• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ کیا یوں کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد فلاں خاندان والو ں کی ہے

تشریح : ابراہیم نخعی رحمۃ اللہ علیہ ایسا کہنا کہ یہ مسجد فلاں قبیلے یا فلاں شخص کی ہے مکروہ جانتے تھے کیونکہ مساجد سب اللہ کی ہیں۔ امام بخاری نے یہ باب اسی غرض سے باندھاہے کہ ایسا کہنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔ اس سے مسجد اوراس کے تعمیر کرنے والوں کی شناخت مقصود ہوتی ہے۔ ورنہ تمام مساجد سب اللہ ہی کے لیے ہیں اوراللہ ہی کی عبادت کے لیے تعمیر کی جاتی ہیں، اسلامی فرقے جو اپنے اپنے ناموں سے مساجد کوموسوم کرتے ہیں اوراس میں دیگر مسالک کے لوگ خصوصاً اہل حدیث کا داخلہ ممنوع رکھتے ہیں اوراگر کوئی بھولا بھٹکا ان کی مسجد میں چلا جائے تومسجد کوغسل دے کر اپنے تئیں پاک صاف کرتے ہیں، ان لوگوں کا یہ طرزِعمل تفریق بین المسلمین کا کھلا مظاہرہ ہے، اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت دے۔

حدیث نمبر : 420
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن نافع، عن عبد الله بن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم سابق بين الخيل التي أضمرت من الحفياء، وأمدها ثنية الوداع، وسابق بين الخيل التي لم تضمر من الثنية إلى مسجد بني زريق، وأن عبد الله بن عمر كان فيمن سابق بها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی، انھوں نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان گھوڑوں کی جنھیں ( جہاد کے لیے ) تیار کیا گیا تھا مقام حفیاء سے دوڑ کرائی، اس دوڑ کی حدثنیا الوداع تھی اور جو گھوڑے ابھی تیار نہیں ہوئے تھے ان کی دوڑ ثنیا الوداع سے مسجد بنی زریق تک کرائی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی اس گھوڑ دوڑ میں شرکت کی تھی۔

تشریح : خاندانوں کی طرف مساجد کی نسبت کا رواج زمانہ رسالت ہی سے شروع ہوچکا تھا جیسا کہ یہاں مسجد بنی زریق کا ذکر ہے۔ جہاد کے لیے خاص طور پر گھوڑوں کو تیار کرنا اوران میں سے مشق کے لیے دوڑ کرانابھی حدیث مذکور سے ثابت ہوا۔ آپ نے جس گھوڑے کو دوڑکے لیے پیش کیاتھا اس کا نام سکب تھا۔ یہ دوڑحفیاءاورثنیۃ الوداع سے ہوئی تھی جن کا درمیانی فاصلہ پانچ یا چھ یا زیادہ سے زیادہ سات میل بتلایا گیاہے اورجوگھوڑے ابھی نئے تھے ان کی دوڑ کے لیے تھوڑی مسافت مقرر کی گئی تھی، جوثنیۃ الوداع سے لے کر مسجد بنی زریق تک تھی۔

موجودہ دورمیں ریس کے میدانوں میں جودوڑکرائی جاتی ہے، اس کی ہارجیت کا سلسلہ سراسر جوئے بازی سے ہے، لہٰذا اس میں شرکت کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں مال تقسیم کرنا اور مسجد میں کھجور کا خوشہ لگانا

قال أبو عبد الله القنو العذق والاثنان قنوان، والجماعة أيضا قنوان مثل صنو وصنوان‏.‏
امام بخاری رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ قنو کے معنی ( عربی زبان میں ) عذق ( خوشہ کھجور ) کے ہیں۔ دو کے لیے قنوان آتا ہے اور جمع کے لیے بھی یہی لفظ آتا ہے جیسے صنو اور صنوان۔

