدثنا الحميدي، قال حدثنا سفيان، قال حدثنا عمرو بن دينار، قال سألنا ابن عمر عن رجل، طاف بالبيت العمرة، ولم يطف بين الصفا والمروة، أيأتي امرأته فقال قدم النبي صلى الله عليه وسلم فطاف بالبيت سبعا، وصلى خلف المقام ركعتين، وطاف بين الصفا والمروة، وقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة‏.‏
ہم سے حمیدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، کہا ہم سے عمرو بن دینار نے، کہا ہم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک ایسے شخص کے بارے میں پوچھا جس نے بیت اللہ کا طواف عمرہ کے لیے کیا لیکن صفا اور مروہ کی سعی نہیں کی، کیا ایسا شخص ( بیت اللہ کے طواف کے بعد ) اپنی بیوی سے صحبت کر سکتا ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے آپ نے سات مرتبہ بیت اللہ کا طواف کیا اور مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی، پھر صفا اور مردہ کی سعی کی اور تمہارے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ ” ( الاحزاب : 21 )

حدیث نمبر : 396
وسألنا جابر بن عبد الله فقال لا يقربنها حتى يطوف بين الصفا والمروة‏.‏
عمرو بن دینار نے کہا، ہم نے جابر بن عبداللہ سے بھی یہ مسئلہ پوچھا تو آپ نے بھی یہی فرمایا کہ وہ بیوی کے قریب بھی اس وقت تک نہ جائے جب تک صفا اور مروہ کی سعی نہ کر لے۔

تشریح : گویا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ اشارہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی واجب ہے اور یہ بھی بتایاکہ صفا اور مروہ میں دوڑنا واجب ہے اور جب تک یہ کام نہ کرے عمرہ کا احرام نہیں کھل سکتا۔

حضرت امام حمیدی اور ائمہ احناف رحمہم اللہ اجمعین:
صاحب انوارالباری نے حضرت امام حمیدی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق بعض جگہ بہت ہی نامناسب الفاظ استعمال کئے ہیں ان کو امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا رفیق سفر اور ان کے مذہب کابڑا علم بردار بتاتے ہوئے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مخالف قرار دیا ہے۔ ( دیکھو انوارالباری،جلدہفتم،ص: 44 ) چونکہ امام حمیدی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے اکابراساتذہ میں سے ہیں اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ بھی ان کو اپنے بزرگ استاد سے کافی متاثر اور حنفیت کے لیے شدید متعصب نظر آتے ہیں۔ اس نامناسب بیان کے باوجود صاحب انوارالباری نے شاہ صاحب ( مولانا انورشاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ ) سے جو ہدایات نقل فرمائی ہیں، وہ اگرہر وقت ملحوظ خاطر رہیں تو کافی حد تک تعصب اور تقلید جامد سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔شاہ صاحب کے ارشادات صاحب انوار الباری کے لفظوں میں یہ ہیں۔
ہمیں اپنے اکابر کی طرف سے کسی حالت میں بدگمان نہ ہونا چاہئیے حتیٰ کہ ان حضرات سے بھی جن سے ہمارے مقتداؤں کے بارے میں صرف برے کلمات ہی نقل ہوئے ہوں کیونکہ ممکن ہے ان کی رائے آخر وقت میں بدل گئی ہو اور وہ ہمارے ان مقتداؤں کی طرف سے سلیم الصدر ہوکر دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔ غرض سب سے بہتر اور اسلم طریقہ یہی ہے کہ “ قصہ زمیں برسرزمیں ” ختم کردیا جائے اور آخرت میں سب ہی حضرات اکابر کوپوری عزت اور سربلندی کے ساتھ اور آپس میں ایک دوسرے سے خوش ہوتے ہوئے ملیک مقتدر کے دربار خاص میں یکجا ومجتمع تصور کیاجائے، جہاں وہ سب ارشاد خداوندی ونزعنا ما فی صدورہم من غل اخوانا علی سرر متقبلین ( الحجر: 47 ) کے مظہر اتم ہوں گے۔ ان شاءاللہ العزیز۔ ” ( انوارالباری، جلد7،ص: 45 )

