• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں ریاح (ہوا) خارج کرنا

اس باب سے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی غرض یہ ہے کہ بے وضو آدمی مسجد میں جاسکتاہے اورمسجد میں بیٹھ سکتاہے۔

حدیث نمبر : 445
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي الزناد، عن الأعرج، عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ الملائكة تصلي على أحدكم ما دام في مصلاه الذي صلى فيه، ما لم يحدث، تقول اللهم اغفر له اللهم ارحمه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ کہا ہمیں مالک نے ابوالزناد سے، انھوں نے اعرج سے، انھوں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک تم اپنے مصلے پر جہاں تم نے نماز پڑھی تھی، بیٹھے رہو اور ریاح خارج نہ کرو تو ملائکہ تم پر برابر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ کہتے ہیں “ اے اللہ! اس کی مغفرت کیجیئے، اے اللہ! اس پر رحم کیجیئے۔ ”

معلوم ہوا کہ حدث ( ہوا خارج ) ہونے کی بدبو سے فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے۔ اور وہ اپنی دعا موقوف کردیتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوا کہ مسجد میں جہاں تک ممکن ہو باوضو بیٹھنا افضل ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد کی عمارت

وقال أبو سعيد كان سقف المسجد من جريد النخل‏.‏ وأمر عمر ببناء المسجد وقال أكن الناس من المطر، وإياك أن تحمر أو تصفر، فتفتن الناس‏.‏ وقال أنس يتباهون بها، ثم لا يعمرونها إلا قليلا‏.‏ وقال ابن عباس لتزخرفنها كما زخرفت اليهود والنصارى‏.‏
ابوسعید نے کہا کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کی شاخوں سے بنائی گئی تھی۔ عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور فرمایا کہ میں لوگوں کو بارش سے بچانا چاہتا ہوں اور مسجدوں پر سرخ ( لال )، زرد رنگ، مت کرو کیونکہ اس سے لوگ فتنہ میں پڑ جائیں گے۔ انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ( اس طرح پختہ بنوانے سے ) لوگ مساجد پر فخر کرنے لگیں گے۔ مگر ان کو آباد بہت کم لوگ کریں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ تم بھی مساجد کی اسی طرح زبیائش کرو گے جس طرح یہود و نصاریٰ نے کی۔

تشریح : حضرت مولانا وحیدالزماں صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد کی رنگ آمیزی اورنقش ونگار دیکھ کر نماز میں نمازی کا خیال بٹ جائے گا۔ اس اثر کو خودامام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے مسجدنبوی کے باب میں نکالا۔ ابن ماجہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت کیا ہے کہ کسی قوم کا کام اس وقت تک نہیں بگڑا جب تک اس نے اپنی مسجدوں کو آراستہ نہیں کیا۔ اکثرعلماءنے مساجد کی بہت زیادہ آرائش کو مکروہ جانا ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک تونمازیوں کا خیال نماز سے ہٹ جاتاہے اوردوسرا پیسے کا بیکار ضائع کرنا ہے۔ جب مساجد کا نقش و نگار بے فائدہ مکروہ اور منع ہو توشادی غمی میں روپیہ اڑانا اورفضول رسمیں کرنا کب درست ہوگا۔ مسلمانوں کو چاہئیے کہ اپنی آنکھیں کھولیں اورجو پیسہ ملے اس کو نیک کاموں اوراسلام کی ترقی کے سامان میں صرف کریں۔ مثلاً دین کی کتابیں چھپوائیں۔ غریب طالب علموں کی خبرگیری کریں۔ مدارس اورسرائے بنوائیں۔ مساکین اورمحتاجوں کو کھلائیں، ننگوں کو کپڑے پہنائیں۔ یتیموں اوربیواؤں کی پرورش کریں۔

