• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قرض کا تقاضہ اور قرض دار کا مسجد تک پیچھا کرنا

حدیث نمبر : 457
حدثنا عبد الله بن محمد، قال حدثنا عثمان بن عمر، قال أخبرنا يونس، عن الزهري، عن عبد الله بن كعب بن مالك، عن كعب، أنه تقاضى ابن أبي حدرد دينا كان له عليه في المسجد، فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في بيته، فخرج إليهما حتى كشف سجف حجرته فنادى ‏"‏ يا كعب‏"‏‏. ‏ قال لبيك يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ ضع من دينك هذا‏"‏‏. ‏ وأومأ إليه أى الشطر قال لقد فعلت يا رسول الله‏.‏ قال ‏"‏ قم فاقضه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے عثمان بن عمر عبدی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھے یونس بن یزید نے زہری کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن کعب بن مالک سے، انھوں نے اپنے باپ کعب بن مالک سے کہ انھوں نے مسجد نبوی میں عبداللہ ابن ابی حدرد سے اپنے قرض کا تقاضا کیا اور دونوں کی گفتگو بلند آوازوں سے ہونے لگی۔ یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرے سے سن لیا۔ آپ پردہ ہٹا کر باہر تشریف لائے اور پکارا۔ کعب۔ کعب ( رضی اللہ عنہ ) بولے، جی حضور فرمائیے کیا ارشاد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے قرض میں سے اتنا کم کر دو۔ آپ کا اشارہ تھا کہ آدھا کم کر دیں۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ! میں نے ( بخوشی ) ایسا کر دیا۔ پھر آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب اٹھو اور اس کا قرض ادا کرو۔ ( جو آدھا معاف کر دیا گیا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں جھاڑو دینا اور وہاں کے چیتھڑے، کوڑے کرکٹ اور لکڑیوں کو چن لینا

حدیث نمبر : 458
حدثنا سليمان بن حرب، قال حدثنا حماد بن زيد، عن ثابت، عن أبي رافع، عن أبي هريرة، أن رجلا، أسود ـ أو امرأة سوداء ـ كان يقم المسجد، فمات، فسأل النبي صلى الله عليه وسلم عنه فقالوا مات‏.‏ قال ‏"‏ أفلا كنتم آذنتموني به دلوني على قبره‏"‏‏. ‏ ـ أو قال قبرها ـ فأتى قبره فصلى عليه‏.
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، انھوں نے ثابت سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک حبشی مرد یا حبشی عورت مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی۔ ایک دن اس کا انتقال ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت فرمایا۔ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو انتقال کر گئی۔ آپ نے اس پر فرمایا کہ تم نے مجھے کیوں نہ بتایا، پھر آپ قبر پر تشریف لائے اور اس پر نماز پڑھی۔

تشریح : بیہقی کی روایت میں ہے کہ ام محجن نامی عورت تھی، وہ مسجد کی صفائی ستھرائی وغیرہ کی خدمت انجام دیا کرتی تھی، آپ اس کی موت کی خبرسن کر اس کی قبر پر تشریف لے گئے اور وہاں اس کا جنازہ ادا فرمایا، باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔ مسجد کی اس طرح خدمت کرنا بڑا ہی کارِثواب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں شراب کی سوداگری کی حرمت کا اعلان کرنا

حدیث نمبر : 459
حدثنا عبدان، عن أبي حمزة، عن الأعمش، عن مسلم، عن مسروق، عن عائشة، قالت لما أنزل الآيات من سورة البقرة في الربا، خرج النبي صلى الله عليه وسلم إلى المسجد، فقرأهن على الناس، ثم حرم تجارة الخمر‏.‏
ہم سے عبدان بن عبداللہ بن عثمان نے ابوحمزہ محمد بن میمون کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے اعمش سے، انھوں نے مسلم سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ آپ فرماتی ہیں کہ جب سورہ بقرہ کی سود سے متعلق آیات نازل ہوئیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لے گئے اور ان آیات کی لوگوں کے سامنے تلاوت فرمائی۔ پھر فرمایا کہ شراب کی تجارت حرام ہے۔

باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد کے لیے خادم مقرر کرنا

وقال ابن عباس ‏{‏نذرت لك ما في بطني محررا‏}‏ للمسجد يخدمه‏.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ( قرآن کی اس آیت ) “ جو اولاد میرے پیٹ میں ہے، یا اللہ! میں نے اسے تیرے لیے آزاد چھوڑنے کی نذر مانی ہے ” کے متعلق فرمایا کہ مسجد کی خدمت میں چھوڑ دینے کی نذر مانی تھی کہ ( وہ تا عمر ) اس کی خدمت کیا کرے گا۔

تشریح : سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کی والدہ کا یہ قصہ مذکور ہے۔ حالت حمل میں انھوں نے نذر مانی تھی کہ جو بچہ پیدا ہوگا مسجد اقصیٰ کی خدمت کے لیے وقف کردوں گی۔ مگرلڑکی حضرت مریم پیدا ہوئیں۔ توان کوہی نذر پوری کرنے کے لیے وقف کردیاگیا۔ معلوم ہوا کہ مساجد کا احترام ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اوران کی خدمت کے لیے کسی کو مقرر کردینا درست ہے جیسا کہ آج کل خدام مساجد ہوتے ہیں۔

حدیث نمبر : 460
حدثنا أحمد بن واقد، قال حدثنا حماد، عن ثابت، عن أبي رافع، عن أبي هريرة، أن امرأة ـ أو رجلا ـ كانت تقم المسجد ـ ولا أراه إلا امرأة ـ فذكر حديث النبي صلى الله عليه وسلم أنه صلى على قبره‏.‏
ہم سے احمد بن واقد نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے ثابت بنانی کے واسطہ سے، انھوں نے ابورافع سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ ایک عورت یا مرد مسجد میں جھاڑو دیا کرتا تھا۔ ابورافع نے کہا، میرا خیال ہے کہ وہ عورت ہی تھی۔ پھر انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث نقل کی کہ آپ نے اس کی قبر پر نماز پڑھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : قیدی یا قرض دار جسے مسجد میں باندھ دیا گیا ہو

حدیث نمبر : 461
حدثنا إسحاق بن إبراهيم، قال أخبرنا روح، ومحمد بن جعفر، عن شعبة، عن محمد بن زياد، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن عفريتا من الجن تفلت على البارحة ـ أو كلمة نحوها ـ ليقطع على الصلاة، فأمكنني الله منه، فأردت أن أربطه إلى سارية من سواري المسجد، حتى تصبحوا وتنظروا إليه كلكم، فذكرت قول أخي سليمان رب هب لي ملكا لا ينبغي لأحد من بعدي‏"‏‏. ‏ قال روح فرده خاسئا‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے روح بن عبادہ اور محمد بن جعفر نے شعبہ کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے محمد بن زیاد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ نے فرمایا کہ گذشتہ رات ایک سرکش جن اچانک میرے پاس آیا۔ یا اسی طرح کی کوئی بات آپ نے فرمائی، وہ میری نماز میں خلل ڈالنا چاہتا تھا۔ لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھے اس پر قابو دے دیا اور میں نے سوچا کہ مسجد کے کسی ستون کے ساتھ اسے باندھ دوں تا کہ صبح کو تم سب بھی اسے دیکھو۔ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آ گئی ( جو سورہ ص میں ہے ) “ اے میرے رب! مجھے ایسا ملک عطا کرنا جو میرے بعد کسی کو حاصل نہ ہو۔ ” راوی حدیث روح نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شیطان کو ذلیل کر کے دھتکار دیا۔

تشریح : ترجمہ باب یہاں سے ثابت ہوتاہے کہ آپ نے اس جن کو بطور قیدی مسجد کے ستون کے ساتھ باندھنا چاہا۔ مگر پھر آپ کو حضرت سلیمان علیہ السلام کی وہ دعا یاد آگئی جس کی وجہ سے جنوں پر ان کو اختیار خاص حاصل تھا۔ آپ نے سوچا کہ اگرمیں اسے قید کردوں گا توگویا یہ اختیار مجھ کو بھی حاصل ہوجائے گا اوریہ اس دعا کے خلاف ہوگا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : جب کوئی شخص اسلام لائے تو اس کو غسل کرانا اور قیدی کو مسجد میں باندھنا