ہمیں بھی یقین ہے کہ آخرت میں یہی معاملہ ہوگا، مگرشدید ضرورت ہے کہ دنیا میں بھی جملہ کلمہ گومسلمان ایک دوسرے کے لیے اپنے دلو ںمیں جگہ پیدا کریں اور ایک دوسرے کا احترام کرنا سیکھیں تاکہ وہ امت واحدہ کا نمونہ بن کر آنے والے مصائب کا مقابلہ کرسکیں۔ اس بارے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان ہی علماءکرام کی ہے جو امت کی عزت و ذلت کے واحد ذمہ دار ہیں، اللہ ان کو نیک سمجھ عطاکرے۔ کسی شاعر نے ٹھیک کہا ہے
وما افسد الدین الا الملوک
و احبار سوءو رہبانہا


یعنی دین کو بگاڑنے میں زیادہ حصہ ظالم بادشاہوں اور دنیا دار مولویوں اور مکار درویشوں ہی کا رہا ہے۔ اعاذنا اللہ منہم

حدیث نمبر : 397
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن سيف، قال سمعت مجاهدا، قال أتي ابن عمر فقيل له هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل الكعبة‏.‏ فقال ابن عمر فأقبلت والنبي صلى الله عليه وسلم قد خرج، وأجد بلالا قائما بين البابين، فسألت بلالا فقلت أصلى النبي صلى الله عليه وسلم في الكعبة قال نعم ركعتين بين الساريتين اللتين على يساره إذا دخلت، ثم خرج فصلى في وجه الكعبة ركعتين‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا سیف ابن ابی سلیمان سے، انھوں نے کہا میں نے مجاہد سے سنا، انھوں نے کہا کہ ابن عمر کی خدمت میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے لو یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آن پہنچے اور آپ کعبہ کے اندر داخل ہو گئے۔ ابن عمر نے کہا کہ میں جب آیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے نکل چکے تھے، میں نے دیکھا کہ بلال دونوں دروازوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ میں نے بلال سے پوچھا کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! دو رکعت ان دو ستونوں کے درمیان پڑھی تھیں، جو کعبہ میں داخل ہوتے وقت بائیں طرف واقع ہیں۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو کعبہ کے سامنے دو رکعت نماز ادا فرمائی۔

یعنی مقام ابراہیم کے پاس، گوآپ نے مقام ابراہیم کی طرف منہ نہیں کیا بلکہ کعبہ کی طرف منہ کیا۔

حدیث نمبر : 398
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا عبد الرزاق، أخبرنا ابن جريج، عن عطاء، قال سمعت ابن عباس، قال لما دخل النبي صلى الله عليه وسلم البيت دعا في نواحيه كلها، ولم يصل حتى خرج منه، فلما خرج ركع ركعتين في قبل الكعبة وقال ‏"‏ هذه القبلة‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالرزاق بن ہمام نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن جریج نے خبر پہنچائی عطاء ابن ابی رباح سے، انھوں نے کہا میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے اندر تشریف لے گئے تو اس کے چاروں کونوں میں آپ نے دعا کی اور نماز نہیں پڑھی۔ پھر جب باہر تشریف لائے تو دو رکعت نماز کعبہ کے سامنے پڑھی اور فرمایا کہ یہی قبلہ ہے۔

تشریح : اور یہ اب کبھی منسوخ نہیں ہوگا یعنی مقام ابراہیم کے پاس اس طرح یہ حدیث باب کے مطابق ہوگئی۔ حضرت الامام کا ان احادیث کے لانے کا مقصد یہ ہے کہ آیت شریفہ واتخذوا من مقام ابراہیم مصلی ( البقرۃ: 125 ) میں امروجوب کے لیے نہیں ہے۔ آدمی کعبہ کی طرف منہ کرکے ہر جگہ نماز پڑھ سکتا ہے خواہ مقام ابراہیم میں پڑھے یا کسی اور جگہ میں۔ اس روایت میں کعبہ کے اندر نماز پڑھنے کا ذکر نہیں ہے، اگلی روایت میں یہ ذکر موجود ہے۔ تطبیق یہ ہے کہ آپ کعبہ کے اندر شاید کئی دفعہ ہوئے بعض دفعہ آپ نے نماز پڑھی، بعض دفعہ صرف دعا پر اکتفاکیا اور کعبہ میں داخل ہونے کے دونوں طریقے جائز ہیں۔
 
Top