• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ہر مقام اور ہر ملک میں مسلمان جہاں بھی رہے نماز میں قبلہ کی طرف منہ کرے

وقال أبو هريرة قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ استقبل القبلة وكبر‏"‏‏. ‏
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کعبہ کی طرف منہ کر اور تکبیر کہہ۔

تشریح : اس حدیث کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاستیذان میں نکالا ہے۔ مقصد ظاہر ہے کہ دنیائے اسلام کے لیے ہر ہر ملک سے نماز میں سمت کعبہ کی طرف منہ کرنا کافی ہے اس لیے کہ عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ناممکن ہے۔ ہاں جو لوگ حرم میں ہوں اور کعبہ نظروں کے سامنے ہو ان کو عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے۔ نماز میں کعبہ کی طرف توجہ کرنا اور تمام عالم کے لیے کعبہ کومرکز بنانا اسلامی اتحاد ومرکزیت کا ایک زبردست مظاہر ہ ہے۔ کاش! مسلمان اس حقیقت کو سمجھیں اور ملی طور پر اپنے اندر مرکزیت پیدا کریں۔

حدیث نمبر : 399
حدثنا عبد الله بن رجاء، قال حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن البراء بن عازب ـ رضى الله عنهما ـ قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى نحو بيت المقدس ستة عشر أو سبعة عشر شهرا، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يحب أن يوجه إلى الكعبة، فأنزل الله ‏{‏قد نرى تقلب وجهك في السماء‏}‏ فتوجه نحو الكعبة، وقال السفهاء من الناس ـ وهم اليهود ـ ما ولاهم عن قبلتهم التي كانوا عليها ‏{‏قل لله المشرق والمغرب يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم‏}‏ فصلى مع النبي صلى الله عليه وسلم رجل ثم خرج بعد ما صلى، فمر على قوم من الأنصار في صلاة العصر نحو بيت المقدس فقال هو يشهد أنه صلى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وأنه توجه نحو الكعبة‏.‏ فتحرف القوم حتى توجهوا نحو الكعبة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن رجاء نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا، کہا انھوں نے ابواسحاق سے بیان کیا، کہا انھوں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سولہ یا سترہ ماہ تک بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم ( دل سے ) چاہتے تھے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی “ ہم آپ کا آسمان کی طرف بار بار چہرہ اٹھانا دیکھتے ہیں۔ پھر آپ نے کعبہ کی طرف منہ کر لیا اور احمقوں نے جو یہودی تھے کہنا شروع کیا کہ انھیں اگلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا۔ آپ فرما دیجیئے کہ اللہ ہی کی ملکیت ہے مشرق اور مغرب، اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت کر دیتا ہے۔ ” ( جب قبلہ بدلا تو ) ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی پھر نماز کے بعد وہ چلا اور انصار کی ایک جماعت پر اس کا گزر ہوا جو عصر کی نماز بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وہ نماز پڑھی ہے جس میں آپ نے موجودہ قبلہ ( کعبہ ) کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ پھر وہ جماعت ( نماز کی حالت میں ہی ) مڑ گئی اور کعبہ کی طرف منہ کر لیا۔

بیان کرنے والے عبادبن بشرنامی ایک صحابی تھے اوریہ بنی حارثہ کی مسجد تھی جس کو آج بھی مسجدالقبلتین کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اللہ کا شکر ہے کہ راقم الحروف کو ایک مرتبہ1951 ءمیں اوردوسری مرتبہ 1962 ءمیں یہ مسجددیکھنے کا شرف حاصل ہوا۔قباوالوں کو دوسرے دن خبرہوئی تھی وہ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے اورنماز ہی میں کعبہ کی طرف گھوم گئے۔

حدیث نمبر : 400
حدثنا مسلم، قال حدثنا هشام، قال حدثنا يحيى بن أبي كثير، عن محمد بن عبد الرحمن، عن جابر، قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي على راحلته حيث توجهت، فإذا أراد الفريضة نزل فاستقبل القبلة‏.‏
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشام بن عبداللہ دستوائی نے، کہا ہم سے یحییٰ بن ابی کثیر نے محمد بن عبدالرحمن کے واسطہ سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر خواہ اس کا رخ کسی طرف ہو ( نفل ) نماز پڑھتے تھے لیکن جب فرض نماز پڑھنا چاہتے تو سواری سے اتر جاتے اور قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے۔