حدیث نمبر : 446
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، قال حدثني أبي، عن صالح بن كيسان، قال حدثنا نافع، أن عبد الله، أخبره أن المسجد كان على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم مبنيا باللبن، وسقفه الجريد، وعمده خشب النخل، فلم يزد فيه أبو بكر شيئا، وزاد فيه عمر وبناه على بنيانه في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم باللبن والجريد، وأعاد عمده خشبا، ثم غيره عثمان، فزاد فيه زيادة كثيرة، وبنى جداره بالحجارة المنقوشة والقصة، وجعل عمده من حجارة منقوشة، وسقفه بالساج‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد ابراہیم بن سعید نے صالح بن کیسان کے واسطے سے، انھوں نے کہا کہ ہم سے نافع نے، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے واسطہ سے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مسجد نبوی کچی اینٹوں سے بنائی گئی تھی۔ اس کی چھت کھجور کی شاخوں کی تھی اور ستون اسی کی کڑیوں کے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اس میں کسی قسم کی زیادتی نہیں کی۔ البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بڑھایا اور اس کی تعمیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنائی ہوئی بنیادوں کے مطابق کچی اینٹوں اور کھجوروں کی شاخوں سے کی اور اس کے ستون بھی کڑیوں ہی کے رکھے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اس کی عمارت کو بدل دیا اور اس میں بہت سی زیادتی کی۔ اس کی دیواریں منقش پتھروں اور گچھ سے بنائیں۔ اس کے ستون بھی منقش پتھروں سے بنوائے اور چھت ساگوان سے بنائی۔

تشریح : مسجدنبوی زمانہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں جب پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو اس کا طول وعرض تیس مربع گز تھا۔ پھر غزوئہ خیبر کے بعد ضرورت کے تحت اس کا طول وعرض پچاس مربع گز کردیاگیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں مسجدنبوی کو کچی اینٹوں اور کھجور کی شاخوں سے مستحکم کیا اورستون لکڑیوں کے بنائے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اسے پختہ کرادیا۔ اس کے بعد حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں آئے توآپ نے ایک حدیث نبوی سنائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ ایک دن میری مسجد کی تعمیر پختہ بنیادوں پر ہوگی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سن کر بطور خوشی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو پانچ سودینار پیش کئے۔ بعدکے سلاطین اسلام نے مسجدنبوی کی تعمیرواستحکام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ موجودہ دور حکومت سعودیہ ( خلدہا اللہ تعالیٰ ) نے مسجد کی عمارت کو اس قدر طویل وعریض اورمستحکم کردیاہے کہ دیکھ کر دل سے اس حکومت کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کی خدمات جلیلہ کو قبول کرے۔

احادیث و آثارکی بناپر حد سے زیادہ مساجد کی ٹیپ ٹاپ کرنا اچھا نہیں ہے۔ یہ یہودونصاریٰ کا دستور تھا کہ وہ اپنے مذہب کی حقیقی روح سے غافل ہوکر ظاہری زیب وزینت پر فریفتہ ہوگئے۔ یہی حال آج کل مسلمانوں کا ہے، جن کے مینارے آسمانوں سے باتیں کررہے ہیں مگرتوحید وسنت اور اسلام کی حقیقی روح سے ان کو خالی پایا جاتاہے۔ الا ماشاءاللہ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد بنانے میں مدد کرنا ( یعنی اپنی جان و مال سے حصہ لینا کارِ ثواب ہے )

‏{‏ما كان للمشركين أن يعمروا مساجد الله شاهدين على أنفسهم بالكفر أولئك حبطت أعمالهم وفي النار هم خالدون * إنما يعمر مساجد الله من آمن بالله واليوم الآخر وأقام الصلاة وآتى الزكاة ولم يخش إلا الله فعسى أولئك أن يكونوا من المهتدين‏}‏‏.‏ اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ “ مشرکین کے لیے لائق نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مسجدوں کی تعمیر میں حصہ لیں۔ ” الآیہ۔


حدیث نمبر : 446
حدثنا مسدد، قال حدثنا عبد العزيز بن مختار، قال حدثنا خالد الحذاء، عن عكرمة، قال لي ابن عباس ولابنه علي انطلقا إلى أبي سعيد فاسمعا من حديثه‏.‏ فانطلقنا فإذا هو في حائط يصلحه، فأخذ رداءه فاحتبى، ثم أنشأ يحدثنا حتى أتى ذكر بناء المسجد فقال كنا نحمل لبنة لبنة، وعمار لبنتين لبنتين، فرآه النبي صلى الله عليه وسلم فينفض التراب عنه ويقول ‏"‏ ويح عمار تقتله الفئة الباغية، يدعوهم إلى الجنة، ويدعونه إلى النار‏"‏‏. ‏ قال يقول عمار أعوذ بالله من الفتن‏.‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مختار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے عکرمہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ مجھ سے اور اپنے صاحبزادے علی سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں جاؤ اور ان کی احادیث سنو۔ ہم گئے۔ دیکھا کہ ابوسعید رضی اللہ عنہ اپنے باغ کو درست کر رہے تھے۔ ہم کو دیکھ کر آپ نے اپنی چادر سنبھالی اور گوٹ مار کر بیٹھ گئے۔ پھر ہم سے حدیث بیان کرنے لگے۔ جب مسجد نبوی کے بنانے کا ذکر آیا تو آپ نے بتایا کہ ہم تو ( مسجد کے بنانے میں حصہ لیتے وقت ) ایک ایک اینٹ اٹھاتے۔ لیکن عمار دو دو اینٹیں اٹھا رہے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں دیکھا تو ان کے بدن سے مٹی جھاڑنے لگے اور فرمایا، افسوس! عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔ جسے عمار جنت کی دعوت دیں گے اور وہ جماعت عمار کو جہنم کی دعوت دے رہی ہو گی۔ ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ میں فتنوں سے خدا کی پناہ مانگتا ہوں۔

