• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : کعبہ اور مساجد میں دروازے اور زنجیر رکھنا

قال أبو عبد الله وقال لي عبد الله بن محمد حدثنا سفيان عن ابن جريج قال قال لي ابن أبي مليكة يا عبد الملك، لو رأيت مساجد ابن عباس وأبوابها‏.‏ ابوعبداللہ ( امام بخاری رحمہ اللہ علیہ ) نے کہا مجھ سے عبداللہ بن محمد مسندی نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے عبدالملک ابن جریج کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ اے عبدالملک! اگر تم ابن عباس رضی اللہ عنہما کی مساجد اور ان کے دروازوں کو دیکھتے۔

توتعجب کرتے، وہ نہایت مضبوط پائیدار تھے اوروہ مساجد بہت ہی صاف ستھری ہوا کرتی تھیں۔

حدیث نمبر : 468
حدثنا أبو النعمان، وقتيبة، قالا حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، أن النبي صلى الله عليه وسلم قدم مكة، فدعا عثمان بن طلحة، ففتح الباب، فدخل النبي صلى الله عليه وسلم وبلال وأسامة بن زيد وعثمان بن طلحة، ثم أغلق الباب، فلبث فيه ساعة ثم خرجوا‏.‏ قال ابن عمر فبدرت فسألت بلالا فقال صلى فيه‏.‏ فقلت في أى قال بين الأسطوانتين‏.‏ قال ابن عمر فذهب على أن أسأله كم صلى‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل اور قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہ ہم سے حماد بن زید نے ایوب سختیانی کے واسطہ سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ تشریف لائے ( اور مکہ فتح ہوا ) تو آپ نے عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو بلوایا۔ ( جو کعبہ کے متولی، چابی بردار تھے ) انھوں نے دروازہ کھولا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، بلال، اسامہ بن زید اور عثمان بن طلحہ چاروں اندر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ بند کر دیا گیا اور وہاں تھوڑی دیر تک ٹھہر کر باہر آئے۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں نے جلدی سے آگے بڑھ کر بلال سے پوچھا کہ ( آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ کے اندر کیا کیا ) انھوں نے بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندر نماز پڑھی تھی۔ میں نے پوچھا کس جگہ؟ کہا کہ دونوں ستونوں کے درمیان۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ پوچھنا مجھے یاد نہ رہا کہ آپ نے کتنی رکعتیں پڑھی تھیں۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کعبہ شریف میں داخل ہوکر کعبہ کا دروازہ اس لیے بند کرادیاتھا کہ اورلوگ اندر نہ آجائیں اور ہجوم کی شکل میں اصل مقصد عبادت فوت ہوجائے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خانہ کعبہ کے دروازہ میں زنجیر تھی، یہی ترجمہ باب ہے۔ مساجد میں حفاظت کے لیے کواڑلگانا اوران میں کنڈی وقفل وغیرہ جائز ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مشرک کا مسجد میں داخل ہونا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 469
حدثنا قتيبة، قال حدثنا الليث، عن سعيد بن أبي سعيد، أنه سمع أبا هريرة، يقول بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم خيلا قبل نجد، فجاءت برجل من بني حنيفة يقال له ثمامة بن أثال، فربطوه بسارية من سواري المسجد‏.‏
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے لیث بن سعد نے سعید بن ابی سعید مقبری کے واسطہ سے، بیان کیا انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ سواروں کو نجد کی طرف بھیجا تھا۔ وہ لوگ بنو حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو ( بطور جنگی قیدی ) پکڑ لائے اور مسجد میں ایک ستون سے باندھ دیا۔

بوقت ضرورت کفار ومشرکین کو بھی آداب مساجد کے شرائط کے ساتھ مساجد میں داخلہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی حضرت امام کا مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مساجد میں آواز بلند کرنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 470
حدثنا علي بن عبد الله، قال حدثنا يحيى بن سعيد، قال حدثنا الجعيد بن عبد الرحمن، قال حدثني يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد، قال كنت قائما في المسجد فحصبني رجل، فنظرت فإذا عمر بن الخطاب فقال اذهب فأتني بهذين‏.‏ فجئته بهما‏.‏ قال من أنتما ـ أو من أين أنتما قالا من أهل الطائف‏.‏ قال لو كنتما من أهل البلد لأوجعتكما، ترفعان أصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے جعید بن عبدالرحمن نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انھوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا، انھوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انھیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انھوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟

حدیث نمبر : 471
حدثنا أحمد، قال حدثنا ابن وهب، قال أخبرني يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، حدثني عبد الله بن كعب بن مالك، أن كعب بن مالك، أخبره أنه، تقاضى ابن أبي حدرد دينا له عليه، في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، فارتفعت أصواتهما حتى سمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في بيته، فخرج إليهما رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كشف سجف حجرته ونادى ‏"‏ يا كعب بن مالك، يا كعب‏"‏‏. ‏ قال لبيك يا رسول الله‏.‏ فأشار بيده أن ضع الشطر من دينك‏.‏ قال كعب قد فعلت يا رسول الله‏.‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ قم فاقضه‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن صالح نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، انھوں نے کہا مجھے یونس بن یزید نے خبر دی، انھوں نے ابن شہاب زہری کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن کعب بن مالک نے بیان کیا، ان کو ان کے باپ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انھوں نے عبداللہ ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے ایک قرض کے سلسلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں مسجد نبوی کے اندر تقاضا کیا۔ دونوں کی آواز کچھ اونچی ہو گئی یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے حجرہ سے سن لیا۔ آپ اٹھے اور حجرہ پر پڑے ہوئے پردہ کو ہٹایا۔ آپ نے کعب بن مالک کو آواز دی، اے کعب! کعب بولے۔ یا رسول اللہ! حاضر ہوں۔ آپ نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے بتایا کہ وہ اپنا آدھا قرض معاف کر دے۔ حضرت کعب نے عرض کی یا رسول اللہ! میں نے معاف کر دیا۔ آپ نے ابن ابی حدرد سے فرمایا اچھا اب چل اٹھ اس کا قرض ادا کر۔

