• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مکمل صحیح بخاری اردو ترجمہ و تشریح جلد ١ - (حدیث نمبر ١ تا ٨١٣)

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نمازی کے آگے سے گزرنے کا گناہ کتنا ہے؟

حدیث نمبر : 510
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن بسر بن سعيد، أن زيد بن خالد، أرسله إلى أبي جهيم يسأله ماذا سمع من، رسول الله صلى الله عليه وسلم في المار بين يدى المصلي فقال أبو جهيم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ لو يعلم المار بين يدى المصلي ماذا عليه لكان أن يقف أربعين خيرا له من أن يمر بين يديه‏"‏‏. ‏ قال أبو النضر لا أدري أقال أربعين يوما أو شهرا أو سنة‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا ہم سے امام مالک نے عمر بن عبیداللہ کے غلام ابونضر سالم بن ابی امیہ سے خبر دی۔ انھوں نے بسر بن سعید سے کہ زید بن خالد نے انھیں ابوجہیم عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ان سے یہ بات پوچھنے کے لیے بھیجا کہ انھوں نے نماز پڑھنے والے کے سامنے سے گزرنے والے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا سنا ہے۔ ابوجہیم نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر نمازی کے سامنے سے گزرنے والا جانتا کہ اس کا کتنا بڑا گناہ ہے تو اس کے سامنے سے گزرنے پر چالیس تک وہیں کھڑے رہنے کو ترجیح دیتا۔ ابوالنضر نے کہا کہ مجھے یاد نہیں کہ بسر بن سعید نے چالیس دن کہا یا مہینہ یا سال۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : نماز پڑھتے وقت ایک نمازی کا دوسرے شخص کی طرف رخ کرنا کیسا ہے؟

وكره عثمان أن يستقبل الرجل وهو يصلي، وإنما هذا إذا اشتغل به، فأما إذا لم يشتغل فقد قال زيد بن ثابت ما باليت إن الرجل لا يقطع صلاة الرجل‏.‏
اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے ناپسند فرمایا کہ نمازی کے سامنے منہ کر کے بیٹھے۔ امام بخاری نے فرمایا کہ یہ کراہیت جب ہے کہ نمازی کا دل ادھر لگ جائے۔ اگر دل نہ لگے تو زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے اس کی پروا نہیں۔ اس لیے کہ مرد کی نماز کو مرد نہیں توڑتا۔

حدیث نمبر : 511
حدثنا إسماعيل بن خليل، حدثنا علي بن مسهر، عن الأعمش، عن مسلم ـ يعني ابن صبيح ـ عن مسروق، عن عائشة، أنه ذكر عندها ما يقطع الصلاة فقالوا يقطعها الكلب والحمار والمرأة‏.‏ قالت قد جعلتمونا كلابا، لقد رأيت النبي ـ عليه السلام ـ يصلي، وإني لبينه وبين القبلة، وأنا مضطجعة على السرير، فتكون لي الحاجة، فأكره أن أستقبله فأنسل انسلالا‏.‏ وعن الأعمش عن إبراهيم عن الأسود عن عائشة نحوه‏.‏
ہم سے اسماعیل بن خلیل نے بیان کیا، کہا ہم سے علی بن مسہرنے بیان کیا سلیمان اعمش کے واسطہ سے، انھوں نے مسلم بن صبیح سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ ان کے سامنے ذکر ہوا کہ نماز کو کیا چیزیں توڑ دیتی ہیں، لوگوں نے کہا کہ کتا، گدھا اور عورت ( بھی ) نماز کو توڑ دیتی ہے۔ ( جب سامنے آ جائے ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے ہمیں کتوں کے برابر بنا دیا۔ حالانکہ میں جانتی ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے اور آپ کے قبلہ کے درمیان ( سامنے ) چارپائی پر لیٹی ہوئی تھی۔ مجھے ضرورت پیش آتی تھی اور یہ بھی اچھا نہیں معلوم ہوتا تھا کہ خود کو آپ کے سامنے کر دوں۔ اس لیے میں آہستہ سے نکل آتی تھی۔ اعمش نے ابراہیم سے، انھوں نے اسود سے، انھوں نے عائشہ سے اسی طرح یہ حدیث بیان کی۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما کے بیان میں الفاظ اکرہ ان استقبلہ سے ترجمہ باب نکلتاہے۔ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ میں آپ کے سامنے لیٹی رہتی تھی۔ مگرمیں اسے مکروہ جان کر ادھر ادھر سرک جایا کرتی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : سوتے ہوئے شخص کے پیچھے نماز پڑھنا