حدیث نمبر : 421
وقال إبراهيم عن عبد العزيز بن صهيب، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال أتي النبي صلى الله عليه وسلم بمال من البحرين فقال ‏"‏ انثروه في المسجد‏"‏‏. ‏ وكان أكثر مال أتي به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى الصلاة، ولم يلتفت إليه، فلما قضى الصلاة جاء فجلس إليه، فما كان يرى أحدا إلا أعطاه، إذ جاءه العباس فقال يا رسول الله، أعطني فإني فاديت نفسي وفاديت عقيلا، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ خذ‏"‏‏. ‏ فحثا في ثوبه، ثم ذهب يقله فلم يستطع فقال يا رسول الله، أؤمر بعضهم يرفعه إلى‏.‏ قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ قال فارفعه أنت على‏.‏ قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ فنثر منه، ثم ذهب يقله، فقال يا رسول الله، أؤمر بعضهم يرفعه على‏.‏ قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ قال فارفعه أنت على‏.‏ قال ‏"‏ لا‏"‏‏. ‏ فنثر منه، ثم احتمله فألقاه على كاهله ثم انطلق، فما زال رسول الله صلى الله عليه وسلم يتبعه بصره حتى خفي علينا، عجبا من حرصه، فما قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وثم منها درهم‏.‏
ابراہیم بن طہمان نے کہا، عبدالعزیز بن صہیب سے، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بحرین سے رقم آئی۔ آپ نے فرمایا کہ اسے مسجد میں ڈال دو اور یہ رقم اس تمام رقم سے زیادہ تھی جو اب تک آپ کی خدمت میں آ چکی تھی۔ پھر آپ نماز کے لیے تشریف لائے اور اس کی طرف کوئی توجہ نہیں فرمائی، جب آپ نماز پوری کر چکے تو آ کر مال ( رقم ) کے پاس بیٹھ گئے اور اسے تقسیم کرنا شروع فرما دیا۔ اس وقت جسے بھی آپ دیکھتے اسے عطا فرما دیتے۔ اتنے میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور بولے کہ یا رسول اللہ رضی اللہ عنہ مجھے بھی عطا کیجیئے کیونکہ میں نے ( غزوہ بدر میں ) اپنا بھی فدیہ دیا تھا اور عقیل کا بھی ( اس لیے میں زیر بار ہوں ) رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لے لیجیئے۔ انھوں نے اپنے کپڑے میں روپیہ بھر لیا اور اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن ( وزن کی زیادتی کی وجہ سے ) وہ نہ اٹھا سکے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! کسی کو فرمائیے کہ وہ اٹھانے میں میری مدد کرے۔ آپ نے فرمایا نہیں ( یہ نہیں ہو سکتا ) انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ آپ نے اس پر بھی انکار کیا، تب حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اس میں سے تھوڑا سا گرا دیا اور باقی کو اٹھانے کی کوشش کی، ( لیکن اب بھی نہ اٹھا سکے ) پھر فرمایا کہ یا رسول اللہ! کسی کو میری مدد کرنے کا حکم دیجیئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انکار فرمایا تو انھوں نے کہا کہ پھر آپ ہی اٹھوا دیجیئے۔ لیکن آپ نے اس سے بھی انکار کیا، تب انھوں نے اس میں سے تھوڑا سا روپیہ گرا دیا اور اسے اٹھا کر اپنے کاندھے پر رکھ لیا اور چلنے لگے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی اس حرص پر اتنا تعجب ہوا کہ آپ اس وقت تک ان کی طرف دیکھتے رہے جب تک وہ ہماری نظروں سے غائب نہیں ہو گئے اور آپ بھی وہاں سے اس وقت تک نہ اٹھے جب تک کہ ایک چونی بھی باقی رہی۔

تشریح : حضرت امام بخاری قدس سرہ یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مسجد میں مختلف اموال کو تقسیم کے لیے لانا اورتقسیم کرنا درست ہے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بحرین سے آیا ہوا روپیہ مسجد میں رکھوایا اورپھر اسے مسجدہی میں تقسیم فرمادیا۔ بعض دفعہ کھیتی باڑی کرنے والے صحابہ اصحاب صفہ کے لیے مسجد نبوی میں کھجور کا خوشہ لاکر لٹکادیا کرتے تھے۔ اسی کے لیے لفظ صنوان اور قنوان بولے گئے ہیں اوریہ دونوں الفاظ قرآن کریم میں بھی مستعمل ہیں۔ صنو کھجور کے ان درختوں کو کہتے ہیں جو دوتین مل کر ایک ہی جڑ سے نکلتے ہوں۔ ابراہیم بن طہمان کی روایت کو امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے تعلیقاً نقل فرمایا ہے۔ ابونعیم نے مستخرج میں اورحاکم نے مستدرک میں اسے موصولاً روایت کیاہے۔ احمدبن حفص سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے ابراہیم بن طہمان سے، بحرین سے آنے والا خزانہ ایک لاکھ روپیہ تھا جسے حضرت علاءحضرمی رضی اللہ عنہ نے خدمت اقدس میں بھیجا تھا اوریہ پہلا خراج تھا جو مدینہ منورہ میں آپ کے پاس آیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا روپیہ مسلمانوں میں تقسیم فرمادیا اوراپنی ذات ( اقدس ) کے لیے ایک پیسہ بھی نہیں رکھا۔ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے روپیہ اٹھانے کی اجازت تومرحمت فرمادی مگراس کے اٹھوانے میں نہ تو خود مدد دی نہ کسی دوسرے کومدد کے لیے اجازت دی، اس سے غرض یہ تھی کہ عباس رضی اللہ عنہ سمجھ جائیں اوردنیا کے مال کی حد سے زیادہ حرص نہ کریں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جسے مسجد میں کھانے کے لیے کہا جائے اور وہ اسے قبول کر لے

