• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اگر کوئی شخص نماز پڑھے اور اس کے آگے تنور، یا آگ، یا اور کوئی چیز ہو جسے مشرک پوجتے ہیں، لیکن اس نمازی کی نیت محض عبادت الٰہی ہو تو نماز درست ہے

فأراد به الله‏.‏ وقال الزهري أخبرني أنس قال قال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ عرضت على النار وأنا أصلي‏"‏‏. ‏
زہری نے کہا کہ مجھے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر پہنچائی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے سامنے دوزخ لائی گئی اور اس وقت میں نماز پڑھ رہا تھا۔

یہ حدیث کا ایک ٹکڑا ہے جس کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے باب وقت الظہرمیں وصل کیاہے، اس سے ثابت ہوتاہے کہ نمازی کے آگے یہ چیزیں ہوں اور اس کی نیت خالص ہو تونمازبلاکراہت درست ہے۔

حدیث نمبر : 431
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن زيد بن أسلم، عن عطاء بن يسار، عن عبد الله بن عباس، قال انخسفت الشمس، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏ أريت النار، فلم أر منظرا كاليوم قط أفظع‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے امام مالک کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے زید بن اسلم سے، انھوں نے عطاء بن یسار سے، انھوں نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے فرمایا کہ سورج گہن ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور فرمایا کہ مجھے ( آج ) دوزخ دکھائی گئی، اس سے زیادہ بھیانک منظر میں نے کبھی نہیں دیکھا۔

اس حدیث سے حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ نماز میں آگ کے انگارے سامنے ہونے سے کچھ نقصان نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مقبروں میں نماز پڑھنے کی کراہت کے بیان میں

حدیث نمبر : 432
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال أخبرني نافع، عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ اجعلوا في بيوتكم من صلاتكم، ولا تتخذوها قبورا‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عمر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے نافع نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے گھروں میں بھی نمازیں پڑھا کرو اور انھیں بالکل مقبرہ نہ بنا لو۔

اس باب میں ایک اور صریح حدیث میں فرمایاہے کہ میرے لیے ساری زمین مسجد بنائی گئی ہے مگر قبرستان اور حمام، یہ حدیث اگرچہ صحیح ہے مگر حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی شرط پر نہ تھی اس لیے آپ اس کو نہ لائے، قبرستان میں نماز پڑھنا درست نہیں ہے، صحیح مسلک یہی ہے، گھروں کو مقبرہ نہ بناؤ کا یہی مطلب ہے کہ نفل نمازیں گھروں میں پڑھا کرو۔ اورقبرستان کی طرح وہاں نماز پڑھنے سے پرہیز نہ کیا کرو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : دھنسی ہوئی جگہوں میں یا جہاں کوئی اور عذاب اترا ہو وہاں نماز ( پڑھنا کیسا ہے؟ )

ويذكر أن عليا ـ رضى الله عنه ـ كره الصلاة بخسف بابل‏.
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ آپ نے بابل کی دھنسی ہوئی جگہ میں نماز کو مکروہ سمجھا۔

بابل کوفہ کی زمین اوراس کے اردگرد جہاں نمرود نے بڑی عمارت باغ اِرم کے نام سے بنوائی تھی۔ اللہ نے اسے زمین میں دھنسادیا۔

حدیث نمبر : 433
حدثنا إسماعيل بن عبد الله، قال حدثني مالك، عن عبد الله بن دينار، عن عبد الله بن عمر ـ رضى الله عنهما ـ أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا تدخلوا على هؤلاء المعذبين إلا أن تكونوا باكين، فإن لم تكونوا باكين فلا تدخلوا عليهم، لا يصيبكم ما أصابهم‏"‏‏. ‏
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمة اللہ علیہ نے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن دینار کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ان عذاب والوں کے آثار سے اگر تمہارا گزر ہو تو روتے ہوئے گزرو، اگر تم اس موقع پر رو نہ سکو تو ان سے گزرو ہی نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تم پر بھی ان کا سا عذاب آ جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : گرجا میں نماز پڑھنے کا بیان