تشریح : یہاں مذکورہ علی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بیٹے ہیں۔ جس دن حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جام شہادت نوش فرمایا، اسی دن یہ پیدا ہوئے تھے۔ اسی لیے ان کا نام علی رکھا گیا اورکنیت ابوالحسن۔ یہ قریش میں بہت ہی حسین وجمیل اوربڑے عابد و زاہد تھے۔ 120 ھ کے بعد ان کا انتقال ہوا۔

حضرت عمار بن یاسر بڑے جلیل القدر صحابی اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے جاں نثار تھے۔ ان کی ماں سمیہ رضی اللہ عنہا بھی بڑے عزم وایقان والی خاتون گزری ہیں جن کو شہید کردیاگیا تھا۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بڑے لوگوں کی صحبت میں بیٹھناان سے دین کی تعلیم حاصل کرنا ضروری ہے۔ اس حدیث سے چند باتیں واضح ہوتی ہیں مثلاً حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی طرح علم وفضل کے باوجود کھیتی باڑی کے کاموں میں مشغول رہنابھی امر مستحسن ہے۔ آنے والے مہمانوں کے احترام کے لیے اپنے کاروبار والے لباس کو درست کرکے پہن لینا اوران کے لیے کام چھوڑدینا اوران سے بات چیت کرنا بھی بہت ہی اچھا طریقہ ہے۔ ( 3 ) مساجد کی تعمیر میں خود پتھر اٹھا اٹھاکر مدد دینا اتنا بڑا ثواب کا کام ہے جس کا کوئی اندازہ نہیں کیا جاسکتاہے۔
قسطلانی نے کہا کہ امام بخاری نے اس حدیث کو باب الجہاد اورباب الفتن میں بھی روایت کیاہے۔ اس واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت کی بھی روشن دلیل ہے کہ آپ نے اتنا عرصہ پہلے جو خبردی وہ من وعن پوری ہوکررہی، اس لیے کہ وماینطق عن الہوی ان ہو الا وحی یوحی آپ دین کے بارے میں جو کچھ بھی فرماتے ہیں وہ اللہ کی وحی سے فرمایا کرتے تھے۔

سچ ہے

مصطفی ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے جبرئیل
جبرئیل ہرگز نہ گفتے تا نہ گفتے پروردگار

 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بڑھئی اور کاریگر سے مسجد کی تعمیر میں اور منبر کے تختوں کو بنوانے میں مدد حاصل کرنا ( جائز ہے )

حدیث نمبر : 448
حدثنا قتيبة، قال حدثنا عبد العزيز، عن أبي حازم، عن سهل، قال بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى امرأة أن مري غلامك النجار يعمل لي أعوادا أجلس عليهن‏.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبدالعزیز نے ابوحازم کے واسطہ سے، انھوں نے سہل رضی اللہ عنہ سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے پاس ایک آدمی بھیجا کہ وہ اپنے بڑھئی غلام سے کہے کہ میرے لیے ( منبر ) لکڑیوں کے تختوں سے بنا دے جن پر میں بیٹھا کروں۔