حدیث نمبر : 512
حدثنا مسدد، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا هشام، قال حدثني أبي، عن عائشة، قالت كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا راقدة معترضة على فراشه، فإذا أراد أن يوتر أيقظني فأوترت‏.‏
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کے واسطے سے بیان کیا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے تھے اور میں ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ) بچھونے پڑ آڑی سوتی ہوئی پڑی ہوتی۔ جب آپ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔

باب اورحدیث کی مطابقت ظاہر ہے۔ خانگی زندگی میں بعض دفعہ ایسے بھی مواقع آجاتے ہیں کہ ایک شخص سورہا ہے اور دوسرے نمازی بزرگ اس کے سامنے ہوتے ہوئے نماز پڑھ رہے ہیں۔ عندالضرورت اس سے نماز میں خلل نہیں آتا۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : عورت کے پیچھے نفل نماز پڑھنا

یعنی سامنے بطور سترہ کے عورت ہو تو نماز کا کیا حکم ہے۔

حدیث نمبر : 513
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن أبي النضر، مولى عمر بن عبيد الله عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، عن عائشة، زوج النبي صلى الله عليه وسلم أنها قالت كنت أنام بين يدى رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجلاى في قبلته، فإذا سجد غمزني فقبضت رجلى، فإذا قام بسطتهما‏.‏ قالت والبيوت يومئذ ليس فيها مصابيح‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تینسی نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی عمر بن عبیداللہ کے غلام ابوالنضر سے، انھوں نے ابوسلمہ عبداللہ بن عبدالرحمن سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سو جایا کرتی تھی۔ میرے پاؤں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ( پھیلے ہوئے ) ہوتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو پاؤں کو ہلکے سے دبا دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی پھر جب قیام فرماتے تو میں انھیں پھیلا لیتی تھی اس زمانہ میں گھروں کے اندر چراغ نہیں ہوتے تھے۔ ( معلوم ہوا کہ ایسا کرنا بھی جائز ہے )۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس شخص کی دلیل جس نے یہ کہا کہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی

حدیث نمبر : 514
حدثنا عمر بن حفص، قال حدثنا أبي قال، حدثنا الأعمش، قال حدثنا إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة،‏.‏ قال الأعمش وحدثني مسلم، عن مسروق، عن عائشة، ذكر عندها ما يقطع الصلاة الكلب والحمار والمرأة فقالت شبهتمونا بالحمر والكلاب، والله لقد رأيت النبي صلى الله عليه وسلم يصلي، وإني على السرير ـ بينه وبين القبلة ـ مضطجعة فتبدو لي الحاجة، فأكره أن أجلس فأوذي النبي صلى الله عليه وسلم فأنسل من عند رجليه‏.‏
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا، کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابراہیم نے اسود کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے ( دوسری سند ) اور اعمش نے کہا کہ مجھ سے مسلم بن صبیح نے مسروق کے واسطہ سے بیان کیا، انھوں نے عائشہ رضی اللہ عنہ سے کہ ان کے سامنے ان چیزوں کا ذکر ہوا۔ جو نماز کو توڑ دیتی ہیں یعنی کتا، گدھا اور عورت۔ اس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگوں نے ہمیں گدھوں اور کتوں کے برابر کر دیا۔ حالانکہ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نماز پڑھتے تھے کہ میں چارپائی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور قبلہ کے بیچ میں لیٹی رہتی تھی۔ مجھے کوئی ضرورت پیش آئی اور چونکہ یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کے سامنے ( جب کہ آپ نماز پڑھ رہے ہوں ) بیٹھوں اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہو۔ اس لیے میں آپ کے پاؤں کی طرف سے خاموشی کے ساتھ نکل جاتی تھی۔