تشریح : طائف مکہ سے کچھ میل کے فاصلہ پر مشہور قصبہ ہے۔ پہلی روایت میں حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان کو مسجدنبوی میں شوروغل کرنے پر جھڑکا اوربتلایا کہ تم لوگ باہر کے رہنے والے اورمسجد کے آداب سے ناواقف ہو اس لیے تم کو چھوڑدیتاہوں، کوئی مدینہ والا ایسی حرکت کرتا تو اسے بغیر سزادئیے نہ چھوڑتا۔ اس سے امام رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایاکہ فضول شوروغل کرنا آداب مسجد کے خلاف ہے۔ دوسری روایت سے آپ نے ثابت فرمایاکہ تعلیم رشد وہدایت کے لیے اگر آواز بلند کی جائے تو یہ آداب مسجد کے خلاف نہیں ہے۔ جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں کو بلاکر ان کونیک ہدایت فرمائی۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر بھی رعایت دے سکتا ہے بشرطیکہ وہ مقروض نادار ہی ہو تو یہ عین رضائے الٰہی کا وسیلہ ہے۔ قرآن کریم کی بھی یہی ہدایت ہے۔ مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہوسکے پورا قرض ادا کرکے اس بوجھ سے اپنے آپ کو آزاد کرے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں حلقہ باندھ کر بیٹھنا اور یوں ہی بیٹھنا

حدیث نمبر : 472
حدثنا مسدد، قال حدثنا بشر بن المفضل، عن عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، قال سأل رجل النبي صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر ما ترى في صلاة الليل قال ‏"‏ مثنى مثنى، فإذا خشي الصبح صلى واحدة، فأوترت له ما صلى‏"‏‏. ‏ وإنه كان يقول اجعلوا آخر صلاتكم وترا، فإن النبي صلى الله عليه وسلم أمر به‏.
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا کہ ہم سے بشر بن مفضل نے عبیداللہ بن عمر سے، انھوں نے نافع سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ( جبکہ ) اس وقت آپ منبر پر تھے کہ رات کی نماز ( یعنی تہجد ) کس طرح پڑھنے کے لیے آپ فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا کہ دو دو رکعت کر کے پڑھ اور جب صبح قریب ہونے لگے تو ایک رکعت پڑھ لے۔ یہ ایک رکعت اس ساری نماز کو طاق بنا دے گی اور آپ فرمایا کرتے تھے کہ رات کی آخری نماز کو طاق رکھا کرو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا حکم دیا۔


حدیث نمبر : 473
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا حماد، عن أيوب، عن نافع، عن ابن عمر، أن رجلا، جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو يخطب فقال كيف صلاة الليل فقال ‏"‏ مثنى مثنى، فإذا خشيت الصبح فأوتر بواحدة، توتر لك ما قد صليت‏"‏‏. ‏ قال الوليد بن كثير حدثني عبيد الله بن عبد الله أن ابن عمر حدثهم أن رجلا نادى النبي صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا کہ کہا ہم سے حماد بن زید نے، انھوں نے ایوب سختیانی سے، انھوں نے ابن عمر رضی اللہ عنہما سے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت خطبہ دے رہے تھے آنے والے نے پوچھا کہ رات کی نماز کس طرح پڑھی جائے؟ آپ نے فرمایا دو دو رکعت پھر جب طلوع صبح صادق کا اندیشہ ہو تو ایک رکعت وتر کی پڑھ لے تا کہ تو نے جو نماز پڑھی ہے اسے یہ رکعت طاق بنا دے اور امام بخاری نے فرمایا کہ ولید بن کثیر نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ عمری نے بیان کیا، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے ان سے بیان کیا کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی جب کہ آپ مسجد میں تشریف فرما تھے۔

حدیث نمبر : 474
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، أن أبا مرة، مولى عقيل بن أبي طالب أخبره عن أبي واقد الليثي، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد فأقبل ثلاثة نفر، فأقبل اثنان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وذهب واحد، فأما أحدهما فرأى فرجة فجلس، وأما الآخر فجلس خلفهم، فلما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ ألا أخبركم عن الثلاثة أما أحدهم فأوى إلى الله، فآواه الله، وأما الآخر فاستحيا، فاستحيا الله منه، وأما الآخر فأعرض، فأعرض الله عنه‏"‏‏. ‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہ کہا ہمیں امام مالک نے خبر دی اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ کے واسطے سے کہ عقیل بن ابی طالب کے غلام ابومرہ نے انھیں خبر دی ابوواقد لیثی حارث بن عوف صحابی کے واسطہ سے، انھوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف رکھتے تھے کہ تین آدمی باہر سے آئے۔ دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں حاضری کی غرض سے آگے بڑھے لیکن تیسرا چلا گیا۔ ان دو میں سے ایک نے درمیان میں خالی جگہ دیکھی اور وہاں بیٹھ گیا۔ دوسرا شخص پیچھے بیٹھ گیا اور تیسرا تو واپس ہی جا رہا تھا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وعظ سے فارغ ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ان تینوں کے متعلق ایک بات نہ بتاؤں۔ ایک شخص تو خدا کی طرف بڑھا اور خدا نے اسے جگہ دی ( یعنی پہلا شخص ) رہا دوسرا تو اس نے ( لوگوں میں گھسنے سے ) شرم کی، اللہ نے بھی اس سے شرم کی، تیسرے نے منہ پھیر لیا۔ اس لیے اللہ نے بھی اس کی طرف سے منہ پھیر لیا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد میں چت لیٹنا کیسا ہے؟

حدیث نمبر : 475
حدثنا عبد الله بن مسلمة، عن مالك، عن ابن شهاب، عن عباد بن تميم، عن عمه، أنه رأى رسول الله صلى الله عليه وسلم مستلقيا في المسجد، واضعا إحدى رجليه على الأخرى‏.‏ وعن ابن شهاب عن سعيد بن المسيب قال كان عمر وعثمان يفعلان ذلك‏.‏
ہم سے عبداللہ بن مسلمہ قعنبی نے بیان کیا امام مالک کے واسطہ سے، انھوں نے ابن شہاب زہری سے، انھوں نے عباد بن تمیم سے، انھوں نے اپنے چچا ( عبداللہ بن زید بن عاصم مازنی رضی اللہ عنہ ) سے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چت لیٹے ہوئے دیکھا۔ آپ اپنا ایک پاؤں دوسرے پر رکھے ہوئے تھے۔ ابن شہاب زہری سے مروی ہے، وہ سعید بن مسیب سے روایت کرتے ہیں کہ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح لیٹتے تھے۔

تشریح : چت لیٹ کر ایک پاؤں دوسرے پر رکھنے کی ممانعت بھی آئی ہے اوراس حدیث میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اورحضرت عمرو عثمان رضی اللہ عنہما بھی اس طرح لیٹا کرتے تھے۔ اس لیے کہا جائے گا کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب شرمگاہ بے پردہ ہونے کا خطرہ ہو۔ کوئی شخص سترپوشی کا پورا اہتمام کرتاہے، پھر اس طرح چت لیٹ کر سونے میں مضائقہ نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عام راستوں پر مسجد بنانا جب کہ کسی کو اس سے نقصان نہ پہنچے ( جائز ہے ) اور امام حسن ( بصری ) اور ایوب اور امام مالک رضی اللہ عنہم نے بھی یہی کہا ہے