وربط الأسير أيضا في المسجد‏.‏ وكان شريح يأمر الغريم أن يحبس إلى سارية المسجد‏.‏
قاضی شریح بن حارث ( کندی کوفہ کے قاضی ) رحمہ اللہ قرض دار کے متعلق حکم دیا کرتے تھے کہ اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیا جائے۔

حدیث نمبر : 462
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال حدثنا الليث، قال حدثنا سعيد بن أبي سعيد، سمع أبا هريرة، قال بعث النبي صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد، فخرج إليه النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ أطلقوا ثمامة‏"‏‏. ‏ فانطلق إلى نخل قريب من المسجد، فاغتسل ثم دخل المسجد فقال أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے سعید بن ابی سعید مقبری نے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سوار نجد کی طرف بھیجے ( جو تعداد میں تیس تھے ) یہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص کو جس کا نام ثمامہ بن اثال تھا پکڑ کر لائے۔ انھوں نے اسے مسجد کے ایک ستون میں باندھ دیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے۔ اور ( تیسرے روز ثمامہ کی نیک طبیعت دیکھ کر ) آپ نے فرمایا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ ( رہائی کے بعد ) وہ مسجد نبوی سے قریب ایک کھجور کے باغ تک گئے۔ اور وہاں غسل کیا۔ پھر مسجد میں داخل ہوئے اور کہا اشہد ان لا الہ الا اللہ وان محمدا رسول اللہ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے سچے رسول ہیں۔

تشریح : اثر قاضی شریح کو معمرنے وصل کیا، ایوب سے، انھوں نے ابن سیرین سے، انھوں نے قاضی شریح سے کہ وہ جب کسی شخص پر کچھ حق کا فیصلہ کرتے توحکم دیتے کہ وہ مسجد میں قیدرہے۔ یہاں تک کہ اپنے ذمہ کا حق اداکردے۔ اگروہ ادا کردیتا توخیر ورنہ اسے جیل بھیج دیاجاتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا کہ آج کل عدالتوں میں عدالت ختم ہونے تک قید کا حکم سنادیا جاتاہے۔

حضرت ثمامہ کایہ واقعہ دسویں محرم 6 ھ میں ہوا۔ یہ جنگی قیدی کی حیثیت میں ملے تھے۔ مگررسول اکرم نے ازراہِ کرم انھیں آزاد کردیا جس کا اثریہ ہوا کہ انھوں نے اسلام قبول کرلیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں مریضوں وغیرہ کے لیے خیمہ لگانا

حدیث نمبر : 463
حدثنا زكرياء بن يحيى، قال حدثنا عبد الله بن نمير، قال حدثنا هشام، عن أبيه، عن عائشة، قالت أصيب سعد يوم الخندق في الأكحل، فضرب النبي صلى الله عليه وسلم خيمة في المسجد ليعوده من قريب، فلم يرعهم ـ وفي المسجد خيمة من بني غفار ـ إلا الدم يسيل إليهم فقالوا يا أهل الخيمة، ما هذا الذي يأتينا من قبلكم فإذا سعد يغذو جرحه دما، فمات فيها‏.‏
ہم سے زکریا بن یحییٰ نے بیان کیا کہ کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہ کہا ہم سے ہشام بن عروہ نے اپنے باپ عروہ بن زبیر کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آپ نے فرمایا کہ غزوہ خندق میں سعد ( رضی اللہ عنہ ) کے بازو کی ایک رگ ( اکحل ) میں زخم آیا تھا۔ ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں ایک خیمہ نصب کرا دیا تا کہ آپ قریب رہ کر ان کی دیکھ بھال کیا کریں۔ مسجد ہی میں بنی غفار کے لوگوں کا بھی ایک خیمہ تھا۔ سعد رضی اللہ عنہ کے زخم کا خون ( جو رگ سے بکثرت نکل رہا تھا ) بہہ کر جب ان کے خیمہ تک پہنچا تو وہ ڈر گئے۔ انھوں نے کہا کہ اے خیمہ والو! تمہاری طرف سے یہ کیسا خون ہمارے خیمہ تک آ رہا ہے۔ پھر انھیں معلوم ہوا کہ یہ خون سعد رضی اللہ عنہ کے زخم سے بہہ رہا ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کا اسی زخم کی وجہ سے انتقال ہو گیا۔