حدیث نمبر : 422
حدثنا عبد الله بن يوسف، أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله، سمع أنسا، قال وجدت النبي صلى الله عليه وسلم في المسجد معه ناس فقمت، فقال لي ‏"‏ آرسلك أبو طلحة ‏"‏ قلت نعم‏.‏ فقال ‏"‏ لطعام‏"‏‏. ‏ قلت نعم‏.‏ فقال لمن حوله ‏"‏ قوموا‏"‏‏. ‏ فانطلق وانطلقت بين أيديهم‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہم سے مالک نے اسحاق بن عبداللہ سے انھوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں پایا، آپ کے پاس اور بھی کئی لوگ تھے۔ میں کھڑا ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ کیا تجھ کو ابوطلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے کہا جی ہاں آپ نے پوچھا کھانے کے لیے؟ ( بلایا ہے ) میں نے عرض کی کہ جی ہاں! تب آپ نے اپنے قریب موجود لوگوں سے فرمایا کہ چلو، سب حضرات چلنے لگے اور میں ان کے آگے آگے چل رہا تھا۔

یہاں یہ حدیث مختصر ہے پوری حدیث باب علامات النبوۃ میں آئے گی۔حضرت انس رضی اللہ عنہ آگے دوڑ کر حضرت ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کو خبر کرنے کے لیے گئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اتنے آدمیوں کے ساتھ تشریف لارہے ہیں۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مسجد میں آپ کو دعوت دی اور آپ نے مسجد ہی میں دعوت قبول فرمائی۔یہی ترجمہ باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں فیصلے کرنا اور مردوں اور عورتوں ( خاوند، بیوی ) کے درمیان لعان کرانا ( جائز ہے )

حدیث نمبر : 423
حدثنا يحيى، قال أخبرنا عبد الرزاق، قال أخبرنا ابن جريج، قال أخبرني ابن شهاب، عن سهل بن سعد، أن رجلا، قال يا رسول الله، أرأيت رجلا وجد مع امرأته رجلا أيقتله فتلاعنا في المسجد وأنا شاهد‏.‏
ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالرزاق نے، کہا ہم کو ابن جریج نے، کہا ہمیں ابن شہاب نے سہل بن سعد ساعدی سے کہ ایک شخص نے کہا، یا رسول اللہ! اس شخص کے بارہ میں فرمائیے جو اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو ( بدفعلی کرتے ہوئے ) دیکھتا ہے، کیا اسے مار ڈالے؟ آخر اس مرد نے اپنی بیوی کے ساتھ مسجد میں لعان کیا اور اس وقت میں موجود تھا۔

تشریح : لعان یہ کہ مرد اپنی عورت کو زنا کراتے دیکھے مگراس کے پاس گواہ نہ ہوں بعد میں عورت انکار کرجائے۔ اس صورت میں وہ دونوں قاضی کے ہاں دعویٰ پیش کریں گے، قاضی پہلے مرد سے چار دفعہ قسم لے گا کہ وہ سچا ہے اورآخر میں کہے گا کہ میں اگرجھوٹ بولتا ہوں تومجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ پھر اسی طرح چار دفعہ عورت قسم کھاکر آخر میں کہے گی کہ اگر میں جھوٹی ہوں تومجھ پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو۔ پھر قاضی دونوں ( میاں، بیوی ) کے درمیان جدائی کا فیصلہ دے دے گا، اسی کو لعان کہتے ہیں۔ باب کی حدیث سے مسجد میں ایسے جھگڑوں کا فیصلہ دینا ثابت ہوا۔ یہاں جس مرد کا واقعہ ہے اس کا نام عویمر بن عامر عجلانی تھا، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو طلاق، اعتصام اوراحکام محاربین میں بھی روایت کیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ جب کوئی کسی کے گھر میں داخل ہو توکیا جس جگہ وہ چاہے وہاں پڑھ لے یا جہاں اسے نماز پڑھنے کے لیے کہا جائے ( وہاں پڑھے ) اور فالتو سوال و جواب نہ کرے۔