حدیث نمبر : 476
حدثنا يحيى بن بكير، قال حدثنا الليث، عن عقيل، عن ابن شهاب، قال أخبرني عروة بن الزبير، أن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لم أعقل أبوى إلا وهما يدينان الدين، ولم يمر علينا يوم إلا يأتينا فيه رسول الله صلى الله عليه وسلم طرفى النهار بكرة وعشية، ثم بدا لأبي بكر فابتنى مسجدا بفناء داره، فكان يصلي فيه ويقرأ القرآن، فيقف عليه نساء المشركين، وأبناؤهم يعجبون منه وينظرون إليه، وكان أبو بكر رجلا بكاء لا يملك عينيه إذا قرأ القرآن، فأفزع ذلك أشراف قريش من المشركين‏.‏
ہم سے یحییٰ بن بکیر نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے لیث بن سعد نے عقیل کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے ابن شہاب زہری سے، انھوں نے کہا مجھے عروہ بن زبیر نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتلایا کہ میں نے جب سے ہوش سنبھالا تو اپنے ماں باپ کو مسلمان ہی پایا اور ہم پر کوئی دن ایسا نہیں گزرا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح و شام دن کے وقت ہمارے گھر تشریف نہ لائے ہوں۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی سمجھ میں ایک ترکیب آئی تو انھوں نے گھر کے سامنے ایک مسجد بنا لی، وہ اس میں نماز پڑھتے اور قرآن کی تلاوت کرتے۔ مشرکین کی عورتیں اور ان کے بچے وہاں تعجب سے سنتے اور کھڑے ہو جاتے اور آپ کی طرف دیکھتے رہتے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ بڑے رونے والے آدمی تھے۔ جب قرآن کریم پڑھتے تو آنسوؤں پر قابو نہ رہتا، قریش کے مشرک سردار اس صورت حال سے گھبرا گئے۔

تشریح : حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ مسجد کا اپنی ملک میں بنانا جائز ہے اورغیرملک میں منع ہے اور راستوں میں بھی مساجد بنانا درست ہے۔ بشرطیکہ چلنے والوں کو نقصان نہ ہو۔ بعض نے راہ میں مطلقاً ناجائز کا فتویٰ دیاہے حضرت امام اسی فتویٰ کی تردید فرمارہے ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : بازار کی مسجد میں نماز پڑھنا اور عبداللہ بن عون نے ایک ایسے گھر کی مسجد میں نماز پڑھی جس کے دروازے عام لوگوں پر بند کئے گئے تھے

حدیث نمبر : 477
حدثنا مسدد، قال حدثنا أبو معاوية، عن الأعمش، عن أبي صالح، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ صلاة الجميع تزيد على صلاته في بيته، وصلاته في سوقه خمسا وعشرين درجة، فإن أحدكم إذا توضأ فأحسن وأتى المسجد، لا يريد إلا الصلاة، لم يخط خطوة إلا رفعه الله بها درجة، وحط عنه خطيئة، حتى يدخل المسجد، وإذا دخل المسجد كان في صلاة ما كانت تحبسه، وتصلي ـ يعني عليه ـ الملائكة ما دام في مجلسه الذي يصلي فيه اللهم اغفر له، اللهم ارحمه، ما لم يحدث فيه‏"‏‏. ‏
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابومعاویہ نے اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے ابوصالح ذکوان سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے میں گھر کے اندر یا بازار ( دوکان وغیرہ ) میں نماز پڑھنے سے پچیس گنا ثواب زیادہ ملتا ہے۔ کیونکہ جب کوئی شخص تم میں سے وضو کرے اور اس کے آداب کا لحاظ رکھے پھر مسجد میں صرف نماز کی غرض سے آئے تو اس کے ہر قدم پر اللہ تعالیٰ ایک درجہ اس کا بلند کرتا ہے اور ایک گناہ اس سے معاف کرتا ہے۔ اس طرح وہ مسجد کے اندر آئے گا۔ مسجد میں آنے کے بعد جب تک نماز کے انتظار میں رہے گا۔ اسے نماز ہی کی حالت میں شمار کیا جائے گا اور جب تک اس جگہ بیٹھا رہے جہاں اس نے نماز پڑھی ہے تو فرشتے اس کے لیے رحمت خداوندی کی دعائیں کرتے ہیں کہ اے اللہ! اس کو بخش دے، اے اللہ! اس پر رحم کر۔ جب تک کہ ریح خارج کر کے ( وہ فرشتوں کو ) تکلیف نہ دے۔

تشریح : بازار کی مسجد میں نماز پچیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے گھر کی نماز سے، اسی سے ترجمہ باب نکلتاہے کیونکہ جب بازار میں اکیلے نماز پڑھنی جائز ہوئی تو جماعت سے بطریق اولیٰ جائز ہوگی۔ خصوصاً بازار کی مسجدوں میں اورآج کل تو شہروں میں بے شماربازارہیں جن میں بڑی بڑی شاندار مساجد ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ نے ان سب کی فضیلت پر اشارہ فرمایا۔ جزاہ اللّٰہ خیرالجزائ
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : مسجد وغیرہ میں ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کر کے قینچی کرنا درست ہے

حدیث نمبر : 478-479
حدثنا حامد بن عمر، عن بشر، حدثنا عاصم، حدثنا واقد، عن أبيه، عن ابن عمر، أو ابن عمرو شبك النبي صلى الله عليه وسلم أصابعه‏.‏
ہم سے حامد بن عمر نے بشر بن مفضل کے واسطہ سے بیان کیا، کہا ہم سے عاصم بن محمد نے، کہا ہم سے واقد بن محمد نے اپنے باپ محمد بن زید کے واسطہ سے، انھوں نے عبداللہ بن عمر یا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہم سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا۔

حدیث نمبر : 480

وقال عاصم بن علي حدثنا عاصم بن محمد، سمعت هذا الحديث، من أبي فلم أحفظه، فقومه لي واقد عن أبيه، قال سمعت أبي وهو، يقول قال عبد الله قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ يا عبد الله بن عمرو، كيف بك إذا بقيت في حثالة من الناس بهذا‏"‏‏.
اور عاصم بن علی نے کہا، ہم سے عاصم بن محمد نے بیان کیا کہ میں نے اس حدیث کو اپنے باپ محمد بن زید سے سنا۔ لیکن مجھے حدیث یاد نہیں رہی تھی۔ تو میرے بھائی واقد نے اس کو درستی سے اپنے باپ سے روایت کر کے مجھے بتایا۔ وہ کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عبداللہ بن عمرو تمہارا کیا حال ہو گا جب تم برے لوگوں میں رہ جاؤ گے اس طرح ( یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ میں کر کے دکھلائیں )

