Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
باب : اس بارے میں کہ کیا یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد فلاں خاندان والو ں کی ہے
تشریح : ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ایسا کہنا کہ یہ مسجد فلاں قبیلے یا فلاں شخص کی ہے مکروہ جانتے تھے کیونکہ مساجد سب اللہ کی ہیں۔ امام بخاری نے یہ باب اسی غرض سے باندھاہے کہ ایسا کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس سے مسجد اوراس کے تعمیر کرنے والوں کی شناخت مقصود ہوتی ہے۔ ورنہ تمام مساجد سب اللہ ہی کے لیے ہیں اوراللہ ہی کی عبادت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں، اسلامی فرقے جو اپنے اپنے ناموں سے مساجد کوموسوم کرتے ہیں اوراس میں دیگر مسالک کے لوگ خصوصاً اہل حدیث کا داخلہ ممنوع رکھتے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا ان کی مسجد میں چلا جائے تومسجد کوغسل دے کر اپنے تئیں پاک صاف کرتے ہیں، ان لوگوں کا یہ طرزِعمل تفریق بین المسلمین کا کھلا مظاہرہ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے۔
حدیث نمبر : 420
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء، وأمدها ثنية الوداع، وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی جنھیں ( جہاد کے لیے ) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیا الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیا الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔
تشریح : خاندانوں کی طرف مساجد کی نسبت کا رواج زمانہ رسالت ہی سے شروع ہوچکا تھا جیسا کہ یہاں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ جہاد کے لیے خاص طور پر گھوڑوں کو تیار کرنا اوران میں سے مشق کے لیے دوڑ کرانابھی حدیث مذکور سے ثابت ہوا۔ آپ نے جس گھوڑے کو دوڑکے لیے پیش کیاتھا اس کا نام سکب تھا۔ یہ دوڑحفیاءاورثنیۃ الوداع سے ہوئی تھی جن کا درمیانی فاصلہ پانچ یا چھ یا زیادہ سے زیادہ سات میل بتلایا گیاہے اورجوگھوڑے ابھی نئے تھے ان کی دوڑ کے لیے تھوڑی مسافت مقرر کی گئی تھی، جوثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔
موجودہ دورمیں ریس کے میدانوں میں جودوڑکرائی جاتی ہے، اس کی ہارجیت کا سلسلہ سراسر جوئے بازی سے ہے، لہٰذا اس میں شرکت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
تشریح : ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ایسا کہنا کہ یہ مسجد فلاں قبیلے یا فلاں شخص کی ہے مکروہ جانتے تھے کیونکہ مساجد سب اللہ کی ہیں۔ امام بخاری نے یہ باب اسی غرض سے باندھاہے کہ ایسا کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس سے مسجد اوراس کے تعمیر کرنے والوں کی شناخت مقصود ہوتی ہے۔ ورنہ تمام مساجد سب اللہ ہی کے لیے ہیں اوراللہ ہی کی عبادت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں، اسلامی فرقے جو اپنے اپنے ناموں سے مساجد کوموسوم کرتے ہیں اوراس میں دیگر مسالک کے لوگ خصوصاً اہل حدیث کا داخلہ ممنوع رکھتے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا ان کی مسجد میں چلا جائے تومسجد کوغسل دے کر اپنے تئیں پاک صاف کرتے ہیں، ان لوگوں کا یہ طرزِعمل تفریق بین المسلمین کا کھلا مظاہرہ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے۔
حدیث نمبر : 420
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء، وأمدها ثنية الوداع، وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی جنھیں ( جہاد کے لیے ) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیا الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیا الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔
تشریح : خاندانوں کی طرف مساجد کی نسبت کا رواج زمانہ رسالت ہی سے شروع ہوچکا تھا جیسا کہ یہاں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ جہاد کے لیے خاص طور پر گھوڑوں کو تیار کرنا اوران میں سے مشق کے لیے دوڑ کرانابھی حدیث مذکور سے ثابت ہوا۔ آپ نے جس گھوڑے کو دوڑکے لیے پیش کیاتھا اس کا نام سکب تھا۔ یہ دوڑحفیاءاورثنیۃ الوداع سے ہوئی تھی جن کا درمیانی فاصلہ پانچ یا چھ یا زیادہ سے زیادہ سات میل بتلایا گیاہے اورجوگھوڑے ابھی نئے تھے ان کی دوڑ کے لیے تھوڑی مسافت مقرر کی گئی تھی، جوثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔
موجودہ دورمیں ریس کے میدانوں میں جودوڑکرائی جاتی ہے، اس کی ہارجیت کا سلسلہ سراسر جوئے بازی سے ہے، لہٰذا اس میں شرکت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