نفل نمازیں سواری پر پڑھنا درست ہے اوررکوع سجدہ بھی اشارے سے کرنا کافی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ اونٹنی پر نماز شروع کرتے وقت آپ قبلہ کی طرف منہ کرکے تکبیر کہہ لیا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 401
حدثنا عثمان، قال حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، قال قال عبد الله صلى النبي صلى الله عليه وسلم ـ قال إبراهيم لا أدري زاد أو نقص ـ فلما سلم قيل له يا رسول الله، أحدث في الصلاة شىء قال ‏"‏ وما ذاك‏"‏‏. ‏ قالوا صليت كذا وكذا‏.‏ فثنى رجليه واستقبل القبلة، وسجد سجدتين ثم سلم، فلما أقبل علينا بوجهه قال ‏"‏ إنه لو حدث في الصلاة شىء لنبأتكم به، ولكن إنما أنا بشر مثلكم، أنسى كما تنسون، فإذا نسيت فذكروني، وإذا شك أحدكم في صلاته فليتحرى الصواب، فليتم عليه ثم يسلم، ثم يسجد سجدتين‏"‏‏. ‏
ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا، کہا ہم سے جریر نے منصور کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے، کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔ ابراہیم نے کہا مجھے نہیں معلوم کہ نماز میں زیادتی ہوئی یا کمی۔ پھر جب آپ نے سلام پھیرا تو آپ سے کہا گیا کہ یا رسول اللہ! کیا نماز میں کوئی نیا حکم آیا ہے؟ آپ نے فرمایا آخر کیا بات ہے؟ لوگوں نے کہا آپ نے اتنی اتنی رکعتیں پڑھی ہیں۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں پاؤں پھیرے اور قبلہ کی طرف منہ کر لیا اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے اور سلام پھیرا۔ پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ اگر نماز میں کوئی نیا حکم نازل ہوا ہوتا تو میں تمہیں پہلے ہی ضرور کہہ دینا لیکن میں تو تمہارے ہی جیسا آدمی ہوں، جس طرح تم بھولتے ہو میں بھی بھول جاتا ہوں۔ اس لیے جب میں بھول جایا کروں تو تم مجھے یاد دلایا کرو اور اگر کسی کو نماز میں شک ہو جائے تو اس وقت ٹھیک بات سوچ لے اور اسی کے مطابق نماز پوری کرے پھر سلام پھیر کر دو سجدے ( سہو کے ) کر لے۔

تشریح : بخاری شریف ہی کی ایک دوسری حدیث میں خودابراہیم سے روایت ہے کہ آپ نے بجائے چار کے پانچ رکعت نماز پڑھ لی تھیں اور یہ ظہر کی نماز تھی۔ طبرانی کی ایک روایت میں ہے کہ یہ عصر کی نماز تھی، اس لیے ممکن ہے کہ دودفعہ یہ واقعہ ہوا ہو۔ ٹھیک بات سوچنے کا مطلب یہ کہ مثلاً تین یاچار میں شک ہو تو تین کو اختیار کرے اور دواورتین میں شک ہو تو دو کو اختیار کرے۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ پیغمبروں سے بھی بھول چوک ممکن ہے اوریہ بھی ثابت ہوا کہ نماز میں اگراس گمان پر کہ نماز پوری ہو چکی ہے کوئی بات کرلے تونماز کانئے سرے سے لوٹانا واجب نہیں ہے کیونکہ آپ نے خود نئے سرے سے نماز کو لوٹایا نہ لوگوں کو حکم دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قبلہ سے متعلق مزید احادیث

ومن لا يرى الإعادة على من سها فصلى إلى غير القبلة‏.‏ وقد سلم النبي صلى الله عليه وسلم في ركعتى الظهر، وأقبل على الناس بوجهه، ثم أتم ما بقي‏.‏ اور جس نے یہ کہا کہ اگر کوئی بھول سے قبلہ کے علاوہ کسی دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے تو اس پر نماز کا لوٹانا واجب نہیں ہے۔ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعت کے بعد ہی سلام پھیر دیا۔ اور لوگوں کی طرف متوجہ ہو گئے، پھر ( یاد دلانے پر ) باقی نماز پوری کی۔