تشریح : آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھوں کو قینچی کرنے سے اس لیے روکا کہ یہ ایک لغو حرکت ہے۔ لیکن اگرکسی صحیح مقصد کے پیش نظر ایسا کبھی کیا جائے توکوئی ہرج نہیں ہے جیسا کہ اس حدیث میں ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے مقصد کی وضاحت کے لیے ہاتھوں کو قینچی کرکے دکھلایا۔ اس حدیث میں آگے یوں ہے کہ نہ ان کے اقرار کا اعتبار ہوگا نہ ان میں امانت داری ہوگی۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ عاصم بن علی کی دوسری روایت جو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے معلقاً بیان کی اس کو ابراہیم حربی نے غریب الحدیث میں وصل کیاہے، باب کے انعقاد سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہ ہے کہ تشبیک کی کراہیت کے بارے میں جو احادیث واردہوئی ہیں وہ ثابت نہیں ہیں بعض نے ممانعت کو حالت نماز پر محمول کیاہے۔

حدیث نمبر : 481
حدثنا خلاد بن يحيى، قال حدثنا سفيان، عن أبي بردة بن عبد الله بن أبي بردة، عن جده، عن أبي موسى، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إن المؤمن للمؤمن كالبنيان، يشد بعضه بعضا‏"‏‏. ‏ وشبك أصابعه‏.‏
ہم سے خلاد بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے ابی بردہ بن عبداللہ بن ابی بردہ سے، انھوں نے اپنے دادا ( ابوبردہ ) سے، انھوں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے۔ انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لیے عمارت کی طرح ہے کہ اس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو قوت پہنچاتا ہے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ کی انگلیوں کو دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیا۔

تشریح : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو باہمی طور پر شیروشکر رہنے کی مثال بیان فرمائی اور ہاتھوں کو قینچی کرکے بتلایا کہ مسلمان بھی باہمی طور پر ایسے ہی ملے جلے رہتے ہیں، جس طرح عمارات کے پتھر ایک دوسرے کو تھامے رہتے ہیں۔ ایسے ہی مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے کا قوت بازو ہوناچاہئیے۔ ایک مسلمان پر کہیں ظلم ہو تو سارے مسلمانوں کو اس کی امداد کے لیے اٹھنا چاہئیے۔ کاش! امت مسلمہ اپنے پیارے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پیاری نصیحت کویاد رکھتی تو آج یہ تباہ کن حالات نہ دیکھنے پڑتے۔

حدیث نمبر : 482
حدثنا إسحاق، قال حدثنا ابن شميل، أخبرنا ابن عون، عن ابن سيرين، عن أبي هريرة، قال صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم إحدى صلاتى العشي ـ قال ابن سيرين سماها أبو هريرة ولكن نسيت أنا ـ قال فصلى بنا ركعتين ثم سلم، فقام إلى خشبة معروضة في المسجد فاتكأ عليها، كأنه غضبان، ووضع يده اليمنى على اليسرى، وشبك بين أصابعه، ووضع خده الأيمن على ظهر كفه اليسرى، وخرجت السرعان من أبواب المسجد فقالوا قصرت الصلاة‏.‏ وفي القوم أبو بكر وعمر، فهابا أن يكلماه، وفي القوم رجل في يديه طول يقال له ذو اليدين قال يا رسول الله، أنسيت أم قصرت الصلاة قال ‏"‏ لم أنس، ولم تقصر‏"‏‏. ‏ فقال ‏"‏ أكما يقول ذو اليدين‏"‏‏. ‏ فقالوا نعم‏.‏ فتقدم فصلى ما ترك، ثم سلم، ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر، ثم كبر وسجد مثل سجوده أو أطول، ثم رفع رأسه وكبر‏.‏ فربما سألوه ثم سلم فيقول نبئت أن عمران بن حصين قال ثم سلم‏.‏
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے نضر بن شمیل نے، انھوں نے کہا کہ ہمیں عبداللہ ابن عون نے خبر دی، انھوں نے محمد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے کہا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دوپہر کے بعد کی دو نمازوں میں سے کوئی نماز پڑھائی۔ ( ظہر یا عصر کی ) ابن سیرین نے کہا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس کا نام تو لیا تھا۔ لیکن میں بھول گیا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بتلایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دو رکعت نماز پڑھا کر سلام پھیر دیا۔ اس کے بعد ایک لکڑی کی لاٹھی سے جو مسجد میں رکھی ہوئی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ٹیک لگا کر کھڑے ہو گئے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ بہت ہی خفا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر رکھا اور ان کی انگلیوں کو ایک دوسرے میں داخل کیا اور آپ نے اپنے دائیں رخسار مبارک کو بائیں ہاتھ کی ہتھیلی سے سہارا دیا۔ جو لوگ نماز پڑھ کر جلدی نکل جایا کرتے تھے وہ مسجد کے دروازوں سے پار ہو گئے۔ پھر لوگ کہنے لگے کہ کیا نماز کم کر دی گئی ہے۔ حاضرین میں ابوبکر اور عمر ( رضی اللہ عنہما ) بھی موجود تھے۔ لیکن انھیں بھی آپ سے بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔ انھیں میں ایک شخص تھے جن کے ہاتھ لمبے تھے اور انھیں ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ انھوں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھول گئے یا نماز کم کر دی گئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نہ میں بھولا ہوں اور نہ نماز میں کوئی کمی ہوئی ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا۔ کیا ذوالیدین صحیح کہہ رہے ہیں۔ حاضرین بولے کہ جی ہاں! یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور باقی رکعتیں پڑھیں۔ پھر سلام پھیرا پھر تکبیر کہی اور سہو کا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی لمبا سجدہ۔ پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی۔ پھر تکبیر کہی اور دوسرا سجدہ کیا۔ معمول کے مطابق یا اس سے بھی طویل پھر سر اٹھایا اور تکبیر کہی، لوگوں نے بار بار ابن سیرین سے پوچھا کہ کیا پھر سلام پھیرا تو وہ جواب دیتے کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ عمران بن حصین کہتے تھے کہ پھر سلام پھیرا۔

تشریح : یہ حدیث “حدیث ذوالیدین” کے نام سے مشہور ہے۔ ایک بزرگ صحابی خرباق رضی اللہ عنہ نامی کے ہاتھ لمبے لمبے تھے۔ اس لیے ان کو ذوالیدین کہا جاتا تھا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ سہواً بات کرلینے سے یامسجد سے نکل جانے سے یا نماز کی جگہ سے چلے جانے سے نماز فاسد نہیں ہوتی، یہاں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھوں کی انگلیوں کو قینچی کرنا مذکور ہے جس سے اس حالت کا جواز مسجد اورغیرمسجد میں ثابت ہوا۔ یہی حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد ہے۔ باقی مباحث متعلق حدیث ہذا اپنے مقامات پر آئیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ان مساجد کا بیان جو مدینہ کے راستے میں واقع ہیں اور وہ جگہیں جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ادا فرمائی ہے