وقال عمر ـ رضى الله عنه ـ إنا لا ندخل كنائسكم من أجل التماثيل التي فيها الصور‏.‏ وكان ابن عباس يصلي في البيعة إلا بيعة فيها تماثيل‏.‏ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا او نصرانیو! ہم آپ کے گرجاؤں میں اس وجہ سے نہیں جاتے کہ وہاں مورتیں ہوتی ہیں اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما گرجا میں نماز پڑھ لیتے مگر اس گرجا میں نہ پڑھتے جس میں مورتیں ہوتیں۔

حدیث نمبر : 434
حدثنا محمد، قال أخبرنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة، أن أم سلمة، ذكرت لرسول الله صلى الله عليه وسلم كنيسة رأتها بأرض الحبشة يقال لها مارية، فذكرت له ما رأت فيها من الصور، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أولئك قوم إذا مات فيهم العبد الصالح ـ أو الرجل الصالح ـ بنوا على قبره مسجدا، وصوروا فيه تلك الصور، أولئك شرار الخلق عند الله‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سلام بیکندی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو عبدہ بن سلیمان نے خبر دی، انھوں نے ہشام بن عروہ سے، انھوں نے اپنے باپ عروہ بن زبیر سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجا کا ذکر کیا جس کو انھوں نے حبش کے ملک میں دیکھا اس کا نام ماریہ تھا۔ اس میں جو مورتیں دیکھی تھیں وہ بیان کیں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ ایسے لوگ تھے کہ اگر ان میں کوئی نیک بندہ ( یا یہ فرمایا کہ ) نیک آدمی مر جاتا تو اس کی قبر پر مسجد بناتے اور اس میں یہ بت رکھتے۔ یہ لوگ اللہ کے نزدیک ساری مخلوقات سے بدتر ہیں۔

تشریح : حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترجمہ اورباب میں مطابقت یہ ہے کہ اس میں یہ ذکر ہے کہ وہ لوگ اس کی قبر پر مسجد بنالیتے اس میں یہ اشارہ ہے کہ مسلمان کو گرجا میں نماز پڑھنا منع ہے۔ کیونکہ احتمال ہے کہ گرجا کی جگہ پہلے قبر ہو اورمسلمان کے نماز پڑھنے سے وہ مسجد ہوجائے۔

ان عیسائیوں سے بدترآج ان مسلمانوں کا حال ہے جو مزاروں کو مسجدوں سے بھی زیادہ زینت دے کر وہاں بزرگوں سے حاجات طلب کرتے ہیں۔ بلکہ ان مزاروں پر سجدہ کرنے سے بھی باز نہیں آتے، یہ لوگ بھی اللہ کے نزدیک بدترین خلائق ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 435-436
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، أخبرني عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، أن عائشة، وعبد الله بن عباس، قالا لما نزل برسول الله صلى الله عليه وسلم طفق يطرح خميصة له على وجهه، فإذا اغتم بها كشفها عن وجهه، فقال وهو كذلك ‏"‏ لعنة الله على اليهود والنصارى اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد‏"‏‏. ‏ يحذر ما صنعوا‏.‏
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم کو شعیب نے خبر دی زہری سے، انھوں نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ نے خبر دی کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم نے بیان کیا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو آپ اپنی چادر کو بار بار چہرے پر ڈالتے۔ جب کچھ افاقہ ہوتا تو اپنے مبارک چہرے سے چادر ہٹا دیتے۔ آپ نے اسی اضطراب و پریشانی کی حالت میں فرمایا، یہود و نصاریٰ پر اللہ کی پھٹکار ہو کہ انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں پر مسجد بنا لیا۔ آپ یہ فرما کر امت کو ایسے کاموں سے ڈراتے تھے۔