حدیث نمبر : 424
حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن ابن شهاب، عن محمود بن الربيع، عن عتبان بن مالك، أن النبي صلى الله عليه وسلم أتاه في منزله فقال ‏"‏ أين تحب أن أصلي لك من بيتك‏"‏‏. ‏ قال فأشرت له إلى مكان، فكبر النبي صلى الله عليه وسلم وصففنا خلفه، فصلى ركعتين‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے محمود بن ربیع سے انھوں نے عتبان بن مالک سے ( جو نابینا تھے ) کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم اپنے گھر میں کہاں پسند کرتے ہو کہ تمہارے لیے نماز پڑھوں۔ عتبان نے بیان کیا کہ میں نے ایک جگہ کی طرف اشارہ کیا۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کہی اور ہم نے آپ کے پیچھے صف باندھی پھر آپ نے دو رکعت نماز ( نفل ) پڑھائی۔

تشریح : باب کا مطلب حدیث سے اس طرح نکلا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان کی بتائی ہوئی جگہ کو پسند فرمالیا اورمزید تفتیش نہ کی۔ عتبان نابیناتھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے گھرمیں نفل نماز باجماعت پڑھا کر اس طرح ان پر اپنی نوازش فرمائی، پھرانھوں ( عتبان ) نے اپنی نفلی نمازوں کے لیے اسی جگہ کو مقرر کرلیا۔ معلوم ہوا کہ ایسے موقع پر نفل نمازوں کو جماعت سے بھی پڑھ لینا جائز ہے۔ مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں ( کہ بوقت ضرورت ) گھروں میں جائے نماز ( مقرر کر لینا جائز ہے )

وصلى البراء بن عازب في مسجده في داره جماعة‏.‏
اور براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کی مسجد میں جماعت سے نماز پڑھی۔
اس اثر کو ابن ابی شیبہ نے نکالا ہے۔

