Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : ہر مقام اور ہر ملک میں مسلمان جہاں بھی رہے نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرے
وقال أبو هريرة قال النبي صلى الله عليه وسلم " استقبل القبلة وكبر".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔
تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
حدیث نمبر : 399
حدثنا عبد الله بن رجاء، قال حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب أن يوجه إلى الكعبة، فأنزل الله {قد نرى تقلب وجهك في السماء} فتوجه نحو الكعبة، وقال السفهاء من الناس ـ وهم اليهود ـ ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها {قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم} فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم رجل ثم خرج بعد ما صلى، فمر على قوم من الأنصار في صلاة العصر نحو بيت المقدس فقال هو يشهد أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه توجه نحو الكعبة. فتحرف القوم حتى توجهوا نحو الكعبة.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، کہا انھوں نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( دل سے ) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “ ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔ پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انھیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ” ( جب قبلہ بدلا تو ) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔
بیان کرنے والے عبادبن بشرنامی ایک صحابی تھے اوریہ بنی حارثہ کی مسجد تھی جس کو آج بھی مسجدالقبلتین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم الحروف کو ایک مرتبہ1951 ءمیں اوردوسری مرتبہ 1962 ءمیں یہ مسجددیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔قباوالوں کو دوسرے دن خبرہوئی تھی وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اورنماز ہی میں کعبہ کی طرف گھوم گئے۔
حدیث نمبر : 400
حدثنا مسلم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن محمد بن عبد الرحمن، عن جابر، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت، فإذا أراد الفريضة نزل فاستقبل القبلة.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن عبدالرحمن کے واسطہ سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو ( نفل ) نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔
نفل نمازیں سواری پر پڑھنا درست ہے اوررکوع سجدہ بھی اشارے سے کرنا کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اونٹنی پر نماز شروع کرتے وقت آپ قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ لیا کرتے تھے۔
حدیث نمبر : 401
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، قال قال عبد الله صلى النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال إبراهيم لا أدري زاد أو نقص ـ فلما سلم قيل له يا رسول الله، أحدث في الصلاة شىء قال " وما ذاك". قالوا صليت كذا وكذا. فثنى رجليه واستقبل القبلة، وسجد سجدتين ثم سلم، فلما أقبل علينا بوجهه قال " إنه لو حدث في الصلاة شىء لنبأتكم به، ولكن إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحرى الصواب، فليتم عليه ثم يسلم، ثم يسجد سجدتين".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دینا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔
تشریح : بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔
وقال أبو هريرة قال النبي صلى الله عليه وسلم " استقبل القبلة وكبر".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔
تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔
حدیث نمبر : 399
حدثنا عبد الله بن رجاء، قال حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب أن يوجه إلى الكعبة، فأنزل الله {قد نرى تقلب وجهك في السماء} فتوجه نحو الكعبة، وقال السفهاء من الناس ـ وهم اليهود ـ ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها {قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم} فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم رجل ثم خرج بعد ما صلى، فمر على قوم من الأنصار في صلاة العصر نحو بيت المقدس فقال هو يشهد أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه توجه نحو الكعبة. فتحرف القوم حتى توجهوا نحو الكعبة.
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، کہا انھوں نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( دل سے ) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “ ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔ پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انھیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ” ( جب قبلہ بدلا تو ) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔
بیان کرنے والے عبادبن بشرنامی ایک صحابی تھے اوریہ بنی حارثہ کی مسجد تھی جس کو آج بھی مسجدالقبلتین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم الحروف کو ایک مرتبہ1951 ءمیں اوردوسری مرتبہ 1962 ءمیں یہ مسجددیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔قباوالوں کو دوسرے دن خبرہوئی تھی وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اورنماز ہی میں کعبہ کی طرف گھوم گئے۔
حدیث نمبر : 400
حدثنا مسلم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن محمد بن عبد الرحمن، عن جابر، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت، فإذا أراد الفريضة نزل فاستقبل القبلة.
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن عبدالرحمن کے واسطہ سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو ( نفل ) نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔
نفل نمازیں سواری پر پڑھنا درست ہے اوررکوع سجدہ بھی اشارے سے کرنا کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اونٹنی پر نماز شروع کرتے وقت آپ قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ لیا کرتے تھے۔
حدیث نمبر : 401
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، قال قال عبد الله صلى النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال إبراهيم لا أدري زاد أو نقص ـ فلما سلم قيل له يا رسول الله، أحدث في الصلاة شىء قال " وما ذاك". قالوا صليت كذا وكذا. فثنى رجليه واستقبل القبلة، وسجد سجدتين ثم سلم، فلما أقبل علينا بوجهه قال " إنه لو حدث في الصلاة شىء لنبأتكم به، ولكن إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحرى الصواب، فليتم عليه ثم يسلم، ثم يسجد سجدتين".
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دینا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔
تشریح : بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