تشریح : حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ ذی قعدہ 4 ھ میں جنگ خندق کی لڑائی میں ابن عرقہ نامی ایک کافر کے تیر سے زخمی ہوگئے تھے جو جان لیوا ثابت ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت کی ضرورت کے تحت ان کا خیمہ مسجد ہی میں لگوادیاتھا جنگی حالات میں ایسے امور پیش آجاتے ہیں اوران ملی مقاصدکے لیے مساجد تک کو استعمال کیا جاسکتاہے۔ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا یہی مقصد ہے۔ آپ کی بالغ نگاہ احادیث کی روشنی میں وہاں تک پہنچتی ہے جہاں دوسرے علماءکی نگاہیں کم پہنچتی ہیں اوروہ اپنی کوتاہ نظری کی وجہ سے خواہ مخواہ حضرت امام پر اعتراضات کرنے لگتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو اپنی عقلوں کا علاج کراناچاہئیے۔ اسی وجہ سے جملہ فقہاءمحدثین کرام میں حضرت امام بخاری قدس سرہ کا مقام بہت اونچا ہے۔ ( رحمۃ اللہ علیہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ضرورت سے مسجد میں اونٹ لے جانا

وقال ابن عباس طاف النبي صلى الله عليه وسلم على بعير‏.‏
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پر بیٹھ کر بیت اللہ کا طواف کیا تھا۔

حدیث نمبر : 464
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن محمد بن عبد الرحمن بن نوفل، عن عروة، عن زينب بنت أبي سلمة، عن أم سلمة، قالت شكوت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم أني أشتكي‏.‏ قال ‏"‏ طوفي من وراء الناس وأنت راكبة‏"‏‏. ‏ فطفت ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي إلى جنب البيت، يقرأ بالطور وكتاب مسطور‏.
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا، کہا ہمیں امام مالک رحمہ اللہ علیہ نے محمد بن عبدالرحمن بن نوفل سے خبر دی، انھوں نے عروہ بن زبیر سے۔ انھوں نے زینب بنت ابی سلمہ سے، انھوں نے ام المؤمنین ام سلمہ سے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ( حجۃ الوداع میں ) اپنی بیماری کا شکوہ کیا ( میں نے کہا کہ میں پیدل طواف نہیں کر سکتی ) تو آپ نے فرمایا کہ لوگوں کے پیچھے رہ اور سوار ہو کر طواف کر۔ پس میں نے طواف کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بیت اللہ کے قریب نماز میں آیت والطور وکتاب مسطور کی تلاوت کر رہے تھے۔

تشریح : شاید کسی کوتاہ نظر کویہ باب پڑھ کر حیرت ہومگر سیدالفقہاءوالمحدثین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی گہری نظر پوری دنیائے اسلام پر ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ ممکن ہے بہت سی مساجد ایسی بھی ہوں جو ایک طول طویل چاردیواری کی شکل میں بنائی گئی ہوں۔ اب کوئی دیہاتی اونٹ سمیت آکر وہاں داخل ہوگیاتو اس کے لیے کیا فتویٰ ہوگا۔ حضرت امام بتلانا چاہتے ہیں کہ عہدرسالت میں مسجد حرام کا بھی یہی نقشہ تھا۔ چنانچہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک مرتبہ ضرورت کے تحت اونٹ پر سوار ہوکر بیت اللہ کا طواف کیا اور ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ کو بھی بیماری کی وجہ سے آپ نے اونٹ پر سوار ہوکر لوگوں کے پیچھے پیچھے طواف کرنے کا حکم فرمایا۔ ابن بطال نے کہا کہ حلال جانوروں کا مسجد میں لے جانا جائز اوردرست ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب مسجد کے آلودہ ہونے کا خوف ہو توجانور کو مسجد میں نہ لے جائے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب :۔۔۔