حدیث نمبر : 483
حدثنا محمد بن أبي بكر المقدمي، قال حدثنا فضيل بن سليمان، قال حدثنا موسى بن عقبة، قال رأيت سالم بن عبد الله يتحرى أماكن من الطريق فيصلي فيها، ويحدث أن أباه كان يصلي فيها، وأنه رأى النبي صلى الله عليه وسلم يصلي في تلك الأمكنة‏.‏ وحدثني نافع عن ابن عمر أنه كان يصلي في تلك الأمكنة‏.‏ وسألت سالما، فلا أعلمه إلا وافق نافعا في الأمكنة كلها إلا أنهما اختلفا في مسجد بشرف الروحاء‏.‏
ہم سے محمد بن ابی بکر مقدمی نے بیان کیا کہا ہم سے فضیل بن سلیمان نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے، کہا میں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ وہ ( مدینہ سے مکہ تک ) راستے میں کئی جگہوں کو ڈھونڈھ کو وہاں نماز پڑھتے اور کہتے کہ ان کے باپ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان مقامات پر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور موسیٰ بن عقبہ نے کہا کہ مجھ سے نافع نے ابن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق بیان کیا کہ وہ ان مقامات پر نماز پڑھا کرتے تھے۔ اور میں نے سالم سے پوچھا تو مجھے خوب یاد ہے کہ انھوں نے بھی نافع کے بیان کے مطابق ہی تمام مقامات کا ذکر کیا۔ فقط مقام شرف روحاء کی مسجد کے متعلق دونوں نے اختلاف کیا۔

تشریح : شرف الروحاءمدینہ سے 30 یا 36 میل کے فاصلہ پر ایک مقام ہے جس کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس جگہ سترنبیوں نے عبادت الٰہی کی ہے اوریہاں سے حضرت موسیٰ علیہ السلام حج یا عمرے کی نیت سے گزرے تھے۔ عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہما سنت رسول کے پیش نظر اس جگہ نماز پڑھا کرتے تھے اورحضرت عمررضی اللہ عنہ نے ایسے تاریخی مقامات کو ڈھونڈھنے سے اس لیے منع کیاکہ ایسا نہ ہوآگے چل کر لوگ اس کو ضروری سمجھ لیں۔ حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ کی مراد یہ تھی کہ خالی اس قسم کے آثار کی زیارت کرنا بغیرنماز کی نیت کے بے فائدہ ہے اور عتبان کی حدیث اوپر گزر چکی ہے انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں کسی جگہ نماز پڑھ دیجیے تاکہ میں اس کونماز کی جگہ بنالوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی درخواست کو منظور فرمایاتھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ صالحین کے آثار سے بایں طور برکت لینا درست ہے، خاص طور پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہرقول وہرفعل وہرنقش قدم ہمارے لیے سرمایہ برکت وسعادت ہیں۔ مگراس بارے میں جوافراط وتفریط سے کام لیاگیا ہے وہ بھی حد درجہ قابل مذمت ہے۔ مثلاً صاحب انوارالباری ( دیوبندی ) نے اپنی کتاب مذکور جلد 5 ص 157 پر ایک جگہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کیاہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیشاب اورتمام فضلات کو بھی طاہر کہتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جیسے سیدالفقہاءایسا نہیں کہہ سکتے مگر یہی وہ غلو ہے جو تبرکات انبیاءکے نام پر کیاگیا ہے، اللہ تعالیٰ ہم کو افراط و تفریط سے بچائے۔ آمین۔

حدیث نمبر : 484
حدثنا إبراهيم بن المنذر، قال حدثنا أنس بن عياض، قال حدثنا موسى بن عقبة، عن نافع، أن عبد الله، أخبره أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينزل بذي الحليفة حين يعتمر، وفي حجته حين حج، تحت سمرة في موضع المسجد الذي بذي الحليفة، وكان إذا رجع من غزو كان في تلك الطريق أو حج أو عمرة هبط من بطن واد، فإذا ظهر من بطن واد أناخ بالبطحاء التي على شفير الوادي الشرقية، فعرس ثم حتى يصبح، ليس عند المسجد الذي بحجارة، ولا على الأكمة التي عليها المسجد، كان ثم خليج يصلي عبد الله عنده، في بطنه كثب كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم يصلي، فدحا السيل فيه بالبطحاء حتى دفن ذلك المكان الذي كان عبد الله يصلي فيه‏.‏
ہم سے ابراہیم بن منذر حزامی نے بیان کیا، کہا ہم سے انس بن عیاض نے، کہا ہم سے موسیٰ بن عقبہ نے نافع سے، ان کو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب عمرہ کے قصد سے تشریف لے گئے اور حجۃ الوداع کے موقعہ پر جب حج کے لیے نکلے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ میں قیام فرمایا۔ ذوالحلیفہ کی مسجد کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ببول کے درخت کے نیچے اترے اور جب آپ کسی جہاد سے واپس ہوتے اور راستہ ذوالحلیفہ سے ہو کر گزرتا یا حج یا عمرہ سے واپسی ہوتی تو آپ وادی عقیق کے نشیبی علاقہ میں اترتے، پھر جب وادی کے نشیب سے اوپر چڑھتے تو وادی کے بالائی کنارے کے اس مشرقی حصہ پر پڑاؤ ہوتا جہاں کنکریوں اور ریت کا کشادہ نالا ہے۔ ( یعنی بطحاء میں ) یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو صبح تک آرام فرماتے۔ یہ مقام اس مسجد کے قریب نہیں ہے جو پتھروں کی بنی ہے، آپ اس ٹیلے پر بھی نہیں ہوتے جس پر مسجد بنی ہوئی ہے۔ وہاں ایک گہرا نالہ تھا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وہیں نماز پڑھتے۔ اس کے نشیب میں ریت کے ٹیلے تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں نماز پڑھا کرتے تھے۔ کنکریوں اور ریت کے کشادہ نالہ کی طرف سے سیلاب نے آ کر اس جگہ کے آثار و نشانات کو پاٹ دیا ہے، جہاں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نماز پڑھا کرتے تھے۔