تشریح : صاحب تفہیم البخاری لکھتے ہیں کہ “امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کا جواب دینا چاہتے ہیں کہ کتے، گدھے اورعورت نماز کو توڑدیتی ہے۔ یہ بھی صحیح حدیث ہے لیکن اس سے مقصد یہ بتاناتھاکہ ان کے سامنے سے گزرنے سے نمازکے خشوع وخضوع میں فرق پڑتاہے۔ یہ مقصد نہیں تھاکہ واقعی ان کا سامنے سے گزرنا نماز کو توڑدیتاہے۔ چونکہ بعض لوگوں نے ظاہری الفاظ پر ہی حکم لگادیاتھا۔ اس لیے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے اس کی تردیدکی ضرورت سمجھی۔ اس کے علاوہ اس حدیث سے یہ بھی شبہ ہوتا تھا کہ نماز کسی دوسرے کے عمل سے بھی ٹوٹ سکتی ہے۔ اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان لگایاکہ نماز کو کوئی چیز نہیں توڑتی یعنی کسی دوسرے کا کوئی عمل خاص طور سے سامنے سے گزرنا۔”


حدیث نمبر : 515
حدثنا إسحاق، قال أخبرنا يعقوب بن إبراهيم، قال حدثني ابن أخي ابن شهاب، أنه سأل عمه عن الصلاة، يقطعها شىء فقال لا يقطعها شىء، أخبرني عروة بن الزبير أن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم قالت لقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقوم فيصلي من الليل، وإني لمعترضة بينه وبين القبلة على فراش أهله‏.‏
ہم سے اسحاق بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی، کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا، انھوں نے اپنے چچا سے پوچھا کہ کیا نماز کو کوئی چیز توڑ دیتی ہے؟ تو انھوں نے فرمایا کہ نہیں، اسے کوئی چیز نہیں توڑتی۔ کیونکہ مجھے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر رات کو نماز پڑھتے اور میں آپ کے سامنے آپ کے اور قبلہ کے درمیان عرض میں بستر پر لیٹی رہتی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ نماز میں اگر کوئی اپنی گردن پر کسی بچی کو اٹھالے تو کیاحکم ہے؟

حدیث نمبر : 516
حدثنا عبد الله بن يوسف، قال أخبرنا مالك، عن عامر بن عبد الله بن الزبير، عن عمرو بن سليم الزرقي، عن أبي قتادة الأنصاري، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يصلي وهو حامل أمامة بنت زينب بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم ولأبي العاص بن ربيعة بن عبد شمس، فإذا سجد وضعها، وإذا قام حملها‏.‏
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے خبر دی، انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے، انھوں نے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ( بعض اوقات ) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔

تشریح : حضرت امامہ بنت ابوالعاص رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑی محبوب نواسی تھیں، بعض اوقات اس فطری محبت کی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کو جب یہ بہت چھوٹی تھیں نماز میں کندھے پر بھی بٹھالیا کرتے تھے۔ حضرت امامہ کا نکاح حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے ہوا جب کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ کا انتقال ہو چکا تھا۔ اور وہ ان سے نکاح کرنے کی وصیت بھی فرماگئی تھیں،یہ11 ھ کا واقعہ ہے۔ 40 ھ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ شہید کردئیے گئے تو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت امامہ رضی اللہ عنہا کا عقدثانی مغیرہ بن نوفل سے ہوا۔ جو حضرت عبدالمطلب کے پوتے ہوتے تھے۔ ان ہی کے پاس آپ نے وفات پائی۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ احکام اسلام میں وسعت کے پیش نظر بتلانا چاہتے ہیں کہ ایسے کسی خاص موقعہ پر اگر کسی شخص نے نماز میں اپنے کسی پیارے معصوم بچے کو کاندھے پر بٹھا لیا تواس سے نماز فاسد نہ ہو گی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : ایسے بستر کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا جس پر حائضہ عورت ہو

حدیث نمبر : 517
حدثنا عمرو بن زرارة، قال أخبرنا هشيم، عن الشيباني، عن عبد الله بن شداد بن الهاد، قال أخبرتني خالتي، ميمونة بنت الحارث قالت كان فراشي حيال مصلى النبي صلى الله عليه وسلم فربما وقع ثوبه على وأنا على فراشي‏.
ہم سے عمرو بن زرارہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ہشیم نے شیبانی کے واسطے سے بیان کیا، انھوں نے عبداللہ بن شداد بن ہاد سے، کہا مجھے میری خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ میرا بستر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلے کے برابر میں ہوتا تھا۔ اور بعض دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کپڑا ( نماز پڑھتے میں ) میرے اوپر آ جاتا اور میں اپنے بستر پر ہی ہوتی تھی۔