حدیث نمبر : 465
حدثنا محمد بن المثنى، قال حدثنا معاذ بن هشام، قال حدثني أبي، عن قتادة، قال حدثنا أنس، أن رجلين، من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم خرجا من عند النبي صلى الله عليه وسلم في ليلة مظلمة، ومعهما مثل المصباحين يضيآن بين أيديهما، فلما افترقا صار مع كل واحد منهما واحد حتى أتى أهله‏.
ہم سے محمد بن مثنی نے بیان کیا انھوں نے کہا ہم سے معاذ بن ہشام نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے والد نے قتادہ کے واسطہ سے بیان کیا، کہا ہم سے انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ دو شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نکلے، ایک عباد بن بشر اور دوسرے صاحب میرے خیال کے مطابق اسید بن حضیر تھے۔ رات تاریک تھی اور دونوں اصحاب کے پاس روشن چراغ کی طرح کوئی چیز تھی جس سے ان کے آگے آگے روشنی پھیل رہی تھی پس جب وہ دونوں اصحاب ایک دوسرے سے جدا ہوئے تو ہر ایک کے ساتھ ایک ایک چراغ رہ گیا جو گھر تک ساتھ رہا۔

تشریح : ان صحابیوں کے سامنے روشنی ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کی برکت تھی۔ آیت مبارکہ نورہم یسعی بین ایدیہم ( التحریم:8 ) کا ایمانی نورقیامت کے دن ان کے آگے آگے دوڑے گا۔ دنیا ہی میں یہ نقشہ ان کے سامنے آگیا۔ اس حدیث کو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس باب میں اس لیے لائے کہ یہ دونوں صحابی اندھیری رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے نکلے اوریہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرکے ہی نکلے تھے۔ پس مسجدوں میں نیک باتوں کے کرنے کا جواز ثابت ہوا۔ ( فتح وغیرہ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں کھڑکی اور راستہ بنانا

حدیث نمبر : 466
حدثنا محمد بن سنان، قال حدثنا فليح، قال حدثنا أبو النضر، عن عبيد بن حنين، عن بسر بن سعيد، عن أبي سعيد الخدري، قال خطب النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ إن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده، فاختار ما عند الله‏"‏‏. ‏ فبكى أبو بكر ـ رضى الله عنه ـ فقلت في نفسي ما يبكي هذا الشيخ إن يكن الله خير عبدا بين الدنيا وبين ما عنده فاختار ما عند الله، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم هو العبد، وكان أبو بكر أعلمنا‏.‏ قال ‏"‏ يا أبا بكر لا تبك، إن أمن الناس على في صحبته وماله أبو بكر، ولو كنت متخذا خليلا من أمتي لاتخذت أبا بكر، ولكن أخوة الإسلام ومودته، لا يبقين في المسجد باب إلا سد إلا باب أبي بكر‏"‏‏. ‏
ہم سے محمد بن سنان نے بیان کیا، کہ کہا ہم سے فلیح بن سلیمان نے، کہا ہم سے ابونضر سالم بن ابی امیہ نے عبید بن حنین کے واسطہ سے، انھوں نے بسر بن سعید سے، انھوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کو دنیا اور آخرت کے رہنے میں اختیار دیا ( کہ وہ جس کو چاہے اختیار کرے ) بندے نے وہ پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے یعنی آخرت۔ یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رونے لگے، میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر خدا نے اپنے کسی بندے کو دنیا اور آخرت میں سے کسی کو اختیار کرنے کو کہا اور اس بندے نے آخرت پسند کر لی تو اس میں ان بزرگ کے رونے کی کیا وجہ ہے۔ لیکن یہ بات تھی کہ بندے سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے اور ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم سب سے زیادہ جاننے والے تھے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا۔ ابوبکر آپ روئیے مت۔ اپنی صحبت اور اپنی دولت کے ذریعہ تمام لوگوں سے زیادہ مجھ پر احسان کرنے والے آپ ہی ہیں اور اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابوبکر کو بناتا۔ لیکن ( جانی دوستی تو اللہ کے سوا کسی سے نہیں ہو سکتی ) اس کے بدلہ میں اسلام کی برادری اور دوستی کافی ہے۔ مسجد میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرف کے دروازے کے سوا تمام دروازے بند کر دئیے جائیں۔