حدیث نمبر : 485
وأن عبد الله بن عمر حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى حيث المسجد الصغير الذي دون المسجد الذي بشرف الروحاء، وقد كان عبد الله يعلم المكان الذي كان صلى فيه النبي صلى الله عليه وسلم يقول ثم عن يمينك حين تقوم في المسجد تصلي، وذلك المسجد على حافة الطريق اليمنى، وأنت ذاهب إلى مكة، بينه وبين المسجد الأكبر رمية بحجر أو نحو ذلك‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بھی بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ نماز پڑھی جہاں اب شرف روحاء کی مسجد کے قریب ایک چھوٹی مسجد ہے، عبداللہ بن عمر اس جگہ کی نشاندہی کرتے تھے جہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تھی۔ کہتے تھے کہ یہاں تمہارے دائیں طرف جب تم مسجد میں ( قبلہ رو ہو کر ) نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوتے ہو۔ جب تم ( مدینہ سے ) مکہ جاؤ تو یہ چھوٹی سی مسجد راستے کے دائیں جانب پڑتی ہے۔ اس کے اور بڑی مسجد کے درمیان ایک پتھر کی مار کا فاصلہ ہے یا اس سے کچھ کم زیادہ۔

حدیث نمبر : 486
وأن ابن عمر كان يصلي إلى العرق الذي عند منصرف الروحاء، وذلك العرق انتهاء طرفه على حافة الطريق، دون المسجد الذي بينه وبين المنصرف، وأنت ذاهب إلى مكة‏.‏ وقد ابتني ثم مسجد، فلم يكن عبد الله يصلي في ذلك المسجد، كان يتركه عن يساره ووراءه، ويصلي أمامه إلى العرق نفسه، وكان عبد الله يروح من الروحاء، فلا يصلي الظهر حتى يأتي ذلك المكان فيصلي فيه الظهر، وإذا أقبل من مكة فإن مر به قبل الصبح بساعة أو من آخر السحر عرس حتى يصلي بها الصبح‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس چھوٹی پہاڑی کی طرف نماز پڑھتے جو روحاء کے آخر کنارے پر ہے اور یہ پہاڑی وہاں ختم ہوتی ہے جہاں راستے کا کنارہ ہے۔ اس مسجد کے قریب جو اس کے اور روحاء کے آخری حصے کے بیچ میں ہے مکہ کو جاتے ہوئے۔ اب وہاں ایک مسجد بن گئی ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس مسجد میں نماز نہیں پڑھتے تھے بلکہ اس کو اپنے بائیں طرف مقابل میں چھوڑ دیتے اور آگے بڑھ کر خود پہاڑی عرق الطبیہ کی طرف نماز پڑھتے تھے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب روحاء سے چلتے تو ظہر اس وقت تک نہ پڑھتے جب تک اس مقام پر نہ پہنچ جاتے۔ جب یہاں آ جاتے تو ظہر پڑھتے، اور اگر مکہ سے آتے ہوئے صبح صادق سے تھوڑی دیر پہلے یا سحر کے آخر میں وہاں سے گزرتے تو صبح کی نماز تک وہیں آرام کرتے اور فجر کی نماز پڑھتے۔

حدیث نمبر : 487
وأن عبد الله حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينزل تحت سرحة ضخمة دون الرويثة عن يمين الطريق، ووجاه الطريق في مكان بطح سهل، حتى يفضي من أكمة دوين بريد الرويثة بميلين، وقد انكسر أعلاها، فانثنى في جوفها، وهي قائمة على ساق، وفي ساقها كثب كثيرة‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم راستے کے دائیں طرف مقابل میں ایک گھنے درخت کے نیچے وسیع اور نرم علاقہ میں قیام فرماتے جو قریہ رویثہ کے قریب ہے۔ پھر آپ اس ٹیلہ سے جو رویثہ کے راستے سے تقریباً دو میل کے فاصلے پر ہے چلتے تھے۔ اب اس درخت کا اوپر کا حصہ ٹوٹ گیا ہے۔ اور درمیان میں سے دوہرا ہو کر جڑ پر کھڑا ہے۔ اس کی جڑ میں ریت کے بہت سے ٹیلے ہیں۔

حدیث نمبر : 488
وأن عبد الله بن عمر حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى في طرف تلعة من وراء العرج وأنت ذاهب إلى هضبة عند ذلك المسجد قبران أو ثلاثة، على القبور رضم من حجارة عن يمين الطريق، عند سلمات الطريق، بين أولئك السلمات كان عبد الله يروح من العرج بعد أن تميل الشمس بالهاجرة، فيصلي الظهر في ذلك المسجد‏.
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے یہ بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قریہ عرج کے قریب اس نالے کے کنارے نماز پڑھی جو پہاڑ کی طرف جاتے ہوئے پڑتا ہے۔ اس مسجد کے پاس دو یا تین قبریں ہیں، ان قبروں پر اوپر تلے پتھر رکھے ہوئے ہیں، راستے کے دائیں جانب ان بڑے پتھروں کے پاس جو راستے میں ہیں۔ ان کے درمیان میں ہو کر نماز پڑھی، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریہ عرج سے سورج ڈھلنے کے بعد چلتے اور ظہر اسی مسجد میں آ کر پڑھا کرتے تھے۔

حدیث نمبر : 489
وأن عبد الله بن عمر حدثه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نزل عند سرحات عن يسار الطريق، في مسيل دون هرشى، ذلك المسيل لاصق بكراع هرشى، بينه وبين الطريق قريب من غلوة، وكان عبد الله يصلي إلى سرحة، هي أقرب السرحات إلى الطريق وهى أطولهن‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نافع سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راستے کے بائیں طرف ان گھنے درختوں کے پاس قیام فرمایا جو ہرشی پہاڑ کے نزدیک نشیب میں ہیں۔ یہ ڈھلوان جگہ ہرشی کے ایک کنارے سے ملی ہوئی ہے۔ یہاں سے عام راستہ تک پہنچنے کے لیے تیر کی مار کا فاصلہ ہے۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس بڑے درخت کی طرف نماز پڑھتے تھے جو ان تمام درختوں میں راستے سے سب سے زیادہ نزدیک ہے اور سب سے لمبا درخت بھی یہی ہے۔

حدیث نمبر : 490
وأن عبد الله بن عمر حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينزل في المسيل الذي في أدنى مر الظهران، قبل المدينة حين يهبط من الصفراوات ينزل في بطن ذلك المسيل عن يسار الطريق، وأنت ذاهب إلى مكة، ليس بين منزل رسول الله صلى الله عليه وسلم وبين الطريق إلا رمية بحجر‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نالے میں اترا کرتے تھے جو وادی مرالظہران کے نشیب میں ہے۔ مدینہ کے مقابل جب کہ مقام صفراوات سے اترا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس ڈھلوان کے بالکل نشیب میں قیام کرتے تھے۔ یہ راستے کے بائیں جانب پڑتا ہے جب کوئی شخص مکہ جا رہا ہو ( جس کو اب بطن مرو کہتے ہیں ) راستے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل کے درمیان صرف ایک پتھر ہی کے مار کا فاصلہ ہوتا۔