حدیث نمبر : 425
حدثنا سعيد بن عفير، قال حدثني الليث، قال حدثني عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني محمود بن الربيع الأنصاري، أن عتبان بن مالك ـ وهو من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم ممن شهد بدرا من الأنصار ـ أنه أتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال يا رسول الله، قد أنكرت بصري، وأنا أصلي لقومي، فإذا كانت الأمطار سال الوادي الذي بيني وبينهم، لم أستطع أن آتي مسجدهم فأصلي بهم، ووددت يا رسول الله أنك تأتيني فتصلي في بيتي، فأتخذه مصلى‏.‏ قال فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ سأفعل إن شاء الله‏"‏‏. ‏ قال عتبان فغدا رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبو بكر حين ارتفع النهار، فاستأذن رسول الله صلى الله عليه وسلم فأذنت له، فلم يجلس حتى دخل البيت ثم قال ‏"‏ أين تحب أن أصلي من بيتك‏"‏‏. ‏ قال فأشرت له إلى ناحية من البيت، فقام رسول الله صلى الله عليه وسلم فكبر، فقمنا فصفنا، فصلى ركعتين ثم سلم، قال وحبسناه على خزيرة صنعناها له‏.‏ قال فثاب في البيت رجال من أهل الدار ذوو عدد فاجتمعوا، فقال قائل منهم أين مالك بن الدخيشن أو ابن الدخشن فقال بعضهم ذلك منافق لا يحب الله ورسوله‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لا تقل ذلك، ألا تراه قد قال لا إله إلا الله‏.‏ يريد بذلك وجه الله‏"‏‏. ‏ قال الله ورسوله أعلم‏.‏ قال فإنا نرى وجهه ونصيحته إلى المنافقين‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فإن الله قد حرم على النار من قال لا إله إلا الله‏.‏ يبتغي بذلك وجه الله‏"‏‏. ‏ قال ابن شهاب ثم سألت الحصين بن محمد الأنصاري ـ وهو أحد بني سالم وهو من سراتهم ـ عن حديث محمود بن الربيع، فصدقه بذلك‏.‏
ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عقیل نے ابن شہاب کے واسطہ سے بیان کیا کہ مجھے محمود بن ربیع انصاری نے کہ عتبان بن مالک انصاری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اور غزوہ بدر کے حاضر ہونے والوں میں سے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا یا رسول اللہ! میری بینائی میں کچھ فرق آ گیا ہے اور میں اپنی قوم کے لوگوں کو نماز پڑھایا کرتا ہوں لیکن جب برسات کا موسم آتا ہے تو میرے اور میری قوم کے درمیان جو وادی ہے وہ بھر جاتی ہے اور بہنے لگ جاتی ہے اور میں انھیں نماز پڑھانے کے لیے مسجد تک نہیں جا سکتا یا رسول اللہ! میری خواہش ہے کہ آپ میرے گھر تشریف لائیں اور ( کسی جگہ ) نماز پڑھ دیں تا کہ میں اسے نماز پڑھنے کی جگہ بنا لوں۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عتبان سے فرمایا، انشاء اللہ تعالیٰ میں تمہاری اس خواہش کو پورا کروں گا۔ عتبان نے کہا کہ ( دوسرے دن ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جب دن چڑھا تو دونوں تشریف لے آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر آنے کی اجازت چاہی، میں نے اجازت دے دی۔ جب آپ گھر میں تشریف لائے تو بیٹھے بھی نہیں اور پوچھا کہ تم اپنے گھر کے کس حصہ میں مجھ سے نماز پڑھنے کی خواہش رکھتے ہو۔ عتبان نے کہا کہ میں نے گھر میں ایک کونے کی طرف اشارہ کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ( اس جگہ ) کھڑے ہوئے اور تکبیر کہی ہم بھی آپ کے پیچھے کھڑے ہو گئے اور صف باندھی پس آپ نے دو رکعت ( نفل ) نماز پڑھائی پھر سلام پھیرا۔ عتبان نے کہا کہ ہم نے آپ کو تھوڑی دیر کے لیے روکا اور آپ کی خدمت میں حلیم پیش کیا جو آپ ہی کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ عتبان نے کہا کہ محلہ والوں کا ایک مجمع گھر میں لگ گیا اور مجمع میں سے ایک شخص بولا کہ مالک بن دخشن یا ( یہ کہا ) ابن دخشن دکھائی نہیں دیتا۔ اس پر کسی دوسرے نے کہہ دیا کہ وہ تو منافق ہے جسے خدا اور رسول سے کوئی محبت نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا ایسا مت کہو، کیا تم دیکھتے نہیں کہ اس نے لا الہ الا اللہ کہا ہے اور اس سے مقصود خالص خدا کی رضا مندی حاصل کرنا ہے۔ تب منافقت کا الزام لگانے والا بولا کہ اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ علم ہے ہم تو بظاہر اس کی توجہات اور دوستی منافقوں ہی کے ساتھ دیکھتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے لا الہ الا اللہ کہنے والے پر اگر اس کا مقصد خالص خدا کی رضا حاصل کرنا ہو دوزخ کی آگ حرام کر دی ہے۔ ابن شہاب نے کہا کہ پھر میں نے محمود سے سن کر حصین بن محمد انصاری سے جو بنوسالم کے شریف لوگوں میں سے ہیں ( اس حدیث ) کے متعلق پوچھا تو انھوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ محمود سچا ہے۔