حدیث نمبر : 518
حدثنا أبو النعمان، قال حدثنا عبد الواحد بن زياد، قال حدثنا الشيباني، سليمان حدثنا عبد الله بن شداد، قال سمعت ميمونة، تقول كان النبي صلى الله عليه وسلم يصلي وأنا إلى جنبه نائمة، فإذا سجد أصابني ثوبه، وأنا حائض‏.‏ وزاد مسدد عن خالد قال حدثنا سليمان الشيباني، وأنا حائض‏.‏
ہم سے ابوالنعمان محمد بن فضل نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، کہا ہم سے شیبانی سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبداللہ بن شداد بن ہاد نے بیان کیا، کہا ہم نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا سے سنا، وہ فرماتی تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھتے ہوتے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر میں سوتی رہتی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں جاتے تو آپ کا کپڑا مجھے چھو جاتا حالانکہ میں حائضہ ہوتی تھی۔

تشریح : اوپر کی حدیث میں حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ کے حائضہ ہونے کی وضاحت نہ تھی۔ اس لیے حضرت امام دوسری حدیث لائے جس میں ان کے حائضہ ہونے کی وضاحت موجود ہے۔ ان سے معلوم ہوا کہ حائضہ عورت سامنے لیٹی ہو تو بھی نماز میں کوئی نقص لازم نہیں آتا۔ یہی حضرت امام کا مقصد باب ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بیان میں کہ کیا مرد سجدہ کرتے وقت اپنی بیوی کو چھوسکتا ہے؟ ( تا کہ وہ سکڑ کر جگہ چھوڑ دے کہ بآسانی سجدہ کیا جاسکے )

حدیث نمبر : 519
حدثنا عمرو بن علي، قال حدثنا يحيى، قال حدثنا عبيد الله، قال حدثنا القاسم، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت بئسما عدلتمونا بالكلب والحمار، لقد رأيتني ورسول الله صلى الله عليه وسلم يصلي، وأنا مضطجعة بينه وبين القبلة، فإذا أراد أن يسجد غمز رجلى فقبضتهما‏.‏
ہم سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبیداللہ عمری نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے قاسم بن محمد نے بیان کیا، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ تم نے برا کیا کہ ہم کو کتوں اور گدھوں کے حکم میں کر دیا۔ خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے۔ میں آپ کے سامنے لیٹی ہوئی تھی۔ جب سجدہ کرنا چاہتے تو میرے پاؤں کو چھو دیتے اور میں انھیں سکیڑ لیتی تھی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
باب : اس بارے میں کہ اگر عورت نماز پڑھنے والے سے گندگی ہٹادے ( تومضائقہ نہیں ہے )