حدیث نمبر : 437
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن سعيد بن المسيب، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ قاتل الله اليهود اتخذوا قبور أنبيائهم مساجد‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے مالک کے واسطے سے، انھوں نے ابن شہاب سے، انھوں نے سعید بن مسیب سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہودیوں پر اللہ کی لعنت ہو انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔

تشریح : آپ نے امت کو اس لیے ڈرایا کہ کہیں وہ بھی آپ کی قبر کو مسجد نہ بنالیں۔ ایک حدیث میں آپ نے فرمایا میری قبر پر میلہ نہ لگانا۔ ایک دفعہ فرمایاکہ یااللہ! میری قبرکو بت نہ بنادیناکہ لوگ اسے پوجیں۔یہود اورنصاریٰ ہردو کے یہاں قبر پرستی عام تھی اورآج بھی ہے۔ حافظ ابن قیم اغاثۃ اللہفان میں فرماتے ہیں کہ اگرکوئی شخص موجودہ عام مسلمانوں کا حدیث نبوی اور آثارصحابہ وتابعین کی روشنی میں موازنہ کرے تووہ دیکھے گا کہ آج مسلمانوں کے ایک جم غفیر نے بھی کس طرح حدیث نبوی کی مخالفت کرنے کی ٹھان لی ہے۔

مثلاً:
( 1 ) حضورعلیہ السلام نے قبورانبیاءپربھی نماز پڑھنے سے منع فرمایا مگر مسلمان شوق سے کتنی ہی قبورپر نماز پڑھتے ہیں۔
( 2 ) حضور علیہ السلام نے قبروں پر مساجد کی طرح عمارت بنانے سے سختی سے روکا مگر آج ان پر بڑی بڑی عمارات بناکر ان کا نام خانقاہ، مزارشریف اور درگاہ وغیرہ رکھا جاتاہے۔
( 3 ) حضورعلیہ السلام نے قبروں پر چراغاں سے منع فرمایا۔ مگرقبرپرست مسلمان قبروں پر خوب خوب چراغاں کرتے اوراس کام کے لیے کتنی ہی جائیدادیں وقف کرتے ہیں۔
( 4 ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر زائد مٹی ڈالنے سے بھی منع فرمایا۔ مگر یہ لوگ مٹی کے بجائے چونا اور اینٹ سے ان کو پختہ بناتے ہیں۔
( 5 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں پر کتبے لکھنے سے منع فرمایا۔ مگریہ لوگ شاندار عمارتیں بناکر آیات قرآنی قبروں پر لکھتے ہیں۔ گویاکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر حکم کے مخالف اوردین کی ہر ہدایت کے باغی بنے ہوئے ہیں۔

صاحب مجالس الابرار لکھتے ہیں کہ یہ فرقہ ضالہ غلو ( حد سے بڑھنا ) میں یہاں تک پہنچ گیاہے کہ بیت اللہ شریف کی طرح قبروں کے آداب اورارکان ومناسک مقرر کرڈالے ہیں۔ جواسلام کی جگہ کھلی ہوئی بت پرستی ہے۔ پھر تعجب یہ ہے کہ ایسے لوگ اپنے آپ کو حنفی سنی کہلاتے ہیں۔ حالانکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے ہرگز ہرگز ایسے امور کے لیے نہیں فرمایا۔ اللہ مسلمانوں کو نیک سمجھ عطا کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادکہ میرے لیے ساری دنیا پر نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے ( یعنی تیمم کرنے ) کی اجازت ہے