تشریح : یہ ایک حدیث کا حصہ ( ٹکڑا ) ہے جسے خود حضرت امام بخاری نے روایت کیاہے۔ مگراس میں آپ کا لوگوں کی طرف منہ کرنے کا ذکرنہیں ہے اوریہ فقرہ مؤطا امام مالک کی روایت میں ہے۔ اس حدیث سے ترجمہ باب اس طرح نکلا کہ جب آپ نے بھولے سے لوگوں کی طرف منہ کرلیا تو قبلہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی، باوجود اس کے آپ نے نماز کو نئے سرے سے نہیں لوٹایا بلکہ جو باقی رہ گئی تھی اتنی ہی پڑھی۔

حدیث نمبر : 402
حدثنا عمرو بن عون، قال حدثنا هشيم، عن حميد، عن أنس، قال قال عمر وافقت ربي في ثلاث، فقلت يا رسول الله لو اتخذنا من مقام إبراهيم مصلى فنزلت ‏{‏واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى‏}‏ وآية الحجاب قلت يا رسول الله، لو أمرت نساءك أن يحتجبن، فإنه يكلمهن البر والفاجر‏.‏ فنزلت آية الحجاب، واجتمع نساء النبي صلى الله عليه وسلم في الغيرة عليه فقلت لهن عسى ربه إن طلقكن أن يبدله أزواجا خيرا منكن‏.‏ فنزلت هذه الآية‏.‏ حدثنا ابن أبي مريم، قال أخبرنا يحيى بن أيوب، قال حدثني حميد، قال سمعت أنسا، بهذا‏.‏
ہم سے عمرو بن عون نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری تین باتوں میں جو میرے منہ سے نکلا میرے رب نے ویسا ہی حکم فرمایا۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ! اگر ہم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا سکتے تو اچھا ہوتا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ “ اور تم مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے کی جگہ بنا لو ” دوسری آیت پردہ کے بارے میں ہے۔ میں نے کہا تھا کہ یا رسول اللہ کاش! آپ اپنی عورتوں کو پردہ کا حکم دیتے، کیونکہ ان سے اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ بات کرتے ہیں۔ اس پر پردہ کی آیت نازل ہوئی اور ایک مرتبہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں جوش و خروش میں آپ کی خدمت میں اتفاق کر کے کچھ مطالبات لے کر حاضر ہوئیں۔ میں نے ان سے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ اللہ پاک تمہیں طلاق دلا دیں اور تمہارے بدلے تم سے بہتر مسلمہ بیویاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عنایت کریں، تو یہ آیت نازل ہوئی عسی ربہ ان طلقلکن ان یبدلہ ازواجا خیرا منکن اور سعید ابن ابی مریم نے کہا کہ مجھے یحییٰ بن ایوب نے خبر دی، کہا کہ ہم سے حمید نے بیان کیا، کہا میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث سنی۔

تشریح : اس سند کے بیان کرنے سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ حمید کاسماع انس سے معلوم ہوجائے اوریحییٰ بن ایوب اگرچہ ضعیف ہے مگرامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان کی روایت بطور متابعت قبول فرمائی ہے۔

حدیث نمبر : 403
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك بن أنس، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر، قال بينا الناس بقباء في صلاة الصبح إذ جاءهم آت فقال إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل الكعبة فاستقبلوها، وكانت وجوههم إلى الشأم، فاستداروا إلى الكعبة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں امام مالک نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر سے، آپ نے فرمایا کہ لوگ قبا میں فجر کی نماز پڑھ رہے تھے کہ اتنے میں ایک آنے والا آیا۔ اس نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کل وحی نازل ہوئی ہے اور انھیں کعبہ کی طرف ( نماز میں ) منہ کرنے کا حکم ہو گیا ہے۔ چنانچہ ان لوگوں نے بھی کعبہ کی جانب منہ کر لیے جب کہ اس وقت وہ شام کی جانب منہ کئے ہوئے تھے، اس لیے وہ سب کعبہ کی جانب گھوم گئے۔

تشریح : ابن ابی حاتم کی روایت میں ہے کہ عورتیں مردوں کی جگہ آگئیں اورمرد گھوم کر عورتوں کی جگہ چلے گئے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس کی صورت یہ ہوئی کہ امام جو مسجد کے آگے کی جانب تھا گھوم کر مسجد کے پیچھے کی جانب آگیا، کیونکہ جو کوئی مدینہ میں کعبہ کی طرف منہ کرے گا توبیت المقدس اس کے پیٹھ کی طرف ہوجائے گا اور اگرامام اپنی جگہ پر رہ کر گھوم جاتا تو اس کے پیچھے صفوں کی جگہ کہاں سے نکلتی اور جب امام گھوما تو مقتدی بھی اس کے ساتھ گھوم گئے اور عورتیں بھی یہاں تک کہ وہ مردوں کے پیچھے آگئیں۔ ضرورت کے تحت یہ کیا گیا جیسا کہ وقت آنے پر سانپ مارنے کے لیے مسجد میں بحالت نماز گھومنا پھرنا درست ہے۔