تشریح : علامہ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث سے بہت سے مسائل کو ثابت فرمایاہے، مثلا ( 1 ) اندھے کی امامت کا جائز ہونا جیسا کہ حضرت عتبان نابینا ہونے کے باوجود اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے۔ ( 2 ) اپنی بیماری کا بیان کرنا شکایت میں داخل نہیں۔ ( 3 ) یہ بھی ثابت ہوا کہ مدینہ میں مسجد نبوی کے علاوہ دیگر مساجد میں بھی نماز باجماعت ادا کی جاتی تھی۔ ( 4 ) عتبان جیسے معذوروں کے لیے اندھیرے اوربارش میں جماعت کا معاف ہونا۔ ( 5 ) بوقت ضرورت نماز گھر میں پڑھنے کے لیے ایک جگہ مقرر کرلینا۔ ( 6 ) صفوں کا برابر کرنا۔ ( 7 ) ملاقات کے لیے آنے والے بڑے آدمی کی امامت کا جائز ہونا بشرطیکہ صاحب خانہ اسے اجازت دے۔ ( 8 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں نماز پڑھی اس جگہ کا متبرک ہونا۔ ( 9 ) اگرکسی صالح نیک انسان کو گھرمیں برکت کے لیے بلایا جائے تواس کا جائز ہونا۔ ( 10 ) بڑے لوگوں کا چھوٹے بھائیوں کی دعوت قبول کرنا۔ ( 11 ) وعدہ پورا کرنا اور اس کے لیے ان شاءاللہ کہنا اگر میزبان پر بھروسا ہے توبغیر بلائے ہوئے بھی اپنے ساتھ دوسرے احباب کو دعوت کے لیے لے جانا۔ ( 12 ) گھر میں داخل ہونے سے پہلے صاحب خانہ سے اجازت حاصل کرنا۔ ( 13 ) اہل محلہ کا عالم یاامام کے پاس برکت حاصل کرنے کے لیے جمع ہونا۔ ( 14 ) جس سے دین میں نقصان کا ڈر ہواس کا حال امام کے سامنے بیان کردینا۔ ( 15 ) ایمان میں صرف زبانی اقرار کافی نہیں جب تک کہ دل میں یقین اور ظاہر میں عمل صالح نہ ہو۔ ( 16 ) توحید پر مرنے والے کا ہمیشہ دوزخ میں نہ رہنا۔ ( 17 ) برسات میں گھر میں نماز پڑھ لینا۔ ( 18 ) نوافل جماعت سے ادا کرنا۔

قسطلانی نے کہا کہ عتبان بن مالک انصاری سالمی مدنی تھے جونابینا ہوگئے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہفتہ کے دن آپ کے گھر تشریف لائے اور حضرت ابوبکر اور عمررضی اللہ عنہم بھی ساتھ تھے۔ حلیم خزیرہ کا ترجمہ ہے، جوگوشت کے ٹکڑوں کو پانی میں پکاکر بنایا جاتا تھا اوراس میں آٹا بھی ملایا کرتے تھے۔
مالک بن دخیشن جس پر نفاق کا شبہ ظاہر کیا گیاتھا، بعض لوگوں نے اسے مالک بن دخشم صحیح کہاہے۔ یہ بلااختلاف بدرکی لڑائی میں شریک تھے اورسہیل بن عمرو کافرکو انھوں نے ہی پکڑا تھا۔ ابن اسحاق نے مغازی میں بیان کیا ہے کہ مسجدضرار کو جلانے والوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی بھیجا تھا توظاہر ہوا کہ یہ منافق نہ تھے مگر کچھ لوگوں کو بعض حالات کی بناپر ان کے بارے میں ایسا ہی شبہ ہوا جیسا کہ حاطب بن بلتعہ کے بارے میں شبہ پیدا ہوگیا تھا جب کہ انھوں نے اپنی بیوی اوربچوں کی محبت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارادہ لشکر کشی کی جاسوسی مکہ والوں سے کرنے کی کوشش کی تھی جو ان کی غلطی تھی، مگرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا عذر قبول فرماکر اس غلطی کو معاف کردیاتھا۔ ایسا ہی مالک بن دخشم کے بارے میں آپ نے لوگوں کو منافق کہنے سے منع فرمایا، اس لیے بھی کہ وہ مجاہدین بدرسے ہیں جن کی ساری غلطیوں کو اللہ نے معاف کردیاہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بیس سے بھی زیادہ مقامات پر روایت کیا ہے اور اس سے بہت سے مسائل نکالے ہیں جیسا کہ اوپر گزر چکاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں داخل ہونے اور دوسرے کاموں میں بھی دائیں طرف سے ابتداء کرنے کے بیان میں

وكان ابن عمر يبدأ برجله اليمنى، فإذا خرج بدأ برجله اليسرى‏.‏
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مسجد میں داخل ہونے کے لیے پہلے دایاں پاؤں رکھتے اور نکلنے کے لیے بایاں پاؤں پہلے نکالتے۔

حدیث نمبر : 426
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن الأشعث بن سليم، عن أبيه، عن مسروق، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يحب التيمن ما استطاع في شأنه كله في طهوره وترجله وتنعله‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم کو شعبہ نے خبر دی اشعث بن سلیم کے واسطہ سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ طہارت کے وقت بھی، کنگھا کرنے اور جوتا پہننے میں بھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کیا دورِ جاہلیت کے مشرکوں کی قبروں کو کھود ڈالنا اور ان کی جگہ مسجد بنانا درست ہے؟