حدیث نمبر : 438
حدثنا محمد بن سنان، قال حدثنا هشيم، قال حدثنا سيار ـ هو أبو الحكم ـ قال حدثنا يزيد الفقير، قال حدثنا جابر بن عبد الله، قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أعطيت خمسا لم يعطهن أحد من الأنبياء قبلي، نصرت بالرعب مسيرة شهر، وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا، وأيما رجل من أمتي أدركته الصلاة فليصل، وأحلت لي الغنائم، وكان النبي يبعث إلى قومه خاصة، وبعثت إلى الناس كافة، وأعطيت الشفاعة‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابوالحکم سیار نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یزید فقیر نے، کہا ہم سے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے پانچ ایسی چیزیں عطا کی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے انبیاء کو نہیں دی گئی تھیں۔ ( 1 ) ایک مہینے کی راہ سے میرا رعب ڈال کر میری مدد کی گئی۔ ( 2 ) میرے لیے تمام زمین میں نماز پڑھنے اور پاکی حاصل کرنے کی اجازت ہے۔ اس لیے میری امت کے جس آدمی کی نماز کا وقت ( جہاں بھی ) آ جائے اسے ( وہیں ) نماز پڑھ لینی چاہیے۔ ( 3 ) میرے لیے مال غنیمت حلال کیا گیا۔ ( 4 ) پہلے انبیاء خاص اپنی قوموں کی ہدایت کے لیے بھیجے جاتے تھے۔ لیکن مجھے دنیا کے تمام انسانوں کی ہدایت کے لیے بھیجا گیا ہے۔ ( 5 ) مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔

معلوم ہوا کہ زمین کے ہر حصہ پرنماز اوراس سے تیمم کرنا درست ہے۔ بشرطیکہ وہ حصہ پاک ہو۔ مال غنیمت وہ جو اسلامی جہاد میں فتح کے نتیجہ میں حاصل ہو۔ یہ آپ کی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے آپ سارے انبیاءمیں ممتاز ہیں۔ اللہ نے آپ کا رعب اس قدر ڈال دیاتھاکہ بڑے بڑے بادشاہ دور دراز بیٹھے ہوئے محض آپ کا نام سن کر کانپ جاتے تھے۔ کسریٰ پرویز نے آپ کا نامہ مبارک چاک کرڈالا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تھوڑے ہی دنوںبعد اسی کے بیٹے شیرویہ کے ہاتھ سے اس کا پیٹ چاک کرادیا۔ اب بھی دشمنان رسول کا یہی حشر ہوتاہے کہ وہ ذلت کی موت مرتے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کا مسجد میں سونا

حدیث نمبر : 439
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن وليدة، كانت سوداء لحى من العرب، فأعتقوها، فكانت معهم قالت فخرجت صبية لهم عليها وشاح أحمر من سيور قالت فوضعته أو وقع منها، فمرت به حدياة وهو ملقى، فحسبته لحما فخطفته قالت فالتمسوه فلم يجدوه قالت فاتهموني به قالت فطفقوا يفتشون حتى فتشوا قبلها قالت والله إني لقائمة معهم، إذ مرت الحدياة فألقته قالت فوقع بينهم قالت فقلت هذا الذي اتهمتموني به ـ زعمتم ـ وأنا منه بريئة، وهو ذا هو قالت فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلمت‏.‏ قالت عائشة فكان لها خباء في المسجد أو حفش قالت فكانت تأتيني فتحدث عندي قالت فلا تجلس عندي مجلسا إلا قالت ويوم الوشاح من أعاجيب ربنا ألا إنه من بلدة الكفر أنجاني قالت عائشة فقلت لها ما شأنك لا تقعدين معي مقعدا إلا قلت هذا قالت فحدثتني بهذا الحديث‏.‏
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور انھیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی ( جو دلہن تھی ) نہانے کو نکلی، اس کا کمر بند سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے ( سرخ رنگ کی وجہ سے ) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی، یہاں تک کہ انھوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔ اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے ( اسے دیکھ کر ) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند! اس ( لونڈی ) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ ( یا یہ کہا کہ ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا، آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔

تشریح : ثابت کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی، ثابت ہوا کہ ایسی نومسلمہ مظلومہ عورت اگر کہیں جائے پناہ نہ پاسکے تو اسے مسجد میں پناہ دی جاسکتی ہے اوروہ رات بھی مسجد میں گزارسکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ عام حالات میں مسجد کا ادب واحترام پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مظلوم اگرچہ کافرہو پھر بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔

آج کل بھی بعض قوموں میں عورتیں چاندی کا کمربند بطور زیور استعمال کرتی ہیں۔ وہ بھی اسی قسم کا قیمتی کمربند ہوگا جو سرخ رنگ کا تھا۔ جسے چیل نے گوشت جان کر اٹھالیا مگربعد میں اسے واپس اسی جگہ پر لاکر ڈال دیا۔ یہ اس مظلومہ کی دعا کا اثر تھا ورنہ وہ چیل اسے اور نامعلوم جگہ ڈال دیتی تواللہ جانے کہ کافر اس غریب مسکینہ پر کتنے ظلم ڈھاتے۔ وہ نومسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر بیٹھاکرتی اورآپ سے اپنے ذاتی واقعات کا ذکر کیا کرتی تھی اوراکثر مذکورہ شعر اس کی زبان پر جاری رہا کرتا تھا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجدوں میں مردوں کا سونا

وقال أبو قلابة عن أنس قدم رهط من عكل على النبي صلى الله عليه وسلم فكانوا في الصفة‏.‏ وقال عبد الرحمن بن أبي بكر كان أصحاب الصفة الفقراء‏.‏ اور ابوقلابہ نے انس بن مالک سے نقل کیا ہے کہ عکل نامی قبیلہ کے کچھ لوگ ( جو دس سے کم تھے ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے، وہ مسجد کے سائبان میں ٹھہرے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر نے فرمایا کہ صفہ میں رہنے والے فقراء لوگ تھے۔

تشریح : اس حدیث کوخود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اسی لفظ سے باب المحاربین میں بیان کیاہے۔ اوریہ سائبان یاصفہ میں رہنے والے وہ لوگ تھے جن کا گھر بار کچھ نہ تھا۔ یہ ستر آدمی تھے۔ ان کو اصحاب صفہ کہا جاتا ہے اور یہ دارالعلوم محمدی کے طلبائے کرام تھے۔ر ضی اللہ عنہم۔

حدیث نمبر : 440
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، عن عبيد الله، قال حدثني نافع، قال أخبرني عبد الله، أنه كان ينام وهو شاب أعزب لا أهل له في مسجد النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ نے عبیداللہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ کو نافع نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ وہ اپنی نوجوانی میں جب کہ ان کے بیوی بچے نہیں تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں سویا کرتے تھے۔

ادب کے ساتھ بوقت ضرورت جوانوں بوڑھوں کے لیے مسجد میں سونا جائز ہے۔ صفہ مسجد نبوی کے سامنے ایک سایہ دار جگہ تھی۔ جوآج بھی مدینہ منورہ جانے والے دیکھتے ہیں، یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلیم حاصل کرنے والے رہتے تھے۔

حدیث نمبر : 441
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا عبد العزيز بن أبي حازم، عن أبي حازم، عن سهل بن سعد، قال جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة، فلم يجد عليا في البيت فقال ‏"‏ أين ابن عمك‏"‏‏. ‏ قالت كان بيني وبينه شىء، فغاضبني فخرج فلم يقل عندي‏.‏ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لإنسان ‏"‏ انظر أين هو‏"‏‏. ‏ فجاء فقال يا رسول الله، هو في المسجد راقد، فجاء رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، وأصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه ويقول ‏"‏ قم أبا تراب، قم أبا تراب‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز بن ابی حازم نے بیان کیا، انھوں نے اپنے باپ ابوحازم سہل بن دینار سے، انھوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے دیکھا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہا گھر میں موجود نہیں ہیں۔ آپ نے دریافت فرمایا کہ تمہارے چچا کے بیٹے کہاں ہیں؟ انھوں نے بتایا کہ میرے اور ان کے درمیان کچھ ناگواری پیش آ گئی اور وہ مجھ پر خفا ہو کر کہیں باہر چلے گئے ہیں اور میرے یہاں قیلولہ بھی نہیں کیا ہے۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے کہا کہ علی رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو کہ کہاں ہیں؟ وہ آئے اور بتایا کہ مسجد میں سوئے ہوئے ہیں۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ لیٹے ہوئے تھے، چادر آپ کے پہلو سے گر گئی تھی اور جسم پر مٹی لگ گئی تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جسم سے دھول جھاڑ رہے تھے اور فرما رہے تھے اٹھو ابوتراب اٹھو۔