حدیث نمبر : 491
وأن عبد الله بن عمر حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم كان ينزل بذي طوى ويبيت حتى يصبح، يصلي الصبح حين يقدم مكة، ومصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذلك على أكمة غليظة، ليس في المسجد الذي بني ثم، ولكن أسفل من ذلك على أكمة غليظة‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مقام ذی طوی میں قیام فرماتے اور رات یہیں گزارا کرتے تھے اور صبح ہوتی تو نماز فجر یہیں پڑھتے۔ مکہ جاتے ہوئے۔ یہاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ ایک بڑے سے ٹیلے پر تھی۔ اس مسجد میں نہیں جواب وہاں بنی ہوئی ہے بلکہ اس سے نیچے ایک بڑا ٹیلا تھا۔

حدیث نمبر : 492
وأن عبد الله حدثه أن النبي صلى الله عليه وسلم استقبل فرضتى الجبل الذي بينه وبين الجبل الطويل نحو الكعبة، فجعل المسجد الذي بني ثم يسار المسجد بطرف الأكمة، ومصلى النبي صلى الله عليه وسلم أسفل منه على الأكمة السوداء، تدع من الأكمة عشرة أذرع أو نحوها، ثم تصلي مستقبل الفرضتين من الجبل الذي بينك وبين الكعبة‏.‏
اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے حضرت نافع سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پہاڑ کے دونوں کونوں کا رخ کیا جو اس کے اور جبل طویل کے درمیان کعبہ کی سمت ہیں۔ آپ اس مسجد کو جواب وہاں تعمیر ہوئی ہے اپنی بائیں طرف کر لیتے ٹیلے کے کنارے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نماز پڑھنے کی جگہ اس سے نیچے سیاہ ٹیلے پر تھی ٹیلے سے تقریباً دس ہاتھ چھوڑ کر پہاڑ کی دونوں گھاٹیوں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے جو تمہارے اور کعبہ کے درمیان ہے۔

تشریح : امام قسطلانی شارح بخاری لکھتے ہیں کہ ان مقامات میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا نماز پڑھنا تبرک حاصل کرنے کے لیے تھا اور یہ اس کے خلاف نہیں جو حضرت عمررضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ کیونکہ عمررضی اللہ عنہ نے اس حال میں اس کو مکروہ رکھا جب کوئی واجب اورضروری سمجھ کر ایسا کرے۔ یہاں جن جن مقامات کی مساجد کا ذکر ہے ان میں سے اکثراب ناپید ہوچکی ہیں۔ چند باقی ہیں۔ ذوالحلیفہ ایک مشہور مقام ہے جہاں سے اہل مدینہ احرام باندھا کرتے ہیں۔ بطحاءوہ جگہ ہے جہاں پانی کا بہاؤ ہے اوروہاں باریک باریک کنکریاں ہیں۔ رویثہ مدینہ سے سترہ فرس کے فاصلہ پر ایک گاؤں کا نام ہے۔ یہاں سے عرج نامی گاؤں تیرہ چودہ میل پڑتاہے۔ ہضبہ بھی مدینہ کے راستے میں ایک پہاڑ ہے جو زمین پر پھیلا ہوا ہے ہر شی حجفہ کے قریب مدینہ اورشام کے راستوں میں ایک پہاڑ کا نام ہے۔ مہرالظہران ایک مشہور مقام ہے۔ صفراوات وہ ندی نالے اورپہاڑ جو مرالظہران کے بعدآتے ہیں۔

اس حدیث میں نوحدیثیں مذکو رہیں۔ ان کو حسن بن سفیان نے متفرق طور پر اپنی مسند میں نکالا ہے۔ مگرتیسری کو نہیں نکالا۔ اور مسلم نے آخری حدیث کو کتاب الحج میں نکالاہے۔ اب ان مساجد کا پتہ نہیں چلتا نہ درخت اورنشانات باقی ہیں۔ خود مدینہ منورہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے، جن جن مساجد میں نماز پڑھی ہے ان کو عمربن شیبہ نے اخبار مدینہ میں ذکرکیاہے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے عہدخلافت میں ان کومعلوم کرکے نقشی پتھروں سے تعمیرکرادیا تھا ان میں سے مسجدقبائ، مسجدفضیخ، مسجدبنی قریظہ، مسجد بغلہ، مسجد بنی معاویہ، مسجد فتح، مسجد قبلتین وغیرہ وغیرہ ابھی تک باقی ہیں۔ موجودہ حکومت سعودیہ نے اکثرمساجد کو عمدہ طور پر مستحکم کردیا ہے۔

اس حدیث میں جس سفر کی نمازوں کا ذکر ہے وہ سات دن تک جاری رہا تھا اورآپ نے اس میں 35 نمازیں ادا کی تھیں راویان حدیث نے اکثر کا ذکر نہیں کیا۔ وادی روحاءکی تفصیل پہلے گزر چکی ہے۔
قال الشیخ ابن حجر ہذہ المساجد لایعرف الیوم ہہنا غیرمسجدذی الحلیفۃ والمساجد التی بالروحاءاہل تلک الناہیۃ انتہیٰ۔ و انما کان ابن عمر یصلی فی تلک المواضع تبرکا بہا ولم یزل الناس یتبرکون بمواضع الصلحاءواما ماروی عن عمر انہ کرہ ذلک فلانہ خشی ان یلتزم الناس الصلوٰۃ فی تلک المواضع وینبغی للعالم اذا رای الناس یلتزمون بالنوافل التزاما شدیدا ان ینہاہم عنہ۔ علامہ ابن حجر کی اس تقریر کا خلاصہ وہی ہے جو اوپر ذکر ہوا۔ یعنی ان مقامات پر نماز محض تبرکا پڑھتے تھے۔ مگرعوام اس کا التزام کرنے لگیں تو علماءکے لیے ضروری ہے کہ ان کوروکیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : امام کا سترہ مقتدیوں کو بھی کفایت کرتا ہے

حدیث نمبر : 493
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن ابن شهاب، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن عبد الله بن عباس، أنه قال أقبلت راكبا على حمار أتان، وأنا يومئذ قد ناهزت الاحتلام، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي بالناس بمنى إلى غير جدار، فمررت بين يدى بعض الصف، فنزلت وأرسلت الأتان ترتع، ودخلت في الصف، فلم ينكر ذلك على أحد‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے امام مالک نے ابن شہاب کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ میں ایک گدھی پر سوار ہو کر آیا۔ اس زمانہ میں بالغ ہونے والا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے۔ لیکن دیوار آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نہ تھی۔ میں صف کے بعض حصے سے گزر کر سواری سے اترا اور میں نے گدھی کو چرنے کے لیے چھوڑ دیا اور صف میں داخل ہو گیا۔ پس کسی نے مجھ پر اعتراض نہیں کیا۔