حدیث نمبر : 404
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال صلى النبي صلى الله عليه وسلم الظهر خمسا فقالوا أزيد في الصلاة قال ‏"‏ وما ذاك‏"‏‏. ‏ قالوا صليت خمسا‏.‏ فثنى رجليه وسجد سجدتين‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید بن قطان نے شعبہ کے واسطے سے، انھوں نے ابراہیم سے، انھوں نے علقمہ سے انھوں نے عبداللہ سے، انھوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ( بھولے سے ) ظہر کی نماز ( ایک مرتبہ ) پانچ رکعت پڑھی ہیں۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر آپ نے اپنے پاؤں موڑ لیے اور ( سہو کے ) دو سجدے کئے۔

گذشتہ حدیث سے ثابت ہوا کہ کچھ صحابہ نے باوجود اس کے کہ کچھ نماز کعبہ کی طرف پیٹھ کرکے پڑھی مگر اس کو دوبارہ نہیں لوٹایا اوراس حدیث سے یہ نکلا کہ آپ نے بھول کر لوگوں کی طرف منہ کرلیا اورکعبہ کی طرف آپ کی پیٹھ ہوگئی مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو پھر بھی نہیں لوٹایا، باب کا یہی مقصود تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں تھوک لگا ہو تو ہاتھ سے اس کا کھرچ ڈالنا ضروری ہے

حدیث نمبر : 405
حدثنا قتيبة، قال حدثنا إسماعيل بن جعفر، عن حميد، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في القبلة، فشق ذلك عليه حتى رئي في وجهه، فقام فحكه بيده فقال ‏"‏ إن أحدكم إذا قام في صلاته، فإنه يناجي ربه ـ أو إن ربه بينه وبين القبلة ـ فلا يبزقن أحدكم قبل قبلته، ولكن عن يساره، أو تحت قدميه‏"‏‏. ‏ ثم أخذ طرف ردائه فبصق فيه، ثم رد بعضه على بعض، فقال ‏"‏ أو يفعل هكذا‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے اسماعیل بن جعفر نے حمید کے واسطہ سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا، جو آپ کو ناگوار گزرا اور یہ ناگواری آپ کے چہرہ مبارک پر دکھائی دینے لگی۔ پھر آپ اٹھے اور خود اپنے ہاتھ سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو گویا وہ اپنے رب کے ساتھ سرگوشی کرتا ہے، یا یوں فرمایا کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے کوئی شخص ( نماز میں اپنے ) قبلہ کی طرف نہ تھوکے۔ البتہ بائیں طرف یا اپنے قدموں کے نیچے تھوک سکتا ہے۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا کنادہ لیا، اس پر تھوکا پھر اس کو الٹ پلٹ کیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرو۔

حدیث نمبر : 406
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر،‏.‏ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى بصاقا في جدار القبلة فحكه، ثم أقبل على الناس فقال ‏"‏ إذا كان أحدكم يصلي، فلا يبصق قبل وجهه، فإن الله قبل وجهه إذا صلى‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے نافع کے واسطہ سے روایت کیا، کہا انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلے کی دیوار پر تھوک دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھرچ ڈالا پھر ( آپ نے ) لوگوں سے خطاب کیا اور فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز میں ہو تو اپنے منہ کے سامنے نہ تھوکے کیونکہ نماز میں منہ کے سامنے اللہ عزوجل ہوتا ہے۔

حدیث نمبر : 407
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة أم المؤمنين، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى في جدار القبلة مخاطا أو بصاقا أو نخامة فحكه‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت عائشہ ام المؤمنین رضی اللہ عنہا سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی دیوار پر رینٹ یا تھوک یا بلغم دیکھا تو اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھرچ ڈالا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں رینٹ کو کنکری سے کھرچ ڈالنا