تشریح : تراب عربی میں مٹی کو کہتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ازراہِ محبت لفظ ابوتراب سے بلایا بعد میں یہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ہوگئی اورآپ اپنے لیے اسے بہت پسند فرمایا کرتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے، مگرعرب کے محاورہ میں باپ کے عزیزوں کو بھی چچا کا بیٹا کہتے ہیں۔ آپ نے اپنی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پیدا کرنے کے خیال سے اس طرز سے گفتگو فرمائی۔ میاں بیوی میں گاہے گاہے باہمی ناراضگی ہونا بھی ایک فطری چیز ہے۔ مگر ایسی خفگی کو دل میں جگہ دینا ٹھیک نہیں ہے۔ اس سے خانگی زندگی تلخ ہوسکتی ہے۔ اس حدیث سے مسجد میں سونے کا جواز نکلا۔ یہی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصدہے جس کے تحت آپ نے اس حدیث کو یہاں ذکر فرمایا۔ جو لوگ عام طور پر مسجدوں میں مردوں کے سونے کو ناجائز کہتے ہیں، ان کا قول صحیح نہیں جیسا کہ حدیث سے ظاہر ہے۔

حدیث نمبر : 442
حدثنا يوسف بن عيسى، قال حدثنا ابن فضيل، عن أبيه، عن أبي حازم، عن أبي هريرة، قال رأيت سبعين من أصحاب الصفة، ما منهم رجل عليه رداء، إما إزار وإما كساء، قد ربطوا في أعناقهم، فمنها ما يبلغ نصف الساقين، ومنها ما يبلغ الكعبين، فيجمعه بيده، كراهية أن ترى عورته‏.‏
ہم سے یوسف بن عیسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن فضیل نے اپنے والد کے واسطہ سے، انھوں نے ابوحازم سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ نے فرمایا کہ میں نے ستر اصحاب صفہ کو دیکھا کہ ان میں کوئی ایسا نہ تھا جس کے پاس چادر ہو۔ فقط تہہ بند ہوتا، یا رات کو اوڑھنے کا کپڑا جنھیں یہ لوگ اپنی گردنوں سے باندھ لیتے۔ یہ کپڑے کسی کے آدھی پنڈلی تک آتے اور کسی کے ٹخنوں تک۔ یہ حضرات ان کپڑوں کو اس خیال سے کہ کہیں شرمگاہ نہ کھل جائے اپنے ہاتھوں سے سمیٹے رہتے تھے۔

حضرت امام قدس سرہ نے اس حدیث سے یہ نکالاکہ مساجد میں بوقت ضرورت سونا جائز ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سفر سے واپسی پر نماز پڑھنے کے بیان میں

وقال كعب بن مالك كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا قدم من سفر بدأ بالمسجد فصلى فيه‏.‏
کعب بن مالک سے نقل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی سفر سے ( لوٹ کر مدینہ میں ) تشریف لاتے تو پہلے مسجد میں جاتے اور نماز پڑھتے۔

اس حدیث کو خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب المغازی میں بیان کیاہے۔