حدیث نمبر : 449
حدثنا خلاد، قال حدثنا عبد الواحد بن أيمن، عن أبيه، عن جابر، أن امرأة، قالت يا رسول الله، ألا أجعل لك شيئا تقعد عليه، فإن لي غلاما نجارا قال ‏"‏ إن شئت‏"‏‏. ‏ فعملت المنبر‏.
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن ایمن نے اپنے والد کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے کہ ایک عورت نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! کیا میں آپ کے لیے کوئی ایسی چیز نہ بنا دوں جس پر آپ بیٹھا کریں۔ میرا ایک بڑھئی غلام بھی ہے۔ آپ نے فرمایا اگر تو چاہے تو منبر بنوا دے۔

تشریح : اس باب کی احادیث میں صرف بڑھئی کا ذکر ہے۔ معمار کا اسی پر قیاس کیاگیا۔ یا حضرت طلق بن علی کی حدیث کی طرف اشارہ ہے جسے ابن حبان نے اپنی صحیح میں روایت کیاہے کہ تعمیر مسجد کے وقت یہ مٹی کا گارا بنا رہا تھا اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا کام بہت پسند فرمایا تھا۔ یہ حدیث پہلی حدیث کے خلاف نہیں ہے۔ پہلے خود اس عورت نے منبربنوانے کی پیش کش کی ہوگی بعد میں آپ کی طرف سے اس کو یاد دہانی کرائی گئی ہوگی۔ اس سے یہ مسئلہ بھی نکلتاہے کہ ہدیہ بغیرسوال کئے آئے تو قبول کرلے اور وعدہ یاد دلانا بھی درست ہے اوراہل اللہ کی خدمت کرکے تقرب حاصل کرنا عمدہ ہے۔ حضرت امام نے اس حدیث کو علامات نبوت اور بیوع میں بھی نقل کیاہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جس نے مسجد بنائی اس کے اجر و ثواب کا بیان

حدیث نمبر : 450
حدثنا يحيى بن سليمان، حدثني ابن وهب، أخبرني عمرو، أن بكيرا، حدثه أن عاصم بن عمر بن قتادة حدثه أنه، سمع عبيد الله الخولاني، أنه سمع عثمان بن عفان، يقول عند قول الناس فيه حين بنى مسجد الرسول صلى الله عليه وسلم إنكم أكثرتم، وإني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ من بنى مسجدا ـ قال بكير حسبت أنه قال ـ يبتغي به وجه الله، بنى الله له مثله في الجنة‏"‏‏. ‏
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عمرو بن حارث نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے بکیر بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے عاصم بن عمرو بن قتادہ نے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن اسود خولانی سے سنا، انھوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے سنا کہ مسجد نبوی کی تعمیر کے متعلق لوگوں کی باتوں کو سن کر آپ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے بہت زیادہ باتیں کی ہیں۔ حالانکہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جس نے مسجد بنائی بکیر ( راوی ) نے کہا میرا خیال ہے کہ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کی رضا ہو، تو اللہ تعالیٰ ایسا ہی ایک مکان جنت میں اس کے لیے بنائے گا۔

تشریح : 30 ھ میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی تعمیر جدید کا کام شروع کرایا۔ کچھ لوگوں نے یہ پسند کیا کہ مسجد کوپہلے حال ہی پر باقی رکھا جائے۔ اس پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث نبوی اپنی دلیل میں پیش فرمائی اورحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے بھی استدلال کیا۔ جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے۔ باب اورحدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کوئی مسجد میں جائے تو اپنے تیر کے پھل کو تھامے رکھے تاکہ کسی نمازی کو تکلیف نہ ہو

حدیث نمبر : 451
حدثنا قتيبة بن سعيد، قال حدثنا سفيان، قال قلت لعمرو أسمعت جابر بن عبد الله يقول مر رجل في المسجد ومعه سهام، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ أمسك بنصالها‏"‏‏. ‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، انھوں نے کہا کہ میں نے عمرو بن دینار سے پوچھا کیا تم نے جابر بن عبداللہ سے یہ حدیث سنی ہے کہ ایک شخص مسجد نبوی میں آیا اور وہ تیر لیے ہوئے تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ ان کی نوکیں تھامے رکھو۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں تیر وغیرہ لے کر گزرنا

حدیث نمبر : 452
حدثنا موسى بن إسماعيل، قال حدثنا عبد الواحد، قال حدثنا أبو بردة بن عبد الله، قال سمعت أبا بردة، عن أبيه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ من مر في شىء من مساجدنا أو أسواقنا بنبل، فليأخذ على نصالها، لا يعقر بكفه مسلما‏"‏‏. ‏
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے کہ کہا ہم سے ابوبردہ بن عبداللہ نے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے والد ( ابوموسیٰ اشعری صحابی ) سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص ہماری مساجد یا ہمارے بازاروں میں تیر لیے ہوئے چلے تو ان کے پھل تھامے رہے، ایسا نہ ہو کہ اپنے ہاتھوں سے کسی مسلمان کو زخمی کر دے۔