بعض راویان بخاری نے یہاں واؤ عطف لاکر ہر دوکو حضرت ابوالنضر کا شیخ قرار دیاہے۔ اور اس صورت میں وہ دونوں حضرت ابوسعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں۔ وقدرواہ مسلم کذلک واللہ اعلم ( راز )

حدیث نمبر : 467
حدثنا عبد الله بن محمد الجعفي، قال حدثنا وهب بن جرير، قال حدثنا أبي قال، سمعت يعلى بن حكيم، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في مرضه الذي مات فيه عاصب رأسه بخرقة، فقعد على المنبر، فحمد الله وأثنى عليه ثم قال ‏"‏ إنه ليس من الناس أحد أمن على في نفسه وماله من أبي بكر بن أبي قحافة، ولو كنت متخذا من الناس خليلا لاتخذت أبا بكر خليلا، ولكن خلة الإسلام أفضل، سدوا عني كل خوخة في هذا المسجد غير خوخة أبي بكر‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن محمد جعفی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے وہب بن جریر نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے میرے باپ جریر بن حازم نے بیان کیا، انھوں نے کہا میں نے یعلی بن حکیم سے سنا، وہ عکرمہ سے نقل کرتے تھے، وہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض وفات میں باہر تشریف لائے۔ سر سے پٹی بندھی ہوئی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر بیٹھے، اللہ کی حمد و ثنا کی اور فرمایا، کوئی شخص بھی ایسا نہیں جس نے ابوبکر بن ابوقحافہ سے زیادہ مجھ پر اپنی جان و مال کے ذریعہ احسان کیا ہو اور اگر میں کسی کو انسانوں میں جانی دوست بناتا تو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کو بناتا۔ لیکن اسلام کا تعلق افضل ہے۔ دیکھو ابوبکر ( رضی اللہ عنہ ) کی کھڑکی چھوڑ کر اس مسجد کی تمام کھڑکیاں بند کر دی جائیں۔

تشریح : مسجدنبوی کی ابتدائی تعمیر کے وقت اہل اسلام کا قبلہ بیت المقدس تھا۔ بعد میں قبلہ بدلا گیا اورکعبہ مقدس قبلہ قرارپایا۔ جو مدینہ سے جانب جنوب تھا۔ چونکہ صحابہ کرام کے مکانات کی طرف کھڑکیاں بنادی گئی تھیں۔ بعد میں آپ نے مشرق و مغرب کے تمام دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا۔ صرف شمالی صدردروازہ باقی رکھا گیا اوران تمام کھڑکیوں کو بھی بند کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ مگر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے مکان کی جانب والی کھڑکی باقی رکھی گئی۔ اس میں آپ کی خلافت کی طرف بھی اشارہ تھا کہ خلافت کے زمانہ میں نماز پڑھاتے وقت ان کو آنے جانے میں سہولت رہے گی۔

خلیل سے مراد محبت کا وہ آخری درجہ ہے جو صرف بندہ مومن اللہ ہی کے ساتھ قائم کرسکتاہے۔ اسی لیے آپ نے ایسا فرمایا۔ اس کے بعد اسلامی اخوت ومحبت کا آخری درجہ آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ قراردیا۔ آج بھی مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی اس کھڑکی کی جگہ پر بطور یادگار کتبہ لگا ہواہے۔ جس کو دیکھ کر یہ سارے واقعات سامنے آجاتے ہیں۔
ان احادیث سے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔
 
Top