حدیث نمبر : 443
حدثنا خلاد بن يحيى، قال حدثنا مسعر، قال حدثنا محارب بن دثار، عن جابر بن عبد الله، قال أتيت النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد ـ قال مسعر أراه قال ضحى ـ فقال ‏"‏ صل ركعتين‏"‏‏. ‏ وكان لي عليه دين فقضاني وزادني‏.‏
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے مسعر نے، کہا ہم سے محارب بن دثار نے جابر بن عبداللہ کے واسطہ سے، وہ کہتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف فرما تھے۔ مسعر نے کہا میرا خیال ہے کہ محارب نے چاشت کا وقت بتایا تھا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ( پہلے ) دو رکعت نماز پڑھ اور میرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کچھ قرض تھا۔ جسے آپ نے ادا کیا اور زیادہ ہی دیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کوئی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھنی چاہیے

حدیث نمبر : 444
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن عمرو بن سليم الزرقي، عن أبي قتادة السلمي، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا دخل أحدكم المسجد فليركع ركعتين قبل أن يجلس‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر سے یہ خبر پہنچائی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابوقتادہ سلمی رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز پڑھ لے۔

تشریح : مسجد میں آنے والا پہلے دورکعت نفل پڑھے، پھر بیٹھے۔ چاہے کوئی بھی وقت ہو اورچاہے امام جمعہ کا خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ جامع ترمذی میں جابربن عبداللہ سے مروی ہے کہ بینما النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخطب یوم الجمعۃ اذ جاءرجل فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اصلیت قال لا قال قم فارکع قال ابوعیسی وہذاالحدیث حسن صحیح اخرجہ الجماعۃ وفی روایۃ اذجاءاحدکم یوم الجمعۃ والامام یخطب فلیرکع رکعتین ولیتجوز فیہما رواہ احمد ومسلم وابوداؤد وفی روایۃ اذا جاءاحدکم یوم الجمعۃ وقد خرج الامام فلیصل رکعتین متفق علیہ کذا فی المنتقیٰ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص: 363 ) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کا خطبہ سنا رہے تھے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور بیٹھ گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دورکعت پڑھ کر بیٹھو اوران دورکعتوں کو ہلکاکرکے پڑھو۔ ایک روایت میں فرمایاکہ جب بھی کوئی تم میں سے مسجد میں آئے اورامام خطبہ پڑھ رہا ہو چاہئیے کہ بیٹھنے سے پہلے دو ہلکی رکعت پڑھ لے۔ حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: والعمل علی ہذا عند بعض اہل العلم وبہ یقول الشافعی واحمدو اسحاق وقال بعضہم اذا دخل والامام یخطب فانہ یجلس ولایصلی وہو قول سفیان الثوری واہل الکوفۃ والقول الاول اصح یعنی بعض اہل علم اورامام شافعی اورامام احمد اور اسحاق کا یہی فتویٰ ہے۔ مگر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اس حالت میں نماز نہ پڑھے بلکہ یوں ہی بیٹھ جائے۔ سفیان ثوری رحمۃ اللہ علیہ اور اہل کوفہ کا بھی یہی قول ہے۔ مگرپہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے اورمنع کرنے والوں کا قول صحیح نہیں ہے۔

امام نووی رحمۃ اللہ علیہ شرح مسلم میں فرماتے ہیں کہ ان احادیث صریحہ کی بناپر فقہائے محدثین اورامام شافعی وغیرہم کا یہی فتویٰ ہے کہ خواہ امام خطبہ ہی کیوں نہ پڑھ رہا ہو۔ مگر مناسب ہے کہ مسجد میں آنے والا دورکعت تحیۃ المسجد پڑھ کر بیٹھے اور مستحب ہے کہ ان میں تخفیف کرے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس آنے والے شخص کو جمعہ کے خطبہ کے دوران دورکعت پڑھنے کا حکم فرمایا تھا اس کا نام سلیک تھا۔
موجودہ دورمیں بعض لوگوں کی عادت ہوگئی ہے کہ مسجد میں آتے ہی پہلے بیٹھ جاتے ہیں پھر کھڑے ہوکر نماز پڑھتے ہیں جب کہ یہ سنت کے خلاف ہے۔ سنت یہ ہے کہ مسجد میں بیٹھنے سے پہلے دورکعتیں پڑھے، پھر بیٹھے۔
 
Top