وقال ابن عباس إن وطئت على قذر رطب فاغسله، وإن كان يابسا فلا‏.‏
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر گیلی نجاست پر تمہارے پاؤں پڑیں تو انھیں دھو ڈالو اور اگر نجاست خشک ہو تو دھونے کی ضرورت نہیں۔
تشریح : اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالاہے جس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ اگربھولے سے نہ دھوئے تو کوئی ہرج نہیں۔ دوسری روایت میں یہ ہے کہ اس کے بعد کی پاک زمین اس کو بھی پاک کردیتی ہے۔ آ پ نے ایسا ایک عورت کے جواب میں فرمایا تھا۔ جس کا پلو لٹکتا رہتا تھا۔ ترجمہ باب سے اس اثر کو مطابقت یوں ہے کہ قبلہ کی طرف تھوکنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ یہ ادب کے خلاف ہے، نہ اس لیے کہ تھوک نجس ہے۔ اگر بالفرض نجس بھی ہوتا تو سوکھی نجاست کے روندنے سے کچھ ہرج نہیں ہے۔


حدیث نمبر : 408-409
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال أخبرنا إبراهيم بن سعد، أخبرنا ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة، وأبا، سعيد حدثاه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في جدار المسجد، فتناول حصاة فحكها فقال ‏"‏ إذا تنخم أحدكم فلا يتنخمن قبل وجهه ولا عن يمينه، وليبصق عن يساره أو تحت قدمه اليسرى‏"‏‏.
ہم سے سعید بن اسماعیل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں ابن شہاب نے حمید بن عبدالرحمن کے واسطہ سے بیان کیا کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے انھیں خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کی دیوار پر بلغم دیکھا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری لی اور اسے صاف کر دیا۔ پھر فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی شخص تھوکے تو اسے اپنے منہ کے سامنے یا دائیں طرف نہیں تھوکنا چاہیے، البتہ بائیں طرف یا اپنے پاؤں کے نیچے تھوک لے۔

تشریح : ترجمہ باب میں رینٹ کا ذکر تھا اورحدیث میں بلغم کا ذکر ہے۔ چونکہ یہ دونوں آدمی کے فضلے ہیں اس لیے دونوں کا ایک ہی حکم ہے، حدیث مذکور میں نماز کی قیدنہیں ہے۔ مگرآگے یہی روایت آدم بن ابی ایاس سے آرہی ہے اس میں نماز کی قید ہے۔ امام نووی فرماتے ہیں کہ یہ ممانعت مطلق ہے۔ یعنی نماز میں ہویا غیر نماز میں مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں قبلہ کی طرف تھوکنامنع ہے۔ پچھلے باب میں تھوک کو اپنے ہاتھ سے صاف کرنے کا ذکر تھا اوریہاں کنکری سے کھرچنے کا ذکر ہے۔ جس سے ظاہر ہے کہ آپ نے کبھی ایسا کیا، کبھی ایسا کیا، دونوں طرح سے مسجد کو صاف کرنا مقصد ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ نماز میں اپنے دائیں طرف نہ تھوکنا چاہیے۔

حدیث نمبر : 410-411
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة، وأبا، سعيد أخبراه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في حائط المسجد، فتناول رسول الله صلى الله عليه وسلم حصاة فحتها ثم قال ‏"‏ إذا تنخم أحدكم فلا يتنخم قبل وجهه ولا عن يمينه، وليبصق عن يساره، أو تحت قدمه اليسرى‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے عقیل بن خالد کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنکری سے اسے کھرچ ڈالا اور فرمایا اگر تم میں سے کسی کو تھوکنا ہو تو اسے اپنے چہرے کے سامنے یا اپنے دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ اپنے بائیں طرف یا اپنے بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔

حدیث نمبر : 412
حدثنا حفص بن عمر، قال حدثنا شعبة، قال أخبرني قتادة، قال سمعت أنسا، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا يتفلن أحدكم بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت رجله‏"‏‏. ‏
ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے قتادہ نے خبر دی، انھوں نے کہا میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اپنے سامنے یا اپنی دائیں طرف نہ تھوکا کرو، البتہ بائیں طرف یا بائیں قدم کے نیچے تھوک سکتے ہو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوکنے کے بیان میں

حدیث نمبر : 413
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا قتادة، قال سمعت أنس بن مالك، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ إن المؤمن إذا كان في الصلاة فإنما يناجي ربه، فلا يبزقن بين يديه ولا عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے قتادہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن جب نماز میں ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے، ہاں بائیں طرف یا پاؤں کے نیچے تھوک لے۔