تشریح : ان روایات اورابواب سے حضرت امام بخاری یہ ثابت فرمارہے ہیں کہ مساجد میں مسلمانوں کو ہتھیار بند ہوکر آنا درست ہے مگریہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ کسی مسلمان بھائی کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ اس لیے کہ مسلمان کی عزت وحرمت بہرحال مقدم ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں شعر پڑھنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 453
حدثنا أبو اليمان الحكم بن نافع، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني أبو سلمة بن عبد الرحمن بن عوف، أنه سمع حسان بن ثابت الأنصاري، يستشهد أبا هريرة أنشدك الله هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول ‏"‏ يا حسان، أجب عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، اللهم أيده بروح القدس‏"‏‏. ‏ قال أبو هريرة نعم‏.‏
ہم سے ابوالیمان حکم بن نافع نے بیان کیا کہ ہمیں شعیب بن ابی حمزہ نے زہری کے واسطے سے کہا کہ مجھے ابوسلمہ ( اسماعیل یا عبداللہ ) ا بن عبدالرحمن بن عوف نے، انھوں نے حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو اس بات پر گواہ بنا رہے تھے کہ میں تمہیں اللہ کا واسطہ دیتا ہوں کہ کیا تم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے نہیں سنا تھا کہ اے حسان! اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ( مشرکوں کو اشعار میں ) جواب دو اور اے اللہ! حسان کی روح القدس کے ذریعہ مدد کر۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ہاں ( میں گواہ ہوں۔ بے شک میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنا ہے۔ )

تشریح : خلافت فاروقی کے دورمیں ایک روز حضرت حسان مسجد نبوی میں دینی اشعار سنارہے تھے جس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کو روکنا چاہا توحسان رضی اللہ عنہ نے اپنے فعل کے جواز میں یہ حدیث بیان کی۔ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ دربارِ رسالت کے خصوصی شاعر تھے اورآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کافروں کے غلط اشعار کا جواب اشعارہی میں دیا کرتے تھے۔ اس پر آپ نے ان کے حق میں ترقی کی دعا فرمائی۔

معلوہواکہ دینی اشعار، نظمیں مساجد میں سنانا درست ہے۔ ہاں لغو اورعشقیہ اشعار کا مسجد میں سنانا بالکل منع ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : چھوٹے چھوٹے نیزوں ( بھالوں ) سے مسجد میں کھیلنے والوں کے بیان میں

حدیث نمبر : 454
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله، قال حدثنا إبراهيم بن سعد، عن صالح، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، قالت لقد رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما على باب حجرتي، والحبشة يلعبون في المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسترني بردائه، أنظر إلى لعبهم‏.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے صالح بن کیسان نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک دن اپنے حجرہ کے دروازے پر دیکھا۔ اس وقت حبشہ کے کچھ لوگ مسجد میں ( نیزوں سے ) کھیل رہے تھے ( ہتھیار چلانے کی مشق کر رہے تھے ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی چادر میں چھپا لیا تا کہ میں ان کا کھیل دیکھ سکوں۔

حدیث نمبر : 455
زاد إبراهيم بن المنذر حدثنا ابن وهب، أخبرني يونس، عن ابن شهاب، عن عروة، عن عائشة، قالت رأيت النبي صلى الله عليه وسلم والحبشة يلعبون بحرابهم‏.‏
ابراہیم بن منذر سے روایت میں یہ زیادتی منقول ہے کہ انھوں نے کہا ہم سے ابن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھے یونس نے ابن شہاب کے واسطے سے خبر دی، انھوں نے عروہ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب کہ حبشہ کے لوگ چھوٹے نیزوں ( بھالوں ) سے مسجد میں کھیل رہے تھے۔