تشریح : بظاہر اس حدیث سے باب کا مطلب نہیں نکلتا۔ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ یہی تھی کہ میدان میں بغیرسترہ کے نماز نہ پڑھتے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے برچھی گاڑی جاتی،تویقینا اس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سترہ ضرور ہوگا۔ پس باب کا مطلب ثابت ہوگیا کہ امام کا سترہ مقتدیوں کے لیے کافی ہے۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں: الی غیرجدار قال الشافعی الی غیرسترۃ وحینئذ فلامطابقۃ بین الحدیث والترجمۃ وقدبوب علیہ البیہقی باب من صلی الی غیرسترۃ لکن استنبط بعضہم المطابقۃ من قولہ الی غیرجدار لان لفظ غیر یشعربان ثمۃ سترۃ لانہا تقع دائما صفۃ و تقدیرہ الی شئی غیر جدار وہو اعم من ان یکون عصا اوغیر ذلک یعنی امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے یوں باب باندھا کہ یہ باب اس کے بارے میں ہے جو بغیرسترہ کے نماز پڑھے۔ لیکن اسی حدیث سے بعض علماءنے لفظ الی غیرجدار سے مطابقت پر استنباط کیاہے۔ لفظ غیربتلاتا ہے کہ وہاں دیوار کے علاوہ کسی اورچیز سے سترہ کیاگیاتھا۔ وہ چیز عصا تھی۔ یاکچھ اور بہرحال آپ کے سامنے سترہ موجود تھا جو دیوار کے علاوہ تھا۔

حضرت شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : قلت حمل البخاری لفظ الغیر علی النعت والبیہقی علی النفی المحض وامااختارہ البخاری ہنا اولیٰ فان التعرض لنفی الجدار خاصۃ یدل علی انہ کان ہناک شئی مغایرللجدار الخ۔ ( مرعاۃ، ج 1، ص: 515 ) خلاصہ یہ ہے کہ حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا مقصد یہاں یہ ہے کہ آپ کے سامنے دیوار کے علاوہ کوئی اور چیز بطور سترہ تھی۔ حضرت الامام نے لفظ غیر کو یہاں بطور نعت سمجھا اور امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے نفی محض مراد لی، اورجو کچھ یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اختیار کیاہے وہی مناسب اوربہتر ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ حجۃ الوداع میں پیش آیا۔ اس وقت یہ بلوغ کے قریب تھے۔ وفات نبوی کے وقت ان کی عمر پندرہ سال کے لگ بھگ بتلائی گئی ہے۔

حدیث نمبر : 494
حدثنا إسحاق، قال حدثنا عبد الله بن نمير، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، عن ابن عمر، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خرج يوم العيد أمر بالحربة فتوضع بين يديه، فيصلي إليها والناس وراءه، وكان يفعل ذلك في السفر، فمن ثم اتخذها الأمراء‏.
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے عبداللہ بن نمیر نے کہا کہ ہم سے عبیداللہ بن عمر نے نافع کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن ( مدینہ سے ) باہر تشریف لے جاتے تو چھوٹے نیزہ ( برچھا ) کو گاڑنے کا حکم دیتے وہ جب آپ کے آگے گاڑ دیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوتے۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی کیا کرتے تھے۔ ( مسلمانوں کے ) خلفاء نے اسی وجہ سے برچھا ساتھ رکھنے کی عادت بنا لی ہے۔


حدیث نمبر : 495
حدثنا أبو الوليد، قال حدثنا شعبة، عن عون بن أبي جحيفة، قال سمعت أبي أن النبي صلى الله عليه وسلم صلى بهم بالبطحاء ـ وبين يديه عنزة ـ الظهر ركعتين، والعصر ركعتين، تمر بين يديه المرأة والحمار‏.‏
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا عون بن ابی حجیفہ سے، کہا میں نے اپنے باپ ( وہب بن عبداللہ ) سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو بطحاء میں نماز پڑھائی۔ آپ کے سامنے عنزہ ( ڈنڈا جس کے نیچے پھل لگا ہوا ہو ) گاڑ دیا گیا تھا۔ ( چونکہ آپ مسافر تھے اس لیے ) ظہر کی دو رکعت اور عصر کی دو رکعت ادا کیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔

تشریح : یہاں بھی حضرت امام قدس سرہ نے یہی ثابت فرمایاکہ امام کا سترہ سارے نمازیوں کے لیے کافی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطحاءمیں ظہر وعصر کی دونوں نمازیں جمع تقدیم کے طور پر پڑھائیں۔ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے بطور سترہ برچھا گاڑدیا گیاتھا۔ برچھے سے باہر آپ اورنمازیوں کے آگے گدھے گزررہے تھے اور عورتیں بھی، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سترہ سب نمازیووں کے لیے کافی گردانا گیا۔ بغیرسترہ کے امام یا نمازیوں کے آگے سے اگرعورتیں یاگدھے وکتے وغیرہ گزریں توچونکہ ان کی طرف توجہ بٹنے کا احتمال ہے۔ اس لیے ان سے نماز ٹوٹ جاتی ہے۔ بعض لوگ نماز ٹوٹنے کو نماز میں صرف خلل آجانے پر محمول کرتے ہیں۔ اس کا فیصلہ خود نمازی ہی کرسکتاہے کہ انما الاعمال بالنیات اگران چیزوں پر نظر پڑنے سے اس کی نماز میں پوری توجہ ادھر ہوگئی تویقینا نماز ٹوٹ جائے گی ورنہ خلل محض بھی معیوب ہے۔ حضرت مولانا عبدالرحمن صاحب شیخ الحدیث مبارک پوری قدس سرہ فرماتے ہیں: قال مالک و ابوحنیفۃ والشافعی رضی اللہ عنہم و جمہور من السلف والخلف لاتبطل الصلوٰۃ بمرور شئی من ہولاءولا من غیرہم وتاول ہولاءہذالحدیث علی ان المراد بالقطع نقص الصلوٰۃ لشغل القلب بہذہ الاشیاءولیس المراد ابطالہا الخ ( تحفۃ الاحوذی، ج 1، ص:276 ) خلاصہ یہی ہے کہ کتے اور گدھے اور عورت کے نمازی کے سامنے سے گزرنے سے نماز میں نقص آجاتاہے۔ اس لیے کہ دل میں ان چیزوں سے تاثر آجاتا ہے۔ نماز مطلقاً باطل ہوجائے ایسا نہیں ہے۔ جمہورعلمائے سلف وخلف کا یہی فتویٰ ہے۔
 
Top