حدیث نمبر : 414
حدثنا علي، قال حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن حميد بن عبد الرحمن، عن أبي سعيد،‏.‏ أن النبي صلى الله عليه وسلم أبصر نخامة في قبلة المسجد فحكها بحصاة، ثم نهى أن يبزق الرجل بين يديه أو عن يمينه، ولكن عن يساره أو تحت قدمه اليسرى‏.‏ وعن الزهري سمع حميدا عن أبي سعيد نحوه‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا ہم سے امام زہری نے حمید بن عبدالرحمن سے، انھوں نے ابوسعید خدری سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ کی دیوار پر بلغم دیکھا تو آپ نے اسے کنکری سے کھرچ ڈالا۔ پھر فرمایا کہ کوئی شخص سامنے یا دائیں طرف نہ تھوکے، البتہ بائیں طرف یا بائیں پاؤں کے نیچے تھوک لینا چاہیے۔ دوسری روایت میں زہری سے یوں ہے کہ انھوں نے حمید بن عبدالرحمن سے ابوسعید خدری کے واسطہ سے اسی طرح یہ حدیث سنی۔

اس سند کے بیان کرنے سے غرض یہ ہے کہ زہری کا سماع حمید سے معلوم ہوجائے۔ یہ جملہ احادیث اس زمانہ سے تعلق رکھتی ہیں جب مساجد خام تھیں اورفرش بھی ریت کا ہوتا تھا اس میں اس تھوک کو غائب کردینا ممکن تھا جیسا کہ کفارتھا دفنہا میں وارد ہوا، اب پختہ فرشوں والی مسجد میں صرف رومال کا استعمال ہونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں اس کا ذکر موجود ہوا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں تھوکنے کا کفارہ

حدیث نمبر : 415
حدثنا آدم، قال حدثنا شعبة، قال حدثنا قتادة، قال سمعت أنس بن مالك، قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ البزاق في المسجد خطيئة، وكفارتها دفنها‏"‏‏. ‏
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے، کہا ہم سے قتادہ نے کہا کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسجد میں تھوکنا گناہ ہے اور اس کا کفارہ اسے ( زمین میں ) چھپا دینا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں بلغم کو مٹی کے اندر چھپا دینا ضروری ہے

حدیث نمبر : 416
حدثنا إسحاق بن نصر، قال حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن همام، سمع أبا هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا قام أحدكم إلى الصلاة فلا يبصق أمامه، فإنما يناجي الله ما دام في مصلاه، ولا عن يمينه، فإن عن يمينه ملكا، وليبصق عن يساره أو تحت قدمه، فيدفنها‏"‏‏. ‏
ہم سے اسحاق بن نصر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہمیں عبدالرزاق نے معمر بن راشد سے، انھوں نے ہمام بن منبہ سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو سامنے نہ تھوکے کیونکہ وہ جب تک اپنی نماز کی جگہ میں ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا رہتا ہے اور دائیں طرف بھی نہ تھوکے کیونکہ اس طرف فرشتہ ہوتا ہے، ہاں بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لے اور اسے مٹی میں چھپا دے۔

تشریح : امام بخاری قدس سرہ نے تھوک سے متعلق ان جملہ ابواب اوران میں روایت کردہ احادیث سے ثابت فرمایاکہ بوقت ضرورت تھوک، رینٹ، کھنکار، بلغم سب کا آنا لازمی ہے مگر مسجد کا ادب اور نمازیوں کے آرام وراحت کا خیال ضروری ہے۔ ابتدائے اسلام میں مساجد خام تھیں، فرش بالکل خام مٹی کے ہوا کرتے تھے جن میں تھوک لینا اور پھر ریت میں اس تھوک کو چھپا دینا ممکن تھا۔ آج کل مساجد پختہ، ان کے فرش پختہ پھر ان پر بہترین حصیر ہوتے ہیں۔ ان صورتوں اوران حالات میں رومال کا استعمال ہی مناسب ہے۔ مسجد میں یا اس کے درودیوار پر تھوکنا یارینٹ یابلغم لگادینا سخت گناہ اورمسجد کی بے ادبی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں پر اپنی سخت ترین ناراضگی کا اظہارفرمایاہے، جیسا کہ حدیث عبداللہ بن عمر میں اس کا ذکر گزر چکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب تھوک کا غلبہ ہو تو نمازی اپنے کپڑے کے کنارے میں تھوک لے