حدیث نمبر : 520
حدثنا أحمد بن إسحاق السرماري، قال حدثنا عبيد الله بن موسى، قال حدثنا إسرائيل، عن أبي إسحاق، عن عمرو بن ميمون، عن عبد الله، قال بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم قائم يصلي عند الكعبة، وجمع قريش في مجالسهم إذ قال قائل منهم ألا تنظرون إلى هذا المرائي أيكم يقوم إلى جزور آل فلان، فيعمد إلى فرثها ودمها وسلاها فيجيء به، ثم يمهله حتى إذا سجد وضعه بين كتفيه فانبعث أشقاهم، فلما سجد رسول الله صلى الله عليه وسلم وضعه بين كتفيه، وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا، فضحكوا حتى مال بعضهم إلى بعض من الضحك، فانطلق منطلق إلى فاطمة ـ عليها السلام ـ وهى جويرية، فأقبلت تسعى وثبت النبي صلى الله عليه وسلم ساجدا حتى ألقته عنه، وأقبلت عليهم تسبهم، فلما قضى رسول الله صلى الله عليه وسلم الصلاة قال ‏"‏ اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش، اللهم عليك بقريش ـ ثم سمى ـ اللهم عليك بعمرو بن هشام، وعتبة بن ربيعة، وشيبة بن ربيعة، والوليد بن عتبة، وأمية بن خلف، وعقبة بن أبي معيط، وعمارة بن الوليد‏"‏‏. ‏ قال عبد الله فوالله لقد رأيتهم صرعى يوم بدر، ثم سحبوا إلى القليب قليب بدر، ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‏"‏ وأتبع أصحاب القليب لعنة‏"‏‏. ‏
ہم سے احمد بن اسحاق نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ ہم سے اسرائیل نے ابواسحاق کے واسطہ سے بیان کیا۔ انھوں نے عمرو بن میمون سے، انھوں نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے، کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کے پاس کھڑے نماز پڑھ رہے تھے۔ قریش اپنی مجلس میں ( قریب ہی ) بیٹھے ہوئے تھے۔ اتنے میں ان میں سے ایک قریشی بولا اس ریاکار کو نہیں دیکھتے؟ کیا کوئی ہے جو فلاں قبیلہ کے ذبح کئے ہوئے اونٹ کا گوبر، خون اور اوجھڑی اٹھا لائے۔ پھر یہاں انتظار کرے۔ جب یہ ( آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ) سجدہ میں جائے تو گردن پر رکھ دے ( چنانچہ اس کام کو انجام دینے کے لیے ) ان میں سے سب سے زیادہ بدبخت شخص اٹھا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن مبارک پر یہ غلاظتیں ڈال دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ ہی کی حالت میں سر رکھے رہے۔ مشرکین ( یہ دیکھ کر ) ہنسے اور مارے ہنسی کے ایک دوسرے پر لوٹ پوٹ ہونے لگے۔ ایک شخص ( غالباً ابن مسعود رضی اللہ عنہ ) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے۔ وہ ابھی بچہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہ دوڑتی ہوئی آئیں۔ حضور رضی اللہ عنہ اب بھی سجدہ ہی میں تھے۔ پھر ( حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے ) ان غلاظتوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوپر سے ہٹایا اور مشرکین کو برا بھلا کہا۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کر کے فرمایا “ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ یا اللہ قریش پر عذاب نازل کر۔ ” پھر نام لے کر کہا خدایا! عمرو بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ولید بن عتبہ، امیہ بن خلف، عقبہ بن ابی معیط اور عمارہ ابن ولید کو ہلاک کر۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا، خدا کی قسم! میں نے ان سب کو بدر کی لڑائی میں مقتول پایا۔ پھر انھیں گھسیٹ کر بدر کے کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کنویں والے خدا کی رحمت سے دور کر دئیے گئے۔

تشریح : ابتدائے اسلام میں جو کچھ قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتاؤ کیا۔ اسی میں سے ایک یہ واقعہ بھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا خدا نے قبول کی اوروہ بدبخت سب کے سب بدرکی لڑائی میں ذلت کے ساتھ مارے گئے اورہمیشہ کے لیے خدا کی لعنت میں گرفتار ہوئے۔ باب کا مقصد یہ ہے کہ ایسے موقع پر اگرکوئی بھی عورت نمازی کے اوپر سے گندگی اٹھاکر دورکردے تواس سے نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اگرقرائن سے کفار کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ وہ اپنی حرکات بد سے باز نہیں آئیں گے تو ان کے لیے بددعا کرنا جائز ہے۔ بلکہ ایسے بدبختوں کا نام لے کر بددعا کی جاسکتی ہے کہ مومن کایہی آخری ہتھیارسے۔ وہ غلاظت لانے والا عقبہ بن ابی معیط ملعون تھا۔

الحمدللہ کہ عاشورہ محرم 1388ھ میں اس مبارک کتاب کے پارہ دوم کے ترجمہ اورتحشیہ سے فراغت حاصل ہوئی۔ اللہ پاک میری قلمی لغزشوں کو معاف فرماکر اسے قبول کرے اور میرے لیے، میرے والدین،اولاد، احباب کے لیے، جملہ معاونین کرام اورناظرین عظام کے لیے وسیلہ نجات بنائے۔ اوربقایا پاروں کو بھی اپنی غیبی امداد سے پورا کرائے۔ آمین۔ والحمدللہ رب العالمین۔ ( مترجم
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مواقیت الصلوات


باب : نماز کے اوقات اور ان کے فضائل اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی وضاحت
وقوله ‏{‏إن الصلاة كانت على المؤمنين كتابا موقوتا‏}‏ وقته عليهم‏.