وما يكره من الصلاة في القبور‏.‏ ورأى عمر أنس بن مالك يصلي عند قبر فقال القبر القبر‏.‏ ولم يأمره بالإعادة‏.‏
کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا یہودیوں پر لعنت کرے کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مسجد بنا لیا اور قبروں میں نماز مکروہ ہونے کا بیان۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے قریب نماز پڑھتے دیکھا تو فرمایا کہ قبر ہے قبر! اور آپ نے ان کو نماز لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔

حدیث نمبر : 427
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن عائشة، أن أم حبيبة، وأم سلمة ذكرتا كنيسة رأينها بالحبشة فيها تصاوير، فذكرتا للنبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إن أولئك إذا كان فيهم الرجل الصالح فمات بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، فأولئك شرار الخلق عند الله يوم القيامة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے ہشام بن عروہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا کہ مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے یہ خبر پہنچائی کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما دونوں نے ایک کلیسا کا ذکر کیا جسے انھوں نے حبشہ میں دیکھا تو اس میں مورتیں ( تصویریں ) تھیں۔ انھوں نے اس کا تذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ان کا یہ قاعدہ تھا کہ اگر ان میں کوئی نیکوکار ( نیک ) شخص مر جاتا تو وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہی مورتیں ( تصویریں ) بنا دیتے پس یہ لوگ خدا کی درگاہ میں قیامت کے دن تمام مخلوق میں برے ہوں گے۔

تشریح : یہ اثر موصولاً ابونعیم نے کتاب الصلوٰۃ میں نکالا ہے جو حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے شیوخ میں سے ہیں۔ تفصیل یہ ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو ایک قبر کے پاس نماز پڑھتے دیکھا تو قبرقبر کہہ کر ان کواطلاع فرمائی مگر وہ قمر سمجھے بعد میں سمجھ جانے پر وہ قبر سے دور ہو گئے اور نماز ادا کی۔ اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا کہ نماز جائز ہوگی اگرفاسد ہوتی تو دوبارہ شروع کرتے۔ ( فتح )

آج کے زمانہ میں جب قبر پرستی عام ہے بلکہ چلہ پرستی اور شدہ پرستی اورتعزیہ پرستی سب زوروں پر ہے، توان حالات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق قبروں کے پاس مسجد بنانے سے منع کرنا چاہئیے اور اگر کوئی کسی قبر کو سجدہ کرے یا قبر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے تواس کے مشرک ہونے میں کیا شک ہو سکتا ہے؟