حدیث نمبر : 417
حدثنا مالك بن إسماعيل، قال حدثنا زهير، قال حدثنا حميد، عن أنس، أن النبي صلى الله عليه وسلم رأى نخامة في القبلة فحكها بيده، ورئي منه كراهية ـ أو رئي كراهيته لذلك وشدته عليه ـ وقال ‏"‏ إن أحدكم إذا قام في صلاته فإنما يناجي ربه ـ أو ربه بينه وبين قبلته ـ فلا يبزقن في قبلته، ولكن عن يساره أو تحت قدمه‏"‏‏. ‏ ثم أخذ طرف ردائه فبزق فيه، ورد بعضه على بعض، قال ‏"‏ أو يفعل هكذا‏"‏‏.
ہم سے مالک بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے زہیر بن معاویہ نے، کہا ہم سے حمیدنے انس بن مالک سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبلہ کی طرف ( دیوار پر ) بلغم دیکھا تو آپ نے خود اسے کھرچ ڈالا اور آپ کی ناخوشی کو محسوس کیا گیا یا ( راوی نے اس طرح بیان کیا کہ ) اس کی وجہ سے آپ کی شدید ناگواری کو محسوس کیا گیا۔ پھر آپ نے فرمایا کہ جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، یا یہ کہ اس کا رب اس کے اور قبلہ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس لیے قبلہ کی طرف نہ تھوکا کرو، البتہ بائیں طرف یا قدم کے نیچے تھوک لیا کرو۔ پھر آپ نے اپنی چادر کا ایک کونا ( کنارہ ) لیا، اس میں تھوکا اور چادر کی ایک تہہ کو دوسری تہہ پر پھیر لیا اور فرمایا، یا اس طرح کر لیا کرے۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے حالات کی بناپر بوقت ضرورت اپنے عمل سے ہر طرح کی آسانی ثابت فرمائی ہے۔ چونکہ آج کل مساجد پختہ ہوتی ہیں، فرش بھی پختہ اوران پر مختلف قسم کی قیمتی چیزیں ( قالین وغیرہ ) بچھی ہوتی ہیں، لہٰذآج آپ کی یہی سنت ملحوظ رکھنی ہوگی کہ بوقت ضرورت رومال میں تھوک لیا جائے اوراس مقصد کے لیے خاص رومال رکھے جائیں۔ قربان جائیے! آپ نے اپنے عمل سے ہر طرح کی سہولت ظاہر فرمادی۔ کاش! مسلمان سمجھیں اوراسوئہ حسنہ پر عمل کواپنا مقصد حیات بنالیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : امام لوگوں کو یہ نصیحت کرے کہ نماز پوری طرح پڑھیں اور قبلہ کابیان

حدیث نمبر : 418
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ هل ترون قبلتي ها هنا فوالله ما يخفى على خشوعكم ولا ركوعكم، إني لأراكم من وراء ظهري‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے ابوالزناد سے خبر دی، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ میرا منہ ( نماز میں ) قبلہ کی طرف ہے، اللہ کی قسم مجھ سے نہ تمہارا خشوع چھپتا ہے نہ رکوع، میں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے تم کو دیکھتا رہتا ہوں۔

حدیث نمبر : 419
حدثنا يحيى بن صالح، قال حدثنا فليح بن سليمان، عن هلال بن علي، عن أنس بن مالك، قال صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم صلاة ثم رقي المنبر، فقال في الصلاة وفي الركوع ‏"‏ إني لأراكم من ورائي كما أراكم‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے ہلال بن علی سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، وہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک مرتبہ نماز پڑھائی، پھر آپ منبر پر چڑھے، پھر نماز کے باب میں اور رکوع کے باب میں فرمایا میں تمہیں پیچھے سے بھی اسی طرح دیکھتا رہتا ہوں جیسے اب سامنے سے دیکھ رہا ہوں۔

تشریح : یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ تھا کہ آپ مہرنبوت کے ذریعہ سے پیٹھ پیچھے سے بھی برابر دیکھ لیا کرتے تھے۔ بعض دفعہ وحی اورالہام کے ذریعہ بھی آپ کو معلوم ہوجایاکرتا تھا۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ یہاں حقیقتاً دیکھنا مراد ہے اوریہ آپ کے معجزات میں سے ہے کہ آپ پشت کی طرف کھڑے ہوئے لوگوں کودیکھ لیا کرتے تھے۔ مواہب اللدنیہ میں بھی ایسا ہی لکھا ہوا ہے۔
 
Top