تشریح : اس باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے ہتھیار لے کر مسجد میں جانا جن سے کسی کو کسی قسم کا نقصان پہنچنے کا ا ندیشہ نہ ہو، جائز ہے اوربعض روایات میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ان کے اس کھیل پر اظہارناراضگی کیاتوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نیزوں سے کھیلنا صرف کھیل کود کے درجے کی چیز نہیں ہے بلکہ اس سے جنگی صلاحیتیں پیدا ہوتی ہیں۔ جو دشمنانِ اسلام کی مدافعت میں کام آئیں گی۔ ( فتح الباری
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد کے منبر پر مسائل خریدوفروخت کا ذکر کرنا درست ہے

حدیث نمبر : 456
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا سفيان، عن يحيى، عن عمرة، عن عائشة، قالت أتتها بريرة تسألها في كتابتها فقالت إن شئت أعطيت أهلك ويكون الولاء لي‏.‏ وقال أهلها إن شئت أعطيتها ما بقي ـ وقال سفيان مرة إن شئت أعتقتها ويكون الولاء لنا ـ فلما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرته ذلك فقال ‏"‏ ابتاعيها فأعتقيها، فإن الولاء لمن أعتق‏"‏‏. ‏ ثم قام رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر ـ وقال سفيان مرة فصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم على المنبر ـ فقال ‏"‏ ما بال أقوام يشترطون شروطا ليست في كتاب الله، من اشترط شرطا ليس في كتاب الله فليس له، وإن اشترط مائة مرة‏"‏‏. ‏ قال علي قال يحيى وعبد الوهاب عن يحيى عن عمرة‏.‏ وقال جعفر بن عون عن يحيى قال سمعت عمرة قالت سمعت عائشة‏.‏ رواه مالك عن يحيى عن عمرة أن بريرة‏.‏ ولم يذكر صعد المنبر‏.‏
ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا کہ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے یحییٰ بن سعید انصاری کے واسطہ سے، انھوں نے عمرہ بنت عبدالرحمن سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ نے فرمایا کہ بریرہ رضی اللہ عنہ ( لونڈی ) ان سے اپنی کتابت کے بارے میں مدد لینے آئیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا تم چاہو تو میں تمہارے مالکوں کو یہ رقم دے دوں ( اور تمہیں آزاد کرا دوں ) اور تمہارا ولاء کا تعلق مجھ سے قائم ہو۔ اور بریرہ کے آقاؤں نے کہا ( عائشہ رضی اللہ عنہا سے ) کہ اگر آپ چاہیں تو جو قیمت باقی رہ گئی ہے وہ دے دیں اور ولاء کا تعلق ہم سے قائم رہے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لائے تو میں نے آپ سے اس امر کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا کہ تم بریرہ کو خرید کر آزاد کرو اور ولاء کا تعلق تو اسی کو حاصل ہو سکتا ہے جو آزاد کرائے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف لائے۔ سفیان نے ( اس حدیث کو بیان کرتے ہوئے ) ایک مرتبہ یوں کہا کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر چڑھے اور فرمایا۔ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جو ایسی شرائط کرتے ہیں جن کا تعلق کتاب اللہ سے نہیں ہے۔ جو شخص بھی کوئی ایسی شرط کرے جو کتاب اللہ میں نہ ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی، اگرچہ وہ سو مرتبہ کر لے۔ اس حدیث کی روایت مالک نے یحییٰ کے واسطہ سے کی، وہ عمرہ سے کہ بریرہ اور انھوں نے منبر پر چڑھنے کا ذکر نہیں کیا۔ الخ

تشریح : عہدغلامی میں یہ دستور تھا کہ لونڈی یا غلام اپنے آقا کا منہ مانگا روپیہ ادا کرکے آزاد ہوسکتے تھے مگرآزادی کے بعد ان کی وراثت انہی پہلے مالکوں کو ملتی تھی۔ اسلام نے جہاں غلامی کو ختم کیا، ایسے غلط درغلط رواجوں کو بھی ختم کیا اوربتلایا کہ جو بھی کسی غلام کو آزاد کرائے اس کی وراثت ترکہ وغیرہ کا ( غلام کی موت کے بعد ) اگرکوئی اس کا وراث عصبہ نہ ہو توآزاد کرانے والا ہی بطور عطیہ اس کا وارث قرارپائے گا۔ لفظ ولاءکا یہی مطلب ہے۔ علامہ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ترجمہ باب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ ما بال اقوام الخ سے نکلتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصدیہی ہے کہ بیع وشراءکے مسائل کا منبر پر ذکر کرنا درست ہے۔ ( فتح الباری )
 
Top