حدیث نمبر : 428
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد الوارث، عن أبي التياح، عن أنس، قال قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فنزل أعلى المدينة، في حى يقال لهم بنو عمرو بن عوف‏.‏ فأقام النبي صلى الله عليه وسلم فيهم أربع عشرة ليلة، ثم أرسل إلى بني النجار فجاءوا متقلدي السيوف، كأني أنظر إلى النبي صلى الله عليه وسلم على راحلته، وأبو بكر ردفه، وملأ بني النجار حوله، حتى ألقى بفناء أبي أيوب، وكان يحب أن يصلي حيث أدركته الصلاة، ويصلي في مرابض الغنم، وأنه أمر ببناء المسجد، فأرسل إلى ملإ من بني النجار فقال ‏"‏ يا بني النجار ثامنوني بحائطكم هذا‏"‏‏. ‏ قالوا لا والله، لا نطلب ثمنه إلا إلى الله‏.‏ فقال أنس فكان فيه ما أقول لكم، قبور المشركين، وفيه خرب، وفيه نخل، فأمر النبي صلى الله عليه وسلم بقبور المشركين فنبشت، ثم بالخرب فسويت، وبالنخل فقطع، فصفوا النخل قبلة المسجد، وجعلوا عضادتيه الحجارة، وجعلوا ينقلون الصخر، وهم يرتجزون، والنبي صلى الله عليه وسلم معهم وهو يقول ‏"‏ اللهم لا خير إلا خير الآخره فاغفر للأنصار والمهاجره ‏"‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عبدالوارث نے بیان کیا، انھوں نے ابوالتیاح کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہاں کے بلند حصہ میں بنی عمرو بن عوف کے یہاں آپ اترے اور یہاں چوبیس راتیں قیام فرمایا۔ پھر آپ نے بنونجار کو بلا بھیجا، تو وہ لوگ تلواریں لٹکائے ہوئے آئے۔ انس نے کہا، گویا میری نظروں کے سامنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر تشریف فرما ہیں، جبکہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں اور بن و نجار کے لوگ آپ کے چاروں طرف ہیں۔ یہاں تک کہ آپ ابوایوب کے گھر کے سامنے اترے اور آپ یہ پسند کرتے تھے کہ جہاں بھی نماز کا وقت آ جائے فوراً نماز ادا کر لیں۔ آپ بکریوں کے باڑوں میں بھی نماز پڑھ لیتے تھے، پھر آپ نے یہاں مسجد بنانے کے لیے حکم فرمایا۔ چنانچہ بن و نجار کے لوگوں کو آپ نے بلوا کر فرمایا کہ اے بن و نجار! تم اپنے اس باغ کی قیمت مجھ سے لے لو۔ انھوں نے جواب دیا نہیں یا رسول اللہ! اس کی قیمت ہم صرف اللہ سے مانگتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں جیسا کہ تمہیں بتا رہا تھا یہاں مشرکین کی قبریں تھیں، اس باغ میں ایک ویران جگہ تھی اور کچھ کھجور کے درخت بھی تھے پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین کی قبروں کو اکھڑوا دیا ویرانہ کو صاف اور برابر کرایا اور درختوں کو کٹوا کر ان کی لکڑیوں کو مسجد کے قبلہ کی جانب بچھا دیا اور پتھروں کے ذریعہ انھیں مضبوط بنا دیا۔ صحابہ پتھر اٹھاتے ہوئے رجز پڑھتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ اے اللہ! آخرت کے فائدہ کے علاوہ اور کوئی فائدہ نہیں پس انصار و مہاجرین کی مغفرت فرمانا۔

تشریح : بنونجار سے آپ کی قرابت تھی۔ آپ کے دادا عبدالمطلب کی ان لوگوں میں ننہال تھی۔ یہ لوگ اظہارخوشی اوروفاداری کے لیے تلواریں باندھ کر آپ کے استقبال کے لیے حاضر ہوئے اور خصوصی شان کے ساتھ آپ کولے گئے۔ آپ نے شروع میں حضرت ابوایوب کے گھر قیام فرمایا، کچھ دنوں کے بعد مسجدنبوی کی تعمیرشروع ہوئی، اوریہاں سے پرانی قبروں اور درختوں وغیرہ سے زمین کو صاف کیا۔ یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کھجور کے ان درختوں کی لکڑیوں سے قبلہ کی دیوار بنائی گئی تھی۔ ان کو کھڑاکرکے اینٹ اور گارے سے مضبوط کردیاگیاتھا۔ بعض کا قول ہے کہ چھت کے قبلہ کی جانب والے حصہ میں ان لکڑیوں کو استعمال کیا گیاتھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 429
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا شعبة، عن أبي التياح، عن أنس، قال كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في مرابض الغنم، ثم سمعته بعد يقول كان يصلي في مرابض الغنم قبل أن يبنى المسجد‏.‏
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے شعبہ نے ابوالتیاح کے واسطے سے، انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھتے تھے، ابوالتیاح یا شعبہ نے کہا، پھر میں نے انس کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بکریوں کے باڑہ میں مسجد کی تعمیر سے پہلے نماز پڑھا کرتے تھے۔

تشریح : معلوم ہواکہ بکریوں کے باڑوں میں بوقت ضرورت ایک طرف جگہ بناکر نماز پڑھ لی جائے تو جائز ہے۔ ابتدا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی بکریوں کے باڑوں میں نماز پڑھ لیا کرتے تھے، بعد میں مسجد نبوی بن گئی اور یہ جواز بوقت ضرورت باقی رہا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اونٹوں کے رہنے کی جگہ میں نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 430
حدثنا صدقة بن الفضل، قال أخبرنا سليمان بن حيان، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، قال رأيت ابن عمر يصلي إلى بعيره وقال رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يفعله‏.‏
ہم سے صدقہ بن فضل نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے سلیمان بن حیان نے، کہا ہم سے عبیداللہ نے نافع کے واسطہ سے، انھوں نے کہا کہ میں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کو اپنے اونٹ کی طرف نماز پڑھتے دیکھا اور انھوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے دیکھا تھا۔
 
Top