کہ مسلمانوں پر نماز وقت مقررہ میں فرض ہے، یعنی اللہ نے ان کے لیے نمازوں کے اوقات مقرر کر دئیے ہیں۔

حدیث نمبر : 521

حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال قرأت على مالك عن ابن شهاب، أن عمر بن عبد العزيز، أخر الصلاة يوما، فدخل عليه عروة بن الزبير، فأخبره أن المغيرة بن شعبة أخر الصلاة يوما وهو بالعراق، فدخل عليه أبو مسعود الأنصاري فقال ما هذا يا مغيرة أليس قد علمت أن جبريل نزل فصلى، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم صلى فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم قال ‏"‏ بهذا أمرت‏"‏‏. ‏ فقال عمر لعروة اعلم ما تحدث أوإن جبريل هو أقام لرسول الله صلى الله عليه وسلم وقت الصلاة‏.‏ قال عروة كذلك كان بشير بن أبي مسعود يحدث عن أبيه‏.‏

ہم سے عبداللہ بن مسلمہ نے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ میں نے امام مالک رحمہ اللہ علیہ کو پڑھ کر سنایا ابن شہاب کی روایت سے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ نے ایک دن ( عصر کی ) نماز میں دیر کی، پس عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، اور انھوں نے بتایا کہ ( اسی طرح ) مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے ایک دن ( عراق کے ملک میں ) نماز میں دیر کی تھی جب وہ عراق میں ( حاکم ) تھے۔ پس ابومسعود انصاری ( عقبہ بن عمر ) ان کی خدمت میں گئے۔ اور فرمایا، مغیرہ رضی اللہ عنہ! آخر یہ کیا بات ہے، کیا آپ کو معلوم نہیں کہ جب جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے تو انھوں نے نماز پڑھی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے نماز پڑھی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی نماز پڑھی، پھر جبرئیل علیہ السلام نے کہا کہ میں اسی طرح حکم دیا گیا ہوں۔ اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نے عروہ سے کہا، معلوم بھی ہے آپ کیا بیان کر رہے ہیں؟ کیا جبرئیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے اوقات ( عمل کر کے ) بتلائے تھے۔ عروہ نے کہا، کہ ہاں اسی طرح بشیر بن ابی مسعود رضی اللہ عنہ اپنے والد کے واسطہ سے بیان کرتے تھے۔ عروہ رحمہ اللہ علیہ نے کہا کہ مجھ سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی نماز اس وقت پڑھ لیتے تھے جب ابھی دھوپ ان کے حجرہ میں موجود ہوتی تھی اس سے بھی پہلے کہ وہ دیوار پر چڑھے۔


تشریح : حضرت امام الدنیا فی الحدیث امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی پاکیزہ کتاب کے پارہ سوم کو کتاب مواقیت الصلوٰۃ سے شروع فرمایا، آگے باب مواقیت الصلوٰۃ الخ منعقد کیا، ان ہر دو میں فرق یہ کہ کتاب میں مطلق اوقات مذکور ہوں گے، خواہ فضیلت کے اوقات ہوں یا کراہیت کے اورباب میں وہ وقت مذکور ہورہے ہیں جن میں نماز پڑھنا افضل ہے۔

مواقیت کی تحقیق اورآیت کریمہ مذکورہ کی تفصیل میں شیخ الحدیث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب مبارک پوری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں: مواقیت جمع میقات وہو مفعال من الوقۃ والمراد بہ الوقت الذی عینہ اللہ لاداءہذہ العبادۃ وہوالقدر المحدود للفعل من الزمان قال تعالیٰ ان الصلوٰۃ کانت علی المؤمنین کتاباً موقوتا ای مفروضاً فی اوقات معینۃ معلومۃ فاجمل ذکرالاوقات فی ہذہ الآیۃ و بینہا فی مواضع آخر من الکتاب من غیر ذکر تحدیداوائلہا واواخرہا وبین علی لسان الرسول صلی اللہ علیہ وسلم تحدیدہا ومقادیرہا الخ۔ مرعاۃجلد 1، ص: 383 )

یعنی لفظ مواقیت کا ماہ وقت ہے اوروہ مفعال کے وزن پر ہے اوراس سے مراد وقت ہے۔جسے اللہ نے اس عبادت کی ادائیگی کے لیے متعین فرمادیا اوروہ زمانہ کاایک محدود حصہ ہے۔ اللہ نے فرمایانماز کہ ایمان والوں پر وقت مقررہ پر فرض کی گئی ہے۔ اس آیت میں اوقات کامجمل ذکر ہے، قرآن پاک کے دیگر مقامات پر کچھ تفصیلات بھی مذکورہیں، مگروقتوں کا اول وآخر اللہ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک ہی سے بیان کرایاہے۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ طرفی النہار وزلفا من اللیل میں فجر اورمغرب اور عشاءکی نمازیں مذکور ہیں۔ آیت کریمہ اقم الصلوٰۃ لدلوک الشمس میں ظہر وعصر کی طرف اشارہ ہے۔ الی غسق اللہ میں مغرب اورعشاءمذکورہیں وقرآن الفجر میں نماز فجر کا ذکر ہے۔ آیت کریمہ فسبحان اللہ حین تمسون میں مغرب اورعشاءمذکور ہیں وحین تصبحون میں صبح کا ذکر ہے۔ وعشیاء میں عصر اور حین تظہرون میں ظہر اورآیت شریفہ وسبح بحمدربک قبل طلوع الشمس میں فجر اور قبل غروبہا میں عصر ومن انآءاللیل آیت کریمہ وزلفا من اللیل کی طرح ہے۔ فسبحہ واطراف النہار میں ظہر کا ذکر ہے۔ الغرض نماز پنجگانہ کی یہ مختصر تفصیلات قرآن کریم میں ذکرہوئی ہیں، ان کے اوقات کی پوری تفصیل اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے عمل اورقول سے پیش کی ہیں،جن کے مطابق نماز کا ادا کرنا ضروری ہے۔

آج کل کچھ بدبختوں نے احادیث نبوی کا انکار کرکے صرف قرآن مجید پر عمل پیرا ہونے کا دعویٰ کیاہے، چونکہ وہ قرآن مجید کی تفسیر محض اپنی رائے ناقص سے کرتے ہیں اس لیے ان میں کچھ لوگ پنج وقت نمازوں کے قائل ہیں، کچھ تین نمازیں بتلاتے ہیں اورکچھ دونمازوں کو تسلیم کرتے ہیں۔ پھر ادائیگی نماز کے لیے انھوں نے اپنے ناقص دماغوں سے جو صورتیں تجویز کی ہیں وہ انتہائی مضحکہ خیز ہیں۔ احادیث نبوی کو چھوڑنے کایہی نتیجہ ہونا چاہئیے تھا، چنانچہ یہ لوگ اہل اسلام میں بدترین انسان کہے جاسکتے ہیں۔ جنھوں نے قرآن مجید کی آڑمیں اپنے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھلی ہوئی غداری پر کمرباندھی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت نصیب فرمائے۔
آیت مذکورہ باب کے تحت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگرتلوار چل رہی ہو اورٹھہرنے کی مہلت نہ ہو توتب بھی نماز اپنے وقت پر پڑھ لینی چاہئیے، امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ایسے وقت میں نماز میں تاخیر درست ہے۔ ان کی دلیل خندق کی حدیث ہے جس میں مذکورہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی نمازوں کو تاخیر سے ادا فرمایا، وہ حدیث یہ ہے عن جابربن عبداللہ ان عمر جاءیوم الخندق بعد ما غربت الشمس فجعل یسب کفارقریش وقال یارسول اللہ ماکدت اصلی العصر حتی کادت الشمس تغرب فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ماصلیتہا فتوضا وتوضانا فصلی العصر بعدما غربت الشمس ثم صلی بعدہا المغرب۔ ( متفق علیہ ) یعنی جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ خندق کے دن سورج غروب ہونے کے بعد کفار قریش کو برابھلا کہتے ہوئے خدمت نبوی میں حاضر ہوئے اور کہا کہ حضور میری عصر کی نماز رہ گئی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میں بھی نہیں پڑھ سکاہوں۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اورہم نے وضوکیا اور پہلے عصرکی نماز پھرمغرب کی نماز ادا کی۔

معلوم ہوا کہ ایسی ضرورت کے وقت تاخیر ہونے میں مضائقہ نہیں ہے۔ بعض روایات سے معلوم ہوتاہے کہ اس موقعہ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اورصحابہ رضی اللہ عنہم کی چار نمازیں فوت ہوگئیں تھیں،جن کو مغرب کے وقت ترتیب کے ساتھ پڑھایاگیا۔
اس حدیث میں جن بزرگ کا ذکر آیاہے وہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ خلیفہ خامس خلفائے راشدین میں شمار کئے گئے ہیں۔ ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ عصر کی نماز میں ان سے تاخیر ہوگئی یعنی اول وقت میں نہ ادا کرسکے جس پر عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ حدیث سنائی، جسے سن کر حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے عروہ سے مزید تحقیق کے لیے فرمایا کہ ذرا سمجھ کر حدیث بیان کرو، کیا جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نمازوں کے اوقات عملاً مقرر کرکے بتلائے تھے، شاید عمربن عبدالعزیز رحمہ اللہ کو اس حدیث کی اطلاع نہ ہوگی، اس لیے انھوں نے عروہ کی روایت میں شبہ کیا، عروہ نے بیان کردیا کہ میں نے ابومسعود کی یہ حدیث ان کے بیٹے بشیربن ابی مسعود سے سنی ہے اوردوسری حدیث حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ و الی بھی بیان کردی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عصراول وقت میں ادا کرنا مذکور ہے۔
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ عراق کے حاکم تھے، عراق عرب کے اس ملک کو کہتے ہیں جس کا طول عبادان سے موصل تک اورعرض قادسیہ سے حلوان تک ہے۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو یہاں کا گورنر مقرر کیاتھا۔ روایت میں حضرت جبرئیل علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازوں کا ذکر ہے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے پانچوں نمازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے دن اول اوردوسرے دن آخروقت پڑھائیں اوربتایاکہ نماز پنج وقتہ کے اول وآخر اوقات یہ ہیں۔ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت میں ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے مقام ابراہیم کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نمازیں پڑھائیں۔ آپ امام ہوئے اور حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقتدی ہوئے، اس طرح اوقات نماز کی تعلیم بجائے قول کے فعل کے ذریعہ کی گئی۔ حضرت عمربن عبدالعزیزرحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث سن کر تامل کیاکہ قول کے ذریعہ وقت کی تعیین کی جاسکتی تھی، عملاً اس کی کیا ضرورت تھی، اس لیے آپ نے وضاحت سے کہا کہ کیا جبریل علیہ السلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھائی تھی؟ جب عروہ رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث سنائی توعمر رضی اللہ عنہ بن عبدالعزیز کو کچھ اور تامل ہوا۔ اس کو دور کرنے کے لیے حضرت عروہ رحمہ اللہ نے اس کی سند بھی بیان کردی تاکہ حضرت عمربن عبدالعزیز کو پوری طرح اطمینان ہوجائے۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ومقصودعروۃ بذلک ان امرالاوقات عظیم قدنزل لتحدیدہا جبریل فعلمہا النبی صلی اللہ علیہ وسلم بالفعل فلاینبغی التقصیر فی مثلہ۔ ( مرعاۃجلد 1،ص: 387 ) یعنی عروہ کا مقصود یہ تھا کہ اوقات نماز بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔ جن کو مقرر کرنے کے لیے جبریل علیہ السلام نازل ہوئے اورعملی طور پر انھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نمازیں پڑھاکر اوقات صلوٰۃ کی تعلیم فرمائی۔ پس اس بارے میں کمزوری مناسب نہیں۔

بعض علمائے احناف کا یہ کہنا کہ حضرت عمربن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ کے زمانہ میں عصر کی نماز دیر کرکے پڑھنے کا معمول غلط تھا روایت میں صاف موجود ہے کہ اخّر الصلوٰۃ یوما ایک دن اتفاق سے تاخیر ہوگئی تھی، حنفیہ کے جواب کے لیے یہی روایت کافی ہے۔ واللہ اعلم۔
 
Top